Sunday, November 10, 2024

Qurbani Par Maan Hae | Teen Auratien Teen Kahaniyan

ان دنوں ہمارے سب رشتے دار یہی کہتے تھے کومل جس گھر میں جائے گی اجالا کردے گی لیکن اب کہتے ہیں… افسوس… کتنا بدنصیب ہے وہ شخص جس نے ایسی سگھڑ اور سوہنی عورت کو طلاق دے کر اپنے بخت کو لات ماری ہے۔ اب ان لوگوں سے کون کہے کہ عورت لاکھ سگھڑ اور سیانی ہو، وہ اپنے شوہر کے دل سے اتر جائے تو تخت اور بخت دونوں سے گر جاتی ہے جبکہ مرد کیسا ہی ہو وہ بدبخت ہو ہی نہیں سکتا۔
شادی سے پہلے میرا روپ ایسا تھا کہ گھر کی چار دیواری میں بھی سورج کی کرنوں سے رنگ میلا ہوتا تھا۔ صد شکر کہ مجھ پر کبھی کسی غیر کی میلی نظر نہ پڑی تھی۔ جن دنوں میٹرک میں تھی۔ ہم شہر میں رہا کرتے تھے، برقع نہیں اوڑھتی تھی، سفید گائون نما کوٹ پہن کر اسکول جاتی تھی۔ ہمارے گھر کا ماحول تنگ نہیں تھا۔ سہیلیاں گھر آتیں اور میں بھی کبھی کبھار ان کے گھر چلی جاتی۔ زیادہ آزادی نہ تھی لیکن سخت پابندی اور روک ٹوک بھی نہ تھی، البتہ لڑکیاں اکیلے بازار نہیں جا سکتی تھیں۔
والد پرائمری اسکول ٹیچر تھے اور والدہ اپنے گھر میں محلے کی بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتی تھیں۔ چونکہ ہمارا شہر بڑا نہ تھا، یہاں گرلز کالج بھی نہ تھا، لہٰذا میٹرک کے بعد گھر بیٹھ گئی۔
پہلی بار زندگی میں گھٹن محسوس ہوئی۔ چاہتی تھی آگے پڑھ نہیں سکتی تو ٹیچر کی جاب ہی کرلوں، لیکن اس معمولی ملازمت کے لئے بھی کسی بڑی سفارش کی ضرورت تھی۔
والد صاحب سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے ملک صاحب سے بات کی۔ وہ ہمارے علاقے کے بڑے زمیندار تھے اور ان کی حیثیت ایک سردار جیسی تھی، بلاشبہ ان کا عمل دخل سیاست میں تھا اور یہاں کسی ملازمت کے لئے ان کے چرن چھونے پڑتے تھے۔
والد صاحب نے کچھ عرصہ ان کے چھوٹے بھائی کو ٹیوشن پڑھائی تھی، اسی وجہ سے ملک صاحب ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ ابا کو پورا یقین تھا کہ وہ محکمۂ تعلیم کو ’’اپروچ‘‘ کریں گے تو مجھے ملازمت مل جائے گی۔
مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار میں والد صاحب کے ساتھ درخواست دینے ملک صاحب کے گھر گئی تو میں نے چادر سے چہرے کو لپیٹا ہوا تھا صرف بڑی بڑی روشن آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور میں ان کے بڑے سے محل نما گھر کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ ان کا گھر قلعہ نما تھا… جس کی بلند و بالا فصیل تھی۔ اس فصیل میں کہیں کوئی جھری نہ تھی کہ کوئی باہر کی دنیا میں جھانک سکے۔ زنانہ حصے کے اندر باندیوں کی ایک فوج تھی جو روبوٹ کی طرح اِدھر اُدھر چل رہی تھی، لیکن ان کے گھر کی کوئی عورت مجھ کو نظر نہ آئی۔
