Friday, October 11, 2024

Qaatil Kon

احمد ہمارا پرانا پڑوسی تھا۔ ایک دن اس کا چھوٹا بھائی گائوں آیا اور بڑے بھائی کو کہا۔ بھائی جان آپ کی بھابھی کی طبیعت خراب ہے۔ بچے چھوٹے ہیں اور ان کو سنبھالنے والا کوئی نہیں۔ آپ اپنی کسی بچی کو چند دنوں کے لئے میرے ساتھ بھیج دیں۔ احمد نے چھوٹے بھائی کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے اپنی بیٹی گل لالہ کو اس کے چچا کے ہمراہ شہر بھیج دیا۔ لالہ شہر آ کر خوش ہوگئی۔ اسلام آباد ایک بڑا شہر تھا جبکہ وہ ہمیشہ سے دیہات میں رہی تھی اور اس نے بڑا شہر کبھی نہیں دیکھا تھا ۔وہ دل لگا کر چچی کی تیمارداری کرنے لگی، ساتھ ہی گھر کا بھی بہت خیال رکھتی تھی۔ اس دوران اس کے چچا کے ایک جاننے والے نے کہا۔ اسلم اگر تمہاری نظر میں کوئی معقول رشتہ ہو تو بتانا کیونکہ میرا بیٹا شادی کرنا چاہتا ہے اور کوئی مناسب گھر نہیں مل رہا پہلی بیوی کو چھوڑ دیا ہے۔ دولت اور سب آسائش کا سامان ہے لیکن گھر کو سنبھالنے والی نہیں ہے۔ اس کو کسی نیک سیرت اور سلیقہ مند لڑکی کا رشتہ چاہئے ۔ لڑکا کیا کرتا ہے؟ اسلم نے سوال کیا لڑکا نہیں بلکہ تیس برس کا جوان ہے اور افسر ہے۔ پہلی بیوی سے علیحدگی ہوگئی ہے تمہاری نظر میں کوئی مناسب رشتہ ہے تو بتا دو۔ اسلم نے پل بھر سوچا اور کہا۔ میری بھتیجی آج کل گائوں سے آئی ہوئی ہے۔ لڑکے، والدہ اور بہنوں کو لے آئو اگر پسند آئے تو بات پکی سمجھنا۔ اگلے دن وہ شخص اپنے بیٹے عرفان، اپنی بیوی اور بیٹیوں کو لے آیا۔ گل لالہ کا چچا خوش تھا کہ اتنے امیر لوگوں سے رشتہ داری کرنے کا موقع مل رہا تھا، ورنہ غریبوں کے گھر تو غریبوں کے ہی رشتہ دار آتے ہیں۔ ادھر لالہ کا رشتہ اس کے والد نے اپنے بڑے بھائی حامد کو دیا ہوا تھا۔ یہ بات اسلم جانتا تھا لیکن دولت کی چمک نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ عرفان کی بہن اور ماں نے گل لالہ کو دیکھتے ہی ہاں کر دی اور منہ بھی میٹھا کر دیا۔ یہ لوگ خوشی خوشی واپس چلے گئے۔

کچھ دنوں بعد وہ شادی کے لئے اصرار کرنے لگے۔ اسلم نے ان کو تسلی دی کہ پہلے اپنے بھائی کو بتا دوں پھر تاریخ دوں گا۔ بڑے بھائی کو تو ابھی رشتے کا علم ہی نہیں ہے۔ گل لالہ بے چاری چپکے چپکے روئی کہ چچا نے جان بوجھ کر کیا کر دیا۔ عرفان کے گھر سے جو مٹھائی اور شگن آیا تھا وہ چچا نے رکھ لیا، پھر یہ بات بتانے وہ بڑے بھائی کے پاس گائوں چلا گیا۔ اس نے سوچا بھائی بہت خوش ہوگا کہ اتنے مالدار گھرانے میں اس کی بیٹی کا رشتہ طے پایا ہے اور لڑکا آفیسر ہے لیکن احمد نے سُنا تو غصے میں بپھر گیا اور کہا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ لالہ بیٹی کا رشتہ میں نے بڑے بھائی کے لڑکے کو دے دیا ہے اور تم یہ بات جانتے ہو، ویسے بھی پہلے سے شادی شدہ مرد اور تین بچوں کے باپ کو میں اپنی پھول سی بچی نہیں دے سکتا۔ تمہیں میری اجازت کے بغیر، میری بیٹی کا رشتہ دینے کی ہمت کیسے ہوئی؟ میں ابھی جا کر بیٹی کو تیرے گھر سے لے آتا ہوں اور اب تم دوبارہ میرے پاس مت آنا۔ اسلم نے بھائی کے اتنے کڑے تیور دیکھے تو اپنی پگڑی ان کے قدموں میں رکھ دی۔ کہا کہ میری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے، چاہو تو سنبھالو، چاہو تو غیر سمجھ کر ٹھکرا دو۔ میں تو ان سے شگن کا سامان بھی قبول کر چکا ہوں تا کہ وہ ارادہ نہ بدل لیں۔ بھائی آخر بھائی تھا۔ دل موم ہو گیا اور اسلم کو اُٹھا کر گلے لگا لیا۔ تب اسلم نے کہا۔ کیونکہ رشتہ میں نے کیا ہے لہذا لالہ بی بی کا بیاہ میں خود کروں گا لیکن احمد یہ بات نہ مانا اور بیٹی کو گھر لے آیا۔ بے شک اس کی نو بیٹیاں تھیں لیکن اس نے کبھی ان کو بوجھ نہیں سمجھا تھا اور نہ کبھی اس کے ماتھے پر شکن آئی تھی۔ وہ ایک شریف الطبع اور محنتی شخص تھا اور پورے گائوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں خوش رہتا۔ اس کی بیوی بھی صابر اور نیک خاتون تھی کبھی حالات کا شکوہ زبان پر نہیں لاتی تھی وه گرچہ امیر گھرانے میں بیٹی بیاہنے کے حق میں نہ تھا اور نہ اس کو دولت کا لالچ تھا مگر چھوٹے بھائی کی عزت رکھنے کی خاطر بڑے بھائی کو ناراض کیا اور اسلم کے طے کردہ رشتے پر گل لالہ کی شادی عرفان کے ساتھ کر دى جب عرفان کی پہلی بیوی کو یہ بات معلوم ہوئی تو شوہر کی شادی اسے سخت ناگوار گزری۔ اس کے بھائی اور والد بھی چہ بہ جبیں ہوگئے کہ ان کی بیٹی کو عرفان نے علیحدگی کا دُکھ تو دیا بی پھر دوسری شادی بھی کر لی۔ انہوں نے قسم کھائی کہ ہم اس کو چین کی زندگی جینے نہ دیں گے۔ پہلی بیوی کا ایک بھائی پولیس میں انسپکٹر تھا، جس کے عہدے کا اُسے زعم تھا۔ گل لالہ نے چھ سال میں تین خوبصورت بیٹیوں کو جنم دیا۔ وہ ایک صابر و شاکر ماں باپ کی بیٹی تھی۔ اس نے کبھی شوہر یا سُسرال والوں کی شکایت میکے میں نہیں کی اور اپنی شوہر کی خوشنودی میں خوش رہنے لگی مگر زندگی بھی اس کے لئے چند دنوں کی خواب جیسی ہی ثابت ہوئی۔ اسی دوران گل لالہ کی نند کا انتقال ہوگیا۔ اس کی یہ نند فرشتہ سیرت تھی۔ وہ لالہ کا بہت خیال رکھتی تھی۔ اس کے دکھ سکھ کی ساتھی بنی ہوئی تھی۔ وہ اپنی اس نو عمر اور نیک دل بھابھی سے دلی ہمدردی رکھتی تھی۔ نند کے مرنے سے لالہ کو یوں لگا جیسے ماں کا شفیق سایہ اس کے سر سے اُٹھ گیا ہے۔ اس کی نند کے انتقال کا سُن کر عرفان کی پہلی بیوی عذرا کے میکے والے بھی افسوس کرنے آئے۔ ان دنوں گل لالہ کا سب سے چھوٹا بیٹا محض چھ ماہ کا تھا۔ میت دفنا کر سب اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے لیکن کسے معلوم تھا کہ گل لالہ کو پھر زندہ دیکھنا کسی کو بھی نصیب نہ ہوگا۔دوسرے دن ایک آدمی گائوں آیا۔ وہ سخت گھبرایا ہوا تھا اور اس کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی بمشکل بتایا کہ گل لالہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ الفاظ تھے کہ موت کا پیغام ، احمد اور اس کی بیوی تو پتھر کا بت بن کر ره گئے کہ یا اللہ اپنی بیٹی کو کل تو ہم اچھا بھلا چھوڑ کر آئے تھے۔ یہ آج کیا ہوگیا؟ آناً فاناً کیسی قیامت کی گھڑی آئی کہ ہماری اچھی بھلی لالہ بغیر کسی کو کچھ بتائے اور سارے راز دل میں چھپائے دوسرے جہان کو چلی گئی۔ ہمیں کچھ تو کہتی، اپنے باپ سے، ماں سے، اپنی بہنوں سے وہ تو اس وقت بھی چُپ رہی جب چچا اپنے ساتھ شہر لے گیا۔ تب بھی وہ کچھ نہیں بولی، جب اس کا رشتہ غیروں میں کردیا گیا، تب بھی ایک لفظ لبوں سے نہ نکلا کہ اُسے کیا دکھ ہے۔ جب سب گل لالہ کے گھر پہنچے تو قیامت کا سماں تھا۔ یوں لگتا تھاکہ آسمان سے اُتری حور سکون کی نیند سو رہی ہو۔ اس کے بچوں کی فریادوں سے عرش کانپ رہا تھا اور سُننے والوں کے دل بھی۔ سب نے کہا کہ گل بانو نے خودکشی کر لی ہے لیکن یہ ناممکن تھا۔ اگر اس نے خودکشی کرنا ہی تھی تو اس وقت کرتی جب زبردستی اس کا رشتہ ہوا تھا۔ احمد تو شروع سے ہی راضی نہ تھا۔ سُسرال والوں کے بیان پر اس کے چچا اسلم کی بھی تسلی نہ ہوئی۔ انہوں نے عرفان سے کہا۔ ہم لاش کا پوسٹ مارٹم کروائیں گے۔ والدین تڑپ اُٹھے۔ نہیں نہیں ، ہم اپنی فرشتوں کی طرح پاک معصوم بیٹی کی چیر پھاڑ نہیں کروائیں گے جو نصیبوں میں تھا ہو گیا۔ شاید گل لالہ کی یہی تقدیر تھی۔ احمد بچارا تو فطرت سے ہی راضی بہ رضا رہنے والا تھا اور اب بھی وہ خُدا کی رضا پر مہر بہ لب تھا لیکن چچا نے کیونکہ اپنی ضمانت پر رشتہ دیا تھا، اس لئے اس نے اصرار کر کے پوسٹ مارٹم کرایا۔ رپورٹ کے مطابق گل لالہ کو گلا دبا کر مارا گیا تھا اور پھر پھندا ڈال کر لٹکایا گیا تھا کیونکہ اس کا دوپٹہ کہیں تھا اور جوتے کہیں، جیسے اس نے بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کی ہو اور پھر جنہوں نے اُسے قتل کیا انہوں نے پیسے دے کر پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی تبدیل کروا دی۔ یوں ظالموں کے انتقام کی بھینٹ ایک معصوم لڑکی چڑھ گئی مگر قاتل کون تھا؟ معلوم نہ ہو سکا۔ مرتے وقت گل بانو کی عمر صرف تیئس سال تھی۔ ننھے چھ ماہ کے معصوم بچے سے انتقام کی آندھی نے اُس کی ماں چھین لی تھی۔ گل بانو کے انتقال کو ابھی سال بھی نہ ہوا تھا کہ اس کے سُسرال میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس پر سب دم بخود رہ گئے۔

عظمت، گل لالہ کی دوسرے نمبر والی نند کی سب سے بڑی بیٹی تھی۔ یہ اس کی بیوہ نند تھی اور ایک اسکول میں ٹیچر تھی جبکہ اس کا گھر اپنی ماں کے گھر کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ ایک روز عظمت روٹیاں پکانے کے بعد باورچی خانے میں جھاڑو دے رہی تھی کہ اتنے میں اس کی ماں گھر سے داخل ہوئی، جو اپنے اسکول سے پڑھا کر ابھی ابھی لوٹی تھی۔ اس نے کہا۔ عظمت بیٹی کھانا لگا دو۔ مجھے بھوک لگی ہے۔ جی امی جان! یہ کہہ کر وہ برتن لگانے لگی پھر سب نے مل کر کھانا کھایا۔ کھانے سے فارغ وہ ماں کے پاس آ بیٹھی۔ ماں نے کہا ۔ بیٹی کچھ پتا ہے تمہارے باپ کا سایہ تو سر سے اُٹھ گیا ہے اور میں کام پر چلی جاتی ہوں تو مجھے ہر وقت ہی تمہارا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ میں چاہتی ہوں جلد از جلد تمہار کے ہاتھ پیلے کر دوں ۔یہ سُن عظمت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بیٹی آج شام کو کچھ لوگ آئیں گے تو تم ذرا ٹھیک ٹھاک ہو کر رہنا ۔ یہ سُن کر عظمت وہاں سے اُٹھ گئی اور ماں اس کو جاتے ہوئے دیکھنے لگی۔شام کو وہ بستر کی چادر ٹھیک کر رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ بھائی اشعر نے دوڑ کر دروازہ کھولا اور وہیں سے بولا۔ اماں جان مہمان آئے ہیں۔ ماں دوڑ کر گئی اور بڑی عزت سے ان کو کمرے میں لا بٹھایا ۔ عظمت چائے لے کر گئی۔ مهمان خاتون نے بغور جائزہ لیا اور بولی۔ آپ کی بیٹی ہمیں پسند آئی ہے، مٹھائی منگوا دیجئے۔ ہم اسی وقت بات پکی کر کے جائیں گے۔ پھر وہ عظمت کو انگوٹھی پہنا کر چلی گئیں۔ عظمت کی ماں اس وقت تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی کہ اس کی یتیم بیٹی کا رشتہ اتنے اچھے کھاتے پیتے گھرانے میں ہوگیا تھا لیکن بعد میں ایک دن جب اُڑتی اڑتی خبر سنی کہ اس کا ہونے والا داماد چور ہے تو وہ پریشان ہو گئی ۔ ہمارے معاشرے میں عموماً ہوتا ہے کہ لوگ اچھے بھلے طے شدہ رشتے، ایسی افواہیں پھیلاکر توڑنے کی کوشش کرتے ہیں لہذا وہ اس خبر کی تصدیق کرنا چاہتی تھیں۔ تصدیق پر پتا چلاکہ اس کاکچھ غلط لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا تھا لیکن اب اس لڑکے نے اپنے غلط دوستوں سے راہ و رسم ختم کر دی ہے اور سیدھے رستے پر آگیا ہے۔یہ باتیں لڑکے کی ایک دُور کی رشتہ دار عورت نے بتائیں اور تسلی دی کہ اچھی امید ركهو الله بہترى كرے گا۔ آپ رشتہ مت توڑو کیونکہ اچھے گھرانے کے رشتے بار بار نہیں ملتے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ،شادی کے دن قریب آتے گئے۔ عظمت کی ماں اور نانی یعنی لالہ کی ساس نے شادی کی تیاریاں تیز کر دیں اور کافی جہیز جمع کر لیا۔ عظمت کے ماموں نے بھی اپنی اس یتیم بھانجی کے لئے زیورات کے ساتھ تمام گهریلو سامان خریدا اور گھر پہنچا دیا۔ شادی سے چار دن پہلے جب عظمت ایک رات اپنے چھوٹے بھائی کو پانی دینے اُٹھی تو اُسے دیوار کے ساتھ ایک سایہ نظر آیا۔ مارے خوف کے اس کی چیخ نکل گئی۔ اس نے چور چور کا شور مچا دیا، تبھی سایہ، دیوار پھلانگ کر بھاگا مگر محلے کے دو چوکیداروں نے مل کر اسے پکڑ لیا شور و غل سُن کر محلے والے اُٹھ گئے مرد باہر آ کر چور کے گرد جمع ہو گئے۔ جب اُس كا نقاب اتارا گیا تو یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ یہ تو وہی نوجوان ہے جس کے ساتھ کچھ دنوں قبل عظمت کی منگنی ہوئی تھی۔ تمام لوگ اس کو وہیں چھوڑ کر دُور ہو گئے۔ عظمت کے کانوں میں بھی محلے والوں کی مختلف آوازیں پڑیں۔ وہ کہہ رہے تھے۔واہ بھئی، لڑکی سے دو چار دن بھی صبر نہ ہو سکا۔ اتنی بھی ملاقات کی کیا جلدی تھی کہ منگیتر کو رات کے اندھیرے میں نصف شب کے وقت گھر بلا لیا۔ کوئی بولا۔ بھئی لو میرج میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ سب باتیں سُن کر عظمت کے منگیتر کا سر گھومنے لگا۔ وہ چور ضرور تھا مگر اس کو یہ خبر نہ تھی کہ جس گھر اُسے اس کے پشت پناہی کرنے والے پولیس آفیسر نے چوری کرنے کا حکم دیا ہے ، وہ خود اس کی منگیتر کے ماموں کا گھر ہے۔ دراصل عرفان کی پہلی بیوی عذرا کا بھائی جو پولیس انسپکٹر تھا، اس نے سرور کو کہا تھا کہ فلاں گھر میں لڑکی کی شادی کا جہیز اور زیورات ہیں اور تم نے اس گھر میں نقب لگانی ہے۔ جب لوگوں نے کہا کہ یہ تو عظمت سے ملنے آیا تھا۔ وہ بولا۔ نہیں، نہیں، لڑکی پر الزام مت دھرو۔ بے شک میں چوری کی نیت سے یہاں آیا تھا مگر میں اس لڑکی سے نصف شب ملاقات کرنے ان کے گھر نہیں کودا کہ جس کے ساتھ میری شادی ہونے والی ہے۔ کوئی چور بھی ہو تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ میری منگیتر کے چال چلن پر کوئی بات مت کرو۔ کسی نے بھی اس کی بات پر کان نہ دھرے کہ وہ انسپکٹر کو بھتہ دینے کی خاطر یہاں چوری کرنے آیا تھا مگر معلوم نہ تھا کہ یہ اس کی منگیتر کے ماموں کا گھر ہے۔ اس واقعے سے عظمت کے ماموں محلے میں سخت شرمندہ تھے کیونکہ انہوں نے ہی سرور کو پہچان کر سب کو بتا دیا تھا کہ یہ لڑکا، اس کی بھانجی کا منگیتر ہے۔ انہوں نے سرور کو چلے جانے کا کہا مگر عظمت اور اس کی ماں کا ماموں کے گھر رہنا مشکل ہو گیا۔ لوگ عظمت پر انگلیاں اٹھانے لگے اور طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔ اب گھر کے بچے باہر نکلتے تو لوگ ان کو بھی عجیب عجیب باتیں سناتے ، وہ گھر آ کر بتاتے اور عظمت، اس کی ماں اور ماموں خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے۔

عظمت ایک با غیرت اور نیک چلن لڑکی تھی۔ وہ بظاہر تو خاموش تھی مگر اس کے سینے میں جو جلن رہی تھی، اس کی تپش صرف و بی محسوس کر سکتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبھی اس نے ایک فیصلہ کر لیا۔وہ موقع کی تلاش میں رہنے لگی ۔ماں کسی کے گھر گئی ہوئی تھی۔ عظمت نے پہلے ہی گھر کی صفائی کر لی تھی ۔ اس کو معلوم تھا ماں شام سے پہلے گھر نہیں لوٹے گی۔اس نے اپنے جہیز کی ساری چیزیں نکالیں اور صاف کرکے قرینے سے رکھ دیں۔ فرنیچر کو بھی صاف کر دیا۔ کھانا بناکر رکھا اور سب سے چھپ کر وہ کام کر لیا، جو اسے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ماں جب گھر میں داخل ہوئی تو ہمیشہ کی طرح اسے عظمت کام میں مشغول نہ نظر آئی۔ وہ بے حد پریشان ہوگئی کیونکہ انسان میں جو چھٹی حس ہوتی ہے اسے آنے والے حادثہ کا احساس کرا دیتی ہے۔ ماں نے کمرے، غسل خانے اور ہر جگہ دیکھ لیا۔ آخر میں وہ چھت پر موجود کوٹھری کی طرف گئی، جس کا دروازہ اُسے بند ملا۔ یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ کئی آوازیں عظمت کو دیں مگر کوئی جواب نہ ملا۔ تبھی اس نے چلانا شروع کر دیا۔ تمام محلے دار جمع ہو گئے اور بند دروازہ توڑا گیا۔ و ہاں عظمت کو مردہ حالت میں پایا۔ماں کو پہلے ہی کیا کم دھچکا لگا تھا، وہ یہ دھچکا برداشت نہ کر سکی اور ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ نانی ماموں نے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ چلو گل لالہ نے تو خودکشی کی بقول سُسرال والوں کے یا پاس پڑوس والے کے ، مگر عظمت کا قاتل کون تھا؟ یہ معمہ حل نہ ہو سکا البتہ گل لالہ کے گھر والوں کو کسی نے بتا دیا کہ عرفان نے جھوٹ بولا تھا کہ پہلی بیوی طلاق لے کر چلی گئی ہے۔ در حقیقت عرفان نے اسے طلاق نہ دی تھی ، اسی لئے وہ عرصہ سے میکے میں رہ رہی تھی اور غصے میں اس کے بھائیوں نے عرفان سے یہ انتقام ليا تها.

Latest Posts

Related POSTS