ہماری ایک پرانی ملازمہ جس کا نام بانو تھا، اس وقت سے ہمارے یہاں کام کرتی تھی ، جب میں ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی اور بھائی زوہیب اس وقت پانچ برس کے تھے۔ بانو ہماری خاندانی ملازمہ تھی ہمارے دادا جان کے زمانے سے تھی اور ہماری آیا بھی تھی، لیکن ہمارے گھر کے کام کر دیا کرتی تھی۔ یہ اس کا معمول تھا کہ صبح سویرے ہی آجاتی اور رات تک رہتی۔ رات کو اس کا خاوند آکر اسے لے جاتا تھا۔ جس کا نام سوہارا تھا۔ اس نے تقریباً چالیس برس ہماری خدمت کی اور جب وہ بیمار رہنے لگا تو تایا جی نے اس کو رخصت دے دی اور وہ آزاد ہو گیا۔ اب کبھی وہ گھر پر رہتا اور کبھی جنگل سے لکڑیاں وغیرہ کاٹنے چلا جاتا یوں اس کے کنبے کا گزارہ کسی نہ کسی طرح ہو رہا تھا۔ بانو کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ جب وہ کام کرنے آتی اس کے بچے گھر پر رہتے۔ سب سے بڑی لڑ کی رقیہ بی بی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالتی اور گھر کا کام کاج بھی کر رکھتی۔ تایا اور بابا جان کی مشترکہ زمینداری تھی لہذا سال بھر کا خرچہ وہ بانو کو اکٹھا گندم اور چاول کی چند بوریوں کی صورت میں فصل پر دے دیا کرتے تھے۔ ایک دن بانو نے آکر بتایا کہ اس کے شوہر کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے۔ اسے اسپتال لے جانا ہے۔ ابا جان فوراً سو ہارے کو اسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کو کینسر ہے اور آخری اسٹیج ہے۔ یہ تھوڑے دنوں کا مہمان ہے۔ جس قدر علاج ہو سکتا تھا تایا جان نے کرایا۔ لیکن اس کا جو وقت آخر مقرر ہو چکا تھا اس میں کسی طرح کی توسیع نہیں ہو سکتی تھی، لہذا جتنی زندگی باقی تھی وہ اتنے دن سانس لے سکا اور پھر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کی وفات سے دوماہ پہلے بانو حد سے زیادہ پریشان رہنے لگی تھی، اس کا مسئلہ یہ تھا کہ بڑی بیٹی رقیہ اور بیٹے خیر دین کی منگنیاں ہو چکی تھیں وہ چاہتی تھی کہ شوہر کی زندگی میں وہ ان دونوں بچوں کی شادیاں کر دے۔ اس نے تایا جی سے تذکرہ کیا، وہ بولے ٹھیک ہے تم بچوں کی شادی کی تیاری کرو اور شادی کے خرچے کی فکر مت کرو۔ وہ ہم کریں گے اس طرح سو ہارے کی وفات سے پہلے اس نے اپنی بیٹی اور بیٹے کی شادی کرا دی اور ایک بڑے فرض سے سبک دوش ہو گئی ، اس کے قریب المرگ شوہر نے بھی اپنی اولاد کی شادی کی خوشی دیکھ لی۔ یہ وٹے سٹے کی شادیاں تھیں، بیٹی کو پہلے رخصت کیا اور بہو کی رخصتی دو ہفتے بعد لینی تھی کہ سوہارا چل بسا۔ عدت کی وجہ سے بہو کی رخصتی میں تاخیر پڑ گئی کہ وہ خود اسے لینے نہ جاسکتی تھی۔ عدت کی وجہ سے وہ ہمارے گھر بھی نہیں آ رہی تھی۔ تاہم اس نے سوچا کہ بیٹے کو بھیج کر دیکھتی ہوں اگر وہ لوگ اس کے ساتھ اس کی منکوحہ کو رخصت کر دیتے ہیں تو گھر کا مسئلہ گھر میں حل ہو جائے گا لیکن رقیہ کے ساس سسر نے اپنی بیٹی فوزیہ کو اس طریقے سے رُخصت کرنا منظور نہ کیا تورقیہ نے بانو سے کہا۔ ماں آپ ذرا صبر کر لو، میرے ساس سسر کا کہنا ہے کہ وہ فوزیہ کو آپ کی عدت پوری ہو جانے کے بعد رخصت کر دیں گے۔ مرنے والا آخر تو ان کا تایا زاد تھا۔ وہ چاہتے ہیں کہ سوگ پورا ہو جائے تو ان کی بیٹی آپ کے گھر میں قدم رکھے۔ بڑی بیٹی کے سمجھانے سے بانو خاموش ہو رہی اور اس کی بہو ماں باپ کے گھر میں رہتی رہی۔ جب عدت کی مدت ختم ہو گئی تو بانو ہمارے گھر آئی۔ اس نے امی کو بتایا یہ معاملہ ہے جس کی وجہ سے وہ پریشان ہے ، اس کی بیٹی تو ان کے گھر میں بس رہی ہے لیکن اپنی بیٹی کی رخصتی میں وہ لوگ بہانوں سے کام لے رہے ہیں اب جبکہ میری عدت اور سوگ کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے میں نے خیر دین کو اس کی دُلہن لانے کو بھیجا مگر انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ والد صاحب بولے۔ بانو بی بی پہلے تو تم خود بہو کو لینے جائو۔ اگر وہ لوگ تمہارے جانے سے بھی اسے نہ بھیجیں تو پھر ہم مداخلت کریں گے۔ اپنے ساتھ ایک دور شتہ دار بھی لے جانا، فی الحال ہمار امداخلت کرنا درست نہیں اس طرح ہو سکتا ہے وہ چڑ جائیں اور تمہاری بیٹی کا گھر اجڑ جائے جو کہ ابھی اپنے گھر میں خوش ہے – رقیہ کو ماں کی پریشانی کا اندازہ تھا لہذاوہ بھی اپنے گھر میں پریشان رہتی تھی۔ جب بھی میکے آتی ماں سے کہتی کہ میں اب واپس سسرال نہیں جائوں گی۔ آپ یہ شرط میرے ساس سسر پر رکھ دیں کہ جب تک وہ فوزیہ کور خصت کر کے آپ کے گھر نہیں بھیجیں گے ، آپ ان کی بہو یعنی کہ مجھے ان کے گھر نہ بھیجیں گی۔ بانو نے ایسا ہی کیا رقیہ کو گھر بٹھا لیا۔ خیر دین نے دیکھا کہ رقیہ کے میکے بیٹھ جانے سے معاملہ خراب ہوتا ہے تو وہ از خود گھر داماد کی شرط کو پورا کرنے کے لئے سسرال چلا گیا اور وہاں رہنے لگا۔ اب بیٹا تو گیا ہی مگر شادی شدہ بیٹی جو ایک بچی کی ماں بن گئی تھی ماں کے در پر آگئی تھی اور یہ پریشانی کی بات تھی۔ ماں نے رقیہ کو سمجھایا۔ بیٹی اگر ان لوگوں نے ضد پکڑ لی اور تم کو لینے کوئی نہ آیا تو عمر بھر میکے بیٹھی رہ جائو گی تب تیری بچی کا کیا بنے گا یقیناوہ کسی دن آکر اس کو تمہاری گود سے چھین کر لے جائیں گے۔ خیر دین سیانا لڑکا ہے۔ آج نہ کل وہ واپس آہی جائے گا اور ہم کو اکیلا نہیں چھوڑے گا مگر تیرا اس ضد میں گھر نہ اجڑ جائے لہذا تو اپنے گھر چلی جا۔ ماں کے سمجھانے سے رقیہ اپنے گھر چلی گئی۔ اب نہ تو رقیہ ماں سے ملنے آتی اور نہ خیر دین آتا، وہ سسرال میں بیوی کے ساتھ رہنے لگا۔ اب بانو کو بیٹے کی جدائی بے حد شاق گزرتی تھی۔ وہ اکثر بیٹے کا ذکر کرتے رو پڑتی تھی۔ امی اور چاچی نے سمجھایا جب تیری بیٹی اور بیٹا وہاں خوش و خرم ہیں تو، تو کیوں روتی ہے۔ رقیہ نے تو سسرال میں رہنا ہی ہے۔ بہو اور بیٹا آجائیں گے تو تیر ا خرچہ ہی بڑھائیں گے۔ جب سب نے ایسا ہی کہا تو بیچاری بانو نے صبر کر لیا – اسی دوران اس کی دونوں چھوٹی لڑکیاں شادی کے لائق ہو گئیں تو اس نے ان کو بھی اپنے رشتہ داروں میں بیاہ دیا۔ وہ اپنے گھروں کی ہو گئیں، بانو کو ان کی طرف سے سکون مل گیا کیونکہ وہ اپنے گھروں میں خوش و خرم تھیں۔ ان لڑکیوں کا جہیز اور خرچہ بھی بابا جان اور تایا جی نے مل کر دیا تھا کہ ان دنوں زمینداروں کی یہی روایت تھی۔ چند دن بانو سکون میں رہی وہ اب باقاعدگی سے ہمارے گھر آنے لگی تھی۔ اچانک اس کو پھر سے ان دیکھی مصیبتوں نے گھیر لیا۔ بانو کا اپنا مکان تھا – ایک کنال کارقبہ رہائش کے لئے بڑا ہوتا ہے در اصل ستے وقتوں یہ جگہ بانوں کے سُسر نے خریدی اور گھر بھی اسی نے بنوایا تھا۔ آدھے رقبے پر رہائش تعمیر تھی اور آدھے رقبے کا صحن تھا۔ سسر کے مرنے کے بعد سوہارے کے چھوٹے بھائی نے اپنا آدھا حصہ بھی سوہارے کو بیچ دیا، یوں تمام مکان بڑے بھائی کا ہو گیا۔ اب اس میں بانو کے دیور کا کوئی حصہ نہ تھا، لیکن بھائی کے مرتے ہی اس کی نظریں پھر سے اس مکان پر جم گئیں اور اب اس کو ہتھیانے کا صرف ایک ہی رستہ تھا کہ وہ بیوہ بھابی سے نکاح کر لے۔ بانو کے دیور کا نام صغیر احمد تھا۔ وہ شادی شدہ تھا، اس کے باوجود آئے دن وہ بیوہ بھابی کے گھر رہنے لگا۔ وہ اسے شادی کے لئے کہتا تھا کہ کسی طرح مکان اپنے قبضے میں کرلے۔ ایک دن وہ روتی پیٹتی آئی اور بابا سے بولی۔ صاحب، دیور مجھے کو نکاح کے لئے کہتا ہے میں انکار کرتی ہوں تو مارتا پیٹتا ہے۔ آپ اس کو روکیے اور خدا کے لئے میری اس سے جان چھڑوائیے ۔بابا جان نے صغیر احمد کو جیل بھجوادیا۔ بانو سکون سے ہو گئی۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ کسی نے اطلاع دی بانو کی دوسرے نمبر والی بیٹی رفیقہ کو اس کے شوہر نے قتل کر کے نہر میں ڈال دیا ہے اور خود فرار ہو گیا ہے۔ اسے تو بالکل یقین نہیں آیا، کیونکہ اس کی یہ لڑکی تو اپنے گھر میں بہت خوش تھی۔ تایا حالات کا پتا کرنے گئے تو پتا چلا کہ رفیقہ کے شوہر نے ایک عورت ہو بگھائی تھی۔ جس کے وارثوں نے دھمکی دی تھی کہ ہم تیری بیوی کو ایک دن اسی طرح اٹھالیں گے جیسے تو نے ہماری عورت اٹھائی ہے۔ اس دبائو میں رفیقہ کے شوہر نے پہلے اپنی بیوی کو قتل کیا پھر اس عورت کو بھی قتل کر دیا جس کو بھگا کر لایا تھا۔ اس کے بعد وہ خود فرار ہو گیا۔ البتہ تایا جی نے اس کی طرف سے اس کے مفرور داماد پر پر چہ کٹوا دیا۔ انہی دنوں بانو کا دیور صغیر احمد بھی جیل سے باہر آ گیا۔ جب اس کو پتا چلا کہ اس کی بھتیجی قتل ہو گئی ہے وہ بانو کے پاس افسوس کرنے آیا اور اپنے سابقہ رویے کی معافی بھی طلب کی۔ اس نے دیور کو معاف کر دیا یہ سوچ کر کہ شاید وہ اب راہ راست پر آ گیا ہے۔ دیورانی بھی دُکھ بانٹنے کو آئی تو اس نے ان پر اعتبار کر لیا۔ ایک دن صغیر احمد دوبارہ آیا اور کہا کہ میری بیوی بیمار ہے اور تم کو یاد کر رہی ہے۔ سادہ دل بانو نے یقین کر لیا اور میرے بابا جان سے دیور کے ساتھ اس کے گھر جانے کی اجازت مانگی۔ تایا جان نے میرے والد کو منع کیا کہ تم بانو کو چھٹی مت دینا۔ یہ کہیں دیور کے ساتھ چلی نہ جائے۔ مجھے صغیر کی نیت میں فتور معلوم ہوتا ہے۔ بابا جان نے مگر تایا کی بات نہ مانی اور بانو کو اس کے دیور کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ اطلاع آئی بانو دیور کے گھر میں کپڑوں میں آگ لگنے سے جل کر مرگئی ہے۔ بابا جان اور تایا جی پولیس لے گئے تفتیش پر پتا چلا کہ بانو خود کل کر نہیں مری بلکہ دیور نے اس کو مار کر جلا دیا اور اس کی جلی جلادیا ہوئی لاش کو بانو کے سسرال کے دروازے پر پھینک کر خود فرار ہو گیا ہے۔ اس واقعہ سے تایا جی طیش میں آگئے ، انہوں نے بابا جان سے جھگڑا کیا کہ تم نے بانو کو کیونکر صغیر احمد کے حوالے کیا جبکہ میں نے منع کیا تھا۔ اب ہم خاندانی لوگ کہلانے کے حق دار ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنے آبائی ملازموں کا تحفظ بھی نہ کر سکیں ؟ تم نے اپنی اور میری ہی نہیں ہماری خاندانی روایات کی جگ ہنسائی کرائی ہے۔ بہتر ہے ان زمینوں کو آگ لگادو۔ اس پر بابا جان نے کہا ایک معمولی نوکرانی کی خاطر آپ اس قدر طیش میں نہ آئیں کہ بھائی کا مقام بھول کر مجھ کو اتنازیادہ بُرا بھلا کہہ رہ ہیں کہ میرے بچوں کی نظروں میں بھی میرے مقام کو گرا رہے ہیں۔ قاتل کو گرفتار کروا کر پھانسی لگوانا ہمارا کام ہے ، سو وہ گرفتار ہو جائے گا۔ اس بات پر تایا جی اور بھی مشتعل ہو گئے ، کہنے لگے۔ میں پھر کہتا ہوں۔ تم خاندانی طور طریقے بھلاتے جا رہے ہو۔ بات صغیر احمد کو پھانسی لگوانے کی نہیں۔ بات ہے بانو کے تحفظ کی، جس میں ہم ناکام ہو گئے ہیں۔ اب دنیا والوں کو تو باتیں بنانے کا موقع مل گیا ہے ، سارے علاقے میں ہم پر تھو تھو ہورہی ہوگی کہ یہ کیسے زمیندار ہیں کہ جن کی پرانی ملازمہ کو کسی نے قتل کرنے کی جرات کی ہے۔ کہاں رہ گیا ہمارا ارعب و دبدبہ ۔ صغیر کو پھانسی لگنے سے بانو تو واپس نہیں آسکتی۔ اب اس کے دو چھوٹے بچوں کا کیا بنے گا۔ اگر وہ ہماری حویلی سے قدم نہ نکالتی اور ہمارے علاقے سے بھی باہر نہ جاتی تو میں دیکھتا کس کی جرات تھی اس کی جان لیتا۔ خیر اس طرح بات اتنی بڑھی کہ تایا اور بابا جان میں جھگڑ ا زیادہ ہو گیا۔ اس قدر کہ دونوں نے اپنی زمین الگ کرلی۔ میری منگنی تایازاد فرید سے ہو چکی تھی وہ بھی ٹوٹ گئی ، اسی طرح میرے بھائی کی منگنی تایا کی بیٹی شاہینہ سے ہو چکی تھی۔ وہ بھی ختم ہو گئی ۔ تایا نے زمین فروخت کر دی، اپنے کنبے کو لے کر شہر منتقل ہو گئے اور اس کے بعد امریکہ چلےگئے ، انہوں نے میرے والد سے کوئی ناتا نہ رکھا۔ اس وقت تو ہمارا لڑکپن تھا۔ جب ہم بڑے ہو گئے ہم نے یہ باتیں سنیں۔ دل میں اپنے تایا جی اور ان کی فیملی سے ملنے اور ان کو دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا لیکن وہ تو ہمیشہ کے لئے ہم سے ناتا توڑ چکے تھے، صرف ایک معمولی نوکرانی کی خاطر۔ بانو کی آخری بیٹی اور بیٹے کو رقیہ اور خیر دین لے گئے۔ اس طرح اس گھر کی کہانی تو ختم ہو گئی لیکن ہمارے دلوں میں ایسی کسک رہ گئی جو ہم کو رہ رہ کر تکلیف دیتی تھی کہ ہم اور تایا جی کے بچے جنہوں نے ایک ساتھ ، ایک گھر میں جنم لیا اور پلے بڑھے، کیسے ایک دوسرے کو بھلا سکتے تھے۔ تایا جی امریکہ میں فوت ہو گئے تو تائی وطن لوٹ آئیں۔ ان دنوں ابھی پاکستان وجود میں نہ آیا تھا، اور ان کا میکہ دہلی میں تھا وہ اپنے میکے دہلی چلی گئیں اور ہم تو یہاں صادق آباد میں رہتے تھے، بعد میں پاکستان بن گیا۔ ہم ادھر اور وہ ادھر کے ہو رہے۔ ہم سب بہن بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں، بابا جان بھی اس جہاں کو سدھار گئے۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ کئی برس گزر گئے ، دل سے ملنے کی آس نہ گئی ، اب تو وہ اور ملک کے اور ہم اور ملک کے ہو چکے تھے۔ ویزا کی پابندیاں تھیں مگر میں ہمیشہ دعا کیا کرتی تھی اے کاش ! ہم تایا کی فیملی سے مل پاتے۔ کبھی کبھی دُعائیں دیر سے قبول ہو جاتی ہیں، میری بھی دُعا قبول ہو گئی۔ ہوا یوں کہ ہماری ایک پھوپی گوجرانوالہ سے لاہور شفٹ ہو گئی تھیں، ان کے بیٹے کی شادی کا کارڈ ملا تو ہم مقررہ تاریخ سے دو دن پہلے صادق آباد سے بذریعہ کار لاہور روانہ ہو گئے۔ جب پھوپھو کے گھر کے نزدیک پہنچے تو جو نہبی ہماری کار میں ان کے گھر کی گلی میں داخل ہوئیں پیچھے اور کاریں بھی آگئیں اور ہم آگے پیچھے ان کے بنگلے کے گیٹ سے اندر پہنچے۔ پھوپھو نے استقبال کیا۔ ہم سے مل رہی تھیں کہ پچھلی کار کے مہمانوں کو دیکھ کر ان کی طرف لپکیں اور محبت سے ایک ایک کو گلے لگانے لگیں۔ امی نے حیرت سے دیکھا اور ارے بھابی جان کہہ کر وہ ایک بوڑھی خاتون کی طرف دوڑیں۔ یہ ہماری تائی تھیں اور ان کے ساتھ شاہینہ اور فرید تھے۔ جب میں نے اور زوہیب نے شاہینہ اور فرید کو دیکھا تو ہماری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اللہ تعالی نے مدت بعد ہم کو ملادیا تھا لیکن کس طرح، میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ تھی۔ اور زوہیب اپنی بیوی اور بیٹی کے ہمراہ، ادھر شاہینہ اپنے دو بچوں کے ہمراہ آئی تھی۔ ہم دو کاروں میں آئے تھے اور وہ بھی دو عدد ٹیکسی کار میں آئے تھے۔ اس روز مجھ کو خوشی کے ساتھ ایک نامعلوم سا دکھ تکلیف دے رہا تھا کہ اگر تایا جی اتنا غصّہ نہ کرتے تو شاید ہم سب ایک ہوتے لیکن نہیں، وقت کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ آج جو ہے وہ کل ہو گا کہ نہیں اور اس کی جگہ کیا ہونے والا ہے ۔ اس دن میں سوچتی رہ گئی کہ پرانے وقتوں کے لوگ بھی کیسے پختہ سوچ کے مالک ہوتے تھے۔ جس ریت روایت کو وہ مقدم سمجھتے تھے اس کی پاس داری میں وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے-