Friday, September 20, 2024

Pyar Anmol Hota Hae | Teen Auratien Teen Kahaniyan

ہم صوبہ پنجاب کی ایک بستی کے رہنے والے تھے۔ چونکہ بستی کی ساری زمین میرے دادا اور ان کے بھائیوں کی مشترکہ تھی لہٰذا سبھی ایک بڑے سے آنگن والے احاطے میں اکٹھے رہتے تھے۔ سب کے گھر علیحدہ مگر چار دیواری ایک تھی۔
جب بھی ہماری بستی میں کسی رشتے دار کی شادی ہوتی ’’ریچھ اور کتوں کی لڑائی‘‘ کا تماشا بھی ہوتا۔ گویا کہ ڈھول باجے اور شہنائی کے ساتھ یہ تماشا شادی کی تقریب کا لازمی حصہ تھا۔
جب یہ تماشا شروع ہوتا، نزدیک کی بستیوں سے بھی لوگ یہاں آکر جمع ہوجاتے اور دائرے کی صورت میں مجمع لگ جاتا تھا۔ پالتو جانوروں کا یہ دنگل عموماً صبح دس گیارہ بجے شروع کیا جاتا تھا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہتا تھا۔ پھر اس کے بعد کھانے کی تقسیم شروع کردی جاتی تھی۔
ان دنوں میرے چچا چراغ کی شادی تھی اور میں ابھی چھوٹی تھی۔ تقریباً آٹھ برس عمر تھی اور مجھے پردے میں نہیں بٹھایا گیا تھا۔ میں خوش تھی کہ چچا کی شادی میں عربی ریچھ کا دنگل دیکھنے کو ملے گا۔
مجھے اس تماشے کا بڑا انتظار رہتا تھا جو صرف تقریبات میں ہی ہم دیکھ سکتے تھے۔ اس سے پہلے اپنے ایک کزن کی شادی پر ہم نے یہ دنگل دیکھا تب میں چھ برس کی تھی اور مارے خوف کے اپنے بڑے بھائی سے چمٹی رہی تھی۔
بتاتی چلوں کہ ہماری بستی کے آخری سرے پر کھلے میدان میں کچھ فقیروں کے ڈیرے تھے جن کا کام ریچھ پالنا اور ان کو کتوں سے لڑائی کے لیے تیار کرنا تھا۔ ان ریچھ والے فقیروں کے پاس تین چار پالتو ریچھ تھے جن میں بہادر، سب سے بہترین اور نڈر تھا۔ کسی شادی پر تماشا کرانا ہوتا تو اس کے مالک روشی سے رابطہ کیا جاتا تھا۔ اس کا نام تو کچھ اور تھا مگر وہ ’روشی فقیر‘ کہلاتا تھا۔
میلوں ٹھیلوں کے مواقع پر بھی لوگ اسی کو مدعو کرنا پسند کرتے تھے کیونکہ اس کا ریچھ بڑا تگڑا اور جی دار تھا۔ جب اس کی لڑائی کتوں سے کرائی جاتی تھی، وہ نہایت دلیری اور طاقت کا مظاہرہ کرتا تھا۔
آخر وہ دن آپہنچا۔ چچا کے ولیمے سے چند گھنٹے پہلے لڑائی کا انتظام کیا گیا۔ ہم بچوں میں تو جیسے کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ پل پل نہیں گزر رہا تھا۔ بچے تو ہوتے ہی ہے ایسے تماشوں کے لئے بے چین ہیں۔
دنگل کی منادی ہونے لگی۔ دیکھتے دیکھتے قریبی کھلا میدان لوگوں سے پٹ گیا۔ قرب و جوار سے مرد، لڑکے، بچے اور بچیاں دوڑے آرہے تھے۔ یہ میدان ہمارے احاطے سے قریب تھا اور ہمارے گھروں کی چھتوں سے تمام نظارہ باآسانی دیکھا جاسکتا تھا۔ چھتوں پر چھوٹی منڈیروں کے ساتھ لگا کر بان کی چارپائیاں کھڑی کردی گئی تھیں، ان کے پیچھے سے گھر کی عورتیں بھی اس دنگل کو دیکھ سکتی تھیں۔
