ثنا بچپن سے ذہین تھی۔ ہر جماعت میں اول آتی۔ کئی بار تقریری مقابلوں میں حصہ لیا اور پہلی پوزیشن پائی۔ دوران تعلیم اس کے ماموں زاد عدنان نے آنا جانا شروع کر دیا جبکہ اس کے والد کسی رنجش کے باعث کافی عرصہ سے ترک تعلق کر چکے تھے۔ عدنان کو ثنا سے دلچسپی تھی۔ روز نت نئے بہانے بنا کر آجانا۔ ماں بیمار تھی۔ جگر کا مسئلہ تھا۔ ڈاکٹروں نے مکمل آرام کا مشور دیا تھا۔ شوہر کی آمدنی کا نصف اس خاتون کی دوا دارو پر خرچ ہو جاتا تھا۔ ثنا کے ابو کو بیٹی کی شادی کی فکر تھی۔ عدنان بہانے سے گھر کی کوئی نہ کوئی ضروری چیز لے آتا تھا۔ اس بناپر پھوپھی پھوپھا اس سے خوش تھے۔ ایک دن پھوپھا نے عدنان سے پوچھا کہ بیٹا تم آج کل کیا کر رہے ہو ؟ انکل میں تعلیم پوری کر چکا ہوں اور وقتی طور پر ملازمت کر رہا ہوں لیکن اچھے مستقبل کی خاطر بیرون ملک جانا چاہتا ہوں۔ مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ فوری طور پر جاسکوں۔عدنان کے اس بیان پر اس کے انکل منظور نے تسلی دی اور کہا کہ بیٹا۔ کچھ دن صبر سے کام لو، مجھ کو ریٹائرمنٹ کی رقم ملے گی تو میں اس سلسلے میں تمہاری کچھ مدد کر دوں گا۔ عدنان اپنے پھوپھا کی بات سن کر بہت خوش ہوا اور زیادہ نیاز مندی دکھانے لگا۔ منظور انکل پر اس کے نیاز مندانہ رویے کا اثر ہوا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ثنا کو یقین ہو گیا کہ ایک روز ضرور عدنان اس کے والد سے اس کا ہاتھ مانگ لے گا اور وہ بھی انکار نہ کریں گے کیونکہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک سمجھدار لڑکا تھا۔ ثنا کے ماموں یعنی عدنان کے والد نے پچھلے پانچ سال سے جائیداد کے تنازعے کی وجہ سے منظور صاحب سے تعلقات منقطع کر رکھے تھے۔ زمین میں ثنا کی والدہ کا حصہ تھا جس پر عدنان کے والد نے نا جائز قبضہ کر رکھا تھا۔ دونوں خاندانوں میں دوری کا باعث زمین کا یہ جھگڑا ہی تھا۔ منظور نے بیوی کے حصے کی جائیداد اپنے برادر نسبتی سے حاصل کرنے کے لئے عدالت میں کیس کر دیا تھا۔ ان سنگین حالات کے باوجود وہ عدنان کو گھر آنے سے منع نہیں کرتے تھے ۔ بیٹے نے جب باپ کو اپنی پسند سے آگاہ کیا تو والد نے بہت ڈانٹا اور صاف جتلادیا کہ عدنان کان کھول کر سن لو کہ تمہاری شادی ثنا کے ساتھ نہیں ہو سکتی تھی، ہاں اگر تمہارے پھوپھا زمین کا مقدمہ واپس لے لیں تو ہر رشتے ناتے کی بات ہو سکتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اب حق اور سچ کا فیصلہ توعدالت نے کرنا تھا اور آج مقدمہ کی آخری پیشی تھی، گویا فیصلہ ہونا تھا، دونوں جیت کی امید لئے عدالت پہنچ گئے۔ جج صاحب انصاف کی کرسی پر براجمان ہو چکے تھے۔ تھوڑی دیر بعد مقدمے کا فیصلہ سنادیا گیا۔ فیصلہ منظور صاحب کے حق میں ہوا، وہ خوشی سے پھولے نہ سمارہے تھے۔ گھر آکر بیٹی کو پکارا اور فیصلہ و زمین کے کاغذات اس کے ہاتھ میں تھما دیئے وہ بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان کا سب ہی کچھ اسی کا تھا۔ عدنان کے والد نے سوچا کہ منظور کے اثاثے کی تنہا وارث ثنا ہے اور وہ بیٹی سے بہت پیار کرتا ہے تو کیوں نہ ان سے صلح کر لی جائے ۔ عدنان سے ثنا کی شادی کی صورت میں یہ جائیداد واپس اس کے گھر آجائے گی لہذا اس نے پہل کر دی۔ فیصلے کے چند روز بعد وہ کچھ قریبی عزیز واقارب کے ہمراہ منگنی کی انگوٹھی اور مٹھائی لے کر منظور کے گھر پہنچ گئے۔ وہ پہلے ہی عدنان کو پسند کرتے تھے لہذا انہوں نے رنجش کو بھلادیا، یوں رنجشوں کو بھلا کر ایک نئے رشتے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اس رشتے سے دونوں خاندان بہت خوش تھے اور سب سے بڑی خوشی تو منظور کو تھی۔ ان کی بیٹی ثنا بھی اس رشتے سے خوش تھی۔ تعلیم مکمل ہونے میں ایک سال باقی تھا۔ ماموں ممانی کی خواہش تھی کہ وہ ثنا کو جلد بہو بنا کر گھر لے آئیں جبکہ منظور اتنی جلد شادی کی تیاری نہ کر سکتے تھے۔ ان کا خیال تھا ایک سال بعد بیٹی کو بیاہ دیں جب تک ان کی پیاری بیٹی تعلیم بھی مکمل کرلے گی اور وہ بھی ریٹائر ہو جائیں گے۔ پس ریٹائر منٹ کی رقم ملتے ہی وہ اپنی بیٹی کو دھوم دھام رخصت کر دیں گے۔ ثنا دن رات پڑھائی میں محنت کرنے لگی، ایک سال پلک جھپکتے گزر گیا۔ خواب حقیقت میں ڈھلنے کا وقت نزدیک آگیا۔ اس لڑکی نے بی اے میں اول پوزیشن حاصل کر لی۔ کامیابی نے حوصلہ دیا۔ اس نے اپنے والد کو بتائے بغیر ایک اخبار میں مضمون لکھ کر دیا کہ موجودہ بحرانی نظام میں کس طرح تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اس کے قلم میں تاثیر تھی، وہ سوچ سکتی تھی کہ عورت کا کام صرف کھانا پکانا اور بچوں کو ہی سنبھالنا نہیں ، اس پر ملک و قوم کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جب عورت ماں کے روپ میں آتی ہے تو اس کے ذمہ کون کون سے فرائض ہوتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ تم مجھے اچھی ماں دو میں تمہیں ایک اچھا ترقی یافتہ معاشرہ دوں گا۔ ثنا نے اپنے مضمون میں لکھا کہ آج ہمارا معاشرہ انتہائی انحطاط کا شکار ہے۔ معاشرے میں بہت سی برائیاں جنم لے چکی ہیں۔ نوجوانوں کو بر وقت نوکری نہ ملنے کی وجہ سے وہ اپنا وقت بیکار گزار دیتے ہیں اور حقیقی منزل سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں۔ دن بدن بے روزگاری میں اضافہ کی وجہ سے ملکی ترقی بھی ممکن نہیں ہے ، اس لئے معاشرہ ابتری کی جانب گامزن ہے جب تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار نہ ملے گا تور شوت اور سفارش کا بول بالا ہو گا ، تاہم اگر قلم کار چاہیں تو بگڑی قوم کی سوچ بدل سکتے ہیں۔ اخبار کے ایڈیٹر نے نہ صرف ثنا کا مضمون شائع کیا بلکہ اس کو اپنے اخبار میں ملازمت کی پیش کش کر دی۔ اس نے والد کو آگاہ کیا تو منظور نے کہا کہ ہر لڑکی کو والدین کے گھر سے رخصت ہو کر اپنا ایک گھر بسانا ہوتا ہے، ملازمت کی کیا ضرورت ہے۔ باپ کے منہ سے یہ بات سن کر وہ رو پڑی۔ سوچنے لگی کہ کیا یہی مقصد زندگی ہے۔ مادر ملت بھی تو کسی کی بیٹی، کسی کی بہن تھیں۔ اگر وہ ملک و قوم کے لئے اپنی سوچ، اپنی زندگی وقف کر سکتی تھیں تو میں کیوں نہیں… ثنا نے والد کو اپنا موقف سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر منظور صاحب کا ایک ہی جواب تھا۔ تمہاری شادی کرنی ہے۔ مجبور اوہ خاموش ہو گئی اور والدین کی رضا کی خاطر سرخ جوڑا پہن کر پیا گھر سدھار گئی۔ ابھی شادی کو چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ عدنان نے اس کو اس کے والد کا وعدہ یاد دلایا پھر شادی کے چھ ماہ بعد عدنان اپنے سسر سے رقم لے کر مزید تعلیم کے حصول کے لئے انگلینڈ چلا گیا۔ برطانیہ میں زندگی بسر کرنا بڑا مشکل تھا۔ اس کا مسئلہ وہاں رہائش کے علاوہ ملازمت بھی تھا۔ ایک سال میں اس نے جو تکالیف برداشت کیں وہ عمر بھر کی قید کی سزا سے بھی بڑھ کر تھیں۔ اس کا کوئی لمحہ بھی اپنے وطن اور گھر والوں کی یاد کے بغیر نہیں گزرتا تھا تاہم اس نے ثنا کو اپنی ان پریشانیوں سے آگاہ نہ کیا۔ وہاں جا کر اسے اپنے وطن اور وقت کی قدر کا احساس ہوا۔ وہاں گورے کام پر آنے والے ہر شخص کے ایک ایک لمحے کا حساب رکھتے تھے۔ کسی کو کام پر پہنچنے میں تھوڑی تاخیر ہو جاتی تو اس کی جگہ دوسرا آدمی کام پر رکھ لیا جاتا لہذا اس کو دوسری شفٹ کا انتظار کرناپڑتا تھا۔ اگلے دن کام کے لئے رات بھر لائن میں کھڑے رہ کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یوں فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کی کمی نہ تھی کیونکہ دوسرے ممالک بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کے لوگ اور کم شرح پر بھی مزدوری کرنے کو تیار ہو جاتے تھے۔ وہاں صرف پاکستانیوں نے ہی کم شرح کی مزدوری کو اپنی انا کا مسئلہ بنایا ہوا تھا۔ عدنان کو جب اپنے وطن کی قدر ہوئی اس وقت پاکستان واپس جانے کو ٹکٹ کے لئے پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ وہ اپنے گھر سے پیسے نہیں منگوانا چاہتا تھا کیونکہ وہ روشن مستقبل کے لئے وہاں گیا تھا جو محض ایک خوبصورت خواب ہی تھا۔ کوئی مستقل رہائش نہ ہونے کی وجہ سے اپنے گھر کی خیریت بر وقت معلوم نہ کر پاتا تھا، جس ماہ چار پیسے جمع ہو جاتے وہ فون کر لیتا اور گھر والوں سے باتیں کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا۔ آج بہت دن کے بعد عدنان نے فون پر ثنا سے بات کی تھی۔ اس نے جب بیٹا ہونے کی خوشخبری سنی تو دور دیس رہنے پر اس کی آنکھوں سے آنسو آمڈ آئے۔ وہ اپنی بے بسی اور کم مائیگی کا ثنا سے اظہار نہ کر سکا اور فون بند کر کے اپنی رہائش گاہ میں چلا گیا۔ وہ اپنے بیٹے کے خیالوں میں کھو گیا۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وطن واپسی جانے کی کوئی ترکیب سمجھ میں نہ آتی تھی۔ سمندری راستے سے وہ جانا نہ چاہتا تھا۔ رات کافی بیت چکی تھی۔ پل پل بڑی بے قراری میں گزر رہا تھا۔ وقت گزار نے کے لیے ٹی وی سہارا لیا جو نہی آن کیا خبر چل رہی تھی کہ بم دھماکوں کے ذریعے دوریل گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس حادثے میں بہت سے لوگوں کی جانیں ضائع ہو گئیں اور سینکڑوں لوگ بری طرح زخمی ہوئے۔اس دہشت گردی کی بڑی واردات کے بعد برطانیہ کے عوام پاکستانیوں سے نفرت سے پیش آنے لگے۔ جہاں جہاں پاکستانی کام کرتے تھے ان کو وہاں سے نکال دیا گیا، حالانکہ ان کا اس میں کوئی قصور نہ تھا۔ دہشت گردی میں ملوث اس حادثے کے بعد پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد واپس وطن آگئی ، مگر عدنان نہ آسکا۔عدنان اپنی رہائش گاہ پر قید ہو کر رہ گیا۔ آخر کب تک؟ ایک دن وہ اپنی رہائش سے کام کے لئے نکلا تو پولیس کی ایک گاڑی اس کے پاس آکر ر کی اور کچھ بتائے بغیر اس کو دبوچ کر گاڑی میں لے کر کسی نامعلوم جگہ پہنچادیا گیا۔ اس طرح اور کئی پاکستانیوں کو قید کر لیا گیا تھا، پھر ان کو اذیت بھرے تفتیشی مراحل سے گزرنا پڑا۔ اس بڑے حادثے کی خبر سنتے ہی ثنا اور اس کے والد نے عدنان سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ایک دن منظور داماد کی تصاویر اور اس کے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی لے کر اسلام آباد میں برطانوی سفارت خانے گئے کہ شاید کچھ معلوم ہو سکے مگر وہاں سے بھی کچھ معلوم نہ ہو سکا اور نہ ہی بعد میں ایمبیسی والوں نے کوئی خبر دی۔ عدنان کے والدین بھی کم پریشان نہیں تھے ۔ ثنا اور اس کے گھر والوں کو شک گزرا، کہیں وہ ان ٹرینوں کے سانحے میں جاں بحق نہ ہو گیا ہو جہاں اور سینکٹروں سفر کرنے والے جاں بحق ہوئے تھے۔ ثنا کے لئے عدنان کی جدائی برداشت کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا مگر سوائے صبر کے چارہ کیا تھا۔ ثنا کے پاس جینے کے لئے بس یادیں تھیں، اس کا پیار ابیٹا پاس تھا جس کے سہارے دن گزر رہے تھے ۔ تنہائی سے نجات کے لئے وہ مضامین لکھتی رہی۔ ایڈیٹر نے ایک بار پھر رابطہ کیا اور ملازمت کی آفر کی ، اس بار اس نے یہ پیش کش قبول کر لی۔ ایک دن دفتر کا کام مکمل کر کے گھر جانے کو تھی کہ ایڈیٹر نے اپنے کمرے میں بلا یا اور کہا کہ ابھی گھر مت جائیے ایک خبر لگانی ہے۔ یہ برطانیہ میں ہوئے بم دھماکے سے متعلق ہے جو آٹھ سال قبل ہوئے تھے اور اس میں کچھ ممالک کے لوگوں کو شامل تفتیش کیا گیا تھ ان میں کچھ پاکستانی بھی تھے۔ برطانوی حکومت نے آج آٹھ سال بعد ان کو جرم ثابت نہ ہونے پر رہا کر دیا تھا۔ ہم کو اس کی خبر لگانی ہے۔ ایڈیٹر نے ہدایت کی۔ حالات نے ثنا کو تن دہی سے کام کرنے کا عادی بنادیا تھا۔ اس نے اپنے ماضی کی ساری یادوں کو دماغ کے ایک کونے میں بند کر دیا، اپنی تکلیفوں کا کسی کو احساس نہ ہونے دیا، ہر وقت کام میں مصروف رہتی تھی۔ گھر جانے کی بجائے اپنے دفتر کے کمرے میں جابیٹھی۔ ایڈیٹر نے کہا۔ تھوڑی دیر بعد ان پاکستانیوں کے نام اور تصویر میں ملیں گی ، جو برطانیہ میں جرم کی سزا کاٹ کر آزاد ہوئے ہیں۔ چند منٹوں میں ایک شخص آیا جس کے ہاتھ میں ان قیدیوںکی تصاویر اور خبر کی مکمل رپورٹ تھی۔ اس نے تصاویر اور رپورٹ ثنا کے حوالے کر دیں۔ ثنا نے یہ لفافہ متعلقہ شعبے کے حوالے کیا اور گھر چلی گئی۔ اگلی صبح جب دروازے پر دستک ہوئی۔ اٹھ کر کمرے سے باہر آئی اور دہلیز پر پڑا اخبار اٹھا کر واپس کمرے میں آگئی، جو نہی اس نے اخبار کھولا تو سب سے پہلے اسے عدنان کی تصویر نظر آئی۔ اس نے جذباتی ہو کر اخبار پڑھنا شروع کر دیا۔ ان لوگوں کے بارے میں لکھا گیا تھا جنہوں نے شک کی بنا پر ایک طویل عرصہ عقوبت خانوں میں کاٹا اور ناحق شرمناک الزامات کا سامنا کرنا پڑا جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بالآخر عدم ثبوت پر وہ باعزت بری ہو کر ہمیشہ کے لئے اپنی پاک سر زمین پر جاکر اس کی مٹی کو چومنا چاہتے تھے۔ سب پڑھ کر ثنا بے قرار ہو گئی۔ عدنان کے انتظار میں اب ایک ایک لمحہ کا نادشوار تھا مگر دفتر جانا بھی ضروری تھا۔ دفتر پہنچ کر اس نے ایڈیٹر اور کارکنان کو عدنان کی تصویر اور رہائی کی خبر سنائی۔ چند دوسرے ممالک کے اخبارات اور اعلیٰ شخصیات سے رابطہ کر کے خبر کی تصدیق کی اس کے بعد ایک بڑا پہاڑ اس کے سر سے اتر گیا۔ اب عدنان کا انتظار تھا، جس دن اسے آنا تھا نا اپنے بیٹے محب اور والد کے ہمراہ ایئر پورٹ گئی، بہت سے لوگ اپنے عزیز و اقارب کے منتظر تھے۔ کچھ ہی دیر بعد طیارہ پہنچا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر کے رہا ہو کر آنے والے بے گناہ افراد ایئر پورٹ کے گیٹ سے باہر اپنی سر زمین کو عقیدت و محبت سے چوم رہے تھے۔ عدنان کافی کمزور ہو گیا تھا مگر اس کے چہرے پر وہی کشش تھی جو برسوں پہلے ہوا کرتی تھی۔ عدنان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ثنا اس کو زندہ سلامت سامنے دیکھ کر بہت خوش تھی۔ اگلے روز اس کے منہ سے ساری کہانی سن کر ثنا کی روح کانپ اٹھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ وہاں کی اعلیٰ عدالتوں سے ضرور انصاف مانگے گی ۔ کچھ دنوں بعد عدنان کا کیس لے کر لندن روانہ ہو گئی ، وہاں کے اخبارات اور اعلی شخصیات نے ثنا کا ساتھ دیا۔ عدالت نے روزانہ کیس کی سماعت کی۔ انتظامیہ عدالت کو مطمئن نہ کر سکی یوں عدالت عالیہ نے فیصلہ کیا کہ جن افراد کو اتنے عرصے غیر قانونی حراست میں رکھا گیا تھا ان کو بطور جرمانہ معاوضہ ادا کیا جائے اور ان سے معافی مانگی جائے۔ ثنا کی ہمت اور کاوش سے صرف عدنان ہی نہیں اور بھی بہت سے لوگ مستفید ہوئے جن کے ساتھ نا انصافی کی گئی تھی۔ ان میں صرف پاکستانی ہی نہیں دوسرے ممالک کے لوگ بھی شامل تھے۔ ہر جانے کے طور پر ملنے والی رقم سے ثنا اور عدنان نے مل کر اپنے لوگوں کے لئے تعلیمی ادارہ کھولا جہاں مفت تعلیم دی جاتی، یہ دونوں اپنے ملک کی ترقی کے لئے سر گرم ہو گئے۔ سچ ہے ایک عورت کی تعلیم پورے معاشرے کو سنوارنے کے برابر ہوتی ہے۔