Thursday, October 10, 2024

Purkhaloos Rishta

عبید اللہ میری پھوپھی کے بیٹے تھے، بہت خوبصورت، قد کاٹھ اونچا، چوڑے شانے، شاندار شخصیت۔ نیک اور شریف تھے۔ پھوپھی نے ان کے لیے میرا رشتہ مانگا تو والدین نے فوراً ہاں کر دی اور کچھ عرصے بعد ہماری باقاعدہ منگنی ہو گئی۔ میں بہت خوش تھی کہ میرا منگیتر اس قدر خوبرو ہے۔ جس دن دلہن بنی، سبھی کہہ رہے تھے کہ منزہ بہت اچھی لگ رہی ہے، لیکن دولہا کا تو کوئی جواب نہیں۔ وہ کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہے تھے۔ ہمارے والدین اور پھوپھی کی مالی حالت بہت اچھی تھی، لہٰذا بہت دھوم دھام سے شادی ہو گئی۔ اتنے خوبصورت دولہا کو پاکر میں خوشی سے پھول کی طرح کھل گئی تھی۔ عبید مجھ سے بہت پیار کرتے تھے، وہ مجھ پر سو جان سے فدا تھے۔ ہر کوئی مجھ پر رشک کر رہا تھا، جس کا دولہا اتنا خوبصورت تھا۔ ان کے سامنے میں معمولی صورت لگتی تھی۔ عبید کی والدہ نے مجھے زیور بھی خوب دیا تھا۔ وہ میری سگی پھوپھی تھیں، چاہت سے بیاہ کر لائی تھیں تو کیوں نہ ہزار چاؤ کرتیں؟ لیکن خوشیاں بعض دلہنوں کو راس نہیں آتیں، کسی کی نظر لگ جاتی ہے۔ کسے پتا تھا کہ عبید فوج میں بھرتی ہوں گے تو جنگ چھڑ جائے گی؟ کیا خبر تھی کہ آنے والے چند دنوں میں حالات اس قدر خراب ہو جائیں گے کہ بھائی بھائی کے بیچ معرکے کا سماں ہوگا؟

ابھی ہماری شادی کو چھ ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ 1971ء میں انہیں مشرقی پاکستان جانا پڑا۔ وہاں وہ ایسے حالات میں گھر گئے کہ ایک دن مکتی باہنی نے ان کا پیچھا کیا تو وہ عجلت میں ایک گھر میں گھس گئے۔ یہ ایک بنگالی کا گھر تھا، مگر مسلمان ہونے کے ناتے انہوں نے میرے شوہر کو غنڈوں کے حوالے کرنے کے بجائے اپنے گھر میں چھپا دیا۔ گھرانے کے سربراہ نے ان سے کہا کہ جو لوگ تمہارا پیچھا کرتے ہوئے آئے ہیں، ان کو ہم پر شک ہے اور اب وہ باہر پہرہ دیں گے تاکہ تم گھر سے نکلو تو وہ تمہیں مار دیں۔ بہتر ہے کہ تم ہماری لڑکی سے نکاح کر لو، تب وہ تمہیں داماد کی حیثیت سے کچھ نہیں کہیں گے، ورنہ ہم آپ کی زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ ان کے برابر میں ایک مولانا صاحب کا گھر تھا جو نکاح خواں بھی تھے۔ حالات کا تقاضا تھا۔ عبید انکار نہ کر سکے۔ دراصل ان لوگوں کو بھی یہ خوبرو نوجوان اچھا لگا تھا لہٰذا انہوں نے اسی وقت پڑوسی نکاح خواہ کو بلوا کر اپنی بیٹی سے ان کا نکاح کروادیا۔ پھر وہ انہی کے ساتھ رہ کر حالات کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے لگے، لیکن جب تک حالات ٹھیک ہوئے ، وہ ایک بیٹے کے باپ بن چکے تھے اور اپنی بنگالی بیوی کے ساتھ خوش و خرم ہو چکے تھے۔یوں وہ واپس نہ لوٹے اور میں ان کی راہ دیکھتی رہ گئی، یہاں تک کہ سات برس گزر گئے۔ جب اس عرصہ میں ان کی کوئی خیر خبر نہیں آئی تو سب نے یہی سمجھا کہ وہ شہید ہو گئے ہیں۔ ان کو گئے آٹھواں برس تھا کہ ایک روز ان کا خط پھوپھا کے نام آیا۔ اس میں دوسری شادی کی خبر کے ساتھ تصویریں بھی تھیں۔ پھوپھا میرے والد کے پاس آئے اور اطلاع دی کہ عبید زندہ ہے اور یہ کہ اس نے وہاں شادی کر لی ہے ، اب اس کے دو بچے بھی ہیں۔ یہ خبر سن کر میرے والد کی تیوری پر بل پڑ گئے اور والدہ بھی رونے لگیں۔ میرے ماں باپ کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ مجھ کو کیسے بتائیں۔ میرے والدین نے فیصلہ کر لیا کہ اب ہم اپنی بیٹی ان کے کو گھر میں نہیں رکھیں گے بے شک وہ لوگ اپنی دوسری بہو کو گھر لے آئیں۔ بہر حال انہوں نے مجھے عبید کی دوسری شادی کا نہیں بتایا، صرف اتنا بتایا کہ وہ زندہ ہیں۔ جب میں نے پوچھا کہ کب واپس آئیں گے ؟ تو کہا کہ جلد آ جائیں گے۔ ان کی آمد کی خبر سن کر میں تو جی اٹھی تھی۔ مدت سے جس کا انتظار تھا اور جس کو سب شہید سمجھتے تھے وہ لوٹ کر آنے والا تھا۔ سبھی کہا کرتے تھے اب کتنا انتظا کرو گی ؟ اب میکے چلی جائو ، مگر میں نے عبید کا گھر نہ چھوڑا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ایک دن ضرور لوٹ کر آئیں گے۔ میں نے گھر سجایا، قیمتی خوبصورت اور خوش رنگ جوڑے نکالے ، نئے جوڑے بھی سلنے کو دیئے اور اپنے سہاگ کے استقبال کی تیاری میں ہمہ تن مشغول ہو گئی۔ میرا جوش اور ولولہ سبھی دیکھ رہے تھے اور دل میں کڑھ رہے تھے۔ کسی کی بھی جرات نہ ہوئی کہ میری بے پایاں خوشی پر حقیقت کا خوفناک بم گراتے۔

جس روز عبید کو آنا تھا، میں سج دھج کر تیار ہو گئی، گویا نئی نویلی دلہن بن گئی۔ میں بھی سب کے ساتھ انہیں ریسیو کرنے ایئر پورٹ جا رہی تھی۔ مجھے اتنا خوش دیکھ کر حقیقت میں ماں باپ کا دل تو رو رہا تھا۔ بہر حال، ہم ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ سب سمجھ رہے تھے کہ عبید اکیلے آرہے ہیں مگر وہ جو نہی وہ لائونج سے نمودار ہوئے، ان کے ساتھ بچوں کو دیکھ کر میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ جتنی خوشی سے میں آگے بڑھی تھی، اتنی ہی تیزی سے پیچھے ہٹ گئی اور حیرت سے اپنے سسر اور پھر والد کو دیکھا۔ ابا جان فوراً میرے پاس آگئے ، بولے۔ بیٹا ! یہی حقیقت ہے ، جو تم دیکھ رہی ہو۔ بہتر ہے کہ تم خود کو سنبھال لو ورنہ ابھی واپس میرے ساتھ گھر چلو۔ یوں ابا جان مجھے اپنے ساتھ گھر لے آئے۔ ان کو خدشہ تھا کہیں میں صدمے گر ہی نہ جاؤں۔ ایک طویل انتظار اور ہزار بار کی دعائوں کے بعد مجھ جنم جلی کو اپنے شوہر کی بس ایک جھلک ہی دیکھنا نصیب ہو سکی۔ میں اپنے کمرے میں بند بستر پر پڑی آنسو بہارہی تھی اور باہر عبید آئے ہوئے تھے۔ وہ میرے والد کو اپنی داستان سنا تے ہوئے معافیاں مانگ رہے تھے ، اپنی مجبوریاں بتا رہے تھے۔ یہ یقین دہانیاں بھی کردار ہے تھے کہ دونوں بیویوں کے برابر بر حقوق ہوں گے ، لیکن اباجان نے ایک ہی بات ت کہی کہی کہ کہ میری میں بیٹی نے جب اتنے عرصہ تمہاری جدائی سہہ لی ہے تو اور بھی سہ لے گی۔ اب ہم اس کو تمہارے ساتھ ہر گز نہیں بھیجیں گے ، بے شک تم طلاق دے دو۔ میری والدہ نے بھی یہی رٹ لگادی اور مجھ کو طلاق کروا کر ہی دم لیا۔ میں نے تو اس معاملے میں ایسے چپ سادھ لی تھی، جیسے کسی نے میری قوت گویائی چھین لی ہو۔ طلاق کے دو سال بعد امی نے پھر سے میری شادی کی فکر شروع کر دی۔ جب والدین مجھ سے دوسری شادی کا کہتے تو عبید کو یاد کر کے میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی۔ سوچتی کہ بے شک اس سے دور ہی رہتی مگر یہ مجھے طلاق نہ دلواتے۔ میر ادل نہیں کرتا تھا کہ کسی دوسرے مرد کو شوہر مانوں۔ یہ مگر میرے بس کی بات نہ تھی۔ بار بار ایک ہی بات کہنے سے پہاڑ بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ میں بھی اپنے سے پیار کرنے والوں کی اس ضد سے بالآخر بے بس ہو گئی۔ کہا کہ ٹھیک ہے ، جو آپ کی جی میں آئے ، کیجیے۔ اس بے بس اقرار میں جتنا بھی دکھ تھا مگر ہتھیار تو میں نے ڈال دیئے تھے ، لہٰذا والدین نے اس موقع کو گنوانا مناسب نہیں سمجھا اور جھٹ پٹ عارف میاں سے میرا انکاح پڑھوا دیا۔ عارف میاں ہمارے دور پرے کی رشتہ دار تھے۔ پہلی بیوی شادی کے ایک سال بعد وفات پاگئی، اس کے بعد انہوں نے شادی نہ کی۔ اب سب کے کہنے سننے پر دوبارہ گھر آباد کرنے پر راضی ہو گئے تھے۔ میں نے ماں باپ کے مجبور کرنے پر عقد ثانی کر تو لیا مگر دوسری شادی کو دل سے قبول نہیں کیا۔ جب بھی عارف کے گھر سے میکے آتی ، روتی ہوئی آتی اور روتی ہوئی واپس گھر جاتی، جس پر ماں دکھی ہو جاتیں۔ عرصے تک یہی سلسلہ چلتا رہا، تب جا کر کہیں مجھ کو صبر آیا اور جب والد فوت ہو گئے تو میری رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ گئی۔ اب باور ہوا کہ دوسرے شوہر کی ہی اپنا سب کچھ سمجھنا چاہیے ورنہ میرا اور کون سا ٹھکانہ ہو گا۔

شادی کو دس برس گزر گئے اور میری گودہری نہ ہو سکی۔ جانے کیسا نصیب لے کر پیدا ہوئی تھی۔ اولاد سے محرومی کو عارف بھی محسوس کرتے تھے اور میں بھی اپنے اندر خلا محسوس کرتی کہ اولاد کے بغیر عورت کی زندگی سونی ہوتی ہے۔ عارف کا اپنا کاروبار تھا۔ ماشاء اللہ خو شحال تھے ، مگر مجھے وقت نہیں دے پاتے تھے۔ صبح کام کو نکلتے تو رات گیارہ بجے گھر لوٹتے۔ میں سارا دن، چار دیواری میں اکیلی ، تنہائی سے پریشان ہو کر دیواروں سے باتیں کرتی۔ ساس سسر دوسرے بیٹے کے پاس رہتے تھے۔ نند دیور ، سب کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ تب میں نے عبادت میں پناہ ڈھونڈ لی۔ نماز پڑھتی ، کلام پاک کی تلاوت کرتی اور اپنے سکون کے لئے دعائیں مانگتی۔ ادھر عارف میاں کا مزاج کچھ مختلف تھا۔ جب بھی کہیں جانا ہوتا ، وہ ہمراہ نہیں جاتے تھے۔ وہ سارا وقت اپنے کاروبار کو دیا کرتے ، اس وجہ سے بھی میں خود کو بہت تنہا اور ادھورا محسوس کرتی تھی۔ ایک دن میکے میں تھی کہ میرے بھائی آگئے۔ اماں بولیں۔ اے کاش منزہ کو اللہ تعالی اولاد دے دیتا تو یہ ایسے اکیلی نہ ہوتی۔ اس پر میں رونے لگی تبھی بھائی کا دل پسیجا، بولے۔ روتی کیوں ہو ۔ ہیں تمہیں اپنی بیٹی دے دیتا ہوں۔ تم اسے گود لے لو۔ میں نے بسم اللہ کر کے بھتیجی کو گود میں بھر لیا۔ دل کو سکون ملا۔ وہ مجھے بہت پیاری لگتی تھی۔ میں اس کو اپنے گھر لے آئی۔ عارف کو یہ بات پسند نہ آئی۔ کہنے لگے ۔ بیٹی تو پر ایاد ھن ہوتی ہے۔ تمہارے بھائی کو ایسا ہی خیال تھا، تو اپنا بیٹا دے دیتے، ہم بیٹی کو پال پوس کر بڑا کریں گے اور بیاہ دیں گے ، گھر تو پھر بھی خالی ہو جائے گا۔ ان کی یہ باتیں میرے دل کو لگیں۔ دوبارہ میکے آئی اور بھائی کو میاں کی باتیں گوش گزار کیں تو وہ آزردہ ہو گئے۔ کہنے لگے۔ٹھیک ہے ، ہیں تم کو اپنا بیٹا بھی دے دیتا ہوں ، اس طرح تمہارے میاں خوش ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور بیٹا دے دے گا۔ آج سے شیر دل تمہارا بیٹا ہے۔ انہوں نے بیٹے کو بھی مجھے دے دیا حالانکہ بھا بھی کا دل دھڑک گیا تھا کیونکہ شیر و بہت ننھا منا و بہت ننھا منا تھا۔ میں نے شوہر کو خوش کرنے کے خیال سے اس نعمت کو بھی گوریا نعمت کو بھی گود میں بھرا اور اپنے گھر لے گئی۔ میرے لیے تو بھائی کے دونوں بچے برابر تھے۔ دونوں مجھے پیارے تھے۔ ان کو گلے سے لگالیا، پالا پوسا، بڑا کیا۔ ان کی پرورش میں وقت اچھا کٹ گیا۔ دونوں بچے ، دل سے عارف کی عزت کرتے تھے اور ان کو اپنے والد جیسا جیساہی ہی سمجھتے تھے۔ جو حکم وہ کہتے یہ ، یہ دونوں بچے فوراً بجا لاتے۔ وہ دونوں جوان ہو گئے تو مجھے ان کی شادیوں کی فکر ہوئی۔ چاہتی تھی کہ اچھی جگہ شادیاں ہوں، تبھی اپنی جھلی بہن کے بیٹے سے عافیہ کی منگنی کرادی۔ یہ بہن بیوہ مگر صاحب جائیداد تھیں۔ گھر میں شادی کی تیاریاں ہونے لگیں، سبھی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عارف بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ ہم اس موقع پر کسی شے کی کمی نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ بھائی کا گھر میرے گھر سے کافی دور تھا، جبکہ میری بہن ، عافیہ جس کی بہو بننے جارہی تھی، وہ بھائی کے قریب ہی رہتی تھی، تبھی میں نے سوچا کہ عافیہ کی رخصتی اس کے حقیقی والد کے گھر سے کر لیتے ہیں، اس طرح میری بہن کو بارات لانے میں آسانی ہوگی۔ عارف نے عافیہ کا جہیز ایک ٹرک میں اس کے حقیقی باپ کے گھر خود پہنچایا لیکن جب شادی کا دن آیا تو ان کے رویے میں تبدیلی آگئی۔ مہندی والے دن کہنے لگے کہ میں نے جہیز پر تین لاکھ روپیہ لگایا ہے ، اب یہ رقم مجھے اپنے بھائی سے لے کر دو۔ جس کی بیٹی ہے ، وہی اسے رخصت بھی کرے۔ میں ٹھہر اچھو پھا، میرا ان بچوں سے کیا رشتہ ہے ؟ سچ پوچھو تو ان بچوں کو میں نے اپنے گھر میں تمہاری وجہ سے برداشت کیا ہے ، ورنہ مجھے یہ منہ بولے رشتے اچھے نہیں لگتے۔ یہ سن کر میرا تو دل بیٹھ گیا۔ اتنی محنت سے ان کو پالا پوسا، پیار دیا، لاڈ اٹھائے اور اب اچانک اس شخص کو کو کیا ہو گیا۔ اپنی مرضی اور خوشی سے بیٹی کا جہیز خرید کر لائے اور اب میرے بھائی سے جہیز کی رقم رقم مانگ رہے تھے۔

میرے بھائی کو بھی ان کے رویے پر سخت صدمہ ہوا، جنہوں نے بہن کی خاطر میں برس تک اپنے بچوں کا نام بھی نہ لیا، آج چند ٹکوں کی خاطر عارف میرے بھائی کی بے عزتی کا سامان کر رہے تھے۔ ایسے مواقع پر شرفا بہر حال مصلحت سے کام لیتے ہیں۔ بھائی نے بھی وہی کیا، جو ایسے موقع پر کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے رقم عارف کے سامنے رکھی اور کہا ۔ اگر اس سے زیادہ پیسا خرچ ہوا ہے ، تو بتائیے۔ وہ بھی ہیں ادا کرنے کو تیار ہوں۔ بیٹی کا معاملہ ہے۔ آپ بطور مہمان شادی میں شریک ہو جائیے ، رنگ میں بھنگ نہ ڈالیے۔ عارف نے رقم لے لی مگر شادی میں بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ میرے بھائی بچارے اپنا سا منہ لے کر آگئے۔ ان کی تو بیٹی تھی، انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور اچھے طریقے سے عافیہ کی رخصتی کر دی۔ میں نے شوہر کو منانے کی بہت کوشش کی مگر وہ مان کر نہ دیئے اور شادی میں آئے اور نہ مجھ کو لینے آئے۔ میں چار ماہ بھائی کے گھر بیٹھی انتظار کرتی رہی کہ عارف مجھے عزت کے ساتھ اپنے گھر لے جائیں، گرچہ بھائی کے گھر رہنے میں کوئی تکلیف نہ تھی، لیکن اپنے گھر جائے بنا بھی قرار نہ تھا۔ اللہ نے میری سن لی۔ ایک دن ظہر کے نماز پڑھ کر سلام پھیرا ہی تھا دروازے پر عارف نظر آئے۔ خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ میں لوگوں کی باتوں سے ڈرتی تھی۔ لوگ طرح طرح کے سوال کرنے لگے تھے۔ عارف نے کہا۔ میں صرف تمہیں لینے آیا ہوں، باقیوں سے مجھ کو کوئی سروکار نہیں۔ میں نے بھائی کو بتایا۔ انہوں نے شیر دل کو اپنے پاس روک لیا اور مجھے عارف اپنے ہمراہ گھر لے آئے۔ میرے دل میں دونوں بچوں کی محبت اولاد کی طرح جاگزین تھی، جب کچھ عرصہ ان سے نہ ملی تو بیمار پڑ گئی۔ بیٹی تو بیاہی گئی، مگر شیر دل کی جدائی میں تڑپتی تھی۔ ایک پل اس کو نظروں سے او جھل نہ ہونے دیتی تھی اور اب وہ میرے گھر نہیں آسکتا تھا۔ عارف کو تو کار و بار سے ہی فرصت نہ تھی کہ میرا دھیان کرتے۔ میں اتنی لاغر ہو گئی کہ غم سے آدھی رہ گئی ، مگر عارف اپنی انا کی ہاتھوں دم سادھے ہوئے تھے ۔ جب بھائی کو علم ہوا کہ تو وہ آکر مجھے لے گئے اور علاج کروایا۔ بچوں سے مل کر دل کو راحت پہنچی تو میں صحت مند ہونے لگی۔ سبھی اس بات کو سمجھ گئے کہ مجھے بچوں کی جدائی کھا رہی تھی۔ عافیہ کا گھر قریب تھا، وہ روز میرے پاس آ جاتی۔ گلے سے لگ جاتی، پیار کرتی، اپنے ہاتھوں سے فروٹ کھلاتی۔ دونوں بچوں کی قربت سے میری بیماری آدھی رہ گئی۔ عارف کو جب وقت ملتا مجھ کو دیکھنے آجاتے مگر بچوں کی محبت میں سر شار دیکھ کر ان کا منہ اتر جاتا، جیسے اندر ہی اندر حسد محسوس کرتے ہوں۔ تین ماہ رہ کر آخر گھر چلی گئی۔ کب تک میکے میں رہ سکتی تھی۔ گھر لے جا کر وہ کہتے تھے کہ پرائے بچوں کو اپنا بجھتی ہو، کبھی پرائے بچے بھی اپنے ہوئے ہیں؟ اس بات پر میں رو پڑتی۔ ذہنی طور پر بھی ہیں ان کے تیکھے جملوں کے وار  سہہ کر بیمار پڑ گئی۔ تین سال تک میں نے ان کے طعنے برداشت کیے۔ خدا کی کرنی کہ اچانک ان پر فالج کا اٹیک ہوا تو بستر پر ڈھے گئے۔ ان کے بھائی دور رہتے تھے۔ میں نے فوراً اپنے بھائی کو اطلاع دی۔ وہ اسپتال لے گئے اور جب تک یہ وہاں داخل رہے، وہی ساتھ رہے۔ شیر دل نے بھی تیمار داری میں کسر نہ چھوڑی۔ وہ تو ان کو سگے باپ جیسا سمجھتا تھا۔ بہر حال طبیعت قدرے بہتر ہو گئی ، تاہم چلنے پھرنے اور کام کاج کے نہ رہے۔ انہوں نے شیر دل کو جانے نہ دیا۔ شیر دل کاروبار دیکھتا اور ان کو بھی سنبھالتا، عافیہ بھی روز آ جاتی ، ان کی خدمت کرتی ، اور ان کو بستر پر پڑاد دیکھ کر ابو ، ابو کہہ کر رونے لگتی۔

اب عارف کو احساس ہوا کہ ان بچوں کو پالنا پوست رائیگاں نہیں گیا۔ دونوں بچے ان سے دل سے پیار کرتے ہیں اور اپنے والد کی جگہ ان کو ہی باپ سمجھتے ہیں۔ حقیقت اب ان کو سمجھ میں آ گئی تھی۔ وہ کافی عرصہ بستر پر جیئے۔ بچوں کو گلے لگا کر روتے اور دونوں کا منہ چومتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے۔ شیر دل تو ان کی بیساکھی بن گیا۔ اس نے عارف کو اتنا سہارا اور سکھ دیا کہ ہاتھ اٹھا کر اسے دعا دیتے تھے۔ جب انہوں نے وفات پائی تو شیر دل اور عافیہ بلک بلک کر روئے تھے۔ ان کا قطعی یہ احساس نہ تھا کہ عارف ان کے سگے باپ نہیں ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS