مسلسل سفر کرتے ہوئے انہیں دو گھنٹے بیت چکے تھے جبکہ دو ڈھائی گھنٹوں کا سفر ابھی باقی تھا۔ سورج مغرب میں ایستادہ درختوں کے پیچھے اترتا جارہا تھا۔ سڑک بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی، اس لیے حسیب کی خواہش تھی کہ کسی طرح اندھیرا پھیلنے سے پہلے اپنی منزل تک پہنچ جائے۔
ثمن عقبی سیٹ پر دراز نیند کے مزے لوٹ رہی تھی۔ وہ کچھ زیادہ ہی تھک گئی تھی اس لئے ہچکولے اس کی نیند کو ذرا بھی متاثر نہیں کررہے تھے۔ خود حسیب کی آنکھیں بھی بوجھل تھیں۔ نیند اور جلد تھکاوٹ سوار ہونے کی وجہ یہی تھی کہ آج یہ دونوں صبح سویرے ہی جاگ گئے تھے اور پھر انہیں سونے کا ذرا بھی موقع نہ مل سکا تھا اور وہ سفر پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔
رفتار کی سوئی پچاس اور ساٹھ کے درمیان لرز رہی تھی۔ اچانک ایک دھماکا ہوا اور کار بائیں جانب جھک کر گھسٹنے لگی۔ پھر ایک جھٹکا لگا اور جھکائو دائیں طرف بڑھ گیا۔ حسیب کے ہاتھ سے اسٹیئرنگ نکل گیا تھا۔ کار گھسٹتی ہوئی سڑک سے اتری اور کنارے پر کھڑے ایک درخت سے جاٹکرائی۔ ونڈ اسکرین ریزہ ریزہ ہوکر اندر آگری۔ ڈرائیور کی طرف کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھل گیا۔ کار کے دونوں پچھلے ٹائر زمین سے اٹھ کر پوری رفتار سے گھومنے لگے۔
٭…٭…٭
وہ شاید نیم بے ہوشی میں تھا جب اسے اپنی ڈوبتی ابھرتی سماعتوں میں کسی کی آواز سنائی دی۔ ’’دونوں میاں بیوی لگتے ہیں۔ زیادہ خون نہیں نکلا۔ شوہر معمولی زخمی ہے مگر بیوی بڑی تکلیف میں ہے۔ اس کی کمر میں چوٹ آئی ہے۔‘‘
حسیب نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے نیم بجھی بجھی سی آنکھوں سے ایک طرف دیکھا۔ پولیس کی گاڑی کھڑی تھی اور ایک وردی پوش اہلکار فون پر کسی کو رپورٹ دینے میں مصروف تھا۔
’’نہیں! ان کی کار ناکارہ ہوچکی ہے سائیں! میں انہیں اپنی گاڑی میں لا رہا ہوں۔‘‘ وہ فون بند کرکے حسیب کی طرف آیا۔ حسیب کھڑا ہوگیا۔ وہ گرد میں اٹا ہوا تھا۔
’’میں ایس آئی فرقان احمد ہوں۔ شاید آپ کی گاڑی کا ٹائر برسٹ ہوگیا تھا؟‘‘ وردی پوش نے حسیب سے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ کہتے ہوئے وہ پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولنے لگا۔ اس کی مدد فرقان نے کی تو بند دروازہ کھل گیا۔
’’ثمن۔‘‘ اس نے بڑے پیار سے پکارا۔
ثمن نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ کراہ رہی تھی۔ وہ بولا۔ ’’تم جلد ٹھیک ہوجائو گی۔ پولیس آگئی ہے۔‘‘ ثمن نے ہولے سے اپنے سر کو جنبش دی تھی۔
تھوڑی دیر بعد ہی وہ دونوں قریبی قصبے کے ایک اسپتال کے بیڈ پر دراز تھے۔ دونوں میاں بیوی کو طبی امداد مل چکی تھی۔ حسیب بھلاچنگا ہو کے جلد ہی اٹھ بیٹھا تھا مگر ثمن بستر پر تھی۔ اسے درد کا ٹیکا لگا دیا گیا تھا۔ وہاں موجود ڈاکٹر سے حسیب نے پوچھا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! ثمن کو زیادہ چوٹ تو نہیں آئی ہے نا؟‘‘
سیاہ موٹے فریم والی عینک اور سفید کوٹ پہنے پختہ العمر ڈاکٹر سراج نے جواب میں حسیب سے کہا۔ ’’کولہے کی ہڈی متاثر لگتی ہے۔ ایکسرے کرانا پڑے گا۔‘‘
’’ہمیں اجازت دیجئے۔‘‘ ایس آئی فرقان کے ہمراہ کھڑے انسپکٹر جمیل صادق نے ہولے سے کھنکھار کر کہا۔ حسیب ان کی طرف متوجہ ہوا اور دونوں کا شکریہ ادا کیا۔
’’یہ ایکسرے کی کیا بات تھی ڈاکٹر؟‘‘ حسیب ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر سراج کی طرف متوجہ ہوا۔
’’آپ خوش قسمت ہیں مسٹر حسیب! پورے علاقے میں یہ واحد اسپتال ہے جس میں ایکسرے کا انتظام ہے۔ ہم جلد ہی…‘‘ اس کی آواز گھٹ گئی۔
’’لیکن میں اپنی بیوی کا ایکسرے کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔‘‘ حسیب نے کہا۔
اس کی بات ہی نہیں لہجہ بھی ڈاکٹر سراج کو متحیر کرگیا۔ اس نے کالے فریم کی عینک کے پیچھے سے بغور حسیب کی طرف دیکھا۔ وہ نفیس تراش کے قیمتی سوٹ میں تھا جو گرد آلود ہونے کے باوجود اچھا لگ رہا تھا۔ اس کے جوتے بھی شاندار اور قیمتی نظر آتے تھے۔
’’میں نے سنا ہے کہ ان شعاعوں سے بہت ساری خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور…‘‘
’’نہیں حسیب صاحب! ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ ڈاکٹر سراج نے اسے تشفی آمیز لہجے میں کہا۔ ’’یہ طریقہ علاج اب بالکل محفوظ ہے۔ پرانی مشینوں میں واقعی چند خرابیاں تھیں جو اب دور کردی گئی ہیں۔ ہماری جدید ترین مشینوں سے آپ کی بیوی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘
’’میں نے کہہ دیا نا کہ میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘ حسیب نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’اور… نہ ہی میں اس مسئلے پر کوئی بحث کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر سراج نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔ حسیب نوجوان تھا لیکن اس کی فطرت میں حاکمیت رچی ہوئی تھی۔ وہ کروڑ پتی باپ کا بیٹا تھا اور دولت کی قوت سے واقف تھا لیکن ڈاکٹر سراج کو بھی اپنے پیشے پر ناز تھا۔ اس نے اپنے کام کے سلسلے میں کبھی کسی کی پروا نہیں کی تھی۔ وہ بولا۔ ’’میں ایکسرے کے بغیر آپ کی بیوی کا علاج نہیں کروں گا۔ اگر واقعی کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے تو آپ کی بیوی ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوسکتی ہے۔ اگر ریڈیو گرام کے بغیر ان کی ہڈی سیٹ کرنے کی کوشش کی تو میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکوں گا لیکن بہرحال وہ آپ کی بیوی ہیں۔ آپ چاہیں تو اپنی ذمے داری پر انہیں کہیں اور لے جاسکتے ہیں۔‘‘
حسیب، ڈاکٹر سراج کی بات سن کر کشمکش میں مبتلا ہوگیا۔ مزید بحث کرکے وہ خود کو ضدی یا مغرور ثابت کرنا نہیں چاہتا تھا۔ پھر اس کی پیاری بیوی کا معاملہ تھا۔ وہ دوبارہ بیٹھ گیا۔ معذرت کرنا اس کی فطرت میں شامل نہیں تھا۔ چنانچہ وہ افسردہ لہجے میں بولا۔ ’’ہم ہنی مون کے لیے جارہے تھے ڈاکٹر…!‘‘
’’مجھے بے حد افسوس ہے، لیکن کیا کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی بیوی نوجوان ہیں، چند ماہ میں یہ دوبارہ ہنی مون کے قابل ہوجائیں گی۔ آپ بے فکر رہیں۔‘‘
٭…٭…٭
ثمن اسپتال کی چادر اوڑھے پشت کے بل لیٹی ہوئی تھی۔ انہوں نے اسے حرکت دیتے وقت بڑی احتیاط سے کام لیا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ شاید وہ ایک کھمبا تھا جس پر بلب جل رہا تھا۔ نہیں… بلب نہیں کوئی اور چیز تھی۔ ایک کالے ڈبے میں بند کوئی شیشہ دہک رہا تھا۔ یہ شیشہ کسی اسٹینڈ پر کسا ہوا تھا اور اسٹینڈ متحرک تھا۔ اس کی غیرمرئی شعاعیں کبھی اس کے شانوں، کبھی پیٹ اور کبھی ٹانگوں پر پڑ رہی تھیں۔ اس نے سر اٹھا کر سیاہ ڈبے کی طرف دیکھنا چاہا۔
’’پلیز حرکت مت کرنا۔‘‘ کسی نے اسے ہدایت کی۔ اس نے سر گھما کر اس کی طرف دیکھنا چاہا۔ ’’میں نے کہا کہ حرکت نہ کریں میڈم! آرام سے لیٹی رہیں۔‘‘ وہ ساکت ہوگئی۔ پھر اس کے جسم سے چادر بھی ہٹا لی گئی اور وہ کمرے میں سیاہ ڈبے کے ساتھ تنہا رہ گئی۔
اب اس کے جسم میں توانائی کی غیر مرئی شعاعیں اتر رہی تھیں۔ یہ شعاعیں اس کے پیٹ میں گھس رہی تھیں۔ ثمن کو کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے۔ وہ تو حسیب کی محبت و قربت اور ماں بننے کی سرشاری میں گم تھی۔
ثمن کو ایمبولینس کے ذریعے ریلوے اسٹیشن لایا گیا۔ پھر ڈاکٹر سراج، اس کا نائب اور حسیب اسٹریچر اٹھا کر ٹرین کی اس بوگی میں لے آئے جو حسیب کے والدین نے اپنے بیٹے اور بہو کی گھر واپسی کے لیے ریزرو کروائی تھی۔ انہوں نے بڑی احتیاط سے ثمن کو بوگی میں پہلے سے موجود آرام دہ کائوچ پر لٹا دیا۔
’’ایک ہفتے تک آپ باتھ روم سے آگے نہیں بڑھیں گی مسز حسیب!‘‘ ڈاکٹر سراج نے اسے ہدایت کی۔ ’’ورنہ بستر پر لیٹنے کا عرصہ دراز ہوجائے گا۔‘‘
ثمن مسکرا کر بولی۔ ’’ڈاکٹر صاحب! میں آپ کی ہدایت پر پوری طرح عمل کروں گی۔‘‘
حسیب بڑے غور سے اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا۔ وہ ان چند دنوں میں دبلی اور زرد ہوکر پہلے سے کہیں زیادہ حسین ہوگئی تھی۔
ٹرین نے سیٹی دی تو ڈاکٹر
اور اس کا نائب نیچے اتر گئے اور حسیب اپنی بیوی کے ساتھ تنہا رہ گیا۔
’’ثمن! اگلی گرمیوں میں ہم پھر ہنی مون کے لیے آئیں گے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
’’اس سے پہلے کوئی اور پروگرام بنا لو حسیب۔ اگلی گرمیوں تک ہمارا بچہ دو ماہ کا ہوجائے گا اور میرے خیال میں ہم میں سے کوئی بھی اسے گھر پر چھوڑنا پسند نہیں کرے گا۔‘‘ اتنا کہہ کر ثمن ہنس دی۔ حسیب بھی مسکرا دیا۔ ٹرین کراچی کی طرف روانہ ہوگئی۔
٭…٭…٭
ڈاکٹر سراج ابھی تک پلیٹ فارم پر کھڑا ٹرین کو دیکھ رہا تھا۔
’’آئیں ڈاکٹر صاحب! چلیں۔‘‘ اس کے نائب سجاد نے کہا مگر ڈاکٹر بدستور وہیں کھڑا رہا۔
’’کیا کوئی گڑبڑ ہوگئی ہے ڈاکٹر؟‘‘ سجاد نے پوچھا۔
’’ہاں! میرے خیال میں انہیں بتا دینا چاہیے تھا، انہیں خبردار کردینا چاہیے تھا۔‘‘ ڈاکٹر سراج پریشان لہجے میں بولا۔
’’اوہ۔ سر! آپ خواہ مخواہ پریشان ہورہے ہیں۔ اگر آپ ان شعاعوں سے اس کا علاج نہ کرتے تو شاید وہ کبھی ٹھیک نہ ہوتی۔ چند ماہ کے علاج سے کیا تبدیلی آسکتی ہے۔ میرے خیال میں بچہ نارمل ہی ہوگا۔‘‘
٭…٭…٭
بچہ نارمل ہی ہوا تھا۔
ثمن نے سر سے لے کر پیر تک اپنی بیٹی کا جائزہ لیا اور خوشی سے کھل اٹھی۔ ’’کس قدر صحت مند ہے میری بیٹی۔‘‘ وہ بولی اور حسیب بھی مسکرا دیا۔ انہوں نے اس کا نام عینی رکھا۔ وہ عام بچوں کی طرح بڑھتی رہی۔ ثمن اس سے کچھ زیادہ ہی محبت کرنے لگی تھی۔ اس کا بیشتر وقت بچی کے پاس نرسری میں گزرنے لگا تھا۔
ایک دن اس کی ماں نے اسے ٹوک دیا۔ ’’ثمن! بچے سب کے ہوتے ہیں لیکن وہ سب سے کٹ کر تو نہیں رہ جاتے۔‘‘
’’لیکن ماں…‘‘ اس نے صفائی پیش کرنی چاہی مگر ماں نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’یہ بے وقوفی ہے ثمن۔‘‘ ماں بولی۔ ’’میں نے مسز شمس سے کہہ دیا ہے کہ ہم جمعرات کو ان کے ہاں لنچ پر آرہے ہیں۔ تم اور میں۔ تمہاری بے بی کو کچھ نہیں ہوگا۔ اس کی دیکھ بھال کے لیے ریٹا موجود ہے۔‘‘ ثمن نے اپنی ماں کی بات مان لی اور پھر اس کی اکثر شامیں باہر گزرنے لگیں۔
اس کی ماں ریحانہ کا مشورہ درست تھا کیونکہ جب وہ گھر لوٹتی تو عینی سے ملنے کی خواہش دوبالا ہوجاتی۔ وہ بغیر کوٹ اتارے زینے پھلانگتی، نرسری میں پہنچ جاتی جہاں بچی اس کی منتظر ہوتی۔ وہ اپنی ماں کو دیکھتے ہی کھلکھلا اٹھتی۔ پھر ایک شام عینی نے پہلی بار اسے ’’مومی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔
ثمن نے حسیب سے تذکرہ کیا۔ ’’بچی نے ما آ آ آ…‘‘ کہنے کی بجائے صاف ’’مومی‘‘ کہا تھا مجھے۔ کیسی خوش کن بات ہے حسیب! ہے نا؟‘‘ وہ خوشی کے مارے کھلی جارہی تھی۔
’’ہاں، شاید۔‘‘ حسیب نے گومگو انداز میں کہا۔ اسے شروع ہی سے اپنی یہ بیٹی عجیب سی لگتی تھی۔
’’شاید؟ کیا تمہیں اچھی نہیں لگی یہ بات۔ کیا تمہیں اپنی بچی اچھی نہیں لگتی؟‘‘
’’اوہ… ثمن! واقعی اچھی بات ہے یہ۔ بلاوجہ بات کا بتنگڑ مت بنائو۔ میں تھکا ہوا ہوں۔‘‘ حسیب بولا اور ثمن کا منہ اُتر گیا۔
اگلے روز اس نے اپنی ماں سے شکایت کی۔
’’ثمن بیٹی!‘‘ اس کی ماں بولی۔ ’’مرد لوگ ذرا حاسد طبیعت کے ہوتے ہیں۔ بچے ہونے کے بعد عورت کا پیار تقسیم ہوجاتا ہے جسے وہ مشکل سے برداشت کرتے ہیں۔ یہ کوئی اہم بات نہیں۔‘‘
ثمن نے اسی دن چند لباس خریدے اور حسیب پر زیادہ توجہ دینے لگی۔ حسیب پر اس تبدیلی کا بڑا خوشگوار اثر ہوا۔ وہ کچھ جلدی آنے لگا اور دوبارہ اپنی بیوی کے لیے تحفے لانے شروع کردیئے مگر عینی کے ساتھ اس کا رویہ سرد ہی رہا۔ ثمن محسوس کرنے لگی کہ حسیب کا رویہ اس کی ماں کے بتائے ہوئے عام حسد سے مختلف تھا۔
پھر جس دن عینی نے چینی کا گھوڑا توڑا، اس دن ثمن کو پتا چلا کہ صرف حسیب ہی نہیں کوئی اور بھی تھا جو اس کی بچی سے حسد کرتا تھا۔ ایک عجیب حسد۔
عینی تین سال کی ہوچکی تھی۔ صبح کا کام ختم کرکے ملازمائیں نیچے جا چکی تھیں۔ ثمن کے خیال میں عینی ریٹا کے ساتھ نرسری میں ہوگی۔ پھر اس نے کوئی چیز ٹوٹنے کی آواز سنی۔ وہ لائبریری میں آئی تو عینی وہاں کھڑی ہوئی تھی۔ اس کے قریب فرش پر چینی کا گھوڑا ٹوٹا پڑا تھا۔
’’اوہ… عینی! یہ تم نے کیا کیا؟‘‘ وہ بولی اور فرش پر بیٹھ کر گھوڑے کے ٹکڑے اٹھانے لگی۔ اس کے چار ٹکڑے ہوگئے تھے۔ یہ ثمن کے بچپن کا کھلونا تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ عینی نے بڑی معصومیت سے ماں کی طرف دیکھا، پھر گھوڑے کی طرف دیکھنے لگی جیسے اپنی ماں کی مدد کرنا چاہ رہی ہو۔ پھر وہ رونے لگی۔
’’او عینی ڈارلنگ!‘‘ ثمن نے نرمی سے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں۔‘‘
اسی وقت ریٹا اندر آگئی۔ ’’اوہ… تو یہ یہاں ہے؟ میں اسے نرسری میں چھوڑ کر آئی تھی۔‘‘ اس نے ٹوٹے ہوئے گھوڑے کی طرف دیکھا۔ ’’بڑی شریر ہوگئی ہے یہ لڑکی!‘‘
’’عینی تین برس کی ہوگئی ہے ریٹا۔‘‘ ثمن بولی۔ ’’تم اس کا دھیان رکھا کرو۔ تمہیں اسی کام کے لئے رکھا گیا ہے۔‘‘
’’مجھے افسوس ہے میڈم۔‘‘ ریٹا نے سر جھکا کر کہا۔ ’’میں یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ میں یہاں کام نہیں کرنا چاہتی۔‘‘
’’کیا مطلب؟ کیا تم ملازمت چھوڑ رہی ہو؟ کیا تم عینی سے نفرت کرنے لگی ہو؟‘‘
’’نہیں میڈم! یہ بات نہیں۔ میں اس بچی سے نفرت نہیں کرتی لیکن میں اب اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ یہ بڑی غیر معمولی لڑکی ہے۔‘‘
’’غیر معمولی؟‘‘ ثمن حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘
’’مطلب تو میں نہیں بتا سکتی میڈم! بس میں آج ہی یہاں سے چلی جائوں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
شام پانچ بجے تک حسیب آگیا تو ثمن نے اسے ریٹا کے فیصلے سے آگاہ کردیا۔ وہ اسی وقت ریٹا کے کمرے میں چلا گیا جو اپنا سامان پیک کرنے میں مصروف تھی۔
’’یہ میں کیا سن رہا ہوں مس ریٹا۔ ثمن بتا رہی ہے کہ تم نوکری چھوڑ کر جارہی ہو؟‘‘