ایک عمررسیدہ باندی نے دیوان میں لا بٹھایا۔ تھوڑی دیر بعد ملک صاحب اندر آئے۔ ان کی حسین صورت پر رعب و دبدبے کی تمکنت دیکھ کر ششدر رہ گئی۔ وہ کوئی بوڑھے یا عمررسیدہ شخص نہ تھے، صحت مند اور جواں سال آدمی تھے، جن کے چہرے سے خون کی سرخی گلاب کی مانند چھلک رہی تھی۔
وہ بہت خوش لباس اور مہذب تھے۔ ہال کمرے میں ان کے داخل ہوتے ہی نہایت لطیف خوشبو کا جھونکا سا اندر آیا اور سارا ہال مہک اٹھا۔ یہ ایک ایسا رومانوی ماحول تھا کہ جس نے مجھے پہلی سانس میں ہی مسحور کردیا تھا۔
میں نے چادر کو چہرے سے نہیں سرکایا۔ میں حیرت بھری آنکھوں سے اس شہزادے نما آدمی کو دیکھتی رہی… جن کو یہاں سب لوگ ملک صاحب کہتے تھے۔ انہوں نے صرف ایک بار گہری نگاہ مجھ پر ڈالی اور والد صاحب سے میری نوکری کی درخواست لے لی، پھر قطعیت کے ساتھ کہا۔ ماسٹر صاحب بے فکر رہیں آپ کی بچی کو ملازمت مل جائے گی۔ وہ دو منٹ بمشکل بیٹھے اور پھر چلے گئے لیکن اتنے تھوڑے وقت کے باوجود ان کا ملازم چائے کی ٹرے لے کر آگیا تھا۔ اس نے یہ پرتکلف ٹرے ہمارے آگے رکھ دی، جس میں چائے کے علاوہ کیک بسکٹ اور کئی طرح کی ہلکی پھلکی کھانے کی چیزیں تھیں۔
ہم نے صرف چائے پی، پھر ابو نے ملازم سے کہا کہ ہم جانا چاہتے ہیں۔ اس نے ہم کو گیٹ تک پہنچایا۔ پھر ڈرائیور سے کہا کہ ان مہمانوں کو گھر تک پہنچا کر آئو… جاتے ہوئے غالباً ملک صاحب ہمارے لئے گاڑی مختص کر گئے تھے، شاید یہ بھی ان کی مہمان نوازی کا ایک حصہ تھا۔
اس دن میں ملک صاحب سے اتنی متاثر ہوئی کہ بیان نہیں کرسکتی۔ سب سے بڑی خوشی اس بات کی تھی کہ انہوں نے میری ملازمت کا عندیہ دے دیا تھا۔
دو ہفتے گزرے
کہ والد صاحب نے بتایا۔ ملک صاحب نے بلوایا تھا۔ تمہاری نوکری کے آرڈر ہوگئے ہیں۔ ان کے گھر کے پاس جو گرلز اسکول ہے ملک صاحب نے اپنی زمین سرکار کو عطیہ دے کر بنوایا ہے، اس میں لیڈی ٹیچر کی جگہ خالی تھی وہاں تمہاری تعیناتی انہوں نے کروا دی ہے۔
اتنی جلد مراد بر آنے کی خوشخبری سن کر میں پھولی نہ سما رہی تھی۔ ملک صاحب کی جادوبھری شخصیت کے جوہر اب کھلے تھے، علاقے کے لوگ یونہی ان کے گن نہیں گاتے تھے۔ بہرحال قسمت کھلتے ہی میں اسکول میں پڑھانے لگی۔
ہمارے شہر سے یہ اسکول تیس کلومیٹر دور تھا۔ ایک مخصوص ویگن استانیوں کو شہر سے لاتی اور چھٹی کے وقت واپس لے جاتی تھی۔ یہ سواری ہر ٹیچر کو اس کے گھر سے پک کرتی تھی۔ میں بھی اسی میں آنے جانے لگی۔ اسکول کی ویگن ملک صاحب کی ملکیت تھی۔
والد صاحب ایک چھوٹے سے شہر کے شریف استاد سفید پوش شخص تھے، جن کی سبھی عزت کرتے تھے۔ میں گائوں کے اسکول پڑھانے جانے لگی تو کسی نے اعتراض نہ کیا۔
