میرا جنم بھارت کے صوبے راجستھان میں ہوا۔ بے شک میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئی تھی لیکن میرے بچپن میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس کو دیکھ کر میرا ہندو دل مسلمان ہو گیا اور میں صرف نام کی ہندو رہ گئی کیونکہ میرے ماں ، باپ ہندو تھے اور وہ واقعہ جس نے مجھے اپنے مذہب سے بیزار کیا، وہ ستی کا واقعہ ہے۔ میرے والد جے پور کے ٹھا کر تھے اور ان کی اونچی حویلی تھی جس سے کچھ ہی دوری پر ایک میدان میں ایک ویدھا جوان عورت کو جس کی عمر بمشکل سترہ سال تھی “ستی” کی رسم کی بھینٹ چڑھتے میں نے اپنی معصوم آنکھوں سے دیکھا تھا۔ آگ کے شعلے میرے باپ کی اونچی حویلی کی بالائی منزل سے صاف دکھائی دے رہے تھے اور وہاں لوگ ایسے جمع تھے جیسے کوئی جشن ہو۔ میری عمر گرچہ بہت کم تھی مگر میں ایک زندہ اور خوبصورت لڑکی کو زندہ جلنے کے کرب سے گزرتے دیکھ نہ سکی تھی اور چیخ مار کر بے ہوش ہوگئی تھی۔ میری باندی نے آکر مجھے اٹھایا اور بستر پر لٹایا، مور چھل سے ہوا دی اور منہ پر عرق گلاب کی بارش کی۔ مجھے جب ہوش آیا تو اس بھیانک نظارے نے میرے حواس زخمی کر رکھے تھے تبھی میں نے اپنی ماتا کو کہا کہ ماں! کیوں اس معصوم اور خوبصورت لڑکی کو زبردستی زندہ آگ میں پھینکا گیا جبکہ وہ جینا چاہتی تھی اور مرنا نہیں چاہتی تھی۔ ماں نے جواب دیا تھا، اس لئے کہ وہ ودوھا ہو گئی تھی اور ہمارے مذہب میں یہی رواج ہے کہ جب کوئی عورت ودوھا ہو اور خصوصاً وہ جوان بھی ہو تو اس کو اپنے مردہ پتی کی چتا میں زندہ جلنا ہوتا ہے، یہی ہمارے دھرم کی رسم ہے اور اس سے دھرم کی لاج رہتی ہے۔ ماں کے اس بیان سے میرے ننھے سے دماغ نے ذرا بھی اتفاق نہیں کیا اور میں نے سوچا ایسے دھرم سے بے دھرم رہنا ہی اچھا ہے، جس میں عورت کو ستی کے نام پر زندہ اپنے مردہ خاوند کی وفاداری کی خاطر جلنا ہوتا ہے۔ اس روز سے میں نے اپنے مذہب سے منہ پھیر لیا، بظاہر ہندو رہی مگر دل سے میں ہندو نہ رہی۔ ہماری حویلی بہت بڑی تھی اور والد بھی نامی گرامی ٹھاکر تھے۔ انہوں نے میرا نام شوبھا رکھا لیکن میری پیدائش پر کوئی چراغاں نہ ہوا ، کسی نے مبارکباد بھی نہ دی کیونکہ ٹھاکروں کے یہاں بیٹی کا پیدا ہونا کوئی نیک شگون نہیں سمجھا جاتا۔ ماں تو مجھ کو جنم دینے کے بعد ایسی شرمندہ تھی کہ بقول دادی کے سب کسی سے آنکھیں چرا رہی تھی، تاہم میں ٹھاکر کی بیٹی تھی لہذا میری پرورش بہت ناز و نعم سے ہوئی تھی ۔۔ باپو کی حویلی نوکروں کی فوج سے بھری ہوئی تھی جو کئی نسلوں سے ہمارے خاندان کے ملازم تھے۔ میری آیا بھی ایک ایسی ہی عورت تھی۔ ہم ٹھا کر اولاد کے معاملے میں ہر کسی پر بھروسہ نہیں کرتے تھے مگر رام دئی تو کئی نسلوں سے ہماری خدمت گار تھی۔ رام دئی کی ایک ہی بیٹی تھی درگا جو مجھے سے تین برس بڑی تھی ، وہ لہنگا پہنے بھاگ بھاگ کر کام کرتی تھی ، اس کو بعد میں میری خاص خدمت گار یعنی باندی بنا دیا گیا، میری خاطر اس کو بھی پانچویں جماعت تک تعلیم دی گئی تا کہ میرا حکم سمجھنے میں وہ کچھ شعور حاصل کرلے۔
