ابو داؤد کتاب النکاح میں حدیث ہے۔ حضرت قیس بن سعد بیان کرتے ہیں میں حیرہ میں گیا۔ یاد رہے حیرہ کا علاقہ سرزمین دجلہ و فرات کے پاس تھا۔ وہاں کے حکمران کو مر زبان کہا جاتا تھا۔ حضرت قیس بتلاتے ہیں میں اس کے دربار میں گیا تو کیا دیکھا وہ لوگ اپنے شاہ کو سجدہ کرتے ہیں۔
یہ منظر دیکھ کر میں نے سوچا رسول اللہ ﷺ تو کہیں زیادہ حق دار ہیں کہ انھیں سجدہ کیا جائے۔ چنانچہ جب میں مدینہ میں آیا تو اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کی : اے اللہ کے رسولﷺ میں حیرہ گیا تو وہاں دیکھا کہ لوگ اپنے بادشاہ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ آپ تو اس سے کہیں زیادہ حق دار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ اس پر آپ نے فرمایا :
تیرا کیا خیال ہے اگر آنے والے وقت میں تیرا گزر میری قبر پر سے ہو تو کیا اسے سجدہ کرے گا ؟“
حضرت قیس کہتے ہیں۔ میں نے کہا، جی نہیں ! تب آپ ﷺ نے فرمایا :
فَلَا تَفْعَلُوا “ ” ایسا کرنا بھی مت“
قربان جاؤں مدینہ منورہ کے حکمران کے. میرے پیارے حضور نے تاریخ بدل دی، رخ بدل دیا .. رخ بھی کیسا بدلا؟ ذرا غور کرو …حضرت قیس کے سوال پر میرے حضورﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے سجدہ نہیں کرنا …… بلکہ آپ ﷺ نے فوراً اپنی قبر کا ذکر کیا کہ کل کلاں میری قبر کو تو سجدہ نہیں کرو گے؟ فکر اس لیے پڑ گیا کہ جب تک میں موجود ہوں سجدے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا …. اگلی فکر فوراً لاحق ہو گئی کہ جب میں نہ ہوں گا۔ تب میری قبر کا کیا بنے گا ؟ میں اللہ کا رسول ہوں. میرے اس بلند ترین مقام کے پیش نظر میری قبر پہ سجدوں کا منظر کیا ہوگا؟ چنانچہ آپ نے پہلے فوراً اپنی قبر پر سجدے کی نفی کروائی اور پھر تاکیداً فرمایا: ” ایسا کرنا بھی مت –
چنانچہ بخاری کتاب الصلوة میں ہے حضورﷺ نے فرمایا : ان یہودیوں، عیسائیوں پر اللہ کی پھٹکار ہے، اللہ ان یہودیوں کو برباد کرے جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدوں کے دربار بنا دیا۔
صحيح مسلم، کتاب المساجد میں ہے۔ فرمایا: خبر دار ہو جاؤ! وہ لوگ جو تم سے پہلے گزر چکے وہ اپنے نبیوں اور اپنے نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ کے دربار بنا لیتے تھے۔ آگاہ ہو جاؤ ! تم قبروں کو سجدہ کے دربار نہ بنانا۔ میں تم لوگوں کو اس حرکت سے منع کرتا ہوں ۔