’’وہ بہت عجیب لڑکی ہے مسٹر حسیب!‘‘ ریٹا اس کے جواب میں بولی۔ ’’خدا گواہ ہے کہ میں آپ کی بیٹی کو برا نہیں سمجھ رہی۔ میں نے پہلے بھی بہت سے بچے پالے ہیں۔ میرے اپنے آٹھ بھائی بہن ہیں لیکن ایسی لڑکی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ میں… میں یہاں نہیں رہ سکتی مسٹر حسیب۔‘‘
’’کوئی بات نہیں مس ریٹا!‘‘ حسیب نے نرمی سے کہا۔ ’’میں نے بھی بعض اوقات ایسا محسوس کیا ہے مگر آج تک نہیں سمجھ سکا معاملہ کیا ہے؟‘‘ وہ یہ کہہ کر پلٹا اور ثمن کے کمرے میں آیا۔
’’کیا بات ہے حسیب؟‘‘ اس کے آتے ہی ثمن نے بے چینی سے پوچھا۔’’کیا کہا ریٹا نے؟ وہ کیا ہماری بیٹی سے نفرت کرتی ہے؟‘‘
’’ایسی کوئی بات نہیں ثمن۔ وہ تو بے چاری ایک قابل اور باصلاحیت گورنس ہے۔‘‘ حسیب نے کہا۔ ’’لیکن وہ کہتی ہے کہ عینی کے ساتھ بے چینی سی محسوس کرتی ہے۔ بس کوئی عجیب سی بات ہے جس سے وہ خوف زدہ ہوجاتی ہے۔‘‘
’’کک… کیا بات ہے حسیب؟ تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو؟‘‘ ثمن رو پڑی۔ ’’کیا خرابی ہے میری بچی میں، بتائو؟‘‘
حسیب کیا بتاتا، وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس نے آہستگی سے اپنی بیوی کے شانوں پر ہاتھ رکھ دیئے اور ثمن کی سسکیاں سنتا رہا۔
٭…٭…٭
’’حسیب … حسیب۔‘‘ ایک دن وہ دفتر سے آیا تو ثمن چلّاتی ہوئی اسٹڈی سے نکلی اور اس کے قریب آکر اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’ہمارے ہاں ایک اور مہمان آنے والا ہے۔‘‘ اس نے خوشخبری سنائی۔ ’’اس بار لڑکا ہوگا۔‘‘ وہ خوشی میں دیوانی ہوئی جارہی تھی۔
اسی وقت عینی آکھڑی ہوئی۔ ’’مومی۔‘‘ اس نے اپنی ماں کو پکارا۔
’’مومی۔‘‘ حسیب نے دل ہی دل میں اس کی نقل اتاری۔ او خدایا! یہ کمرے سے نکل کیوں نہیں جاتی۔ اس نے تلخی سے سوچا۔ نہ جانے پہلے ہی دن سے اسے اپنی بیٹی سے کیوں نفرت ہوگئی تھی۔ عینی دوچار قدم آگے بڑھ آئی۔
’’کیا بات ہے عینی؟‘‘ اس نے سختی سے پوچھا۔
عینی سہم گئی اور اسی لہجے میں بولی۔
’’میں نے مومی کی آواز سنی تھی۔‘‘ وہ اب چار سال کی ہوگئی تھی اور اچھی طرح بولنے لگی تھی۔
’’سنی تھی، پھر کیا ہوا؟‘‘ اس نے کہا۔ ثمن، عینی کو دیکھنے لگی۔ حسیب نے اپنی غلطی محسوس کرلی۔ وہ دل کا اچھا آدمی تھا۔ اسے اپنی بیوی سے محبت تھی مگر وہ نجانے کیوں اس کی موجودگی میں بے چین ہوجایا کرتا تھا۔
’’تمہارا ایک بھائی آنے والا ہے عینی۔‘‘ وہ نرمی سے بولا۔ ’’بھائی۔ تم اس کے ساتھ کھیلا کرنا۔‘‘ وہ ہنس دیا۔ عینی نے شاید پہلی بار اپنے باپ کو ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ بھی مسکرا دی اور اپنی ماں کا دامن تھام لیا۔ ثمن کے چہرے پر آسودگی اُتر آئی تھی۔
’’ڈارلنگ!‘‘ وہ اپنے شوہر سے بولی۔ ’’اس خوشی میں اچھی سی چائے ہوجائے؟‘‘
’’ضرور، ضرور۔‘‘ حسیب اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ ’’مگر کہیں باہر، بلکہ آج کھانا بھی باہر ہی کھاتے ہیں۔ میں تیار ہوکر آیا۔‘‘ وہ کمرے میں چلا گیا۔
’’تمہارا بھائی آنے والا ہے۔‘‘ ثمن اپنی بیٹی پر جھک گئی۔ ’’پیارا سا بھائی۔‘‘ ثمن خوشی کے مارے دونوں ہاتھ پھیلا کر رقص کرنے لگی۔ اچانک اس کا ہاتھ قریب کارنس پر رکھے گلدان سے ٹکرایا۔ گلدان فضا میں اچھلا۔ ثمن نے اسے گرنے سے بچانے کے لیے ایک دم اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن وہ اس کی پہنچ سے دور ہوگیا۔ اسے یقین ہوگیا کہ شیشے کا یہ نفیس گلدان اب ٹوٹنے سے نہیں بچ سکے گا۔ اچانک کمرے میں ایک سکوت سا پھیل گیا۔ لگتا تھا جیسے وہ خلا میں کھڑی ہو۔ اسے چکر آنے لگے۔ اس نے سہارے کے لیے میز پکڑ لی۔ اس کے پیر جواب دے رہے تھے۔ گلدان فضا میں معلق ہوگیا تھا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ نیچے آیا اور صحیح سلامت فرش پر ٹک گیا۔
سکوت ٹوٹ گیا۔ وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ اس کے ہاتھ پیروں میں ارتعاش تھا۔ اس نے جھک کر گلدان کی طرف دیکھا۔ وہ بالکل درست حالت میں فرش پر جما ہوا تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا جو کئی فٹ دور کھڑی فاتحانہ انداز میں مسکرا رہی تھی۔
اس نے پھر گلدان کی طرف دیکھا۔ ’’عینی۔‘‘ اس کے منہ سے کپکپاتی ہوئی آواز نکلی۔ وہ آہستہ آہستہ عینی کی طرف بڑھی۔ اس نے اپنا سر جھکا لیا تھا۔ ثمن نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ اوپر اٹھایا، پھر ایک نظر گلدان پر ڈالی اور پوری قوت سے عینی کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ عینی کا چہرہ دوسری طرف گھوم گیا۔ ثمن نے پھر اس کا رخ اپنی طرف کیا اور دوسرا تھپڑ مارا۔ عینی ہچکیاں لینے لگی۔ ثمن اسے بری طرح پیٹنے لگی۔ عینی کی ہچکیاں سسکیوں میں بدل گئیں۔ پھر ثمن نے اپنا ہاتھ روک لیا۔
حسیب انہیں ڈھونڈتا ہوا عینی کی خواب گاہ میں آگیا۔ ثمن آرام سے کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی اور عینی اس کی گود میں سو رہی تھی۔
’’کیا ہوا ثمن؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں نے اسے مارا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’تم نے اسے مارا۔ لیکن کیوں؟‘‘
’’اس نے… اس نے گلدان توڑ دیا تھا۔‘‘ اس نے پہلی بار اپنے شوہر سے جھوٹ بولا۔
حسیب چند لمحوں تک اپنی بیوی کے جھکے ہوئے سر کو دیکھتا رہا۔ آخر کمرے سے نکل گیا۔ ثمن نے کبھی عینی کو ڈانٹا تک نہیں تھا لیکن اسے حیرت تھی کہ آخر وہ کون سا گلدان تھا جس کے توڑنے پر ثمن عینی کو بری طرح مار رہی تھی۔
٭…٭…٭
شعبہ قتل کا انسپکٹر اصغر شاہ نو بجے پولیس اسٹیشن پہنچا تو اس کی میز پر رپورٹ رکھی ہوئی تھی۔ ایک منٹ تک تو اسے یقین نہیں آیا کہ سعید خان مر گیا ہے۔ وہ ایک درندہ تھا، بھیڑیئے کی طرح خونخوار اور لومڑی کی طرح مکار۔ اصغر شاہ اس کی ہسٹری سے اچھی طرح واقف تھا اور اس کی دلی خواہش تھی کہ سعید کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتارے۔
اٹھارہ سال کی عمر میں سعید نے ایک لڑکی کی آبروریزی کی تھی۔ چار سال بعد ایک بڑا ڈاکا ڈالا اور گرفتار ہوا مگر عدم ثبوت کی بنا پر رہا ہوگیا۔ پھر بڑی سنگدلی سے ایک آدمی کو قتل کیا مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے پولیس اس پر ہاتھ نہ ڈال سکی۔ اس کے بعد کئی قتل کیے اور پولیس بے بسی سے ہاتھ ملتی رہ گئی۔
یہ سب سوچتے ہوئے انسپکٹر اصغر شاہ کو اپنا ایک کانسٹیبل اکرم یاد آگیا جو چار سال پہلے سعید کی بے رحمی کا نشانہ بنا تھا۔ اس نے اکرم کے سارے دانت توڑ دیئے تھے۔ اس کی زبان کاٹ دی تھی۔ بازو، پیٹ اور چہرے کو بری طرح جلا دیا تھا۔ دونوں ٹانگیں لوہے کے پائپ سے جگہ جگہ سے توڑ دی تھیں۔ انسپکٹر اصغر شاہ اس منظر کو یاد کرکے لرز اٹھا۔ اس وقت بھی اس کا جی چاہا تھا کہ سعید کو تلاش کرکے اس پر پورا ریوالور خالی کردے۔ بالآخر وہ ایک قتل میں پھنس ہی گیا۔ اسے پندرہ سال کی سزا سنا دی گئی لیکن وہ پانچ سال بعد ہی باہر آگیا اور اب سعید مر چکا تھا۔
اس نے بغور رپورٹ پڑھی، پھر انٹرکام بجا کر اردلی کو بلایا اور اس سے کہا کہ وہ حبیب کو بلا لائے۔
’’سعید خان کی موت کا سبب کیا تھا؟‘‘ اس نے اپنے نائب کے اندر داخل ہوتے ہی اور سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد گمبھیر لہجے میں پوچھا۔ اس کی نظریں حبیب کے بدحواس چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ ایک پچیس تیس سالہ صحت مند جوان تھا۔ چہرے پر باریک مونچھیں تھیں، رنگت سانولی تھی۔
’’سبب نامعلوم ہے سر!‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟ موت کا سبب معلوم نہیں؟‘‘
’’اس کے جسم پر کوئی نشان تھا، نہ اسے خنجر مارا گیا تھا اور نہ شوٹ کیا گیا تھا۔‘‘ حبیب بتانے لگا۔ ’’بس! وہ گرا اور مر گیا۔ اس کی گردن ٹوٹ گئی تھی۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی کے دونوں اوپری حلقے الگ ہوگئے تھے مگر پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر کی سمجھ میں بھی نہ آیا کہ یہ سب کیسے ہوا تھا۔ وہ اس سبب کو ناقابل یقین تصور کرتا ہے۔‘‘
یہ سب سننے کے بعد اصغر شاہ نے اپنے سر کو پُرسوچ انداز میں جنبش دی اور رپورٹ کا ورق اُلٹا۔ اس میں لکھا تھا کہ اس کے ساتھ دو آدمی تھے۔ شعیب اور اسحاق۔ وہ تینوں اس مکان میں چوری کرنے کی نیت سے گھسے تھے کہ گھر والے آگئے اور پھر سعید زمین پر گرا اور مر گیا۔
’’کیا یہ عجیب بات نہیں ہے حبیب؟‘‘ انسپکٹر اصغر شاہ نے اپنی پیشانی ایک ہاتھ سے مسلتے ہوئے کہا۔ ’’ویسے تم نے شعیب کا بیان ریکارڈ کیا ہے نا؟ وہ ٹیپ لے کر آئو ذرا۔‘‘ اس نے اپنے نائب حبیب کو ہدایت کی۔
حبیب ذرا ہی دیر بعد وہ کیسٹ لے کر آگیا۔ دفتر میں ریکارڈر رکھا ہوتا تھا۔ اس نے کیسٹ مشین کا بٹن دبا دیا۔ دونوں پورے انہماک سے شعیب کا بیان سننے لگے۔
’’سعید خان مجھ سے پانچ لاکھ مانگتا تھا۔ اس نے مجھے ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ اسحاق بھی مجبوراً اس کے ساتھ ہوا تھا۔ ہم نقب لگا کر آسانی سے مکان میں گھس گئے اور قیمتی سامان سمیٹنے لگے۔ باورچی خانے میں ایک چھوٹا سا کتا تھا۔ بہت پیارا اور بے ضرر۔ سعید خان نے بڑی بیدردی سے اسے چاقو کے ذریعے چیر کر رکھ دیا، پھر وہ لوگ آگئے۔ ڈاکٹر انیس اور اس کی بیوی۔ اس نے پستول کا بٹ ڈاکٹر انیس کے منہ پر مارا۔ اس کا رخسار پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا۔ وہ فرش پر گر کر بے ہوش ہوگیا۔ اس کی بیوی دور کھڑی تھی۔ بس پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ سعید گرا اور مر گیا۔ اسے کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔ وہ انسان کے روپ میں شیطان اور ایک درندہ تھا۔ اگر میرا بس چلتا تو میں خود اسے قتل کردیتا۔ ڈاکٹر کی بیوی نے مجھے روک لیا اور اسحاق کو نکل جانے دیا اور پولیس کو فون کردیا۔‘‘
