Sunday, October 6, 2024

Rah Ke Sitare

بھئ میں تو کہتی ہوں خدا کسی دشمن کو بھی بڑی بہو نہ بنائے ۔ نہ دن کا چین ، نہ رات کا سکون۔ دیور صاحب کے فرمائشی پروگرام الگ تو نند کے مطالبے الگ اوپر سے ساس سسر کا خیال رکھنے کی تاکید کے علاوہ تو مجازی خدا کو کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ گجریلا بناتے وقت اربیہ کی سوچ کے گھوڑے سرپٹ دوڑتے جا رہے تھے۔ کٹ کٹ میوہ جات کاٹتے ہوئے تو اس کا بس نہیں چل رہا تھا گھر والوں کی فرمائشیں بھی چھری کے نیچے رکھ کر کاٹ ڈالے۔ گردنیں کاٹنے کا خیال ابھی نہیں آیا تھا۔ بھئی اب اتنی بھی تو پتھر دل نہیں تھی وہ۔ واہ بھابھی ! دل خوش کر دیا۔ کیا خوشبو ہے۔ اللہ آپ کو یہاں سدا آباد رکھے ورنہ میری لذت دہن کا خیال کون رکھے گا۔ عمر کو گجریلے کی خوشبو لاؤنج سے کچن تک کھینچ لائی تھی۔ لذت دہن کا خیال کون رکھے گا تم جانو اور تمہاری مستقبل کی دلہن جانے۔ میری جان چھوڑو۔ اریبہ سوچ ہی سکی ، کہہ نہیں سکتی تھی۔ اس نے مصنوعی مسکراہٹ سے عمر کو نوازا اور میوے ڈال کر آنچ بند کردی۔
☆☆☆

اتوار کی صبح کا آغاز معمول کے دنوں سے ہٹ کر ہوا تھا۔ لاؤنج میں خوب رونق تھی۔ عمر گھوڑا بنا ہوا تھا اور صارم کو چکر پہ چکر دلا رہا تھا۔ ریحان کے قبضے میں سدرہ کا موبائل تھا۔ وہ کوئی گیم کھیل رہا تھا۔ ابا جی اخبار کے مطالعے میں گم تھے مگر ایک نظر بچوں پہ بھی ڈال لیتے۔ امی اریبہ کے ساتھ کچن میں مصروف تھیں۔ آج فرمائشی پروگرام زیادہ ہی لمبا ہو گیا تھا اریبہ کے ناتواں کندھے اکیلے بوجھ اٹھانے سے قاصر تھے لہذا امی کی مدد لازم وملزوم تھی۔ آج سب کی چھٹی تھی لہذا سب حلوہ پوری کا ناشتہ کرنا چاہتے تھے۔ اریبہ سے پوری کبھی بھی نرم نہیں بنتی تھی اکڑ کر سخت ہو جاتی تھی۔ امی نرم و گداز سی پوریاں نکالتی جارہی تھیں۔ اریبہ نے چائے کو دم دیا، حلوہ تیار ہو چکا تھا۔ کچھ ہی دیر میں اس نے ناشتہ ٹیبل پہ لگایا تو خوشبو سارے گھر میں پھیل گئی۔ سب ہی نے فورا اپنے معمولات ترک کیے اور ٹیبل کے گرد اکٹھے ہو گئے جیو پیاری ماں ! دل کرتا ہے ہاتھ چوم لوں۔ عمر نے پوری اپنی پلیٹ میں رکھتے ساتھ ہی ہانک لگائی۔ ساس بہو کی جوڑی زندہ باد۔ سدرہ نے ناشتے سے انصاف کرتے ہوئے امی اور بھابھی کی تعریف کی۔ ناشتہ خوش گوار ماحول میں کیا گیا مگر اریبہ کا ذہن بار بار بھٹک کر علی کی طرف جا رہا تھا۔ کراچی گئے اسے دو ماہ ہونے والے تھے۔ ابھی تک اس نے لاہور کا چکر نہیں لگایا تھا ، البتہ فون پہ سب سے بات ہوتی رہتی تھی ۔ اریبہ کو شوہر کے بغیر ساری رونق پھیکی پھیکی لگ رہی تھی۔
☆☆☆

اریبہ کی شادی کو چھ سال کا عرصہ ہو چکا تھا۔ سرال میں ساس ، سسر ایک دیور اور ایک نند تھی – علی ایک خیال رکھنے والا شوہر تھا۔ اللہ نے دو بیٹوں سے نوازا تھا۔ سرال میں بظاہر اریبہ خوش باش تھی مگر دل کے کچھ ارمان ہنوز باقی تھے۔ دیور اور نند کوئی نہ کوئی فرمائش کرتے رہتے تھے لہٰذا اس کا کافی وقت کچن میں گزرتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے علی کا ٹرانسفر ہوا تھا، وہ روشنیوں کے شہر روانہ ہوا تو اریبہ کی آنکھوں کی لو مدھم ہو گئی۔ عمر اور سدرہ تھے جو اریبہ کے کان کھائے رکھتے تھے۔ ساس ہاتھ بٹا دیتی تھیں مگر ان کے گھٹنوں میں درد رہتا تھا تو زیادہ تر مدد کرنے سے قاصر رہتی تھیں۔ اریبہ کا دل کبھی کبھی اچاٹ ہو جاتا تھا۔ علی جب کراچی گیا تو اس کے دل میں امید جاگی کہ وہ بھی چلی جائے گی۔ اس کا بھی ایک آشیانہ ہو گا۔ اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ وہ اپنا گھر اپنی مرضی سے سجائے گی۔ مگر جب علی اس سے خواہش کا اظہار کیا تو اس نے سنتے ہی منع کر دیا۔ حد کرتی ہو اریبہ امی اکیلی رہ جائیں گی۔ علی ! امی کے پاس سدرہ ہے، عمر ہے اور ابو بھی ہیں ناں اریبہ نے کوشش جاری رکھی۔ سدرہ کالج جاتی ہے۔ ابو اور عمر کی اپنی اپنی مصروفیات ہیں ۔ امی گھر کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل نہیں ہیں۔ تمہارا مطالبہ غلط نہیں۔ عمر کی شادی ہو گئی تو سوچا جا سکتا ہے۔ مگر فی الحال ناممکن ہے اریبہ نے کچھ کہنا چاہا مگر علی نے سختی سے ٹوک دیا۔ وہ دل مسوس کر رہ گئی ۔ دل اداس تھا اور ایک پھانس سی محسوس ہو رہی تھی مگر کیا ہو سکتا تھا ، لہذا چپ بیٹھ گئی۔
☆☆☆

موسم اچانک ہی ابر آلود ہو گیا تھا۔ بارش کے امکان نظر آرہے تھے۔ اریبہ نے کپڑے استری کرنے تھے لہذا جلدی جلدی سنبھالنے لگی۔ بچوں نے لاؤنج میں کھلونوں کا انبار جمع کیا ہوا تھا۔ کپڑے الماریوں میں ہینگ کر کے کھلونے ٹھکانے لگائے اور دروازے کھڑکیاں بند کرنے لگی۔ ہوا اگر آندھی کی شکل اختیار کر لیتی تو سارے کمرے اور کچن گرد سے اٹ جاتا۔ بچے عمر کے ساتھ دکان گئے تھے ، کچھ ہی دیر میں لوٹ آئے ۔ سدرہ کا ٹیسٹ تھا ، وہ پڑھ رہی تھی۔ آج بلا وجہ ہی دل تنگ پڑ رہا تھا لہذا سارا غصہ برتنوں پر نکالا۔ کیا تھا جو علی مجھے ساتھ لیے جاتے ان مفت کی خدمتوں سے تو جان چھوٹ جاتی ۔ وہ بے دلی سے کام میں مصروف ہوگئی۔
☆☆☆

عشاء کے بعد اریبہ نماز پڑھ کر لیٹنے ہی لگی تھی کہ چھوٹی بہن کی کال آئی۔ امی کی طبیعت خراب تھی اور وہ اسے یاد کر رہی تھیں ۔ اریبہ کا دل ہی بیٹھ گیا۔ معاملہ سیریس ہی تھا ورنہ اس کو کبھی بھی پریشان نہیں کیا جاتا تھا۔ اب نیند آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اسی ٹینشن میں رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ صبح صبح وہ عمر کے ساتھ اسلام آباد روانہ ہوئی۔ میکے پہنچ کر امی کو دیکھا ۔ وہ زیادہ ہی کمزور ہوئی تھیں۔ اریبہ نے تو ان کو دیکھتے ہی رونا شروع کر دیا۔ بہن بھائیوں نے تسلی دی اور امی نے سمجھایا تو آنسوؤں میں کمی آئی۔ عمر دوسرے دن واپس چلا گیا لیکن اریبہ نے امی کے پاس ہی رکنے کا فیصلہ کر لیا۔ بچوں کی طرف سے وہ بے فکر تھی۔ ماں سے زیادہ تو وہ پھپھو ، چاچو اور دادو سے مانوس تھے۔ دو ہفتے امی کی خوب خدمت کی اور وہ پہلے سے بہتر ہوئیں تو فورا اریبہ کے پیچھے پڑھ گئیں کہ اب اسے واپس جانا چاہئے۔ ایسی ہی تو ہوتی ہیں مائیں ۔ بیٹیوں کو اپنے گھر ہی آباد دیکھنے کی خواہش رکھنے والی۔ کچھ دن مزید رک کر اریبہ نے واپسی کا ارادہ کر لیا۔
☆☆☆

جب وہ بھائی کے ساتھ واپس آئی تو مغرب کا وقت تھا۔ عمر نے تو اسے دیکھتے ہی نعرہ لگایا۔ شکر ہے ، بھابی واپس آگئیں ۔ سدرہ کے ادھ جلے کھانے کھانے سے بچ جاؤں گا ۔ اریبہ مسکرا دی اور صارم اور ریحان کو گود میں بھینچ لیا۔ امی ابو اور سدرہ سے مل کر اس کی آنکھیں نم ہوئیں۔ اس پہ آگہی کا در وا ہو چکا تھا کہ یہ پیارے رشتے ہیں تو اس کا ساتھ دیتے تھے۔ اگر وہ علی کے ساتھ ہوتی تو اتنے دن بچوں کو چھوڑ کر امی کے پاس رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ سدرہ انہیں ہوم ورک کراتی تھی۔ صاف ستھرا رکھتی تھی۔ عمر اسکول چھوڑ کر آتا تھا۔ دھیان رکھتا تھا۔ پارک لے جاتا۔ ہر کام وہ بغیر ناک بھوں چڑھائے کرتا تھا۔ دادا دادی کی تو بچوں میں جان تھی۔ سب سدرہ کی قدر کرتے تھے۔ اس کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔ اس کا فرض تھا کہ وہ بھی ان سے محبت کرتی ۔ رات کا کھانا امی اور اریبہ نے بنایا اور اسے زبردستی آرام کرنے کو بھیج دیا کیونکہ وہ سفر کر کے آئی تھی۔ عمر اور ابو اریبہ کے بھائی کو کمپنی دے رہے تھے۔
☆☆☆

اگلے دن کا سورج معمول سے زیادہ روشن اور چمک دار تھا۔ اریبہ آج خوشی خوشی کاموں میں مصروف تھی۔ دل سے ہر بدگمانی اور غبار چھٹ گیا تھا۔ مثبت سوچنا شروع کر دیا تھا تو اپنا آپ ہلکا پھلکا محسوس ہو رہا تھا۔ سکون محسوس ہو رہا تھا۔ نہ تھکا وٹ ہوئی نہ ہی دل بھاری ہوا۔ کام تو وہ پہلے بھی کرتی تھی لیکن چڑچڑا پن، بے دلی اور تھکاوٹ رہتی تھی۔ آج ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے عمر اور سدرہ کی پسند کا لنچ تیار کیا اور انہیں آواز دی۔ رونق تھی ، خوشیاں تھیں ۔ ہر طرف محبت رقصاں تھی۔ سسرال میں کبھی کبھی ہم بھی زیادتی کر جاتے ہیں۔ اپنے کیے گئے کاموں کو یاد رکھتے ہیں، دہراتے ہیں، احسان جتاتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے ہمارے کتنا کام آتے ہیں۔ ساتھ رہنا ہی ہے تو کیوں نہ دل سے رشتہ نبھایا جائے ۔ نیت صاف ہو گی تو اجر بھی تب ہی ملے گا۔
☆☆☆

Latest Posts

Related POSTS