Qurbani Aik Ahsas

بابا آخر آپ کب لے کرآئیں گے ہمارا بکرا آب تو چند دن ہی رہ گئے عید میں سب کے جانور آ گئے بس ہمارے گھر ہی اب تک بکرا نہیں آیا ۔ سنی گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھا منہ پھلائے اظفر سے شکوہ کناں تھا۔ ماریہ نے اپنے سات سالہ بیٹے کی بات سن کر ایک جتاتی ہوئی نگاہ اظفر پر ڈالی مگر بولی کچھ نہیں۔ ماموں بھی آج اپنے بیل لے آئے علیمہ پھوپو کے گھر بھی بکرے آگئے مگر آپ کچھ لے کر ہی نہیں آ رہئے کیا پچھلی بار کی طرح اس بار بھی ہم قربانی نہیں کریں گے ؟ سنی کے لہجے میں اب اداسی کے رنگ بھی کھل گئے تھے۔ ماریہ نے افسوس بھری نگاہ سے اظفر کو دیکھا اور رخ موڑ کر کھڑکی سے نظر آتے نظارے دیکھنے لگی مگر باہر کے نظارے بھی دل جلانے کو بے تاب تھے۔ ہر سو جانوروں کی گہما گہمی تھی، نوجوان لڑکے پرجوش سے اپنے قربانی کے جانور ٹہلاتے پھر رہے تھے ہر جگہ سبزے اور چارے کے اسٹال لگے ہوئے تھے جہاں رنگ برنگی دیدہ زیب چادریں، جھانجھر ، گلے کے خوب صورت ہار بھی رسیوں اور کھونٹیوں سے لٹکے ہوئے تھے۔ سنی لمحے بھر کو اپنی ضد بھلائے اس نظارے کو تکنے لگا۔ اظفر نے کن اکھیوں سے بیوی اور جان سے عزیز بیٹے کو دیکھا۔ ان کا دھیان بٹنے پر شکر ادا کیا اور گاڑی تیزی سے آگے بڑھانے لگا۔ گھر پہنچ کر سنی اپنے کمرے میں سونے چلا گیا۔ آج صبح سے وہ اپنے ماموں کے گھر گیا ہوا تھا۔ وہاں دو انتہائی خوب صورت قد آور بیل آئے تھے۔ اس کے کزنز خوشی سے بے حال تھے۔ نہ صرف کزنز بلکہ گھر کے سب ہی لوگ ان دونوں بیلوں کو کھلانے پلانے سجانے میں مصروف تھے خوب رونق لگی ہوئی تھی۔ سنی بھی ان سب کے ساتھ بے حد خوش تھا بلکہ ماموں نے تو اس سے بیل کو چارہ بھی ڈلوایا تھا تب سے ہی اس کے دل میں اس بار اپنے گھر جانور لانے کی خواہش زور پکڑتی چلی گئی۔ راستے بھر وہ اظفر سے اپنے دل کی خواہش کا اظہار کرتا رہا مگر اظفر کے لبوں کا قفل نہ ٹوٹا باپ کے رویے پر وہ اداس ہو گیا تھا۔ کیا ہوا میری جان گھر آتے ہی بستر پر لیٹ گئے لگتا ہے میرا بیٹا آج بہت تھک گیا ہے۔ ماریہ اس کی اداسی بھانپ کر پیچھے پیچھے اس کے کمرے میں چلی آئی اور اس کے بالوں کو پیار سے سہلاتے ہوئے استفسار کیا۔ ماما … بابا ہماری کوئی بات نہیں مانتے سب کے بابا بچوں کی بات مانتے ہیں مگر میرے نہیں ۔ وہ ہنوز شکوہ کناں تھا- آپ ایسا کیوں سوچ رہے ہو بیٹا آپ کے کے بابا تو سب سے زیادہ آپ سے پیار کرتے ہیں آپ دیکھ لینا- آپ کے بابا آپ کے لیے ایک زبر دست سا سرپرائز لے کرآئیں گے۔ ماریہ نے اس کی اداسی دور کرتے ہوئے کہا۔ آپ سچ کہ رہی ہیں ماما، سنی یک دم خوش ہوا، بالکل سچ کبھی آپ کی مما نے بھی آپ سے جھوٹ کہا ہے کیا؟ ماریہ نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔ کبھی بھی نہیں۔ سنی پرجوش سا ماں کے گلے لگ گیا۔ ماریہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے بیٹے کا دل باپ سے برا ہو۔ تب ہی اظفر کے حوالے سے سنی کو دیر تک سمجھاتی رہی۔ اور جب وہ سو گیا تو ہ بھی اپنے کمرے میں آگئی۔ اظفر دنیا جہاں سے بے نیاز، اپنے موبائل میں ویڈیو دیکھنے میں مگن تھا۔ ماریہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک نظر اظفر کو دیکھا اور سنگھار میز کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ اپنے بالوں میں ہیئر برش پھیرتے ہوئے بھی اس کی نگاہیں مکمل اظفر پر مرکوز تھیں۔ وہ اظفر سے بات کرنے کی دل ہی دل میں ٹھان چکی تھی۔ اظفر سنی بے حد اپ سیٹ ہے وہ سب کے گھروں سے میں قربانی کے جانوروں کی آمد دیکھ کر توقع کر رہا ہے کہ آپ بھی اس کے لیے اس بار کر لائیں گے- ماریہ یار پلیز سنی بچہ ہے اورتم اس کی ماں ہواسے سمجھانا تمہارا فرض ہے اسے سمجھاؤ کہ ہمارے گھر جانور نہیں آسکتا، ہم قربانی کرتے ہیں مگر مارے جانور مسجد میں ہوتے ہیں اس کی تسلی کے لیے میں ایک دن جا کر وہاں موجود جانوروں کو بھی دکھا دوں گا بس اتنا کافی ہے اس کے لیے اس کی بے جاضد سے بچنے کے لیے اسے سمجھانا اب تمہارا فرض ہے۔ اظفر نے موبائل کی اسکرین پر چلتی ویڈیوز پر سے نظریں ہٹاتے ہوئے بے زاری سے کہا۔ مگر ہمارے گھر یہ جانور کیوں نہیں آسکتا ظفر ماریہ سنگھار میز کے سامنے سے ہٹ کر بستر پر بیٹھی۔ اس کے سوال پر اظفر نے اسے چونک کر دیکھا اور جھنجھلاتے ہوئے انداز میں بولا۔ ماریہ پلیز اب تم سنی جیسی باتیں نہ کرو تم تو جانتی ہو مجھے گندگی بالکل پسند نہیں اور ان جانوروں کو گھر میں لانے سے کس قدر بدبو اور گندگی پھیل جاتی ہے اچھا بھلا گھر جانوروں کے میلے کا نظارہ پیش کرنے لگتا ہے۔ اظفر پلیز اس طرح کی تکبرانہ باتیں کرنا اب بند بھی کردیں خدارا قربانی کی حقیقت اور اس کی اصل روح کو سمجھنے کی کوشش کریں یہ ایک انتہائی مقدس فریضہ ہے اسے بوجھ سمجھ کر اتارنے کا گناہ مت کریں۔ اس بار ماریہ بھی اظفر کی باتوں کو سن کر بری طرح جھنجلائی۔ تو اب ماریہ بیگم مجھے گناہ اور ثواب کا فرق بتائیں گی مجھے قربانی کی اصل روح کے حوالے سے درس دیں گئی واہ اظفر میاں اتنے برے دن لکھے تھے نصیب میں تمہارے اظفر ماریہ کی بات پر سخت برامان کر طنزیہ لب و لہجہ اختیار کر گیا۔ وہ ایسا ہی تھا بے حد ضدی اور من مانی کرنے والا۔ ویسے سچ کہوں اظفر آپ کو واقعی درس کی ضرورت ہے ورنہ قربانی کے جانوروں سے گھن کون کھاتا ہے یہ تو وہ خوش نصیب جانور ہیں جن کی خدمت کرنا ، ان سے محبت کرنا بھی ثواب ہے ان جانوروں کے لیے اللہ تعالٰی ہمارے دلوں میں خاص محبت پیدا کر دیتا ہے تا کہ انہیں اس کی راہ پر قربان کرتے ہوئے ہمیں احساس ہو کہ ہم نے اپنا قیمتی متاع اللہ کی راہ میں قربان کی مگر آپ کیسے جان سکتے ہیں، آپ نے تو کبھی کوشش بھی نہیں کی اس احساس تک رسائی حاصل کرنے کی۔ ماریہ پر اظفر کی باتیں بے حد گراں گزریں اور وہ ناگواری کا اظہار کیے بنا نہ رہ سکی۔ دیکھو ماریہ یہ بحث بند کرو تم جانتی ہو میں ہر سال قربانی کرتا ہوں میری طرح لاکھوں لوگ ہیں جو مساجد میں ہونے والی قربانی کے حصے دار بنتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں، نہ ہی یہ گناہ ہے، اس لیے تم اپنی تقریر بند کرو اور سنی کو بھی الٹی سیدھی پٹیاں سکھانے کے بجائے سمجھاؤ اظفر کی جھنجھلاہٹ اب غصے میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ماریہ نے مزید بات کرنا مناسب نہ سمجھا۔

اگلے دن سلیمہ باجی اپنے میاں محمود کے ساتھ ان کے گھر آئیں سنی پھوپو کی آمد پر بے حد خوش تھا کھانے کے لوازمات دستر خوان پر چنے جاچکے تھے بے حد خوشگوار ماحول میں کھانا تناول کیا جا رہا تھا تب ہی محمود، اظفر سے مخاطب ہوئے۔ اور میاں اظفر اس بار قربانی کا کیا ارادہ ہے اب بھی قربانی کا اہم فریضہ مسجد والوں کے سپرد کرنے کی نیت ہے یا خود ہی یہ فریضہ احسن طریقے سے انجام دو گے؟ محمود کی بات پر ماریہ نے کن اکھیوں سے اظفر کو دیکھا وہ بخوبی جانتی تھی کہ اظفر کو یہ بات ناگوار گزاری ہے مگر بہنوئی سے بحث کرنے کی ہمت نہ تھی۔ محمود بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں اظفر تمہاری تو ماشاء اللہ مالی حیثیت بھی مستحکم ہے ہر ایک کو اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کا حکم ہے اور تم مسجد میں ایک حصہ لے کر جان چھڑا لیتے ہو اب یہ روش چھوڑو سنی بھی ماشاء اللہ اب بڑا ہو رہا ہے اسے قربانی کی اہمیت، مقصد ابھی سے بتاؤ گے تب ہی تو وہ آگے جا کر یہ فریضہ خوش اسلوبی سے ادا کرے گا اگر تم اسے قربانی کے مقصد سے دور رکھو گے تو وہ نہ خود سیکھ پائے گا نہ آگے کسی کو سکھا پائے گا۔ سلیمہ آپا متانت سے اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگیں۔ اظفر بڑی بہن کی بے حد عزت کرتا تھا، سلیمہ آپا کی شخصیت بھی کافی پررعب تھی جس کی وجہ سے اظفر ان کی بات سے اختلاف کرنے کی جسارت نہ کر پاتا محض جی جی کرتا اثبات میں سر ہلا دیتا تھا لیکن اب وہ خاموش بیٹھا تھا۔ اور اظفر دیکھو بھئی تم مالی طور پر حیثیت بھی رکھتے ہو محض اپنے نام سے قربانی کیوں کرتے ہو بیوی بچوں کو بھی اس نیکی میں شامل کرو اتنی کنجوسی کس بات کی بھی۔ محمود نے ہلکے پھلکے انداز میں ہنستے ہوئے کہا مگر ان کے جملے اظفر کے دل پر تازیانے کی طرح لگے ماریہ خاموش سامع بنی رہی دل ہی دل میں وہ محمود بھائی اور سلیمہ آپا کی آمد سے خوش و مطمئن ہوئی تھی۔ ان کے جانے کے بعد بہت دیر تک اظفر خاموش سا بیٹھا رہا۔ تمام کاموں سے فراغت حاصل کر کے ماریہ جب کمرے میں داخل ہوئی تو اظفر کی خاموشی محسوس کر کے اس کے پاس بیٹھ گئی اور اسے سامنے پا کر اظفر ایک گہری سانس اپنے اندر اتارتے ہوئے کہنے لگا۔ لوگوں نے دوسروں کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا اپنا وطیرہ بنالیا ہے نہ جانے لوگوں میں یہ شعور کب بیدار ہوگا کہ ہر کسی کو اپنی مرضی سے جینے کا حق حاصل ہے میں تو کسی کے ذاتی معاملات میں نہیں پڑتا اب محمود بھائی کو دیکھ لو گھر کے باہر ٹنٹ لگوا کر اپنے بیل وہاں باندھ دیے۔ روشنیوں کا بھی خوب انتظام کر دیا جانور خوب صورت ہیں اور دیکھنے والوں کا تانتا بندھ گیا بس ٹکٹ لگانے کی کسر رہ گئی کیا یہ دکھاوا نہیں، کیا یہ ہے قربانی کا مقصد؟ میں احتراما کچھ نہیں کہتا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کوئی بھی آ کر مجھے کچھ بھی کہہ جائے۔ آپا اور محمود بھائی کی باتیں اسے سخت ناگوار گزریں تھیں جن کا اظہار وہ اب ماریہ کے سامنے کر رہا تھا۔ بالکل بھی نہیں یہ قربانی کا مقصد، دکھا وا، جانوروں اور پیسوں کی فروانی کی نمائش کرنا ہرگز قربانی کا مقصد نہیں ہے مگر جس طرح سے ہم قربانی کرتے ہیں وہ بھی کوئی احسن طریقہ نہیں اظفر ۔ ماریہ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے متانت سے سمجھانے لگی۔ یار کتنے لوگ اس طرح قربانی کرتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں۔ نہیں ناں پھر مجھ پر یہ تنقید کیوں ۔ اظفر چیخ پڑا- اظفر تحمل سے میری بات سنیں مساجد میں حصہ لے کر قربانی کرنا غلط نہیں مگر یہ طریقہ کار دراصل ان لوگوں کے لیے ہے جو مجبور ہیں، استطاعت نہیں رکھتے یا پھر قربانی کے معاملات نہیں دیکھ سکتے جیسے کسی گھر میں کوئی مرد نہیں یا اس قابل نہیں کہ جانور کی خریداری کر سکے یا قربانی کے معاملات دیکھ سکے تو ایسی صورت میں وہ مسجد میں مجبورا حصہ لیتے ہیں، اسی طرح جو مالی طور پر کمزور ہوں وہ بھی اجتماعی قربانی میں حصہ لیتے ہیں۔ ہم الحمدللہ ان مسائل کا شکار نہیں ہیں پھر ہمیں اللہ کی راہ میں اپنی حیثیت کے مطابق قربانی کرنی چاہیے ناں۔ آپ سمجھ رہے ہیں ناں میری بات اظفر ؟ سمجھ رہا ہوں یار مگر میں نے کبھی بھی یہ ذمہ داری نہیں نباہی نہ کبھی مویشی منڈی گیا، نہ ہی جانوروں کی دیکھ بھال کی مجھے عادت ہی نہیں ہے اس لیے میں ان چیزوں سے گھبراتا ہوں۔ بالآخر اظفر نے آج کھل کر اپنے دل کی بات کہی تو ماریہ اس کے اعتراف پر مسکرا دی۔ میں بہت پہلے سے جانتی ہوں یہ بات کہ آپ ذمہ داری اٹھانے سے گھبراتے ہیں مگر اس بار آپ نیت تو کیجیے پھر دیکھیے گا کہ سارے مراحل کتنی آسانی سے طے ہو جائیں گے اور اگلی بار ان شاء اللہ آپ ہمارے کہنے سے قبل قربانی کی تیاری کر رہے ہوں گے۔ ماریہ کی حوصلہ افزا بات سن کر اظفر بھی مسکرا دیا۔ چکوٹھیک ہے اس بار جیسا تم کہو گی ویسا ہی ہوگا بیگم صاحبہ کچھ کڑوے جملوں نے اظفر کو بالآخر ماریہ کی بات ماننے پر راضی کر ہی لیا تھا۔

