امی ابو نے پسند کی شادی کی تھی کیونکہ دونوں طرف کے لوگ اس رشتے پر راضی نہ تھے لہذا انہوں نے شادی میں شرکت نہ کی۔ میرے والدین نے ایک دوسرے کو تو پا لیا لیکن اپنوں کو کھودیا۔ تقدیر نے میری ماں کو میرے والد کی وجہ سے اپنوں سے جدا کیا تھا۔ کون جانتا تھا کہ کبھی وہ دن بھی آئے گا کہ میرے ذریعہ وہ ان سے دوبارہ مل جائیں گی۔ میری صورت اچھی تھی مگر سیرت میں تکبر اور اپنے حسن کے احساس سے ، اکھڑپن بھرا ہوا تھا۔ پاس پڑوس کے لڑکے میری ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتے مگر میں جو لڑکیوں سے بات کرنے کو اپنی توہین سمجھتی تھی، لڑکوں کو کب گھاس ڈالتی۔ کالج میں داخلہ لیا تو یہ نخوت اور بڑھ گئی۔ طرہ یہ کہ ذہانت میں بھی کسی سے کم نہ تھی۔ میری ہر چیز مکمل تھی۔ کاش کہ میری سیرت اچھی ہوتی۔ کون جانتا تھا کہ لاڈ اٹھانے والے میرے محافظ ، میرے والد کی زندگی کے دن تھوڑے ہیں۔ میں بھی سترہ برس کی تھی کہ وہ گزر گئے۔ والدہ کے والدین تو ان سے ترک تعلق کر چکے تھے۔ ادھر ابو کے رشتہ دار بھی ہم سے لا تعلق تھے ، ایسے میں ہم ماں بیٹی کا اگر کوئی سہارا تھا تو وہ والد صاحب کی جمع پونجی اور وہ کوٹھی تھی جس میں ہم رہتے تھے۔ جمع پونجی نے سال بھرساتھ دیا، اس کے بعد کوٹھی کی باری آگئی۔ امی نے اس کو فروخت کر کے چھوٹا سا دو کمروں کا مکان خرید لیا تا کہ سرچھپانے کا ٹھکا نہ رہے۔ باقی روپیہ بینک میں جمع کر دیا تا کہ زندگی کی گاڑی کچھ عرصہ آگے رواں ہو اور میں بھی سکون سے تعلیم کا دور مکمل کر سکوں۔ کالج کی تعلیم ختم کر کے میں یونیورسٹی پہنچ گئی۔ میری عمراب اکیس سال ہو چکی تھی۔ یونیورسٹی میں بھی میں کسی کو خاطر میں نہ لاتی۔ سوائے ایک لڑکی کے کسی کو دوست نہ بنایا، لہذا یہاں بھی مغرور مشہور ہو گئی۔ ہماری کلاس میں عامر نام کا ایک لڑکا بہت شائستہ اور مہذب سمجھا جاتا تھا۔ ایک بار ہم پکنک پر گئے تو وہاں اس نے مجھ سے بات کرنا چاہی، میں نے لفٹ نہ دی مگر خدا کی کرنی کہ میں لڑکیوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں مشغول تھی۔ اچانک میرا پاؤں پھسلا اور میں گہرے پانی میں گرگئی، تبھی عامر نے دریا میں چھلانگ لگا کرمجھ کو ڈوبنے سے بچالیا۔ وہ ایک اچھا تیراک تھا۔ کچھ دیر بعد جب حواس بحال ہوئے تو سب نے خدا کا شکر ادا کیا۔ ہمارے اساتذہ کے بھی پسینے چھوٹ گئے تھے۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ میں بچ گئی تھی۔ اس واقعہ سے بھی میرے دل میں عامر کے لئے نرم گوشہ پیدا نہیں ہوا۔ اس دوران میرے لئے کئی رشتے آئے، عامر نے بھی اپنی والدہ کو تین بار رشتے کے لئے بھیجا لیکن میں نے ہر رشتے سے انکار کر دیا۔ عامر کو میرے انکار سے بہت دکھ ہوا۔ ایک دن اس نے یونیورسٹی میں انکار کی وجہ پوچھنا چاہی تو مجھے غصہ آگیا۔ میں نے قہر آلود نگاہوں سے اس کو گھورتے ہوئے کہا کہ تمہارے جیسے تو میرے گھر کے دربان ہیں، میں تم کو اپنی جوتی کے برابر سمجھتی ہوں۔ آئندہ میرے گھر رشتہ بھجوانے کی جرت نہ کرنا ورنہ وی سی صاحب سے شکایت کر دوں گی۔ یہ کہہ کر میں نے گملے میں تھوکا اور آگے بڑھ گئی۔ وہ ہکا بکا میر امنہ تکتارہ گیا۔ اس واقعہ کے بعد نہ تو وہ کبھی مجھ سے مخاطب ہوا اور نہ میری طرف دیکھا۔ میں نے بھی شکر کیا کہ تم روٹھے ہم چھوٹے۔ تعلیمی سال مکمل ہوا تو میں گھر بیٹھ گئی۔ عامر کو میری خبر رہی اور نہ مجھے اس کی۔ اب میری عمر اٹھائیس سال تھی۔ گھر میں کرنے کو کچھ نہ تھا تو بور ہوتی رہتی تھی۔ رفتہ رفتہ مالی حالات تنگ ہونے لگے۔ جائیداد کے پیسے ختم ہو چلے تو نوکری کی تلاش میں گھر سے نکلی۔ دوسال تک مناسب ملازمت کی تلاش میں سرگردان رہی لیکن کامیابی نہ ملی۔ جہاں بھی گئی، اکثر میلی نگاہوں والے افراد سے سابقہ پڑا۔ سخت ذہنی کوفت کے ساتھ گھر کو لوٹتی تو کئی دن دہلیز سے باہر قدم رکھنے کو دل نہ کرتا۔ اب تو میرے لئے پہلے جیسے اچھے رشتے بھی نہیں آتے تھے۔ اگر آتے بھی تو شادی شدہ اور عمر رسیدہ مردوں کے جو دوسری یا تیسری شادی کے آرزو مند ہوتے تھے۔ ایسے رشتوں کو میرا ذہن قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ ایک روز جب گھر میں نہ راشن تھا اور نہ پیسہ پائی، بہت افسردہ بیٹھی تھی کہ اخبار میں ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی کا اشتہار دیکھا۔ ایک کمپنی کو لیڈی سیکرٹری کی ضرورت تھی۔ دیئے گئے پتے پر گئی تو چپراسی نے مجھے بتایا کہ ابھی تھوڑا سا انتظار کر لیں۔ میری نظر اچانک صاحب کے کمرے میں دیوار پر لگی تصویر پر گئی تو بو کھلا گئی۔ یہ عامر کی تصویر تھی۔ فوراً کرسی سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکلی توسامنے عامر آتے نظر آگئے۔ وہی عامر ، میں نے جس کی بے عزتی کی تھی۔ وہی انسان اب دروازے میں کھڑا تھا، جسے دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے تھے۔ عامر نے بہت شائستگی سے سلام کیا۔ متانت سے کہا۔ مس بخت ! کیسے مجھ غریب کے دفتر میں آنا ہوا؟ نوکری کا پتا کرنے آئی تھی لیکن اب نہیں کرنی مجھے آپ کے پاس نوکری۔ ٹھیک ہے، نہیں کیجیے لیکن آداب میزبانی تو نباہنے دیجئے۔ اگر کرسی پر تشریف رکھیے گا تو میری عزت افزائی ہو گی۔ اس نے کچھ اس طرح ہمدردانہ لہجے میں یہ بات کی کہ مجھے اپنے سابقہ کیے پر شرم آگئی۔ کیا سوچ رہی ہیں، آیئے۔ مارے لحاظ کے میں ان کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ ہی گئی۔ یہ بتائیے کہ ملازمت کیوں کرنا چاہتی ہیں۔ اگر بہت ضروری ہے ملازمت کر نا اور میری کمپنی میں نہیں کرنا چاہتیں تو بھی کوئی بات نہیں۔ میں کسی دوسری کمپنی میں اچھی ملازمت پر رکھوا دیتا ہوں۔ وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے بعد آپ کی اجازت کے بغیر نہ آپ سے بات کروں گا اور نہ فون کروں گا کیونکہ آپ کے مزاج سے واقف ہو چکا ہوں۔ اس نے اتنے اعتماد اور اپنائیت سے یہ باتیں کہیں کہ میں نے اس کو اپنے حالات بتا دیئے۔ وہ کہنے لگا۔ کافی عرصہ ملازمت کی تلاش میں رہنے سے آپ کو معاشرے کے رویوں کا بغوبی اندازہ ہو چکا ہے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ مجھے پر ہی اعتبار کر لیں ؟ میں آپ کو اچھی سیٹ پر ملازمت دوں گا اور تنخواہ بھی معقول ہوگی۔ اس کے علاوہ آپ کے تحفظ کی ضمانت بھی دوں گا۔ مجھے شرمندہ نہ کرو عامر۔ میں تو اس وجہ سے واپس جارہی تھی کہ اس روز تمہاری اہانت کی تھی اور بدلے میں تمہارے سلوک سے شر مندہ ہو رہی تھی۔ مجھ کو لگا کہ دوبارہ بھٹکنے کی بجائےعامر کی پیش کش کو قبول کر لینا اچھا ہے۔ عامر نے آئی ٹی کا کورس کروانے میں مدد کی اور جب میں نے کورس مکمل کر لیا تو مجھ کو جاب دے دی۔ تاہم وہ مجھ سے کبھی بے تکلف نہ ہوا، لئے دیئے رہتا، ضرورت پر مختصر بات کرتا لیکن یہ سبھی آفس والے جان گئے تھے کہ وہ میری عزت کرتا ہے، بہت احترام سے پیش آتا تھا، تو سبھی لوگ عزت سے پیش آنے لگے۔ کسی کی جرات نہ ہوتی کہ میلی نظر مجھ پر ڈالے۔ مجھے عامر کی کمپنی میں ملازمت کرتے چھ ماہ گزر چکے تھے۔ اس عرصہ میں اس شخص کی اچھائیوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا موقعہ ملا تو دل میں اس کا احترام کرنے لگی۔ اب اپنا سابقہ پرتکبر رویہ یاد کرتی تو شرما جاتی۔ تاہم خود کو تسلی دیتی تھی کہ اس وقت طالبہ تھی اور والد کا سایہ بھی سر پر نہ تھا۔ ایسے میں کسی اجنبی لڑکے پر کیونکر اعتبار کر لیتی۔ میں بھی تو حق بہ جانب تھی۔ یہ الگ بات کہ جب عامر نے مجھ سے کبھی بد تمیزی نہ کی تھی تو مجھے بھی اس کے ساتھ اخلاق سے بات کرنا چاہئے تھی۔ خیر ، جو ہونا تھا ہو چکا تھا۔ انسانی رویے تو اپنی شخصیت کی کمتری اور برتری کی وجہ سے معرض وجود میں آتے ہیں۔ قسمت نے ہمیں ملانا تھا، سو ملادیا۔ کل جو تقدیر مجھ پر نامہربان تھی وہ آج مہربان ہو چکی تھی۔ میں نے امی کو بتایا کہ میرا باس میری یونیورسٹی کا کلاس فیلو ہے اور یہ بزنس اس کے والد سے اسے وراثت میں ملا ہے۔ والدہ نے کہا اگر وہ تمہارا اتنا خیال رکھتا ہے تو کسی دن کھانے پر بلا لو۔ امی کا خیال درست تھا۔ وہ سمجھ چکی تھیں کہ عامر کے دل میں میرے لئے جگہ ہے جبکہ مجھے یہ بھی پتا نہیں تھا کہ وہ شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ۔ ایک دن امی کی طبیعت بہت خراب تھی سو میں دفتر نہ گئی۔ اس دن میرے ذمے اہم کام تھا اور میں ایسا کبھی نہیں کرتی تھی کہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کروں۔ یہ بات عامر کو پتا تھی، لہذا اس نے میرے گھر فون کیا کہ میری خیریت کا پتا چل سکے۔ امی نے فون پر بات کی اور بتایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہے اور بیٹی کے علاوہ مجھ کو سنبھالنے والا کوئی نہیں۔ تبھی وہ آپ کو چھٹی کی درخواست بھجوا رہی ہے۔ آنٹی چھٹی کی درخواست کی ضرورت نہیں، بخت میری کلاس فیلو ہے ، میں ان کو ملازم نہیں سمجھتا، صرف خیریت معلوم کرنے کو فون کیا تھا۔ اگر ایسی بات ہے بیٹے تو گھر آجاؤ اور میری خیریت دیکھ لو۔ عامر نے آفس آف ہونے کے بعد گاڑی نکالی اور ہمارے گھر آگئے۔ جب اس نے کال بیل دی۔ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھولا۔ یہ وہی شخص تھا جس کا دل کبھی میرے لئے دھڑکا تھا اور آج میرا دل اس کی خاطر دھڑک رہا تھا۔ وقت کا عجب چلن ہے ، حالات کی کایا پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ کل وہ میر امشتاق دید تھا اور آج میں اس کی منتظر تھی۔ دوسری بار بھی وہ امی کی عیادت کی خاطر ہمارے گھر آئے اور امی کو اپنی گاڑی میں اسپتال لے گئے۔ وہ دونوں اس طرح گھل مل گئے تھے جیسے برسوں سے جان پہچان ہو۔ ان کے درمیان کچھ ایسی باتیں ہوئیں جن کو میں نہ سن سکی، لیکن جب عامر چلا گیا تب امی کے چہرے پر طمانیت تھی۔ وہ آج بہت خوش اور سکھی لگ رہی تھیں۔ شام کو عامر دوبارہ آیا اور امی کو اپنی گاڑی میں اسپتال لے گیا۔ آج ان کے درمیان میں ہی خود کو اجنبی محسوس کر رہی تھی۔ امی نے بعد میں بتایا کہ بخت ! دراصل یہ میرا بھتیجا ہے ، تمہارے ننھیال کے روٹھ جانے کے بعد میرے بھائی نے بھی مجھ سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ خدا نے تمہارے وسیلے سے مجھے میرے بھتیجے سے ملایا ہے۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ اب کیا رکاوٹ تھی میری ماں عامر کی پھوپی تھیں، جنہوں نے اپنے بھتیجے کو گلے سے لگا لیاتھا اور پھر عامر کی دلی مراد پوری ہوئی۔ وہ ایک بار پھر اپنی والدہ کو ہمارے گھر لایا اور انہوں نے جھولی پھیلا دی۔ بتاتی چلوں کہ امی کی شادی کے سال بعد ماموں کی شادی ہوئی تھی لہذا امی نے اپنی اس بھابھی کو اس وقت نہیں پہچانا تھا جب وہ پہلے دوبار ہمارے گھر رشتے کے لئے آئی تھیں۔ امی نے اپنے بھائی سے ملنے کی آرزو کی۔ ممانی اور عامر ان کو بھی منا کر امی کے پاس لے آئے۔ اس دن کا منظر دیدنی تھا جب ایک لمبی مدت بعد امی اور ماموں ملے تھے۔ ماموں نے کہا۔ بہن میرا تو بہت جی چاہتا تھا آپ سے ملوں مگر والد نے قسم دے دی کہ اب سلطانہ سے نہیں ملنا ہے تبھی دل پر پتھر رکھ لیا تھا۔ عامر نے مجھے کہا کہ اب تم آفس نہیں آؤ اور پھر شادی کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ میری شادی دھوم دھام سے عامر کے ساتھ ہو گئی، جس میں دونوں خالائیں شریک ہوئیں، نانی جان بھی آئیں مگر افسوس کہ نانا وفات پاچکے تھے۔ اس طرح میری ماں کو مدتوں بعد ان کا میکہ اور مجھے ننھیال کا دیدار نصیب ہوا۔ جب سالوں بعد بھائی بہن گلے ملے تو والدہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ امی کہتی تھیں کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کبھی اپنوں سے ملوں گی اور ہم پھر سے ایک ہو جائیں گے۔ میری شادی کے چار ماہ تک والدہ اپنے ہی گھر میں رہیں مگر وہ بیمار رہتی تھیں، تبھی عامر اور ماموں ان کو سمجھا بجھا کر اپنے گھر لے آئے۔ یہ وہ گھر تھا جن میں نانا کی طرف سے ان کا بھی حصہ بنتا تھا۔ ماموں نے وہ حصہ ان کو دے دیا تو وہ سکون سے رہنے لگیں لیکن یہ حصہ بالآخر تو واپس عامر کے پاس ہی آنا تھا۔ افسوس کہ میری والدہ صرف تین برس ہی اپنوں کے ساتھ رہ سکیں اور پھر اپنے خالق کے پاس چلی گئیں۔ آج ہر سکھ ہر نعمت میرے پاس ہے مگر ماں نہیں ہے، جس نے کتنے دکھ اٹھا کر مجھے پروان چڑھایا تھا۔ سچ ہے اس جہان میں ماں جیسا کوئی رشتہ نہیں اور ماں کی ہستی کا کوئی نعم البدل بھی نہیں۔