آنکھیں چندھیائے سلائی کرتی حسنہ نے بچوں کی بھوک بھوک کی پکار سن کر مشین ایک طرف رکھی۔ صبح کی بچی ہوئی ڈیڑھ روٹی چنگیر میں نکالی ایک پیاز بھی مل ہی گئی تھی۔ اسے باریک باریک کاٹا اور روٹی کو سرخ مرچ کا لیپ دینے ہی والی تھی کہ بیٹی کی پکار پر مڑی۔ آج تو سالن کے ساتھ روٹی دے دو اماں! روز ہی پیاز کتر دیتی ہو۔ دعا کر تیرے ابا کو آج دیہاڑی مل گئی ہو۔ رات سالن بناؤں گی ۔ حسنہ نے بچوں کو روز والا لا را دیا۔ چل اماں ! انڈا ہی بھون دے بیٹے نے بھی فرمائش کی۔ تیرے باوا کا مرغی فارم ہے کیا ؟ انڈا مفت ملتا ہے ۔ اب اکتا کر بولی ۔ پریا کی اماں روز صبح اسے ابلا ہوا انڈا دیتی ہے کھانے کو بیٹی کے لہجے میں حسرت ہی حسرت تھی۔ ارے روز انڈا کوئی کھانے کی چیز ہے کیا ؟ گرم ہوتا ہے ابلا انڈا۔ اندر گرمی ہو جاتی ہے آنکھیں پیلی پڑ جاتی ہیں ۔ حسنہ نے بہلایا۔ کوئی نہیں اماں ۔ بڑی بیٹی نے منہ بسورا۔ آرائیوں کی زینب کے ہاں سے پیسے لیے آ سلائی کے، کل سوٹ جو سلائی کر کے دیا ہے اس کے، انڈا بنا دیتی ہوں پھر حسنہ نے بیٹی کو پچکارا ۔ وہ آس کی ڈور تھا مے بھاگتی ہوئی گئی۔ چند ہی منٹوں میں مایوس لوٹ آئی کہ وہ کہتی ہے سوٹ صحیح نہیں سلائی کیا ، فٹنگ نہیں ٹھیک ، گلا پیچھے کو جاتا ہے آ کے بیٹھ کے ٹھیک کرواتی ہوں پھر دوں گی پیسے بھی ۔چلو وہ جو پیسے دے گی اس سے شام کو انڈا بنا دوں گی ابھی کھالو۔“ سارے لوگ سالن کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں اور ایک ہم ہیں کبھی پیاز تو کبھی چینی۔ آجاؤ پیاز بھون دیتی ہوں۔
اماں نے اپلوں کو چولہے میں ڈالا توا رکھا دو چار قطرے تیل ڈالا۔ سرخ مرچ اور کتری پیاز ڈال کر تھوڑا سا بھونا ۔ پیاز نرم ہوئی تو توا نیچے اتارا آدھی آدھی روٹی تینوں بچوں کو تھمائی اور اپنی بھوک کے اوپر ممتا کا بھاری پتھر رکھا۔ بچے خوش ہو گئے۔ افضل شام کو مایوس اور خالی ہاتھ لوٹا ۔ دیہاڑی ملی ہی نہیں، دو گھنٹے مزدور منڈی میں کھڑا رہا۔ پھر نمبرداروں کے ہاں چلا گیا پر وہاں بھی کوئی کام نہیں تھا کرنے کو، تیرہواں مہینہ چل رہا ہے۔“ افضل چار پائی پر لیٹا۔ ہمارا تو سارا سال ہی تیرھواں مہینہ رہتا ہے۔ حسنہ بڑ بڑائی۔ ایسے ہی لیٹ گئے ہیں۔ روٹی تو کھالیں ” جو کام نہ کرے اس کا روٹی پہ بھی کوئی حق نہیں ۔ آنکھوں پہ بازو رکھے افضل بے حسی سے بولا ۔
سارا دن ویلے رہو چاہے، جتے رہو، پیٹ کو اس کی کیا پرواہ تمکو کھانا کھانا چاہیے۔ حسنہ شوہر کو پیار بھری نظروں سے دیکھتی نرمی سے بولی۔ کیا پکایا تھا ؟ اس کا انداز مجرموں کا سا تھا۔ سلائی کے پیسے آئے تھے سوچا ڈبل خرچا کیا کرنا سالن روٹی کا ، ذرا سا بیگن منگوایا تھا پیاز مرچ ڈال کر گوندھ کر روٹی پکا لی۔ ساتھ پودینے کی چٹنی بنائی تھی۔ ارے واہ! بچے تو خوش ہو گئے ہوں گے۔” افضل نے ستائشی نگاہوں سے بیوی کو دیکھا۔ غریبوں کے بچے ہیں ذراسی چٹنی سے ہی خوش ہو گئے۔ امیروں کے تو تھے نہیں کہ دس کھانے آ گئے ہوں تب بھی نخرے۔ حسنہ کے لہجے میں نا چاہتے بھی اداسی اتری ۔ اچھے دن آئیں گے حوصلہ رکھو ۔ افضل نے نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔
دن تو یہ بھی اچھے ہیں۔ باقی مزدور امیر ہونے اور مالک بننے سے تو رہے۔ حسنہ قناعت پسںدی سے بولی – سوئے ہوئےبچوں پر پیار بھری نظر ڈال کر دعاؤں سے نوازا ، چلتی پھرتی پھونکیں مارتی بڑی بیٹی مبینہ پہ رکیں ۔ آٹھ سال عمر ہوئی تھی مگر ابھی تک ڈھنگ کا سوٹ نصیب نہیں ہوا تھا۔ آدھا پونا پیٹ بھرتا۔ بیشتر وقت خالی ہی رہتا۔ ضرورت بھی نہ پوری ہو پاتی تھی۔ مبینہ کی شادی تو میں کسی امیر شخص سے کروں گی۔ جس کا کچن انواع و اقسام کے اناج سے بھرا ہو۔ پیٹ بھر کے کھانا ، اس کی ہر ضرورت پوری ہو ادھوری کوئی خواہش نہ رہے ۔” خود حسنہ کی زندگی تو گھسٹ گھسٹ کر گزر رہی تھی ، مبینہ کی زندگی بہترین چلے اس کی شادی کرتے اس نے لڑکے کا چلتا کاروبار دیکھا۔ لڑکا خاص خوب صورت نہ تھا مگر دہی اور دہی پکوڑیوں کا کاروبار خوب چتا تھا۔ اپنا ذاتی پکا گھر تھا۔ اس کی رخصتی کے سمے حسنہ کی سانس آسودہ حال تھی۔ کانوں میں جھمکا ڈالتی مبینہ نے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے سے نظر آتے شوہر کو دیکھا ، سفید کلف لگے کرتا شلوار اور سیاہ پشاوری چپل میں وہ بالکل تیار تھا۔ مگر اور لوگ نہانے سے پہلے بھی شاید اتنے کوجے نہ ہوں جتنا سر فراز تیار ہو کر لگ رہا تھا۔ رنگ تو پکا تھا ہی نین نقش بھی پھیلے ہوئے تھے۔ تقریبات میں مبینہ سرفراز کے ساتھ ذرا کم ہی بیٹھتی ، ہر دیکھتی نگاہ اسے تمسخر اڑاتی ہوئی ہوئی محسوس ہوتی۔ دولت کئی ایک داغ مٹا دیتی ہے پر بدصورتی نہیں۔ شوہر کتنا ہی سکھ دینے والا ہو جب اس کی طرف دیکھنے کو جی ہی نہ چاہے تو سکھ کہاں محسوس ہوں گے۔ نند کی بیٹی کی شادی سے واپسی پر وہ امی کی طرف چلی آئی۔
ماشاء اللہ صدقے ۔ حسنہ تو اسے دیکھتےنہال ہوگئی۔ مبینہ نے گود میں اٹھائی عشوہ ماں کی گود میں ڈالی اور ہیل اترنے لگی- سرفراز نہیں آئے ۔ “ حسنہ نے عشوہ کی بلائیں لیتے ہوئے پوچھا۔ مبینہ نے مڑ کر دیکھا۔ وہ کہہ رہے ہیں کچھ کام ہے واپسی پر آتا ہوں ۔“ انس نے اندر آتے ہوئے بتایا کیا کھاؤ پیوگی ” فی الحال تو کچھ نہیں اماں ! اپنا کوئی سوٹ ۔ دے دیں میں چینج کروں گی۔ مبینہ بے زاری سے جیولری اتارتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ اماں کا سوٹ اور بھائی کی چپل میکے کی دو انتہائی آرام دہ اشیاء۔ مبینہ پر سکون تھی۔ شام ابا آئے تو اسے دیکھ کر خوش ہو گئے ۔ مبینہ ابا سے ملتے ہی اداس ہو گئی۔ پھٹی ایڑیاں میلے کٹے پھٹے جھریوں زدہ ہاتھ پھر بھی مسکراتا چہرہ مسکراہٹ بھی ایسی کہ جھریوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو ہو جاتی۔ ا با مت کیا کریں محنت اب ، یہ عمر ہے کیا مزدوری کی ، انس بڑا ہو گیا ہے، سرفراز نے کبھی مجھے منع نہیں کیا آپ لوگوں پر خرچ کرنے سے ۔ ابا کے بازو سے لیٹی وہ شکوہ کناں تھی۔ ارے تیری ماں کے عتاب سے بچنے کو جاتا ہوں دیہاڑی پہ، ورنہ انس کی اگلے مہینے سے نوکری لگ رہی ہے۔ اور سرفراز پرائے بیٹے کا پیسہ ہم خود پہ کیوں خرچ کریں بھلا؟ اماں پانی کا گلاس لیے آئیں۔ ابا نے نرم سی مسکراہٹ سے گلاس تھاما۔ مبینہ نے بغور دونوں کو دیکھا۔ زندگی نے انہیں سہل کیا ہوتا تو دونوں اپنے وقت کے خوب صورت ترین اور جاذب نظر بڑھاپا لیے ہوتے۔ دونوں ایک ساتھ بہت جچتے، پورے اعتماد کے ساتھ کہیں اکھٹے جاتے۔ اور مبینہ کہیں بھی جانا ہوتا پہلے کتنی بار تو سوچتی۔ نہ سوچتی تو لوگ احساس دلاتے باور کرواتے جان کو آ جاتے۔
حسنہ نے رشتہ دیتے سرفراز کا پیسہ دیکھا بس – الفاظ کانوں کے اندر نشتر بن کے گھستے اور دل چھلنی کر آتے ۔ ہاں بھئی اگر پیسہ بھی دیکھا اور پیسہ ہی دیکھا تو کیا ؟ زندگی مبینہ کی، فیصلہ حسنہ کا ،تم لوگوں کو کیا “؟..وہ کیوں نہ اعتراض کریں۔ زبانیں جو سانپ کا روپ دھارے کنڈلی مارے منہ کے اندر بیٹھی ہیں۔ ہیں۔ زہرانڈیلنا اور کسی کی زندگی زہر کرنا فرض خیال کرتی ہیں۔ زندگی میں سب کچھ باطن ہی نہیں ہوتا ۔ ظاہر بھی کچھ ہوتا ہے اور آج کل تو سب کچھ ظاہر ہی ہوتا ہے۔ شکل بھی دیکھنی چاہیے اور دیکھ ہی لینی چاہیے عشوہ کی شادی کرتے وقت میں مرد کی کمائی دیکھوں گی۔ اور شکل وصورت تو ضرور ہی دیکھوں گی۔ مبینہ کا عزم پختہ تھا۔ جوائنٹ فیملی میں رہنے کا جتنا عشوہ کو شوق تھا اتنا ہی اس کے لیے وبال بنتی جا رہی تھی۔ اوپر سے عدیل کا رویہ ؟ نہ کسی بیٹے کو دیکھتا نہ محفل ، غصہ آیا نہیں اور زبان فراٹے بھرتی غصے کا زہر نکالتی جاتی ۔ غصہ سیال بن کر عشوہ کے دل کو لبالب بھر دیتا۔
عدیل کو غصّہ زیادہ آتا اور جبکہ عشوہ دنوں بات کو دل میں رکھتی -عدیل کو نارمل ہونے میں چند منٹ درکار ہوتے جبکہ عشوہ کو دنوں لگتے۔ پہلے وہ اکیلی تھی عدیل کو غصہ کرنے کا جواز کم ملتا مگر جب سے زائشہ آئی تھی۔ کام بڑھ گئے تھے یوں لگتا وقت کم ہو گیا ہے۔ یا تو وقت پہ چائے دینی نہیں، اور دو تو یخ ٹھنڈی ۔ عدیل نےکپ پٹخا تھا -عشوہ بچی کا فیڈر بناتی گھبرا کر پلٹی تھی – اس کی دیورانی نے مسکراہٹ رخ بدل کے چھپائی ۔ اندر آتی ساس نے طنز یہ دیکھا۔ کپ میں نکالی ہی تھی کہ ذائشہ رونے لگی۔ اسے اندر سے اٹھا کے لائی اور کپ ٹیبل پر رکھا۔ آپ بھی تھوڑا لیٹ ہو گئے سوٹھنڈی ۔ کہانیاں مت سنانے بیٹھ جایا کرو۔ عدیل نے اس کی بات کاٹی – اور بنا دوں ؟ کندھے پہ ہمکتی بچی کو تھپکتی عشوہ شرمندگی سے بولی- بنا دو اور آفس لے آؤ – ہیلمٹ اٹھ اکر وہ گھر سے نکل گیا – چچی آپ چائے بنائیں میں یونی جاتے آپ کو چاچو کے آفس چھوڑتا جاؤں گا ۔” کاشی نے بھی مذاق بنایا۔ عشوہ چپ چاپ زائشہ کواٹھائے اندر آئی۔ تھپک کرسلایا اور صفائی کرنے بیٹھ گئی کہ عدیل کا ایک ذرہ بھی نظر آجاتا تو آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ اسے لگتا تھا وہ زندگی گزار نہیں رہی بلکہ زندگی اسے بھگا رہی ہے۔ وہ تھکی ہوئی اور ہانپتی ہوئی پھرتی تھی۔ بیڈ کراؤن پہ کپڑا پھیرتی وہ سائیڈ ٹیبل کی طرف آئی۔ اس کی اور عدیل کی ولیمہ کی تصویر تھی وہ بغور دیکھنے لگی۔ کتنا خوب صورت تھا عدیل ، دیکھنے والے کا دل موہ لیتا تھا اور ساتھ رہنے والے کا دل ساڑ کے رکھ دیتا تھا۔ خوب صورتی کا بھی کیا فائدہ کہ جسے دیکھے مہینوں بیت جائیں۔ باطن کی سیاہی ظاہر پہ پھری ہوئی ہو۔ خود عشوہ کے بابا ذرا بھی خوب صورت نہیں تھے۔ مگر اس کی ماما کو انہوں نے پھولوں کی سیج مہیا کی ہوئی تھی۔ غصلیلا مرد عورت کی ساری خوشیاں شرارتیں، رنگ نگل جاتا ہے اور اسے بد رنگی بد مزاج عورت میں بدل دیتا ہے۔ ایسی عورتیں قدرتی روبوٹ ہوتی ہیں۔ زندگی میں کچھ بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا ہے جو رشتوں کو مکمل کرتا ہے اور انسانوں کو بھی – مرد کو بڑا ظرف اور حاکمانہ رویہ ودیعت کیا گیا عورت کو بات منوا لینے کی طاقت ان کا درست استعمال ہی در حقیقت میاں بیوی کے رشتے کو مکمل کرتا ہے۔ باقی تو سب عارضی ہے۔