میں اس کی بدلحاظی اور بے مروّتی پر ہکاّ بکاّ رہ گیا۔ میرے لیے اس وقت وہ ایک، بالکل بدلا ہوا انسان تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک لمحے میں اس کے تیور اس حد تک بدل جائیں گے۔ شبیر بھی حیرت اور بے یقینی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس سے مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا اور شبیر کا ہاتھ پکڑ کر باہر آگیا۔
اس کے کمرے سے چند قدم دور نکل آنے کے بعد میں نے شبیر سے کہا۔ ’’یہ شخص پاگل تو نہیں؟‘‘
’’میں نے تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ بہت عجیب سا آدمی ہے… لیکن اتنا زیادہ عجیب ہوگا، یہ مجھے بھی پتا نہیں تھا۔‘‘ شبیر کچھ اس طرح سر جھٹک کر بولا جیسے اس نے کوئی ڈرائونا خواب دیکھا ہو۔
شبیر نے واپس آ کر اپنی دکان کھولی۔ اس کے ہاں سے پانی اور صابن لے کر میں نے اپنا ہاتھ دھویا جو بڑی مشکل سے صاف ہوا۔ اس وقت تک میرا خیال یہی تھا کہ میرا ہاتھ کسی قسم کے پینٹ میں لتھڑا تھا۔ رات ہوئی تو میں گھر آ کر کھانا کھا کر سو گیا۔ اگلی صبح اٹھ کر میں ہاتھ منہ دھونے لگا تو میری نظر اپنے ہاتھ پر پڑی اور بے اختیار میری چیخ نکل گئی۔ میرا دایاں ہاتھ یہی شکل اختیار کر چکا تھا جو آپ نے ابھی دیکھی ہے۔ یعنی یہ ہاتھ کے بجائے کسی بڑے سے گدھ کا پنجا دکھائی دینے لگا تھا اور اس کی حالت وہیں تک تبدیل ہوئی تھی جہاں تک اس پر وہ گاڑھا سرخ سیّال گرا تھا جسے میں رنگ سمجھ رہا تھا۔
اب مجھے ولسن کے وہ الفاظ یاد آئے جو اس نے پیالا گرنے کے بعد بولے تھے، تو بات کچھ کچھ میری سمجھ میں آنے لگی۔ مصوری اس کا شوق، مشغلہ یا پیشہ جو کچھ بھی تھا، اس میں بہرحال کوئی شیطانی چکر شامل تھا۔ معلوم نہیں، اس شخص کے اصل مقاصد کیا تھے اور اس کی اپنی شخصیت کی اصلیت کیا تھی۔ وہ اس غریبانہ علاقے میں نہ جانے کیوں رہ رہا تھا اور عجیب قسم کی پینٹنگز بنانے کے پیچھے اس کا اصل مقصد کیا تھا؟
میں نے چند دن انتظار کیا کہ شاید میرا ہاتھ اپنی اصل حالت پر واپس آ جائے لیکن اس کے کوئی آثار دکھائی نہ دیئے۔ مجھے یقین ہونے لگا کہ کوئی علاج، کوئی دوا اور کوئی بھی طریقہ اسے اس کی اصل حالت میں نہیں لا سکتا تھا۔ یہ ہمیشہ کے لیے ایک مکروہ شکل اختیار کر چکا تھا۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں ولسن کے بارے میں ایک بے عنوان سا خوف بھی موجود تھا، اس کے باوجود ایک روز میں غصے سے مغلوب ہو کر اس کے ٹھکانے کی طرف چل پڑا۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی مجھے یہ اندازہ تھا کہ میں ولسن کا کچھ بگاڑ سکتا ہوں یا نہیں لیکن میں کسی نہ کسی قسم کے ردّعمل کا اظہار ضرور کرنا چاہتا تھا۔ دل کے کسی گوشے میں شاید یہ خواہش بھی موجود تھی کہ میں اس پنجا نما ہاتھ سے ولسن کا گلا گھونٹ دوں۔