بگل بجا کر دنگل شروع کردیا گیا۔ میدان کے بیچوں بیچ ایک مضبوط کھونٹا گڑھا ہوا تھا۔ کتے تعداد میں چار تھے جن کو ان کے مالک ساتھ لے کر آئے تھے۔ ہر ایک نے اپنے کتے کا پٹا پکڑا ہوا تھا۔ یہ سب لوگ بڑی سی چارپائی پر بیٹھ کر ریچھ کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔ مجھے کتوں سے بہت ڈر لگتا تھا، اس لئے آگے بچوں کی قطار میں کھڑی ہونے کی بجائے پیچھے جا بیٹھی۔ جہاں کچھ چارپائیاں مہمانوں کے لیے بچھی ہوئی تھیں۔ وہاں ابا بھی ایک چارپائی پر براجمان تھے لہٰذا میں ان کے قریب ہو بیٹھی۔ ہم سب کی نظریں اس جانب لگی تھیں، جدھر سے ریچھ اور فقیر نے آنا تھا۔ اچانک ہی غلغلہ اٹھا۔ وہ دیکھو وہ آگیا، آگیا۔
میں نے سامنے نگاہ کی۔ ایک اونچے قد کا تندرست توانا ریچھ بڑی شان سے چلتا آرہا تھا۔ اس کے جسم پر کالے چمکدار بالوں کا جنگل سا اگا ہوا تھا۔ آنکھیں چھوٹی چھوٹی گلے میں سفید سا انگریزی کے حرف ’’وی‘‘ شکل کا نشان جیسے سفید بالوں کا ہار کہنا چاہیے۔
گلے میں یہ سفید گانی اس کے حسن میں اضافہ کررہی تھی۔ چمکیلے بالوں اور خوبصورت قدوقامت کی وجہ سے اس کو حسین ہی کہنا چاہیے۔ لگتا تھا کہ مالک اسے بہت اچھی خوراک کھلاتا تھا۔ لوگوں نے راستہ دیا۔ وہ ان کے دائرے کے درمیان سے قدم قدم چلتا قریب آگیا۔ اس کو اپنی اہمیت اور قوت کا بھی احساس تھا تبھی تو اس قدر بے نیازی اور سکون کے ساتھ نپے تلے قدموں سے چل رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر شکاری سدھارے ہوئے کتے بھی بے چینی محسوس کرنے لگے۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ ان کا مدمقابل آچکا ہے۔
کتوں کو بھی ان کے مالکوں نے دائو پیچ سکھا رکھے تھے۔ یہ نہایت پھرتیلے اور چاق و چوبند نظر آرہے تھے۔ قدرآور تھے اور چمکتی آنکھوں سے اپنے حریف کو گھور رہے تھے۔ سردیوں کی ہلکی دھوپ میں ریچھ کی گلابی تھوتھنی چمک رہی تھی جس میں پڑی نکیل کو جس نے تھام رکھا تھا، وہ ایک نازک اندام نوخیز دوشیزہ تھی۔ وہ فقیر سائیں کی بیٹی تھی اور نام ملوکاں تھا۔
سبھی کو تعجب ہوا کہ فقیر کی جگہ اس کی خوبصورت لڑکی نے ایسے ڈرائونے جانور کی نکیل پکڑی ہوئی ہے۔ اور یہ خوفناک جانور بھی اس کے پوری طرح تابع نظر آرہا تھا۔ وہ بہت سبک رفتاری سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اپنے ریچھ کے آگے آگے خراماں تھی۔ کھونٹے کے پاس آکر وہ ٹھہر گئی اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی تھی تبھی اس کا باپ مجمع کو چیر کر نکلا اور ان کے قریب آگیا۔ اس نے رسے کو کھونٹے سے باندھ دیا جس کے ساتھ ریچھ کی زنجیر نتھی تھی۔
ملوکاں نے اپنے پالتو جانور کی پیٹھ کو تھپتھپایا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس نے فوراً اس کے حکم کی تعمیل کی۔ کتے سرخ زبانیں نکال کر ریچھ پر جھپٹ پڑے۔ یہ بڑا معرکے کا مقابلہ تھا۔ ریچھ بندھا ہوا تھا جبکہ چار آزاد خونخوار کتے اچھل اچھل کر اس پر حملہ کررہے تھے۔
دس پندرہ منٹ یہ ہی نظارہ چلتا رہا اور کتے باری باری خراشیں برداشت کرتے رہے۔ بہادر نے یکے بعد دیگر دو کتوں کو بھیگے کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح مروڑ کر دور پھینک دیا۔ اب میدان میں دو حریف بچ گئے۔ تماشائیوں کے منہ سے عجب عجب آوازیں نکل رہی تھیں۔ کتوں کا بھونکنا اور ریچھ کی غضب ناک غراہٹیں سچ مچ بڑا دہشت ناک سماں تھا۔ بچپن میں دیکھا ہوا یہ تماشا میں عمر بھرنہ بھلا سکی۔ اس وقت تو میرا دل اور تن دونوں ہی کانپ رہے تھے اور میں ابا کے ساتھ لگ کر بیٹھی تھی۔ تجسس کے جذبات اس جگہ سے ہلنے بھی نہ دے رہے تھے کہ گھر کے اندر چلی جاتی۔
مجھے یاد ہے روشی فقیر کی بیٹی ملوکاں کا سرخ و سفید چہرہ لال بھبھوکا ہورہا تھا۔ اس نے دونوں بازوئوں میں سفید رنگ کا چوڑا پہنا ہوا تھا اور بار بار چوڑے والی بانہہ کو ہوا میں بلند کرکے اپنے ریچھ کی ہمت بڑھا رہی تھی۔ وہ ہجوم میں سب سے آگے کھڑی تھی اور منہ سے کچھ عجیب طرح کی بولی نکال رہی تھی جس کو صرف اس کا بہادر ہی سمجھ سکتا تھا۔ جب وہ ایسی آواز بلند کرتی، ریچھ اور زیادہ تیزی اور طاقت سے اپنے دشمنوں پر حملہ آور ہوجاتا تھا۔ حملہ کرتے ہوئے وہ ایک بار ضرور اپنی مالکہ کی طرف دیکھتا جیسے کہتا ہو، فکر نہ کرو میں جیت کر دکھادوں گا۔
لگتا تھا کہ ملوکاں کی موجودگی ہی اس کا حوصلہ تھی۔ اس کی آواز جانور کے لیے ایک کھلے چیلنج کی طرح تھی۔ جب وہ ہاتھ اٹھا کر ایک خاص طرح سے ہو ہو کی صدا بلند کرتی تھی، ریچھ بے جگری سے ڈٹ جاتا تھا۔
آدھ گھنٹے ہی یہ دنگل جاری رہ سکا۔ باقی دونوں کتوں کی اگلی ٹانگیں بھی اس وحشی نے اپنے آہنی پنجوں میں دبا کر توڑ ڈالیں تو کتوں کے مالک بلبلا اٹھے اور دنگل ختم کردینے کا مطالبہ کردیا۔
کتوں کے مالکان روتے پیٹتے ان کو اٹھا کر لے گئے، وہ لہولہان تھے۔ ملوکاں فاتحانہ انداز سے اپنے بہادر کے پاس آگئی۔ وہ بھی زخمی تھا اور ہانپ رہا تھا مگر ملوکاں کا قرب پاتے ہی اس کی انکھیوں میں
کسی سچے عاشق ایسا سرور بھرگیا۔
کھانا کھل گیا تھا۔ منادی ہورہی تھی کہ مہمان سب شامیانے میں پہنچ جائیں، کھانے کی تقسیم شروع ہے۔ ہم بچے بھی بھاگ کر گھروں میں چلے گئے۔ آج مجھ سے کھانا نہیں کھایا جارہا تھا کیونکہ ذہن پر ریچھ اور کتوں کی لڑائی حاوی تھی۔ آخری بار یہ جانوروں کا دنگل دیکھا تھا، اس کے بعد تو مجھے پردے میں بیٹھا دیا گیا۔ مگر میرا حساس ذہن یہ سوچتا ضرور تھا کہ کاش ایسا تماشا پھر کوئی نہ ہو جس میں بے زبان جانور دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنی جانیں دیتے تھے۔
وقت گزرتا رہا۔ میں بڑی ہوگئی۔ پھر میری شادی اپنے رشتے داروں میں ہوگئی۔ سسر صاحب زمیندار تھے اور میں بیاہ کر قریبی گائوں گئی تھی۔ ان دنوں تقریبات کا حسن بڑھانے کی خاطر ریچھ اور کتوں کی لڑائی کا رواج عام تھا۔ لہٰذا ایک روز سسر صاحب اپنے دوست کے بیٹے کی شادی میں گئے تو واپسی میں ہماری ساس سے تذکرہ کیا کہ وہ ایک ریچھ خریدنا چاہتے ہیں تاکہ جب تفنن طبع کو جی چاہے تو جانوروں کا دنگل کرالیا جائے۔
اماں جی بولیں۔ وہ تم جب چاہو کراسکتے ہو، پھر ریچھ کو خرید کر یہ بلا مستقل پالنے کی کیا ضرورت ہے۔ کہنے لگے آج جو دنگل ہوا، ایسے ریچھ کا معرکہ دیکھا کہ اس جانور نے تو میرا دل ہی لوٹ لیا۔ اتنا شاندار جی دار کبھی نہیں دیکھا۔ واقعی اس کا دنگل دیکھ کر مزا آگیا، تبھی سوچا کہ اس شاندار جانور کو خرید ہی لینا چاہیے۔
میرے سسر شکاری تھے۔ ان کو اچھی نسل کے کتے پالنے کا بھی بہت شوق تھا۔ ساس تو منع کرتی تھیں مگر وہ بھی اپنی مرضی کے مالک تھے۔ بہرحال ایک روز میں نے سنا کہ چچا جان نے روشی فقیر کو بلوایا ہے۔
معلوم تھا کہ کیوں اور کس غرض سے بلوایا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ان کے ’’بہادر‘‘ کو خریدنا چاہتے تھے۔ جب فقیر سے مدعا بیان کیا اور منہ مانگا معاوضہ دینے کی بھی پیش کش کی تو فقیر گھگھیانے لگا۔ ہاتھ جوڑ کر بولا۔ آپ ساہوکار ہیں، مجھے ریچھ کو فروخت کرنے سے عار نہیں، بلکہ اب تو یہ میرے لئے وبال جان ہے۔ مگر میں اس کو فروخت نہیں کرسکتا۔ جب بھی بیچنا چاہا ملوکاں آڑے آجاتی ہے۔ وہ بن ماں کی بچی ہے اور میری اکلوتی اولاد ہے۔ یہ ریچھ جب بچہ تھا تب میں اسے لایا تھا۔ ان دنوں ملوکاں بھی چھوٹی سی بچی تھی اور ایک طرح سے دونوں بِن ماں کے بچے تھے۔
دونوں کو میں نے پیار سے پالا۔ بہادر کو بھی ایسے ہی محبت سے جیسے ملوکاں کو۔ دونوں جھگی میں اکٹھے رہتے تھے، سو ان میں دوستی ہوگئی۔ یہ ان کی دوستی بچپن کی ہے، تبھی ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے، اداس ہوجاتے ہیں۔ روشی فقیر نے مزید بتایا۔
صاحب دوبار بہادر کو بیچا بھی ہے کیونکہ اس کی خوراک کے لیے کبھی کبھی بہت پریشان ہونا پڑتا ہے۔ جب اپنے لیے کچھ نہ ہو تو جانور کو اچھی غذا کہاں سے ملے گی۔ اوّل دن سے بہادر کو اچھا کھانے کی عادت ہے۔ جہاں سے جو کچھ ملے اسی کی تواضع میں خرچ ہوجاتا ہے۔ تماشے کا معاوضہ، انعام و اکرام شوقین تماش بینوں کی نوازشیں… کبھی کبھی مشکل دن بھی آجاتے ہیں تب پھر بھیک مانگ کر میں اس بے زبان کا پیٹ بھرتا ہوں لیکن اس کے کھانے میں کمی نہیں کرتا۔
تم اپنے بہادر سے جب چاہو مل جانا۔ ملوکاں بھی آسکتی ہے۔ لیکن اسے مجھے ہر قیمت پر خریدنا ہے روشی بابا… آپ مالک ہیں صاحب، میں پھر کہتا ہوں یہ آپ کے کسی کام کا نہیں، اسے مت خریدیئے۔ یہ صرف اسی وقت لڑنے پر آمادہ ہوتا ہے جب ملوکاں اس کی نکیل اپنے ہاتھوں سے تھام کر تماشا گاہ میں لے جاتی ہے اور میدان میں اس کے سامنے کھڑی رہتی ہے۔ ورنہ یہ لڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ ایک پِلے سے بھی نہیں بھڑ سکتا۔ بس مٹی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔
کیسی بات کرتے ہو روشی بابا… ایسا کیونکر ہوسکتا ہے۔ لڑنا بھڑنا ان کی فطرت ہے، یہ وحشی جانور ہیں، حریف کو دیکھتے ہی پل پڑتے ہیں۔ تم جھوٹ بول رہے ہو، اپنا جانور بیچنا نہیں چاہتے۔
مالک، یقین نہیں ہے تو بے شک آزما کر دیکھ لیں۔ بغیر ملوکاں کے دنگل میں اتار کر دیکھ لیں اسے، کتے اس کی بوٹیاں کر ڈالیں گے، یہ ہلنے کا نہیں۔ خود آپ کو اسے چھڑانا پڑے گا شکاریوں کے پنجوں سے۔ یہ بے غیرت ملوکاں کے بغیر دو کوڑی کا نہیں ہے۔
روشی بابا کی باتیں سن کر سسر صاحب نے ریچھ کو خریدنے کا خیال ترک کردیا۔ وہ جانور پالتے تھے، ان کو پتا تھا کہ جانور کا انسان سے پیار ایسا ہی ہوتا ہے۔ کئی بار دوستوں سے ان کے اعلیٰ نسل کے پالتو کتے لائے تھے مگر وہ اپنے سابقہ مالک کی جدائی میں اس قدر بیمار ہوگئے کہ واپس کرنا پڑا۔ کیونکہ سب سے پہلے تو وہ کھانا پینا چھوڑ دیتے تھے۔
وقت گزرا، یہ بات بھی آئی گئی ہوگئی۔ یہاں تک کہ بیس برس بیت گئے۔ ایک روز میں اپنی ملازمہ سے صحن میں گندم صاف کرارہی تھی، اچانک ایک ادھیڑ عمر عورت حویلی میں داخل ہوئی۔ آتے ہی پانی مانگا۔ اس دن دھوپ تیز تھی، گرمی بھی بہت تھی۔ میں نے اسے برآمدے میں بیٹھنے کو کہا، پھر ملازمہ کو ہدایت کی کہ اس کو ٹھنڈا پانی دو۔
عورت کافی پیاسی تھی، غٹاغٹ پانی پی گئی۔ وہ خانہ بدوش لگتی تھی اور نڈھال سی ہورہی تھی۔ میں نے پوچھا۔ کھانا کھائوگی؟ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ ملازمہ کہ اشارہ کیا، وہ چاول کی سینی بھر لائی اور اس کے آگے رکھ دی۔ نام کیا ہے تمہارا؟ ملوکاں… اس نے کہا تو میرے ذہن میں بجلی سی کوند گئی۔ یہ صورت پہلے بھی دیکھی تھی مگر اب وقت نے اس خوبصورت تصویر کو بگاڑ دیا تھا۔
