فوزیہ ایک گائوں کی رہنے والی تھی۔ وہ بہت بھولی بھالی اور معصوم لڑکی تھی ۔اُس کی شادی کا فیصلہ اس وقت طُرّم خان سے کر دیا گیا تھا جب وہ ابھی سات برس کی تھی۔ طُرّم رشتے میں اُس کا کزن تھا اور فوزیہ سے سات سال بڑا تھا۔ خاندان کا لڑکا تھا بھلا والدین کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
بات پکی ہو گئی تو منگنی پر اصرار ہونے لگا۔ طُرّم کے والد چاہتے تھے فوزیہ کے سر پر چندری ڈال دیں تاکہ یہ رشتہ مضبوط ہو جائے۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی جب برادری گواہ ہوتی ہے لڑکی والے بعد میں اپنی زبان سے نہیں پھر سکتے اور سرپنج بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں۔
منگنی کے بعد دونوں کھیتوں میں ملنے لگے۔ دونوں کے دلوں میں محبت کے چراغ جلنے لگے۔ طُرّم ایک صاف نیت نوجوان تھا۔ فوزیہ کا احترام کرتا تھا چونکہ وہ اُس کی ہونے والی بیوی تھی اس کو اپنی عزت جان کر سمجھاتا تھا کہ ہمارا شادی سے قبل کھیتوں میں یوں ملنا ٹھیک نہیں گائوں والے ہمیں اچھی نظر سے نہیں دیکھیں گے ۔بہتر ہو گا جب موقع ملے تو گھر پر ہی بات کر لیا کریں۔
لڑکیاں ان معاملات میں اکثر جذباتی ہو جاتی ہیں فوزیہ بھی ایک جذباتی لڑکی تھی۔ وہ زیادہ دن طُرّم کو دیکھے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ کسی بچے کے ہاتھ کوئی نہ کوئی سندیسہ بھیج دیا کرتی۔ ناچار اُس کے منگیتر کو اُس کا مان رکھنا پڑتا تاہم ہر بار وہ اُسے سمجھاتا تھا۔
گائوں میں رسوا ہونے سے بہتر ہے تحمل سے کام لے… زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے۔ تمہارے بڑے بھائی کے دبئی سے آتے ہی ہماری شادی ہو جائے گی۔ لہٰذا اب تم بلاوجہ گھر سے قدم مت نکالو۔ مجھے اچھا نہیں لگتا تمہارا یوں کھیت کھلیانوں میں گھومنا۔ دراصل طُرّم ایک ایسا نوجوان تھا جسے اپنے سے زیادہ اپنی منگیتر کی عزت کا پاس تھا۔ وہ اُسے کسی صورت لوگوں کی نظروں میں گرانا نہیں چاہتا تھا۔
گائوں کا ماحول وہی صدیوں پرانا تھا جہاں منگنی کے بعد منگیتر کا ملنا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اگر کوئی ایسی خفیہ ملاقاتوں کی خبر سرپنجوں تک پہنچا دیتا تو منگنی کا بندھن ختم کرنے کا حکم دے دیا جاتا تھا۔
بے قرار دلوں کے قرار کی خاطر طُرّم نے چھ ماہ بعد والدین پر زور ڈالا کہ فوزیہ کا بڑا بھائی آ گیا ہے، اب شادی کی تاریخ لے لی جائے۔ ورنہ واپس دبئی چلا گیا تو پھر دوچار سال کے لئے شادی التوا میں پڑ جائے گی۔
بیٹے کے اصرار پر والدین لڑکی والوں کے گھر گئے۔ انہوں نے انکار تو نہ کیا مگر ایک بھاری شرط رکھ دی کہ تم دو ایکڑ زمین لڑکی کے نام لکھ دو اور حق مہر بھی پانچ لاکھ ہو گا اور یہ رقم سہاگ رات ادا کرنی ہو گی تاکہ ہم خود لڑکی کے مستقبل کی خاطر اپنے پاس محفوظ کر لیں کیا خبر کل تم مہر کی رقم نہ بھی دو۔
یہ شرطیں سن کر قادر بخش ہکا بکا رہ گیا۔ گھر آکر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بیٹے سے کہا۔ مجھے تمہارے چاچا کی نیت ٹھیک نہیں لگتی ورنہ کوئی بھی لڑکی کے بدلے ایسی شرطیں نہیں رکھتا۔
طُرّم خان حیران ہوا مگر وہ ایک ذہین نوجوان تھا سمجھ گیا کہ یہ لوگ رشتے سے پھرنے والے ہیں لہٰذا شرطیں مان لینے میں کوئی ہرج نہیں دیکھیں پھر کیا شوشا نکالتے ہیں۔ بہتر ہے کہ جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچا دیا جائے۔ اس نے باپ کو قائل کر لیا۔
منگنی میری عزت، میری آن، میرا بھرم ہے اس رشتے کا ہر حال میں مان رکھوں گا۔ آپ یہ شرائط مان لیں ہماری زمین کافی ہے اگر دو ایکڑ لکھ دیں گے تو کچھ فرق نہ پڑے گا۔ پانچ لاکھ کا انتظام بھی ہو جائے گا۔ آپ بس جا کر چاچا سے تاریخ لے آئیں۔
قادر بخش نہیں چاہتا تھا کہ روزِ اوّل سے ان کے آگے نیچا ہو جائے مگر طُرّم کے مزاج سے بھی واقف تھا۔ اس نے بات مان لی ۔دوبارہ صاحب داد کے درپر جا کر دستک دی۔ بتایا کہ اُسے ساری شرائط منظور ہیں۔ مگر شادی کی تاریخ ہر حال میں ابھی طے کرنی ہو گی۔
طُرّم کو اپنی منگیتر سے محبت تھی یا نہیں لیکن وہ منگنی کے اس بندھن کو اپنی انا کا مسئلہ سمجھتا تھا اور کسی صورت اس بندھن سے دست بردار نہیںہونا چاہتا تھا تاہم فوزیہ کے دل میں، اُس کی محبت نے گھر کر لیا تھا وہ طُرّم خان کے بغیر کسی اور کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو گناہ سمجھتی تھی۔
لڑکے والوں نے جب صاحب داد کی ہر شرط مان لی تو فوزیہ کی ماں نے ٹال مٹول سے کام لیا ۔بولی۔ ابھی تو بڑے لڑکے کی شادی کرنی ہے۔ فوزیہ کی باری بعد میں آئے گی زردار کی شادی ہو جانے دو۔ پھر بیٹی کی شادی کی تاریخ دوں گی۔
ایسا نہیں ہو سکتا… زردار تو ایک ماہ بعد جانے والا ہے۔ جانے وہ دبئی سے کب لوٹے گا۔ بھائی اور بہن کی شادی کی تاریخیں قریب قریب رکھ لو ۔زردار کی منگنی تو ہو چکی ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن لڑکی والے ابھی راضی نہیں ہیں۔ وہ دو سال کی مہلت مانگ رہے ہیں۔ زردار کی منگیتر میری سگی بھتیجی ہے۔ اب میں تم لوگوں کی خاطر اپنے بھائی کو تو ناراض نہیں کر سکتی لہٰذا تم لوگ بھی دو سال صبر کر لو۔
طُرّم خان کا اندازہ درست نکلا۔ فوزیہ کا رشتہ اُس کا بھائی دبئی سے لایا تھا۔ یہ لڑکا اُس کا دوست تھا اور اچھا کما رہا تھا۔ ان لالچی لوگوں نے سوچا اگر طُرّم خان کی بجائے فوزیہ کی شادی مہربان سے کر دیں تو ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ بیٹی بھی عیش کرے گی اور ہم بھی کیونکہ وہ لڑکا اکیلا تھا اس کے ماں، باپ، بھائی کوئی نہیں تھا اور اُسے ایک امیر آدمی نے پالا تھا۔ جس کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس امیر آدمی کی دولت کا اب وہی والی وارث تھا۔ بھلا سونے کی چڑیا کو کون پکڑنا نہیں چاہتا… جبکہ طُرّم کا باپ زیادہ امیر آدمی نہ تھا وہ بس سفید پوش لوگ تھے۔ تھوڑی سی زرعی اراضی کے بل بوتے پر زندگی جی رہے تھے۔
فوزیہ کے والدین کو احساس ہوا کہ انہوں نے بچپن میں بیٹی کی طُرّم سے منگنی کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اب کسی بہانے اس رشتے کو توڑ کر ہی نجات مل سکتی ہے۔
تاریخ دینے سے انکار پر فوزیہ بجھ کر رہ گئی پھر جب اس نے گھر میں یہ باتیں سنیں کہ دبئی والا رشتہ طُرّم کے رشتے سے ہزار گنا بہتر ہے تو وہ سخت پریشان ہو گئی۔ گھر سے نکلنے پر پابندی لگادی گئی تھی۔ وہ اپنے منگیتر کی چاہ میں تڑپنے لگی۔ فوراً اُسے ساری صورت حال سے آگاہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن ملاقات کے تمام راستے بند تھے۔ بڑے بھائی کی موجودگی میں گھر کے دروازے سے باہر جھانک بھی نہیں سکتی تھی۔ ادھر اس کے گھر والے دبئی والے رشتے پر سنجیدگی سے غور کر رہے تھے۔
جب طُرّم کو ان باتوں کا علم ہوا تو اس کی بری حالت ہو گئی۔ وہ غصے سے کھولنے لگا۔ تہیہ کر لیا چاہے جان چلی جائے وہ اپنی منگیتر کی شادی کسی اور سے نہیں ہونے دے گا۔ اُسے جان پر کھیل کر بھی حاصل کرنا پڑے تو وہ ایسا کر گزرے گا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو فیصلہ کر لیتے ہیں اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی اور جذبات سے کھیلنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتے۔ اس کے والدین نے سرتوڑ کوشش کی مگر صاحب داد نے انہیں مایوس کر دیا۔ جس کی وجہ سے حالات نے سنگین صورت اختیار کر لی اور بات بگڑتی چلی گئی۔
فوزیہ کے والدین تو یہی چاہتے تھے کہ کسی طرح بات بگڑ جائے اور یہ رشتہ ٹوٹ جائے۔ وہ بیٹی کی زیادہ سے زیادہ قیمت لگا رہے تھے۔ شرائط بڑھاتے جا رہے تھے جبکہ طُرّم خان ان کی سب شرائط منظور کرتا جا رہا تھا۔ وہ اپنی منگیتر کے منہ مانگے دام دینے کو تیار تھا کیونکہ فوزیہ اس کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے محبت کرتی تھی۔
طُرّم خان اُسے جدائی کے دکھ سے بھی بچانا چاہتا تھا۔ وہ کہتا تھا میں مرد ہوں حوصلہ کر لوں گا لیکن وہ لڑکی ہے جبر کی زندگی گزارے گی تو جیتے جی مر جائے گی۔
جب صاحب
داد اور اس کی بیوی نے دیکھا کہ یہ لوگ کسی صورت رشتہ توڑنے پر آمادہ نہیں تو ایک دن لڑکے کی ماں کو بلوا بھیجا اور پھر بہانے سے بُری بھلی سنا کر خوب بے عزتی کی۔ ظاہر ہے سب کچھ برداشت کیا جا سکتا تھا۔ لیکن طُرّم خان جیسے بیٹے کے لئے اپنی ماں کی بے عزتی برداشت کرنا محال تھا۔
جس روز انہوں نے اُس کی والدہ سے اہانت آمیز سلوک کیا۔ اُسی دن منگنی ٹوٹ گئی۔ لیکن اس نے دل میں تہیہ کر لیا کہ فوزیہ کی شادی کسی اور سے نہیں ہونے دے گا اور اس کی لالچی والدین کو ایسا مزہ چکھائے گا کہ عمر بھر یاد رکھیں گے۔
منگنی ٹوٹتے ہی زردار نے دبئی سے اپنے مالدار دوست مہربان کو بلوا لیا اور اس کی بہن کے ساتھ منگنی کا اعلان بھی کر دیا۔ فوزیہ پہلی منگنی ٹوٹنے پر ناخوش تھی اب اور بھی رو رو کر ہلکان ہو گئی۔ موقع ملتے ہی وہ ایک شب طُرّم کے گھر آگئی۔
وہ بیٹھک میں سوتا تھا۔ اس نے اُسے جگایا اور اپنے محبوب کے کندھے پر سر رکھ کر رُونے لگی۔
طُرّم نے اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور بولا۔ جب تم نے اتنا قدم اُٹھا لیا ہے تو بولو اب کیا چاہتی ہو۔ وہ بولی۔میں ہمیشہ کیلئے تمہارا ساتھ چاہتی ہوں۔ میں تمہارے اس خواب کو تعبیر دینے پر راضی ہوں۔ تاہم اچھی طرح سوچ لو۔
میں نے اچھی طرح سوچ لیا ہے، مجھے اپنے لالچی ماں باپ سے نفرت ہو گئی ہے اب لوٹ کر ان کے پاس جانا نہیں چاہتی جو میری ذات کی زیادہ سے زیادہ قیمت لگانا چاہتے ہیں۔ میں ان کی بیٹی ہوں کوئی بکائو مال نہیں مگر انہیں اس کا ذرّہ بھر بھی احساس نہیں ہے کہ ان کے لالچ اور ہوس کے باعث میرے دل پر کیا گزر رہی ہے۔ تو پھر آئو آج ہی شہر نکل چلو۔وہاں ہم نکاح کر لیتے ہیں پھر تمہیں مجھ سے کوئی چھین نہیں سکے گا۔ اسی وقت اس نے موٹر سائیکل پر دیوانی لڑکی کو بٹھا لیا۔ شہر زیادہ دُور نہ تھا ،بیس منٹ سے بھی کم وقت کا سفر تھا۔
صبح ہونے میں کچھ دیر باقی تھی۔ طُرّم فوزیہ کو لے کر ایک دوست کے پاس گیا۔ وہ اکیلا رہتا تھا۔ اپنے گائوں سے پڑھنے شہر آیا ہوا تھا ۔تمام معاملہ طُرّم نے صفدر کو بتایا تو اس نے کہا۔ بے وقوف دو دن کی چھٹیاں ہیں کورٹ بھی بند ہو گا۔ کورٹ میرج کے لئے تمہیں انتظار کرنا پڑے گا… لیکن مجھے فوراً نکاح کرنا ہے اور فوزیہ کو جلد از جلد واپس اس کے گھر پہنچانا ہے تاکہ کسی کو شک نہ ہو یہ گھر سے بھاگ گئی ہے۔
تو پھر ایسا کرو… صبح ہوتے ہی میں اپنے ایک رشتہ دار مولوی صاحب کو گھر بلا لیتا ہوں ۔گواہوں کا انتظام بھی ہو جائے گا۔ گھر پر نکاح پڑھوا لیتے ہیں۔ تم اس کے بعد فوراً فوزیہ کو لے کر گائوں لوٹ جانا… نکاح نامہ میرے پاس چھوڑ جانا میں اُسے رجسٹرڈ کر والوں گا۔ پھر تم فوزیہ کو پہنچا کر واپس آجانا۔
صبح سویرے صفدر مولوی صاحب کو گھر لے آیا گواہ بھی اکٹھا کر لئے ۔نکاح کی رسم پوری کر کے طُرّم، فوزیہ کو واپس گائوں لے گیا۔ جب گائوں آدھ کوس رہ گیا اس نے اُسے موٹر بائیک سے اُتار دیا جہاں فوزیہ کی خالہ کا گھر تھا۔ وہ خالہ کے پاس چلی گئی اور روئی پیٹی کہ ماں باپ اُس کی شادی زبردستی دبئی والے لڑکے سے کر رہے ہیں اور اُسے یہ رشتہ قبول نہیں ہے اسی لئے یہاں آئی ہے۔ اس نے خالہ کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ آپ میرے ساتھ چلو اور میرے ماں باپ کو سمجھائو ورنہ جان دے دوں گی۔
خالہ بے چاری گھبرا گئی۔ اس نے شوہر کو کسی طرح راضی کیا اور وہ دونوں اُسے اپنے ساتھ اُسی وقت صاحب داد کے گھر لے آئے۔ یہاں سب پریشان تھے کہ صبح سویرے فوزیہ کو گھر میں نہ پایا تھا۔ وہ ابھی سوچ بچار میں تھے کہ کہاں گئی ۔بیٹی کا پوچھنے نکلیں ،کس سے کیا کہیں اتنے میں وہ خالہ اور خالو کے ہمراہ گھر پہنچ گئی۔
خالہ روتی ہوئی فوزیہ کی ڈھال بن گئی اور اس کے والدین کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا کہ تمہاری بیٹی کہیں نہ گئی تھی یہ منہ اندھیرے میرے گھر آ گئی تھی ۔اب مجھے ساتھ لے آئی ہے تاکہ میں آپ لوگوں کو سمجھائوں یہ موجودہ رشتے سے ناخوش ہے اور مہربان سے شادی نہیں کرنا چاہتی آپ لوگ زبردستی مت کریں۔ معاملہ سنجیدہ دیکھ کر فوزیہ کے والد نے بیٹی کو تسلی دی کہ دھیرج رکھو ہم زبردستی تمہاری شادی نہ کریں گے۔ منگنی اس وجہ سے کی ہے کہ تم سوچ بچار لو…ہم تمہاری بھلائی کیلئے یہ سب کر رہے ہیں… ابھی تمہاری رخصتی تو نہیں کر رہے جو اتنی پریشان ہو رہی ہو۔
خالہ اور خالو نے اپنی فراست سے معاملہ رفع دفع کرا دیا اور لڑکی کے والدین کو بھی یقین ہو گیا کہ ان کی بیٹی کسی کے ساتھ نہیں گئی تھی۔ بلکہ پریشانی میں خالہ کے گھر چلی گئی تھی۔ یہ کسی کو پتا نہ تھا کہ وہ طُرّم کے ہمراہ اس کے دوست کے گھر میں نکاح کر آئی ہے۔ فوزیہ سمجھی کہ خالہ اور خالو کے سمجھانے پر اس کے والدین راہ راست پر آ جائیں گے پھر موقع دیکھ کر وہ ان کو اپنے نکاح کی بات بتا دے گی۔ وہ بڑے بھائی کے دبئی لوٹ جانے کا انتظار کر رہی تھی دراصل وہ زردار سے بہت ڈرتی تھی۔
چونکہ شادی دو سال بعد ہونا تھی لہٰذا زردار اور اس کا دوست دبئی لوٹ گئے اب فوزیہ پر گھر سے نکلنے پر پابندی نہ رہی۔ وہ جب موقع ملتا طُرّم کی منکوحہ سمجھ کر ملتی اور اب تو حوصلہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ آدھی رات کو جب گھر والے گہری نیند میں ہوتے وہ طُرّم کی بیٹھک میں چلی جاتی۔ اس کے محبوب کا گھر چند قدم پر تھا۔ بیٹھک کا دروازہ فوزیہ کی خاطر کھلا رہتا تھا ۔
آدھی رات کی ان ملاقاتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور دونوں کے ہاتھ سے حوصلے کا دامن جاتا رہا۔ وہ خود کو ایک دوسرے کی امانت سمجھ چکے تھے۔ نکاح ہو جانے کا سوچ کر بے خوف ہو گئے تھے یوں ان کی پاکیزہ محبت کو داغ لگ گیا۔ ایک دن طُرّم کے والدین صاحب داد کے گھر گئے انہوں نے بتا دیا کہ تمہاری لڑکی اپنی مرضی سے میرے بیٹے کے ساتھ نکاح کر چکی ہے اور نکاح نامہ ہمارے پاس موجود ہے ۔بہتر ہو گا کہ اب اس کی رخصتی کرا دو تاکہ گائوں والوں کی نظروں میںہماری تمہاری عزت رہ جائے۔
دبئی والا لڑکا مالدار ضرور ہے مگر غیرشخص ہے۔ گائوں والے اُس کا یہاں رہنا بسنا پسند نہیں کریں گے بلکہ وہ منگنی ٹوٹ جانے کا ضرور خیر مقدم کریں گے اور ہم سے دوبارہ رشتہ جڑ جانے پر ہر کوئی اطمینان کا سانس لے گا۔ لڑکی کے باپ نے یہ باتیں سن کر قادر بخش کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ کہنے لگا ۔ تمہاری عمر اور رشتے کا لحاظ کر کے تمہاری پگڑی نہیں اُچھالی ور نہ تیری جان لے لیتا۔ تیرے لئے بس میرا یہ ایک تھپڑ ہی کافی ہے۔ ہاں تیرے بیٹے کا سرتن سے نہ اُتروایا تو صاحب داد نام نہیں۔ میں کسی ایسے نکاح کو نہیں مانتا جو ولی کے بغیر ہو۔ کل ہی دبئی فون کر کے زردار کو بلواتا ہوں… اور اس معاملے کا خاتمہ کراتا ہوں۔
گائوں میں جب سر پنج کو خبر ہوئی تواس نے چپکے سے دبئی مہربان کو فون کر دیا جس کے ساتھ فوزیہ سے شادی کرنے کا اس کے والدین نے سوچ لیا تھا۔ سر پنج نے کہا کہ میں نہیں چاہتا تم ہمارے گائوں آکر ذلت اُٹھائو اور ہمارے لئے بھی یہ معاملہ ذلت کا باعث بنے۔ بہتر ہے اس شادی سے انکار کر دو کیونکہ لڑکی تمہارے ساتھ شادی کرنے پر راضی نہیں ہے۔ مہربان نے سرپنج کی نہ سنی اس کے دل میں فوزیہ کے حسن کی تصویر بسی تھی تاہم اس شخص سے مشورہ لازم تھا جس نے اُسےگود لیا تھا۔
اس نے مہربان کو سختی سے منع کر دیا کہ دوست کی خوشی میں پاگل مت بنو۔ اس کی دیہاتی بہن سے ہرگز شادی مت کرو۔ میں خود تمہاری شادی کسی اعلیٰ گھرانے کی تعلیم یافتہ لڑکی سے کرائوں گا۔ مہربان اس منہ بولے باپ کے آگے مجبور ہو گیا اس نے زردار سے معذرت کر لی کہ وہ اس کی بہن سے شادی نہیں کر سکتا۔ زردار کو صدمہ تو ہوا لیکن کیا کرتا خاموش ہو رہا۔
گائوں میں والدین نے رشتہ
داروں کو بتا دیا کہ وہ مہربان سے بیٹی کی منگنی توڑ رہے ہیں کیونکہ وہ ٹھیک لڑکا نہیں تھا۔ اب طُرّم اور اس کے والدین کو یقین ہو گیا کہ زردار کی اَکڑفوں نکل گئی ہے۔ دوبارہ فوزیہ کا رشتہ ہم حاصل کر لیں گے اور فوزیہ کو عزت سے بیاہ لائیں گے۔
ایسا نہ ہو سکا، ہٹ دھرم باپ نے بیٹی کا رشتہ بھتیجے کو نہ دیا۔ اس نے کہا کہ بے شک یہ میرے در پر عمر بھر کنواری بیٹھی رہے مگر طُرّم جیسے بدقماش سے اسے نہ بیاہوں گا۔ اُسے علم نہ تھا کہ طُرّم اور فوزیہ تنہائیوں میں ملاقاتیں کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قدرت نے ان ملاقاتوں کو ازخود طشت از بام کر دیا۔
انہی دنوں طُرّم مایوس ہو کر بیرونِ ملک جا چکا تھا اِدھر فوزیہ امید سے ہو گئی تو یہ بات چھپی نہ رہ سکی۔ باپ نے زردار کو بلوایا…اور تمام معاملہ اس کے سامنے رکھ کر پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ اس نے کہا۔ ابا طُرّم سے جب ہاتھ آئے گا نمٹوں گا ،ابھی فوزیہ کو اس کی خودسری کا مزہ چکھانا ہے ۔بس آج یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہو گا اور کل یہ تو کیا اس کا نشان بھی کسی کو نہ ملے گا۔ گائوں میں یہ خبر اُڑ گئی کہ فوزیہ بھاگ گئی ہے ۔کسی کو پتا نہ تھا کس کے ساتھ بھاگی ہے اور کہاں گئی ہے کیونکہ طُرّم تو دیارِ غیر میں تھا۔
سبھی افسوس کرتے رہ گئے… لیکن زردار نے اپنی بہن کی گم شدگی پر افسوس کیا اور نہ ہی کسی سے اس بارے ایک لفظ کہا۔وہ خاموشی سے جس طرح آیا تھا اُسی طرح دبئی لوٹ گیا۔ وہ دن اور آج کا د ن فوزیہ کے بارےمیں کوئی اطلاع نہیں مل سکی وہ زندہ ہے یا مر گئی۔ اُسے زمین نگل گئی یا دریا میں تیرتی مچھلیوں نے کھالیا… یہ ایک راز تھا اور راز ہی رہا ۔
(س۔ الف، غازی گھاٹ)