کتنے حسین تھے وہ دن ہر غم و فکر سے بے نیاز ۔ ہم بچپن کے معصوم زمانے میں مگن رہا کرتے تھے۔ وہ دن مجھے بہت یاد آتے ہیں جب ہم تین سہیلیاں ساتھ اسکول جایا کرتی تھیں۔ راستے میں باتیں کرتی جاتیں، پھول اور بیر چنتی راستہ ختم ہو جاتا اور پتا نہ بھی چلتا کہ اسکول کا گیٹ آ جاتا۔ ان دنوں ہم ڈیرہ غازی خان میں رہا کرتے تھے ، میں اور طاہرہ ایک ہی محلے میں رہتی تھیں جبکہ لائبہ کا گھر ہمارے ساتھ والے بلاک میں تھا۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ صبح منہ اندھیرے اٹھ جاتی، اپنی دادی کے ساتھ نماز پڑھتی اور پھر ناشتا کر کے اسکول کیلئے تیار ہو جاتی۔ ابھی میں ناشتا کر رہی ہوتی کہ وہ آ جاتی۔ لائبہ کی دادی کا تعلق زمیندار گھرانے سے تھا لیکن شومئی قسمت کہ ان کے بڑے بیٹے نے باپ کے مرتے ہی زمین اور جائداد فروخت کرناشروع کردی۔ ان دنوں لائبہ کے والد اور چچاکم عمر تھے اور وہ بڑے بھائی کے تسلط میں تھے ۔ تایا سے ڈرتے تھے اور کچھ نہ بول سکتے تھے۔ لائبہ کے اس تایا کا نام کلیم تھا۔ کلیم بہت منہ زور انسان تھا۔ وہ ماں کا کہنا نہ مانتا، باپ نے اسے بہت لاڈ دیا اور عیش بھری زندگی دی تو وہ عیاشی کا عادی ہو گیا۔ باپ کی وفات اس کیلئے عید کا پیغام ثابت ہوئی اور اب وہ اور زیادہ آزاد اور عیاش ہو گیا۔ اس نے اپنی والدہ اور چھوٹے بھائیوں کا کچھ خیال نہ کیا۔ چند سالوں میں ہی وراثتی جائیداد پر پانی پھیر کر سارے کنبے کو افلاس کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ پہلے تو لائبہ کا گھر بہت بڑا اور شاندار تھا پھر اسے بیچنا پڑ گیا تو یہ لوگ چھوٹے سے گھر میں منتقل ہو گئے جو کہ دادی نے اپنے زیور بیچ کر خریدا کہ ان کے بچے در بدرنہ ہوں۔ کلیم تو نکما اور عاقبت نا اندیش تھا۔ سب کو کوڑی کوڑی کا محتاج کر کے خود ان کے ٹکڑوں پر پلنے لگا لیکن اس کی عادات پھر بھی شاہانہ رہیں۔ جب رقم کی ضرورت ہوتی ، گھر میں دنگا فساد کرتا اور چھوٹے بہن بھائیوں کو مارتا پیٹتا۔ یوں ماں سے رقم کھسوٹ لیتا۔ لائبہ کے ابو پہلے نوکری نہیں کرتے تھے۔ باپ کی وفات کے بعد مجبور ہو کر ایک معمولی نوکری کرنے لگے ، اپنی ماں اور بیوی بچوں کا پیٹ جو پالنا تھا۔ لائبہ کے چچا کی عمر اس وقت بارہ برس تھی اور نام سلیم تھا۔ وہ آٹھویں کا طالب علم تھا۔ میری سہیلی کے ابو چاہتے تھے کہ کسی طرح میرا یہ چھوٹا بھائی پڑھ لکھ جائے تا کہ یہی آئندہ ہمارے کنبے کا سہارا بنے، ہمارے خاندان کی ساکھ سنبھال لے۔ لائبہ کے ابو نوکری کرتے رہے جس سے گھر کا گزارا ہوتارہا۔ کلیم نشے میں پڑ گیا۔ ایک روز جوئے کے اڈے پر جھگڑا کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے ایک جواری زندگی کی بازی ہار گیا۔ پولیس کلیم کو پکڑ کرلے اولاد جتنی بری ہو، چاہے قاتل خوبی کیوں نہ ہو، ماں کے دل سے اولاد کی محبت کم نہیں ہوتی ۔لائبہ کی دادی کلیم کیلئے تڑپنے لگی۔ یہ اس کا بڑا بیٹا تھا، باوجود بری روش کے وہ اسے پیارا تھا۔ لائبہ کے والد کو مجبور کیا کہ یہ مکان فروخت کر کے کلیم کیلئے وکیل کرو اور اسے پھانسی لگنے سے بچالو۔ ہم کرائے کے مکان میں رہ لیں گے اور اللہ نے چاہا تو پھر مکان بنائیں گے مگر میرابیٹا واپس نہ آئے گا۔ ماں کے مجبور کرنے پر سلیم انکل کو مکان فروخت کرنا پڑا اور وہ ایک بوسیدہ سے مکان میں کرائے پر رہنے لگے۔ روپیہ کلیم کے مقدمے پر خرچ ہو گیا لیکن پھر بھی کلیم کو پھانسی ہو گئی۔ اس گھرانے کیلئے یہ بڑا سانحہ تھا۔ سب محلے والے افسوس کیلئے لائبہ کی دادی کے پاس گئے۔ میری والدہ بھی گئیں۔ ہر کسی کو دکھ ہوا، یہ بوڑھی عورت اپنے بیٹے کے ہاتھوں زندہ درگور ہو کر بھی اس کی موت سے کس قدر نڈھال ہے۔ ان دنوں لائبہ چو تھی کلاس میں میرے ساتھ پڑھتی تھی۔ اس کے دو بھائی اور دو بہنیں اور بھی تھیں۔ اس کی والدہ سلائی کر کے گھر یلوذمہ داریاں پوری کرنے کی خاطر شوہر اور ساس کا ہاتھ بٹاتی تھیں جبکہ کلیم کی کوئی اولاد نہ تھی لہذا اس کی بیوہ عدت پوری کرتے ہی اپنے میکے چلی گئی۔ وقت بھی بھی بھی بہت ظالم ثابت ہوتا ہے۔ ایک روز لائبہ کے ابو کام پر جارہے تھے کہ ان کی موٹر سائیکل ایک تیز رفتار وین کی زد میں آگئی اور وہ بری طرح زخمی ہو گئے۔ جان تو بچ گئی لیکن چھ ماہ اسپتال میں رہے جب وہ گھر آئے معذور ہو چکے تھے، نوکری چھوٹ گئی تھی۔ لائبہ کے چچا نے چاہا کہ پڑھائی چھوڑ کر مزدوری کر لیں اور کنبے کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دیں مگر انکل سلیم نے چھوٹے بھائی کو ایسانہ کرنے دیا۔ مجبور کیا کہ وہ تعلیم کو جاری رکھے کیونکہ اب یہی لڑکا ان کی امید کا آخری سہارا تھا۔ ان کا ایمان تھا کہ برے بھلے دن جوں توں گزر ہی جاتے ہیں مگر انسان کو ہمت نہ ہارنی چاہئے ، بالآخر اچھے دن واپس آجاتے ہیں۔ لائبہ کا چچا محنت سے پڑھتا تھا کیونکہ اس کو گھر کے حالات کا احساس تھا۔ دادی بوڑھی تھی کوئی کام نہ کر سکتی تھی۔ اب گھر کا بوجھ لائبہ کی والدہ پر تھا۔ وہ سلائی کر کے دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کرتی تھیں۔ کبھی گھر میں فاقے بھی ہو جاتے لیکن لائبہ ہم کو کچھ نہ بتاتی تاہم وہ روز بروز کمزور اور زرد ہوتی جاتی تھی ۔ حالات سے مجبور ہو کر ایک دن اس کی ماں ایک اسکول میں گئی، چونکہ پرائمری پاس تھی، ٹیچر تو لگ نہ سکتی تھی البتہ وہاں ایک آیا کی جگہ خالی تھی۔ یہ نوکری بھی اس شریف محنت کش عورت نے قبول کرلی تا کیہ اپنے بچوں اور دیور کو پڑھا سکے ۔ وہ اسکول کی آیا ہو گئی جس کے بدلے میں اسی اسکول میں اس کے دو بچوں کو مفت تعلیم کی سہولت میسر آگئی۔ لائبہ اب پانچویں میں تھی۔ ایک دن اس کی والدہ کو ایک اسکول ٹیچر نے کہا کہ ہمارے گھر کے پاس ایک آفیسر رہتے ہیں۔ ان کی بیوی کو ایک بچی بطور ملازمہ درکار ہے۔ امیر لوگ ہیں وہ اچھے پیسے دیں گے ، اگر تم اپنی کوئی بیٹی وہاں ملازم کرا دو تو تمہارے معاشی مسئلے کافی حد تک حل ہو جائیں گے۔ لائبہ کی والدہ آنٹی رقیہ نے کچھ سوچا اور لائبہ سے مشورہ کیا کیونکہ وہی بڑی بیٹی تھی۔ میری دوست نے فوراً ہامی بھر لی لیکن ایک شرط پر کہ وہ صبح اسکول جائے گی اور واپسی کے بعد اس بیگم کے گھر کا کام کاج کرے گی۔ لائبہ چونکہ شروع سے ہمارے اسکول میں پڑھتی تھی لہذا اس بات کا علم کسی کو نہ تھا کہ اس کی ماں اسکول میڈ بن گئی ہے اور لائبہ ایک امیر گھرانے کی چائلڈ لیبر ہو گئی ہے۔ جس بیگم کے پاس ٹیچر نے اس کو ملازمہ رکھوایا تھا۔ اس نے پورے دو سال کا خرچہ اکٹھا ادا کر دیا۔ یہ ایڈوانس ایک لاکھ کے قریب بنتی تھی۔ بدلے میں لائبہ کی زندگی گویا دو برس تک اس کے ہاتھوں میں رہن رکھ دی گئی۔ اس ایک لاکھ سے اس کی والدہ نے چھوٹا سا پلاٹ خرید لیا کیونکہ وہ مکان کا کرایہ ادا نہ کر سکتے تھے اور لائبہ کی مالکن نے کہا تھا اگر تم دو سال اور بچی کو میرے پاس رہنے دو گے تو میں اس پلاٹ پر آپ لوگوں کو دو کمرے بھی تعمیر کرادوں گی ۔ لائبہ اب روز صبح اپنی مالکن کے گھر سے اسکول آتی اور واپس اسی کے گھر چلی جاتی۔ یونیفارم بدل کر وہ بیگم کے کام کرتی ، رات کو دس بجے کے بعد اسے چھٹی ملتی تو بیٹھ کر اسکول کا کام کرتی اور ان کے گھر سو جاتی ۔ جب وہ صبح بیدار ہوتی، بیگم سورہی ہوتی۔ وہ بغیر کھٹکا کئے تیاری کرتی اور پڑھنے آجاتی۔ بیگم کے بنگلے کا چوکیدار اس بچی پر ترس کھا کر کبھی کبھی ایسے تھوڑے سے پیسے دے دیا تا کہ وہ آدھی چھٹی میں بھنے ہوئے بچنے یا بسکٹ خرید کر کھا سکے تاہم وہ اکثر بھو کی رہتی تھی اور ہم سہیلیوں کو کچھ نہ بتاتی، تبھی روز بروز کمزور ہوتی جاتی تھی۔ بغیر ناشتا کئے روزانہ اسکول آنا بھی ایک امتحان تھا۔ وہ ایک لائق طالبہ تھی، ان حالات میں بھی دل لگا کر کلاس میں پڑھ رہی تھی ۔ اب وہ پہلے جیسی نہیں رہی تھی، جیسے کسی نے اس کا بچپن اور شوخیاں چھین لی ہوں۔ وہ بہت سنجیدہ اور بردبار ہو گئی تھی۔ فری پیریڈ میں جب ہم مستی کھیلتیں اور کینٹین جاکر کھاتی پیتیں، وہ گرائونڈ میں بیٹھ کر کتاب کھول لیتی اور پڑھتی رہتی۔ پہلے تو ہم اس کا مذاق اڑاتے کہ کتابوں کا کیڑا بن گئی ہے، شاید ضلع میں اول پوزیشن لینے کا ارادہ ہے ۔ جب اس نے ہمارے کسی مذاق کا جواب نہ دیا تو ہم کبھی خاموش ہو گئے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ ایک روز وہ اسکول آئی، اس کے ہاتھوں پر نیل پڑے تھے ، بازو بھی زخمی تھا۔ میں نے پوچھالا نبہ ، یہ تم کو کیا ہوا ہے۔ لائبہ سے بیٹھانہ جارہا تھا تا ہم وہ نہ بولی، جیسے لب کی لئے ہوں۔ تم کو کیسے چوٹ لگی جو درد کی وجہ سے بخار ہو گیا؟ بہت پوچھا، نہیں بتایا کہ ایک امیر گھر میں نوکرانی ہوں، بیگم نے مارا تھا۔ ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر اور سیڑھی سے دھکا دیا تو بازو زخمی ہو گیا۔ یہ باتیں ہم کو بعد میں پتا چلیں۔ لائبہ کو عزت نفس کا احساس تھا۔ وہ ان دنوں اپنے حالات سب سے چھپاتی تھی حالانکہ مالکن اس سے بہت برا سلوک کرتی تھی۔ اسے کھانے کو پورا نہ دیتی۔ وہ گھنٹوں سردی میں کپڑے دھوتی اور اس کے بچے سنبھالتی، ان کے فیڈر دھوتی۔ گندے کپڑے وہ اس سے ٹھنڈے پانی سے دھلواتی ۔ اپنے کپڑے استری کراتی، جوتے پالش کراتی، غرض ایک منٹ اس بیچاری کو بیٹھنے نہ دیتی۔ اسکول سے جاکر رات کے دس گیارہ بجے تک وہ اس سے زر خرید لونڈی کی طرح کام لیتی اور ہر وقت ڈانٹتی۔ لائبہ چھپ چھپ کر روتی۔ بیگم اس کو روتے دیکھ لیتی تو اور مارتی۔ ڈنڈے سے پٹائی کر کے کہتی، خبر دار تم کو روتا نہ دیکھوں۔ وہ یہ سب کچھ سہتی رہی، صرف تعلیم حاصل کرنے کی خاطر کیونکہ جانتی تھی جب تک پڑھ نہ لے گی، حالات اچھے نہ ہو سکیں گے ۔ جوں توں دو سال گزر گئے۔ معاہدہ ختم ہوا تو لائبہ کی والدہ اس کو لینے گئی۔ بیگم نے کہا، ابھی میرے بچے چھوٹے ہیں مجھے کو لائبہ کی ضرورت ہے ، بچے اس سے ہل گئے ہیں۔ اگر تم چاہو تو میں حسب وعدہ تمہارے پلاٹ پر دو کمروں اور کچن کی تعمیر کیلئے سامان نے دیتی ہوں۔ دو سال اور اس کو میرے پاس رہنے دو، تمہارا گھر بن جائے گا اور میرے بچے کچھ اور بڑے اور سمجھدار ہو جائیں گے ، پھر تم اس کو لے جانا۔ لائبہ کی والدہ نے کچھ سوچ کر یہ سودا منظور کر لیا۔ یہ ایک بڑی قربانی تھی جو اس کی بیٹی دے رہی تھی لیکن بدلے میں رہنے کو ٹھکانہ بن رہا تھا، پھر لائبہ کو بیگم نے اسکول پڑھنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ ان غریبوں کیلئے یہی بہت تھا، تنخواہ بھی ایڈوانس مل جاتی تھی ۔ ایک بار بیگم شادی کی تقریب سے آئی تو زیور گھر میں کہیں رکھ کر بھول گئی۔ رات دیر سے آئی تھی، صبح یاد نہ رہا۔ الماری کھولی، زیور نہ ملا تو لائبہ سے پوچھا۔ اس نے کہا باجی! میں نے نہیں دیکھا، مجھے خبر نہیں ہے آپ نے کہاں رکھا ہے۔ بیگم پہلے بھی اپنے سونے کے ناپس، انگوٹھی اور گلے کی چین و غیرہ سنگھار میز پر ڈال دیتی تو لائبہ سنبھال لیتی اور بیگم کے حوالے کر دیتی تھی۔ میں نے رات سنگھار میز کی دراز میں رکھا تھا، نیند آرہی تھی۔ اب زیور وہاں نہیں ہے، الماری میں بھی نہیں ہے، یقینا تم نے چھپایا ہے۔ مجھے ڈھونڈ کر دوور نہ جان سے مارڈالوں گی۔ سارادن زیور ڈھونڈا مگر نہ ملا۔ گھر میں ہوتا تو ملتا وہ تو صاحب نے صبح دفتر جاتے ہوئے جیب میں ڈال لیا تھا۔ بیگم کو سزا دینے کیلئے کہ وہ لا پروا تھی، اپنی قیمتی چیزوں کو ادھر ادھر ڈال دیتی تھی اور صاحب کہتے تھے کہ ان چیزوں کو فورا سنبھال کر ان کی جگہ رکھا کرو اور لاک کر دیا کرو۔ کوئی چیز قیمتی سامنے دھری ہو تو گھر میں کئی لوگ آتے جاتے ہیں، کوئی بھی لے جاسکتا ہے۔ بیگم کا دھیان صاحب کی طرف نہ گیا۔ اس نے لائبہ پر چوری کا شبہ کر کے اسے خوب مارا پیٹا اور استری سے کمر داغ دی لیکن وہ بیچاری کیسے قبول لیتی جب اس نے زیور اٹھایا ہی نہ تھا۔ تم نے اس لئے چھپایا ہے کہ جب تمہاری ماں ملنے آئے گی اس کو دے دو گی، میں خوب جانتی ہوں۔ یہ بیگم کا مفروضہ تھا۔ لائبہ کو جب استری سے داغا اس کی چھینیں پڑوسیوں نے بھی سنیں مگر وہ بے ضمیر پھر بھی چپ رہے کہ کسی کے گھر کے معاملے میں کیسے مداخلت کریں۔ شام کو صاحب آئے تو لائبہ فرش پر پڑی سسک رہی تھی۔ انہوں نے بیوی سے پوچھا اسے کیا ہوا ہے ؟ اس مردود نے زیور چھپا لیا ہے جو کل رات میں شادی میں پہن کر گئی تھی کیونکہ گھر میں اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ اچھی طرح ڈھونڈا ہے؟ کہیں رکھ کر بھول گئی ہو، تمہیں بھولنے کی عادت ہو گئی ہے۔ اچھی طرح ڈھونڈا ہے کہیں نہیں ہے ، ساری الماری چھان لی ہے۔ تم نے ناحق اس بیچاری کو زدو کوب کیا ہے، یہ لو زیور ۔ تم کو سبق سکھانے کو تھوڑی دیر کیلئے پریشان کیا تھا۔ انہوں نے زیور نکال کر بیوی کے حوالے کر دیا، ۔ سبق بیگم کو کیا ما، بیچاری لائبہ کی جان پر بن گئی۔ کئی دن تک زخم تکلیف دیتے رہے اور بیگم خود ہی مرہم لگاتی تھی تا کہ کسی کو پتانہ چلے۔ ان دنوں بھی دس روز تک وہ اسکول نہ آسکی جس کی وجہ سے پڑھائی میں بہت پیچھے رہ گئی ۔ اب وہ لائق سے نالائق طالبہ ہو گئی۔ ٹیچر ز بھی ڈانٹتیں کہ تم کیوں اس قدر لاپر واہوتی جارہی ہو۔ بڑی کلاس میں آگئی ہو ، آگے بورڈ کے امتحان ہوں گے ۔ کیا فیل ہونے کا ارادہ ہے ؟ اگر نہیں پڑھنا تو گھر بیٹھ جائو۔ کیا بتاتی کہ گھر بنوانے ہی کیلئے یہ عذاب سہہ رہی ہوں۔ بیگم نے سریا، اینٹیں، سیمنٹ تعمیر کا سارا سامان لانبہ کی ماں کے پلاٹ پر پہنچادیا اور مکان بھی بن رہا تھا مگر لائبہ اندر ہی اندر مرتی جارہی تھی۔ ظلم سہنے کی طاقت ختم ہوتی جاتی تھی۔ اس کی بھوک مرگئی تھی ، خالی پیٹ اسکول آنے سے پیٹ میں درد رہنے لگا تھا۔ دو تین بار بے ہوش بھی ہوئی مگر خود دار تھی کہ ہم قریبی سہیلیوں کو بھی نہ بتاتی کہ میں بغیر ناشتے خالی پیٹ اسکول آجاتی ہوں کیو نکہ بیگم سور ہی ہوتی ہیں، ان کی اجازت کے بغیر کھانے پینے کی کوئی شے نہیں اٹھا سکتی۔ میں اور طاہرہ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ روز لنچ باکس ساتھ لاتے اور جیب خرچ بھی پاس ہوتا لیکن وہ کچھ بتاتی نہیں تھی تو اس کے خاموش رویے سے ہم اب اس سے دور دور رہنے لگے تھے ۔ اس کو جیسے دوستی کے رشتے سے بھی دلچسپی نہ رہی ہو۔ اس کی شخصیت بیگم کے گھر میں رہنے سے بالکل ہی بدل چکی تھی۔ وہ غریب ضرور ہو گئے تھے لیکن پیچھے سے زمیندار گھر کی خوبو تو موجود تھی۔ اس میں وہ اب بھی اونچے خواب دیکھتی تھی۔ ہمارے گھر آتی تو کہتی۔ سعدیہ ! جب ہم دوبارہ امیر ہو جائیں گے تو بالکل ایسا گھر بنائیں گے جیسا کہ تمہارا ہے۔ لائبہ نیک سیرت تھی، اس نے پانچویں میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا اور ہر وقت زبانی تلاوت کرتی رہتی تھی۔ وہ بہت پر کشش ہوا کرتی تھی مگر اب چہرہ بے رونق اور جسم ہڈیوں کا ڈھانچا بن گیا تھا۔ انسان ایک حد تک سختی برداشت کر سکتا ہے۔ آٹھویں جماعت میں آتے ہی بیمار پڑ گئی۔ انہی دنوں اس کا چچا کسی دوست کی مدد سے کمانے کی خاطر دبئی چلا گیا، یہ لوگ نئے گھر میں شفٹ ہو گئے اور کرائے کا گھر چھوڑ دیا۔ ہم ان کے نئے گھر کو دیکھنے گئے۔ تین مرلے کا مکان تھا۔ حویلی میں رہنے والے یہ لوگ اس گھر میں بھی اس قدر خوش تھے کہ جیسے دنیا جہان کی نعمت مل گئی ہو کیونکہ اپنا گھر تو اپنا ہوتا ہے ، گھاس پھونس کا ہی کیوں نہ ہو ۔ لائبہ اب اتنی کمزور ہوگئی تھی کہ بولنا چاہتی تو بول نہ سکتی، آواز ہی نہ نکلتی تھی ۔ جب ہم اس کے گھر عیادت کو گئے ، وہ اشارے سے بات کر رہی تھی۔ میں نے والدہ کو بتایا تو وہ اس کو مجبور کر کے اسپتال لے گئیں۔ چیک آپ کرایا تو پتا چلا کہ جسم پر جلنے کے داغ اور ضربات ہیں۔ ڈاکٹر میری والدہ کی خالہ زاد تھیں، وہ یہ سب دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ لائبہ کی ماں سے کہا کہ تم لڑکی کا خیال کرو ورنہ میں پولیس کو اطلاع کر دوں گی۔ وہ سمجھی کہ لائبہ کا بھائی سخت مزاج ہے ، وہ اسے مارتا ہے کیونکہ اس نے ماں کو یہی بتایا تھا کہ بغیر بتائے سہیلی کے گھر چلی جاتی ہے، تبھی مار کھاتی ہے۔ لیکن یہ سراسر جھوٹ تھا۔ امی نے جب بھائی کو یہ حالات بتائے تو میرے بھائی کو بہت دکھ ہوا۔ وہ فوج میں آفیسر ہو گئے تھے، کہا کہ میں لائبہ سے شادی کروں گا۔ امی کو آمادہ کیا کہ اس کا رشتہ لیں۔ وہ نیک لڑکی ہے۔ غربت کی وجہ سے یہ حالات ہو گئے ہیں لیکن خاندان تو اچھا ہے اور پہلے زمیندار گھرانہ تھاجو کلیم تایا کی وجہ سے برباد ہوا ہے ۔ امی راضی ہو گئیں کہا لائبہ میٹرک کرلے تو رشتہ کر لیں گے ۔ امتحان نزدیک آگئے ، پیپر والے دن وہ پر چہ حل کر رہی تھی کہ قلم اس کے ہاتھ سے گر گیا اور اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ میں پرچہ کر چکی تھی۔ اسے سہارا دیا، بیگ اٹھا کر باہر لائی۔ گزشتہ رات سے کچھ کھایانہ تھا۔ بھائی گاڑی پر لینے آئے تھے ، زبردستی اس کو گھر لے آئی اور ناشتہ کرایا۔ اس واقعہ کے بعد لائبہ کی ماں نے اس کو بیگم کی نوکری سے نکال لیا اور گھر لے آئیں۔ وہ کافی لاغر تھی ، اب پڑھ بھی نہ سکتی تھی ۔ ماں نے لائبہ کی گرتی صحت کے سبب اس امیر بیگم سے مزید نیا معاہدہ نہ کیا کیونکہ اب ان کا دیور کمانے لگا تھا۔ وہ دبئی میں ملازمت کرتا تھا، ر قم با قاعدگی سے بھجوا رہا تھا لیکن مصائب کے جس طوفان کا مقابلہ اس باہمت اور ناتواں لڑکی نے کیا، وہ اپنے جان لیوا اثرات ان پر چھوڑ گیا۔ ان کے گھر سے رفتہ رفتہ غربت دور ہونے لگی مگر لائبہ کو صحت کی دولت دوبارہ نہ مل سکی۔ یہ دولت ایک بار کھو جاتی ہے تو پھر کہاں ملتی ہے ۔ وہ آٹھویں کا امتحان بھی نہ دے سکی اور بستر پر گر گئی۔ جن دنوں ہمارا آٹھویں کا نتیجہ آیا، ایک ایسا منحوس دن ہماری زندگی میں آیا جس کو کبھی فراموش نہ کر سکوں گی۔ میں اپنے پاس ہونے کی خوشی منارہی تھی کہ در پر دستک ہوئی۔ شام کے سات بجے تھے، کسی نے آکر بتا یا کہ لائبہ ساری حسرتیں دل میں لئے اس دنیا سے جاچکی ہے۔ کیا بتائوں اس خبر سے ہم کو کتنا صدمہ ہوا، آج اپنی بے حسی خون کے آنسور لانے لگی کہ کیوں اپنی دوست کی بر وقت خبر نہ لی جبکہ وہ مفلسی کے جہنم میں سلگ رہی تھی اور اسکول میں ہم اس کی بات بھی لا پروائی سے سنتے تھے۔ جس دن اس نے اسکول کو خیر باد کہا، ، اس پر ایک ٹیچر نے کلاس کی لڑکیوں کے سامنے کہ دیا۔ لائبہ ! تم اسی رضیہ کی بیٹی ہونا جو فلاں اسکول میں میڈ ہے۔ اگر چاہے تو یہاں بھی میڈ ہو سکتی ہے ، جگہ خالی ہے۔ یہاں تنخواہ زیادہ ملے گی۔ اپنی امی کو بتا دینا، چاہیں تو آکر مجھ سے مل لیں۔ بس یہ اس کے اسکول کا آخری دن تھا۔ اس کی عزت نفس کو ایسی چوٹ لگی کہ پھر اس نے ہمارا سامنا کیا اور نہ اسکول آئی کیونکہ ہم جماعت لڑکیاں اسے اسکول آیا کی بیٹی کہہ کر جو سلوک کرتیں، وہ سہ نہ پاتی۔ اب تک یہ بات سب سے چھپی ہوئی تھی جو ٹیچر کی وجہ سے کھل گئی۔ آج اسے دنیا سے رخصت ہوئے دس برس بیت چکے ہیں لیکن جب کبھی اس کا معصوم سا مظلوم چہرہ یاد آتا ہے ، دل بجھ جاتا ہے ۔ جی چاہتا ہے کہ وہ جہاں بھی ہے ، اڑ کر اس کے پاس چلی جائوں اور گلے سے لگالوں۔ وہ بڑی صابر تھی شاید کہ خدا کو اسی لئے پسند آگئی اور اپنے پاس بلا لیا۔ سنا ہے خدا اپنے پیاروں کو جلد اپنے پاس بلا لیتا ہے۔ آج ان کے گھر سے غربت دور ہو چکی ہے۔ اس کے بھائی کی شادی کھاتے پیتے گھرانے میں ہوگئی ہے اور انہوں نے اپنا بڑا اور اچھاگھر تعمیر کرا لیا ہے۔ کاش میری یہ پیاری دوست اپنا یہ نیا اور بڑا گھر دیکھ سکتی۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات … اے کاش! کوئی ہمارے ملک سے غربت کے بڑھتے سیلاب کے اسباب ختم کر دے اور بچوں بچیوں سے مزدوری کرانے کی بجائے ان پر اچھی تعلیم کے در کھول دیئے جائیں۔