ہم ایک پہاڑی درے کے رہنے والے وہ لوگ ہیں، جنہوں نے انگریزوں کو بھی ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ ہمارے گھر قلعہ نما ہوتے تھے ، جہاں چھتوں پر اونچا مینار سا بنا دیا جاتا تھا، اس میں مورچے کے چاروں طرف سوراخ رکھے جاتے تھے تاکہ دشمن اگر بندوق سے فائر کرے تو ان مورچوں سے جوابی کارروائی ہو سکے اور اپنا دفاع کیا جا سکے ۔ ہمارے یہاں عداوتیں نسل در نسل چلتی تھیں مگر محب خان کہا کرتا تھا۔ روشن جان کاش ! ہم اس علاقے میں پیدا نہ ہوئے ہوتے کہ جہاں بھائی بھائی کے لہو کا پیاسا ہو جاتا ہے اور ذراسی بات پر مورچوں سے بندوقیں آگ اگلنے لگتی ہیں۔ دشمن کو معاف کرنا ہماری لغت میں نہیں تھا۔ جن دنوں میں گائوں کے مدرسے میں پڑھتی تھی۔ محب خان بھی وہاں قریب ہی لڑکوں کے مدرسے میں پڑھتا تھا۔ چھٹی کے وقت ہم اکٹھے کچھ راستہ طے کرتے تھے۔ یہ ہمارا بچپن تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دوستی پیار و محبت کے رشتے میں بدل گئی۔ ہم دونوں اس بات سے بے پروا تھے کہ ہمارے بڑوں کے درمیان تنازع نے کتنی گہری دشمنی کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ہم اکثر اس وقت وادیوں میں ملتے تھے جب میں اور وہ اپنی اپنی بکریاں چرانے نکلتے تھے۔ یہ ہمارا لڑکپن تھا۔ میں اب مدرسہ پڑھنے نہیں جاتی تھی۔ میں محب کو اس باعث پسند کرتی تھی کہ وہ دشمنی کی روایات کے برخلاف امن اور شانتی کی باتیں کرتا تھا۔ مجھے اس کی باتیں اچھی لگتی تھیں۔ وہ کوئی غیر نہیں، والد کے چچازاد کا بیٹا تھا۔ ہمارے گھر بھی زیادہ دور نہیں تھے۔ ذراسی بات پر دونوں گھرانوں کے مردوں میں ٹھنی ہوئی تھی، لہذا عور تیں بھی ایک دوسرے سے کلام نہیں کرتی تھیں۔ میرے والد ان دنوں تجارت کی غرض سے پشاور پنڈی وغیرہ جاتے تو کئی دن بعد آتے تھے ، بھائی بھی ساتھ ہوتے ، لہذا اپنی بھیڑ بکریوں کے گلے کی دیکھ بھال کا کام ہم خواتین نے سنبھالا ہوا تھا۔ میں اکثر بکریوں کا گلہ لے کر ان کو چرانے جاتی۔ والد اور بھائیوں کو مجھ پر اعتماد تھا کہ یہ اپنی عزت کی حفاظت خود کر سکتی ہے وہ میرے بارے فکر مند نہیں تھے۔ وہ ضرورت سے گھر آتے اور پھر اپنے کام پر چلے جاتے اور میں محب خان کو کہتی تھی۔ محب، تیرا میرا پیار ہمارے خاندان والوں کے لئے ایک خونی پکار ہے۔ کہیں ، ہماری وجہ سے بندوقیں نہ چل جائیں، جو دشمنی ہونے کے باوجود ابھی تک خاموش تھیں۔ وہ تب ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتا۔ خُدا نہ کرے، ہمارا بھید کھلنے سے پہلے ہی جرگے میں صلح کی بات طے ہو جائے۔ اس کا باپ ہم کو تاوان دینے پر راضی تھا مگر میرے والد نہیں مان رہے تھے۔ ہمارا معمول تھا کہ صبح احاطے سے بکریوں کا گلہ کھول کر وادی میں ہانکتی اور شام ڈھلے ان کو اکٹھا کرنے کے بعد گنتی کر کے واپس احاطے میں بنی ان کی کوٹھریوں میں بند کر دیتی تھی۔ محب خان نے تو جان بوجھ کر اپنے گلے کی نگہبانی کا ٹھیکہ لے رکھا تھا، حالانکہ یہ کام اس کے کرنے کا نہیں تھا لیکن میری خاطر وہ یہ سب خوشی سے کر رہا تھا کہ اس طرح ہماری ملاقات ہو جاتی تھی۔ شام ڈھلے چند منٹ کی یہ ملاقاتیں رات کی تاریکی میں ہونے لگیں۔ گھر کے پاس ہی مورچہ تھا اور مورچے کے قریب بھیڑ بکریوں کا باڑہ تھا۔ جب میں گلے کو احاطے کے باڑے میں بند کرنے لگتی تو مورچہ کا قفل کھول دیتی اور محب اپنے گلے کو سمیٹنے کے بعد ہمارے مورچے میں آبیٹھ جاتا۔ آماں راستے کا کھانا پکانے اور ہمیں کھانا دینے کے بعد سونے کو لیٹتی تو میں برتن بھانڈے اٹھانے میں مصروف ہو جاتی۔ اس وقت برتنوں کے آپس میں ٹکرانے کی مخصوص آواز سے محب خان محبت کی زبان سمجھ لیتا تھا کہ مجھے اس سے ملنے آنے میں کتنی دیر ہے ؟ وہ انتظار کرتا رہتا۔ مورچہ کے اس خفیہ کمرے میں جہاں اسلحہ رکھا جاتا تھا، اس کمرے کو بھی قفل لگارہتا تھا، جس کی چابی میری ماں کے پاس تھی۔ وہ رات اور راتوں کی طرح ستاروں بھری نہ تھی۔ وہ رات بڑی سرد اور ڈرائونی تھی۔ جانے کیوں، وہ دل جو روز محب سے ملنے کو مچلتا تھا، آج نہیں چاہ رہا تھا کہ مورچہ کی طرف جائوں۔ ماں کب کی سوچکی تھی اور محبت خان مورچہ میں میرا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے آج سے پہلے کبھی ایسا خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔ ان تاریخوں میں والد صاحب بھی نہیں آتے تھے، بھائی بھی ان کے ساتھ آتے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آج کیوں دل سہما ہوا ہے جیسے کچھ ہونے والا ہو۔ یخ بستہ ہوا جسم کے اندر خون کو جما رہی تھی پھر بھی میں جانے کو بے قرار تھی، یہ سوچ کر کہ محب میری راہ تک رہا ہے۔ کچھ دیر اسی طرح کشمکش میں رہی، یہاں تک کہ چولہے میں پڑی چنگاریاں بھی سرد ہو گئیں۔ ماں لحاف میں لپٹی کبھی کی سوچکی تھی اور ان کے خراٹوں کی ہلکی ہلکی آواز مجھے اور بھی سہما رہی تھی۔ ایک بار میں دروازے تک جا کر لوٹ آئی۔ گھر کے اندر سے بھی ایک راستہ مورچہ کو جاتا تھا اور مجھے اُدھر سے ہی جانا تھا۔ مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنا تھا پھر بھی لگتا تھا جیسے آج مجھے وحشتوں کا جنگل پار کرنا ہے۔
دو تین بار میں جانے کو اُٹھی اور پھر لیٹ گئی۔ میرے اور محب کے درمیان ایک خاموش معاہدہ تھا کہ وہ کبھی شادی سے قبل میرے دامن کو نہ چھوئے گا اور ہماری محبت پاکیزہ رہے گی۔ مجھے اس پر بھروسہ تھا، اسی لئے تو بے دھڑک آ دھی رات تک اس کے پاس اسلحہ خانے میں بیٹھی رہتی تھی اور ہم دنیا جہان کی باتیں کرتے تھے ، اس دوران کبھی خیال نہیں آتا تھا کہ غلط روش بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ سُنا تھا کہ نفس ایک وحشی جانور ہے اور اسے قابو میں کرنا مشکل ہوتا ہے مگر میرے نزدیک اس وحشی جانور سے زیادہ طاقت ور کسی انسان کی بے لوث محبت کا جذبہ تھا، جو دریائوں کا رخ موڑ سکتا تھا اور طوفانوں کو شکست دے سکتا تھا۔ میں خدشات میں گھری مورچے میں جا پہنچی، تبھی بادلوں نے گرجنا شروع کر دیا۔ میں نے صحن میں کھڑے کھڑے، کھلے آسمان کی طرف دیکھا پھرجی کڑا کرکے تہہ خانے کی سیڑھیاں اتر گئی۔ میرے ہاتھ میں شمع تھی اور اس کا آجالا اس بات کی نوید تھا کہ میں آچکی ہوں ، مدھم روشنی کا قرب، محب کو خوشی سے سرشاد کر دیا کرتا تھا وہ مسرت سے لبریز آواز میں پکار اٹھتا تھا۔ تم آگئیں، مگر بڑی دیر کر دی، میں اتنا انتظار کرتا ہوں اور تم دوگھڑی کو ملتی ہو، پوری طرح باتیں بھی نہیں ہو پاتیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ میرے ہاتھ سے شمع دان کو لے لیا کرتا تھا۔ ہم دونوں آمنے سامنے ایک فاصلے پر بیٹھ جاتے اور دُنیا جہان کی باتیں کرتے تھے۔ وہ وقت کتنا حسین ہوتا تھا۔ مدھم روشنی میں اس کا چاند سا چہرہ اور محتاط مسکراہٹیں جیسے اس پر جنت کے پھول برستے ہوں۔ ہم اکثر سوچا کرتے تھے کب ہمارے بڑوں کے بیچ صلح ہو گی اور کب ہم شادی کے بندھن میں بندھ کرایک ہو جائیں گے، کیونکہ صلح میں ایک شرط تو تاوان کی ادائیگی اور پھر رشتے کا چند شرائط پر طے ہونا تھا۔ ہمیں اسی سُندر گھڑی کا انتظار تھا جس کے لئے ہم نے بار بار صلح کی دُعائیں مانگی تھیں۔ خبر نہیں تھی کہ اس گھڑی کے آنے سے پہلے ایک اور گھڑی آجائے گی، جس کو آخرت کی گھڑی کہوں تو بے جا نہ ہو گا۔ محبت انسان کو کبھی کبھی مکڑی کے جالے کی طرح جکڑ کر بے بس کر دیتی ہے ، محب خان بھی اسی محبت کی زنجیر میں جکڑا ہوا بے بس ہو کر دشمن کے مورچے میں بیٹھا تھا۔ آج شمع دان کی روشنی اسے بھلی نہ لگی کہ وہ شاید طویل انتظار سے تھک کر بور ہو چکا تھا۔ وہ مجھے خفا خفا سا لگ رہا تھا۔ تم خفا لگ رہے ہو کہ میں نے آنے میں دیر کر دی؟ شمع دان کو میں نے طاقچہ میں رکھتے ہوئے کہا۔ وہ چپ رہا، صبح ہونے میں چند گھڑیاں باقی تھیں اور ہم کو مُنہ اندھیرے سے قبل ہی واپس لوٹ جانا تھا تا ہم اس کی بیزاری میں کمی نہ آئی۔ اس کو انتظار کی کوفت نے تپا دیا تھا۔ محب نے میری کسی بات کا جواب نہ دیا جیسے گونگا ہو ۔ میں نے معذرت کی منانا چاہا، مگر اس نے مجھ سے کلام نہ کیا، تبھی میں رودی، میرے آنسوئوں نے اس کے پتھر دل کو موم کیا تو وہ میرے آنسو پوچھنے لگا۔ تبھی جانے اُسے یکایک کیا ہوا۔ کہ وہ ایک دم بدل گیا۔ نرم و نازک لہجے والا ایک بے قابو وحشی کا روپ دھارنے لگا۔ اُسے خود پر اختیار نہ رہا اور میں اس کے بےقابو ہونے سے بوکھلا گئی۔ میں نے درشت لہجے میں کہا۔ محب، تم ہوش میں تو ہو ، تمہیں خبر ہے کہ تم کیا کرنے جا رہے ہو۔ کیا تمہارے دل سے محبت کا احترام بھی ختم ہو چکا ہے، کیا اپنی قسم کا پاس بھی نہیں رہا ہے تمہیں۔ میری کوئی بات وہ نہیں سُن پا رہا تھا۔ جیسے اس کے کان بند ہو چکے ہوں۔ اسی وقت انہی سوچوں کی تپش سے میری حمیت سلگ اٹھی۔ اسی لمحے سوچ لیا کہ اب محب کے پاس رُکنا میری بربادی ہے۔ یہ بھی مجھے فورا ہی فیصلہ کرنا تھا کہ جس پر بھروسہ کیا، اب آگے اس کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے۔ دل سے مشورہ کیا کرتی، عقل نے تازیانہ لگا دیا کہ وہی سلوک جو کسی عہد توڑنے والے منافق کے ساتھ کرنا چاہئے اور ہمارے قبیلہ کی روایت کے مطابق ایسا شخص جو عہد توڑ دیتا ہے قابل معافی نہیں ہوتا۔
تبھی میں نے جان لیا کہ یہ دشمن ہے دوست نہیں، جس نے میرے آنچل کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔ وہ بے شک مجھے جان سے بڑھ کر پیارا تھا مگر دوست کے پردے میں ایسا دُشمن، عزت سے بڑھ کر پیارا نہ تھا کیونکہ خاندانی شرافت اور عزت کی غیرت ہم لوگوں کو محبوب سے بڑھ کر پیاری ہوتی ہے، غیرت کی موت محبوب کی قربانی چاہتی ہے۔ تبھی میں نے اس کو ٹھنڈے لہجے میں کہا۔ ایک منٹ ٹھہرو اور پُرسکون ہو جائو ، میں مورچہ کے دروازے کو مقفل کر دوں۔ ہو سکتا ہے ماں کی آنکھ کھل جائے اور وہ مجھے تلاش کرتی ہوئی ادھر آجائے۔ میری یہ تدبیر کارگر ہوئی، غالباً جذبات کے طوفان نے اس کی عقل کے تمام چراغ بجھا دیئے تھے۔ وہ کچھ شانت ہو گیا اور وہاں بیٹھ کر میرے لوٹ آنے کا انتظار کرنے لگا۔ ذراسی مہلت ملتے ہی میں سیڑھیاں چڑھتی باہر نکل آئی اور اوپر آتے ہی پہلے اسلحہ خانے کا دروازہ مقفل کیا۔ اس کے بعد مورچے سے باہر نکل کر اس کے بیرونی دروازے پر تالا ڈال دیا اور کانپتی ہوئی زمین پر پائوں جماتی اپنے گھر کے صحن میں پہنچی، جہاں لکڑی کا تخت پڑا تھا۔ میں چند لحظہ اس پر بیٹھ کر اپنے حواس درست کرنے لگی۔ تبھی ، بارش نے مجھے بھگود یا اور میں کمرے میں چلی گئی۔ ماں طوفانِ باراں سے بے خبر ابھی تک گہری نیند سورہی تھی۔ اُسے نہ تو میرے جانے کی خبر ہوئی اور نہ لوٹ آنے کی۔ مجھے شال میں ٹھنڈ لگ رہی تھی، بستر پر میں دبک گئی۔ آج نیند کیسے آ سکتی تھی کہ میرا اعزیز آنجان انتظار کی گھڑیاں گن رہا تھا اور میں اسے آزاد نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اس نے میرے بھروسے کو توڑا تھا اور اب میرا اعتبار اس پر سے اُٹھ گیا تھا۔ میرا ارادہ اب اسے صبح اذان کے وقت آزاد کرنے کا تھا۔ اُسے اس وقت شب کے آخری پہر کی چند گھڑیاں قید میں رہ کر گزارنی تھیں۔ سوچ رہی تھی کہ صبح صادق کے ہوتے میں جا کر قفل کھول دوں گی اور اسے اسلحہ خانے سے رہائی دلا دوں گی۔ اس وقت تو واپس جانے میں خطرہ تھا۔ وہ غصے میں جانے مجھ سے کیا سلوک کرنے والا تھا۔ میں نے تبھی یہ فیصلہ کیا کہ کچھ دیر بستر میں دبکی رہوں یہاں تک کہ اذان ہو جائے۔ اذان ہونے اور صبح کی سپیدی پھیلنے میں چند منٹ کی دیر تھی۔ اذان ہو گئی اور میں مورچے کی طرف جانے کے بارے ارادہ باندھ کر رہ گئی۔ انہی سوچوں میں فجر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ ماں اس وقت اُٹھ جاتی تھی، نماز پڑھ کر باورچی خانے میں ناشتہ بنانے کا کام شروع کردیتی، تبھی میں بھی نماز پڑھ کر کچن کے کام میں ان کا ہاتھ بٹانے پہنچ جاتی تھی۔ اس کے بعد میں اپنے گلے کو بکریوں کے باڑے سے نکال کر وادی میں لے جاتی۔ ماں نے آواز دی، میں سوچ کے سمندر سے نکل آئی۔ آج کام میں جی نہیں لگ رہا تھا۔ سارا دھیان تو اسلحہ خانے کی طرف تھا۔ یہ میرے گمان میں نہ تھا کہ اس وقت جبکہ رات طوفانِ باراں تھا والد صاحب ٹرک لے کر آجائیں گے۔ ان کو دو روز بعد آنا تھا۔ جانے وہ کس ضرورت کے تحت آگئے تھے۔ جب ٹرک رکنے کی آواز سُنی میرا دم ہی نکل گیا۔ سوچا اب میری اور محب کی موت یقینی ہے۔ والد صاحب ہمیشہ دن کو آتے تھے کیونکہ اُن دنوں پہاڑی رستے بہت دُشوار گزار تھے اور رات کو ٹرک پر سفر نہیں کرتے تھے۔ جانے کیسے والد صاحب آج صبح ہی آگئے جبکہ میں نے سوچ رکھا تھا۔ جب باڑے سے ریوڑ نکالوں گی تو مورچے کا تالا کھول دوں گی اور محب خان باہر آجائے گا۔ گرچہ یہ کام مجھے صبح منہ اندھیرے کرنا چاہئے تھا لیکن ماں کے پکارنے پر میں ان کے پاس چلی گئی اور یہ سنہری موقع کھودیا۔ والد صاحب کا دھیان اسی وقت اسلحے کی طرف جاتا جب انہیں اسلحہ لینا ہوتا تھا مگر مجھے چابیاں تک وہاں رکھنے کا موقع نہ ملا کہ جہاں سے میں نے اٹھائی تھیں۔ مورچے کے بیرونی در کا قفل جو کھولنا تھا۔ چابیاں میرے پاس تھیں اور چاہتے ہوئے بھی گھر سے قدم نہ نکال سکی، سُورج اب نکل آیا تھا۔ اجالا پھیل گیا تھا۔ والد صاحب ماں سے کہہ رہے تھے کہ دیر ہو رہی ہے۔ مجھے ناشتہ دے دو تو میں گودام سے اسلحہ نکال کر جائوں گا۔ مجھے دوبارہ شہر سفر کرنا ہے۔ چابیاں مجھے دے دو۔ ماں نے دیکھا کہ جہاں وہ چابیاں رکھتی تھیں وہاں موجود نہ تھیں۔ وہ کہنے لگیں۔ چابیاں یہاں نہیں ہیں۔ نجانے کہاں گئیں ؟ ہمیشہ رکھتی تو اسی جگہ ہوں، اچھا آپ ناشتہ کر لو میں دوبارہ اچھی طرح دیکھتی ہوں۔ یہاں ہی ہوں گی۔ وہ والد کو ناشتہ دینے لگیں۔
اب مورچے کی طرف جانا موت کو دعوت دینا تھا۔ میں نے ماں سے پوچھا۔ کیا ڈھونڈ رہی ہیں ؟ بیٹی گودام کی چابیاں ڈھونڈ رہی ہوں ، ہمیشہ اسی جگہ رکھتی ہوں مگر اب نہیں مل رہیں۔ ماں چابیاں میرے پاس ہیں۔ وہ کیوں؟ ماں نے حیرت سے پوچھا۔ بابا جان بھی چونک اٹھے۔ کیا بات ہے بیٹی ! اسلحہ خانے کی چابیاں تیرے پاس کیوں ہیں ؟ انہیں مشکوک دیکھ کر میں نے کہا۔ بابا جان دو چار بار جب میں بکریوں کو باڑے سے نکال رہی تھی تو میں نے مورچے کے قریب محب خان کو دیکھا تھا۔ جانے اس کی نیت کیا تھی، تبھی کل شام میں نے مورچہ کا دروازہ کھول دیا کہ دیکھوں اس کا ارادہ کیا ہے اور ہمارے گودام کی طرف منڈلانے کا کیا مقصد ہے؟ میرا اندازہ ٹھیک نکلا۔ اس نے قفل کھلا پایا تو وہ مورچے خانے کے اندر چلا گیا۔ شاید وہ ہمارے اسلحے کے ذخیرے کو شمار کرنا چاہتا تھا یا اندازہ لگانے کی نیت تھی، میں باڑے میں چھپ کر اس کی نگرانی کر رہی تھی، جونہی وہ سیڑھیاں اتر کر زمین دوز گودام میں گیا، میں نے دوڑ کر دروازہ بند کیا اور قفل لگ ادیا۔ وہ اب ہمارے اسلحہ خانے میں قید ہے، میں آپ کا انتظار کر رہی تھی۔ شکر ہے آپ جلد آ گئے ورنہ آماں کو بتانے کا ارادہ کر رہی تھی۔ یہ کہتے ہوئے میرے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔ لقمہ منہ تک لے جاتے ہوئے بابا جان کا ہاتھ رُک گیا۔ انہوں نے ناشتے کے برتن ایک طرف سرکا دیئے۔ جلدی سے چارپائی سے اتر کر پائوں میں جو تا ڈالا اور مجھے کہا کہ چابیاں دو۔ چابیاں لیتے ہی وہ تیزی سے باہر کی جانب دوڑ پڑے اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئی۔ جانے یہ الفاظ میں نے اتنی جلد کیسے سوچ لئے اور کس طرح تیزی سے ادا کر گئی۔ اگر بابا جان ذرا غور کرنے کو ٹھہر جاتے اور ایک نگاہ میرے چہرے پر ڈال لیتے تو شاید محب خان کو اپنی گولی کا نشانہ بنانے سے پہلے ایک گولی مجھ پر داغ دیتے لیکن وہ اُن والدین میں سے تھے ، جو اپنی بیٹیوں پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ آج محب خان کے بارے سوچتی ہوں تو بدن ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ دُکھ رگوں میں درد بن کر دوڑ نے لگتا ہے۔ نجانے مجھے اس وقت کیوں اس قدرغصہ تھا کہ اُسے موت کی وادی میں دھکیل دیا یا اس کی تقدیر میں موت لکھی گئی تھی کہ بابا جان کو تبھی آنا تھا جب میں نے اس کو مورچے کا قفل کھول کر رہا کرنا تھا۔ دراصل میں اتنی خوفزدہ ہو گئی تھی کہ گھر کے اندر کا دروازہ تو مقفل کیا ہی تھا دُوسرا رستہ جو باہر سے گودام کو اترتا تھا اسے بھی تالا لگا دیا۔ اگر میں اس وقت مورچے کے بیرونی دروازے کو باہر سے جا کر تالا نہ لگاتی تو اسے جانے کا موقع مل جاتا، وہ در میں بعد میں جا کر مقفل سکتی تھی۔ مجھ سے بھول ہوئی یا میرے حواس اختیار میں نہ رہے۔ اس سوال کا جواب آج بھی میرے پاس نہیں ہے۔ میری اسی بھول کی وجہ سے محب کو محبت کی یہ بھیانک صورت دیکھنی پڑی، شاید اپنی قسم کی پاس داری نہ کرنے پر اُسے یہ بڑی سزا ملنی ہی تھی۔ اب بھی دُکھ کا احساس مجھے تڑپاتا ہے کہ کاش! بابا جان اس روز اتنی صبح نہ آجاتے۔ آئے تھے تو ان کو اسی وقت گودام سے اسلحہ نہ اٹھانا ہوتا کہ محب کی جان جاتی۔ میں نے تو یوں بھی تہیہ کر لیا تھا کہ اب کبھی اس سے نہ ملوں گی کہ اپنی قسم کی پاس داری نہیں رکھ سکتا۔ محب خان کا خون جرگے نے والد صاحب کو اس لئے معاف کر دیا کہ وہ خود چل کر ہمارے مورچہ کے اندر آیا تھا۔ بابا جان اُس کے ٹھکانے پر اسے مارنے نہیں گئے تھے اور یہ قبیلہ کی روایت تھی کہ دشمن اگر چھپ کر گھر یا گھر کے کسی حصے میں آز خود داخل ہو جائے تو اسے گولی مار دینا، دوسرے فریق کی مجبوری ہو سکتی ہے کیونکہ بغیر للکارے اور خبر دار کئے دشمن پر وار کرنا اور اسے مقابلے کی خاطر زندگی کی مہلت نہ دینا بھی بزدلی سمجھا جاتا ہے۔