Thursday, April 18, 2024

Raaz Raaz He Raha | Teen Auratien Teen Kahaniyan

مجھے نہیں معلوم کہ ماں کیسی ہوتی ہے اور ماں کی محبت کیا ہوتی ہے۔ امی جان میری پیدائش کے بعد فوت ہوگئیں۔ دادی نے پالا۔ پھر بڑے بھائی کی شادی ہوگئی تو بھابی نے ماں جیسی محبت دی۔ دادی کے بعد میں انہیں اپنی ماں کا درجہ دینے لگی۔ میں پندرہ برس کی تھی کہ والد صاحب کو زمین کے تنازع پر کسی نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ دادا بھی حیات نہ تھے۔ بڑے بھائی طفیل اس وقت شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ تھے۔ دادا اور باپ کی دولت ہاتھ لگتے ہی طفیل بھائی بے لگام ہوگئے۔ یار دوستوں نے انہیں گھیر لیا اور غلط جگہوں پر لے جانے لگے۔ یوں میرے بھائی نے دولت کو دونوں ہاتھوں سے لٹانا شروع کردیا۔ بھائی نے بہت سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھے۔ وہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کرا دیتے تھے۔ مجھے بھابی کا ہی سہارا تھا۔ جب کبھی بڑے بھائی مجھ پر غصہ ہوتے، یہ ڈھال بن جاتیں، ان کا ہاتھ پکڑ لیتیں اور میری جگہ خود مار کھا لیتیں۔ بھائی مجھ پر بہت پابندیاں لگاتے تھے۔ کسی رشتے دار کے گھر جانے نہ دیتے۔ گھر سے تو کیا کھڑکی سے بھی باہر جھانکنے کی اجازت نہ تھی۔ کبھی باغ میں چلی جاتی اور انہیں پتا چل جاتا، بہت غصہ کرتے کہ میرے دوست وہاں آجاتے ہیں۔ تم بڑی ہوگئی ہو، کسی غیر مرد کے سامنے نہیں آنا ورنہ جان سے مار دوں گا۔ میرے باپ، دادا کی کافی زمین اور جائداد تھی جس کی پیداوار سے بہت اچھا گزارہ ہورہا تھا۔ خوشحالی تھی لہٰذا طفیل بھائی کو کام کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ طبیعت عیاشی کی طرف مائل ہوجائے، کمانے کی فکر نہ ہو تو انسان عیاشی پر روپیہ لٹانے لگتا ہے۔ نتیجے میں بہت جلد ہی دولت منہ موڑ لیتی ہے۔ بینک بیلنس ختم ہوگیا تو بھائی کی نظر زمین اور جائداد پر ٹک گئی۔ انہوں نے زمین فروخت کرنے کی ٹھان لی، بھابی نے روکا تو شوہر سے اتنی مار پڑی کہ اٹھ کر پانی پینے کے قابل بھی نہ رہیں۔ تب بھابی نے مجھے دادا کے بھائی کے گھر بھیج دیا کہ ان سے اور ان کے بیٹوں سے کہو طفیل کو روکیں۔ اس وقت تک میں اٹھارہ برس کی ہوچکی تھی۔ بھابی میری ماں کی جگہ تھیں اور میں ان کی ہر بات مانتی تھی۔ انہوں نے جیسا کہا، ویسا میں نے کیا۔ دادا کے بھائی اور ان کے بیٹوں نے تمام برادری کو اطلاع کردی کہ طفیل ساری زمین بیچنے کے درپے ہے۔ اس طرح اس کی بہن کا حق تلف ہورہا ہے۔ جس روز زمین کا سودا ہونے والا تھا، برادری کے چند بزرگ پہنچ گئے اور انہوں نے سودا رکوا دیا۔ کہا کہ پہلے جائداد سے بہن کا حصہ الگ کردو بعد میں جو تمہارا حصہ ہوگا، بے شک اسے فروخت کردینا۔ اس وقت تو بھائی جان بڑوں کے دبائو میں آگئے اور ان کی بات مان لی، سودا کینسل کردیا۔ لیکن ان کے جانے کے بعد انہوں نے بیوی کو بہت زدوکوب کیا۔ تمہیں طلاق دے دوں گا اگر آئندہ تم نے برادری والوں کو اطلاع کرائی، کیونکہ یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔ اس وقت بھائی پر جیسے وحشت سوار تھی، لہٰذا بھابی نے خوف کے مارے کہہ دیا کہ مجھے نہیں معلوم کس نے بڑے دادا کو اطلاع کرائی ہے۔ بھائی نے ملازمین سے پوچھا۔ سبھی ان سے ڈرتے تھے۔ ہمارے ڈرائیور روشن بابا نے بتا دیا کہ آپ کی بہن کو بی بی صاحبہ نے بڑے دادا کے گھر بھیجا تھا اور میں ہی لے کر گیا تھا۔ یہ سن کر ان کا بس نہ چلتا تھا کہ میرا گلا دبا دیں۔ برادری کا ڈر نہ ہوتا تو یقیناً وہ میرا گلا دبا دیتے۔ تاہم خود پر جبر کرکے خاموشی اختیار کرلی، مگر میری اور بھابی کی طرف سے دل میں کدورت رکھ لی۔ ایک دن بھائی نے مجھ سے پوچھا۔ تمہاری بھابی زیورات کہاں رکھتی ہیں؟ میں خوف زدہ ہوگئی۔ کہنے لگے۔ ڈرو نہیں، میں زیورات نہیں مانگ رہا۔ جانتا ہوں اسے زیورات بہت پیارے ہیں۔ جان دے دے گی مگر زیورات نہیں دے گی۔ آپ پھر کیوں پوچھ رہے ہیں؟ ڈرتے ڈرتے سوال کردیا۔ یونہی آج کل چوریاں بہت ہورہی ہیں۔ سوچ رہا تھا کہ حفاظت کی خاطر بینک کے لاکر میں رکھوا دوں۔ اچھا! یہ تو تمہیں پتا ہوگا کہ وہ چابیاں کہاں رکھتی ہے؟ مجھے نہیں معلوم اماں رحمت کو پتا ہوگا، بھابی کی چیزیں وہی سنبھالتی ہیں۔ دراصل بھائی جان کے سوالات سے جان چھڑانا چاہتی تھی، ورنہ مجھے سب معلوم تھا کہ بھابی زیور کہاں رکھتی ہیں اور ان کی چابیاں کہاں ہوتی ہیں۔ میں نے یونہی اماں رحمت کا نام لے دیا تھا، کیونکہ وہ ہماری پرانی ملازمہ تھیں۔ دادی کے زمانے سے ہمارے گھر رہتی تھیں۔ وہ ہمارے گھر کے فرد جیسی تھیں۔ دادا کے بچوں اور پھر ابا کے بچوں کو بھی انہوں نے پالا تھا۔ اس واقعہ کے کچھ دن بعد ایک روز جبکہ بہت گرمی تھی، ہم سب صحن میں سو رہے تھے۔ گرمی سے میری آنکھ کھل گئی۔ بجلی تھی نہیں، نیند کسی پہلو نہ آرہی تھی۔ تبھی میں نے بھابی کو جگایا کہ مجھے اوپر چھت پر سونا ہے۔ چھت پر اماں رحمت سویا کرتی تھیں۔ بھابی نے کہا۔ نیند مجھے بھی نہیں آرہی، چلو ہم اوپر چلے جاتے ہیں اور اماں رحمت کو نیچے بھیج دیتے ہیں۔ بھائی حسب معمول گھر پر نہیں تھے۔ بھابی نے سب سے چھوٹی بیٹی کو کندھے پر ڈالا اور میرے ساتھ چھت پر آگئیں۔ اماں رحمت کو جگا کر کہا کہ آپ نیچے چلی جائیں اور میرے بستر پر جاکر سو جائیں۔ نینا دودھ مانگے تو فیڈر دے دینا۔ اماں رحمت صحن میں بھابی کی چارپائی پر سو گئیں۔ میں اور بھابی چھت پر پڑی چارپائیوں پر لیٹ گئے۔ جانے کب ہماری آنکھ لگ گئی۔ آدھی رات کے بعد کچھ آہٹیں سی سنیں۔ یوں لگا جیسے ہمارے صحن میں کوئی چل پھر رہا ہو۔ خیال آیا کوئی بچہ تو اٹھ کر ہمیں تلاش نہیں کررہا؟ میں نے اوپر سے جھانکا تو میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ میں نے دو تین سائے صحن سے دروازے کی طرف جاتے دیکھے۔ مجھے بھائی جان کی بات یاد آگئی کہ آج کل چوریاں بہت ہورہی ہیں۔ میں نے دوڑ کر بھابی کو جگایا۔ اٹھیئے بھابی! ہمارے گھر میں چور آگئے ہیں۔ بھائی جان گھر پر نہیں ہیں، بچے صحن میں سو رہے ہیں۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں۔ اوپر سے جھانکا۔ انہیں کوئی نظر نہیں آیا۔ جو آئے تھے وہ جا چکے تھے۔ تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ اب تک ان پر غنودگی طاری تھی۔ نہیں بھابی! میں صحیح کہہ رہی ہوں۔ نیچے چل کر بچوں کو دیکھتے ہیں، اماں رحمت کو جگاتے ہیں۔ بھابی میرے ساتھ نیچے آگئیں۔ ٹارچ ان کے ہاتھ میں تھی۔ انہوں نے سارے بچوں پر لائٹ ڈالی۔ سب بے خبر سو رہے تھے، اماں رحمت بھی چارپائی پر موجود تھیں لیکن وہ اتنی گرمی میں سر سے پائوں تک چادر اوڑھے ہوئے تھیں۔ یہ عجب سی بات لگی کہ انہوں نے چادر میں کیوں خود کو ڈھانپ رکھا تھا، جبکہ شدید گرمی تھی۔ بھابی نے اماں رحمت کو جگانا چاہا، لیکن ان کے ہاتھ چادر کو چھوتے ہی گیلے ہوگئے۔ ٹارچ کی لائٹ ڈالی، چہرے سے چادر ہٹائی تو بھابی کی چیخ نکل گئی۔ پچھلے صحن میں ڈرائیور روشن بابا سو رہے تھے۔ بھابی کی چیخ سن کر وہ جاگ گئے۔ فجر کی اذان ہونے والی تھی۔ انہوں نے دیوار کے اُس طرف سے پوچھا۔ بی بی! خیر تو ہے؟ بڑی مشکل سے بھابی کے حلق سے الفاظ نکلے۔ بابا! ادھر آئیں، جلدی آئیں۔ بابا نے کہا۔ درمیان کے در کی کنڈی کھولیں تو آئوں گا بی بی! اسی وقت میں نے فجر کی اذان سنی۔ اس مسحورکن لحن کی طاقت سے جیسے میرے حواس بحال ہوگئے۔ میں نے دوڑ کر کنڈی کھول دی۔ روشن بابا صحن میں آگئے۔ وہ بھی اماں رحمت کو دیکھ کر سکتے میں رہ گئے۔ مسجد ہمارے گھر سے نزدیک تھی اور نمازی مسجد کی طرف جارہے تھے۔ بابا باہر نکلے۔ میں اور بھابی خوف سے ایک دوسرے سے لپٹ کر برآمدے میں بیٹھ گئے اور ان کے لوٹنے کا انتظار کرنے لگے۔ دھیرے دھیرے صبح کی روشنی نمایاں ہورہی تھی، تبھی بابا نے باہر سے کہا۔ بی بی! آپ کمرے میں جائیں، بڑے دادا آگئے ہیں۔ بڑے دادا اپنے بیٹوں کے ساتھ آئے تھے۔ ان کے ساتھ پولیس والے بھی تھے۔ بڑے دادا کا گھر ہمارے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ وہ نماز پڑھنے مسجد آئے تھے تو روشن بابا نے انہیں باخبر کردیا اور وہ پولیس اسٹیشن چلے گئے۔ پولیس والوں نے چند سوالات کئے اور ہم نے کمرے کے اندر سے ہی جواب دیئے۔ پولیس والوں نے بھابی سے کہا کہ گھر میں اچھی طرح دیکھ لیں، کہیں کوئی قیمتی سامان یا زیورات تو چوری نہیں ہوئے؟ بھابی نے اپنی الماری کھولی جس کی سیف میں زیورات ہوتے تھے۔ وہاں ڈبے موجود تھے مگر خالی تھے، زیورات غائب تھے لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ چابیاں بھی اسی جگہ موجود تھیں جہاں بھابی، بھائی جان سے چھپا کر رکھا کرتی تھیں۔ وہ یہ سوچ سکتی تھیں کہ یہ ان کے شوہر کی کارستانی ہے لیکن یہ بات ان کے وہم و گمان میں نہیں تھی کہ وہ اماں رحمت کو قتل کرسکتے ہیں، جس نے انہیں بچپن میں گودوں کھلایا تھا۔ وہ اماں رحمت کی بے حد عزت کرتے تھے۔ بے شک چور زیورات لے گئے تھے مگر اماں رحمت سے ان کی کیا دشمنی تھی کہ ان کو نیند میں ہی موت کی نیند سلا گئے۔ طرح طرح کے خیالات ذہن میں آرہے تھے۔ بیٹھے بیٹھے ہول اٹھتی تھی۔ کہتی تھیں دعا کرو کہ تمہارے بھائی جان جلدی سے گھر آجائیں۔ خدا جانے وہ اس وقت کہاں ہیں۔ بڑے دادا کے ایک بیٹے کے علم میں تھا کہ وہ کہاں ہوں گے۔ انہوں نے طفیل بھائی کو اطلاع کرائی اور وہ گھر پہنچ گئے۔ وہ بھی اماں رحمت کے قتل ہوجانے پر بہت غمزدہ تھے۔ کہتے تھے کہ اس خاتون نے مجھے ماں سے زیادہ پیار دیا تھا۔ کاش! چور زیورات لے جاتے مگر ان کو نہ مارتے۔ بہرحال چوروں کو پولیس نے ضرور تلاش کیا ہوگا لیکن ان کا کچھ سراغ نہ ملا۔ یہ راز عمر بھر بھابی پر نہ کھل سکا کہ زیورات چرانے والوں نے سوتی ہوئی اماں رحمت کو کیوں جان سے مار دیا تھا۔ میری شادی ہوگئی، مجھے بھائی جان کے خوف سے نجات مل گئی۔ میں اپنے بھائی کے حق میں اپنے حصے سے دستبردار ہوگئی۔ وہ یہی چاہتے تھے اور میں انہیں ناراض کرنا نہ چاہتی تھی۔ میرے شوہر نے بھی اس بات پر اعتراض نہ کیا، کیونکہ وہ بھابی کے چچازاد ہیں اور ان کی اپنی کافی زمین ہے۔ اس واقعے کو چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، طفیل بھائی اس جہاں سے سدھار چکے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اماں رحمت سے طفیل بھائی، بھابی کی الماری کی چابی لینا چاہتے تھے۔ اماں رحمت نے نہیں بتایا تو غصے میں انہوں نے اماں رحمت کو مار دیا اور سیف کا تالا توڑ کر زیورات نکال لئے۔ (م۔ ش … رحیم یار خان)

Latest Posts

Related POSTS