ٹیپ ریکارڈر بند ہوگیا۔ ’’ہوں۔‘‘ شعیب کا ریکارڈ شدہ بیان سننے کے بعد انسپکٹر اصغر شاہ نے گہری سانس لی۔ پھر بولا۔ ’’کہیں ایسا نہ ہوا ہو کہ شعیب اور اسحاق نے موقع دیکھ کر سعید کو مار دیا ہو اور عورت کو زبان بند رکھنے کی دھمکی دی ہو؟‘‘
’’لیکن سر۔! سعید خان کے جسم پر تو ایک خراش تک نہیں ہے۔ ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق اس نے ایسی موت کبھی نہیں دیکھی۔‘‘ حبیب نے یاد
ہے۔‘‘ اصغر شاہ ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولا۔ ’’میں خود ڈاکٹر سے ملوں گا۔ تم اسحاق کو تلاش کرنے کی کوشش کرو۔‘‘ نائب حبیب نے اپنے سر کو اثباتی جنبش دی اور کمرے سے نکل گیا۔
رپورٹ کے آخر میں مالک مکان کا نام اور پتا درج تھا۔ ڈاکٹر انیس کان، ناک، گلے کا سرجن اور اس کی بیوی عینی جنرل فزیشن تھی۔
’’میں اس کیس کو کبھی نہیں بھول سکتا انسپکٹر!‘‘ ڈاکٹر کامران، اصغر شاہ سے کہہ رہا تھا۔ وہ فون پر وقت لے کر اس سے ملنے آیا تھا اور اس وقت اسپتال میں اس کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ ’’انتہائی ناقابل یقین، ایسی حالت میرے خیال میں شاید اس وقت بھی نہیں ہوتی جب آدمی اسّی میل کی رفتار سے دوڑتے ہوئے ٹرک سے ٹکرا جائے یا بائیس منزلہ عمارت سے سر کے بل آگرے۔‘‘
’’کیا ایسا کوئی کیس پہلے بھی تمہاری نظر سے گزرا ہے ڈاکٹر؟‘‘
’’اوہ۔ کبھی نہیں انسپکٹر۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
’’کیا اس سلسلے میں تمہارے ہیڈ سے بات کی جاسکتی ہے؟‘‘
’’میں خود بھی ان سے ملنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ انہیں یہاں پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے پچاس سال گزر چکے ہیں۔ میرے خیال میں دنیا میں کوئی ایسا کیس نہیں جو ان کی نظر سے نہ گزرا ہو۔ ان کا نام ڈاکٹر راشد ملک ہے۔ ان کا شمار ملک کے ذہین اور ماہر ترین ڈاکٹروں میں ہوتا ہے۔‘‘
’’کیا اس وقت ان سے ملاقات ہوسکتی ہے؟‘‘ اصغر شاہ نے پوچھا۔
’’میں کوشش کرتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر کامران بولا اور اٹھ کر فون کرنے چلا گیا۔ ذرا ہی دیر بعد اس نے واپس آکر بتایا کہ ڈاکٹر راشد ملک گھر پر ہیں اور انتظار کررہے ہیں۔
ڈاکٹر کامران اور انسپکٹر اصغر شاہ نے اپنی اپنی رپورٹس کی فائلیں اٹھائیں اور وہ دونوں ڈاکٹر راشد ملک کے ہاں پہنچ گئے۔ ایکسرے رپورٹس بھی ساتھ تھیں۔
ڈاکٹر راشد ملک ستّر برس کا ایک دبلا پتلا دراز قامت آدمی تھا۔ اس کا آدھے سے زیادہ سر گنجا ہوچکا تھا مگر آنکھوں میں غیرمعمولی چمک تھی۔ اس نے بڑی خوش دلی سے ان کا استقبال کیا اور اپنی نشست گاہ میں لے آیا۔ وہ سب آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ نوکر فوراً ہی چائے لے آیا۔ کامران نے رپورٹس اور ایکسرے ڈاکٹر کے سامنے رکھ دیئے۔
ارشد ملک رپورٹ پڑھنے لگا۔ پھر ایکسرے اٹھا کر دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی کی تہیں چڑھ آئی تھیں۔
’’تم نے ایکسرے لے کر بڑی عقلمندی کا کام کیا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ پھر اصغر شاہ سے مخاطب ہوا۔ ’’انسپکٹر! مجھے افسوس ہے کہ میں اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے کہ آپ اس کیس کی وضاحت نہیں کرسکتے؟‘‘ اصغر شاہ نے اس کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔
’’بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ میرا مطلب ہے کہ سعید خان کے ساتھ جو کچھ ہوا، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ مشکل نہیں، ناممکن ہے۔ ناممکن۔‘‘ ڈاکٹر ارشد ملک نفی میں سر ہلائے جارہا تھا۔ ’’یہ واقعی ناممکن ہے لہٰذا میرا مشورہ ہے انسپکٹر، تم ان باتوں کو اپنے ذہن سے نکال دو، بھول جائو اس کیس کو۔ اس سے زیادہ اذیت ناک موت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
’’میں ایسا نہیں کرسکتا۔‘‘ اصغر شاہ نے اپنے ہونٹ بھینچ کر کہا۔
’’کوئی بات نہیں انسپکٹر۔ تمہاری مرضی مگر میں اس سے زیادہ تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔‘‘
’’صرف ایک بات بتا دیں ڈاکٹر۔ اذیت ناک موت سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ جبکہ گواہوں کا بیان ہے کہ سعید خان گرتے ہی مر گیا تھا؟‘‘
’’گواہ جھوٹ بولتے ہیں۔ سعید خان انتہائی کرب سے گزرا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ارشد بولا۔ ’’اذیت سے اس کی آنکھیں حلقوں سے باہر نکل آئی تھیں۔ ناقابل تصور کرب۔‘‘
٭…٭…٭
اگلے دن تین بجے حبیب نے اصغر کو فون کیا کہ اسحاق ہوٹل لکی ون کے کمرہ نمبر201 میں ٹھہرا ہوا ہے۔
’’میں ابھی آرہا ہوں۔‘‘ انسپکٹر اصغر نے کہا اور اپنی گاڑی میں ہوٹل کی طرف روانہ ہوگیا۔ اسحاق اپنے کمرے میں میز پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے بدن پر صاف ستھرا لباس تھا۔ انسپکٹر کو اپنے سامنے پا کر وہ سہم گیا۔
’’ہم تمہیں گرفتار کرنے نہیں آئے اسحاق۔‘‘ اصغر شاہ نے نرمی سے کہا۔ ’’صرف چند سوالات پوچھنے ہیں۔‘‘
اسحاق سر اٹھا کر اس کی طرف مستفسرانہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’جمعرات کی رات تم سعید خان اور شعیب کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ میں چوری کی نیت سے گئے تھے۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہاں سعید خان کو کیا ہوا تھا؟‘‘
اسحاق پہلے تو کرسی پر کسمسایا۔ پھر دھیرے سے بولا۔ ’’وہ مر گیا تھا۔‘‘
’’کیسے مرا تھا؟‘‘
’’مجھے یہ علم نہیں، کیسے مرا تھا۔‘‘
’’اسے مرتے وقت تکلیف ہوئی تھی؟ انتہائی تکلیف، جیسے کوئی اذیت سے چلاّتا ہو؟‘‘ جواباً اسحاق خاموش رہا۔ اصغر شاہ کی نظریں اس کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ اسے خاموش پا کر وہ دوبارہ مستفسر ہوا۔ ’’بتائو اسحاق! کیا اسے مرتے وقت شدید اذیت ہوئی تھی؟‘‘
اصغر شاہ نے دیکھا کہ اسحاق پر نمایاں طور پر ارتعاش طاری تھا۔ معاً اس نے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی تو اصغر شاہ اس کے سر پر پہنچ گیا۔ ’’ایسی حرکت کرو گے تو میں تمہیں سیدھا پولیس اسٹیشن لے جائوں گا۔‘‘ اصغر شاہ نے تنبیہ کی اور پھر بولا۔ ’’اس کی آنکھیں باہر نکل آئی تھیں۔ حلقوں سے بالکل باہر۔ مگر کیسے ہوا یہ سب اس کے ساتھ، پل کے پل میں؟‘‘
اسحاق کے پسینے چھوٹ گئے۔ وہ چلاّ کر بولا۔ ’’نن… نہیں۔ یہ باتیں بتانے کی نہیں تھیں۔ او خدایا! میں نے تمہیں کچھ نہیں بتایا ہے۔ خدا کے لیے تم اس سے کہہ دینا کہ میں نے تمہیں کچھ نہیں بتایا ہے۔‘‘
’’کس سے کہہ دینا اسحاق؟‘‘
’’اس عورت سے، خدا کے لیے انسپکٹر۔‘‘ وہ اصغر شاہ کا ہاتھ پکڑ کر زور زور سے ہلانے لگا۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ میں ڈاکٹر انیس کی بیوی سے یہ نہ کہوں کہ تم نے مجھے ان باتوں سے آگاہ کیا تھا؟‘‘
’’ہاں انسپکٹر! میں یہی چاہتا ہوں۔ خدا کے لیے۔‘‘ وہ بری طرح لرز رہا تھا۔ ’’اس سے کہہ دینا کہ میں نے تمہیں ایک لفظ بھی نہیں بتایا ہے۔‘‘
’’تم نے سعید خان کے بارے میں کچھ نہ کہنے کی قسم کھائی تھی، اسی وجہ سے اس نے تمہیں نکل جانے دیا۔‘‘
’’ہاں ہاں! بالکل یہی بات ہے انسپکٹر۔ میں نے اپنی قسم نہیں توڑی ہے۔ اس سے کہہ دینا۔ اس شعیب کے بچے نے تمہیں یہ بات بتائی ہوگی۔‘‘ وہ ہانپتے ہوئے بول رہا تھا۔
’’شعیب نے ہمیں کچھ نہیں بتایا ہے اسحاق۔‘‘ اصغر سختی سے بولا۔ ’’اس وقت سے پہلے ہمیں ان باتوں کی خبر نہیں تھی لیکن اب پتا چل گیا ہے اور یہ بات تم نے ہی ہمیں بتائی ہے، اس لیے بہتر ہوگا کہ اب باقی باتیں بھی بتا دو۔‘‘
اسحاق کے حلق سے ایک دہشت ناک چیخ نکلی۔ اس کی پتلیاں گھومنے لگیں۔ وہ پھر چیخا اور اچھل کر دوڑا۔ کرسی دور جاگری۔ وہ رک کر اصغر شاہ کو گھورنے لگا۔ اس کے حلق سے مسلسل چیخیں نکل رہی تھیں۔ پھر اس کی آواز پھٹنے لگی۔ اس کا گلا جواب دیتا جارہا تھا اور اس کے حلق سے آوازیں یوں نکل رہی تھیں جیسے کسی کو ذبح کیا جارہا ہو۔ شور سن کر لوگ کمرے میں آنے لگے۔
’’ہوٹل کے ڈاکٹر کو بلائو۔‘‘ اصغر شاہ نے کہا۔
انسپکٹر اصغر شاہ کے ساتھ آئے ہوئے چار اہلکاروں نے اسحاق کو دونوں طرف سے پکڑ لیا اور کمرے کے وسط میں لے آئے۔ اس کا پسینے میں بھیگا ہوا بدن لرز رہا تھا۔ پھر اس کی چیخیں بند ہوگئیں۔ اچانک اس نے جھٹکا دے کر خود کو چھڑایا اور بھاگ کھڑا ہوا مگر اس کا رخ دروازے کی بجائے کونے کی طرف تھا۔ کمرے میں صرف اسحاق کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔
ڈاکٹر آگیا تھا۔ اس کا نام مراد تھا۔ اس نے تیز نظروں سے اصغر شاہ کی طرف دیکھا اور روتے ہوئے اسحاق کو ایک انجکشن لگا دیا۔ پھر دو آدمی اسے اسٹریچر پر اٹھا کر باہر لے گئے۔
٭…٭…٭
اس رات کھانے کے بعد وہ اپنے گھر میں اکیلا تھا۔ اس کی بیوی
اوپر کی منزل میں مسز عارفہ سے ملنے گئی تھی۔ اس نے نجمہ کو کچھ نہیں بتایا تھا، نہ ہی اسحاق کے بارے میں کوئی تذکرہ کیا تھا حالانکہ یہ اس کی عادت تھی کہ وہ اپنی بیوی سے خاص کیسوں کے بارے میں ذکر ضرور کرتا تھا لیکن یہ کیس خود اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسحاق پر اچانک کیسا دورہ پڑا تھا۔ اس نے پہلے بھی لوگوں کو خوف و دہشت میں مبتلا دیکھا تھا مگر ایسا خوف، اتنی دہشت، یہ تو دیوانگی سے بھی بری کیفیت تھی۔ وہ اس عورت سے خوف زدہ تھا۔ وہ کس قسم کی عورت ہے، اس نے اسحاق کو آخر کیا دھمکی دی ہے؟ سعید خان کی موت میں اس کا کتنا حصہ ہے؟ وہ جتنا سوچتا، ڈاکٹر انیس کی بیوی ڈاکٹر عینی کی شخصیت اتنی ہی پُراسرار ہوتی جاتی تھی۔
