والد صاحب کے پاس ایک دوست کی وساطت سے ایک نوجوان آیا جو اعلی تعلیم یافتہ تھا ، لیکن گاؤں میں قیام پذیر ہونے کے سبب اس کے لیاقت اور ڈگری کے مطابق نوکری نہ ملتی تھی- لباس اور وضع قطع سے شریف اور مہذب خاندان کا چشم و چراغ دکھائی دیتا تھا – بابا جان نے دو چار باتیں کرنے کے بعد اس کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا – بابا جان نے گلاب نامی اس نوجوان کی کارکردگی کو دیکھنے کے لیے اسے اپنے کچھ اہم کاروباری امور سونپ دیے، جنہیں اس نے بڑی خوش اسلوبی سے نمٹایا- وہ ایک اچھا ڈرائیور تھا -اس نے ہمارا ٹرک چلانے کی خواہش ظاہر کی تو والد نے اپنے سامان سے بھرا ٹرک اسے سونپ دیا – اس نے ہمارا ٹرک چلانا شروع کر دیا – وہ اکثر سامان لانے اور لے جانے کے سلسلے میں گھر آتا تھا – بابا جان گلاب خان کو بہت اچھا جانتے تھے – اب وہ کھانا بھی ہمارے گھر سے کھاتا، بلا شبہ وہ بہت شریف انسان تھا ہمیشہ ادب سے بات کرتا اور نیچی نگاہ رکھتا تھا میں اپنی بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی اور کافی سیانی ہو چکی تھی – دو بڑی بہنیں اپنے گھروں کی ہو چکی تھی- اب والد میرے فرض سے سبک دوش ہونا چاہتے تھے ان کی نگاہ گلاب پر تھی- جن کی جہاں دیدہ نگاہوں نے اس ہیرے کو پہچان لیا تھا- ایک روز انہوں نے میری ماں سے مشورہ کرنے کے بعد کہا کہ تم لڑکی سے پوچھو کہ نازو کیا کہتی ہے – ماں نے میرا عندیہ لیا تو میں نے گردن جھکا لی اور ان کو میرا جواب مل گیا اگلے دن وہ گلاب کا عندیہ لے کر اس کے والدین سے بات کرنے چلے گئے جب رشتہ طے ہو گیا، تو تایا جی کو بھی علم ہوا انہوں نے اس رشتے کی خوب مخالفت کی اور کہا کہ اب ہمارا ٹرک ڈرائیور ہمارا ہی داماد بنے گا – والد صاحب نے دلائل دیے کہ لڑکا نیک سیرت اور محنتی ہے اعلی تعلیم یافتہ خوش شکل ہے اس کا خاندان غریب مگر عزت والا ہے اور علاقے میں بہت معزز ہیں اور ہمیں کیا چاہیے- غرض تایا کو بہت سمجھایا ، تایا رضامند ہوئے اور بابا جان نے میری شادی گلاب خان سے کر دی – ہماری شادی کو کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ گلاب کو کراچی کی ایک مل میں بطور مینجر ملازمت مل گئی ، وہ کراچی چلے گئے اور ڈیوٹی جوائن کر لی- جب وہ ہم سے ملنے آتے سب کے لیے تحفے لاتے- پہلے پہل ڈیڑھ ماہ بعد آتے رفتہ رفتہ یہ دورانیہ بھرنے لگا اب چھ ماہ بیت جاتے تب شکل دکھاتے – اللہ تعالی نے ہم کو دو بیٹیوں سےنواز دیا بچے سیانے ہوئے تو باپ کی غیر حاضری کو شدت سے محسوس کرنے لگے – میں بچوں کو پیار سے دلاسا دیتی، اور جب موصوف آتے تو میرا ان سے یہی تقاضا ہوتا کہ بچیوں کو اپ کی محبت اور توجہ کی ضرورت ہے- اب ہم اپ سے جدا نہیں رہ سکتے – کافی بحث و تکرار کے بعد بالاخر وہ ہمیں اپنے ساتھ لے گئے – بچیاں باپ کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بہت خوش تھی – ہم کو ایک سال ہوا تھا ان کے پاس رہتے ہوئے کہ گلاب خان نے اصرار کیا کہ اب میں اپ لوگوں کو واپس گاؤں چھوڑآتا ہوں- کیونکہ والدہ کو تم لوگوں کے بغیر بہت اداسی ہو گئی ہے- میں نہ چاہتے ہوئے بھی شوہر کے اصرار پر واپس آگئی ، فون پر رابطہ اور خط و کتابت کا سلسلہ جاری تھا – وہ باقاعدگی سے خرچے کی رقم ہر ماه بھجواتے تھے مگر خود آنے کی زحمت نہ کرتے، کہتے تھے کہ مجھے چھٹی نہیں ملتی – بچیاں اب پانچویں اور چھٹی میں پہنچ چکی تھی اور میں ابھی تک میکے میں پڑی تھی – یہ خیال سوہان روح بنتا جا رہا تھا کہ میرے والد صاحب اور میں نے گلاب خان کو کس قدر چاہا تھا- لیکن اچھے عہدے کے ملتے ہی اس کی رویے میں آہستہ آہستہ تبدیلی آ گئی ہے- آخر اس کے پیچھے کوئی بات تو ہوگی – چاہتی تھی بدگمانیاں مجھ پر حملہ نہ کریں لیکن کیا کر سکتی تھی سوائے منفی سوچوں سےخود کو ہلاک ہونے کے – ایک خاندان ہمارے محلے میں آباد تھا نمبردار کہلاتے تھے ان کا ایک بیٹا بڑا فرمانبردار قسم کا تھا کیونکہ اس نے شہر میں رہ کر تعلیم حاصل کی تھی وہ باقی گھر والوں کی نسبت سلجھا ہوا تھا اس کا نام محی الدین تھا ہمارے بینک کے کام اور منی آرڈر بھی وہی لے کر آتا تھا اس طرح اس کا آنا جانا ہمارے گھر زیادہ ہو گیا شوہر تو ویسے ہی مجھ سے کوسوں دور تھے اور میں سمجھتی تھی کہ وہ مجھ میں دلچسپی نہیں لیتے اور ادھر بچیاں بڑی ہو رہی تھیں محی الدین نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اس نے میری توجہ حاصل کرنے کے لیے بچیوں کے مسائل میں دلچسپی لینی شروع کر دی ان کے سکول کے مسئلوں میں بھرپور توجہ دی یوں میں بھی اس شخص کی جانب توجہ کرنے لگی ان دنوں مجھ کو زیادہ تنہائی محسوس ہوتی تھی والد صاحب نے بھی محی الدین کی طرف میرے جھکاؤ کو محسوس کر لیا ایک دن مجھے سمجھایا بیٹی تمہاری نیت اچھی سہی لیکن دوسرے کے دل کا کچھ پتہ نہیں ہوتا تم اپنے شوہر کی لاج ہو اس کی امانت ہو آخر تم کیوں ایک پڑوسی اور غیر شخص جو ہمارا کچھ نہیں لگتا اس پر اتنا بھروسہ کرنے لگی ہو- میں نے دو چار باتیں کر کے والد صاحب کو چپ کرا دیا ،لیکن والدہ نے نظر انداز کرنے کی بجائے میرے شوہر کو خط لکھ دیا کہ تم جلدی آؤ اور اپنی امانتیں خود سنبھال لو ورنہ بعد میں مجھے کسی قسم کا الزام مت دینا خط ملنے کے ہفتے بعد گلاب خان آگئے وہ مجھ سے ناراض تھے اصرار کیا کہ بس اب تم میرے ساتھ چلو میں پہلے جانا چاہتی تھی مگر آپ لے جانے پر راضی نہ تھے اب میں جانا نہیں چاہتی تو کیوں لے جانا چاہتے ہیں اب بچیاں سکول میں پڑھ رہی ہیں میں نہیں جاؤں گی- خاوند نے سر توڑ کوشش کی میں اپنی ضد پر قائم رہی- تب انہوں نے انکشاف کیا کہ کسی محلے دار نے تمہارے بارے میں بڑی غلط قسم کی باتیں مجھے بتائی ہیں- کیونکہ تمہارے والد کے مجھ پر احسانات ہیں اور میں احسان فراموش نہیں کہ میں ایسی باتوں کو لبوں تک لاؤں- جس سے کہ تمہارے دل کو ٹھیس پہنچے، آخر یہ محی الدین کون ہے؟ جو تمہارے کام کرتا ہے اس کو میری بچیوں میں اتنے دلچسپی کیوں ہے؟ وہی میری بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جائے کوئی اور نہیں ،میں تمہیں ہر ماہ اتنی رقم بھجواتا ہوں کہ تم گاڑی لے سکتی ہو ڈرائیور رکھ سکتی ہو- ایسا ملازم بھی رکھ سکتی ہو جو تمہارے سارے کام تنخواہ کے عوض کر دیا کرے – تو پھر پڑوسی کا احسان لینے کا کیا مطلب ہے؟ میں گھر بنوانے کی خاطر بچت کر رہی ہوں – کب تک والدین کے گھر پر رہوں گی-
کراچی بڑا شہر ہے میں دن بھر ڈیوٹی پر رہوں اور پیچھے گھر میں تم اور بچیاں اکیلی رہو ،مجھے سکون نہ ملے گا -مجھے یہ شہر پردیس لگتا ہے جبکہ تم لوگ اپنے والد کے گھر میں محفوظ ہو- میرے والدین کے پاس بھی تم نہیں رہنا چاہتی کہ وہاں تعلیم کا نظام ٹھیک نہیں ہے- میں شوہر کی باتیں سن کر رونے لگی- قسمیں کھا کر میں نے اس کو اپنی پاکیزگی کا یقین دلایا اور کہا کہ محی الدین کو بھائی جیسا جانتی ہوں- اپنے بھائی میری ذمہ داری کو نہیں سمجھتے وہ پڑوسی ضرور ہے مگر اچھی فطرت کا ہے- تبھی اس کو ہر کام بتا دیتی ہوں میں تم کو اس سے ملوا دیتی ہوں- میں نے اپنے شوہر کو محی الدین سے ملوایا-اس نے بھی قسم کھا کر کہا کہ میرا ان سے بہن بھائی جیسا رشتہ ہے – اور میں انسانیت کے طور پر ان کا کام کر دیتا ہوں اپ میری نیکی کو ضائع نہ کریں – اپ بھی جو کام مجھے بتا کر جائیں گے میں کر دوں گا – محی الدین کی باتوں سے گلاب خان کے دل سے ہر قسم کا شک و شبہ جاتارہا۔ وہ مطمئن ہو گئے اور میری خواہش کے مطابق محی الدین پر بھروسہ کرتے ہوئے کہا کہ میں رقم بھجواتا رہوں گا۔ اچھا سا کوئی پلاٹ تلاش کر کے جو والد کے گھر سے زیادہ دور نہ ہو ، مجھے بتاؤ اور خرید کر اس پر مکان کا نقشہ بنوا دو۔ یہ کام اب آپ کے ذمے ہے۔ میرے پاس وقت ہوتا تو خود یہ کام کرتا، لیکن مجبوری ہے، تبھی تم کو تکلیف دے رہا ہوں۔ اس طرح محی الدین نے جانفشانی سے بہت اچھی لوکیشن پر پلاٹ تلاش کیا، قیمت مناسب کروائی اور میرے شوہر کو اطلاع دی۔ انہوں نے ہفتے کی چھٹی لی۔ میرے نام سے پلاٹ خرید اور قبضہ وغیرہ لے کر محی الدین کے حوالے کر گئے۔ اس طرح قلیل مدت میں مکان کی تعمیر شروع ہو گئی۔ مکان مکمل ہو گیا۔ وہ مجھے فون کرتے اور پوچھتے ، اب کتنا گھر بن گیا ہے ؟ تمہاری خوشی کے لئے میں دن رات محنت کر رہا ہوں تب بھی مجھے عقل نہ آئی کہ مجھے اپنے نیک سیرت شوہر کی قدر کرنا چاہیے اور اس پر بد گمان نہ رہنا چاہیے جس نے مرد ہو کر میری ہر بات کا یقین کر لیا۔ میں نے جس غیر مرد کو بھائی بتایا انہوں نے آنکھ بند کر کے بھروسہ کر لیا۔ گھر مکمل ہو گیا۔ گلاب بہت خوش تھے۔ میں نے گھر جانے کی خواہش کی، انہوں نے اجازت دے دی۔ بچیوں کو ساتھ لے کر میں نئے مکان میں چلی گئی۔ حفاظت کی خاطر ایک چوکیدار اور ملازمہ بھی رکھ لی۔ یہ معمہ میرے لئے ابھی تک حل طلب تھا کہ شوہر میرا اتنا احساس رکھتے ہوئے بھی ملاقات کے لئے جلدی کیوں نہیں آتے ؟ اسی سوال نے مجھے برباد کیا اور میرے سکون کو تہ و بالا کر ڈالا تبھی میں ان سے بے وفائی کا ارتکاب کر بیٹھی۔
دراصل والدین کی منشا کے خلاف میں ان سے دور علیحدہ گھر آگئی تھی، سو امی ابا خفا تھے۔ لے دے کر محی الدین رہ گیا تھا جو میری خبر گیری کو آجاتا تھا۔ جب وہ آتا، میں اس کے سامنے شوہر کے تغافل اور اپنی تنہائی کا رونا لے کر بیٹھ جاتی، تب ایک دن اس نے کہا۔ اگر تم شوہر سے اس قدر نا آسودہ ہو تو پھر سیدھے سبھاؤ طلاق لے لو۔ بھی مجھے لگا جیسے اس نے میرے دل کی بات کہہ دی ہو۔ اس کے بعد میری اس کے ساتھ پسندیدگی بڑھنے لگی۔ میں اس کی باتوں میں آگئی اور ایک وکیل کے پاس گئی اور خلع کا سمن گلاب کو بھجوایا۔ گلاب کو سمن ملا، اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ اسی وقت روانہ ہو کر گھر آگیا۔ اس نے مجھے کہا۔ ناز پرور ! ہوش میں آؤ۔ اس حماقت سے باز رہو۔ ہماری بچیاں ہیں، ان کا کیا بنے گا؟ میرا ایک ہی جواب تھا کہ پہلے تم مجھے لے کر نہیں جاتے تھے۔ بس اب مجھے تمہارے ساتھ نہیں رہنا، مجھے طلاق دو۔ کافی بحث و تکرار کے بعد گلاب کو یقین ہو گیا کہ اب میں اس کے ساتھ نہ رہوں گی۔ عورت جب ضد پر آجائے تو گھر آباد نہیں رہ سکتا، اسے جھکنا ہی پڑا۔ اس کو باباجان کا لحاظ تھا لہذا میری خواہش کے مطابق طلاق دے دی۔ والدین تو مجھ سے سخت ناراض ہوئے لیکن میں نے کسی کی نہ سنی۔ عدت پوری کرنے کے بعد محی الدین سے نکاح کر لیا۔ اللہ گواہ ہے کہ نکاح سے پہلے کبھی محی الدین نے میرے ساتھ غلط قسم کے مراسم استوار نہ کئے اور نہ لفظی طور پر پیار محبت کا ڈرامہ رچایا۔ بس خاموشی سے ہر مرحلے پر میری مدد کی۔ اسی بات سے میں نے اس کو اپنا جیون ساتھی بنانے کی جرات کی۔ ور نہ عام حالات میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وقت گزرتا رہا، بچیاں بڑی ہو گئیں۔ میں نے ثنا اور حنا کے رشتے بھی دیکھ لیے۔ چاہتی تھی، ان کو کم سنی میں بیاہ دوں۔ اس بات کی خبر والدہ کو مل گئی کہ میں غیروں میں بچیوں کے رشتے ناتے کر رہی ہوں۔ ایک روز وہ اچانک میرے گھر آگئیں اور مجھے بہت لعن طعن کی کہ یہ کیا حماقت کر رہی ہو ؟ لڑکیوں کی شادی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرو اور ان کی زندگیوں سے مت کھیلو۔ ایک تو تم نے ہمارے علم میں لائے بغیر گلاب خان سے طلاق لی۔ ابھی تم اتنی سمجھ دار نہیں ہوئیں کہ اپنے اچھے برے فیصلے کرتی پھرو۔ کم از کم مجھ سے تو مشورہ کیا ہوتا۔ جاتے وقت وہ میری لڑکیوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئیں اور کہہ گئیں کہ اب انہیں ، ان کے سوتیلے باپ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی۔ انہوں نے میری بات کو نہ سمجھا کہ بیوی شوہر کے ساتھ ایک ایک برس تک نہ ملے جبکہ وہ اپنے ملک میں رہتا ہو۔ آخر کوئی گلاب سے اس امر کی باز پرس کیوں نہیں کرتا؟ بہر حال ماں نے گلاب کو ناراضی کا خط لکھا کہ تم نے مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھا اور خاموشی سے ہم سے مشورہ کئے بغیر ناز پرور کو طلاق دے دی۔ اب آکر اپنی بچیوں کو ہم سے لے جاؤ اور اپنے سایہ شفقت میں جگہ دو۔ ہم نے ضرور تم کوگھر داماد بنایا تھا لیکن خبر نہ تھی کہ تم روپیہ کمانے والی مشین بن جاؤ گے اور میری بیٹی کو لمبی فرقت کی آگ میں جلاتے رہو گے۔ جس کا نتیجہ تم لوگوں کی دائمی جدائی کی صورت میں نکلا ہے۔ والدہ نے مجھ سے بھی قطع تعلق کر لیا۔ میری ماں کا خط ملا تو گلاب اپنی بچیوں کو لینے آگئے اور جا کر اپنے والدین کے سپرد کر آئے۔ ادھر مجھے محی الدین اپنے والدین کے گھر لے آئے۔ ان کے والدین نے مجھے قبول نہ کیا لیکن خود محی الدین کا رویہ میرے ساتھ اچھا اور پیار بھرا تھا۔ میرے لئے یہ ہی بہت تھا۔ اپنے گھر والوں کی مخالفت کے باوجود اس نے مجھے اپنے ساتھ رکھا اور وفا کی تو میں نے بھی سوچا۔ اگر یہ شخص مجھ سے اچھا ہے تو میں اس کے لئے ہر دکھ سہ لوں گی۔ دوسرے شوہر سے مجھے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہو گئی۔ میرا گھر دوبارہ بس گیا۔ بڑی بچیوں کی یاد ستاتی تھی لیکن اطمینان تھا کہ ان کے دادا دادی ان کو بہت پیار سے رکھتے ہیں۔ میری ماں بھی اپنی نواسیوں سے ملنے جاتی رہتی تھیں۔ میں دوسری شادی کر کے خوش و خرم تھی کہ وقت نے کروٹ بدلی اور ایک روز محی الدین کے والد کی زمینوں پر جھگڑا ہو گیا گولی محی الدین کو لگی اور وہ وہاں ہی ڈھیر ہو گئے۔ ان کے فوت ہوتے ہی سسرال والوں نے مجھے گھر سے نکال دیا کہ اب تمہارا ہم سے کوئی ناتا نہیں، چاہو تو بچے ہم کو دے جاؤ، چاہو تو ساتھ لے جاؤ۔ ہم ایسی عورت کو نہیں رکھ سکتے جس نے ماں باپ کے سر میں خاک جھونکی، شوہر سے خلع لی اور ہمارے لڑکے کو پھنسا کر بیاہ رچا لیا۔ گلاب خان نے جو گھر بنوایا تھا وہ میرے نام پر تھا اور میرا تالا اس پر لگا ہوا تھا۔ میں نے تالا کھولا اور اسی گھر میں جاکر پناہ لی۔ اب سوچتی تھی اگر یہ گھر نہ ہوتا تو میرے ان بچوں کو چھت بھی نصیب نہ تھی۔ آخر گلاب کے گھر کی چھت نے ہی مجھے اور میرے بچوں کو پناہ دی۔ صد شکر کہ میرا ایک بھائی جو اس قابل ہے کہ میرا خرچہ اٹھا سکے۔ بڑا بھائی ہر ماہ مجھے خرچہ کے لئے مناسب رقم دیتا۔ خدا اسے سکھی رکھے اس نے مجھے محتاجی کے عذاب سے بچا لیا۔ میں نے پہلے شوہر کی قدر نہ کی اور والدین کو بھی ناراض کیا تبھی مجھے یہ کٹھن دن دیکھنے پڑے۔