اف اتنی شدید گرمی اور ساتھ میں ہوش اڑا دینے والی مہنگائی، عید کی خریداری نے تو سچ میں عقل ٹھکانے لگادی۔ فروا فروا، ناعمہ نے چادر اتار کر دور پھینکی اور چھوٹی بہن کو آواز دی پانی لاؤ کہاں ہو۔ آتی ہوگی سانس تو لو بیٹیوں کی آواز پر کمرے میں لیٹی تسنیم بھی اٹھ بیٹھیں۔ ایک تو فروا بی بی خود گھر میں بیٹھ جاتی ہیں اور اپنے کپڑوں کی ذمہ داری ہمارے سر تھوپ دیتی ہیں، پتا ہے امی اس کے سوٹ کی وجہ سے کتنے خوار ہوئے ہیں ۔ کتنی دکانیں گھوم کر اس کا پسندیدہ کلرملا ہے۔ اب نجانے یہ کہاں چلی گئی ہے۔ خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے رائمہ نے تپ کر کہا۔ میں اپنی پیاری بہنوں کے لیے کچن میں شربت بنا رہی تھی وہ بھی تخم ملنگا ڈال کر فروا نے شربت سے بھرے گلاس ناعمہ اور رائمہ کے آگے کیے اور پلاسٹک کے نیلے پیلے تھیلوں کی طرف لپکی۔ یہ میرا ہے۔ انتہائی خوب صورت اور نفیس کڑھائی والے سوٹ کو فروا نے کھولا۔ لان بھی بہت اچھی ہے۔ تسنیم نے کپڑے کو ہاتھ لگایا۔ امی ! ہم تینوں کے چار چار ہزار کے سوٹ ہیں بس رنگ اور تھوڑا بہت کڑھائی کا فرق ہے قیمت تو ایک ہی ہے۔ چار ہزار ایک سوٹ کا۔ تسنیم نے دوپٹہ پھیلاتے ہوئے پوچھا۔ دوپٹا بھی تو دیکھیں شیفون کا کتنا فینسی ہے مہنگائی بھی تو کتنی بڑھ گئی ہے، دو دو ہزار کا پرنٹڈ سوٹ تو اب عام گھریلو استعمال کے لیے ہے، اب کیا عید پر یہ پہنتے ہوئے اچھے لگیں گے۔ اچھا امی اپنا سوٹ تو دیکھیں بہت مشکل سے چار ہزار پر مانا۔ آپ تو جانتی ہیں پروشیا لان مہنگی ہوتی ہے۔ واہ رائمہ، ناعمہ سوٹ تو بہت پیارا ہے اور رنگ بھی تمہارے ابو کی پسند کا ہے۔ تسنیم نے جوڑے کو اپنے ساتھ لگایا۔
اچھا تمہارے ابو اور بھائیوں کے سوٹ کہاں ہیں؟ تسنیم نے اپنے سوٹ کو واپس رکھا۔ یہ ہیں ابو اور شان فرحان کے سوٹ۔ کاٹن تو اچھی لی ہے نا۔ امی اس لیے تو ہزار پندرہ سو والی کائن نہیں لی بلکہ دو ہزار کا ایک سوٹ ہے۔ رائمہ نے سوٹ ماں کی گود میں رکھے۔ بہت کھلے گا میرے گورے بیٹوں پر۔ تسنیم نے گہرے نیلے رنگ کے سوٹ پر محبت سے ہاتھ پھیرا۔ ارے تم کہاں بھاگ رہی ہو۔ بیٹیوں کواٹھتا دیکھ تسنیم چلائیں۔ امی موسم بہت اچھا ہو رہا ہے چھت پر جا رہے ہیں۔ مغرب ہونے والی ہے رات کا کھانا نہیں بنانا کیا۔ ابھی آئے۔ سیڑھیاں چڑھتے ناعمہ کی آواز آئی۔ میں اتنے میں سبزی کاٹ لوں۔ تسنیم کچن کی طرف بڑھیں۔ آئیں خالہ بیٹھیں کیسے آنا ہوا۔ اپنے سامنے والے گھر سے آئی بزرگ سی خالہ صغری کو دیکھ کر تسنیم اگے بڑھیں۔ طبیعت بوجھل سی ہو رہی تھی سوچا تمہاری طرف چکر لگاؤں۔ اچھا کیا خالہ! تسنیم نے مسکرا کر کہا گھر میں کافی خاموشی ہے۔ خالہ صغری نے بیٹھتے ہوئے ادھر ادھر نگاہیں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔ ذیشان اور فرحان تو اکیڈمی گئے ہیں، بچیاں ابھی بازار سے لوٹی ہیں کچھ دیر کے لیے چھت پر گئی ہیں۔ عید کی خریداری کرنے گئی تھیں؟ خالہ صغری نے پوچھا۔ ہاں خالہ ! عید پر پہنے اوڑھے بغیر کہاں گزرتی ہے تن بھی تو ڈھانپنا ہے۔ تسنیم کے چہرے پر اچانک غریبی ٹپکنے لگی۔ اور سنائیں خالہ قربانی کر رہی ہیں۔ ہاں ماشاء اللہ میرے دونوں بیٹے قربانی کر رہے ہیں اور تم لوگ۔ آہ … خالہ صغریٰ کے پوچھنے پر تسنیم نے ایک ٹھنڈی سانس خارج کی۔ کاش ہم بھی اتنی استطاعت رکھتے کہ قربانی کر سکتے۔ خالہ دل تو بہت چاہتا ہے کہ ہم بھی سنت ابراہیمی ادا کریں۔ آپ تو جاتی ہیں اقبال دوسرے شہر پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ کہنے والے تو کہہ دیتے ہیں کہ چالیس پچاس ہزار ماہانہ کماتے ہیں لیکن خالہ یہ بھی تو دیکھیں مہنگائی کتنی بڑھ گئی ہے گھر کے اخراجات اور پھر بچوں… تسلیم کی آدھی بات منہ میں رہ گئی۔ کچھ فاصلے پر رکھا موبائل بجنے لگا۔ اقبال کا فون ہے۔ وعلیکم السلام ! آپ بھی حد کرتے ہیں کیا پہلے کبھی کسی بھی تقریب یا عید وغیرہ پر آپ کے بچوں کے لیے کوئی کمی چھوڑی ہے۔ جو اس عید پہ چھوڑوں گی۔ تسنیم کو شوہر کے ساتھ باتوں میں مشغول دیکھ کر خالہ صغری نے بھی گھر کی راہ لی۔
☆☆☆
منیر جو رات کے بارہ بجے کام سے لوٹا بغیر کوئی آہٹ کے خاموشی سے دروازے کی کنڈی چڑھا دی۔ اکلوتے پنکھے کے آگے لگی قطار میں پڑی چارپائیوں میں سے ایک چارپائی پر آبیٹھا۔ اس یقین کے ساتھ کہ چارپائی پر سوئی اپنی شریک حیات کی نیند میں اس نے خلل نہیں ڈالا۔ آج تو بہت دیر کر دی آپ نے… تم جاگ رہی ہو۔ پسینے سے بھیگے منیر نے قمیص کے بٹن کھولتے ہوئے بیوی کی طرف دیکھا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ جب تک آپ خیر سے گھر نہ ا جائیں مجھے نیند کہاں آتی ہے۔ ہاں آج آخری ٹرک دیر سے آیا (منیرلکڑیوں کے آرے پر لکڑیاں لوڈ کرنے کا کام کرتا تھا) روٹی میں نے ہوٹل سے کھائی تھی بس تم لسی لے اؤ۔ فوزیہ کو اٹھتا دیکھ کر منیر نے کہا۔ پاؤ سے بھی کم دودھ میں برف ڈالنے کے لیے فوزیہ نے کولر کا ڈھکن کھولا لیکن برف تو پگھل کر پانی بن چکی تھی۔ فوزیہ وہ پانی اور نمک دودھ میں ڈالے پتلی سی لسی بنائے شوہر کے پاس آئی۔ کمیٹی نکلی آپ کی اسٹیل کی چھوٹی سی بالٹی کو چارپائی کی پائنتی پر رکھتے ہوئے شوہر سے پوچھا۔ تم تو جانتی ہو کہ میں اپنا نمبر آخری رکھواتا ہوں۔ تاکہ قربانی کر سکوں۔
یہ لو کمیٹی کے پیسے ۔ منیر نے پسینے سے بھیگے نوٹوں کو پنکهے کی ہوا سے سکھا کر بیوی کو دیا۔ یہ چودہ ہزار ہیں ابھی ایک ہزار کم ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے جانور بہت مہنگا ہے۔ پچھلے سال تو بارہ ہزار حصہ تھا اس سال تو پندرہ ہزار سے کم حصہ نہیں لیکن فکر کی بات نہیں ابھی تین چار دن ہیں۔ پیسے جمع کروانے میں اتنے میں جمع کرلوں گا کام آج کل کام زوروں پر ہے ہزار پندرہ سوتو آرام سے بن جاتا ہے۔ اطمینان منیر کے چہرے سے جھلک رہا تھا۔ یہ لیں اب ہو گئے پورے پندرہ ہزار فوزیہ اندر سے ہزار کا نوٹ لائی اور چودہ ہزار کے ساتھ ملایا۔ بچوں کے عید کے کپڑے نہیں خریدے۔ منیر نے سوالیہ نگاہوں سے بیوی کو دیکھا۔ خریدے ہیں صبح دکھاؤں گی آپ کو۔ میرے بہت ہی خوب صورت ریشمی دوپٹے رکھے تھے دو، ان کے ساتھ لان کے گلے والے پندرہ پندرہ سو کے ٹو پیس حمیرا اور سویرا کے لیے خریدے ہیں اور باقی رہے آپ کے چھوٹے بیٹے ان کے لیے کٹ پیس سے نہایت ہی اچھا کپڑا ملا ہے کاٹن کا ۔ تمہارے کپڑے۔ منیر نے فوزیہ سے اس کے جوڑے کے متعلق پوچھا۔ منیر اتنی گرمی ہوتی ہے کہ میرا تو نئے کپڑے پہنے کو دل نہیں کرتا خیر سے قربانی کر لیں پھر میں بھی خرید لوں گی نیا جوڑا اور آپ نے بھی تو نئے کپڑے نہیں لیے۔ فوزیہ نے شوہر کی طرف دیکھا جو کندھے سے قمیص ہٹائے ہوا دے رہا تھا جو کہ وزنی لکڑ اٹھانے کی وجہ سے لال اور سوجا ہوا تھا۔
ایک بات کہوں اگر ہم قربانی نہ بھی کریں تو ہمیں گناہ نہیں ملے گا آپ کیوں خود کو اتنی مشکل میں ڈالتے ہیں۔ بیوی کی بات پر منیر ہولے سے مسکرایا۔ یار پورا سال بچے گوشت کو ترستے ہیں کبھی کبھار پک بھی جائے تو ایک آدھ بوٹی سب کے حصے میں آتی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب ہم اپنی قربانی کرتے ہیں تو بچے جی بھر کے گوشت کھاتے ہیں اور کئی ایسے گھروں میں بھی گوشت بھیجتے ہیں، جو گوشت کی راہ دیکھ رہے ہوتے ہیں بھلے ہی ہم علیحدہ بکرا خریدنے اورپچیس تیس ہزار کا حصہ لینے کی استطاعت نہیں رکھتے اور میں یہ بھی جانتا ہوں قربانی ہم پر لازم نہیں اگر ہم نہیں کریں گے تو گناہ نہیں ہوگا لیکن یہ بھی تو سوچو قربانی کرنے سے کتنا اجر و ثواب ہوگا۔ اور تم نے کہا میں خود کو مشکل میں ڈالتا ہوں تو ہم کسی سے قرض لے کر قربانی کر رہے ہیں اور نہ ہی کسی کا قرض دینا ہے کوئی بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے ہمیں کہ جس کی وجہ سے ہم قربانی نہ کریں اور ویسے بھی ایسے بہت سے کام ہیں جن کو کرنے کے لیے ہم خود کو مشکل میں ڈالتے ہیں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تھوڑی بہت تو جسمانی و مالی قربانی سہنی پڑتی ہے۔ منیر نے اپنا کندھا سہلایا اور منیر نے فوزیہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ قربانی قربانی مانگتی ہے۔ جاؤ جا کے سو جاؤ رات بہت ہو چکی ہے۔ منیر نے فوزیہ کو سونے کا کہہ کر خود کو بستر پر گرا لیا اور اطمینان سے آنکھیں موند لیں۔