ذہن پر زور دے کر سوچا۔ آخر میں نے اسے کہاں دیکھا تھا۔ بچپن کی یادوں کا ایک جھروکا کھل گیا۔ کتوں کی اور ریچھ کی غراہٹیں لاشعور سے شعور میں غوغا کرنے لگیں۔ تبھی سوال کیا۔ تم وہ ریچھ والی ملوکاں تو نہیں؟
ہاں وہی ہوں بی بی… لیکن اب ریچھ رہا اور نہ ملوکاں۔ اب تو چلتی پھرتی زندہ لاش ہوں۔
ملوکاں کھانا کھالو۔ اس نے خاموشی سے کچھ چاول کھالیے۔ پھر میں نے سوال کیا۔ کیا ہوا ہے ملوکاں تم نے کیوں ایسی بات کہی ہے۔ کچھ بتائو تو کیا بیتی تم پر۔ میرے اصرار پر اس نے اپنی روداد سنانا شروع کی۔
بی بی آپ کو تو معلوم ہے کہ میں اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور میری ماں بچپن میں مر گئی تھی۔ ابا نے مجھے پالا تھا۔ آپ کے سسر صاحب اکثر روشی کو بلوایا کرتے تھے جب ان کے کسی دوست کے وہاں دنگل کرانا ہوتا تھا، وہ خود بھی بہادر کو خریدنا چاہتے تھے کاش خرید ہی لیتے تو میرا بہادر گولی کا نشانہ نہ بنتا۔
ایسا کیوں۔ کچھ آگے بتائو… میں نے مارے تجسس کے اسے مزید حال بتانے پر اکسایا۔
بی بی، بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں۔ مجھے بھی آخر تو ابا نے بیاہنا تھا۔ رشتہ داروں میں سے ایک بندے کا رشتہ آگیا۔ لڑکا خوبصورت اور کمائو تھا۔ ابا نے رخصتی کردی۔ میرے سسر نے بہادر کو اپنے گھر لانے سے منع کردیا۔ کہا کہ اس نحوست مارے کو ہم نہ رکھیں گے جبکہ میرے بغیر وہ بہت اداس رہنے لگا تھا۔ جب ابا سے ملنے جاتی اس کو اپنے ہاتھ سے لقمہ کھلاتی، تب کھاتا تھا ۔ روز روز تو نہ جاسکتی تھی۔ ابا بہت پریشان تھا۔ بہادر دبلا ہوتا جاتا تھا۔ اسی کی خاطر ہفتے میں دو تین پھیرے میرے ابا کی طرف لگ جاتے تھے۔


ایک دن میں نے اپنے شوہر سے اصرار کیا کہ مجھے ابا کے پاس لے چلو۔ اس کا موڈ نہیں تھا مگر میرے مجبور کرنے سے وہ چلا گیا۔ یہ چھٹی کا دن تھا اور شام کا وقت تھا جب ہم وہاں پہنچے ۔ ابا نے تندور سے روٹی سالن لاکردیا۔ میں اور سرور چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔ سامنے کونے میں بہادر بیٹھا تھا۔ وہ کچھ ناراض دکھائی دیتا تھا۔ ابا نے بتایا کہ دو دن سے اس نے کچھ نہیں کھایا ہے۔ تبھی میرا دل بھی ڈوب سا گیا۔ چارپائی سے اٹھ کر میں اس کے پاس گئی اور
; کو دو تہہ کر کے اس کے منہ میں دینے لگی۔ سرور کو میرا بہادر کو کھلانا ناگوار گزرا ۔کہنے لگا۔ خود نہیں کھانا ہے تو میرا کھانا کیوں خراب کرتی ہے۔ یا تو آکر کھالے یا پھر میں بھی نہیں کھاتا۔ تو بس سارا کھانا اسی منحوس کو کھلا دے۔ یہ کہہ کر سرور نے اٹھ کر میرا بازو کھینچ لیا۔
سرور کا موڈ بگڑتے دیکھ کر ابا کو رنج ہوا۔ اس پر ریچھ سرور پر غرایا تو ابا نے اسے گھرکی دی، تبھی اس نے غضب ناک ہو کر میرے شوہر پر حملہ کردیا۔ وہ سرور کو بھنبھوڑنے لگا۔ اس کی چیخیں نکل گئیں۔ میں نے اسے ریچھ سے چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہی۔ وہ تو آج میرے شوہر کی جان لینے کا تہیہ کئے ہوئے تھا۔ تبھی ابا نے ٹرنک سے پستول نکالا اور اسے گولی مار کر ٹھنڈا کردیا۔ سرور کی جان بھی نہ بچ سکی۔ اسے گہرے زخم آئے تھے۔ وہ بھی دوسرے روز چل بسا۔
ان کا شیر جوان بیٹا مرا تھا۔ سو سسرال والوں نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ وہ کہتے تھے، ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ کم بخت منحوس جانور ہے۔ انسان اس سے دنگل کراتے ہیں تو یہ ان کے خلاف دل میں عناد رکھتا ہے۔ تبھی کسی نہ کسی دن غضبناک ہو کر کسی کی جان لے لیتا ہے۔
ان کو کیسے سمجھاتی میرا بہادر ایسا نہ تھا۔ وہ تو بہت پیارا جانور تھا لیکن بس پیار کی بولی سمجھتا تھا۔ کوئی اس کے ساتھ درشتگی سے پیش آتا تو اس کو برا لگتا تھا۔ اس دن سرور نے اسے برا بھلا کہا اور مجھے بے دردی سے اس کے سامنے کھینچا تو اس سے برداشت نہ ہوا، تبھی اس نے سرور پر حملہ کیا۔ اس پر ابا نے بھی لکڑی سے اس کی پٹائی کی تو اور زیادہ مشتعل ہوگیا۔
جب تک ابا زندہ تھے، بھیک مانگ کر گزارا ہوتا تھا۔ ان کے مرنے کے بعد میں خیرات مانگنے پر مجبور ہوگئی کہ پیٹ تو کھانے کو مانگتا ہے۔
یہ کہہ کر ملوکاں آنسو پونچھنے لگی تو مجھے دکھ ہوا۔ میں نے کہا۔ اگر تم میرے پاس کام کرنا چاہو تو اجرت دے دوں گی۔ رہنے کے لیے تو یہاں بہت جگہ ہے۔ اس نے کہا۔ بی بی آپ کو خدا بہت دے مگر ہم خانہ بدوش لوگ ہیں، چھت تلے قید نہیں رہ سکتے۔ ہم اپنی کڑیوں میں ہی خوش رہتے ہیں۔ اتنی خیرات مل جاتی ہے کہ دو وقت پیٹ بھر جاتا ہے اور زیادہ نہیں چاہیے۔ میں بہادر کی یاد میں جیون گزار رہی ہوں۔ کچھ گزار لیا ہے کچھ اور بھی گزر جائے گا۔ ایک اور چھوٹا سا ریچھ کا بچہ لیا ہے اس کے ساتھ وقت گزر جاتا ہے۔
بی بی، ہم جانوروں کے ساتھ رہنے والے لوگ ہیں۔ ان کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ان کا پیار انمول ہوتا ہے۔ انسان دھوکا کر جاتا ہے مگر جانور جس کے ساتھ پیار کرے، اس پر پورا بھروسا کرتا ہے۔ پھر جب کوئی اس کے بھرسے کو توڑ دے تبھی وہ برا مانتا ہے، ناراض ہوتا ہے اور حملہ بھی کرتا ہے۔ تو ناراض ہونا قدرتی بات ہے نا بی بی۔ اس میں ہم جانور کو دوش نہیں دے سکتے۔
اپنی کہانی سنا کر ملوکاں چلی گئی اور دوبارہ کبھی نہیں آئی۔ خدا جانے اس کا کیا حال ہوا۔ (س۔ الف… ڈیرہ غازی خان)

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS