ہمارے علاقے میں ڈوم قوم کے کچھ گھرانے آباد تھے جن کا ذریعہ معاش بھیک مانگنا تھا۔ انہوں نے بڑے بڑے تھیلے بنا رکھے تھے۔ وہ صبح منہ اندھیرے ہی سے گاؤں گاؤں پھرتے رہتے اور جب شام کو واپس آتے تو ان کے تھیلے آٹے سے بھرے ہوتے۔ طویل عرصے تک ان کا یہی کام رہا۔ جب ان کی اولاد جوان ہو گئی اس نسل نے اپنے بزرگوں کو اس دھندے سے منع کر دیا اور یہ لوگ محنت مزدوری کرنے کی طرف مائل ہو گئے۔ ان میں سے کچھ کھیتی باڑی کرنے لگے اور کسی نے گاؤں کا چوکیدارہ سنبھال لیا۔ ایک گھرانہ ”ہاکو “ تھا۔ یہ ریوڑ ہانکتے تھے ، سو چرواہے بن گئے۔ ہاکو چرواہے کے بہت سے بچے تھے ، جن میں ایک لڑکا کمالا بھی تھا۔ اسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا مگر اس کا باپ اسے پڑھنے نہیں دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ہمارا کام لوگوں کے ڈھور ڈنگر چرانا ہے ، لکھنا پڑھنا نہیں۔ باپ کے منع کرنے کے باوجود کمالا چھپ چھپ کر پڑھنے کا شوق پورا کرتا تھا۔ ان دنوں میرے والد صاحب بھی ایک طالب علم تھے۔ ان کا اسکول گاؤں سے کوئی تین میل کے فاصلے پر تھا۔ کمالے کی ابو جان سے دوستی ہو گئی۔ جس راستے پر ابو اسکول پڑھنے جاتے تھے ، کمالا اس راستے پر جانور چرانے جاتا تھا۔ ابو کو بستہ اٹھائے جاتے دیکھ کر اس کا دل کرتا کہ وہ بھی اسکول جائے، تبھی اس نے ابو سے دوستی کر لی۔ آخر اس نے ابو جان کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ ان کے گھر سے اُن کا کھانا اسکول لے کر آیا کرے گا اور بدلے میں وہ اپنی کتابیں اس کو دیا کریں گے۔ میرے ابو نے یہ تجویز منظور کر لی۔ اس کے بعد کمالا اباجی کا کھانا اسکول لے جانے لگا اور وہ نہ صرف اسکو اپنا سبق پڑھا دیا کرتے بلکہ اپنی کتابیں بھی پڑھنے کو دیا کرتے تھے۔ ایک دن کمالے کے باپ کو اس بات کا پتا چل گیا۔ بس پھر کیا تھا، اسے اتنی مار پڑی کہ بدن پر نیل پڑ گئے۔ وہ تکلیف کی شدت سے سارا دن تڑپتا رہا۔ شام کو ماں نے ہلدی اور گھی گرم کر کے اس کے جسم کی ٹکور کی۔
دو تین دن تک وہ گھر میں پڑا رہا۔ وعدہ کیا کہ آئندہ نہیں پڑھے گا مگر کچھ دنوں بعد پڑھائی کے شوق نے پھر سر اٹھایا تو اس نے پھر سے اباجان کے پاس آنا شروع کر دیا۔ یوں ، اب وہ اکثر مار بھی کھاتا مگر پڑھائی سے باز نہ آتا، آخر تھک کر ماں باپ چپ ہو رہے اور کمالے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تو وہ باقاعدہ اسکول جانے لگا۔ چرانے کا کام چھوڑ شوق و لگن سے پڑھائی میں لگ گیا۔ چرواہے کی ڈیوٹی اب اس کے چھوٹے بھائی نے سنبھال لی تھی۔
کمالا ہر سال اچھے نمبروں سے پاس ہوتا رہا، گھر والوں کو اس کے پاس ہونے یا نہ ہونے سے کوئی سروکار نہ تھا۔ انہیں خوشی تھی ، نہ غم۔ دو وقت کی روٹی دے کر وہ اسے سینکڑوں صلواتیں سناتے تھے کہ حرام خور ڈھور ڈھنگر چھوڑ کر کتابیں لیے بیٹھا ہے ، کام چوری کا اچھا بہانہ تلاش کیا ہے۔ کمالا کے سینے میں بھی جیسے پتھر کا جگر تھا۔ اس نے کسی بات کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔ بالآخر فرسٹ ڈویژن سے میٹرک پاس کر لیا اور شہر جا کر چھوٹی سی نوکری تلاش کرلی تا کہ آگے تعلیم جاری رکھ سکے۔ گریجویشن کے بعد اسے ایک اچھی نوکری مل گئی۔ ماں باپ کو اب اس کی شادی کی فکر ہوئی اور انہوں نے خاندان کی ایک ان پڑھ ، گنوار لڑکی گوراں سے اس کی شادی کر دی۔ کمالے نے اس کا نام بدل کر عالمہ رکھ لیا ۔ اب وہ مسز عالمہ کہلانے لگی۔ عالمہ جب چھ ماہ شہر میں رہ کر گاؤں آئی تو پہچانی نہ جاتی تھی کہ یہ وہی گوراں ہے جو پھٹے پرانے کپڑے پہنے سارا سارا دن گندم کوٹتی اور دھان پھٹکتی تھی۔ جانوروں کو چارہ ڈالتی، – اب تو ایسار نگ نکالا کہ اس کا اصلی روپ ہی بدل گیا تھا۔ اب وہ سلیقے سے کپڑے پہنے ہوتی۔ اس کے بال بھی طرح دار بنے ہوتے۔ جب وہ دوسری بار گاؤں آئی تو اس کا لب ولہجہ بھی بدل چکا تھا۔ اب وہ اردو اچھی طرح بول سکتی تھی۔ گاؤں کی لڑکیاں، خاص طور پر اس کی قوم کی لڑکیاں گوراں کو حیرت و حسرت سے دیکھتی تھیں۔ جب وہ اونچی ہیل کا جوتا پہن کر ہاتھ میں پرس تھامے ایک ادا سے چلتی تو گاؤں کی عورتیں منہ میں انگلی داب لیتیں اور لڑکیاں اس کو پر شوق نگاہوں سے تکتی رہ جاتیں۔ گوراں کے میکے والوں کے تو قدم زمین پر نہیں پڑتے تھے۔ وہ اس نخوت سے مسرور تھے کہ ان کی بیٹی عیش کر رہی تھی۔ اچھے پہناوے سے اس کا مرتبہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ لوگ اس کو دیکھ کر رشک کرتے۔ گوراں نے ان کی عزت بڑھا دی تھی۔ گاؤں والے بھی اب ان کو کچھ سمجھنے لگے تھے چونکہ کمالہ افسر بننے کے بعد اب کمال صاحب بن گیا تھا اور وہ اس کے سسرالی تھے۔ ایک انہی کو کیا ساری برادری کو اس پر فخر تھا۔ کوئی کہتا، کمال رشتے میں می راماموں لگتا ہے تو کوئی کہتا، وہ میرا چچا ہے۔ کوئی بتلاتا بچپن کا دوست ہے میرا اور کوئی منہ بولا بھائی بتا کر فخر کا اظہارکرتا۔
کمال کے چار بچے ہو گئے ، دو لڑکے اور دو لڑکیاں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد اس کی ملاقات اپنے ساتھ کام کرنے والی لڑکی عروسہ سے ہو گئی تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو پڑھا لکھا اور بڑا افسر ہے ، لیکن اس کی بیوی ان پڑھ اور گنوار دیہاتن ہے۔ اس کی زندگی برباد ہے کہ اپنے جیسا جیون ساتھی نہیں ملا۔ اچانک اس کی سوچوں ہیں، ایسا انقلاب آ گیا کہ اس کے ذہن کی بساط ہی پلٹ گئی۔ اب وہ اپنی بیوی سے بیزار بیزار سا رہنے لگا۔ بالا کر ایک دن اس نے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرلی اور عالمہ کو پھر سے گوراں بنا کر گاؤں بھیجوا دیا۔ بچوں سے کہا کہ تم لوگوں کی چھٹیاں ہیں، کچھ دن نانا نانی کے پاس گاؤں رہ آؤ۔ جب اس کی بیوی بچے گاؤں چلے گئے تو اس نے سسر صاحب کو بیٹی کا طلاق نامہ بھجوا دیا۔ اس گھرانے پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی اور وہ سوگ میں چلے گئے۔ گوراں سے عالمہ تک کا سفر جتنی آسانی سے طے ہوا تھا ، اب واپسی اتنی ہی دشوار اور محال تھی۔ گوراں نے رو رو کر حال برا کر لیا۔ کئی دنوں تک چار پائی سے لگی رہی۔ ذہن کسی طور پر یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا کہ وہ محل سے پھر گھورے پر آ گئی ہے۔ کتنے ہی دن بعد لوگوں کے سمجھانے بجھانے سے اپنے ٹوٹے بکھرے وجود کو پھر سے جمع کیا کہ چار بچوں کا ساتھ تھا، ان کے کچھ تقاضے، کچھ ضرورتیں تھیں۔ باپ نے ساتھ چھوڑ دیا، اگر ماں بھی بچوں کا ساتھ نہ دے گی تو یہ معصوم کدھر جائیں گے ؟ یہ سوچ کر اس نے خود میں نئے سرے سے ہمت پیدا کی۔ کمالے نے چند ماہ بچوں کا خرچہ بھیجا، پھر رفتہ رفتہ یہ عنایت کم ہوتی گئی۔ بچوں کے دادا دادی کچھ نہ کچھ مدد کرتے رہتے تھے ، مگر یہ مدد نہ ہونے کے برابر تھی۔ بچے اب بڑے ہو رہے تھے اور ان کے اخراجات بھی بڑھتے جاتے تھے۔ نانی غریب تھی۔ اس صورت حال میں گوراں کو ہی کچھ کرنا تھا۔ اس نے تن تنہا ہی کمر کس لی۔ کوئی اور کام تو آتا نہیں تھا، تب اس نے بان بٹنا شروع کر دیا۔ کہاں تو گھر میں نوکر چاکر تھے اور کہاں یہ مشقت جھیلنی پڑ رہی تھی۔ سارا دن محنت مزدوری کرتی، تب بڑی مشکل سے اتنا کما پاتی کہ دو وقت اپنے بچوں کا پیٹ پال سکتی۔ سسر خود کثیر العیال تھا، وہ کتنی مدد کرتا۔ جب ان بچوں کے باپ کو رحم نہ آیا تو دادا کو کیوں آتا۔ اس دوران بچوں کا نانا دنیا سے کوچ کر چکا تھا، ور نہ گوراں کو یوں خون پسینہ ایک نہ کرنا پڑتا۔
وہی عالمہ جو کبھی اونچی ایڑی کا جوتا پہن کر اتراتی تھی ، ہوائی چپل بھی دور نگ کی پہننے لگی۔ چپل ٹوٹ جاتی تو اپنے ہاتھ سے موٹے دھاگے سے گانٹھ کر پھر سے پہن لیتی۔ پرس پکڑنے والے ہاتھ بان بٹ کر خراب ہو گئے تھے۔ اس کا بڑا بیٹا باپ کی بے وفائی سے انتظامی سوچوں کا شکار ہو گیا اور ماں کو ستا کر اپنی محرومیوں کا انتقام لینے لگا۔ چھوٹا اسکول جاتا تھا مگر فیس نہیں دے پاتا تھا لہٰذا اسکول چھوڑ وہ گلی کے بچوں کے ساتھ گولیاں کھیل کر وقت گزار نے لگا۔ گوراں نے جب اس کا شوق دیکھا تو ہر دم اس کو کہنے لگی کہ گولیاں ہی کھیلنی ہیں تو اتنی مہارت سے کھیلو کہ ہر دم تم ہی جیتو ۔ ان کو جمع کر کے بیچو گے تو فیس اور کتابوں کے پیسے جمع ہو جائیں گے ۔ لڑکا گولیاں کھیلتے کھیلتے فیس کے پیسے تو اکٹھے نہ کر سکا مگر جوا کھیلنے لگا اور پکا جواری بن گیا اور گوراں کے دل میں ایک اور گہرا گھاؤ بڑھ گیا۔ ہمارے گاؤں والے کہتے کہ گوراں نے جتنے دکھ اٹھائے ہیں، وہ ضرور جنت میں جائے گی اور کمالے کو اس کے کئے کی سزا ملے گی کیونکہ اس نے بیوی بچوں پر ظلم کیا ہے، مگر وہ تو دن بہ دن اونچے سے اونچا ہوتا جارہا تھا۔ دوسری بیوی سے اس کے دو بیٹے ہو گئے تھے۔ وہ ہوائی کمپنی میں افسر تھا۔ اس نے دو بار حج کیا، عمرے بھی کر لئے۔ کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ بچپن میں بکریاں ہانکنے والا کمالا اپنے معصوم بچوں اور بیوی کو بھول جائے گا۔ بھلا ایسی تعلیم ایسی افسری کا کیا فائدہ ! اس سے تو اچھا تھا وہ ایک چرواہا ہی رہتا۔ کم از کم اس کے بیوی بچے اس کے پیار کو نہ ترستے۔ بے شک وہ بڑا افسر بن کر گاؤں والوں کو بھول گیا تھا، لیکن میرے والد کو اس نے نہیں بھلایا۔ جب ابو شہر جاتے ، اس سے ملتے تو وہ بہت عزت سے پیش آتا۔ ان کی خاطر مدارات کرتا۔ ایک بار میرے ابو جان نے بیٹے کی نوکری کے بارے کہا تو اس نے میرے بھائی کو نجی ہوائی کمپنی میں ملازمت دلوا دی۔ والد کے احسان کا بدلہ اس نے اس طرح چکا دیا۔ کہتا تھا کہ آپ کی بدولت پڑھ پایا ہوں ورنہ میں کہاں تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔ عمر بھر چرواہا ہی رہتا۔ ابوجی نے بہت بار اسے یاد دلایا کہ تمہارے بچے گاؤں میں مفلوک الحال رہتے ہیں، تمہیں ان کا خیال کرنا چاہیے۔ تم نے ان کو بالکل بھلا دیا ہے ، یہ درست نہیں ہے۔ اس پر وہ خاموش ہو جاتا یا یہ جواب دیتا کہ چھوٹی بیوی نے قسم دلوا دی تھی کہ پہلے گھر والوں سے واسطہ نہ رکھوں گا۔ مجبور ہوں، گاؤں کے رشتے داروں کا آنا جانا ہو گیا تو میری شہر والی بیوی اور سسرال پر یہ راز کھل جائے گا کہ میں ڈوم ذات سے ہوں اور میرے آباؤ اجداد بھیک مانگا کرتے تھے۔