اب زمانہ اتنا دقیانوسی نہیں رہا تھا۔ مجھ کو بہترین تعلیم سے بہرہ مند کیا گیا اور میں نے انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنے کے لئے یونیورسٹی میں پڑھا، زمانہ طالب علمی میں مجھے کو والد کا با اعتماد ملازم اور ذاتی گاڑی یونیورسٹی لے جاتے۔ یونیورسٹی میں مجھ کو کسی لڑکے نے بھی متاثر نہ کیا، کیونکہ ہمارے خاندان کے ٹھا کر مرد بہت وجیہہ ہوتے تھے ، ان کی آنکھیں پررعب اور نشیلی تھیں، جن میں دلکشی کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اور ٹھاکر مردوں کے بلند و بالا قد تھے، ان کی چال میں غرور اور صورت پرتمکنت تھی، ان کی خاندانی وجاہت کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یونیورسٹی میں مجھ کو کوئی بھی اپنے خاندان کے مردوں جیسا با وقار نہ لگا۔ میرے باپو بھی خاصے بارعب تھے اور رعونت مجھے ان سے ہی ورثے میں ملی تھی۔ یونیورسٹی کے خوبر ولڑ کے مجھ کو بس کن اکھیوں سے دیکھا کرتے تھے مگر مزاج کی سنجیدگی کی وجہ سے کسی کو بھی مجھے سے بے تکلف ہونے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ ان دنوں بس میں جیسے خوابوں کی دنیا میں رہتی تھی، میری اپنی دنیا تھی، درگا ہم عمر تھی لہذا وہ میرے مزاج وضروریات کو سمجھتی تھی، اس کا ساتھ مجھ کو اچھا لگتا تھا اور کسی قسم کی پریشانی نہ ہوتی تھی ۔ وہ جب سولہ برس کی ہوگئی تو اس کی ماں نے میری ماں سے کہا کہ میں بیٹی کی شادی کرنا چاہتی ہوں، گاؤں کا ایک اچھا لڑکا میں نے پسند کر لیا ہے، آپ کی اجازت ہو تو میں بیٹی کا گھر بسا دوں۔ ماتا جی نے پتا جی سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنی بیٹی کے لئے کسی دوسری باندی کا بندو بست کرلیں گے بہتر ہے کہ درگا کا گھر آباد ہو جانے دو۔ اجازت مل گئی۔ ماں نے درگا کی شادی گاؤں کے لڑکے سے کر دی۔ انہی دنوں گاؤں میں چیچک پھیلی تو اس کے شوہر راج کو چیچک نکل آئی ۔ یوں شادی کے صرف چھ ماہ کے بعد درگا بیوہ ہوگئی۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ ہم ہندو بیوہ عورت کو کہ جس کا شوہر مر گیا ہو، ودوھا کہتے ہیں ، سو گاؤں کی ریت کے مطابق چونکہ درگا ودوھا ہوگئی تھی، اس کوستی کرنے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جب مجھے کو اس بات کی خبر ہوئی تو میں بہت روئی اور مجھ کو بچپن کا وہ بھیانک نظارہ یاد آ گیا جو میں نے اپنی اونچی حویلی کی بالائی منزل سے دیکھا تھا اور یہ ایک کمسن ددوھا کے ستی ہونے کا منظر تھا۔ جب میں نے رورو کر آسمان سر پر اٹھا لیا تو بالآخر میرے والد نے رونے کا نوٹس لیا اور وہ اس معاملے کے بیچ پڑے۔ یوں وہ معصوم لڑکی ستی ہونے سے بچالی گئی۔ باپو کا بڑا دبدبہ تھا، وہ گاؤں والوں کو ڈرا دھمکا کر درگا کو واپس حویلی لے آئے۔ اس کے آنے سے میں بہت خوش ہوئی کہ ایک تو وہ ستی ہونے سے بچ گئی تھی۔ دوسرے میں اس سے مانوس بھی تھی ، تاہم ودوھا ہونے کے ناتے وہ اچھے اور رنگین کپڑے پہن سکتی تھی اور نہ کسی خوشی کی تقریب میں شامل ہو سکتی تھی ، وہ شادی کے منڈپ میں سہاگنوں کے قریب بھی نہ جاسکتی تھی۔ درگا کو اب کوئی اچھی نظر سے نہ دیکھتا تھا۔ عورتیں چاہتی تھیں وہ ان سے دور رہے حتی کہ اس کی اپنی ماں بھی اس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھی ۔ اب اس کی دنیا صرف میں تھی اور میرا کمرہ تھا جس کی جھاڑ پونچھ ، صفائی ستھرائی وہ ایک مقدس فرض کی طرح کیا کرتی تھی۔
میں نے ایم اے کر لیا تھا اور رواج کے مطابق میرا رشتہ باپو نے ایک اونچے اور ہم پلہ ٹھاکر خاندان میں طے کر دیا۔ اس کا نام ارجن تھا ، جس کو میرا جیون ساتھی بنایا جانا مقصود تھا، وہ امریکا سے ایم بی اے کی ڈگری لے کر آیا تھا۔ شادی سے چند دن پہلے پتہ چلا کہ وہ بھارت میں رہنے کی بجائے واپس اپنی ملازمت پر امریکا چلا جائے گا۔ باپو مجھے اتنی دور نہیں بھیجنا چاہتے تھے مگر میرے بارے میں وہ اپنے دوست یعنی ارجن کے پتا جی کو قول دے بیٹھے تھے اور اب ایک ٹھاکر کا قول سے پھر جانا ممکن نہ تھا۔ وہ اب قول نباہنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ مجھے سات پھیرے دلا کر ارجن کے حوالے کر دیا گیا جو امریکا میں کمسنی سے رہتا رہا تھا۔ اس کا مزاج خاصا امریکی ہو گیا تھا، وہ ذات پات کے تفرقہ کو بالکل غلط سمجھتا تھا، اس کو اپنے مذہب کی بہت سی باتوں سے اختلاف تھا لیکن ایک پتی ہونے کے ناتے میں نے کبھی اس کے خلاف بات نہ کی۔ شادی کے کچھ دنوں بعد ہی اپنے شوہر کے ہمراہ میں امریکا آئی۔ یہاں اس کا اپنا ذاتی بڑا سا گھر تھا، یہاں آکر میں زیادہ خوش نہ تھی۔ ایک لڑکی جو اونچی دیواروں والی بڑی حویلی میں پلی بڑھی ہو، جس کے خاندان کے اپنے اصول ہوں، اس کے لئے امریکا کے آزاد معاشرے میں جگہ بنانا تھوڑا سا مشکل ہو رہا تھا۔ جن لوگوں کا بہت مضبوط فیملی بیک گراؤنڈ ہوتا ہے، ان کا اپنے خاندانی اصول توڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا ، یہ اصول خون کی مانند ان کے رگ وپے میں گردش کرتے ہیں۔ اس کے باوجود خود کو میں نے خاوند کی مرضی اور رضا کے مطابق ڈھال لیا- شادی کے پانچ سال گزرنے کے بعد خدا نے مجھے دو بچوں کی ماں بنا دیا۔ میں نے اپنے بھگوان کا شکر ادا کیا۔ ان دنوں میں بے حد مشکلات میں گھر گئی ، گھریلو ذمہ داری، بچوں کی پرورش، اس کے ساتھ ہی ایک اسکول میں جزوقتی ملازمت ! یہ سب میرے لئے بہت مشکل امور تھے۔ میں نے باپو کو آگاہ کیا تو انہوں نے میری مشکلات کا یہ حل نکالا کہ درگا کو میرے پاس امریکا بھیجوا دیا چونکہ وہ میری پرانی خدمت گار تھی اور میرے مزاج کو سمجھتی تھی، اس کے آجانے کے بعد میں نے سکون کا سانس لیا۔ بچوں اور گھرداری کی ذمہ داری مجھ پر سے کافی حد تک کم ہو گئی تھی ، میں خوش تھی، واقعی خدمت گزاری بڑی مشکل بات ہے۔۔ درگا کے آنے سے ہم سب کو تو قرار آ گیا مگر اس ہے چاری کو قرار نہ تھا۔ کبھی میں کام کے لئے پکارتی، کبھی ارجن آواز دیتے اور بچے تو منٹ منٹ میں بلاتے ۔ درگا دیدی! ذرا ادھر آپ یہ کر دو، وہ کردو، وہ سبھی کے حضور جی جی کرتی رہتی۔ میں اب ملازمت کے بعد لمبی تان کر سوتی یا پھر سیر سپاٹے کو نکل جاتی ۔ کھانا بنانا، گھر سنبھالنا میری دردسری نہ تھی ، درگا جو تھی۔ حتی کہ چھٹی کے دن جب ارجین گھر ہوتے میں سہیلیوں کے ساتھ پکنک منارہی ہوتی اور وہ آدمی آدھی رات تک ارجن کو روٹیاں پکا کر دیتی تبھی ، میں گھوڑے بیچ کر سو جاتی تھی۔ ایک روز میری پرسکون زندگی کی جھیل میں ایک بھاری پتھر آگرا اور پھر قدرت نے وہ دکھایا کہ اس منظر کو دیکھنے سے پہلے اے کاش میری آنکھیں اندھی ہو جاتیں تو اچھا تھا۔ ایسا تو میں سوچ بھی نہ سکتی تھی جیسا ہوا مگر سچ ہے کہ دنیا میں کچھ ناممکن نہیں ہے، جو ممکن نہ ہو، کبھی کبھی وہ بھی ہو جاتا ہے۔ بعض گھر کی لڑکیاں جو مضبوط پس منظر کی حامل نہیں ہوتیں اور اصولوں کی روشنی میں پرورش نہیں پاتیں، ان کو حالات جلد بہکا دیتے ہیں یا پھر اپنے احساس کمتری کی وجہ سے وہ خود کو اچھی سوسائٹی میں کوئی مقام دینے کے لئے سر توڑ کوشش کرتی ہیں۔ درگا نے یہی کیا اور پھر اس کی اصلیت بھی مجھے پر کھل ہی گئی ۔ ممکن ہے اس میں درگا سے زیادہ قصور میرے خاوند کا ہو، میں بھی تو خاصی غافل ہو گئی تھی۔ میں یہ بھول گئی کہ وہ لڑکی جس نے کبھی ایئرپورٹ کی شکل نہ دیکھی تھی ، وہ ہوائی جہاز میں بیٹھ کر یہاں آگئی تھی تو یہاں کی دنیا اس کے لئے ایس ان ونڈر لینڈ سے کم نہ ہوگی۔ وہ اب لہنگا پہننے کی بجائے میرے اترے ہوئے مگر نہایت عمدہ امریکن کپڑے زیب تن کرتی تھی اور یہ میں خود اس کو دیتی تھی تا کہ وہ یہاں کے معاشرے میں کوئی عجوبہ نظر نہ آئے۔ ارجن سے کہہ کر میں نے اس کو گاڑی چلانا سکھا دی تھی کہ وہ بچوں کو اسکول لے جانے اور لانے کا فریضہ ادا کر سکے اور یہ درد سری میرے سر سے ٹلے۔ رفتہ رفتہ گھر کا مکمل کنٹرول اس کے ہاتھ میں آگیا تھا، مجھے کبھی اس پر شک نہ ہوا کہ وہ ارجن کے دل پر قبضہ کر سکتی ہے، وہ تو میرے مقابلے میں ان پڑھ اور معمولی صورت کی لڑکی تھی۔ ایک روز صبح میں نے بچوں کو اسکول چھوڑا اور پھر مجھے اپنی ملازمت پر جانا تھا کہ رستے میں رکمنی کا فون آگیا۔ وہ پوچھ رہی تھی۔ کیا تم ان خواتین کی لسٹ لا رہی ہو جو ہولی کے دن رنگ اور کھانا لائیں گی۔ اپنے میل پر یہ پیغام ملتے ہی میں نے گاڑی گھر کی طرف موڑ لی کیونکہ یہ لسٹ میں اپنے بیڈ روم کی ٹیبل پر ہی چھوڑ آئی تھی۔ مجھے پتہ تھا کہ اس وقت درگا، ارجن کا ناشتہ تیار کر رہی ہوگی ۔ وہ ناشتہ کر کے نکلتے تھے پھر یہ اپنے کام میں لگ جاتی تھی۔
اس دن شاید میری تقدیر کا سورج گہنا گیا تھا۔ جب بچوں کو اسکول چھوڑ کر کے میں اپنی ملازمت پر جانے کے لئے مڑی تھی کہ گھر سے رکمنی کے لئے لسٹ لینے کے لئے گاڑی گھر کے سامنے کھڑی کر کے تالا کھولا۔ گھر کا بیرونی دروازہ کھلتے ہی میری خواب گاہ سامنے نظر آجاتی تھی۔ میری مسہری پر درگا مجھے ارجن کے ساتھ نظر آئی تو آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور مجھ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا مگر سچائی اپنی پوری سفاکی کے ساتھ میرے سامنے تھی۔ جلدی سے اندر داخل ہوئی تو ارجن مجھ کو دیکھ کر حواس باختہ ہو گئے اور درگا تو اتنی شرمندہ تھی کہ نظر نہیں اٹھاتی تھی۔ وہ فورا ہی میرے پیروں پر گر پڑی۔ روتے ہوئے کہنے لگی۔ دیدی! معاف کردیجئے ، اس میں میرا قصور نہیں ہے۔ میں نے غصے سے پھنکار کر کہا۔ چپ رہ بد بخت منحوس کیا تو بھول گئی اپنی اوقات کہ بھارت میں ودوھا ہونے کے کارن تجھ سے کتوں کا سا سلوک ہوتا تھا، اے احسان فراموش ! یہاں تو نے میرے اعتبار کو چتا میں جلا کر میرے شوہر پر قبضہ جما لیا۔ وہ روتے ہوئے بولی۔ دیدی ! میری مرضی نہیں تھی، یہ آپ کے پتی کا حکم تھا کہ میں ان کی تابعداری کروں یا پھر بھارت جاؤں اور میں لوگوں کی حقارت کا نشانہ بننے کو بھارت جانے سے ڈرتی ہوں، میں ہرگز وہاں نہیں جانا چاہتی کہ جہاں پر کوئی مجھ کو ودوھا کہہ کر ٹھوکر مارتا ہے۔ میں نے بھی اس کو ٹھوکر مار کر کہا ۔ تو ہے ہی اسی لائق کہ تجھ کو ٹھوکریں ماری جائیں۔ یہ کہہ کر میں نے ارجن کی طرف دیکھا جو مجھ کو اپنا ہونے کے باوجود ایک غیر کی طرح دیکھ رہا تھا۔ وہ جو میرا دیوتا تھا، جس کے ساتھ میں نے مرنے جینے کے سات پھیرے پوتر اگنی بھون کے چاروں اور لگائے تھے، وہ بہت اطمینان سے اپنا ڈریسنگ گاؤن پہنے سارے گھر میں گھوم رہا تھا جیسے اس کی کوئی بہت ہی قیمتی چیز پر ڈاکا پڑ گیا ہو- اس نے پھر تیزغصیلی نظروں سے مجھے دیکھا جیسے کہتا ہو۔ ٹھیک ہے، تم موم کی وہ مورت ہو جو گہری نظروں سے پگھل جائے گی، تم کانچ کی وہ گڑیا ہو جو ہلکی سی غلط جنبش سے ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور تم اپنے بارے یوں سمجھتی ہو جیسے تم بھگوان کا وہ شاہکار ہو جسے لندن کے مومی عجائب گھر میں رکھ دیا جائے تو تمہارے چاروں طرف بھیٹر لگ جائے، تم بہت بڑے ٹھا کر کی تعلیم یافتہ بیٹی ہومگر شوبھا! ایک بات کان کھول کر سن لو، اگر تم اس سانولی رنگت والی ملازمہ کو میرے راحت کدے کی شریک نہیں دیکھ سکتیں تو یہ گھر تمہارا سہی ، میں تمہارا نہ رہوں گا اور ہمارے رستے الگ الگ ہو جا ئیں گے۔ میری خشمگیں نگاہوں میں بھی آگ بھڑک چکی تھی۔ پس اس نے مجھ سے زبانی کلامی الجھنے کے بجائے اس وقت گھر سے چلے جانا مناسب سمجھا۔ اس کے جانے کے بعد میں نے اپنے پتا جی کو فون کیا۔ ان کو مختصر احوال بتا کر کہا کہ میں درگا کو واپس بھجوا رہی ہوں، بے شک آپ اس کو اس کے گاؤں والوں کے حوالے کیجئے ، وہ خود اس کا فیصلہ بہتر کر دیں گے۔ درگا بھارت چلی گئی۔ جانے کیا اس کے ساتھ وہاں ہوا کہ اطلاع ملی اس نے خود کو جلا لیا ہے اور خودکشی کرلی ہے۔ ابھی یہ خبر اخبار کے ذریعے مجھ تک پہنچی ہی تھی کہ ارجن نے مجھ سے صلح کا پیغام بھجوایا۔ میرے دل نے اس صلح کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور میں نے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس نے کچھ دن بعد مجھ کو طلاق دے دی۔ اپنی کہانی سنا کر شوبھا خاموش ہوگئی تو میں سوچنے لگی کہ شوبھا مظلوم ہے یا درگا یا دونوں ان کا جواب کون دے گا۔