جب بھی شاہ میر کا فون آتا، راحیلہ فوراً مجھے آ کر بتا دیتی۔ میں اس کے ساتھ اس کے گھر چلی جاتی اور شاہ میر سے دنیا جہاں کی باتیں کرتی۔ یہ میں اپنی دوست کا احسان سمجھتی تھی کہ وہ مجھے فون کے لیے بلانے آجاتی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب موبائل فون عام نہیں تھے۔ امی نے گھر کے فون پر تالا لگا رکھا تھا کیونکہ فون کا بل بہت آ جاتا تھا۔ شاہ میر میرے تایا کا سپوت تھا۔ ان کا مکان ہماری رہائش سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ ہمارے گھر اس کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میری اس کے ساتھ منگنی ہو چکی تھی، تبھی ہم فون پر باتیں کیا کرتے تھے۔ راحیلہ یہ بات جانتی تھی کہ وہ میرا منگیتر ہے، تبھی اپنے گھر کے فون سے ہماری بات کروا دیتی تھی۔ وہ گورا چٹا، اونچا لمبا، ہنس مکھ اور شرارتی تھا۔ زندگی سے بھرپور ایک من موہنی شخصیت کا مالک، اسی لیے سبھی اس میں کشش محسوس کرتے، تاہم وہ ہر کسی کو لفٹ نہیں کراتا تھا۔ وہ راحیلہ سے بھی میری وجہ سے بات کر لیتا تھا، ورنہ اس لڑکی میں کوئی خاص بات نہ تھی جو کسی کو اپنی جانب متوجہ کر سکتی۔ اس کا قد چھوٹا، رنگت سانولی اور نین نقش واجبی تھے، تاہم وہ کافی ذہین تھی اور گفتگو میں ایسی طاق کہ بس اپنا جواب آپ تھی۔ ایک یہی اس کی خوبی تھی کہ سننے والے کو اپنی جانب پل بھر میں متوجہ کر لیتی۔ اس کے مقابلے میں، گرچہ میں خوبصورت تھی لیکن مجھ میں فراست نہ تھی۔ جس سے ملتی، اسے اپنا خیر خواہ سمجھ لیتی۔ ہر ایک پر جلد اعتبار کر لیا کرتی تھی۔ کسی نے مگر سچ کہا ہے کہ کچھ لوگ دوست کے روپ میں آستین کا سانپ ہوتے ہیں۔ سب پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ لوگ اکثر آپ کی سب اعتبار کی خوشیوں سے خوش نہیں ہوتے۔ جب بھی شاہ میر گھر آتا، یوں راحیلہ کو بھی اس کے گھر سے بلا لیتی، پھر ہم تینوں باتیں کرتے۔ میں جب اپنے منگیتر سے باتیں کرتی تو عجیب سا احساس گھیر لیتا۔ دعا کرتی کہ راحیلہ آ جائے، وہ آجاتی تو شاہ میر کے ساتھ گپ شپ لگانے میں آسانی محسوس ہونے لگتی، جیسے راحیلہ کے آنے سے میری شخصیت کی کمی دور ہو گئی ہو۔ وہ آتے ہی ایسی باتیں شروع کر دیتی کہ شاہ میر کا جی لگ جاتا اور میں بھی اس کی دلچسپ گفتگو سے محظوظ ہوتی۔ ہم تینوں خوب ہنستے۔ کیا خبر تھی کہ کسی دن یہ دونوں بے وفا پرچھائیاں اڑ جائیں گی اور میں ہاتھ ملتی رہ جاؤں گی۔
وقت پر لگا کر اڑتا گیا اور ہم اسکول سے کالج میں آ گئے۔ فائنل ایئر میں اچانک شاہ میر نے بتایا کہ وہ یو کے جا رہا ہے۔ پہلے تو مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، سمجھی کہ مذاق کر رہا ہے۔ جب اس کی تیاریاں دیکھیں تو سوچ میں پڑ گئی۔ میں اس سے پیار کرتی تھی، ہم بچپن کے ساتھی تھے، کیسے اس کی جدائی سہہ پاتی۔ اسے روکنے کی بہت کوشش کی مگر اس نے میری بات پر کان نہیں دھرے، جیسے میری باتیں اس کے لیے کوئی اہمیت نہ رکھتی ہوں۔ اس کا فیصلہ اٹل تھا۔ وہ مجھے باور کرواتا کہ اس کے دوست نے کتنے پاپڑ بیل کر وہاں کے تعلیمی ادارے کی فیس بھری ہے اور بہت خرچہ کیا ہے، تبھی وہ جا پا رہا ہے۔ یہ سنہری موقع ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔ غرض کہ مجھے روتا دھوتا چھوڑ، وہ چلا گیا۔ جب وہ جا رہا تھا، یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی دوسری دنیا میں جا رہا ہے اور اب ہم کبھی نہ مل سکیں گے۔ یقین نہ آرہا تھا کہ چاہنے والے اس قدر بھی بدل سکتے ہیں اور شاہ میر بدل جائے! ایسا تو میں سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ اس نے تو جلد لوٹ کر آنے کا بھی وعدہ نہ کیا تھا۔ اسے گئے چھ ماہ بیت گئے۔ یہ چھ ماہ میرے لیے تو چھ سال ایسے تھے۔ اس کی طرف سے نہ خط آیا اور نہ فون۔ میں روز راحیلہ کے پاس جاتی، اس سے پوچھتی کہ کیا شاہ میر کا فون آیا تھا؟ اس کا جواب نفی میں ہوتا۔ اس کی جدائی میں جیسے جو گن بن گئی۔ کھانا پینا اور نہ پڑھنا لکھنا، ہفتہ گزر جاتا، کپڑے بدلتی اور نہ کنگا کرتی۔ نہانا تو کجا، منہ تک دھونا یاد نہ رہتا۔ مایوسی سے نڈھال رہنے لگی، کالج جانا چھوڑ دیا۔ راحیلہ اس دوران میرا بڑا خیال رکھتی۔ پیپرز نزدیک تھے، اُس نے مجھے سنبھالا۔ اچھی اچھی باتیں کرتی، ہنساتی، دل بہلاتی تو میں سوچتی کہ دیکھو! دنیا میں ایسے اچھے دوست بھی ہوتے ہیں، اگر یہ نہ ہوتی شاید میں مر ہی جاتی۔ وہ مجھے دلاسا دیتی کہ وہ آجائے گا۔ بیرون ملک ہی تو گیا ہے، وہاں کی سو مجبوریاں ہوتی ہیں۔ یہ کوئی پاکستان تھوڑی ہے۔ تم اس کی فکر مت کرو، اپنی صحت کا خیال رکھو۔ مجھے روتا دیکھ کبھی تو خود بھی رونے بیٹھ جاتی۔ اس کی یہی ہمدردی اور خلوص مجھے حوصلہ عطا کرتا تھا۔ شاہ میر کو گئے سال ہو گیا۔ میرے پیپرز اچھے نہ ہوئے اور میں فیل ہو گئی، تبھی کالج کو خیر باد کہہ دیا۔ والدین، بہن بھائی، مجھے دیکھ کر پریشان رہنے لگے تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ میں نے شاہ میر کی جدائی کا اثر لیا ہے۔ کاش میری اس کے ساتھ منگنی نہ ہوئی ہوتی۔ تایا ابا نے نہ صرف اس رشتے کو جوڑا تھا بلکہ اب بھی ہر ایک سے یہی کہتے تھے کہ کنزا میری بہو ہے۔ اگر کوئی اس کا رشتہ لائے تو میں اس پر فائر کھول دوں گا۔ میں تایا ابو سے پوچھتی تھی کہ شاہ میر ہمیں خط کیوں نہیں لکھتا؟ فون کیوں نہیں کرتا؟ تو وہ اسے برا بھلا کہنے لگتے کہ احمق لڑکا، پرائے دیس جا کر اس کی رنگینیوں میں کھو گیا ہے۔ گمان تک نہ ہوا کہ تایا ابو ڈرامہ کر رہے ہیں۔ لہٰذا ہر طرف سے مایوس ہو کر میں بیمار ہو کر بستر پر ڈھے گئی۔ عورت محبت کے معاملے میں بہت کمزور رہی ہے۔ مرد کی ایک محبت بھری نظر ہی عورت کی کمزوری ہوتی ہے۔ اس کمزوری کے باعث وہ اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیتی ہے، لیکن اسے ملتا کچھ نہیں سوائے بے وفائی کے۔ اسی دوران پتا چلا کہ راحیلہ کی منگنی ہو گئی ہے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ میری اتنی اچھی اور گہری دوست نے اپنی منگنی پر مجھے بلایا بھی نہیں۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ میں شکوہ کرتے ہوئے اس کے گھر گئی۔ مجھے سامنے دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔ مسکرائی اور نہ بیٹھنے کے لیے کہا، بلکہ جلدی سے کمرے میں گھس گئی۔ اس کا انداز بتا رہا تھا کہ میرا آنا اسے اچھا نہیں لگا۔ میں الٹے قدموں لوٹنے والی تھی کہ میری چھٹی حس نے چوکنا کیا اور میں مارے تجسس کے اس کے کمرے میں چلی گئی۔ میں نے گلہ کیا کہ تم نے منگنی پر مجھے بلایا نہیں اور اب آئی ہوں تو منہ پھیر لیا ہے۔ آخر کیوں؟ تمہارا یہ انداز میری سمجھ میں نہیں آرہا۔ میرے ایسا کہنے پر وہ کچھ سوچ میں پڑ گئی۔ چند سیکنڈز سے سنبھلنے میں لگی، پھر اس کے چہرے پر وہی ہمدردی اور اپنائیت لوٹ آئی۔ اس نے میرے زرد چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور بیٹھنے کو کہا، پھر میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگی۔ میں نے اس کے منگیتر کا نام پوچھا اور تصویر دیکھنے کی ضد کی۔ وہ شرمانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی، تبھی اس کی امی کمرے میں آ گئیں۔ میں نے ان کو مبارک باد دی، لیکن آج مجھے ان کی محبت بھری مسکراہٹ میں بناوٹ محسوس ہوئی۔ آنٹی، آپ نے بھی مجھے راحیلہ کی منگنی پر نہیں بلایا؟ کیوں؟ میں نے شکوہ کیا تو انہوں نے حیرت سے بیٹی کو دیکھ کر کہا، کنزا! کیا واقعی تم کو علم نہیں کہ راحیلہ کی منگنی شاہ میر سے ہو گئی ہے؟ یہ سن کر میرے ہوش گم ہو گئے اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ چہرے کا رنگ بدلتے دیکھ کر آنٹی نے مجھے صوفے پر لٹادیا۔ اس کے بعد نہیں معلوم کیا ہوا کیونکہ میں بے ہوش ہو گئی تھی۔
جب ہوش آیا تو میں اپنے گھر پر تھی اور میرے شفیق والدین کے مہربان چہرے میرے سامنے تھے۔ ان کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ شاہ میر اور راحیلہ کے گھر والے ایسا کر سکتے ہیں۔ اس بات پر ابا اور تایا میں سخت جھگڑا ہوا۔ تایا کا کہنا تھا، اب وہ وقت نہیں رہا کہ اولاد پر سختی کی جائے، میں مجبور ہوں۔ شاہ میر سے زیادہ مجھے اپنی عزیز جاں سہیلی کی بے وفائی کا افسوس تھا۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ دونوں میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کر سکتے ہیں۔ اس دکھ نے میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے تھے۔ دونوں ہی میرے اپنے تھے۔ میں تو ان دونوں کو ہی اپنے وجود کا حصہ سمجھتی تھی۔ اب سمجھ میں آیا کہ شاہ میر کا یوں چلے جانا اور مجھے خط نہ لکھنا، فون بھی نہ کرنے کی کیا وجہ تھی۔ اس کے گھر والے ہم سے جھوٹ بولتے رہے۔ ہمارے اپنے ہمیں دھوکا دیتے رہے۔ شاہ میر نے تایا اور تائی کو بتا دیا تھا کہ راحیلہ سے شادی کرنے پر وہ یو کے جا سکتا ہے۔ وہاں اس کے بھائی ہیں، جو اسے اسپانسر کریں گے اور وہ آگے پڑھے گا، پھر نوٹوں کی بوریاں کما سکے گا۔ اس طرح خونی رشتوں نے دولت کو اہمیت دی۔ تایا جی نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس طرح ان کا بھائی ہمیشہ کے لیے ان سے چھوٹ جائے گا اور راحیلہ، جو میری دوست، میری غمگسار، میری راز داں تھی، وہ بھی آستین کا سانپ نکلی۔ شاہ میر کو اُس نے اچھے مستقبل کی آس دلائی۔ اس کے دو بھائی زمینداری سنبھالتے تھے اور دو کا یو کے میں اپنا بزنس تھا۔ وہ مدت سے وہاں سیٹل تھے اور بہت دولت مند تھے۔ اب کچھ عرصے بعد ان دونوں کی شادی ہونے والی تھی۔ مجھے اپنے دل میں دھواں سا محسوس ہوتا تھا۔ جب میں یہ سوچتی کہ نہ کوئی میرا دوست ہے اور نہ غمگسار، تو سب رشتوں پر سے اعتبار ٹوٹ جاتا تھا۔ دل ڈوبنے لگتا اور دنیا اندھیر نظر آنے لگتی۔ اب مجھے کوئی کام نہ رہ گیا تھا سوائے شاہ میر کی بے وفائی کا سوگ منانے کے۔ اس پر ستم یہ کہ لوگ مجھے اس کی فرصت بھی نہ دینا چاہتے تھے۔ تب ہی مجھے شادی، دوستی اور مرد ذات سے نفرت ہو گئی۔ میں نے کبھی شادی نہ کرنے کی قسم کھائی، مگر امی ابو تھے کہ ہر وقت اس فکر میں مبتلا رہتے تھے۔ ان دنوں میرے لیے اچھے رشتے آتے، لوگوں کو پتا چل چکا تھا کہ اس کے منگیتر نے بے وفائی کی ہے تو خاندان بھر کی ہمدردیاں میرے ساتھ ہو گئیں۔ شکل و صورت کی اچھی تھی، اس لیے امیر گھرانوں سے بھی رشتے آئے۔ ایک غریب گھر کے لڑکے نے مجھے ٹھکرادیا تھا تو کئی امیر گھرانے بہو بنانے کو تیار ہو گئے۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ میری زندگی بدلے گی۔ میں پھر کبھی بہار کے موسم کا منہ دیکھوں گی۔ اللہ تعالی بے نیاز ہے، وہ بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ اگر میرے دل پر شاہ میر کی تصویر نہ ہوتی تو شاید میں دنیا کی خوش نصیب ترین عورت ہوتی۔ میں نے اچھے رشتوں کو ٹھکرا دیا۔ دل ہی نہ مانتا تھا کہ اس کے سوا کسی اور کو جیون ساتھی بناؤں۔ میرے دل کی کیفیت کوئی ایسی لڑکی جان سکتی ہے، جس کو ایسا دکھ ملا ہو۔ ہم لڑکیاں کتنی مجبور و بے بس ہوتی ہیں۔ بے وفا شاہ میر اور چلتر راحیلہ کو تو اس کی منزل مل گئی، اور میں تڑپتی رہ گئی۔ کچھ دنوں تک والدین میری حالت دیکھی، پھر مجھے سمجھانا شروع کر دیا اور رفتہ رفتہ کبھی رو کر، کبھی پیار و منت سماجت سے مجھے اس بات پر آمادہ کر لیا کہ میں اپنا گھر بسالوں۔ یہ میرا تجربہ تھا کہ جب کوئی ہر جانب سے مایوس ہو جائے تو بہتر یہی ہے کہ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دے، کہ اس میں اس کی بھلائی ہوتی ہے۔ یہ انسان کا اپنے خالق پر بھرپور اعتماد ہوتا ہے، جس کو اللہ پاک پسند کرتا ہے اور اپنے بندے کی تقدیر بھی بدل دیتا ہے۔
امی اب مجھے اکثر یہی سمجھاتے تھے، آخر بات میری سمجھ میں آئی اور میں نے ان کا کہا مان کر اپنی کشتی کو تقدیر کے حوالے کر دیا۔ خود پر میرے اعتبار کو اللہ تعالی نے پسند فرمایا اور اس نے میرے لئے ایک بہترین ساتھی کو منتخب کیا۔ میں نے بھی اس کی رضا کے آگے سر جھکا دیا۔ فراز کا رشتہ آیا اور میں نے والدین کے کہنے پر اسے قبول کر لیا۔ میری شادی فراز سے ہو گئی۔ چند دن تو دل بے سکون رہا، رفتہ رفتہ دل کو سکون آ گیا۔ میرے دل میں اپنے خاوند کی محبت جڑ پکڑنے لگی اور ان کے دل میں بھی میری محبت پیدا ہو گئی۔ یوں ہمارا سنجوگ اور گھر کا ماحول محبت بھر رہنے لگا۔ کبھی فراز نے کاروبار میں دل لگا کر محنت کی اور آج وہ اپنے ملک کے ایک نامور صنعت کار ہیں۔ میں لاکھوں میں کھیلنے لگی، گھر میں کسی شے کی کمی نہ تھی۔ میرے بچے ملک کے بڑے اور اعلیٰ ترین اداروں میں پڑھ رہے تھے۔ دولت کے ساتھ ساتھ سکون بھی تھا۔ شاہ میر کی بے وفائی یاد آتی تو کبھی کبھی دل میں درد کی لہر ضرور دوڑ جاتی۔ کافی عرصہ تو مجھے خبر نہ ہوئی کہ وہ کس حال میں ہے۔ بعد میں سنا کہ دو سال انگلینڈ میں رہنے کے بعد جب وہ واپس آیا تو طے شدہ پروگرام کے تحت اس کی شادی راحیلہ سے ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد راحیلہ بھی انگلینڈ چلی گئی۔ نہیں معلوم کہ وہاں وہ دونوں کیسی زندگی گزار رہے تھے۔ میری شادی کو دس برس ہو چکے تھے۔ ایک دن میکے گئی تو پڑوسن، امی کے پاس بیٹھی کہہ رہی تھی کہ انگلینڈ میں راحیلہ اور شاہ میر صرف سال بھر ساتھ رہ سکے، پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ ان بن ہو گئی اور راحیلہ وطن واپس آ گئی۔ دو سال میکے میں رہ کر شاہ میر کا انتظار کیا۔ جب وہ آیا تو صلح کی بجائے طلاق ہو گئی۔ مجھے ان کی طلاق کا سن کر خوشی نہیں ہوئی، تاہم میں نے یہ ضرور سوچا تھا کہ جو لوگ دوسروں کی خوشیوں پر اپنے خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں، وہ کبھی سکھی نہیں رہتے۔ میری استدعا ہے کہ اگر کوئی آپ کا دل دکھائے تو آپ اس کو بددعائیں نہیں دیجئے، بلکہ اپنے سکون کی دعا مانگئے کہ یہی بات اللہ کو پسند ہے۔