بھانجے کسے پیارے نہیں ہوتے۔ مجھے سبطین سے بہت پیار تھا۔ وہ اکثر میرے گھر آیا کرتا تھا۔ اس کی عمر یہی کوئی پندرہ سولہ برس ہو گی۔ باپ کی وفات کے بعد یہی بچہ اپنی ماں اور بہن بھائیوں کا واحد سہارا تھا۔ ایک دکان پر مال لاتا لے جاتا، اسی کی کفالت سے گھر چل رہا تھا۔ نوعمری میں کمانے کا بوجھ پڑ گیا تبھی بجھا بجھا رہنے لگا۔ سبطین کسی کو اپنی پریشانیاں نہیں بتاتا تھا۔ واحد میں ہی تھی جس کے ساتھ وہ اپنے دُکھ سکھ شیئر کرتا تھا۔ میں اس کی باتیں توجہ سے سنتی، مشورے دیتی اور حوصلہ بڑھاتی تو اس کو سکون مل جاتا۔ تاہم سبطین کا ہمارے گھر آنا جانا میرے دیور کو ناپسند تھا کیونکہ اس کے چچا سے زمین کا تنازع چل رہا تھا اور اس زمین میں سبطین کا بھی حصہ تھا۔ یہ بڑوں کے در میان کے مسئلے تھے۔ اس بچے کی تو کسی سے دشمنی نہ تھی مگر میرے دیور کے خیال میں یہ تھا تو دشمنوں ہی کا لڑکا … لہذاوہ جب آتا، میرے دیور کے تیور بگڑ جاتے۔ وہ مجھ سے کہتا کہ اس کو منع کرو، یہ ہمارے گھر نہ آیا کرے۔ اکثر میں خاموش ہو جاتی لیکن کبھی مجھے بھی غصہ آجاتا تب جیسا سوال ویسا جواب دینے لگتی۔ احسان کہتا۔ بھابی آپ ہمارے دشمن کو ہمارے گھر سے کھلا پلا کر رخصت کرتی ہو اور میں کہتی کہ تم ان کو دشمن سمجھتے ہو مگر میری تو بہن کا بیٹا ہے،ماں اور خالہ میں کیا فرق ہے ؟ وہ میرے پاس محبت ڈھونڈ نے آتا ہے اور میں اس کی محبت کا جواب محبت سے دیتی ہوں، تو تمہارا اس میں کیا جاتا ہے۔ جب تک میں اس گھر میں زندہ ہوں، کوئی میرے بھانجے کو میرے پاس آنے سے نہیں روک سکتا۔ اس پر میر ادیور جل جاتا تھا اور کہتا، دیکھنا ایسا سبق دوں گا کہ آپ کو یاد رہے گا عمر بھر ۔ تبھی سوچتی یہ یونہی کہتا ہے ، بھلا یہ کیا سبق دے گا۔ یہ نو سال قبل کی بات ہے جب میرا بھا نجا میرے پاس آیا ہوا تھا اور ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں دیور صاحب آ گئے۔ مجھے سبطین کے پاس بیٹھے دیکھا تو سخت برہم ہوئے۔ خود پر جانے کیسے کنٹرول کیا اور گھر سے نکل گیا۔ اس وقت میری بچی منزہ بھی سبطین سے باتیں کر رہی تھی، باتیں کرتے کرتے وہ اٹھ کر باہر چلی گئی اور گلی میں دیگر بچوں کے ساتھ کھیل میں لگ گئی۔ میں نے سبطین کو چائے دی۔ چائے پی کر کہنے لگا۔ خالہ اب میں چلتا ہوں، امی انتظار کر رہی ہوں گی۔ اس کے جانے کے بعد مجھے منزہ کا خیال آیا تو میں نے اس کو پکارا، جواب نہ ملا۔ دروازے سے باہر جھانکا کہیں نہ تھی اور بچے بھی جاچکے تھے۔ دل ہولنے لگا۔ محلے میں سب گھروں میں گئی۔ ایک دو گلیوں میں تلاش کیا، بچی کہیں نہ تھی۔۔ دل دھک سے رہ گیا۔ بس پھر کیا تھا بہت ڈھونڈا ، ہر جگہ تلاش کر لیا، مگر وہ کہیں ہوتی تو ملتی۔ شام سے رات ہو گئی اور رات سے صبح تلاش اور انتظار میں میرا دم لبوں پر آگیا، آنکھیں پتھرانے لگیں لیکن منزہ تو ایسی گئی کہ پھر اس کو لوٹنا نصیب نہ ہو سکا۔ میں ماہی بے آب کی طرح تڑپتی تھی۔ روروکر شوہر کے آگے ہاتھ جوڑتی ، گریہ زاری کرتی، خدا کے لئے میرے جگر کے ٹکڑے کو کہیں سے ڈھونڈ کر لے آو۔ مجھے اپنے دیور پر شک تھا کہ مجھے دکھ پہنچانے کو اسی نے منزہ کو نہ غائب کر دیا ہو کیونکہ سبق دینے کی دھمکی تو وہ مجھے دے چکا تھا۔ سوچتی تھی کہ کیا خبر میری ممتا کو تڑپا کر تماشا دیکھ رہا ہو۔ یہ ایک خیال ہی تو تھا ہو سکتا ہے حقیقت کچھ اور ہو، کیا خبر کوئی اور میری منزہ کو لے گیا ہو۔ کوئی بردہ فروش، کوئی بچوں کو اغوا کرنے والا۔ خدا جانے وہ کیسا سلوک ان معصوم بچوں کے ساتھ کرتے ہوں گے۔ ایسی بھیانک باتیں سوچ میں آتیں کہ میر اسانس ہی رکنے لگتا تھا اور میں جان کنی کے عذاب میں گرفتار ہو جاتی۔ دل کو تسلی دیتی کہ احسان ایسا برا تو نہیں ہے۔ آخر میری بچی کا سگا چاچا ہے۔ بھلا یہ کیوں اس معصوم کو ماں سے جدا کرے گا۔ بھلا چھ برس کے بچے کی عمرہی کیا ہوتی ہے۔ میں ہی جان کنی کے عذاب میں مبتلا نہ تھی ۔ بچی بھی ماں کے بغیر اذیت میں ہوگی اور رو رو کر ہلکان ہوگی۔ یہ خیال آتے ہی میں بھی رورو کر ہلکان ہونے لگتی تھی۔ ادھر میرے شوہر کو مجھ سے الٹ خیالات آرہے تھے کہ سبطین کی چونکہ احسان سے ناگواری رہتی ہے لہذا وہی نہ منزہ کو ہمراہ لے گیا ہو اور ہم لوگوں کو ستانے کو اس کو چھپا کے رکھا ہو۔ وہ کہتے تھے کہ نصرت مجھے تو آج ایسا لگتا ہے کہ سبطین کے ہمارے گھر آنے کا یہی مقصد تھا۔ کہیں اس بے وقوف لڑکے کے ذریعے ہماری بچی کا اغوا اس کے چچا نے نہ کروایا ہو۔ میرا دل مگر میرے شوہر کی ایسی باتوں کو نہیں مان رہا تھا۔ کچھ بھی ہو سبطین، میرا پیارا بھا نجا تھا- کم از کم میرے ساتھ تو ایسا برا نہیں کر سکتا تھا۔ کوئی چارہ نہ دیکھ بالآخر میں نے اپنے بڑے بھائی کو بلوا بھیجا۔ میں نے بھائی سے کہا کہ فرقان ہمارے بھانجے پر منزہ کے لے جانے کا شک رکھتے ہیں۔ آپ اس سے بھی پوچھ لیں ، جب وہ ہمارے گھر سے باہر نکلا تو کیا منزہ وہاں تھی۔ بھائی نے جا کر سبطین سے پوچھا۔ یہ بھی بتایا کہ ہمارے بہنوئی صاحب تم پر شک کر رہے ہیں۔ سبطین رو د یا۔ اس نے قرآن پاک اٹھا لیا کہ ماموں جان مجھے منزہ کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ بھلا میں کیوں اس کو غائب کروں گا۔ وہ اگر باہر کھیل رہی ہوتی تو میں اس کو پکڑ کر اندر لے آتا ہوں کہ گلی میں نہ کھیلے۔ ان ہی دنوں اپنے اثر ورسوخ سے کام لے کر احسان نے میرے بھانجے کو جبیل کرا دی اور اس پر الٹے سیدھے الزامات لگا کر اندر کروا دیا۔ ایک الزام یہ بھی تھا کہ ہماری بچی منزہ کو اسی نے اغوا کر لیا ہے۔ سبطین بیچارا تو ایک معمولی بے اثر بندہ تھا جبکہ میرے شوہر اور دیور بااثر لوگ تھے۔ سبطین کی داد رسی کس نے کرنا تھی، اس کی تو ضمانت بھی دینے والا کوئی نہ تھا اور میرے شوہر اور احسان کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی۔ آپا الگ پریشان تھیں۔ بہن کی بے بسی مجھ سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ ادھر میں اپنی معصوم بچی کو رو رہی تھی تو ادھر وہ اپنے جوان بیٹے کو جیل جانے کے سبب رور ہی تھیں۔ جس کو بے قصور، بنا کسی جرم کے جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے ایک نامعلوم مدت کے لئے ڈلوادیا گیا تھا۔ آپا اور بھائی نے مجھ سے رابطہ کیا۔ بھائی نے وکیل سے مشورہ کرنے کے بعد کہا کہ اگر میں اپنے بھانجے کے حق میں عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے بیان دے دوں تو سبطین رہا ہو سکتا ہے۔ میرے بیان دینے سے اگر میری بے سکون بہن کا سکون واپس مل سکتا تھا تو میں تیار تھی بیان دینے کو کیونکہ میرا سکون تو چھن ہی گیا تھا جب ہی مجھے قرار آسکتا تھا جب منزہ مل جاتی۔ ان کا بچہ تو کھویا ہوا نہ تھا بلکہ جیل میں تھا اور جیل بھی میرے شوہر اور دیور نے کرائی تھی۔ سبطین ہی تو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کر رہا تھا۔ مجھ سے ان کا رونا بھی دیکھا نہ جاتا تھا۔ لہذا میں نے فیصلہ کر لیا کہ جو ہو سو ہو میں بے گناہ بھانجے کو تو جیل سے رہا کراؤں گی۔ یقیناً میرے اس اقدام سے میرے شوہر کو ناراض تو ہونا ہی تھا پھر بھی بھائی کے مجبور کرنے پر میں ان کے ساتھ عدالت جانے پر راضی ہو گئی اور سبطین کے حق میں بیان دے دیا۔ آخر وہی ہوا جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ مجھے اپنے گھر جانا نصیب نہ ہوا اور عدالت سے ہی اپنے شوہر کی ناراضی کے خوف سے بھائی کے ہمراہ ان کے گھر چلی گئی۔ سبطین تو میرے بیان دینے سے رہا ہو گیا مگر میری اپنی دنیا اجڑ گئی۔ میکے آگئی اور میرے شوہر کی ناراضی انتہا کو پہنچ گئی۔ اوپر سے بچی کی جدائی نے مجھ کو ادھ موا کر دیا۔ اب میں تین بچوں کے ساتھ میکے میں تھی۔ بہن بھائی نے مجھے بہت پیار سے رکھا پھر بھی میرے دن رات روتے ہی گزرتے تھے۔ سچ کہوں تو عورت کو سکون اپنے شوہر کے گھر ہی ملتا ہے اور بچوں و شوہر کے درمیان ہی اس کی زندگی پُر مسرت گزرتی ہے۔ اگران میں سے ایک مہرہ بھی ادھر اُدھر ہو جائے تو ساری بازی بگڑ جاتی ہے۔ شاید میرے نصیب میں مات لکھی تھی کہ عدالت میں بیان دینے کے بعد ساری بازی الٹ گئی تھی۔ کئی برس گزر گئے منزہ نہ ملی اور نہ میں اپنے گھر جا سکی، میکے میں آنسو بہا بہا کر آنکھیں دھندلا گئیں۔ ایک روز رو کر اللہ سے دعا کی کہ میرا کیا قصور تھا جو بیٹھے بٹھائے میرے ہنستے بستے گھر کو آگ لگ گئی۔ بچی کی جدائی کا درد بھی ملا اور شوہر کی ناراضی بھی دامن میں بھرلی۔ دعا کے بعد سو گئی۔ سو کر اٹھی تو شوہر کا خط ملا۔ لکھا تھا۔ بچی کہیں نہیں گئی ، منزہ ہمارے پاس ہے ، تم اس کی فکر مت کرو اور اب گھر آجاؤ۔ میں نے تم کو معاف کیا ہے۔ کس ماں کا دل نہیں چاہتا کہ اپنی مدت سے بچھڑی بیٹی کو ملے اور شوہر کے گھر نہ جائے جبکہ چار بچوں کا ساتھ بھی ہو مگر میرے رشتہ داروں نے کہا کہ تم ہر گز وہاں مت جانا۔ تمہارے شوہر نے کچھ رشتہ داروں سے کہا ہے کہ میری بیوی ایک بار گھر آئے تو اس کو عدالت میں بیان دینے کا ایسا مزہ چکھاؤں گا کہ یاد کرے گی۔ اب کوئی میری بے بسی کا اندازہ کر لے۔ ایک طرف میری بے بسی اور بچی کی جدائی سے نیم جان میں اور دوسری طرف۔ دوسری طرف عدالت گئی تو کس کے کہنے پر انہوں نے سبطین کو جیل کرائی۔ ادھر منزہ کی محبت مجبور کرتی کہ گھر چلی جاؤں ، ادھر لوگوں کی باتیں خوفزدہ کرتیں کہ کہیں وہ مجھے خوار نہ کر دیں۔ میرے اندر کی ماں کہتی کہ فوراً ابھی اپنی بچی کے پاس چلی جا۔ وہ تجھ کو ایسے ہی پکارتی ہو گی جیسے تیرا دل اس کو پکارتا ہے۔ اور خوف کہتا کہ نادان سوچ سمجھ لے۔ بچی ان کے پاس ہے بھی کہ نہیں ؟ تجھ کو سزا دینے کی یہ کوئی دوسری ہی ان کی چال نہ ہو۔ انسانوں کا کیا اعتبار ۔ آخر کار بھائی ہی میرے شوہر کے پاس گئے ، صلح کی درخواست لے کر سسرال والوں نے کہا کہ آپ لوگ پہلے ہم سے معافی مانگیں۔ میرے بھائیوں نے کوئی قصور نہ ہوتے ہوئے میری خاطر میرے شوہر اور دیور سے معافی مانگی تب وہ مجھے میرے بچوں کے ہمراہ شوہر کے گھر لے کر گئے اور انہوں نے معاف کیا۔ میں نے اپنی کھوئی ہوئی بچی کو گلے لگایا، جس کو خود اس کے باپ اور چچا نے چھپا دیا تھا تا کہ ایک محبت کرنے والی ماں کو اپنے بھانجے سے محبت کرنے کا سبق دے سکیں۔ تو یہ تھا میر اقصور ۔ کیا کوئی بتائے گا کہ اصل قصور کس کا تھا، میرا یا میرے سرتاج اور ان کے بھائی کا اور میں نے معافی کس بات کی مانگی؟