آخر اس نے ڈاکٹر عینی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر انیس کا اپارٹمنٹ عمارت کی ایک پوری منزل پر پھیلا ہوا تھا۔ کال بیل کے جواب میں ایک ادھیڑ عمر مگر تنومند شخص نے دروازہ کھولا تھا۔ اس نے انسپکٹر اصغر شاہ کی وردی سے متاثر ہوئے بغیر کارڈ مانگا اور اسے دیکھ کر اسے نشست گاہ میں لا کر بٹھا دیا۔
یہ کمرہ پچاس فٹ سے بھی زیادہ طویل اور کشادہ تھا۔ اس کی ہر شے سے امارت کا اظہار ہوتا تھا۔ اصغر شاہ ابھی کمرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ ڈاکٹر انیس آگیا۔ اس کا چہرہ ایک طرف سے سرخ ہورہا تھا اور وسط میں ٹیپ لگا ہوا تھا۔ اصغر نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا اور پھر وہ دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ اسی ادھیڑ عمر ملازم نے چائے کے برتن میز پر لگا دیئے۔
’’سعید خان نے آپ کو کس چیز سے مارا تھا ڈاکٹر؟‘‘ رسمی باتوں کے بعد انسپکٹر اصغر شاہ نے پوچھا۔
’’اپنے پستول کے بٹ سے۔‘‘ ڈاکٹر انیس نے سادگی سے جواب دیا۔
’’آپ کی بیوی آپ سے بہت محبت کرتی ہیں؟‘‘ انسپکٹر اصغر شاہ نے سوال کیا۔
’’ہاں۔‘‘ انیس نے کہا اور چائے انڈیلنے لگا۔ پھر وہ چائے پیتے اور باتیں کرتے رہے۔
انیس نے اصغر کو کوئی نئی بات نہیں بتائی۔ وہی سب کچھ جو وہ خود پہلے سے جانتا تھا۔ مثلاً سعید خان نے اسے پستول کے بٹ سے مارا تھا جس کے نتیجے میں وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔ اس دوران سعید مر گیا اور اسحاق فرار ہوگیا تھا۔ اصغر اس کی بیوی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ اس نے ڈاکٹر عینی کے بارے میں کئی سوالات کیے۔
’’جب یہ لوگ آپ کے گھر میں آئے تو اس وقت آپ لوگ کہاں تھے؟‘‘ اصغر نے سوال کیا۔
’’ہم عینی کی ماں کے گھر گئے ہوئے تھے۔ ہم کچھ تھکن محسوس کررہے تھے، اس لیے جلدی لوٹ آئے۔‘‘
’’ایک سوال اور ڈاکٹر۔ کیا آپ کی مسز نے ان باتوں کا تذکرہ کسی سے کیا ہے؟‘‘ وہ کسی اشارے کا متلاشی تھا جس کے ذریعے وہ ڈاکٹر عینی کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرسکے۔
’’مجھے یقین ہے کہ اس نے مسز صدیقی سے سب کچھ کہہ دیا ہوگا۔‘‘ وہ بولا۔ ’’عینی اس سے کوئی بات نہیں چھپاتی۔ وہ عینی کی بہترین دوست ہے۔ دونوں ساتھ اسکول جایا کرتی تھیں۔‘‘
’’شکریہ ڈاکٹر انیس۔‘‘ اصغر شاہ نے کہا۔ بالآخر اسے ایک نام مل گیا تھا۔ وہ بولا۔ ’’کیا آپ مجھے مسز صدیقی کا پتا بتائیں گے؟‘‘
پھر ڈاکٹر سے پتا لے کر وہ کھڑا ہوگیا۔ ادھیڑ عمر ملازم اسے دروازے تک چھوڑنے آیا۔ انسپکٹر اصغر شاہ نے محسوس کیا کہ وہ اسے کچھ عجیب سی نظروں سے تکے جارہا تھا۔ تب ہی اچانک اصغر شاہ کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔ اسے اس کی آواز میں کچھ شناسائی کی جھلک محسوس ہوئی تھی۔ اس نے اس کی آواز کہیں سنی تھی۔ کہاں، جلدی ہی اپنے ذہن پر زور دیتے ہوئے اسے یاد آگیا کہ اس کی آواز وہ ٹیپ ریکارڈر پر سن چکا تھا۔
’’خداحافظ عذیر۔‘‘ اس نے دروازے سے نکلتے ہوئے کہا۔
’’تو تم نے مجھے پہچان لیا انسپکٹر۔‘‘ عذیر قدرے درشتی سے بولا۔ ’’بہتر ہوگا کہ ان لوگوں سے دور رہو۔ اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی دروازہ بند ہوگیا اور اصغر شاہ الجھن آمیز سوچوں میں مستغرق لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔
٭…٭…٭
انسپکٹر اصغر شاہ نے میمونہ صدیقی سے زیادہ حسین عورت زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ سرو قامت، دبلی پتلی اور انتہائی دلکش نقوش کی حامل خاتون تھی۔ وہ عینی کی کلاس فیلو رہ چکی تھی، اس لیے چالیس سال سے کم کی نہیں تھی مگر اپنی جسمانی ساخت اور حسن کی وجہ سے کم عمر لگتی تھی۔
اصغر ایک لمحے کے لیے بھی اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا سکا تھا۔ وہ خود بھی اپنے حسن کی فتنہ سامانی سے واقف تھی۔ وہ اسے لے کر ایک کمرے میں آئی جس کی ایک دیوار پر اوپر سے نیچے تک آئینہ لگا ہوا تھا۔ وہ آئینے کی طرف منہ کرکے بیٹھی تھی اور گاہے گاہے اپنی شکل دیکھتی رہی تھی۔
اس نے بتایا کہ عینی نے اسے سعید خان کی موت کے بارے میں بتایا تھا۔ وہ بڑی خوف زدہ اور متفکر نظر آرہی تھی۔ اصغر شاہ نے محسوس کیا کہ میمونہ کو اپنی دوست سے ذرا بھی ہمدردی نہیں تھی۔ بہرطور اس نے کچھ انکشافات کیے۔
(جاری ہے)