ایک روز چھٹی کے بعد جب میں اور دیگر ٹیچر ویگن میں سوار ہونے لگیں تو میرے چہرے سے پردہ سرک گیا۔ اتفاق کہ اسی وقت ملک صاحب اپنی زمینوں کی پڑتال کے بعد گھر واپس آ رہے تھے۔ انہوں نے میرے چہرے کی ایک جھلک دیکھ لی۔ اگلے روز وہ ہمارے غریب خانے تشریف لے آئے اور والد صاحب سے میرے رشتے کے لئے درخواست کی۔
ابا بڑے حیران ہوئے۔ وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ علاقے کی بااثر ہستی ایک روز سوالی بن کر ان کے در پر آ جائے گی۔ انہوں نے والدہ سے مشورہ کیا اور پھر میری قسمت کھل جانے کے یقین سے ہاں کہہ دی۔
جب ملک صاحب کی دلہن بنی تو سہیلیاں میری قسمت پر رشک کرنے لگیں، وہ کہہ رہی تھیں کہ اب کومل ہماری مالکن ہوگی۔
مجھے ملک صاحب سر سے پائوں تک سونے میں پیلا کر کے لے گئے تھے۔ ان کی حویلی میں بیش قیمت فرنیچر کے ساتھ نوکروں کی ایک پوری فوج اور کئی قیمتی گاڑیاں احاطے میں موجود رہتی تھیں۔
جب میں شہر سے گائوں گئی تو ملک صاحب کی دلہن دیکھنے ساری بستی کی عورتیں جمع ہوگئیں۔ وہ حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھیں اور میرے حسن کی تعریف کر رہی تھیں۔ ملک صاحب کی عمر رسیدہ بہن جو غیر شادی شدہ تھیں، ان سب کی مہمان نوازی خوشدلی سے کر رہی تھیں۔
شہر اور گائوں کی زندگی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ یہاں عورت کا اپنی مرضی سے گھر کے باہر قدم رکھنا ناممکن تھا۔ کسی سے ملنا جلنا یا کہیں آنا جانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ بستی کی عورتیں ہمارے گھر آ سکتی تھیں لیکن ہم ان کے گھروں میں نہیں جا سکتے تھے۔ عورت گھر سے باہر نہیں جھانک سکتی تھی۔ جھانکنا تو کجا سردار کے گھر کی عورتوں کی آواز بھی کوئی نہیں سن سکتا تھا، ہر بات پر پابندی تھی۔
اس گھٹن زدہ ماحول میں بہت جلد میرا جی گھبرانے لگا۔ تبھی ملک صاحب نے میری دلجوئی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ باندیاں نوکرانیاں ہر دم میرے حکم کی منتظر رہتیں۔ رفتہ رفتہ شوہر کی محبت میرے دل میں گھر بنانے لگی اور میں نے ان کی حویلی کو ایک خوبصورت جنت بنا لیا۔ اب اس جنت میں میری حکمرانی تھی۔ میں ان کی ملکہ تھی اور وہ میرے بادشاہ تھے۔ ان کی والہانہ محبت نے میرے سوئے ہوئے معصوم جذبوں کو محبت کی چاشنی سے آشنا کیا تھا۔ اب میں پوری طرح ان کی گرویدہ ہوچکی تھی، میں ان کے بنا اور وہ میرے بغیر جینے کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔
ملک صاحب نے مجھے ساری خوبصورت جگہوں کی سیر کرائی۔ مری اور شمالی علاقہ جات بھی لے گئے۔ میری ہر خوشی کا خیال رکھتے لیکن پابندی کی زنجیریں گائوں کی حدود میں بے حد سخت تھیں، یہاں تک کہ گھر پر شہر سے کوئی سہیلی بھی مجھ سے ملنے نہیں آ سکتی تھی۔
اجنبیوں کی طرح میکے والے ڈرتے ڈرتے تھوڑی دیر کے لئے آتے اور جب میں کہتی کہ امی ابو سے ملنا ہے تو چھ ماہ بعد ملک صاحب گاڑی پر پردے لگوا کر خود کار ڈرائیو کر کے لے جاتے۔ ہم امی کے گھر دو تین گھنٹوں سے زیادہ نہ بیٹھتے اور واپس آ جاتے۔
چھوٹی بہن کی شادی پر بھی مجھے والدین کے گھر ایک دن رہنے کی اجازت نہ ملی۔ لگتا تھا کہ جیسے میں کوئی قیدی ہوں جس کے فرار ہو جانے کا ان کو ڈر ہے۔ اب میں زندگی اور زندہ لوگوں سے ہی کٹ کر رہ گئی تھی لیکن… یہ پابندیاں اس وجہ سے قبول کی تھیں کہ ملک صاحب مجھ کو اپنی محبت کا یقین دلاتے رہتے تھے اور میں بھی ان سے محبت کرنے لگی تھی۔ اگر یہ احساس ہم


دونوں کے درمیان نہ ہوتا تو شاید میں دو دن بھی اس قیدخانے میں بسر نہ کرسکتی۔
شادی کے دو سال بعد اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے اور پھر ایک بیٹی سے نوازا تو میں ان کی پرورش میں گم ہوگئی۔
دوسری بیٹی کی پیدائش کے بعد ملک صاحب کچھ بیگانہ سے ہوگئے اور اپنا زیادہ وقت باہر گزارنے لگے۔ میں نے محسوس کیا مگر چپ رہی کہ بچے چھوٹے تھے اور میں ان میں الجھی ہوئی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ عالم ہوا کہ مجھ کو ایک شریک زندگی کا احساس عنقا ہوگیا اور مالک اور باندی کا سا رشتہ ہم دونوں کے درمیان باقی رہ گیا۔
اب وہ اس قدر مجھ سے لاتعلق ہوگئے کہ میں کسی بات میں بول نہ سکتی تھی، وہ مطلق العنان اور خودمختار جبکہ میں مجبور و مقہور تھی، جب کسی طرح ان کی ذات کی یہ گتھی مجھ سے نہ سلجھ سکی تو ایک پرانے نوکر سے منت سماجت کی، تب اس نے میرے بچوں پر ترس کھا کر بتا دیا کہ ملک صاحب شہر کی ایک نوعمر لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ اس کو لے کر بڑے شہروں میں جاتے اور شاپنگ کراتے ہیں۔
کوئی بات دل کو لگ جائے تو پھر چین کب آتا ہے۔ ایک روز ملک صاحب سے پوچھ لیا۔
سنا ہے آپ دوسری شادی کر رہے ہیں۔ دلیری سے جواب دیا۔ تم اپنی جگہ ہو… سلیقے سے بچے سنبھالتی رہو۔ میرے معاملات میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ مرد گھر سے باہر ہزار کھیل کھیلتے ہیں، عورت کی کیا مجال جو مرد کی باہر کی زندگی میں دخل دے۔ تمہیں میری بیوی بن کر رہنا ہے تو آج کے بعد اس بات کو زبان پر مت لانا۔ یہ کہہ کر جب وہ گئے تو چار دن تک گھر نہ لوٹے۔
اب ستم یہ کہ وہ دوسری شادی کا سامان کر رہے تھے اور میں کچھ کہہ بھی نہ سکتی تھی، چپکے چپکے رونے سے کام تھا۔ کب تک گھٹ گھٹ کر نیر بہاتی۔ ایک روز ہمت کر کے کہہ ہی دیا ملک صاحب اگر میں آپ کے دل سے اتر گئی ہوں تو مجھے میرے والد صاحب کے گھر پہنچا دیں، پھر بے شک آپ دوسری شادی کرلیں، شکوہ نہ ہوگا۔ انہوں نے تحمل سے میری بات سن لی مگر کوئی جواب نہ دیا۔ پھر چند دن بعد بولے۔ کومل تم آج کل بہت رنجور رہتی ہو۔ چلو تم کو گھما پھرا لاتا ہوں، گاڑی پر شہر کا چکر لگا آتے ہیں۔
کافی دن بعد گھر سے باہر لے جانے کا کہا تو میں خوش ہوگئی۔ سوچا اس گھٹن سے تھوڑی دیر کے لئے تو نجات ملے گی۔ میں نے جلدی جلدی بچوں کو نہلا دھلا کر تیار کیا، پھر خود بھی تیار ہوگئی تو وہ ہم کو شہر لے آئے۔
جب میرے والدین کا گھر قریب آیا تو کہنے لگے۔ کیا امی ابا سے ملو گی۔ بہت دن سے میکے نہیں آئی ہو؟ گاڑی ان کے دروازے پر روک کر بولے۔ کومل تم جا کر اپنے گھر والوں سے مل لو تب تک میں بچوں کو پارک کی سیر کرا کر لاتا ہوں۔
میں ان کی چال کو بالکل نہیں سمجھی۔ امی سے ملنے کی خوشی میں جلدی سے کار سے اتر کر گھر کے اندر چلی گئی۔ صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہوگئی، ملک صاحب مجھے واپس لینے نہیں آئے۔
میرا بیٹا صرف چھ سال کا تھا اور دونوں بیٹیاں اس سے چھوٹی تھیں، میں بچوں کی یاد میں تڑپنے لگی۔ رو رو کر برا حال ہوگیا۔
جوں جوں وقت گزرتا جاتا تھا حالت غیر ہوتی جاتی تھی، امی ابو دلاسا دیتے کہ بچے چھوٹے ہیں وہ کہاں جائے گا۔ آخر کسی دن خود آ کر لے جائے گا، صبر کرو۔
صبر کیسے کرتی کوئی ماں بچوں سے دور ہونے پر کہاں تک صبر کرسکتی ہے، بالآخر ابا گائوں گئے معلوم ہوا کہ ملک صاحب کی دوسری شادی دو روز بعد ہے۔
سمجھ گئے کومل کو گھر سے دیس نکالا ملا ہے تاکہ اس کے رونے دھونے سے ان کے رنگ میں بھنگ نہ پڑے۔
والد صاحب نے مجھے اندھیرے میں رکھنا مناسب خیال نہ کیا اور بتا دیا کہ ملک دوسری شادی رچا رہا ہے۔ تمہارے بچے اس کی بہن کے پاس ہیں۔ نئی شادی کی رنگ رلیاں منا لے گا پھر آ کر تمہاری خبر لے گا۔ خاموش رہو گی تو ساتھ لے جائے گا۔ احتجاج کیا تو پھر اس کی مرضی جو فیصلہ کرے۔
میں نے دل میں ٹھان لی کہ خاموش نہ رہوں گی، احتجاج ضرور کروں گی کیونکہ اس گھٹن زدہ پابند زندگی کو اسی کی محبت کی خاطر قبول کیا تھا، جب محبت کا وہ رشتہ ہی باقی نہ رہا تو پھر وہاں رہنا یا زندہ قبر میں دفن ہو جانا، ایک سا تھا۔
دو ماہ سخت اذیت میں گزرے ایک روز ملک صاحب تشریف لے ہی آئے لیکن بچے ساتھ نہ تھے۔
بچے کیوں نہیں لائے؟ میں نے بے تابی سے سوال کیا۔
تم چل تو رہی ہو بچوں کے پاس… تم کو لینے آیا ہوں۔ میرے دوسرے گھر میں آپا کے ساتھ رہنا ہوگا۔
کیوں کیا آپ کی حویلی میں ہماری سوتن
سامان سج گیا ہے؟ ہاں… سمجھ لو ایسا ہی ہے۔
یہ کھلی توہین تھی، ایک باوفا، تابعدار بیوی اور اس کے تین بچوں کی ماں کی۔ میں نے صاف کہہ دیا جو میرا گھر ہے میں اسی میں رہوں گی، جہاں پہلے رہتی تھی اور بچے بھی میرے ساتھ رہیں گے ورنہ…؟
ورنہ کیا… ملک صاحب نے سکون سے سوال کیا۔
ورنہ میں آپ کے ساتھ نہ جائوں گی، بس میرے بچے یہاں پہنچا دیجئے۔
ایک بار اور سوچ لو۔ یہ ایک بہت بڑا فیصلہ ہے، ایسا نہ ہو کہ اپنی ضد کی وجہ سے ہم سب سے دور ہو جائو۔ دور تو ہو چکی ہوں اب کتنی دوری اور باقی رہ گئی ہے۔
ٹھیک ہے۔ انہوں نے کوئی منت نہ کی۔ سمجھانے کو ایک لفظ بھی نہ کہا۔ وہ چلے گئے اور دوبارہ نہیں آئے، پھر میں بچوں کے لئے تڑپنے لگی، دن رات بن جل مچھلی کی طرح تڑپتی تھی مگر ادھر سے موت کے سناٹے جیسی خاموشی تھی۔
جب کسی صورت چین نہ ملا تو والد صاحب نے میرے ماموں سے مشورہ کیا جو شہر میں رہتے تھے اور وکیل تھے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے لئے کورٹ میں اپیل کرتے ہیں تاکہ وہ بچوں کو ماں سے دور نہ رکھے اتنے چھوٹے بچے قانوناً ماں سے دور نہیں رکھے جاسکتے۔
ابا ماموں کے کہنے میں آگئے اور کورٹ سے بچوں کی خاطر رجوع کر لیا۔
پہلے سمن ہی ملک صاحب کو ملے تھے کہ انہوں نے طلاق بھجوا دی۔ یوں جلدبازی کی وجہ سے آس کے سارے بندھن قطع ہوگئے۔ اب میں ہاتھ ملتی تھی کہ کاش یہ قدم نہ اٹھاتی تو ملک صاحب کسی دن ضرور مجھے لے جاتے۔ جب نئی شادی کا سرور سر سے اترتا تو میری اہمیت کا احساس جاگ اٹھتا، پھر میری اہمیت تو مسلم تھی کہ میں ان کے تین بچوں کی ماں تھی۔
جلدبازی میں مگر میں نے اپنا بھرم گنوا دیا۔ جانتی نہ تھی کہ یہاں قانون صرف کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ عام زندگی میں عورت کب آسانی سے اپنے حق کی جنگ جیت سکتی ہے۔
جب مجھے بچوں کی جدائی میں رو رو کر دورے پڑنے لگے تو ماموں نے عدالت میں باقاعدہ ملک صاحب پر بچوں کے حصول کی خاطر میری طرف سے کیس دائر کردیا۔ مقدمہ چل رہا تھا کہ ایک روز رضائے الہٰی سے والد صاحب کو دل کا دورہ پڑا اور وہ دنیا سے چل بسے۔
اب ہماری کفالت کرنے والا بھی کوئی نہ رہا اور کیس ہارنے کی یہی ایک بڑی بنیاد بنی۔ میرا بیٹا سالار جو سات برس کا ہوگیا تھا اور میری امیدوں کا مرکز تھا اس کی بھولی بھالی صورت میرے لئے خوشیوں کا باعث تھی، کیسے اسے بھلاتی۔
وہ روز… روز قیامت تھا جب عدالت نے فیصلہ دیا کہ ملک صاحب ہی اپنے بیٹے سالار کو رکھنے کے حقدار ہیں۔ فیصلے میں یہ توجیہ بیان کی گئی کہ سالار کی ماں کی کفالت کرنے والا اس کا باپ وفات پا چکا ہے اور اس گھرانے میں دوسرا کوئی فرد کمانے والا نہیں ہے۔ سالار کی ماں مطلقہ ہے اور وہ ملازمت نہیں کرتی جبکہ بچوں کا باپ ایک خوشحال زمیندار اور معاشرے کا باعزت شہری ہے۔ وہ اپنے بیٹے کی کفالت نہ صرف اچھے طریقے سے کرسکتا ہے بلکہ اس کو اپنی عمدہ حیثیت کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھا سکتا ہے۔ باپ کے پاس بیٹے کا مستقبل محفوظ ہے۔ غریب ماں بچیوں کی بھی غربت کے باعث کفالت نہیں کرسکتی تھی، البتہ بچیاں تھوڑے عرصہ کے لئے ماں کے پاس رہ سکتی تھیں۔ اس دوران باپ ان کا خرچہ دینے کا پابند تھا۔
میں سالار کی جدائی برداشت نہ کرسکتی تھی۔ ماموں سے کہا کہ جب تک سالار ساتھ نہ ہوگا میں بچیوں کو نہ لوں گی، آپ کچھ کریں مجھے سالار چاہئے۔
ابھی فیصلے کی صرف کاپی ہی ملی تھی اور عملدرآمد ہونا باقی تھا کہ ایک روز ملک صاحب کی گاڑی دروازے پر آ کر رکی۔ وہ گاڑی میں بیٹھے رہے جبکہ خادمہ میری دونوں بچیاں گھر کے اندر لے آئی اور کہا۔ بی بی کومل… ان کو آپ کے حوالے کرنے آئی ہوں… اور ملک صاحب؟ وہ گاڑی میں بیٹھے ہیں۔
اور سالار…؟ اس سوال کا خادمہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں رونے لگی اور اس کے کندھے ہلا کر بولی۔ بتائو… ابّی… وہ کہاں ہے اسے کیوں ملانے نہیں لائے، جبکہ عدالت کے فیصلے کے مطابق وہ میرے بیٹے کو ملوانے کے پابند ہیں۔
مجھے روتا دیکھ کر ابّی ماں بھی رونے لگی۔ اس نے کہا۔ تمہارا بیٹا سالار اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ آپی سے ملک صاحب کا جائداد کے بٹوارے پر جھگڑا ہوا تھا۔ آپی اپنے حصے کی جائداد میں سے چھوٹے بھائی کو آدھی وراثت لکھوانا چاہتی تھیں، جبکہ ملک صاحب کو یہ بٹوارہ پسند نہ تھا۔ اسی جھگڑے کی وجہ سے وہ بچوں کو پھوپی کے گھر سے لے


اور سوتیلی ماں کے سپرد کردیا لیکن اس نے بچوں کا خیال نہ کیا۔
سالار کو بخار تھا تو چھوٹی بی بی نے بخار میں اسے نہلا دیا۔ بولی نہلانے سے بخار اتر جائے گا لیکن بخار نے کیا اترنا تھا وہ اور تیز ہوگیا سخت سردی تھی اس معصوم کو سرسام ہوگیا۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔
میں بے ہوش ہو کر گر گئی تھی۔ امی نے خادمہ کو باہر گاڑی تک پہنچایا۔
ملک صاحب دونوں بیٹیوں کو ہمارے سپرد کر کے چلے گئے۔ اس کے بعد وہ کبھی ہمارے دروازے پر نہیں آئے، البتہ ان کی بہن آپی شاہدہ ایک ماہ میں دو بار باقاعدگی سے آتی تھیں۔ ان سے ملنے کے لئے۔ انہیں میری بچیوں سے بہت محبت تھی۔
آپی کی زبانی پتا چلا کہ ملک صاحب کی دوسری بیوی کے اطوار اچھے نہیں تھے وہ خاندانی بیوی کی مانند صبر و شکر اور تحمل کے اوصاف سے خالی تھی۔ میرے بچوں کے ساتھ اس کا رویہ بہت برا تھا۔ ان کا بالکل خیال نہ کرتی تھی۔
ملک صاحب اس سے خفا رہنے لگے اور جب سالار کی موت ہوگئی تو انہوں نے اسی کو ذمہ دار ٹھہرایا اور دوسری بیوی کو طلاق دے دی۔ وہ اب پچھتاتے تھے کہ ناحق کومل کو گھر سے نکالا اور بچوں کو درد جدائی میں تڑپایا۔ میں بدنصیب آج بھی اپنے خالق سے فریاد کناں رہتی ہوں کہ میرا کیا قصور تھا اپنے معصوم لخت جگر کی آخری بار صورت بھی نہ دیکھ سکی۔
اس واقعہ کے ایک سال بعد ہی ملک صاحب نے تیسری شادی کرلی۔ یہ عورت ان کے اپنے خاندان سے تھی اور ان کی خالہ زاد تھی۔ لوگ اس کی بے حد تعریف کرتے تھے، کہتے تھے کہ ملک صاحب کی تیسری بیوی اصل میں وہ عورت ہے کہ جو ان کے لئے بنی ہے۔ اس عورت کے منہ میں تو زبان ہی نہیں ہے اور اس کا دل صبر و شکر اور تحمل کی دولت سے مالامال ہے خدا ایسی بیوی ہر معزز آدمی کو دے۔
بچیاں گیارہ سال کی عمر تک میرے پاس رہیں، پھر ملک صاحب ان کو لے گئے، کیونکہ وہ قانوناً بس اتنی عمر تک ہی میرے ساتھ رہ سکتی تھیں۔ میں نے بھی احتجاج نہ کیا کیونکہ امی سمجھاتی تھیں کہ بیٹیاں باپ کے پاس ہی محفوظ رہتی ہیں۔ زمانہ خراب ہے جوان بچیوں کو پڑھانا لکھانا… اور شادیاں کرنا ایک مطلقہ ماں کے لئے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ ہمارے گھر پر کسی مرد کا سائبان نہیں ہے تو اچھے گھرانوں میں ان کی شادیاں کیسے ہوں گی۔ ان کو ماں سے محبت ہوگی تو شادی کے بعد یہ ضرور تم سے رابطہ رکھیں گی، ملنے آئیں گی۔
ماں نے ٹھیک کہا تھا۔ ملک صاحب نے گھر پر ان کی پڑھائی کا انتظام کرایا اور میٹرک پرائیویٹ طور پر کرانے کے بعد اپنے ہم پلّہ رشتہ دار زمیندار گھرانوں میں ان کی شادیاں کردیں۔
وہ آج اپنے گھروں میں خوش ہیں، بال بچوں والی ہیں، معاشرے میں معزز شوہروں کے باعث ان کا درجہ بلند اور اہم مقام ہے۔ مجھ سے ملنے آتی ہیں اور اکثر ساتھ بھی لے جاتی ہیں۔
بچیوں کے باپ کے پاس چلے جانے کے بعد ماموں مجھے اور امی کو اپنے گھر لے گئے تھے۔ انہوں نے میری دوسری شادی کے جتن بھی کئے لیکن میں نے انکار کردیا کیونکہ دوسری شادی کر کے اپنی بیٹیوں کو نہیں کھونا چاہتی تھی۔ اگر میں دوسری شادی کرلیتی تو یقیناً میری بیٹیاں مجھ سے رابطہ ختم کردیتیں۔ وہ مجھ سے ملنے کو ترستیں، ان کے شوہر انہیں مجھ سے ملانے کبھی نہ لاتے اور نہ ہی مجھے اپنے گھر آنے کی اجازت دیتے۔
میں نے بیٹیوں سے تعلق قائم رکھنے کی خاطر یہ قربانی دی تھی اور مجھے اس قربانی پر قلق نہیں مان ہے۔ امی کی وفات کے بعد میری بچیوں نے مجھے تنہا نہیں چھوڑا۔ وہ مجھے اپنے گھر لے آئی ہیں۔ میری یہ دونوں بیٹیاں اپنے چچا کی بہویں ہیں دونوں کی شادی ایک ہی گھر میں ہوئی ہے، یعنی آپس میں یہ جٹھانی دیورانی کے رشتے میں بندھی ہیں۔
ان کے سسر یعنی میرے دیور میری عزت کرتے ہیں، میں انہی کے گھر اپنی عمر سکون سے بسر کر رہی ہوں۔ ملک صاحب کی حویلی ان کے گھر سے چند فرلانگ پر ہے مگر میں کبھی ادھر نہیں جاتی۔
ملک صاحب ادھر آتے ہیں وہ اپنی بیٹیوں اور بھائی بھابھی سے ملتے ہیں تو میں مکان کے پچھلے حصے میں چلی جاتی ہوں کیونکہ اب میں ان سے پردہ کرتی ہوں۔ (ک… ڈی جی خان)

Latest Posts

Related POSTS