’’مراحم بیٹا! میں نے آج تمہارے لیے تمہاری پسندیدہ ڈشز بنائی ہیں۔‘‘ قمر جہاں نے ڈائننگ ٹیبل کی کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’وائو… ممی! آج تو آپ نے کمال کردیا اتنی ساری ڈشنز تیار کرلیں۔ فرائیڈ چکن، مٹن قورمہ اور پلائو تو میری جان ہیں۔‘‘ مراحم ٹیبل پر نظریں دوڑاتے ہوئے بولا اور فوراً پلیٹ اٹھا کر کھانا کھانے میں مصروف ہوگیا۔
قمر جہاں اسے کھاتے دیکھ کر مسکرانے لگیں۔ مراحم فرائیڈ چکن کھا کر پلائو پلیٹ میں نکالنے لگا تو قمر جہاں کو فوراً خیال آیا۔ انہوں نے اپنی ملازمہ کلثوم کو آواز دی۔ ’’کلثوم! رائتہ اور سلاد تم نے میز پر رکھا نہیں، جلدی سے لے کر آئو۔‘‘
کلثوم ان کی آواز سنتے ہی فوراً رائتہ اور سلاد لے آئی۔ قمر جہاں سلاد کی پلیٹ مراحم کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں۔ ’’مراحم! تم یہ بات اچھی طرح جانتے ہو کہ میں اب تمہاری شادی جلد کردینا چاہتی ہوں اور وہ بھی اپنے خاندان میں! اماں بی کی خواہش ہے کہ تمہاری شادی سبرینہ سے ہو۔ بتائو تم اماں بی کے اس فیصلے سے متفق ہو یا نہیں؟‘‘
مراحم، ممی کی بات سن کر پہلو بدل کر بولا۔ ’’میں ابھی شادی نہیں کررہا اور جب بھی کروں گا تو اپنی پسند سے کروں گا۔ مجھے سبرینہ کیا خاندان کی کوئی بھی لڑکی پسند نہیں۔ نانو کو میری زندگی کے بارے میں اتنا بڑا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔‘‘ مراحم نے قطعی فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ قمر جہاں سمجھ گئیں کہ وہ اب اس موضوع پر مزید بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔
دو ماہ بعد مراحم اپنے دوست بابر کی مہندی میں شریک تھا۔ رات گئے جب فنکشن کا ہنگامہ سرد پڑا تو مراحم اور اس کا دوست یاسر ایک ساتھ گھر جانے کے لئے نکلے۔ مراحم گاڑی ڈرائیو کررہا تھا۔ یاسر فنکشن میں شریک لڑکیوں پر تبصرہ کررہا تھا۔ ’’یاسر یار! وہ سبز آنکھوں والی لڑکی کون تھی، جس نے اپنی آنکھوں کے ہم رنگ کپڑے پہنے ہوئے تھے؟‘‘
مراحم کے اس سوال پر یاسر پہلے مسکرایا پھر بولا۔ ’’اس کا نام حبہ ہے۔ بابر کی خالہ زاد ہے۔ تمہیں پتا ہے اس سے ہمارے فیملی ٹرمز ہیں۔ بابر کے خاندان کے تمام لوگوں کو میں جانتا ہوں۔‘‘
’’بس یار! پھر تم میرا ایک کام کردو، حبہ سے میری ملاقات کرا دو۔ تمہاری تو اس سے اچھی خاصی سلام دعا ہے۔‘‘ مراحم فوراً مطلب پر آگیا۔
’’فکر مت کرو، میں تمہاری بات اس سے کرا دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ وہ تمہیں مایوس نہیں کرے گی۔‘‘ اتنے میں یاسر کا گھر آگیا اور وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے بولا۔ ’’گڈ نائٹ!‘‘
مراحم نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ تھوڑی دیر میں وہ اپنے گھر پہنچ گیا۔ وہ گاڑی کھڑی کرکے گھر میں داخل ہوا تو ممی کی آواز نے اس کے اٹھتے ہوئے قدم روک دیئے۔
’’اتنی رات کردی تم نے فنکشن میں؟‘‘ قمر جہاں کی آواز سے غصہ نمایاں تھا۔
’’ممی! آپ کو بتایا تو تھا کہ بابر کی مہندی کا فنکشن تھا، دیر تو ہونی تھی۔‘‘
’’دوست کی مہندی اٹینڈ کرتے پھر رہے ہو، اپنی شادی کے بارے میں بھی کچھ سوچا ہے یا نہیں؟ کوئی لڑکی پسند ہے تو بتائو؟‘‘
’’ممی! آپ اس بارے میں ٹینشن مت لیں۔ ابھی وقت نہیں آیا ہے کہ میں آپ کو کسی لڑکی کے گھر رشتے کے لئے بھیجوں، مگر آپ اس خوش فہمی میں مت رہیں کہ میں آپ کے بھائی کی بیٹی سے شادی کروں گا۔‘‘ مراحم اپنی بات مکمل کرتے ہی کمرے میں چلا گیا۔
قمر جہاں لائونج میں پڑے صوفے پر بیٹھ گئیں اور سوچنے لگیں کہ یہ معاملہ کیونکر حل ہوگا۔
٭…٭…٭
’’رمیعہ! عنیزہ کو بتا دو کہ تیار ہوجائے، اسے دیکھنے کے لئے کچھ مہمان آنے والے ہیں۔‘‘ صبا بانو نے اپنی بڑی بیٹی رمیعہ سے کہا۔
رمیعہ کے چاول چنتے ہوئے ہاتھ رک گئے۔ وہ بولی۔ ’’امی! آپ نے میرے منع کرنے کے باوجود ان لوگوں کو بلا لیا؟ آپ عنیزہ کے مزاج کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ اس کا گزارہ بھلا ان لوگوں میں ہوسکتا ہے؟ دس بہن، بھائیوں پر مشتمل لڑکے کی فیملی ہے اوپر سے اسی گز کا مکان…! اور آپ ہیں کہ جانتے بوجھتے عنیزہ کو جہنم میں جھونک رہی ہیں۔‘‘
رمیعہ کی بات سن کر صبا بانو کے چہرے پر ناگواری کا تاثر آگیا۔ وہ غصے میں بولیں۔ ’’ہماری جو حیثیت ہے، اسی طرح کے لوگوں کے رشتے ہماری بیٹی کے لئے آئیں گے۔ اب عنیزہ کے لئے کسی شہزادے کا رشتہ تو آنے سے
رہا۔ رہی لڑکے کی بڑی فیملی کی بات تو میں کون سا عنیزہ سے توقع کررہی ہوں کہ وہ لڑکے کی فیملی کی خدمت کرے گی۔ شادی کے بعد وہ لڑکے کے ساتھ علیحدہ گھر میں شفٹ ہوجائے گی۔ ابھی شادی تو ہونے دو، وقت آنے پر سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’آپ ایسے ہی کہتی ہیں۔ میری شادی کرتے ہوئے بھی آپ نے جلد بازی دکھائی۔ واصف جیسے جھکی شخص کے پلے مجھے باندھ دیا۔ وہ تو میں صابر تھی جو اس شادی کو نبھا رہی ہوں مگر آپ عنیزہ سے یہ توقع مت رکھیں کہ وہ آپ کی ہر بات پر عمل کرے گی۔ وہ انتہائی ضدی اور اپنی بات منوانے والی لڑکی ہے۔‘‘
’’بہتر ہوگا کہ تم مجھ سے الجھنے کے بجائے عنیزہ کو شام کو آنے والے مہمانوں کے متعلق بتا دو۔‘‘ صبا بانو نے سالن بھونتے ہوئے کہا۔
رمیعہ نے چاولوں کی ٹرے اٹھا کر سلیب پر رکھی اور کچن سے نکل کر عنیزہ کے کمرے میں داخل ہوگئی۔ عنیزہ بستر پر اوندھی لیٹی ہوئی فیشن میگزین دیکھ رہی تھی۔ وہ میگزین میں اتنی مدہوش تھی کہ اسے رمیعہ کے کمرے میں موجودگی کا احساس نہیں ہوا۔
’’عنیزہ…!‘‘ رمیعہ کی آواز پر عنیزہ چونک کر اٹھ بیٹھی۔ ’’بجو…! آئیں بیٹھیں۔‘‘ وہ اپنے پھیلے ہوئے بالوں کو کیچر میں سمیٹتے ہوئے بولی۔
’’عنیزہ! آج شام اچھی طرح سے تیار ہوجانا، تمہیں دیکھنے کے لئے خاص مہمان آرہے ہیں۔‘‘ رمیعہ نے لفظ خاص پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’ہوں گے کوئی فضول سے لوگ! اس گھر میں ڈھنگ کے لوگ تو رشتہ لے کر آنے سے رہے۔ ابھی میری عمر ہی کیا ہے، امی کو دیکھو ہر ایرے غیرے کو رشتے کے سلسلے میں گھر پر بلا لیتی ہیں۔ ویسے لڑکا کیا کرتا ہے، امی نے بتایا ہے آپ کو…؟‘‘
’’یہ مجھے نہیں معلوم، آئیں گے تو میں پوچھ لوں گی۔‘‘
’’بجو! آپ میرے مزاج کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ میں آپ کی طرح نہیں ہوں کہ والدین جس کے پلے باندھ دیں، اس کے ساتھ گزارہ کرلوں۔ میں زندگی اپنی مرضی سے گزارنا چاہتی ہوں، کچھ بننا چاہتی ہوں اور امی ہیں کہ میری بات نہیں سمجھتیں۔ پچھلی دفعہ روزینہ خالہ جن لوگوں کو لے کر آئی تھیں، انہیں دیکھ کر میرا دل چاہ رہا تھا کہ کمرے سے اٹھ کر بھاگ جائوں، صرف امی کی عزت کے خیال سے میں کچھ دیر ان لوگوں کے پاس بیٹھ گئی تھی۔ اس پر ان لوگوں کے نخرے کہ مجھے ریجیکٹ کردیا۔ مجھ میں کس چیز کی کمی ہے؟ اچھی خاصی خوبصورت ہوں۔‘‘
’’عنیزہ! تم اپنی خود پسندی کے خول سے باہر نکلو۔ میں نے امی کی بات تم تک پہنچا دی ہے۔ شام میں اچھے سے کپڑے پہن کر تیار ہوجانا۔‘‘ رمیعہ نے اٹھتے ہوئے کہا اور تیز قدموں سے کمرے سے نکل گئی۔ اسے اپنے پیچھے عنیزہ کی بڑبڑاہٹ سنائی دی۔
شام کو ٹھیک چھ بجے مہمان آگئے۔ جاتے ہوئے لڑکے کے گھر والے عنیزہ کے بارے میں اپنی رائے دے گئے کہ انہیں عنیزہ پسند ہے۔ اگلے اتوار کو عنیزہ کے گھر والے آکر لڑکے کو دیکھ سکتے ہیں۔ صبا بانو لڑکے کی ماں کے تاثرات کو جان کر بہت خوش تھیں۔
’’مبارک ہو، وہ لوگ تمہیں پسند کرگئے ہیں۔‘‘ ان کے جانے کے بعد رمیعہ نے عنیزہ سے کہا۔
رمیعہ کی بات سن کر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اتنے میں صبا بانو کمرے میں داخل ہوئیں اور عنیزہ سے مخاطب ہوئیں۔ ’’اللہ نے میری سن لی۔ وہ لوگ تمہیں پسند کرگئے ہیں، جلد ہی میں تمہاری شادی کردوں گی۔ مجھے لڑکے کی ماں اور بہنیں بہت پسند آئیں۔ عنیزہ! اب تم خامیاں ڈھونڈنے مت بیٹھ جانا۔‘‘
’’مجھے وہ لوگ بالکل اچھے نہیں لگے۔ عجیب جاہل لوگ تھے۔ لڑکے کی بہنوں نے اتنی گرمی میں میک اَپ تھوپ رکھا تھا، اوپر سے سرخ رنگ کی لپ اِسٹک۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ ٹشو پیپر دے کر انہیں میک اَپ صاف کرنے کو کہوں۔ ویسے امی! لڑکے کا گھر کتنا بڑا ہے، جہاں اتنے ڈھیر سارے لوگوں کے رہنے کی گنجائش ہے؟‘‘
عنیزہ کے اس سوال پر صبا بانو نے رمیعہ کو آنکھوں سے اشارہ کیا۔ رمیعہ ان کی بات سمجھ کر بولی۔ ’’عنیزہ! جب ہم لڑکے سے ملنے اس کے گھر جائیں گے تو گھر دیکھ لیں گے۔‘‘
’’پھر بھی روزینہ خالہ نے لڑکے کی جاب کے بارے میں بتایا تو ہوگا کہ وہ کہاں نوکری کرتا ہے؟‘‘ عنیزہ نے پوچھا۔
’’لڑکا کسی کمپنی میں کلرک ہے۔‘‘
’’کیا کہا… کلرک ہے؟ میری طرف سے انکار ہے۔‘‘ عنیزہ نے اپنا فیصلہ سنایا۔
صبا بانو اور رمیعہ ہونق زدہ سی ہوکر اس کا چہرہ دیکھنے لگیں۔
’’ایک تو لڑکا انتہائی معمولی ملازم، اوپر سے دس بہن بھائیوں میں سب سے
ذمہ داریوں کے بوجھ سے لدا ہوا۔ نہیں بھئی مجھے یہاں شادی ہرگز نہیں کرنی۔ آپ کو ان لوگوں کے گھر جانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔‘‘
’’عنیزہ! چپ رہو۔ اچھے بھلے لوگ تو ہیں۔ شادی کے بعد تم لڑکے کے ساتھ الگ گھر میں رہنا۔ ابھی شادی تو ہونے دو۔‘‘
صبا بانو کی بات سن کر عنیزہ مزید تپ گئی۔ وہ غصے سے بولی۔ ’’امی! آپ کبھی انتہائی بے وقوفی کی باتیں کرتی ہیں۔ لڑکے کی تنخواہ ڈھنگ کی ہوگی، تبھی وہ مجھے علیحدہ گھر میں لے کر رہے گا۔ یہاں تو لڑکا محض کلرک ہے، اوپر سے آپ مجھے سنہری خواب دکھا رہی ہیں۔ ایک بات میں آج آپ لوگوں کو کلیئر کردوں کہ آپ میری شادی کے لیے فکرمند نہ ہوں۔ ابھی مجھے پڑھنا ہے اور آپ کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ آپ اور ابا کو بڑی خواہش تھی نا کہ ہمارا کوئی بھائی ہوتا، میں آپ کو بیٹا بن کر دکھائوں گی اور آپ کو وہ آسائشیں فراہم کروں گی جو ہمارے خاندان میں کسی کے پاس نہ ہوں گی۔‘‘ عنیزہ نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے پلیٹ زور سے ٹیبل پر پٹخی اور اٹھ کر چلی گئی۔
’’رمیعہ! دیکھ رہی ہو اس کے دماغ کو، ہر وقت ساتویں آسمان پر رہتا ہے۔ اس لڑکی کے نخرے دیکھتے ہوئے تو نہیں لگتا کہ اس کی کبھی شادی ہوگی۔‘‘ صبا بانو فکرمندی سے بولیں۔
’’امی! اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ میں نے آپ سے کہا تو تھا کہ عنیزہ اتنی سیدھی نہیں جو آپ کی ہر بات پر آنکھیں بند کرکے عمل کرے۔ واصف آنے والے ہوں گے، میں جانے کی تیاری کرتی ہوں۔‘‘ یہ کہتے وہ کمرے سے نکل گئی۔
صبا بانو نے تھکے ہوئے انداز میں صوفے پر رکھے کشن پر سر ٹکا دیا۔ وہ عنیزہ کے بارے میں سوچ رہی تھیں جو کسی کی بات کو خاطر میں نہیں لاتی تھی جبکہ دوسرے کمرے میں بیٹھی عنیزہ ان کے جذبات سے بے پروا میگزین پڑھنے میں مصروف تھی۔
عنیزہ کا تعلق ایک لوئر مڈل گھرانے سے تھا۔ وہ دو بہنیں تھیں۔ بڑی بہن رمیعہ، عنیزہ سے دس سال بڑی تھی۔ عنیزہ میٹرک میں تھی تب اس کے والد چل بسے تھے۔ رمیعہ کی شادی وہ اپنی زندگی میں کر گئے تھے۔ والد کی وفات کے بعد صبا بانو چاہتی تھیں کہ عنیزہ کی شادی بھی جلد کردیں مگر عنیزہ نے ان کی ایک نہ سنی۔ اپنے بل بوتے پر وہ بی۔کام کرچکی تھی۔ ساتھ ہی وہ ٹیوشن اور ٹیچنگ کررہی تھی۔ اب اس کا ارادہ پرائیویٹ ایم۔اے کرنے کا تھا۔
٭…٭…٭
’’یہ بتائیں کہ آپ کو مجھ میں کیا نظر آیا جو آپ مجھ سے دوستی کی خواہش کر بیٹھے؟‘‘ حبہ نے چہکتے ہوئے مراحم سے سوال کیا۔ وہ دونوں ایک ہوٹل میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔
’’مجھے آپ خوبصورت، پڑھی لکھی اور باوقار لگیں، تبھی میں آپ سے دوستی کی خواہش کر بیٹھا۔ آپ کی پرسنالٹی اتنی شاندار ہے کہ میں آپ سے دوستی پر فخر کرسکتا ہوں۔‘‘
’’تھینک یو۔‘‘ حبہ نے ادا سے اپنے بالوں کو جھٹکا۔
’’یاسر نے بتایا تھا کہ آپ کے فادر مل اونر ہیں، آپ ان کے کاروبار کو سنبھالنے کے ساتھ سوشل ورک بھی کرتی ہیں؟‘‘
’’ہاں بالکل! میں اپنے وقت کو اس طرح مینج کرتی ہوں کہ اپنا ہر شوق پورا کرلیتی ہوں۔ ساتھ ہی مجھے اسپورٹس کا بھی شوق ہے۔ آپ اپنے بارے میں بتائیں۔‘‘
’’ہاں! کیوں نہیں۔ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ میری ایک بہن ہے جو مجھ سے چھوٹی اور شادی شدہ ہے۔ وہ امریکا میں مقیم ہے۔ میرے والد ڈیڑھ سال پہلے وفات پا گئے ہیں۔ ان کے بعد میں جاب کے ساتھ کاروبار کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ مراحم نے پلیٹ حبہ کے آگے سرکائی اور پوچھا۔ ’’مستقبل کے بارے میں آپ نے کچھ سوچا ہے؟ میرا مطلب شادی کے بارے میں۔‘‘
حبہ مسکراتے ہوئے بولی۔ ’’ڈیڈ چاہتے ہیں کہ میں ان کے عزیزوں میں سے کسی سے شادی کروں مگر میں نے انہیں منع کردیا ہے۔ مجھے خاندان کے لڑکوں میں سے کوئی نہیں بھاتا۔ آپ کی امی بھی یقیناً آپ کے رشتے کی تلاش میں ہوں گی؟‘‘ وہ مراحم کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی۔
’’میری ممی بھی آپ کے ڈیڈ کی طرح میری شادی خاندان میں کرنا چاہتی ہیں مگر میں نے انہیں صاف منع کردیا ہے۔‘‘
’’ویری نائس! ہم دونوں کی سوچ ایک جیسی ہے۔‘‘
’’بالکل حبہ! مجھے آپ کی طرح کی سوشل لڑکیاں بہت پسند ہیں۔ براڈ مائنڈڈ، ورکنگ وومن۔‘‘ وہ اس کی سبز آنکھوں میں ڈوبتے ہوئے بولا۔
٭…٭…٭
عنیزہ کی بچپن کی سہیلی عنایہ کی شادی تھی۔ قریبی دوست ہونے کے ناتے وہ عنایہ کی شادی میں امی کے ساتھ شریک تھی۔
’’عنیزہ…‘‘
کسی نے پکارا تو عنیزہ جو ہاتھوں میں گلاب کی پتیوں کی پلیٹ لئے کھڑی تھی، فوراً مڑی۔ سامنے اس کی کلاس فیلو نائمہ موجود تھی۔
’’نائمہ کیسی ہو؟‘‘ عنیزہ نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
’’یہ بچے کون ہیں؟‘‘ عنیزہ نے نائمہ کے ساتھ کھڑے دو گول مٹول سے بچوں کو دیکھ کر پوچھا۔
’’یہ دونوں میرے بچے ہیں۔ کم عمری میں شادی کا یہی فائدہ ہے، میں اپنے بچوں کی ماں نہیں لگتی۔ تم سنائو کب شادی کا ارادہ ہے۔ منگنی تو ہوگئی ہوگی تمہاری؟‘‘ نائمہ نے پوچھا۔
ایک لمحے کے لیے عنیزہ شرمندہ سی ہوگئی۔ ’’ابھی تو میری منگنی نہیں ہوئی اور نہ شادی۔ میرے لیے کوئی مسئلہ ہے کہ میں اپنے لیے آئے ہر رشتے کو قبول کرلوں؟‘‘ عنیزہ یہ کہہ کر دوسری طرف کھڑی لڑکیوں کی طرف متوجہ ہوگئی۔
اگلا دن ہفتے کا تھا۔ عنیزہ کو میڈم نے چھٹی ہونے کے باوجود بلایا تھا۔ دوپہر کو وہ ڈیڑھ بجے اسکول سے گھر پہنچی تو رمیعہ اپنے بچوں سمیت ملنے آئی ہوئی تھی۔ شکل سے وہ خاصی پریشان لگ رہی تھی۔ ’’کیا ہوا بجو! خیریت تو ہے؟‘‘ عنیزہ نے پرس رکھ کر رمیعہ کے برابر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’خیریت نہیں ہے۔ تمہارے بہنوئی بہت بیمار ہیں، خاصی رقم ٹیسٹ کروانے میں لگ گئی ہے، اوپر سے ڈاکٹر نے مزید ٹیسٹ لکھ کر دیئے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان کا علاج کروائیں گے تو کھائیں گے کہاں سے؟ میں اپنا زیور لے کر آئی ہوں۔ تم بچوں کو دیکھ لینا، میں امی کے ساتھ بازار جاکر زیور فروخت کردیتی ہوں۔ کچھ پیسوں کا آسرا ہوگا تو تمہارے بہنوئی کا علاج ہوگا۔‘‘ رمیعہ نے اپنی پریشانی بتا ڈالی۔
’’ٹھیک ہے۔ آپ امی کے ساتھ چلی جائیں، میں آپ کے بچوں کو دیکھ لوں گی۔‘‘ عنیزہ پرس اٹھا کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
٭…٭…٭
حبہ سے چند ملاقاتوں کے بعد مراحم پر یہ واضح ہوگیا کہ اس کے اور حبہ کے خیالات ایک دوسرے سے بے حد مشابہت رکھتے ہیں۔ زندگی گزارنے کے لیے مراحم کو جس لائف پارٹنر کی ضرورت تھی، وہ اسے حبہ کی شکل میں مل رہی تھی۔
’’میں اپنی والدہ کو تمہارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔‘‘ ایک دن مراحم نے حبہ سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ حبہ نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’رشتہ مانگنے کے لیے۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’رئیلی…‘‘ مراحم کی بات سن کر حبہ بے ساختہ ہنسنے لگی۔ پھر بولی۔ ’’مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم مجھ میں اتنے انٹرسٹڈ ہوگئے ہو کہ مجھ سے شادی پر آمادہ ہو۔ خیر تم اپنا شوق پورا کرلو۔ مجھے اس بات کی امید نہیں ہے کہ میرے ڈیڈ اس رشتے پر راضی ہوں گے۔ ایک تو تمہاری جاب انتہائی معمولی ہے، اوپر سے تمہارے پاپا کا چھوڑا ہوا بزنس نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘
’’تم میرا ساتھ دو تو سب کچھ ممکن ہے۔ میں اپنی ممی سے بات کرچکا ہوں۔ شاید وہ کل آئیں تمہارے گھر۔‘‘ مراحم بولا۔
’’او کے۔ تم آنے سے پہلے فون کردینا۔ میری ممی خاصی بزی ہوتی ہیں۔‘‘ حبہ نے کہتے ہوئے کافی کا مگ اٹھایا اور لمبے گھونٹ بھرتے ہوئے مراحم سے بات کرنے لگی۔ پندرہ منٹ بعد وہ دونوں ریسٹورنٹ سے باہر نکلے اور اپنی کاروں میں روانہ ہوگئے۔ حبہ کو جِم جانا تھا جبکہ مراحم کی منزل گھر تھا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی مراحم لان میں پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ موسم سرما شروع ہوگیا تھا۔ شام ہونے کے باعث فضا میں خاصی خنکی تھی۔ خشک ہوا کی سرسراہٹ، پرندوں کی چہچہاہٹ، پھولوں کی خوشبو، اس کے دماغ کو تازگی بخشے لگی۔
’’صاحب! آپ کے لیے چائے لائوں؟‘‘ ادھیڑ عمر ملازمہ سنبل نے پوچھا تو مراحم نے منع کردیا۔ اتنے میں قمر جہاں بھی لان میں آگئیں۔ مراحم نے انہیں سلام کیا تو وہ سلام کا جواب دیتے ہوئے اس کے برابر کرسی پر بیٹھ گئیں۔
’’ممی! میں نے حبہ کو بتا دیا ہے کہ آپ کل اس کے گھر رشتہ لے کر آرہی ہیں۔ آپ تیار ہیں نا کل جانے کے لیے؟‘‘
’’ہاں! میں ضرور جائوںگی۔ تمہاری خوشی میں میری خوشی ہے۔ اچھی بات ہے جو تم نے شادی کا فیصلہ کرلیا ورنہ مجھے تو یوں لگتا تھا کہ میں تمہاری شادی کی حسرت لیے دنیا سے چلی جائوں گی۔‘‘
’’تھینک یو ممی! آپ بہت اچھی ہیں۔‘‘
اگلے دن مراحم، ممی کو حبہ کے گھر لے گیا۔ وہاں سے واپسی پر قمر جہاں کا موڈ سخت آف تھا۔ ’’مراحم! تم پاگل ہو کیا جو اس طرح کی لڑکی سے شادی کی خواہش کر بیٹھے ہو جس میں شرم نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ اس
ممی اور ڈیڈی نے ہماری کتنی بے عزتی کی، ہم پر واضح کردیا کہ ہماری اوقات کیا ہے۔ وہ ہم جیسے لوگوں کو اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دیں گے۔ ارے بھئی، جب انہیں اپنی بیٹی کی شادی تم سے نہیں کرنی تھی تو گھر آنے سے منع کر دیتے۔ اپنی خوبصورت بیٹی پر انہیں بڑا گھمنڈ ہے۔‘‘ قمر جہاں نے دل کی بھڑاس نکالی۔
’’سوری ممی! میری وجہ سے آپ کی بہت انسلٹ ہوئی۔‘‘
’’مراحم! میری بات یاد رکھنا، ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ تم لڑکیوں کی خوبصورتی سے متاثر ہونے کے بجائے ان کے کردار کو بھی دیکھو۔ اس لڑکی کو دیکھ کر صاف لگ رہا تھا اسے تم سے بالکل دلچسپی نہیں۔ تمہارے جیسے نجانے اس کے کتنے دوست ہوں گے۔ ایسی لڑکیاں کبھی خاندان کو جوڑ کر نہیں رکھ سکتیں، الٹا خاندان کا شیرازہ بکھیر دیتی ہیں۔‘‘ قمر جہاں غصے سے کانپ رہی تھیں۔
قمر جہاں کو گھر پر ڈراپ کرنے کے بعد مراحم بے ارادہ ایک ریسٹورنٹ میں پہنچ گیا۔ اس کے دل پر گہری اداسی چھائی ہوئی تھی۔ ویٹر آرڈر لینے آیا تو وہ کچھ دیر اسے خالی خالی نظروں سے یوں دیکھتا رہا جیسے وہ اس کی بات کا مفہوم سمجھ نہیں پا رہا ہو۔ پھر بولا۔ ’’ایک کافی لے آئو۔‘‘
ویٹر چلا گیا تو مراحم نے حبہ کا نمبر ملا لیا۔
’’خیریت ہے مراحم، ابھی تو تم مل کر گئے ہو؟‘‘
’’خیریت نہیں ہے۔ تمہیں اپنے ممی اور ڈیڈ کو بتانا چاہیے
تھا کہ تم مجھے پسند کرتی ہو۔ غالباً تم یہ بات ان کی نالج میں نہیں لائیں تبھی تمہارے ڈیڈ نے ہماری انسلٹ کی کہ ہم لوگ ان کے قابل نہیں ہیں۔‘‘ مراحم نے خود کو پُرسکون رکھتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
’’تم سے میں نے کب کہا کہ میں تمہیں پسند کرتی ہوں اور تمہاری خاطر اپنے والدین سے بغاوت پر آمادہ ہوں۔ میرے ڈیڈ نے تمہیں ریجیکٹ کیا ہے تو اس کی وجہ بھی تمہیں پتا ہے۔ بہتر ہے آج کے بعد تم اس موضوع کو ختم کردو ورنہ ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ بھی نہ رہے گا۔‘‘
’’اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی دوستی کا رشتہ باقی رہنے کی توقع کررہی ہو۔ مجھے لگ رہا ہے تم نے ہمیں اپنے گھر محض اس لیے بلایا تھا کہ ہماری انسلٹ کروا کر مزہ لو۔ تم نفسیاتی مریض ہو۔‘‘
’’شٹ اَپ!‘‘ حبہ نے کہتے ہوئے موبائل آف کردیا۔ مراحم کا موڈ مزید آف ہوگیا۔ اس نے بل ادا کیا اور کافی پیئے بغیر ہوٹل سے نکل گیا۔
٭…٭…٭
قمر جہاں حیران تھیں کہ مراحم نے اس دن کے بعد سے حبہ کے موضوع پر چپ سادھ لی تھی۔ اس نے دوبارہ گھر میں حبہ کا ذکر نہیں کیا تھا۔ ایک دن مراحم رات گئے گھر لوٹا تو وہ شکل سے خاصا تھکا ہوا لگ رہا تھا۔
’’بیٹا! اپنی صحت کا خیال رکھو۔ دیکھو تمہاری رنگت کیسی زردی مائل ہوگئی ہے۔ کھانا لگوائوں۔‘‘ قمر جہاں نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
’’ممی! آج نعمان ملنے آیا تھا، اس کے ساتھ سیخ کباب کھا لیے تھے۔ بھوک بالکل محسوس نہیں ہورہی۔‘‘
’’مجھے پتا ہے تم نے کتنا کھایا ہوگا۔ ایک تمہارے پاس فرصت بالکل نہیں ہوتی کہ تم سے کوئی بات کرے۔ نعمان کل دوپہر میں مجھ سے بھی ملنے آیا تھا۔ بتا رہا تھا کہ وہ کینیڈا میں سیٹل ہوگیا ہے۔ میں نے اس سے کہا آئندہ آنا تو اپنی بیوی اور بیٹے کو بھی ساتھ لے کر آنا۔ تمہارے بارے میں کہہ رہا تھا کہ تمہیں بھی شادی کرلینی چاہیے۔‘‘
’’ہاں! وہ صحیح کہہ رہا تھا۔ مجھے واقعی شادی کرلینی چاہیے۔‘‘
قمر جہاں کی بات مکمل ہوتے ہی مراحم بولا تو انہیں یقین نہیں آیا۔ وہ بولیں۔ ’’مراحم! تم کس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو، مجھے اس کے بارے میں بتائو۔‘‘
’’آپ کی مرضی، آپ جس لڑکی سے کہیں گی، میں شادی کرلوں گا۔ میں نے اب یہ معاملہ آپ پر چھوڑ دیا ہے۔‘‘
’’شکر ہے اللہ کا جو تم نے اس فیصلے کا اختیار مجھے سونپا۔ میں آج ہی بھائی جان سے بات کرتی ہوں۔ سبرینہ کی شادی تم سے ہو، یہ اماں جی کی دلی خواہش ہے۔ دیکھنا اس رشتے کا ذکر سنتے ہی اماں جی کی بیماری بھاگ جائے گی۔ وہ دوبارہ جی اٹھیں گی۔‘‘ قمر جہاں خوشی سے سرشار لہجے میں بولیں۔
’’امی! میں سبرینہ سے شادی کے لیے تیار ہوں کیونکہ اس میں آپ کی خوشی کے ساتھ ساتھ نانو کی خوشی بھی وابستہ ہے، مگر میں ایک بات واضح کردوں کہ سبرینہ کو شادی کے بعد پاکستان میں رہنا ہوگا، میں اس کے پیچھے ہالینڈ نہیں جائوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹا! جیسا تم چاہتے ہو، ویسا ہی ہوگا۔ سبرینہ یقیناً تمہارے لیے اچھی ثابت ہوگی۔‘‘ قمر جہاں
کہتے ہوئے اٹھ کر فوراً اپنے بھائی کو فون کرنے لگیں۔
٭…٭…٭
مراحم سڑک پر بے مقصد گاڑی دوڑا رہا تھا کہ ایک جگہ رش دیکھ کر وہ کار سے نیچے اترا۔ سڑک پر ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ لوگ زخمی کو ایمبولینس میں ڈال رہے تھے۔ مراحم واپس گاڑی میں بیٹھنے کے لیے مڑا تو کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو سامنے یاسر کھڑا تھا۔
’’یاسر! تم یہاں کیسے؟‘‘ مراحم کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’یہ بات میں تم سے بھی پوچھ سکتا ہوں۔ چلو کسی اچھے ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔‘‘ یاسر بولا۔ مراحم اس کے ساتھ نزدیکی ہوٹل میں جا بیٹھا۔
’’میری طرف سے اپنی شادی کی مبارک باد دیر سے ہی سہی قبول کرو۔‘‘ یاسر نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں کارڈ تو بھجوایا تھا، تم آئے نہیں۔‘‘ مراحم نے شکوہ کیا۔
’’میں یہاں ہوتا تو ضرور آتا۔ ان دنوں میں چائنا گیا ہوا تھا۔ تمہاری شادی ہوتے ہی میڈم حبہ نے بھی شادی کرلی۔ میں نے حبہ کے ہسبینڈ کو دیکھا تو نہیں ہے مگر جاننے والوں سے سنا ہے خاصی بڑی عمر کا ہے۔ تم سنائو اپنی شادی شدہ زندگی سے خوش تو ہو نا؟‘‘
یاسر کے اس سوال پر مراحم کی اداسی آنکھوں میں آگئی۔ ’’خوشی کیسی؟ میں نے یہ سوچ کر ممی پر شادی کا فیصلہ چھوڑا تھا کہ وہ میرے لیے اچھی لڑکی کا انتخاب کریں گی مگر سب کچھ الٹ ہوگیا۔ سبرینہ حد سے زیادہ ضدی، سرکش اور اپنی بات منوانے والی لڑکی ہے۔ جب سے شادی ہوئی ہے، میری زندگی سے سکون نام کی چیز ختم ہوگئی ہے۔ سبرینہ مجھ پر مستقل دبائو ڈال رہی ہے کہ میں ہالینڈ سیٹل ہوجائوں، وہ یہاں نہیں رہ سکتی۔ مگر میں اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں کروں گا۔‘‘
’’میری مانو تو بھابی کی بات مان لو۔ تمہارے کافی رشتے دار ہالینڈ میں رہتے ہیں، وہاں اچھی طرح سیٹ ہوجائو گے۔‘‘ یاسر بولا۔
’’میں نے کبھی ہالینڈ میں سیٹل ہونے کے بارے میں نہیں سوچا۔ میں یہاں ہی خوش ہوں، اپنے کام سے مطمئن، مجھے زیادہ کی خواہش نہیں۔‘‘
’’جیسی تمہاری مرضی۔‘‘ یہ کہہ کر یاسر نے گفتگو کا موضوع بدل دیا۔
٭…٭…٭
کالے بادل تیزی سے نیلے آسمان پر پھیلتے جارہے تھے۔ عنیزہ نے بس سے اترتے ہی اپنے قدم تیزی سے گھر جانے والے راستے کی طرف بڑھا دیئے۔ اسٹاپ سے گھر پہنچنے کا فاصلہ دس منٹ کا تھا۔ اس دس منٹ کے دوران وہ اچھی خاصی بھیگ گئی تھی۔ گیٹ کھلا ہوا تھا، اس لیے عنیزہ فوراً گھر میں داخل ہوگئی اور اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
صبا بانو نیچے موجود نہیں تھیں۔ ہوسکتا ہے امی اوپر گئی ہوں۔ عنیزہ نے سوچا۔ اپنے کمرے میں پرس بیڈ پر رکھ کر وہ کپڑے تبدیل کرنے واش روم میں گھس گئی۔ کپڑے تبدیل کرکے اس نے پرس سے تنخواہ کا لفافہ نکالا اور تنخواہ سے کاٹی جانے والی رقم کا حساب لگانے لگی۔ پچھلے مہینے بیماری کے باعث عنیزہ نے ایک ہفتے کی چھٹی کی تھی جس کے سبب اس کی تنخواہ سے اچھے خاصے پیسے کاٹ لئے گئے تھے۔ اب وہ سوچ رہی تھی کہ اس مہینے گھر کا خرچ چلانا امی کے لیے خاصا مشکل ہوجائے گا۔ پہلے اوپر کا پورشن صبا بانو نے کرائے پر دیا ہوا تھا۔ داماد کی وفات کے بعد صبا بانو نے وہ پورشن رمیعہ کو رہنے کے لیے دے دیا تھا۔ رمیعہ اپنے دو بچوں کے ساتھ اوپر مقیم تھی۔ وہ سلائی کرکے اپنے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کررہی تھی مگر گزارہ ہونا ممکن نہیں تھا۔ جس علاقے میں وہ لوگ رہتے تھے، وہاں سلائی کی بہت کم اجرت ملتی تھی۔ حالات خراب ہونے کے باعث رمیعہ اپنے دونوں بڑے بچوں کو اسکول بھی نہیں بھیج پا رہی تھی۔
عنیزہ جاگتی آنکھوں سے اپنی فیملی کے لیے بہت کچھ کرنے کا خواب دیکھتی تھی مگر اس کے خواب جی جان سے محنت کرنے کے باوجود پورے نہیں ہورہے تھے۔ اس وقت بھی وہ لفافہ ہاتھ میں لیے سوچوں میں گم بیٹھی تھی، تبھی صبا بانو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں۔ ’’عنیزہ! تم اسکول سے سے آگئیں، میں تمہارا انتظار کررہی تھی۔‘‘
’’آپ کہاں تھیں؟ باہر کا گیٹ بھی کھلا ہوا تھا۔‘‘ عنیزہ نے پوچھا۔
’’اچھا گیٹ کھلا ہوا تھا۔ بچوں نے کھلا چھوڑ دیا ہوگا۔ خیر ہمارے گھر میں ہے کیا جو کوئی لے کر جائے گا۔ میں چھت سے کپڑے اٹھانے گئی تھی۔ تنخواہ مل گئی کیا؟‘‘
’’جی مل گئی ہے۔ صرف پانچ ہزار روپے ملے ہیں۔ یہ رکھ لیں آپ۔‘‘ عنیزہ نے لفافہ اپنی امی کی طرف بڑھایا۔
’’یہ
پرائیویٹ اسکول والوں کو اللہ سمجھے، بچوں سے فیس کے نام پر بے حساب پیسہ بٹورتے ہیں لیکن ٹیچروں کا خون نچوڑ کر تنخواہ آدھا مہینہ گزر جانے کے بعد دیتے ہیں۔‘‘ صبا بانو لفافہ لیتے ہوئے بڑبڑائیں۔
’’امی! رمیعہ بجو نظر نہیں آرہی ہیں، بچوں کے ساتھ کیا اوپر ہیں؟‘‘
’’ہاں! اوپر ہی ہے، اچھا ہے بچے اوپر رہیں۔ بچوں کے نیچے آنے سے پورا گھر پھیل جاتا ہے۔ اچھا خاصا اوپر کے پورشن کا کرایہ مل جاتا تھا، رمیعہ کی بیوگی کے سبب وہ بھی گیا، اوپر سے اس کے تین بچے۔ سوچ رہی ہوں کیا ہوگا، کیسے خرچا پورا ہوگا۔ اب تو کہیں سے ادھار بھی نہیں ملے گا۔ لوگ ادھار بھی ان لوگوں کو دیتے ہیں جن کی اتارنے کی سکت ہو۔ ہماری اوقات دیکھ کر ہمارے رشتے داروں نے ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔‘‘ صبا بانو افسردہ لہجے میں بولیں۔
’’رشتے داروں نے منہ موڑ لیا ہے تو کیا ہوا، میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ کچھ بن کر دکھائوں گی۔ اس غربت زدہ زندگی سے میں تنگ آچکی ہوں، میں اپنی تقدیر بدلوں گی۔‘‘ عنیزہ فیصلہ کن لہجے میں بولی۔
’’تقدیر بدلنا اگر انسان کے بس میں ہوتا تو اس دنیا میں کوئی غریب نہ ہوتا۔‘‘ صبا بانو نے طنزیہ انداز میں کہا۔
’’امی! میں نے اپنا پروفیشن تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور مجھے آپ سے امید ہے کہ آپ میرا ساتھ دیں گی۔‘‘
’’پہلے پتا تو چلے تم کون سی نئی جاب کرنے جارہی ہو؟‘‘
’’امی! آپ میری پرانی دوست زیبا سے تو اچھی طرح سے واقف ہیں، اس سے میری آج فون پر بات ہوئی تھی۔ جو کام میں کرنا چاہ رہی ہوں، زیبا نے اس سلسلے میں میری مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
زیبا کا نام سنتے ہی صبا بانو کے چہرے کے زاویئے بگڑ گئے۔ وہ تیز لہجے میں بولیں۔ ’’منحوس ماری زیبا تمہیں کہاں مل گئی۔ میں نے تمہیں منع کیا تھا اس سے رابطے کی کوشش مت کرنا۔‘‘
’’امی! اپنی غرض پوری کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو شروع سے میری اور زیبا کی دوستی سے خدا واسطے کا بیر تھا۔‘‘
’’بہت زبان چل رہی ہے۔ تمہاری اور زیبا کی عمروں میں بہت فرق تھا۔ اس وجہ سے مجھے تمہاری اس سے دوستی پسند نہیں تھی۔ عمر میں وہ تم سے سات آٹھ سال بڑی تھی، اوپر سے اس کی حرکتیں کلموہی کہیں کی۔‘‘ صبا بانو زہرخند لہجے میں بولیں۔
’’امی! بس بھی کریں۔ زیبا اتنی بری نہیں جتنا آپ اسے سمجھ رہی ہیں۔ سوتیلی ماں کے ظلم و ستم کا شکار تھی۔ اپنے خواب پورے کرنے کے لیے اگر وہ گھر سے چلی گئی تو کیا ہوا۔‘‘ عنیزہ اطمینان بھرے لہجے میں بولی۔
’’بہت خوب! جو لڑکی گھر سے بھاگ جائے، وہ تمہاری نظر میں معتبر ٹھہرے گی۔ سیدھی طرح بتائو تمہارا اس سے رابطہ کیسے ہوا؟ اس کی ماں کو اس محلے سے گئے دو سال ہوچکے ہیں۔‘‘
’’امی! پچھلے ماہ زیبا یہاں آئی تھی مجھ سے ملنے، میں نے یہ بات آپ کو نہیں بتائی۔ آپ اور رمعیہ بجو، زبیدہ ممانی کے گھر تعزیت کے لیے گئے تھے۔ میں زیبا کو اپنے گھر کے باہر کھڑے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ مجھے امید نہیں تھی کہ وہ مجھ سے ملنے آئے گی۔ امی! زیبا اپنے خواب پورے کرنے کے لیے گھر سے نکلی تھی۔ وہ تمام خواب تو پورے نہیں ہوسکے۔ ایکٹنگ میں تو اسے چانس نہیں مل سکا مگر اس نے ماڈلنگ کرکے اپنا شوق پورا کرلیا۔ ماڈلنگ کی بدولت اس کی شادی ایک وڈیرے سے ہوگئی۔ اس کے شوہر نے کراچی میں اسے گھر لے کر دیا ہوا ہے۔ وہ عیش کی زندگی گزار رہی ہے۔ محلے کے سب لوگ زیبا کے ماضی کو بھول چکے ہیں۔ ایک آپ ہیں جو گزری باتیں یاد رکھتی ہیں۔ زیبا نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر مجھے اس کی مدد کی ضرورت ہو تو میں اس سے رابطہ کرسکتی ہوں، اس لیے میں نے سوچا ہے کہ مجھے زیبا سے ماڈل گرل بننے کے لیے مدد لینی چاہیے۔ میں اس بور جاب سے تنگ آچکی ہوں۔ اسکول میں سر کھپا کر آئو، پھر گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھائو۔ بچے فیل ہوجائیں تو ان کے گھر والوں کی باتیں سنو۔ اتنی محنت کرنے کے بعد بھی پیسوں کے لیے پریشان ہی رہو۔‘‘
صبا بانو نے عنیزہ کی بات بڑے تحمل سے سنی۔ پھر کہا۔ ’’عنیزہ! تم جذباتی انداز میں سوچ رہی ہو۔ میں ہرگز تمہیں اس فیلڈ کو اپنانے کا مشورہ نہیں دوں گی۔ تم جانتی نہیں ہو کہ لوگ اس فیلڈ سے وابستہ لڑکیوں کے متعلق کس قسم کی رائے رکھتے ہیں۔‘‘
’’امی! آپ لوگوں کی باتوں کو خود پر حاوی کرنا چھوڑ دیں۔ ہمیں اپنا گھر چلانا ہے۔ رمیعہ بجو کے سسرال والوں کو لے لیں، ان
جیٹھ نے بھائی کے مرنے کے بعد کیسے رمیعہ بجو، ان کے بچوں کو گھر سے چلتا کیا۔ رمیعہ بجو پڑھی لکھی تو ہیں نہیں جو انہیں ڈھنگ کی جاب ملے گی۔ انہیں اپنے تینوں بچوں کو پڑھانا ہے۔ ان حالات میں آپ خود فیصلہ کریں، آگے مزید خرچے بڑھیں گے۔ بجو کے چھوٹے بچے کے علاج کے لیے ہمیں بڑی رقم کی ضرورت ہے۔ شرجیل کے دل میں سوراخ ہے، اس کے آپریشن کے لیے کہاں سے پیسہ آئے گا؟‘‘ عنیزہ کی آواز رندھ گئی۔
’’میں کیا کروں، میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میں اپنی غرض پوری کرنے کے لیے خودغرض ہوگئی ہوں۔ جانتی ہوں کہ تمہاری شادی کرنے کی عمر ہے مگر اب میں اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ گھر کی پوری ذمہ داری تم پر ہے۔ بالفرض میں تمہاری شادی کے متعلق سوچوں بھی تو حالات کے آگے بے بس ہوں۔ شادی کے لیے ایک بڑی رقم چاہیے۔ پھر ہم جیسے لوگوں کے حالات سے سب واقف ہیں۔ کون ہوگا جو تمہارے لیے رشتہ لے کر آئے گا۔ اوپر سے رمیعہ حالات کی ماری یہاں آگئی ہے۔ تمہاری خواہش پوری نہیں ہوسکتی۔ جو کررہی ہو، وہی کرو۔‘‘
’’امی! آپ کو مجھے اجازت دینا ہوگی ورنہ مجبوراً مجھے آپ کی مرضی کے خلاف یہ قدم اٹھانا ہوگا۔ میں جو کچھ کررہی ہوں، آپ لوگوں کے لیے کررہی ہوں۔ ہم لوگ کب تک ترستی ہوئی زندگی گزاریں گے۔ شرجیل ایک ہفتے سے سانس کی تکلیف کا شکار ہے۔ ہمارے پاس ڈھنگ کے ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ بیچاری بجو سرکاری اسپتال میں دھکے کھاتی پھر رہی ہیں۔ اللہ کے واسطے امی! میں جو کرنے جارہی ہوں، مجھے کرنے دیں۔ آپ کے انکار کی وجہ میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ آپ محض لوگوں کی باتوں سے خوف زدہ ہوکر مجھے منع کررہی ہیں۔ لوگوں کا کام ہی باتیں بنانا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ ہم بھی اس محلے سے نکلیں، بجو کے بچے سرکاری اسکول کے بجائے اچھے پرائیویٹ اسکول میں پڑھیں۔ ہمارا بھی حق ہے، ہم اچھی زندگی گزاریں۔ یہ محلے کے لوگ جو زیبا کی برائی کرتے نہ تھکتے تھے، اب اس کی دولت کے گن گاتے پھرتے ہیں۔ اس دنیا میں اہمیت صرف دولت کی ہے اور وہ میں حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
عنیزہ کی بات سن کر صبا بانو گہری سوچ میں پڑ گئیں۔ کچھ دیر خاموشی سے بیٹھی سوچتی رہیں۔ پھر گویا ہوئیں۔ ’’زیبا برسوں پہلے گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی، تمہارا اس سے رابطہ کیسے ہوا؟‘‘
’’زیبا جب ماڈلنگ میں آئی تھی تو فیس بک پر میرا اس سے رابطہ ہوگیا تھا۔ میں نے یہ بات آپ سے چھپائے رکھی تھی۔ آپ کو پتا چل جاتا تو آپ مجھ پر غصہ ہوتیں۔ ایک ماہ پہلے زیبا کراچی سے یہاں آئی تھی تو مجھ سے ملی تھی۔ میں نے اس سے اپنے گھریلو حالات کی پریشانی کا ذکر کیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ میں اپنا پروفیشن تبدیل کرلوں۔ زیبا کا پرسوں موبائل پر مجھ سے رابطہ ہوا تھا۔ اس نے مجھے کراچی بلایا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے میں ہفتے کے دن کراچی روانہ ہوجائوں گی۔ وہاں زیبا کی مدد سے اسکرین ٹیسٹ دوں گی۔ اگر میں کامیاب ہوگئی تو پھر کراچی میں ہم لوگ شفٹ ہوجائیں گے۔ فی الحال مجھے زیبا کے گھر میں رکنا پڑے گا۔‘‘ عنیزہ نے تفصیل بتائی۔
صبا بانو نے ’ہونہہ‘ کہہ کر لمبی سانس کھینچی، پھر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے بولیں۔ ’’تمہاری خواہش کو دیکھتے ہوئے میں نے مجبوراً ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ قبل اس کے کہ تم کوئی غلط قدم اٹھائو، میں تمہیں قسمت آزمانے کی اجازت دے دیتی ہوں۔ تم کراچی جائو گی تو میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔ پتا نہیں زیبا کے گھر کا ماحول کیسا ہے، یہ مجھے اس کے گھر جاکر ہی معلوم ہوگا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ آپ میرے ساتھ چلیں، آپ کو تسلی ہوجائے گی۔‘‘ عنیزہ نے خوشی سے سرشار لہجے میں کہا۔ اسے قطعاً امید نہیں تھی کہ امی اتنی جلدی راضی ہوجائیں گی۔
دوسری طرف صبا بانو سوچ رہی تھیں کہ انہوں نے عنیزہ کو اجازت دے کر بہتر ہی کیا ہے۔ گھر کے اخراجات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عنیزہ نے جن مسائل کا ذکر کیا تھا، وہ صبا بانو سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔
٭…٭…٭
’’کلثوم! سبرینہ سے جاکر کہو، مراحم کے دوست آئے ہیں، کچن میں آکر میرے ساتھ کھانے کی تیاری کروائے۔‘‘ قمر جہاں کے حکم پر ان کی ملازمہ، سبرینہ کے کمرے میں پہنچی۔ دروازہ ناک کرکے وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ بیڈ پر سبرینہ لیپ ٹاپ لیے بیٹھی تھی۔ کلثوم کو سامنے دیکھ کر وہ ناگواری سے بولی۔ ’’کیا ہے؟‘‘
’’وہ
مراحم صاحب کے کچھ دوست آئے ہیں۔ بیگم صاحبہ آپ کو کچن میں بلا رہی ہیں۔ آپ کچن میں آکر کھانے کی تیاری کروائیں۔ بیگم صاحبہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، بلڈ پریشان لو ہورہا ہے۔‘‘
’’میں مراحم اور اس کی ممی کی نوکر نہیں ہوں۔ اتنی گرمی میں میرا کچن میں جانے کا کوئی موڈ نہیں۔ مراحم سے کہو کہ وہ ہوٹل سے کھانا لے آئے۔‘‘ سبرینہ نے یہ کہہ کر اپنی نظریں لیپ ٹاپ پر مرکوز دیں۔
کلثوم نے کچن میں جاکر قمر جہاں سے سبرینہ کی کہی بات دہرائی۔ ’’میرے بیٹے کے لیے یہ بد زبان سبرینہ ہی رہ گئی تھی جس کی تعریفیں اماں بی اٹھتے بیٹھتے کرتی رہتی تھیں۔ اماں بی خود تو دنیا سے چلی گئیں، سبرینہ جیسی مصیبت ہمارے سر ڈال گئیں۔ یہ لڑکی شکل سے جتنی معصوم نظر آتی تھی، اتنی ہی مکار اور ضدی ہے۔ ہم ماں، بیٹے کی زندگی اس نے عذاب بنا دی ہے۔ چلو کلثوم! تم جلدی سے پیاز اور سبزیاں کاٹو، میں کھانے کی تیاری میں تمہاری مدد کرتی ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے قمر جہاں نے نظر اٹھائی۔
کچن کے دروازے پر مراحم کھڑا تھا۔ ’’میں سبرینہ کا دماغ ٹھیک کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ایک جھٹکے سے مڑا اور اپنے بیڈ روم کی جانب بڑھا۔ سبرینہ نے کمرے میں داخل ہوتے مراحم پر بے نیازی سے ایک نظر ڈالی اور اپنی توجہ لیپ ٹاپ پر مرکوز کرلی۔ مراحم مزید طیش میں آگیا۔ اس نے سبرینہ کو غصیلی نظروں سے گھورا، پھر چلایا۔ ’’میں روز روز کے تماشوں سے تنگ آگیا ہوں۔ کتنی بار سمجھا چکا ہوں اس گھر کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے گھر کے کاموں میں دلچسپی لو مگر تم سارا دن اپنے کمرے میں پڑی رہتی ہو یا کہیں گھومنے نکل جاتی ہو۔ ایسا آخر کب تک چلے گا؟‘‘ مراحم نے سبرینہ کا بازو پکڑتے ہوئے اس کا رخ اپنی طرف کیا۔
’’ایسا اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک تم میری بات نہیں مان لیتے۔ تم میرے ساتھ ہالینڈ چلو، میرا یہاں کے ماحول میں دم گھٹتا ہے۔‘‘
’’دیکھو سبرینہ! میرا تمہارے ساتھ باہر سیٹل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی میں نے اس لالچ میں تم سے شادی کی تھی۔ بہتر ہوگا کہ تم خود کو یہاں ایڈجسٹ کرلو۔‘‘ مراحم نے اپنے لہجے کو دھیما کرتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ہرگز نہیں! تم میری یہ خواہش پوری نہیں کرسکتے تو مجھے آزاد کردو۔‘‘ سبرینہ حتمی لہجے میں بولی۔
مراحم کے جی میں آیا کہ اس کے منہ پر تھپڑ مار دے۔ اسے بدتمیز اور خود سر لڑکیوں سے نفرت تھی مگر عورت پر ہاتھ اٹھانا وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتا تھا۔ ڈرائنگ روم میں اس کے دوست بیٹھے ہوئے تھے، ان کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے مراحم نے سبرینہ سے الجھنا بیکار سمجھا۔ وہ تیزی سے کمرے سے باہر چلا گیا۔
٭…٭…٭
ہفتے کی صبح عنیزہ، صبا بانو کے ساتھ کراچی جانے والی بس میں سوار ہوئی۔ بس میں ویسے تو خاصا رش ہوتا تھا مگر اس وقت مسافروں کی تعداد کم تھی۔ عنیزہ اور صبا بانو بس میں دائیں طرف ایک خالی نشست پر بیٹھ گئیں۔
عنیزہ، صبا بانو کے ساتھ زیبا کے گھر پہنچی تو زیبا اپنے شوہر علی شیر کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی۔ عنیزہ، زیبا کے لیے بہت سارے گفٹ بھی لے کر آئی تھی۔ زیبا اور اس کے شوہر نے عنیزہ اور اس کی امی کو دیکھ کر خوش نظر آنے کی کوشش کی۔
’’تو تم نے آخر اپنی قسمت سنوارنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔‘‘ زیبا نے اگلے دن ناشتے سے فارغ ہوکر تنہائی میں عنیزہ سے کہا۔ صبا بانو کو اس نے بہانے سے کچن میں بھیج دیا تھا۔ زیبا نے صبا بانو سے کوفتے اور ساگ بنانے کی فرمائش کی تھی۔ صبا بانو، زیبا کی فرمائش پر فوراً کچن میں چلی گئی تھیں۔ ’’ہاں! اور شکر ہے امی بھی مان گئیں۔ میں انہیں دکھ دے کر یہ کام نہیں کرنا چاہتی تھی۔‘‘ عنیزہ نے اپنے دل کی بات کہی۔
’’عنیزہ! اب تم نے اس پروفیشن میں آنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو میرا یہ فرض بنتا ہے کہ تمہیں اس فیلڈ سے متعلق گائیڈ کروں۔ یہاں تمہارا سابقہ ہر قسم کے مردوں سے پڑ سکتا ہے۔ اچھے، برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ برے لوگوں سے خود کو بچانا تمہارا کام ہے۔ میں تمہیں کل ایڈورٹائزنگ کمپنی میں لے چلوں گی۔ وہاں کے ڈائریکٹر سے میری جان پہچان ہے۔ آگے تمہاری قسمت ہے اور ہاں! آنٹی کو تم سمجھا دینا، وہ گھر پر رہیں۔‘‘
’’اوکے! میں امی کو سمجھا دوں گی۔‘‘ عنیزہ نے سر ہلایا اور زیبا کے ساتھ ماضی کی یادوں میں گم ہوگئی۔
پیر کے دن صبح گیارہ بجے وہ زیبا کے ساتھ
ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں موجود تھی۔ عنیزہ نے محسوس کیا ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں کام کرنے والی تمام لڑکیاں بے حد خوبصورت ہیں۔ اسے اپنا وجود ان کے آگے کمتر محسوس ہونے لگا۔ ڈائریکٹر فیصل کے کمرے میں آنے کے کچھ دیر بعد زیبا، عنیزہ کو ساتھ لیے اندر داخل ہوئی۔
’’ایکسکیوزمی! کیا میں اندر آسکتی ہوں؟‘‘ زیبا نے پوچھا۔
(جاری ہے)