شاہدہ بہنوں میں منجھلی تھی۔ وہ بلا کی حسین تھی۔ تیکھے نینوں ، سنہری رنگت کی وجہ سے سبھی اسے نظر بھر کر دیکھتے تھے، تبھی والدین کو اسے جلد از جلد بیاہنے کی فکر پڑ گئی۔ وہ اپنے چچازاد سے بچپن سے منسوب تھی، لیکن اس کے حسن کے سامنے اس کا منگیتر بالکل بے جوڑ ، بے ڈھنگا اور بھدا تھا۔ دیہات میں تولڑکی کو بولنے کا حق ہی نہیں ہوتا، تبھی وہاں لڑکیاں ، ماں باپ کے فیصلے پر خاموشی سے سر جھکا لیتی ہیں یا پھر گھر سے بھاگ جاتی ہیں۔
شاہدہ نے پہلا راستہ چنا اور ماں باپ کے سامنے سر جھکا لیا، یوں ویدو کے ساتھ اس کی شادی ہو گئی۔ ویدونہ تو پڑھا لکھا تھا اور نہ ہی کماؤ۔ بیچارہ جو کماتا، آدھی کمائی ماں کو دے دیتا اور آدھی بیوی کے ہاتھ پر رکھ دیتا مگر زندگی کی گاڑی اس قلیل آمدنی کے بٹوارے پر سہولت کے ساتھ چلتی نہ تھی۔ شاہدہ جو پہلے ہی اس کے ساتھ شادی پر خوش نہ تھی، بھوک اور افلاس کا شکار ہوئی تو اسے اور بھی غصہ آیا۔ اس نے خود کو بہت کم نصیب تصور کیا کیونکہ اس سے بہت کم شکل لڑکیاں بھی خوشحال گھرانوں میں بیاہی گئی تھیں۔ اب وہ ہر کسی کے سامنے رورو کر اپناد کھ کہنے لگی۔ اس کی ایک سہیلی بڑی عمر کی تھی۔ وہ اچھی عورت نہ تھی۔ اس نے شاہدہ کو عیش و آرام کی زندگی کا پرو گرام بنا کر دیا اور اسے اس امر پر اکسانے لگی کہ اپنی کوششوں سے ہی وہ اپنی قسمت بدل سکتی ہے۔ وید و شادی کے دو سال بعد پولیس میں خانساماں بھرتی ہو کر چلا گیا۔ وہ ہر ماہ با قاعدگی سے تنخواہ گھر بھجوادیا کرتا تھا، لیکن اس کی بیوی کو اب اس کی کمائی کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اس نے اب اس مشورہ دینے والی عورت کے ساتھ مل کر خوشحالی کا ذریعہ تلاش کر لیا تھا۔ اس عورت کے ذریعے گھرانے پیتے گھرانوں کے اکثر نوجوان لڑکے شاہدہ کے گھر آنے لگے تھے اور وہ بھی دن بہ دن نکھر نے لگی تھی۔ اب اس کے لبوں پر کوئی شکوہ نہ رہا تھا۔ چہرے پر زردی کی جگہ لالی نے لے لی تھی۔ سسر تھا ہی نہیں ، ساس بھی مر چکی تھی۔ شاہدہ کا شوہر نہایت سادہ اور کچھ کم عقل بھی تھا۔ وہ چھٹی پر آتا تو بیوی اسے کھانا نہ دیتی وہ تب بھی برا نہ مناتا اور ہوٹل کی روٹی سے پیٹ بھر لیتا۔ وہ اس کے ساتھ سیدھے منہ بات تک نہ کرتی۔ وہ دبی زبان سے احتجاج کرنا چاہتا تو وہ ایسی خرافات سنائی کہ وہ دبک کر چپ ہو جاتا۔ رات ہوتی تو وید و ڈرتے ڈرتے اس کو اپنے شوہر ہونے کا احساس دلاتا، وہ پھر بھی اسے خاطر میں نہ لاتی۔
اس طرح وہ بیچارہ نامراد ہی واپس ڈیوٹی پر چلا جاتا۔ وقت گزرتا گیا۔ اس عرصے میں وہ چار بچوں کی ماں بن گئی۔ اس نے پرانا گھر بدل کر نئے محلے میں کچھ بہتر گھر لے لیا تھا۔ اس کی خوبصورتی میں ابھی تک کوئی فرق نہ آیا تھا۔ اس کے حسن کے چرچے اب بھی دور دور تک تھے ، اب بھی وہ رات کو بچے اپنی سہیلی کے حوالے کرکے، کہیں چلی جاتی اور صبح کو لوٹتی تھی۔ لوگوں نے جب دیکھا کہ شاہدہ کے کر توت خراب ہوتے جاتے ہیں تو انہوں نے اعتراضات اٹھانے شروع کر دیئے۔ وہ بھی ہو شیار تھی ، اس نے بیٹھک میں پرچون کی دکان کھول لی۔ اس طرح اپنے عیش کا جواز پیدا کر لیا اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے لگی۔ اس کی دکان میں سودا تو بہت کم ہوتا، مگر گاہک بہت۔ وہ سب سے کہتی ، کیا کروں ؟ شوہر کی آمدنی تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ چار بچے کیسے پالوں؟ بچوں کا پیٹ پالنے کو ہی پرچون کی دکان کھولی ہے۔ اس طرح وہ دوسری دکانوں سے کہیں زیادہ آمدنی حاصل کرتی تھی۔ ساتھ ساتھ اپنی زبان اور عمل سے بھی اس نے ویدو کو بد نام کرنے ہیں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ وہ اسے نکھٹو، ناکارہ اور بے غیرت کہتی۔ اس طرح نئے محلے والوں کے دلوں میں بھی اس نے شوہر کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کر دیئے جو سارے مہینے میں صرف دو چار دن ہی دکھائی دیتا تھا۔ وید و بے انتہا بزدل تھا، تبھی بے غیرت ہو گیا تھا۔ جب وہ ہی بیوی سے باز پرس نہ کرتا تو محلے والے شاہدہ کو کیا کہتے۔ ویدو کے چپ رہنے کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بیوی کے حسن سے مرعوب اور اپنی غربت سے مجبور تھا۔ وہ بیوی کو اس کی خوبصورتی اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ضروریات زندگی مہیا کرنے سے قاصر تھا۔ اس نے بھی شاید حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا کہ چلو جب شاہدہ خود ہی اپنا اور بچوں کا پیٹ پال رہی ہے ، تو مجھے مزید بھاگ دوڑ کرنے کی کیا ضرورت ہے ، مگر جب وہ بھی منت سماجت سے اس کو اپنے شوہر ہونے کا احساس دلانا چاہتا تو بھی بیوی کو اس پر ترس آجاتا اور کبھی وہ اپنے چھپے ہوئے پنچے نکال لیتی۔ انسان چاہے کتناہی منہ زور کیوں نہ ہو جائے، قدرت کی لاٹھی ایک نہ ایک دن اس کے سر پر ضرور پڑتی ہے۔ شاہدہ کے کر توت جب نا قابل برداشت ہو گئے ، تو اسے وقت نے سزا دینے کے لئے منتخب کر لیا۔ اس کا ایک رشتہ دار سمیع جب پہلی مرتبہ اس کے گھر آیا تو وہ بھی اس کے حسن کے جادو سے نہ بچ سکا۔ اس عرصے میں وہ خاندانی لحاظ سے اکیلی ہوگئی تھی۔ اس کے بھائی اردلی بھرتی ہو کر بھی کسی صاحب کے ساتھ اور کبھی کسی شہر ہوتے تھے، ماں باپ گزر چکے تھے۔ سسرال والوں کو اس نے کبھی گھاس نہ ڈالی تھی۔ شوہر دوسرے شہر پولیس میں ٹریننگ لینے والوں کے ہوسٹل میں ملازم تھا۔ اب ڈر کس بات کا تھا؟ تبھی اس نے میدان صاف پا کر بے خوف اور کھل کر بے راہ روی اور بے حیائی کی دکان سجالی۔ سمیع پہلی دفعہ آیا تو شاہدہ نے جانے اسے کیسی جھلک دکھائی کہ وہ بار بار آنے لگا، حالانکہ وہ شادی شدہ تھا پھر بھی اس عورت پر فریفتہ ہو گیا اور ہر ہفتے اس کے در پر حاضری دینے لگا۔ اس کے بچوں کے لئے باقاعدگی سے فروٹ ، مٹھائی، کپڑے اور کھلونے لاتا۔ شاہدہ نے اس سے مستقل ناتا جوڑ لیا۔ اب کسی کو وہ منہ نہ لگاتی تھی۔ سمیع بھی اس شرط پر اسے ہر ماہ کافی رقم دیتا تھا کہ وہ کسی اور سے ناتا واسطہ نہ رکھے گی ، لیکن جو اس کے پرانے ملنے والے تھے، انہیں یہ باتاچھی نہ لگی۔ انہوں نے ایک منصوبہ بنایا۔
ایک رات سمیع اور شاہدہ ایک ہی کمرے میں سوئے ہوئے تھے ، گاؤں کے چند معزز آدمی اور کچھ نوجوان اچانک اس کے گھر کے صحن میں داخل ہو گئے۔ سمیع تو کھٹڑ کی سے بھاگ کر جان بچانے میں کامیاب ہو گیا لیکن شاہدہ کو اپنی لغزشوں کی یہ سزا ملی کہ وہ سارے گاؤں میں بد نام ہو گئی۔ گلی گلی اس کی بد چلنی کے چرچے ہونے لگے۔ جب اس کے بیٹوں کو جو اب سمجھ دار ہو چکے تھے، محلے والوں کی زبانی ماں کے کرتوتوں کا علم ہو تو وہ بھی اپنی نانی کے پاس چلے گئے۔ خاوند ، جس نے شاہدہ کی حرکتوں کا کبھی پوچھا تک نہ تھا، اس نے بھی محلے والوں کی زبانی جب سر عام بیوی کے بارے غلط حالات سنے تو اسے طلاق دے دی اور شاہدہ کا محبوب سمیع، جس کی وجہ سے اس نے یہ کڑی گھڑیاں دیکھیں ، وہ تو ایسا گم ہوا جیسے اسے آسمان نگل گیا یاز مین کھا گئی۔ وہ تو محض عیش کوشی کے لئے آتا تھا۔ اس طرح ایک عورت کو عیش اور آرام کو غلط رستوں پر ڈھونڈنے کی سزاملی۔ آج بھی شاہدہ زندہ ہے ، اب بوڑھی ہو گئی ہے لیکن ایک وقت کی روٹی کو محتاج ہے ، مگر نہ سکی اولاد ا سے پوچھتی ہے اور نہ محلے والے منہ لگاتے ہیں۔ وہ گلیوں میں اکیلی بھٹکتی ہے۔ کوئی رحم دل ترس کھا کر روٹی دے تو کھا لیتی ہے۔ کئی کئی دن نہاتی نہیں۔ کسی خدا ترس عورت کو ترس آجاتا ہے تو پکڑ کر گھر لے جاتی ہے ، نہلا کر کپڑے بدلوادیتی ہے مگر کوئی اسے اپنے گھر رکھنے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ کبھی درخت تلے سوئی ہوتی ہے، کبھی کسی دکان کے ٹھرے کے نیچے۔ لگتا ہے جیسے یہ بیچاری اب زندگی کے دن ہی پورے کر رہی ہے۔ وہ اپنے سارے خاندان کے لئے عبرت کا نشان بنی ہوئی ہے۔ گاؤں بھر میں وہ کالی بھکارن کے نام سے مشہور ہے۔ وہ عورت جو کبھی حسن میں چاند کو شرماتی تھی۔ اس علاقے میں اگر کسی عورت کو بد چلن یا گناہ گار سمجھ لیا جاتا ہے تو لوگ اسے ”کالی “ کا لقب دے دیتے ہیں۔ لوگ اس کالی بھکارن سے نفرت کرتے ہیں۔ عورتیں اور لڑکیاں اس سے دور بھاگتی ہیں اور بچے اسے پاگل کہہ کر پتھر اٹھا
لیتے ہیں۔ کالی کالی کہہ کر اسے منہ چڑاتے ہیں۔ شاید ، یہی وہ سنگ باری ہے، جو قدرت کی طرف سے اس کے لئے مقرر کر دی گئی ہے۔