یہ 1950ء کا ذکر ہے، ایک نوخیز حسینہ شہر کے بلاک پچاس میں رہتی تھی۔ ان دنوں وہ نئی نئی بازارِ حسن میں چمکی تھی۔ بلاشبہ، اس کی خوبصورتی کو مونالیزا کی معصومیت اور وینس کی دیوی سے تشبیہ دی جا سکتی تھی۔
اسی دور میں ارباب خان کی دولت کے چرچے دور دور تک تھے، اور جب انسان کے پاس دولت ہو، حسن ہو، جوانی بھی ہو، تو وہ زیادہ دن تک پارسا نہیں رہ سکتا۔ خان صاحب کے پاس بھی خوشامدی دوستوں کا جمگھٹا رہنے لگا تھا، جو بالآخر انہیں اس بازارِ حسن لے گئے، جہاں دن سوتے ہیں اور راتیں جاگتی ہیں، اور جہاں پیسے کے بدلے سب کچھ مل جاتا ہے۔
ارباب خان نے زرمینہ کو دیکھا تو سدھ بدھ کھو بیٹھا۔ بلاشبہ، وہ ایسی تھی کہ ایک بار نظر بھر کر دیکھنے والے کی پتلی ٹھہر جاتی تھی۔ وہ اس نگینے کو دیکھ کر فریفتہ ہوا اور اسے “گوہر نایاب” کا لقب دیا۔ وہ خاندانی آدمی تھا، طوائف سے نکاح نہ کر سکتا تھا، ورنہ یہ بھی کر گزرتا۔ بڑی موٹی رقم کے عوض لڑکی کی ماں نے یہ سودا طے کر لیا کہ گوہر اوروں کو صرف گائیکی سے لطف اندوز کرے گی، مگر اس کی خلوتوں کا مالک صرف ارباب خان ہوگا۔ اس نے بیٹی کا نام بھی ارباب خان کی خواہش پر زرمینہ سے بدل کر گوہر نایاب رکھ دیا۔
یوں، گوہر نایاب کئی برس تک ارباب خان کے پاس رہی۔ لگتا تھا کہ وہ ہمیشہ اس کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر رہے گا۔ لگاؤٹ اس قدر بڑھ گئی تھی کہ خاندانی روایات سے بغاوت کر کے وہ کسی روز اس حسین طوائف زادی سے نکاح کر لیتا، لیکن ایک دن کسی بات پر خفا ہو کر ایسا گیا کہ پھر کبھی نہ لوٹا۔
جہاں کوٹھے والی کا اعتبار نہیں، وہاں دولت والوں کے مزاج بھی ناقابلِ اعتبار ہوتے ہیں۔ جب چاہیں تو ساری دولت وار دیں، اور جب بھولنے پر آئیں، تو کوئی جان بھی دے دے، تب بھی ان کی یادداشت پلٹ کر نہیں آتی۔ گوہر نایاب ارباب خان کے غم میں کئی روز تک دل شکستہ پڑی رہی۔ نہ محفلِ رقص سجی اور نہ ہی ہار سنگھار کیا۔ ماں سمجھاتے سمجھاتے ہار گئی کہ ان مردوں کا کیا، پھر طوائف سے محبت؟ یہ بات تو ان کی کتاب میں ہی نہیں لکھی۔
قدرت نے کیچڑ میں پھول کھلانا تھا۔ گوہر اس درخت کی مانند بوجھل بوجھل رہنے لگی، جس پر جلد ہی پھل اور پھول لگنے والے ہوں۔ دنیا لڑکیوں کی پیدائش پر دل مسوس لیتی ہے، مگر یہ گھرانہ ایسا تھا جہاں بیٹی کی پیدائش ایک اچھے مستقبل کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔
تو پھر گل لالہ کی پیدائش پر گھی کے چراغ کیوں نہ جلائے جاتے؟ نانی تو پھولی نہ سماتی تھی اور گوہر اس لیے خوش تھی کہ جس کو چاہا نہ ملا تو کیا ہوا؟ اس کے وجود کا ایک حصہ تو اس کے پاس تھا۔ یہ ارباب خان کی نشانی تھی، جسے پا کر گوہر خوش تھی۔ دکھ بس یہ تھا کہ ارباب خان وقت سے ذرا پہلے ٹھکرا کر چلا گیا تھا۔ اگر وہ جان لیتا کہ اس کی اولاد کہیں پرورش پا رہی ہے، تو کبھی اسے چھوڑ کر نہ جاتا۔
دوسری طرف، ارباب خان گوہر نایاب سے دور ہو کر اس قدر پریشان ہوا کہ یورپ چلا گیا، اور یہ بیچاری اس کی یاد کو دل میں چھپائے پھر سے محفلیں سجانے لگی۔ طبلے کی تھاپ اور گھنگھروؤں کی جھنکاروں میں پل کر لالہ بھی جوان ہو گئی۔ جیسے ہر طوائف زادی وقت سے پہلے زمانے کا شعور حاصل کر لیتی ہے، سولہ کے سن میں لالہ بھی احسن کی راہ تکنے لگی۔
احسن خان اس علاقے کا ایک نو عمر امیر زادہ تھا، جو اپنے رنگین مزاج دوستوں کے ہمراہ کبھی کبھار گل لالہ کا مجرا دیکھنے آتا تھا۔ اس کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی، تبھی وہ اس پری وش کا دیوانہ ہو گیا۔ گل لالہ واقعی لالہ کا پھول تھی۔ حسن میں وہ اپنی ماں سے بازی لے گئی تھی۔ اس کے حسن میں ایک خاص تمکنت اور رعونت تھی، کیونکہ اس کی رگوں میں ارباب خان جیسے وجیہہ اور خاندانی رئیس کا خون گردش کر رہا تھا۔
احسن کی شادی نہ ہوئی تھی، اسی لیے اس کے جھکاؤ میں والہانہ پن تھا۔ اس بات نے لالہ کو مزید غلط فہمی میں مبتلا کر دیا۔ مگر جلد ہی یہ غلط فہمی دور ہو گئی۔ جب کئی دنوں تک وہ نہ آیا تو لالہ بےقرار ہو گئی۔ گوہر نے احسن کے دوستوں سے معلوم کیا تو انکشاف ہوا کہ اس کی شادی ہو چکی ہے اور وہ آج کل اپنی شریک حیات کے ساتھ ہنی مون پر ہے۔
اتفاق سے احسن خان کی شادی ارباب خان کی بیٹی سعدیہ سے ہوئی تھی، جو حسن و جمال میں بے مثال تھی۔ ایک سال بیت گیا، احسن نے پھر کوٹھے کا رخ نہ کیا، جیسے وہ لالہ کو قصۂ پارینہ سمجھ کر بھلا چکا ہو۔
ڈیڑھ برس بعد اللہ نے ارباب خان کو فرزند عطا کیا۔ اس خوشی کو منانے کے لیے ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا گیا، جس میں رت جگے اور مجرے کا بھی بندوبست کیا گیا۔ اس محفل کے لیے جن طوائفوں کو بلوایا گیا، وہ گوہر نایاب کا ہی گھرانہ تھا۔
احسن خان نے اس موقع پر لالہ کو بلایا، جس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر محفل میں شرکت کی۔ وہ رات بھر ناچتی رہی اور آخرکار تھکن سے بے ہوش ہو گئی۔ جب وہ گری، تو احسن نے اپنی بیوی کے کان میں سرگوشی کی: “یہ تمہارے باپ کی نشانی ہے، تبھی اس کی صورت تم سے ملتی ہے۔”
یہ سنتے ہی سعدیہ پر حقیقت کھلی کہ گل لالہ اس کی سگی بہن تھی، جو محفلوں میں ناچنے پر مجبور تھی۔ قدرت کی یہ کتنی بڑی ستم ظریفی تھی کہ ایک بہن کی حویلی میں دوسری بہن گھنگھرو باندھ کر ناچنے آئی تھی۔
آج تک میرا دل احسن سے خفا ہے۔ اگر وہ یہ راز جانتے تھے، تو پھر انہوں نے ایسا کیوں کیا؟