تقسیم ہند سے پہلے ماموں ہندوستان میں رہتے تھے۔ وہ وہاں بڑی جاگیر کے مالک تھے، تبھی کبھی کوئی کام نہیں کیا تھا۔ بٹوارے کے بعد جب وہاں جاگیر داری کا نظام ختم ہونے لگا تو یہ پاکستان آ گئے کیونکہ میرے والد اور دیگر ماموں جس علاقے میں رہتے تھے، وہ پاکستان کا حصہ بن چکا تھا۔ چھوٹے ماموں نے ساری عمر تنکا بھی نہ اٹھایا تھا، تبھی وہ آرام پسند اور بہت سادہ دل بھی تھے۔ ان کی بیگم بھی وہاں کے ایک زمیندار کی بیٹی تھیں۔ ماموں پاکستان جانے لگے تو ممانی کے والد نے انہیں روک لیا، لہٰذا ماموں تنہا، تھوڑی بہت جمع پونجی لے کر آ گئے۔ یہاں کلیم میں انہیں ایک گھر اور دکان ملی، دکان گھر سے متصل تھی، اس میں انہوں نے ایک ڈپو کھول لیا۔ امی کی شادی ایک کھاتے پیتے خوشحال گھرانے میں ہوئی تھی۔ میرے والد درمیانے درجے کے زمیندار تھے۔ ہمارے گھر اللہ کا بڑا فضل تھا جبکہ ماموں کی گزر اوقات بس ٹھیک ہی تھی۔ کچھ عرصہ وہ میرے والد کے گھر رہے، جب کلیم میں مکان مل گیا تو والدہ نے میرے ابو کے رشتہ داروں میں ان کی شادی کرا دی۔ چونکہ وہ ابھی نوجوان تھے، لہٰذا اچھے گھرانے سے رشتہ مل گیا۔ شادی کے بعد ان کے ہاں تین بیٹیاں ہوئیں۔ اپنی بیٹیوں سے ماموں ممانی بہت پیار کرتے تھے اور ان کے اچھے نصیب کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ جب یہ تینوں لڑکیاں بڑی ہو گئیں تو ماموں کو ان کی شادی کی فکر ہوئی۔ وہ چاہتے تھے کہ بڑی بیٹی نور کا رشتہ میری امی اپنے بڑے بیٹے کے لئے لے لیں کیونکہ مسعود بھائی کو وہ بہت پسند کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار میری والدہ سے کر دیا۔ پتا نہیں میری ماں کسی قسم کی بہو لانا چاہ رہی تھیں، انہوں نے دولت کے زعم میں بھائی کو انکار کر دیا۔ نور یوں بھی مسعود بھائی سے چھ برس چھوٹی تھی۔ والدہ نے کہا کہ لڑکی چھوٹی ہے، میں اپنے بیٹے کی شادی اس کی ہم عمر لڑکی سے کروں گی، تاکہ وہ اپنے شوہر کو سنبھال سکے۔ ماموں سے انہوں نے کہا کہ تم فکر نہ کرو، میں بہت اچھے گھرانے میں تمہاری بیٹی کا رشتہ کراؤں گی۔ اس جواب سے ماموں کا دل ٹوٹ گیا، مگر وہ خاموش ہو گئے۔ خیر، دور پار کے رشتہ داروں میں انہوں نے نور کا رشتہ طے کر دیا۔ شادی کی تاریخ بھی رکھ دی گئی۔ اس کو مایوں بٹھا دیا گیا۔ اس دن وہ بہت پیاری لگ رہی تھی، کہ رات کو اچانک اس کی طبیعت خراب ہو گئی۔ صبح ہوتے ہوتے ایک سو چار بخار چڑھا۔ کسی نے کہا کہ ماتھے پر ٹھنڈے پانی سے پٹیاں کرو، بخار اتر جائے گا۔ ایسا ہی کیا گیا، دوائی دی گئی اور شام تک بخار کم ہو گیا۔ اگلے دن رخصتی تھی اور انہیں بیوٹی پارلر جانا تھا۔
گرمیوں کے دن تھے۔ دلہن کو نہانا تھا تاکہ وہ پارلر جا سکے، مگر بخار پھر سے ہلکا ہلکا چڑھ رہا تھا۔ ہماری نانی نے کہا کہ اسے نہ نہلاؤ، مگر سبھی نے کہا کہ اتنی زیادہ حرارت نہیں ہے، یہ تو گرمی کا بخار ہے، نہانے میں ہرج نہیں ہے۔ مگر نہاتے ہی نور کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا اور وہ بے سدھ ہو گئی۔ تب بیوٹیشن کو گھر ہی بلا لیا گیا۔ دلہن سج گئی، سہاگ جوڑا پہن لیا، زیور اور گہنے سبھی پہنا دیئے گئے، لیکن اس کا چہرہ اترا ہوا اور طبیعت گری گری تھی۔ اب انہیں اسٹیج پر بٹھانا تھا۔ نور نے کہا، جانے مجھے کیا ہو رہا ہے۔ میرا دل ڈوب رہا ہے، مجھ سے بیٹھا نہیں جا رہا۔ امی بولیں، بیٹی، اب ہمت سے کام لو۔ بس ذرا دیر کو دلہے کے ساتھ بیٹھ جانا۔وہ بیچاری اپنی ساری طاقت جمع کر کے وہاں پہنچی۔ دو سہیلیوں نے اسے پکڑا ہوا تھا۔ ابھی وہ اسٹیج تک پہنچنے نہ پائی تھی کہ جسم بے جان ہونے لگا، قدم اٹھانا بھاری ہو گیا۔ وہ پسینے پسینے ہو گئی۔ لمحہ بھر نہ گزرا تھا کہ ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اس نے دم دے دیا تھا۔ اس کے بے جان جسم کو پلنگ پر ڈال دیا گیا۔ میرے بھائی ڈاکٹر کو لینے دوڑا۔ اس نے آ کر تصدیق کر دی کہ نور اب دنیا میں نہیں رہی ہے۔ یہ عجیب سانحہ تھا، کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔ کسی کی نظر لگ گئی ہے یا تقدیر میں عین شادی کے دن موت لکھی جا چکی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے خوبصورت حور، ہاتھوں سے کسی نازک پرندے کی طرح، آسمانوں کی طرف اڑ گئی۔ ماں باپ کے لئے تو صدمہ جانگداز تھا ہی، تمام خاندان بھی سکتے میں تھا۔ شادی کا گھر، میت کا گھر بن گیا۔ خدا ایسا سانحہ کسی کو نہ دکھائے۔ خیر، جو ہونا تھا ہو گیا۔ اس صدمے سے ماموں مہینوں نڈھال رہے۔ ممانی اور بہنیں عرصہ تک مسکرانا بھول گئیں۔ اس واقعے کے بعد سالوں ماموں کے گھر سوگ جیسا ماحول رہا۔ جب بھی جاتے، سب کے چہرے خاموشی کی زبان میں باتیں کرتے۔ کچھ عرصہ ان کی منجھلی لڑکی عصمت کالج نہیں گئی، مگر امی کے سمجھانے سے وہ پھر سے جانے لگی۔ جب کوئی اس کی شادی کی یا اس کی شادی کی بات کرتا تو وہ رونے لگتی۔ اس کو اپنی بہن کی موت یاد آجاتی۔ وہ کہتی، میں شادی نہیں کروں گی۔ سبھی سمجھا سمجھا کر تھک گئے۔ اس نے ایم اے، ایم ایڈ کیا اور کالج میں لیکچرار ہو گئی۔ اب ماموں ممانی پریشان تھے کہ اس کی عمر کافی ہو گئی تھی، مگر اس نے ابھی تک شادی کے لئے ہاں نہیں کہی تھی۔ادھر امی نے ایک امیر گھرانے میں میرے بھائی مسعود کی شادی کر دی، جو صرف چھ ماہ چلی۔ لڑکی کو اپنے باپ کی امارت کا اتنا نخرہ تھا کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لارہی تھی، اور چھ ماہ بعد ہم لوگوں کو اپنے اسٹیٹس کے برابر نہ سمجھتے ہوئے ماں باپ کے گھر ٹھکانا کر لیا اور طلاق مانگ لی۔ میرا بھائی بھی اس کے نخوت بھرے رویے سے تنگ تھا کہ وہ ساس سسر کو تو خاطر میں لاتی نہ تھی، میرے بھائی کے ساتھ بھی اہانت آمیز رویہ رکھتی تھی۔ ایک روز ماموں آئے اور امی سے کہا کہ تم نے میری نور کا رشتہ نہ لیا تھا۔ وہ تو قبر میں جا سوئی، اب عصمت کا رشتہ مسعود کے لئے لے لو۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور مسعود ایک بیوی کو طلاق دے چکا ہے۔ میری آرزو ہے کہ ہم بہن بھائی آپس میں بچوں کے بندھن جوڑ لیں۔ ماں نے پھر وہی رویہ اختیار کیا کہ میں عصمت کو شادی کے لئے منا لوں گی اور اس کا رشتہ میں اچھی جگہ کروادوں گی، تم فکر مت کرو۔ مسعود ابھی شادی کے لئے تیار نہیں۔ ماموں بہن کے جواب پر دل مسوس کر رہ گئے۔ امی نے عصمت سے بات کی۔ میری ماں کے سمجھانے پر اس نے کہا کہ پھپھو، میں سوچ کر کچھ دن بعد جواب دوں گی۔ ان دنوں شہر میں وبائی بخار پھیلا ہوا تھا۔ ایک دن عصمت کالج سے پڑھا کر لوٹی اور آتے ہی پلنگ پر لیٹ گئی۔ اس کا بدن ٹوٹ رہا تھا۔ رات کو بخار ہو گیا۔ ماموں ڈاکٹر کے پاس لے گئے، مگر اسے آرام نہ آیا، بلکہ بخار اور تیز ہو گیا۔ دس روز اس کو اینٹی بائیوٹک دوائیں دی گئیں، مگر بخار اترنے کی بجائے بگڑ گیا۔ کھانسی تھی کہ رکنے کا نام نہ لیتی تھی۔ ایک دن کھانستے کھانستے، بخار کی حالت میں ہی، اسے خون کی الٹی آئی اور شام کو وہ اپنے خالق سے جا ملی۔ کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ عام سا بخار اس کی جان لے لے گا۔ایک بار پھر ماموں کے گھر صفت ماتم بچھ گئی۔ کسی نے کہا کہ کلیم میں جو گھر ملا ہے، اس میں بٹوارے کے وقت خون خرابہ ہوا تھا، یہ گھر بھاری ہے۔ مقتول مکینوں کی روحیں اب بھی یہاں پھرتی ہیں اور انتقام لیتی ہیں۔ آپ لوگ یہ گھر چھوڑ دیں۔ ماموں نے مولوی صاحب کو بلا کر مسئلہ بیان کیا۔ انہوں نے تسلی دی اور کہا کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک اللہ تعالی کا حکم نہ ہو، پتا بھی درخت سے نہیں گرتا۔ وہ ہم نہ کریں، آپ مسلمان ہیں۔ مکان میں کلام پاک کی با آواز بلند تلاوت ہر ہفتے میں ایک دن کروا دیا کریں۔ اموات کے اسباب مشکوک یا اوہام کی بنا پر طے نہیں کیے جا سکتے۔ مولوی صاحب پڑھے لکھے، سمجھدار انسان تھے۔ انہوں نے تلاوت قرآن، صدقہ و خیرات کے سواکسی اور بات کی تلقین نہیں کی۔ وقت گزرتا گیا۔ ماموں ممانی اب بڑھاپے کو پہنچ رہے تھے اور تیسری بیٹی عفت بن بیاہی بیٹھی تھی۔ اس کی عمر تقریباً پچیس برس ہو چکی تھی۔ ماموں چاہتے تھے کہ اس بچی کی شادی ہو جائے تو سکون سے مر سکوں۔ انہی دنوں دنیا بھر میں کرونا کی وبا پھیلی۔ پاکستان میں بھی اس وبا سے کافی اموات ہوئی تھیں، تبھی ممانی بھی اس مہلک بیماری سے انتقال کر گئیں۔ ماموں اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ عفت کو لے کر ہمارے گھر آ گئے اور اپنے گھر کو تالا لگا دیا۔ بولے کہ مجھے اس گھر سے ہی وحشت ہونے لگی ہے۔ اب وہاں نہیں رہا جا رہا۔امی نے کہا کہ گھر بیچ کر ہمارے گھر کے نزدیک گھر لے لو، تاکہ میں تمہاری دیکھ بھال کر سکوں۔ کچھ دن ماموں ہمارے گھر رہتے رہے مگر ان کو چین نہیں آتا تھا۔ کہتے تھے کہ اپنے گھر کے سوا انسان کو کہیں چین نہیں آسکتا۔ جیسا بھی ہے، میرا اپنا ٹھکانہ تو ہے۔ میں ادھر ہی رہوں گا۔ تب نانی بولیں کہ تمہیں وہاں جا کر رہنا ہے تو رہو، مگر عفت میرے ساتھ یہاں رہے گی۔ میں اس کو اکیلے گھر میں رہنے کو نہ بھیجوں گی۔عفت بھی ماں کی موت کے بعد سے بہت افسردہ رہتی تھی۔ اس نے نانی کے پاس رہنا قبول کر لیا، جو کبھی ہمارے اور کبھی بڑے ماموں کے پاس رہنے چلی جاتی تھیں۔
عفت کی خالہ کو اس سے بہت محبت تھی۔ یوں وہ اسے اپنے گھر لے گئیں اور اس کی دلجوئی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ اپنے بیٹے سے عفت کا رشتہ کر کے اسے بہو بنا لیں، تاکہ وہ ادھر ادھر رہنے سے بچ جائے۔ خالہ کی بڑی بہو بھی اس لڑکی سے پیار کرتی تھی۔ میری کزن وہاں جا کر خوش ہو گئی اور اپنا غم بھولنے لگی۔ کبھی کبھی امی اسے جا کر لے آئیں، مگر وہ دو چار دن رہ کر پھر خالہ کے گھر چلی جاتی، جیسے اسے وہاں سکون ملتا ہو۔خالہ نے ایک روز ہمیں شادی کا دعوت نامہ بھیجا۔ ان کی بڑی بہو کے بھائی کی شادی تھی۔ ہم شادی میں گئے تاکہ وہاں عفت سے بھی مل لیں گے۔ تقریب شروع ہوئی تو عفت اور اس کی خالہ بھی وہاں آگئیں، جہاں ہم بیٹھے تھے۔ میں اور عفت ذرا دور پڑی کرسیوں پر جا کر بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے۔ لوگ آ جا رہے تھے، تبھی میں نے دیکھا کہ عفت کو کوئی غور سے دیکھ رہا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے جو تم کو مسلسل دیکھے جا رہا ہے۔ وہ یہ سن کر پریشان ہو گئی اور بولی کہ یہ خالہ کی بہو رعنا بھابی کا چھوٹا بھائی فرحان ہے۔ تبھی وہ نروس ہو کر اٹھ کر اپنی خالہ کے پاس جا بیٹھی۔ ولیمے والے دن بھی ہم گئے، مگر مجھے وہ نوجوان نظر نہ آیا، البتہ میں نے دیکھا کہ عفت کی نگاہیں کسی کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہی ہیں۔ پوچھا، خیر تو ہے، تمہیں کس کی تلاش ہے؟ اسی کی، جس کو میں “اول” پکار رہی ہوں، اس نے جواب دیا۔ یہ سن کر میں پریشان ہو گئی کیونکہ مجھے اپنی ماموں زاد سے اس بات کی توقع ہر گز نہ تھی۔ ابھی ہم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اچانک وہ نظر آگیا۔ اس نے عمدہ سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا اور بہت اچھا لگ رہا تھا۔ عفت کی بے قراری قابل دید تھی اور میں بار بار اسے اپنی جانب متوجہ کر رہی تھی۔ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی دیوانگی کو کوئی دیکھ لے۔دنوں بعد جب وہ ہمارے گھر آئی تو میں نے فرحان کے بارے میں پوچھا۔ وہ بولی کہ وہ اکثر بھابی رعنا سے ملنے آتا ہے۔ ایک دن وہ خالہ کے گھر آیا، عفت برآمدے میں کھڑی تھی۔ اس نے اشارے سے اسے چھت پر بلایا۔ وہ اس کے پیچھے اوپر چلی گئی۔ فرحان نے چند منٹ بات کی اور کہا کہ عفت، میں تم سے شادی کروں گا۔ تم کسی اور کے لیے ہاں مت کرنا۔ وعدہ کرو۔ عفت نے وعدہ کر لیا۔ یہ بات عفت نے مجھے خود بتائی تھی۔اس کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس نے اپنی خالہ زاد بہن مصباح کو اپنا راز دان بنا لیا، جو اس سے چار سال بڑی تھی۔ اس نے عفت کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ فرحان بہت اچھا لڑکا ہے۔ میں بھابی سے کہہ کر تمہاری شادی اس کے ساتھ کروادوں گی، لیکن اس نے ماں کو یہ بات بتا دی اور کہا کہ آپ عفت کو روکیے ورنہ بھابھی نے اسے اور ہمیں بدنام کر دینا ہے۔ اب بھابھی کا بھائی یہاں نہ ہی آیا کرے تو اچھا ہے۔ خالہ نے عفت کو بہت ڈانٹا کہ آئندہ تم میری بہو کے بھائی سے بات مت کرنا۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ تم کو اپنی بہو بنا لوں اور تم یہ گل کھلا رہی ہو۔ احتیاط رکھو، میری بہو تم کو اپنی بھابی بنانے والی نہیں، مگر ہم لوگ بدنام ہو جائیں گے۔ عفت کو بہت افسوس ہوا کہ ناحق اپنے دل کی بات مصباح سے کہہ کر خالہ کی نظروں میں بھی گر گئی۔اس کے بعد بھی فرحان آتا رہا۔ وہ عفت سے بات کرنا چاہتا تھا مگر خالہ کے ڈر سے وہ کمرے میں چلی جاتی، جس پر وہ سمجھا کہ یہ لڑکی مجھ سے اب بے رخی برت رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ اس کے بعد اس نے بھی عفت سے منہ پھیر لیا۔ اب آتا بھی تو اپنی بہن کے پاس بیٹھ کر چلا جاتا۔ عفت کو دکھ ہوتا۔ وہ سمجھتی تھی کہ شاید فرحان اس سے ناراض ہے، تبھی وہ اور زیادہ اس سے بات کرنے کی خواہش کرنے لگی تاکہ ناراضی کا سبب پوچھ سکے اور اپنے دل کی بات بھی بتا سکے۔کئی بار ان کو تنہائی میں بات کرنے کا موقع بھی ملا، عفت نے پاس جا کر اس کو مخاطب بھی کیا، مگر فرحان نے بات نہ کی اور اٹھ کر چلا گیا۔ یونہی کئی ماہ گزر گئے، وہ بہت مجبور اور غمزدہ رہنے لگی۔ مصباح کی شادی ہو گئی اور خالہ جس بیٹے سے عفت کا رشتہ کرنا چاہتی تھیں، اس نے بھی اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کر لی۔ اب عفت کی باری تھی۔ خالہ نے اپنی چھوٹی بہن کو راضی کر لیا کہ تم عفت کا رشتہ اپنے بیٹے منان سے کر دو۔ وہ مان گئیں۔ یوں منان سے اس کی منگنی ہو گئی۔جب اس بات کا علم فرحان کو ہوا تو وہ بے چین ہو گیا اور اپنی بہن کے گھر دوڑا۔ رعنا بھابی سے کہا کہ میں نے آپ کے ذمے ایک کام لگایا تھا، مگر اب یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ بھابی نے کہا کہ تم نے دوبارہ بات ہی نہیں کی۔ میں یہی سمجھی کہ تم نے عفت کا خیال دل سے نکال دیا ہے۔ اب اس کی دوسری خالہ اسے بہو بنا رہی ہیں اور منگنی بھی ہو گئی ہے، اب تک تم کہاں تھے؟ اسی دن فرحان کو عفت سے بات کرنے کا موقع مل گیا کیونکہ خالہ گھر پر نہیں تھیں۔ وہ اسے بازو سے گھسیٹتا ہوا چھت پر لے آیا اور کہا کہ تم نے وعدہ مجھ سے کیا تھا اور شادی تم منان سے کرنے جارہی ہو۔ پہلے تم ہی ناراض تھیں اور مجھ سے منہ پھیر لیا تھا، مجھ سے کتراتی تھیں، تم نے مجھے خود مٹھڑایا ہے اور اب چلے ہو شکوہ کرنے۔ اب جاؤ، میرا پیچھا چھوڑ دو، ورنہ خالہ میرا حشر کر دیں گی۔ اگر ایسی ہی تم کو میری چاہ تھی تو اپنی بہن کے ذریعے رشتہ کیوں نہیں بھجوایا کہ وہ ابا سے بات کرتیں؟ اب تو میری منگنی ہو چکی ہے۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔ اس وقت مصباح آگئی۔ اس نے بات سن لی اور کہا، عفت، تم فرحان کو برامت کر کے کہو کہ یہ میری غلطی ہے۔ میں نے قسم دی تھی فرحان کو کہ تم اب میری خالہ زاد سے مت بات کرنا، ورنہ یہ بدنام ہو جائے گی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ تم اس کے ساتھ فلرٹ کر رہے ہو۔ یہ بچاری تو پہلے ہی بہت دکھی ہے۔ اسے اور دکھ ملے گا، لیکن آج میں تم لوگوں کو جدا کر کے پچھتا رہی ہوں، کیونکہ امی عفت کو بہو بنانے کا خواب دیکھ رہی تھیں۔فرحان بولا، مصباح باجی! میں نے تو آپ کی قسم کی لاج رکھی، مگر جب سنا کہ عفت کی شادی کسی اور سے ہونے والی ہے تو خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ مصباح بولی، میں چھوٹی خالہ سے کہہ کر عفت اور منان کی منگنی تڑوا دیتی ہوں۔ مصباح باجی، یہ آپ کیا بات کر رہی ہیں؟ اب یہ نہیں ہو سکتا، عفت انگلی میں منگنی کی انگوٹھی گھماتے ہوئے بولی۔ اب تو خالہ بات پکی کر چکی ہیں۔ تم منگنی کی انگوٹھی واپس کر دو، ورنہ میں جان دے دوں گی۔ اب جو بھی ہو، میں بڑی خالہ کو شرمندہ نہیں کر سکتی، فرحان، اب بہت دیر ہو چکی۔ یہ کہہ کر وہ تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی، کہ گھبراہٹ میں اس کا پیر پھسل گیا اور وہ سیڑھیوں سے لڑھکتی ہوئی ایسی گری کہ بے ہوش ہو گئی۔اسے اسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں کی کوششوں کے باوجود وہ ہوش نہ آئی۔ سر میں شدید چوٹ آئی تھی، یوں کومے کی حالت میں ہی وہ اللہ کو پیاری ہو گئی۔ فرحان صدمے سے دم بخود تھا۔ ہمیں اطلاع بھجوائی گئی۔ ہم لوگ عفت کی میت میں گئے، مگر ماموں کو کسی نے نہ بتایا کہ تمہاری تیسری تتلی بھی آسمان کی طرف پرواز کر گئی ہے۔ کسی کو بتانے کا حوصلہ تھا اور نہ ہی ماموں میں سننے کا یارا تھا۔ عفت کو اس کی بہنوں کے پاس دفنادیا گیا۔ یوں ماموں کے آنگن کی تینوں تتلیاں اپنی زندگی کی خوشیاں دیکھے بغیر اس دنیا سے چلی گئیں۔
ماموں روز ہی قبرستان جاتے، اپنی بچیوں کی قبروں سے لپٹتے، لیکن ان کو خبر نہ تھی کہ ان کی تیسری بیٹی عفت کی قبر کون سی ہے۔ وہ بعد میں نیم پاگل سے ہو گئے تھے۔ اب دکھ ان کے لیے دکھ نہ رہے تھے۔ کبھی ہنستے اور کبھی روتے تھے، مگر امی اب پچھتاتی تھیں کہ اے کاش وہ عفت کو ہی اپنی بہو بنا لیتیں۔ مسعود سے نہ سہی، چھوٹے بیٹے سے بیاہ دیتیں، جو عفت سے تین سال بڑا تھا، تو بھائی کی بچیوں کی قبر میں ایک اور قبر کا اضافہ نہ ہوتا۔ اب یہ عفت کا نصیب تھا کہ اسے زیادہ زندگی نہ ملی تھی۔ وہ کیسے اور جیتی رہتی؟