میں نے شبیر کو بھی نہیں بتایا کہ میں ولسن کی طرف جا رہا ہوں لیکن جب میں وہاں پہنچا تو میری مایوسی کی انتہا نہ رہی۔ اس کے گھر کے دروازے پر ایک پرانا، بدصورت سا تالا لٹکا ہوا تھا۔ میں نے گلی میں آتے جاتے بچوں سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ ولسن چند روز پہلے سامان سمیت وہاں سے رخصت ہوگیا تھا۔ تب سے اس کا کچھ پتا نہیں تھا اور اسی دن سے دروازے پر تالا پڑا ہوا تھا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے غائب ہوچکا تھا اور کم از کم اس ٹھکانے پر اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔
اس کے بعد میں نے اسے واقعی کبھی نہیں دیکھا لیکن میرا ہاتھ میرے لیے بہت بڑا مسئلہ بن گیا۔ اس ہاتھ کے ساتھ زندگی گزارنا کسی آزمائش سے کم نہیں ہے۔ ہر کوئی اس کے بارے میں سوال کرتا، ہر کوئی اس سے گھن کھاتا یا خوف محسوس کرتا۔ ہر ایک اس کے بارے میں کوئی نہ کوئی مشورہ دیتا لیکن کبھی کسی کا کوئی مشورہ کام نہ آیا۔ میرا دل چاہتا کہ اس ہاتھ کو، چلتی ٹرین کے سامنے پٹری پر رکھ دوں، چھری سے کاٹ کر اپنے وجود سے الگ کردوں یا اسے دیوہیکل مشینوں کے گھومتے ہوئے رولرز کے درمیان پھنسا دوں۔ غرضیکہ کوئی ایسی تدبیر ضرور کروں جو مجھے اس ڈرائونے ہاتھ سے نجات دلا دے، خواہ وہ تدبیر کتنی ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔‘‘
یہاں تک ظفر قاضی کی کہانی سنانے کے بعد آغا وحید نے ایک گہری سانس لی اور صوفے کے پشتے سے ٹیک لگا لی۔ کمرے میں گہرا سناٹا چھا گیا۔ مسٹر اور مسز عباسی نے اس ساری کہانی کے دوران گویا سانسیں بھی آہستگی سے لی تھیں اور منہ سے کوئی لفظ نہیں نکالا تھا۔ وہ ہمہ تن گوش ہو کر یہ کہانی سن رہے تھے۔
چند لمحوں بعد عباسی صاحب نے یہ سکوت توڑا۔ قدرے ہچکچاہٹ سے انہوں نے پوچھا۔ ’’کیا ظفر قاضی کی کہانی یہاں ختم ہوگئی؟ کیا اس کا ہاتھ ویسا ہی رہا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ آغا وحید گہری سانس لے کر بولے۔ ’’میرے وہاں رہنے کے دوران اس کہانی میں ایک اور المناک موڑ آیا۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ عباسی صاحب ذرا چونک کر بولے۔
’’ایک روز میں گھر پہنچا تو شبیر دکاندار نے نہایت متاسفانہ انداز میں مجھے بتایا کہ ظفر کا ہاتھ مشین میں آ کر کچلا گیا ہے اور وہ اسپتال میں ہے۔ اس کا دایاں ہاتھ کچلا گیا تھا جو بھیانک اور کریہہ تھا۔ نہ جانے کیوں یہ خبر میرے لیے غیرمتوقع نہیں تھی۔ میرے دل نے اسی وقت کہہ دیا کہ ظفر نے جان بوجھ کر اپنا ہاتھ مشین میں پھنسایا ہوگا۔ شاید وہ اذیت اس کی برداشت سے باہر ہوگئی تھی جو اس ہاتھ کی وجہ سے اسے محسوس ہوتی تھی۔ اس سے نجات کا شاید کوئی اور طریقہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ میں اور شبیر اسپتال میں اسے دیکھنے بھی گئے۔‘‘
’’تو کیا آپ کے اس خیال کی تصدیق ہوگئی کہ اس نے جان بوجھ کر اپنا ہاتھ مشین میں پھنسایا تھا؟‘‘ مسز عباسی نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’اس نے اقرار تو نہیں کیا لیکن اس کی آنکھوں میں جھانک کر مجھے یقین ہوگیا کہ میرا اندازہ درست تھا۔‘‘ آغا وحید نے جواب دیا۔
’’اس کے بعد سے اس کی زندگی صرف ایک ہی ہاتھ کے ساتھ گزر رہی ہوگی؟‘‘ مسز عباسی بولیں۔
’’یقیناً۔‘‘ آغا وحید نے جواب دیا۔ ’’لیکن میرا اس واقعے کے بعد زیادہ دن اس سے رابطہ نہیں رہا تھا۔ میرے سامنے وہ تین چار دن بعد اسپتال سے گھر آگیا تھا لیکن مزید کچھ پٹیاں اس کے بازو پر لپٹی رہی تھیں۔ پٹیاں کھلنے کے بعد وہ ڈیوٹی پر بھی جانے لگا اور ایک ہی ہاتھ سے اپنے معمولاتِ زندگی بھی انجام دینے کا عادی ہونے لگا۔ میں اس دوران انڈیا سے آگے، سری لنکا کی طرف روانہ ہوگیا تھا۔ کئی سال بعد میں ایک بار پھر انڈیا گیا لیکن پھر میری کبھی اس سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ اس کے بارے میں کچھ پتا چلا۔‘‘
کچھ دیر کے لیے ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ آخر آغا وحید نے گھڑی پر نظر ڈالی اور اٹھتے ہوئے بولا۔ ’’اب میں چلتا ہوں۔ کل میں پھر آئوں گا اور آپ کو ایک اور پُراسرار کہانی سنائوں گا۔‘‘
عباسی صاحب اور ان کی بیگم آغا وحید کو رخصت کرنے گیٹ تک آئے۔
٭ … ٭ … ٭
آغا وحید دوسرے روز حسب وعدہ رات کے کھانے کے وقت آن پہنچا۔ انہوں نے اکٹھے کھانا کھایا، اس کے بعد کافی کا دور چلا۔ کافی سے لطف اندوز ہونے کے بعد آغا وحید نے کسی پرانے داستان گو کی طرح اپنی ذمے داری سنبھال لی اور چند لمحے پُرخیال انداز میں خاموش رہنے کے بعد کہنا شروع کیا۔ ’’اس کہانی تک میری رسائی اتفاقاً ہوگئی تھی اور اس کا تعلق جاپان سے ہے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں مجھے اس قسم کے واقعے سے واسطہ پڑے گا۔ سیاحت اور آوارہ گردی بھی ایک عجیب مشغلہ ہے۔ اس کے دوران ہر ملک کا کوئی نہ کوئی ایسا پہلو آپ کے سامنے آتا ہے جس کے بارے میں شاید آپ کتابوں، فلموں اور سفرناموں سے کچھ نہ جان سکیں۔‘‘
ایک لمحے کے توقف کے بعد آغا وحید نے سلسلۂ کلام جوڑا۔ ’’یہ تقریباً پچیس سال پرانی بات ہے۔ میں ان دنوں ٹوکیو میں تھا۔ ذرا اچھے طریقے سے گزر بسر کرنے کے لیے میں نے کچھ فاضل رقم کمانے کی ٹھانی۔ شاید آپ کے علم میں ہو کہ اتنے سال پہلے بھی ٹوکیو دنیا کے نہایت مہنگے شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ ایک روز وہاں کے ایک انگریزی اخبار میں مختصر اشتہارات کے کالم میں دو تین سطروں کا ایک اشتہار میری نظر سے گزرا۔ ایک مقامی کالج میں عارضی طور پر انگریزی کے لیے ایک وزیٹنگ لیکچرر کی ضرورت تھی جس کے لیے غیرملکی بھی رجوع کرسکتے تھے۔ میرے خیال میں جاپانیوں کو وزیٹنگ لیکچرر کے طور پر انگریزی پڑھانا میرے لیے کوئی زیادہ مشکل کام نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے فون کے ذریعے اپنی خدمات پیش کردیں۔ مجھے فوراً ہی بلا لیا گیا اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں میرے سوا کوئی امیدوار موجود نہیں تھا۔ چنانچہ یوں سمجھیے کہ میں بلامقابلہ ہی منتخب ہوگیا۔ دوسرے ہی روز سے میں نے وہاں پڑھانا شروع کردیا۔ مجھے صرف ایک پیریڈ لینا ہوتا تھا اور فی گھنٹہ کے حساب سے میرا معاوضہ مقرر ہوا تھا جو پارٹ ٹائم کام کرنے کے لیے مجھ جیسے ضرورت مند سیاح کے لیے معقول تھا۔
میری کلاس میں اٹھارہ لڑکے اور لڑکیاں تھیں۔ ان میں سے ایک لڑکے پر نہ جانے کیوں شروع سے ہی میری توجہ مرتکز ہوگئی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ زرد سے چہرے والے اس دبلے پتلے لڑکے کی وضع قطع نہایت قدیم جاپانیوں جیسی تھی جبکہ ٹوکیو آج سے پچیس سال پہلے بھی اتنا جدید شہر نظر آتا تھا جس کا ہم آج بھی تصور نہیں کرسکتے۔ خاص طور پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تو ماحول خاصا آزادانہ اور مغربی سا دکھائی دیتا تھا۔ ایسے میں، اداس سے چہرے والا وہ انتہائی سنجیدہ اور اکثر پرانی طرز کے لباس میں دکھائی دینے والا لڑکا کچھ عجیب سا اور الگ ہی دکھائی دیتا تھا۔‘‘
ایک لمحے کی خاموشی کے بعد آغا وحید نے سلسلۂ کلام جوڑا۔ ’’غنیمت یہ تھا کہ کلاس میں کوئی اس کا مذاق نہیں اُڑاتا تھا۔ میں نے کئی ملکوں کے طلباء و طالبات کو قریب سے دیکھا ہے۔ جاپان کے اسٹوڈنٹس کو میں نے دوسرے ملکوں کے اسٹوڈنٹس سے بہت مختلف پایا۔ وہ اپنی تمام تر کم عمری کے باوجود بہت سنجیدہ اور بُردبار ہوتے ہیں۔ ان کی توجہ تعلیم کی طرف رہتی ہے اور وہ اپنا مستقبل بنانے کے لیے بہت جدوجہد کرتے ہیں۔ اپنے گرد و پیش سے عام طور پر بے نیاز رہتے ہیں۔ کسی بھی چیز کو جواز بنا کر اپنے کسی ساتھی کا مذاق اُڑاتے ہیں اور نہ ہی کسی سے لڑتے جھگڑتے ہیں۔
میں جس خاص طالب علم کا ذکر کر رہا ہوں، اس کا نام یوکو ہارا تھا۔ اس کی قدیم وضع قطع اور مختلف طور طریقوں کے باوجود کوئی اس کا مذاق نہیں اُڑاتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ تمام لڑکے لڑکیاں اس کی بہت عزت کرتے تھے کیونکہ وہ بہت ذہین تھا اور تعلیم میں سب سے آگے تھا۔ ہر ٹیسٹ میں وہ سب سے زیادہ نمبر لیتا تھا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اپنی قدیم وضع قطع کے باوجود اسے جدید دنیا کے بارے میں ہر بات کا پتا تھا اور وہ تمام جدید علوم کے بارے میں کچھ نہ کچھ شدھ بدھ رکھتا تھا۔ مجھے اس کی سنجیدگی اور سلجھی ہوئی عادات کی وجہ سے اس سے ایک قسم کی اُنسیت سی ہوگئی تھی۔
وہ انگریزی میں چھوٹے چھوٹے مضامین بھی لکھتا تھا جن کا اس کی تعلیم یا نصاب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ مضامین وہ صرف شوقیہ طور پر لکھتا تھا جن میں اس کے آبائی علاقے کا ذکر ہوتا تھا۔ ان مضامین اور پھر اس کی باتوں سے مجھے پتا چلا کہ جاپان کے کچھ دورافتادہ حصے اس زمانے میں بھی جدید زندگی کی سہولتوں اور ماحول سے ناآشنا تھے اور اس کی وجہ ان کی حکومت یا ادارے نہیں، بلکہ وہ خود تھے۔ انہیں اپنی قدیم روایتوں، اپنے ماحول اور پرانے رہن سہن سے محبت تھی اور وہ اسی طرح ’خالص‘ اور ’فطری‘ ماحول میں رہنا چاہتے تھے۔ وہ چونکہ ویسے بھی دوردراز اور دشوار گزار علاقوں میں رہتے تھے جو صدیوں سے ان کے آبائواجداد کے مسکن تھے، اس لیے انہیں گویا ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ انہیں جب جدید زندگی کی آسائشوں اور سہولتوں کی طلب ہی نہیں تھی تو کوئی بھلا ان کے پیچھے کیوں پڑتا؟
یوکو ہارا اتنے خوبصورت انداز میں اپنے گائوں اور اس کے اردگرد کے علاقوں کا ذکر کرتا اور اپنے مضامین میں اس طرح چھوٹے چھوٹے واقعات کو ان مقامات کے تذکرے سے جوڑ دیتا کہ وہ ایک قسم کی چھوٹی چھوٹی، دلچسپ کہانیوں کی صورت اختیار کر جاتے۔ میں نے اس کے یہ مضامین پڑھ کر اس کی ہمت افزائی اور رہنمائی کی، اسے مشورہ دیا کہ وہ انہیں ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں اشاعت کے لیے بھیجا کرے۔ میرے اس مشورے پر عمل درآمد کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ تاہم میرے اور اس کے درمیان قربت بڑھتی گئی۔ اس کے انداز و اطوار میں مجھے پرانے مشرقی معاشرے کی جھلک محسوس ہوتی۔ بہت جلد میرے دل میں اس کے لیے گہری اپنائیت پیدا ہوگئی۔ وہ بھی مجھے استاد سے زیادہ، اپنے گھر کے کسی بزرگ کا سا درجہ دیتا۔
وہ اپنے مضامین میں جن مقامات کا ذکر کرتا تھا، میرے دل میں انہیں دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہو چکا تھا۔ میں ویسے بھی گھر سے نکلا ہی سیر و سیاحت کے لیے تھا، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ میں نے اپنی زندگی ہی سیر و سیاحت کے لیے وقف کردی تھی۔ میں ہر ملک سے زیادہ بہتر طور پر شناسا ہونے کے لیے وہاں اپنا قیام طویل کردیتا تھا اور مختلف حیلے بہانوں سے اپنا ویزا بڑھواتا رہتا تھا اور ہر ملک کے ایسے ایسے دور افتادہ مقامات پر بھی پہنچ جاتا تھا جہاں پہنچنے کا عام سیاح تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ دس بارہ برس پہلے تک یہ کام کسی پاکستانی سیاح کے لیے زیادہ مشکل بھی نہیں تھے، اور جن دنوں کا میں ذکر کر رہا ہوں، ان دنوں تو سب کچھ بہت آسان تھا۔ خیر… میں یہ بتانے لگا تھا کہ ایک روز میں نے یونہی سرسری سے انداز میں یوکو ہارا کے آبائی علاقوں کے بارے میں اپنے تجسس اور اشتیاق کا اظہار کردیا۔ وہ فوراً ہی اصرار کرنے لگا کہ میں آئندہ تعطیلات میں اس کے ساتھ چلوں اور اس کا مہمان بنوں۔ وہ لوگ بھی ہمارے مشرقی معاشرے کی روایات کے مطابق مہمان کو باعث رحمت سمجھتے تھے۔
اس نے اتنا اصرار کیا کہ مجھے اس کی دعوت قبول کرنا پڑی۔ موسم بہار کی تعطیلات شروع ہونے والی تھیں۔ پہلی چھٹی سے ایک شام پہلے ہی ہم اپنے مختصر سے بیگ اٹھا کر سفر پر روانہ ہوگئے۔ ٹوکیو سے ہم نے پہلے تو الیکٹرک ٹرین میں چار گھنٹے سفر کیا۔ آرام و آسائش اور رفتار کے اعتبار سے یہ ٹرین کیا تھی، ایک قسم کا ہوائی جہاز ہی تھی۔ ٹرین سے اتر کر ہم ایک شاندار بس میں بیٹھے۔ میرے لیے تو وہ بھی کسی چھوٹے موٹے ہوائی جہاز سے کم نہیں تھی۔
اس بس نے ہمیں ایک چھوٹے سے شہر کے مضافاتی بس اسٹاپ پر چھوڑا جو ایک پُرشور پہاڑی ندی کے قریب واقع تھا۔ ایک تنگ سے پُل کے ذریعے اس ندی کو عبور کر کے ہم دوسری طرف ایک پہاڑی سلسلے کے دامن میں پہنچے۔ وہاں ہمیں ایک جیپ کرائے پر حاصل کرنا پڑی۔ کرائے کے لیے یوکو ہارا نے بھائو تائو کیا۔ اس سفر نے مجھے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی یاد دلا دی۔ جیپ نے تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہمیں ایک چھوٹے سے گائوں میں پہنچا دیا۔ اس گائوں میں لمبا سا ایک بازار دور تک چلا گیا تھا لیکن اس کی چوڑائی چند فٹ سے زیادہ نہیں تھی۔
گو کہ ہم ایک طویل فاصلہ طے کر چکے تھے لیکن اس کوہستانی سلسلے کی حدود سے نہیں نکلے تھے جو مجھے بس سے اُترنے کے بعد نظر آیا تھا۔ یوکوہارا نے اس پہاڑی سلسلے کی سب سے بلند چوٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ اس کا نام ہکوسان تھا۔ یہ چوٹی موسم بہار میں بھی برف سے ڈھکی ہوئی تھی اور بادلوں میں مدغم ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ یوکو ہارا نے مجھے بتایا کہ یہ چوٹی سال کے بارہ مہینے ہی برف سے ڈھکی رہتی تھی۔
ہم جس گائوں میں پہنچے تھے، وہ بھی ہماری منزل نہیں تھا۔ ابھی ہمیں کچھ سفر پیدل کرنا تھا۔ یوکو ہارا نے مجھے بتایا تھا کہ اس کا گھر ایک الگ تھلگ پہاڑی پر واقع تھا اور اس سے قریب ترین آبادی یہی گائوں تھا۔ یوکوہارا کے خاندان کی طرح جو لوگ اِدھر اُدھر پہاڑوں پر گھر بنا کر بیٹھے ہوئے تھے بلکہ یوں کہیے کہ، بکھرے ہوئے تھے، وہ سب سودا سلف اور ضروریاتِ زندگی کی دوسری چیزیں خریدنے اسی گائوں میں آتے تھے۔
جب ہم نے پیدل سفر شروع کیا تو شام کے سائے پھیلنے لگے تھے۔ یوکو ہارا نے گائوں کی ایک دکان سے ایک جاپانی قندیل خرید لی تھی۔ اسے آپ ایک طرح کی لالٹین کہہ سکتے تھے مگر وہ لالٹین کے مقابلے میں ذرا چھوٹی اور زیادہ خوبصورت تھی۔ گائوں سے نکلنے کے بعد ہمیں ایک جنگل سے بھی گزرنا پڑا۔ حالانکہ اس جنگل میں مجھے کسی خطرناک جانور، درندے یا کسی ڈرائونی مخلوق کی موجودگی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیئے، اس کے باوجود میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں تنہا ہوتا تو شاید اس کو عبور کرنے کی ہمت نہ کر پاتا اور واپس لوٹ جاتا۔ یوکو ہارا کی موجودگی نے مجھے حوصلہ دیئے رکھا اور میں اس کی رہنمائی میں چلتا رہا۔
ہم جنگل سے نکلے تو رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے نے دامن پھیلا لیا تھا۔ جنگل سے گزرتے وقت، ہمیں اس سے پہلے ہی رات کا سماں نظر آیا تھا۔ ہمارے سفری بیگ ہماری پیٹھ پر تھے اور ان کی بندشیں ہمارے کندھوں سے لپٹی ہوئی تھیں۔ جاپانی قندیل کی روشنی میں ہم ایک ناہموار اور بتدریج بلند ہوتی ہوئی تنگ سی پہاڑی پگڈنڈی پر چلے جا رہے تھے۔ اس روشنی میں بہ مشکل چند قدم آگے تک کا راستہ دکھائی دے رہا تھا۔
مجھے کچھ یوں لگ رہا تھا جیسے ہم ٹائم مشین کے ذریعے اُلٹا سفر کر کے کسی قدیم دور میں پہنچ گئے تھے۔ کہاں ٹوکیو کی وہ بلند و بالا، جگمگاتی اور جدید عمارتیں، کشادہ سڑکیں اور جدید گاڑیاں، کہاں اس دورافتادہ ویرانے کا یہ تاریک پہاڑی راستہ…!
میں اس بات پر بھی حیران تھا کہ اس دورافتادہ اور پسماندہ علاقے کا یہ نوجوان، جس کا نام یوکوہارا تھا، ٹوکیو کے کالج تک کیسے پہنچ گیا تھا؟ وہ اچھی خاصی انگریزی لکھنا، پڑھنا اور بولنا کیسے جانتا تھا؟ پھر مجھے یاد آیا کہ اس سے کبھی کبھار ہونے والی گفتگو سے پتا چلتا تھا، وہ اس علاقے کے کسی ممتاز اور خاص گھرانے کا فرد تھا۔ تعلیم کی غرض سے وہ کمسنی میں ہی شہروں کی طرف نکل گیا تھا اور اس کی زیادہ عمر ہوسٹلوں میں گزری تھی۔ اس نے حکومت کی ان اسکیموں سے بھی کافی استفادہ کیا تھا جو وہ دورافتادہ اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں بناتی تھی۔ جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں، اس زمانے میں تھوڑے بہت ایسے علاقے موجود تھے۔
یوکوہارا نے مجھے بتایا کہ اس علاقے میں اس کے آبائواجداد کا بنوایا ہوا ایک مندر بھی ہوا کرتا تھا جس کے اب صرف کھنڈرات ہی باقی رہ گئے تھے۔ جس راستے پر ہم چل رہے تھے، وہ بھی درحقیقت پتھروں سے بنی ہوئی ایک چھوٹی سی سڑک تھی جو اس مندر کے ساتھ ہی تعمیر ہوئی تھی لیکن سالہاسال سے وہ سڑک برف اور بارش کے طوفان برداشت کر رہی تھی، اس لیے اس کے پتھر اکھڑ گئے تھے اور اب وہ محض ایک شکستہ پہاڑی پگڈنڈی تھی۔