اسد میرا سب سے پیارا بھائی تھا۔ بہنوں میں میرا نمبر تیسرا تھا تو بھائیوں میں اس کا نمبر تیسرا تھا۔ ہم کل نو بہن بھائی تھے۔ ہمارے درمیان پیار و محبت اور اتفاق بہت تھا۔ والد صاحب کا انتقال بہت پہلے ہو گیا تھا۔ گھر کی کفالت بڑے دونوں بھائیوں کے ذمے تھی۔ دونوں شادی شدہ تھے۔ بھائی جان سعودیہ میں تھے اور بھائی صاحب کراچی کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ان کی آمدنی اچھی ہونے کی وجہ سے ہماری گزر بسر اچھی طرح ہو رہی تھی اور کسی قسم کی کمی نہ تھی۔ انہی دنوں دوسرے بڑے بھائیوں میں سے ایک بھائی اور ایک بہن کی شادی ہوگئی۔ اب اسد بھیا کی باری تھی۔ میرا یہ بھائی بہت ہی سیدھا سادہ اور ہر وقت ہنسنے ہنسانے والا تھا۔ وہ ہرحال میں خوش رہا کرتا تھا۔ دوسال بعد میری بھی شادی ہو گئی۔ تو میری شادی پر اسد بھائی نے خوب ہلا گلا کیا کیونکہ ان کو مجھ سے خاص لگاؤ تھا۔ سب کو شادی میں خوب انجوائے کرایا۔ انہی دنوں ان کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی اور انہوں نے اس عورت میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔ میں نے یہاں اس کو عورت اس لئے لکھا ہے کہ وہ اسد سے سات برس بڑی تھی۔ شروع میں ہم کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کون ہے اور کہاں سے تعلق رکھتی ہے؟ میری شادی کے بعد اسد بھائی نے امی سے مطالبہ شروع کر دیا کہ اب میرا بھی گھر آباد کرنے کی فکر کریں۔ امی کہنے لگیں ، ابھی تمہاری بہن کی شادی ہوئی ہے، تھوڑا ٹائم دو۔ اس اثنا میں، میں تمہارے لئے لڑکی بھی پسند کرلوں۔ پھر تمہاری شادی کا انتظام کرتے ہیں ۔ اسد بھائی کہتے کہ لڑکی کی آپ فکر نہ کریں کیونکہ لڑکی میں نے پسند کرلی ہے۔ بار بار کے اصرار پر بالآخرامی جان اس لڑکی کو دیکھنے گئیں۔ وہ اسد بھائی کی پسند کو دیکھ کر حیران رہ گئیں کیونکہ وہ کوئی لڑکی نہیں بلکہ ادھیڑ عمر کی عورت تھی، جس نے میرے بھائی کو جانے کیسے اپنے چنگل میں پھنسا لیا تھا اور امی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کن خوبیوں کی وجہ سے بھائی نے اس کو پسند کیا تھا۔ حقیقت میں دونوں کا کوئی جوڑ نہ تھا۔ امی سمجھاتی تھیں۔ بیٹا یہ عورت کسی طرح تیرے جوڑکی نہیں ہے- شبانہ سے شادی کی غلطی مت کرنا – مگر بھیا مانتے ہی نہ تھے۔ کہتے تھے شادی اس سے کروں گا ورنہ عمر بھر کنوارہ رہوں گا۔ اس سے تم شادی کرو گے تو بہت پچھتاؤ گے۔ کافی منع کیا آخر امی نے پوچھا۔ اس کے بارے میں یہ تو بتاؤ کہ یہ شادی شدہ تھی یا غیر شادی شده ہے۔ مطلب مطلقہ یا بیوہ اور کس خاندان سے تعلق ہے۔ کوئی خاندانی پس منظر بھی تو ہوگا۔ بھائی کو خود کچھ معلوم نہ تھا، امی جان کو بھلا کیا بتاتے ۔ بس یہی بتایا کہ ماں باپ مرچکے ہیں اور یہ اکیلی رہتی ہے۔ اس بات پر امی نے صاف انکار کر دیا کہ جب تک درست معلومات نہ ہوں گی ، ہر گز اس عورت کو بہو بنا کر میں اپنے گھر میں نہ لاؤں گی۔ امی کے انکار پر اسد بھائی نے خفیہ طور سے شبانہ کے ساتھ شادی کر لی۔ بظاہر وہ ہمارے ساتھ رہتے تھے لیکن اکثر اچانک دو تین روز یا ہفتے بھر کے لئے غائب ہو جاتے تھے ۔ تب ہم گھر والے بہت پریشان ہوتے تھے کہ جانے یہ کہاں غائب ہو گئے ہیں؟ ایک سال بعد یہ راز یوں کھلا، جب اسد بھائی کی بیوی کے یہاں ایک بچی نے جنم لیا۔ یہ خبر کسی نے ہم تک پہنچائی۔ بہتر یہی تھا کہ ان کی شادی کو تسلیم کر لیا جائے چنانچہ ہم بہن بھائیوں نے مل کر امی کو اس بات پر راضی کر لیا اور یوں ہم لوگ اسد بھائی ، ان کی بیگم مع بچی گھر لے آئے۔ انہی دنوں میری چھوٹی بہن کی شادی کا سلسلہ شروع ہوا۔ شادی سے دو روز پہلے مہندی کی رات ہم سب دولہا والوں کے گھر جارہے تھے کہ اسد بھائی اور ان کی بیگم اپنی بچی کی طبیعت کی خرابی کے سبب گھر پر ہی رہ گئے ۔ جب ہم لوگ مہندی لے کر چلے گئے ، ہمارے پیچھے ان دونوں نے میری بہن کا تمام زیور اور ہم دو شادی شدہ بہنوں کے وہ زیورات جو شادی میں پہننے کی غرض سے لاکر امی کے پاس ہی رکھوا دیئے تھے، وہ سب زیور اور قیمتی کپڑے سمیٹ کر یہ دونوں غائب ہو گئے- میری چھوٹی بہن اس وقت اپنی سہیلیوں میں گھری دوسرے کمرے میں تھی۔ شبانہ تو ہماری نگاہوں میں شروع سے ہی مشکوک تھی لیکن اسد بھائی سے ہم کو ایسی امید نہ تھی۔ ان کی اس حرکت سے ہم سب کو گہرا صدمہ پہنچا۔ یوں ہم لوگوں نے ان سے قطع تعلق کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔
بہن کی شادی تو خیر جیسے تیسے ہوگئی مگر اسد بھائی نے اپنی محبت اور عزت کو ہم سب کے دلوں سے کھرچ کر پھینک دیا۔ کچھ عرصے بعد ہماری والدہ کا انتقال ہو گیا کہ انہیں اسد بھائی کی اس حرکت کا بہت غم تھا۔ ہم سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ میرا یہ بھائی اس درجہ کٹھور نکلے گا کہ وہ امی جان کے انتقال کی خبر سن کر بھی نہ آئے گا۔ سبھی کو انتظار تھا کہ شبانہ نہیں تو اسد ماں کا آخری دیدار کرنے ضرور آئے گا مگر وہ نہ آیا۔ خیر رو دھو کر صبر کر لیا۔ وہ ہم سے دور تھے، دل کو ایک ڈھارس تھی کہ چہاں بھی رہیں خوش رہیں۔ بہن کی مہندی کے دن قیمتی کپڑے اور زیور چرا کر لے جانے والوں کو ہم نے معاف کر دیا کہ رشتہ ہی ایسا تھا۔ ایک دن اچانک اطلاع ملی کہ ہمارے اسد بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں بلکہ ان کو قتل کر دیا گیا ہے۔ ان کو قتل کسی اور نے نہیں کیا تھا بلکہ یہ کام ان کی بیوی شبانہ نے سرانجام دیا تھا ۔ سب کہہ رہے تھے کہ اسی لئے منع کیا تھا کہ شبانہ سے شادی مت کرو۔ والدین سے نافرمانی کی سزا اسی دنیا میں مل گئی۔ شبانہ کو انہوں نے زمانے بھر سے ٹکر لے کر اپنایا تھا، اپنا نام دیا تھا اور معاشرے میں باعزت مقام دیا تھا اور اس بے ننگ و نام عورت نے کیا کر دکھایا ؟ جب ہم روتے ہوئے ان کے گھر پہنچے تو ان کے جسد خاکی کو پولیس لے گئی تھی کیونکہ درودیوار پر خون کے چھینٹے تھے اور بستر بھی لہو سے رنگین تھا۔ شبانہ کا بیان تھا کہ وہ اپنی ماں کے پاس ملنے گئی تھی تو رات وہاں ٹھہر گئی۔ اس کی غیر موجودگی میں چور، ڈاکو گھر میں گھسے اور جب اسد نے مزاحمت کی تو وہ ان کو مار کر چلے گئے۔ پولیس نے تفتیش کی ، پاس پڑوس سے معلومات حاصل کیں ، تو پتہ چلا کہ اسد کی غیر موجودگی میں کوئی شخص آتا تھا اور کبھی کبھی دو بچے بھی ساتھ آتے- جن کی عمریں چار اور چھ برس تھیں- جب میرے بھی کو یہ سن گن ہوئی کہ کوئی شخص ان کی غیر موجودگی میں آتا ہے تو شبانہ نے ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ میرا کزن آتا ہے، تمہیں کیا اعتراض ہے؟ میرا بھائی سیدھا سادہ اور بھولا بھالا تھا۔ وہ نیک نیت تھا، اس نے خاموشی اختیار کر لی مگر لوگوں نے چپ نہیں سادھی، وہ مسلسل احتجاج کرتے رہے۔ پڑوسیوں کے تیوروں سے گھبرا کر میرے صلح جو بھائی نے اپنا ٹھکانہ بدل لیا اور ایک چھوٹے محلے میں اوپر کی منزل کا دو کمروں کا مکان لے کر وہاں رہنا شروع کر دیا۔ یہاں بھی کچھ دن تو معاملہ سب ٹھیک رہا۔ پھر پاس پڑوس کے لوگوں نے سن گن لینی شروع کردی کہ جب اسد کام پر چلے جاتے ہیں، ان کی بیگم کے پاس کوئی شخص آتا ہے اور سارا دن رہتا ہے۔ اسد کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے وہ چلا جاتا تھا۔ انہوں نے اسد کو بتایا کہ آپ کی بیوی کے پاس جو شخص آپ کی غیر موجودگی میں روز آتا ہے، وہ کون ہے؟ اب بھائی اسد کے کان کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے شبانہ سے کہا کہ ہو نہ ہو یہ کوئی تمہارا آشنا ہے ورنہ کوئی میکے سے ہوتا تو مجھ سے ضرور ملتا۔ وہ ڈھٹائی سے بولی۔ ہاں، میرا سابق شوہر سمجھو، میرے دو بچوں کا باپ ہے ۔ تم سے شادی کی خاطر میں نے اس سے طلاق لی تھی، تم نے مجھ کو اپنے چنگل میں جو پھنسا لیا تھا، مجھے بعد میں پتہ چلا کہ عشق کا بھوت چند روزہ ہوتا ہے اور ہاں بچوں سے دور نہیں رہ سکتی ۔ تم نے میرا ہنستا بستا گھر برباد کر دیا۔ اگر بچوں کا معاملہ ہی ہے تو تم اپنے پہلے خاوند سے بچے لے آؤ۔ میں ان کو بھی رکھ لوں گا اور پال لوں گا لیکن میرے گھر میں کوئی غیر شخص آئے ، مجھے یہ گوارا نہیں ہے۔ وہ مجھ سے بچوں کو ملانے لاتے ہیں۔ یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ بچوں سے ضرور ملو، کوئی روک ٹوک نہیں ہے مگر کوئی غیر میرے گھر میری غیر موجودگی میں نہیں آنا چاہئے ۔ میں نے کہا نا کہ وہ غیر نہیں، میرے بچوں کا باپ ہے۔ تم پھر اس کا گھر چھوڑ کر کیوں آئیں؟ اتنا ہی خیال تھا تو طلاق کیوں لی؟ طلاق کے بعد اب وہ غیر ہے اور تمہارا اس شخص سے ملنا جائز نہیں ہے۔ تمہاری خاطر اس کو چھوڑا اور بچوں کو بھی چھوڑا اور تم میرا احسان نہیں مانتے، الٹا باتیں بنارہے ہو۔ غرض اس سبب دونوں میں تو تو ، میں میں ہوئی اور کافی جھگڑا ہوا۔ شبانہ کے زور زور سے بولنے اور رونے کی آواز بھی پڑوسیوں نے سنی۔
اس کے بعد کچھ عرصہ خاموشی رہی اور اس شخص نے جس کا نام اسلم تھا، آنا ترک کر دیا تو شبانہ گھر سے باہر جانے لگی۔ اس بات کا علم بھی پڑوسیوں کے ذریعے ہی اسد بھائی کو ہوا۔ وہ خود تو ملازمت پر چلے جاتے تھے نہیں جان پاتے تھے کہ ان کے پیچھے یہ عورت کیا کرتی ہے؟ بہرحال جب بات حد سے بڑھ گئی تو ایک دن اسلم اور شبانہ نے اسد بھائی کو راہ سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا تا کہ دونوں پھر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں۔ حقیقت میں وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر اس عورت نے طلاق لے لی تھی مگر بچوں کی محبت اور اسلم کا خیال دل سے نہ گیا تبھی وہ دو کشتیوں کی سوار ہو گئی تھی۔ دو کشتیوں کا سوار ہمیشہ خوار ہی ہوتا ہے اور کبھی وہ کنارے پر نہیں پہنچ پاتا۔ یہی حال اس عورت کا بھی ہوا۔ جب دیکھا اسلم سے ملنے پر، اسد بہت زیادہ مزاحمت کر رہے ہیں اور ان کی ملاقاتیں آسان نہیں رہیں، تو دونوں نے مل کر میرے بھائی کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنالیا اور پھر ایک رات جب وہ گھر آئے تو شبانہ نے کھانے میں نشہ آور گولیاں ملا دیں، جس سے اسد بھائی مکمل طور پر بے ہوش ہو گئے۔ ابھی صبح ہونے میں تھوڑی دیر تھی ۔ اسلم نے بھائی پر وار کیا تو خنجر ان کی پشت پر لگا ، وہ ہربڑا کر اُٹھ گئے۔ دوسرا وار انہوں نے ہاتھوں پر روکا۔ ہاتھ شدید زخمی ہو گئے۔ بھائی زخمی حالت میں باہر بھاگے۔ وہ شخص بھی چھرا لئے پیچھے بھاگا۔ نشہ آور گولیوں کی وجہ سے بھائی دیوار سے ٹکرائے تو دیوار پر لہو کی لکیر بن گئی۔ اس حالت میں بھی میرے بھائی نے ہمت نہ ہاری اور نیچے آگئے۔ تبھی اسلم نے پہلو میں چھرا گھونپ دیا اور پھر باہر نکل گیا۔ محلے کے ایک لڑکے نے اس کو بھاگتے دیکھ لیا۔ دروازہ کھلا پا کر اس لڑکے نے جا کر باپ کو جگایا۔ اُس کے بھائی بھی جاگ گئے ، سب گلی میں آکر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ تبھی انہوں نے میرے بھائی کی کراہیں سنیں اور وہ دروازے پر پہنچے جہاں بھائی گرے ہوئے تھے اور لہو ان کے بدن سے بہہ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ یہ لوگ کچھ سوال کرتے ، اسد بھائی بے ہوش ہو گئے ۔ وہ لوگ ٹیکسی ڈھونڈ نے لگے۔ اتنے میں کسی نے پولیس چوکی فون کر دیا۔ مگر پولیس نہیں آئی۔ وہ صبح آٹھ بجے تک آئے، جب تک خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے میرے بھائی نے دم توڑ دیا۔ محلے میں رش لگ گیا۔ پولیس بھی آگئی اور وہ بیان لینے لگی کہ اسی وقت شبانہ برقع میں ملبوس گھر کے اندر داخل ہوئی اور شوہر کو ایسی حالت میں دیکھ کر پہلے حیرت کا مظاہرہ کیا، پھر رونے دھونے لگی، جس پر پولیس کو شک گزرا کہ یہ عورت ابھی آئی ہے، پہلے کہاں تھی۔ بہر حال پولیس نے اس کا بھی بیان لیا۔ وہ بولی میں تو کل شام کی میکے گئی ہوئی تھی اور ابھی آرہی ہوں ، شاید کہ میرے شوہر کو ڈاکوؤں نے مار دیا ہے کیونکہ ان کی کسی سے بھی دشمنی نہیں تھی پولیس والوں نے کہا کہ ان کے گھر والوں کو اطلاع دو۔ بولی کہ یہ لاوارث ہے، اس کے گھر والے نہیں ہیں، وہ مر چکے ہیں۔ اب انسپکٹر کو مزید شک ہوا۔ کہنے لگا، تم جھوٹ بول رہی ہو۔ محلے والوں میں سے ایک نے کہا کہ اسد کے بہن اور بھائی سب زندہ ہیں۔ پولیس والوں کو اس کے رویے سے مزید شک ہوا کہ ہو نہ ہو، شوہر کے قتل سے اس عورت کا گہرا تعلق ہے کیونکہ صدمے سے نڈھال ہو جانے کے بجائے وہ خون کے دھبے اور چھینٹے صاف کرنے لگی اور سیٹرھیاں دھونے لگی۔ بولی لوگ یہاں سے اوپر آئیں گے میرے شوہر کی تعزیت کرنے، تو ان کے جوتوں اور پیروں کو میرے خاوند کا خون لگے گا اور مجھے تکلیف ہوگی ، اسی لئے صاف کر رہی ہوں۔ پولیس نے دو دن بعد محلے والوں کے بیانات کی روشنی میں شبانہ کو گرفتار کر لیا اور اپنا روایتی طریقہ اختیار کیا تو شبانہ نے بتا دیا کہ اس نے اپنے سابق شوہر کے ساتھ مل کر اسد کو قتل کیا ہے۔ در اصل وہ اپنے پہلے شوہر سے طلاق لے کر بہت پچھتا رہی تھی اور دوبارہ اس کے گھر جا کر آباد ہونا چاہتی تھی جبکہ اسد طلاق نہیں دیتا تھا اور یہ جھگڑا کچھ دنوں سے شدت اختیار کر گیا تھا۔ پولیس والوں نے اسد بھائی کی بچی کو امی جان کی تحویل میں دے دیا اور بعد میں اسلم بھی گرفتار ہو گیا۔ شبانہ کی کہانی کچھ یوں تھی کہ اس نے بازار حسن میں جنم لیا اور وہیں پرورش پائی۔ اس کی ماں اس سے بہت محبت کرتی تھی۔ وہ ایک اغواشدہ لڑکی تھی جس کو بچپن میں اغوا کر کے یہاں فروخت کر دیا گیا تھا۔ جب وہ اغوا کی گئی ، اپنے گھر کے باہر کھیل رہی تھی اور چار برس کی تھی۔ وہ کسی صورت بازار حسن میں رہنا نہ چاہتی تھی مگر اس کو یہاں رہنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ جب وہ بڑی ہوئی تو اس نے تہیہ کیا کہ اگر اس کو اولاد ہوئی اور وہ بیٹی ہوئی تو وہ اس کا نکاح کسی شریف آدمی سے کر دے گی مگر اس بازار کی زینت نہ بنائے گی۔ ثمینہ خود توعمر بھر اس دلدل سے نہ نکل سکی لیکن جب شبانہ پیدا ہوئی تو وہ اس کی اس انداز سے پرورش کرنے لگی کہ یہ لڑکی کسی شریف آدمی کا گھر آباد کرنے کے لائق ہو جائے۔ ثمینہ نے اس کو آٹھویں تک پڑھایا۔ آگے شبانہ نے خود پڑھ کر نہ دیا۔ کہتے ہیں کہ بچہ جہاں اور جس ماحول میں پرورش پاتا ہے، اُس پر اس ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے اور اسی ماحول کی چھاپ ہوتی ہے- شبانہ بھی اپنے ماحول سے علیحدہ نہ ہو سکی۔ اس کی ماں نے ایک شریف مگر غریب آدمی سے اس کی شادی کر دی۔ وہ اس سے چند دنوں میں طلاق لے کر لوٹ آئی کیونکہ غریب آدمی اُسے عزت سے تو رکھ سکتا تھا مگر تر نوالے اور روسٹ چرغے نہیں کھلا سکتا تھا جبکہ شبانہ عیش کی عادی تھی۔ اسی دوران ایک نوجوان ثمینہ کے کوٹھے پر آیا اور اس کو شبانہ پسند آ گئی۔ ثمینہ نے اس کو بتایا کہ میں اپنی بیٹی کو عزت بھری زندگی دینا چاہتی ہوں ۔ اگر تم کو یہ اتنی ہی پسند ہے تو عزت سے اپنا لو اور شریفانہ زندگی دو کیونکہ میں نے مجبور ہو کر اس گندگی کو قبول کیا تھا مگر میری بیٹی مجبور نہیں ہے۔ میں اس کی مالک و مختار ہوں، چاہتی ہوں کہ اس کا کسی شریف آدمی سے نکاح ہو اور یہ شرافت کی زندگی گزارے اسلم نے کہا۔ میں بھی شریف خاندان کا چشم و چراغ ہوں، ایک نیک نام زمیندار کا بیٹا ہوں ، کچھ رنگین مزاج دوست مجھ کو یہاں لے آئے ہیں۔ میں خود بھی گناہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ جائز زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ بہر حال اسلم، ثمینہ کی باتوں سے متاثر ہوا اور ساتھ ہی وہ دل و جان سے شبانہ کو پسند کرنے لگا تھا۔ اسی وجہ سے اس نے شبانہ کو شریک حیات بنانا قبول کر لیا۔ اسلم کے نکاح میں آنے کے بعد شبانہ جیون
ساتھ بن کر اس کے گھر آگئی۔ اس غرض سے اسلم نے علیحدہ گھر خریدا کیونکہ اس کے خاندان نے شبانہ کو قول نہ کیا اور صاف کہ دیا کہ علیحدہ رکھ اور یہ ہمارے گھر نہیں آسکتی۔ اسلم کے ساتھ خوش و خرم شبانہ نے دس سال گزارے کیونکہ وہ اس سے محبت کرتا تھا لہذا اس کا بے حد خیال رکھتا تھا۔ اس دوران دو بچے بھی ہو گئے ۔ اسلم کو اپنے بیٹوں سے بے انتہا محبت تھی۔ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی ان کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ ان کی وجہ سے بھی وہ شبانہ کا خیال رکھتا تھا کہ اس کے فرزندوں کی ماں تھی ۔ خدا کی کرنی اس اثناء میں کہیں شبانہ کی ملاقات اسد بھائی سے ہو گئی اور دونوں گمراہی کی طرف متوجہ ہو گئے۔ میں تو اس کو گمراہی کہوں گی کیونکہ بے شک اسد بھائی غیر شادی شدہ تھے، پر شبانہ تو شادی شدہ تھی، پھر اسلم کو اس سے شکایت تھی اور نہ اس کو اپنے خاوند سے کوئی گلہ تھا، شاید کہ اس کی رگوں میں کسی بد معاش کا خون تھا، جو بالآ خر رنگ لایا اور وہ اسلم سے بے وفائی کی مرتکب ہوگئی اب وہ بہانے بہانے اس سے جھگڑنے لگی اور اس کی زندگی اجیرن بنا ڈالی۔ بچے الگ پریشان تھے۔ کئی بار پڑوسیوں نے صلح کرائی۔ ثمینہ نے شبانہ کو رخصت کرتے وقت کہہ دیا تھا کہ پھر کبھی ادھر قدم مت رکھنا، اپنے ہی گھر میں رہنا۔ ایک بار طلاق لے کر آئی ہو تو میں نے رکھ لیا تھا کہ تمہارے بچے نہ تھے، اب تمہارے دو لڑکے ہیں لہذا بری بھلی جو بھی زندگی ہے، اپنے خاوند کے ساتھ تم کو گزارنی ہوگی ، میں کبھی کبھی خود آ کرمل جایا کروں گی۔ اسلم نے بھی نکاح کے وقت یہی شرط لگائی تھی کہ ثمینہ یا اس بازار کی کوئی ہستی شبانہ سے ملنے اس کے گھر نہیں آئے گی جب شیطان انسان کو بہکاتا ہے تو وہ اچھی بھلی جنت کو چھوڑ کر دوزخ کی راہ اختیار کر لیا کرتا ہے۔ اسد بھائی اور شانہ بھی انسان تھے، پس عشق کے چکر میں دونوں پھنس گئے ۔ میرے بھائی نے عورت کو نہ پہچانا اور والدہ کی بھی نافرمانی کر کے شبانہ کو بیوی بنایا۔ ادھر شبانہ نے اسلم سے لڑ جھگڑ کر طلاق حاصل کرلی اور اسد سے بیاہ رچالیا۔ وہ اپنے دونوں بیٹے بھی اسلم کے سپرد کر کے نئی دنیا بسانے آگئی۔ ایک سال بمشکل بچوں کے بغیر کا ٹا اور پھر اسلم سے رابطہ کر لیا۔ یوں دونوں بچوں کو وجہ بنا کر ملنے لگے- چونکہ اسد بہت سیدھے اور اعتبار کرنے والے آدمی تھے لہذا شبانہ کو اسلم سے ملاقات میں کوئی دشواری نہ ہوئی اور سب سے محفوظ جگہ اس کو اپنے گھر کی چھت ہی نظر آئی، تاہم ایسی باتیں کب تک چھپتی ہیں، وہ لاکھ کہتی کہ میرے بچوں کا باپ ہے مگر وہ اسلم سے طلاق لے چکی تھی ۔ معاشرہ ان کو ملنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا، وہ اب کسی اور کی منکوجہ تھی۔ اسلم ایسا سفاک اور برا آدمی نہ تھا مگر اس کو سفاکی کی راہ دکھانے والی شبانہ ہی تھی۔ بالآخر اس نے میرے بھائی اسد کا کام تمام کرا دیا۔ انہوں نے تو من میں یہی سوچا تھا کہ اس کو چوری اور ڈکیتی کی واردات مشہور کر دیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ بقول کسی کہ، زبان خنجر جو چپ رہے گی تو لہو پکارے گا آستین کا۔
کہتے ہیں کہ قتل نہیں چھپتا۔ قاتل کبھی نہ کبھی پکڑا جاتا ہے، شاید اسلم بچ نکلتا اگر شبانہ کم عقل نہ ہوتی اور محلے والے گواہی نہ دیتے۔ دونوں کو عدالت سے سزا ہو گئی لیکن نقصان کس کا ہوا؟ میرا پیارا بھائی، جان سے گیا اور اس کی معصوم بچی ماں اور باپ دونوں سے محروم ہوگئی۔ خود اسلم اور شبانہ کے بچے بن ماں باپ کے در بدر ہوگئے۔ شکر کہ وہ لڑکے تھے، اگر لڑکیاں ہوتیں تو اس بازار کی زینت بنتیں کہ جہاں کی ان کی ماں اور نانی تھیں۔ آج بھی جب اسد بھائی یاد آتے ہیں، دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مردوں کو خدا نے زیادہ سوجھ بوجھ اور عقل دی ہے، پھر بھی وہ کبھی کبھی عورت کے کہنے میں آجاتے ہیں اور ایسا کام کر گزرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی عزت و ناموس خاندانی وقار نی کہ زندگی تک داؤ پر لگ جاتی ہے۔ خدا بچائے ایسی عورتوں سے-