آج صبح سے ہی گھر میں خوب رونق تھی ماریہ نے اپنی چھوٹے بھائی شمیم کو اظفر کے ساتھ مویشی منڈی جانے کے لیے بلایا تھا اور وہ دونوں شام ڈھلے منڈی کے لیے نکل گئے تھے رات ڈھلے دو اونچے قد کے خوب صورت ، صحت مند بیلوں کے ساتھ لوٹے سنی کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا اور اس کے پُر جوش انداز کو دیکھ کر اظفر کا دل بھی بے حد خوش ہوا تھا- دونوں کو گیراج میں باندھا گیا شمیم کے منڈی جانے سے قبل گیراج میں مٹی بچھا دی گئی تھی جانوروں کے کھانے کے لیے ٹب اور بالٹی بھی منگوالی تھی حتی کہ چارے اور بھوسیوں کا انتظام بھی کر دیا گیا تھا۔ شمیم کے جانے کے بعد ماریہ جانوروں کے کھانے کے لیے چارہ بنانے لگی سنی بھی مسرور سا اس کی مدد کرنے لگا تھا- تمہیں یہ سب آتا ہے ماریہ اظفر نہا کر واپس گیراج میں آیا تو ماریہ کو دونوں بیلوں کا چارہ بناتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ جی جناب مجھے یہ سارے کام آتے ہیں مجھے قربانی کے ان خوش نصیب جانوروں کی خدمت کرنے میں بے حد مزہ آتا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوئی تو اظفر وہاں رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ کافی دیر تک وہاں بیٹھا بیوی اور بیٹے کی ہرحرکت کو دیکھتا رہا۔ ماریہ جانوروں کو پانی پلا کر فارغ ہوتی ہی تھی کہ ان کا فضلہ صفائی کے لیے اس کا منتظر تھا۔ اظفر بے اختیار مسکرا دیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ماریہ اس مسئلے سے کیسے نبٹے گی اور پھر وہ حیران رہ گیا جب ماریہ نے بیلچے کی مدد سے سارے فضلے کو ایک جانب کیا اور پھر اس پر مٹی ڈال دی۔ نہ کوئی بو اٹھی نہ گندگی پھیلی اظفر غور کر رہا تھا کہ سنی ماں کے ہرعمل کو بغور دیکھ رہا تھا اور جب ماریہ فارغ ہو کر کچن میں اپنے کام میں مصروف ہوئی تب سنی اسی کے انداز د ہراتا بیلوں کو کھانا کھلا رہا تھا۔

اگلے دودن تک اظفر ، ماریہ اور سنی کو خدمت کرتے دیکھتا رہا اور تیسرے دن سے وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا سنی اس کی شمولیت سے بے حد خوش ہوا ماریہ کو بھی اطمینان ہوا وہ جو بات اظفر کو سمجھانا چاہتی تھی اب دھیرے دھیرے وہ اس کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔ دونوں جانور گھر کے پلے ہوئے تھے، جلد ہی ان سب سے مانوس ہو گئے تھے۔ اظفر کو بھی ان سے بے حد انسیت محسوس ہونے لگی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں قربانی کے جانوروں کے لیے محبت ڈال دیتا ہے۔ ماریہ کی کہی گی بات اسے سو فیصد حقیقت پر مبنی محسوس ہونے لگی۔ اگلے دو دن بے حد سبک روی سے گزرے آج آخری شب تھی صبح عید تھی ماریہ تمام کاموں سے فارغ ہو کرسنی کے کمرے میں پہنچی وہ سونے کے لیے بستر پر لیٹ گیا تھا مگر ماریہ کو دیکھ کر اٹھ بیٹھا۔ میری جان آپ کو علم ہے ناں صبح عید ہے اور ہم نے اپنے دونوں بیلوں کی اللہ کی راہ میں قربانی دینی ہے۔ وہ پیار سے اس کے بال سہلاتے ہوئے کہنے لگئی، سنی کی آنکھیں یک دم بھیگ گئیں۔ کل ہمارے بیل کٹ جائیں گے ماما. ایسا کیوں ہے اگر ہم نے انہیں کاٹنا ہی تھا توان کی اتنی خدمت کیوں کی ان سے اتنی محبت کیوں کی ؟ سنی نے روہانسا ہو کر کہا۔ وہ اس لیے بیٹا کیونکہ قربانی کی ہی اس چیز کی جاتی ہے جس سے ہمیں محبت ہوا اگر ہم نے اس کی خدمت نہ کی ہوئی تو ہمیں ان سے انسیت بھی نہ ہوتی پھر ان کے قربان ہونے پر ہمارے اندر کوئی احساس نہیں جاگتا یہ احساس یہ جذبہ ہی اللہ کے گھر مقبول ہوگا اللہ کے پاس نہ گوشت پہنچتا ہے نہ جانور کی قدر و قیمت وہ صرف ہماری نیتیں دیکھتا ہے اور قبول کرتا ہے ہماری قربانی کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہونا چاہیئے اب سمجھ میں آئی میری بات، قربانی کا مقصد سنی کو سمجھا کراستفسار کرنے لگی۔ جی مما میں سمجھ گیا۔ سنی نے فرماں برداری سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ماریہ سنی کے کمرے سے نکلی تو دروازے کے باہر اظفر کو کھڑے پایا۔ تو آپ چھپ چھپ کر ہم ماں بیٹے کی باتیں سن رہے تھے۔ ماریہ نے ہنستے ہوئے از راہ مذاق کہا تو اظفر مسکرا دیا- جو کچھ تم سنی کو سمجھا رہی تھیں، ان سب باتوں کا مفہوم میں بھی بہت اچھی طرح سمجھ چکا ہوں چلو اب سونے کی تیاری کرو، صبح عید کی نماز کے لیے جلدی اٹھنا ہے۔ جو حکم جناب کا ۔ ماریہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

عید کے دن قربانی سے فراغت کے بعد ماریہ نے گوشت کے ٹوکرے گاڑی میں رکھوا دیے اظفر حیرانی سے استفسار کرنے لگا۔ یار رشتہ داروں کے گھر کیا ٹوکرے بھر بھر کر گوشت بانٹنا ہے؟ ٹوکرے بھر کی بانٹنا تو ہے مگر کہاں یہ میں آپ کو بعد میں بتاؤں گی اب جلدی چلیں کافی جگہوں پر جانا ہے۔ ماریہ نے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ سنی سوئی جاگی سی کیفیت میں پچھلی نشست پر بیٹھا ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔ گوشت رشتہ داروں میں تقسیم کرنے کے بعد ماریہ نے اظفر کو یتم خانے کا رخ کرنے کا کہا وہاں گوشت تقسیم کرنے کے بعد ماریہ نے گاڑی کا رخ ایک کچی آبادی کی جانب کروا لیا۔ اظفر خاموشی سے ماریہ کا کہا مانتا رہا کچھ دیر بعد گاڑی ایک میدان کے سامنے جا رکی۔ جس کے چہار اطراف کچے پکے خستہ حال گھر بنے ہوئے تھے۔ ماریہ گاڑی سے اتری اور اظفر بھی خاموشی سے گاڑی سے اتر آیا۔ ماریہ ایک گھر کی جانب بڑھی ادھ کھلے دروازے پر دستک دی۔ کچھ ہی دیر میں ایک بوڑھی عورت دروازے سے باہر آئی۔ اظفر نے اسے کچھ فاصلے سے دیکھا مگر دیکھتے ہی اسے پہچان گیا۔ وہ ان کے گھر کی بہت پرانی ملازمہ تھی جو ضعیفی کی وجہ سے اب کام کرنا چھوڑ چکی تھی۔ ماریہ اس سے نجانے کیا بات کرتی رہی پھر اس کے گھر سے ایک نو عمر لڑکی ایک بڑا سا برتن تھامے ماریہ کے ہمراہ ان لوگوں کی جانب بڑھنے لگی۔ ظفر یہ صغری اماں کی نواسی ہے۔ ماریہ نے اسے بتایا۔ ساتھ ہی وہ ٹوکرے سے گوشت نکال نکال کر اس کے برتن میں بھرنے لگی۔ جاؤ بستی کے باقی لوگوں کو بھی خبر دے دو۔ اس نوعمر لڑکی کو ماریہ نے ہدایت دی اور کچھ ہی دیر میں بستی کے سارے لوگ ان کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ ماریہ اور اظفر ان سب لوگوں میں گوشت تقسیم کرتے رہے۔ سنی دلچسپی سے یہ مناظر دیکھ رہا تھا۔ قربانی کا اصلی مفہوم اور درست مقصد آج وہ بہت اچھی طرح جان چکا تھا۔ وہ لوگ شام ڈھلے گھر لوٹے تھے۔ تھکن سے بے حد نڈھال مگر خوشی سے سرشار تھے۔ ماریہ جب میں چھوٹا تھا تو گھر کے حالات تنگ دستی میں ڈوبے دیکھے تھے، ابا قربانی کی بھرپور استطاعت نہیں رکھتے تھے اس لیے سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے اجتماعی قربانی میں ایک حصہ لے لیتے تھے، ابا جب تک حیات رہے ۔ زندگی ایسے ہی گزری پھر وہ وقت بھی گزر گیا اور آپا اپنے سرال چلی گئیں، یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ سرال خوش حال ملا وہاں قربانی بھی بڑے پیمانے پر ہوتی تھی مگر میں ماریہ میں ابا کے دور میں مقید رہ گیا۔ رات جب آرام کی غرض سے ماریہ بستر پر دراز ہوئی تو اظفر نے اس سے اپنے دل کا حال بیان کیا۔ وہ بغورسنتی رہی۔ میں اس وقت میں قید ہو کر رہ گیا تھا جب کہ اللہ نے اب بہا نعمتوں سے نوازا ہوا ہے بے حد کرم کیا مگر میں نے کبھی قربانی کے جذبے کو جانا نہ ہی اس کے مقصد کو لہذا اسی ڈگر پر چلتا رہا جس کا انتخاب مجبورا ابا نے کیا تھا۔ اظفر نے افسردگی سے کہا۔ مگر تم نے میری آنکھیں کھول دیں، میں نے پہلی بار قربانی کے مفہوم کو پہچانا میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ آج میں کتنا شاد ہوں میرا دل کتنا آسودہ اور مطمئن ہے آج یہ سب خوشیاں مجھے تمہارے دم سے ملی ہیں ماریہ تمہاری مثبت اور خوب صورت سوچ نے مجھے اللہ سے قریب کر دیا بلکہ نہ صرف مجھے میرے بیٹے کو بھی تم نے قربانی کا بہترین درس دیا ہے۔ وہ ممنون سا ماریہ کا ہاتھ تھامے کہہ رہا تھا۔ ماریہ کے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکان پھیل گئی۔ اچھا یہ تو بتاؤ اماں صغری تک کیسے پہنچیں ؟ اظفر کو یک دم خیال آیا تو پوچھ بیٹھا۔ چند سال قبل جب صغری اماں ہمارے گھر کام کرتی تھیں تب ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ بیٹا کہنے کو تو بڑی عید میں غریبوں کا بہت حق محفوظ ہے مگر لوگ رشتہ داروں، پڑوسیوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور ان سے جو گوشت بچتا ہے وہ فریج میں جمع کر لیتے ہیں پہلے سال میں ایک بار گوشت کھانے کو مل جاتا تھا مگر اب ضعیفی اجازت نہیں دیتی کہ گھر گھر کام کروں اب تو یوں لگتا ہے کہ بقر عید کا گوشت بھی نصیب نہیں ہوگا اماں کی بات مجھے بے چین کر گئی تھی میں نے تب ہی عہد کر لیا تھا کہ جس دن ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کی تو ان غریبوں کو ان کا حق ضرور دوں گی اور آج آپ نے مجھے میرا عہد نبھانے کا موقع دے کر اللہ کے حضور سرخرو کر دیا۔ ماریہ اور اظفر مسرور تھے۔ انہیں یقین تھا کہ ان کی قربانی بارگاہ خداوندی میں ضرور قبول ہوگی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS