دولہا اور دلہن کا کمرہ رنگوں، روشنیوں اور پھولوں سے سجا مہک رہا تھا۔ تازہ پینٹ شدہ دیواروں اور براؤن رنگ کے نئے فرنیچر نے سج دھج میں چار چاند لگا دیے تھے۔ بیڈ کے چاروں اطراف آرائشی لڑیاں جھول رہی تھیں اور بیڈ کراؤن کے عین اوپر دیوار پر پھولوں کی پتیوں سے بڑا بڑا ” شادی مبارک ” لکھا تھا۔ بیڈ پر بنفشی رنگ کی مخملیں بیڈ شیٹ بچھی تھی اور اس کے داہنی طرف سفید کرتا شلوار میں ملبوس دولہا راجہ نکھرا ستھرا مگر کچھ تھکا ہارا سا گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز تھا۔ آج اس کی شادی خانہ آباد کو تیسرا دن تھا اور ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اس کی دلہن رواج کے مطابق اپنے بہن بھائیوں اور کزنز کے ہجوم کے ہمراہ میکے سدھاری تھی۔ شادی کے ہنگاموں اور بھاگم دوڑی میں وہ تھک کر نڈھال ہو چکا تھا۔ کمر الگ تختہ بنی ہوئی تھی۔ اب یہ دو گھڑی فرصت نصیب ہوئی تھی تو وہ بیڈ پر ڈھے سا گیا تھا۔ ایئر کولر کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے لوری کا کام دے رہے تھے۔ آنکھیں آپوں آپ بند ہوئے جارہی تھیں ۔ اس سے پہلے کہ وہ گہری نیند میں جاتا اماں نے کمرے میں قدم رنجہ فرمایا۔ ارے راجہ! سو گئے کیا ؟ ان کی پاٹ دار آواز گونجی۔ نہیں اماں !! اس نے آنکھیں موندے ہی جواب دیا اور ذرا سا پرے سرک کر ان کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی۔ سنو راجہ میں یہ کہنے آئی تھی کہ جب تم شام کو دلہن کے میکے جاؤ گے نا اسے لینے کے واسطے تو خالی ہاتھ مت چلے جانا۔ پانچ کلو کی مٹھائی کی ٹوکری بنوا لینا اور آتے ہوئے سالیوں کو بھی کچھ نہ کچھ دے کر آنا۔ ہیں ! کیا اماں؟ اماں کے ارشادات پر اس کی آنکھیں پٹ سے کھل گئیں اور دل نے صدمے سے ایک غوطہ کھایا ۔ اماں! بارات کے دن اتنا بڑا ٹوکرا مٹھائی کا گیا تھا اور پھر سالیوں کو بھی ڈھیروں رویے تھمائے تھے ۔ (اس کا اشارہ دودھ پلائی کی تگڑی سی رقم کی جانب تھا) او ہو راجہ ایک تو تم بہت بھولے ہو۔ بیٹا! وہ تو تھیں بارات کی رسمیں۔ آج تو دلہن مکلاوے گئی ہے۔ اور تو پہلی بار اسے لینے جا رہا ہے۔ اور ہمارے خاندانی رسم و رواج کے مطابق داماد مٹھائی بھی لے کر جاتا ہے اور سالیوں کے ہاتھ پر بھی کچھ نہ کچھ دھر کر آتا ہے۔ اماں نے رسان سے اسے سمجھایا تو اس کے منہ سے ایک کراہ نکل گئی۔ ہائے یہ خاندانی رسم و رواج اور ان کے تحت ہونے والے خرچے اب جو شادی کے بعد چار پیسے جیب میں بچے تھے لگتا تھا ان کا بھی قلع قمع ہو کر رہے گا۔ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ، اماں تو ہدایت دے کر کمرے سے نکل گئیں جبکہ وہ گومگو کی کیفیت میں بیٹھا رہ گیا۔
راجہ کی شادی گھر کی آخری شادی تھی۔ اس لیے گھر والوں اور باہر والوں سب ہی نے جی بھر کے دل کے ارمان نکالے تھے۔ اس مہنگائی کے دور میں ارمان کون سا مفت نکلتے ہیں۔ ڈھیروں روپے خرچ ہوتے ہیں جو کہ راجہ غریب کی جیب سے ہی نکلوائے گئے تھے۔ یوں تو چھ بہن بھائیوں میں اس کا نمبر فقط تیسرا تھا مگر شادی سب سے آخر میں ہو رہی تھی۔ اس کا بھی ایک پس منظر تھا۔ سب سے بڑے اختر بھائی تھے۔ اماں ابا کے پہلوٹی کے بیٹے۔ انتہائی لاڈلے۔ ابھی گریجویشن ہی کیا تھا کہ اماں ابا کو ان کے سہرے کے پھول کھلانے کا ارمان جاگ اٹھا۔ پھر کیا تھا نوکری بھی لگنے کا انتظار نہ کیا اور جھٹ پٹ چاند سی دلہن بیاہ لائے۔ گھر میں اس وقت روپے پیسے کی کوئی تنگی نہ تھی۔ ابا کی بہت اچھی نوکری تھی۔ زرعی اراضی کا ٹھیکا بھی آتا تھا۔ یوں اماں ابا نے ان کی دلہن حتی کہ ان کے دو بچوں کا بھی بوجھ خوشی خوشی اٹھایا مگر وہ خوشی تو اس وقت اڑنچھو ہوئی جب بھیا نوکری لگتے ہی بیوی بچے سمیٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سسرال کو پیارے ہوگئے۔ ان کی طوطا چشمی اور خود غرضی کا سارا خمیازہ راجہ غریب کو بھگتنا پڑا ۔ اماں نے علی الاعلان کہہ دیا۔ خبردار گھر میں کوئی بھی راجہ کی شادی کا نام نہیں لے گا جب تک کہ چاروں لڑکیاں ٹھکانے نہ لگ جائیں گی اور یہ خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنی شادی کے تمام تر اخراجات خود اٹھانے جوگا نہ ہو جائے گا۔ اس اعلان نے راجہ کے دل کی دنیا تہہ و بالا کردی کیونکہ اس وقت تک تو وہ بھیا کی خالہ ساس کی منجھلی لڑکی رانی سے عشق فرما چکا تھا۔ اس لیے تو ان کے سسرال آنے بہانے اتنے چکر لگتے تھے اس کے، اماں سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنی رہیں۔
پھر اس کے بعد اماں ابا نے سکون سے چاروں کو نمٹایا۔ اس کی بھی ایک چھوٹی موٹی سی نوکری لگ گئی۔ اس نے بہنوں کے ذریعے دباؤ ڈلوا کر کسی نہ کسی طرح رانی سے منگنی تو کروائی مگر اماں شادی سے ہنوز انکاری تھیں۔ چپ چاپ پیسے جمع کر، ہم سے کوئی امید نہ رکھنا۔ ہم تو خود چاروں لڑکیوں کو بیاہ کر خالی ہوئے بیٹھے ہیں ۔ لڑکی والوں کی طرف سے دبا دبا سا شادی کا مطالبہ بھی کیا گیا تو اماں نے بغیر لحاظ و مروت کے جتا دیا۔ ہمارے لڑکے کی ابھی اتنی حیثیت نہیں ہے۔ انتظار ہو سکتا ہے تو کرو ورنہ اپنی لڑکی کے لیے کوئی اور بر تلاش کرلو اماں کے اس سنگ دلانہ بیان پر جہاں اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ وہاں رانی نے تبھی خم ٹھوک کراپنے گھر والوں سے کہہ دیا۔ اگر راجہ کے علاوہ میرے لیے کوئی اور بر ڈھونڈا گیا تو میں گندم میں رکھنے والی گولیاں پھا نک لوں گی- یعنی آگ تو دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی۔ بس نصیب ہی ٹھنڈے تھے ۔ اس کی نوکری معمولی تھی تو تنخواہ بھی قلیل تھی۔ بیاہی بہنوں کا گھر تھا۔ کبھی کسی کا چھلہ اور بھی کسی کے بچے کا عقیقہ۔ دینا دلانا تو پڑتا تھا۔ اماں ابا کی اپنی حالت پتلی تھی۔ ابا ریٹائر ہو چکے تھے اور زرعی اراضی بھی تایا اور چاچا میں تقسیم ہو کر مختصر سی ان کے حصے میں آئی تھی۔ بہرحال وہ بچت کرنے میں جتا رہا۔ چند سال اور سرک گئے مگر جب اماں نے شادی کا نام تک نہ لیا تو ایک دن اس نے خود ہی بے شرم ہو کر کہا۔ اماں ! وہ میری شادی ؟ کیا کہا شادی ؟؟ اماں نے خشمگیں نظروں سے گھورا۔ ہاں اماں! میرا خیال ہے اب تو کافی رقم جمع ہوگئی ہے ۔ اس نے تھوک نگلا۔ ارے جتنے پیسے تو سنبھال کر اترا رہا ہے نا تو اتنے میں بامشکل بری کے کپڑے لتے ہی آیائیں گے۔ زیور کہاں سے بنواؤں گی۔ اپنے والا تو سارا میں بہو اور بیٹیوں کو چڑھا چکی ہوں ۔ اماں نے ایک اور دل خراش انکشاف کیا۔ اماں گولڈ کے زیورات کوئی ضروری تو نہیں ہیں آج کل بازار میں ایک سے بڑھ کر ایک مصنوعی زیورات دستیاب ہیں۔ بالکل اصلی کا گمان ہوتا ہے۔ ایک دوسیٹ وہی خرید لیں گے۔ اپنے تئیں اس نے جھٹ مشکل کا حل بتایا مگر اماں تو اچھل پڑیں۔ کم بخت! باؤلا ہو گیا ہے کیا؟ اس عمر میں میرے سر میں شریکوں کے سامنے سواہ ڈلوائے گا کیا۔ نیکے کی شادی کا ماجرا بھول گئے کیا۔ اس کی ماں بھی مصنوعی زیورات پر سونے کا پانی چڑھا کر لے گئی تھی۔ دلہن کی تائی اور بچیوں نے جھٹ بھانپ لیا۔ ماں بیٹے کی کیسی درگت بنی تھی۔ دلہن والے تو بارات واپس کرنے پر تل گئے تھے۔ بڑی مشکل سے کچھ لوگوں نے بیچ میں پڑ کر معاملہ ٹھنڈا کرایا تھا۔ یوں اس کی شادی مزید لٹک گئی۔ اب تو یاردوست بھی مذاق اڑانے لگے تھے۔ یار جب تمہاری شادی ہوگی نا تو بچے بارات کے دن دولہا راجہ آ گیا، دولہا راجہ آگیا کی بجائے کہیں گے دولہا بابا آگیا دولہا بابا آ گیا۔ وہ اپنی جگہ پر کھسیا کر رہ جاتا۔ آخر کار قدرت کو اس پر ترس آہی گیا۔ اسے فیصل آباد کی ایک ٹیکسٹائل مل میں اچھی نوکری مل گئی ۔ تنخواہ بھی معقول تھی۔ یوں بچت مہم تیز تر ہوگئی اور وہ ایک دو سال میں زیورات بنوانے میں بھی کامیاب ہو گیا اور اس کی شادی کی تاریخ ٹھہرا دی گئی۔
راجہ اور رانی کی شادی خوب دھوم دھام سے ہوئی۔ دونوں پر رج کے روپ چڑھا۔ دونوں ہی نے ہجر کی طویل رات کاٹی تھی اور اب ملن کا خوب صورت سویرا ان کا منتظر تھا۔ لگن سچی ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے- راجہ کو با مشکل دو ہفتوں کی چھٹی ملی تھی ۔ ہر روز ہی وہ دونوں کسی خالہ، مامی، چاچی، یا پھوپھی کے ہاں مدعو ہوتے یا پھر نئے نویلے جوڑے سے خاندان بھر میں سے کوئی نہ کوئی ملنے آیا رہتا۔ ایسے ہی مصروف سے شب وروز میں اتنی فرصت ہی نہیں مل رہی تھی کہ فسانہ دل ایک دوجے کو سنایا جاتا۔ راجہ تو اپنے ایک شاعر دوست سے ڈائری پر ڈھیروں اشعار لکھوا کر لایا تھا کہ رانی کو شعر و شاعری سے بہت شغف تھا مگر ایک تو بیاہی بہنوں اور ان کے بچوں کے شور شرابے میں سکون ہی میسر نہیں آرہا تھا دوسرا وہ ڈائری کم بخت بھی سامان میں نجانے کہاں کھو گئی تھی۔ چھٹیوں کے گنے چنے دن تیزی سے سرک رہے تھے۔ مگر اس بار راجہ کے بے قرار دل کو کچھ تسلی سی تھی کیونکہ واپسی پر رانی بھی اس کے ہمراہ جارہی تھی ۔ شادی سے پہلے ہی گھر والوں کے باہمی مشورے سے یہ بات طے پا چکی تھی کہ وہ جاتے ہوئے رانی کو بھی ساتھ لے جائے گا۔ اس طرح ایک تو نیا جوڑا وہاں ہنی مون بھی منالے لگا اور پھر راجہ کو روٹی پانی کا جو مسئلہ ہوتا ہے وہ بھی نمٹ جائے گا۔ اس لیے آتے ہوئے وہ کرائے کے ایک چھوٹے سے گھر کا بندوبست کر کے آیا تھا۔ تھوڑی بہت پلاننگ اس نے وہیں کر لی تھی کہ وہ رانی کو جھنگ بازار کی سیر کرائے گا۔ حلوہ پوری اور نان چنے کھانے وہ بھوانہ بازار یا پھر کچہری بازار کی طرف نکل جایا کریں گے۔ وہ رانی کو گھنٹہ گھر بھی دکھائے گا۔ یہاں کے مشہور دہی بڑے اور چنے چاٹ بھی کھایا کریں گے ۔ مگر وائے افسوس ابھی قدرت کو ان کی مزید آزمائش مطلوب تھی۔
رات نصف سے زیادہ بیت چکی تھی مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس نے پہلو میں لیٹی اپنی نئی نویلی دلہن کو دیکھا جس کے صبیح چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔ اسے رشک سا آیا۔ کاش اس کی بھی تمام پریشانیاں ہوا میں کہیں تحلیل ہو جاتیں جن کی اس نے اسے ابھی تک بھنک بھی نہیں پڑنے دی تھی۔ یہ فیصل آباد سے آتے ہوئے وہ اچھی خاصی رقم ہمراہ لایا تھا۔ اس کی درخواست پر آفس والوں نے اسے ایڈوانس بھی دیا تھا۔ احتیاطا وہ کچھ دوستوں سے ادھار بھی پکڑ لایا تھا۔ مگر شادی کے موقع پر رسم و رواج کے نام پر اسے اتنا لوٹا گیا تھا کہ شادی جیسی انمول نعمت بھی پھیکی پھیکی سی لگنے لگی تھی ۔ پھر ولیمے کے بعد اتنے بل دینے پڑے تھے۔ مہندی پر ہار پھولوں کا بل لائٹنگ کا بل ، کراکری کا بل، کیٹرینگ کا بل، ولیمے کے کھانے کا بل ، بل ہی بل دیتے ہوئے وہ بلبلا اٹھا تھا۔ اختر بھائی نے تو جھوٹے منہ بھی چند روپوں کی آفر نہ کی تھی۔ اماں ابا نے البتہ ایک چھوٹی سی رقم ضرور تھمائی تھی۔ اب جانے کا وقت آ گیا تھا اور حال یہ تھا کہ اس کی جیب میں اپنے جانے کا کرایہ تک نہ بچا تھا۔ اس لیے رانی کو ہمراہ لے جانے والا پروگرام صاف کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہا تھا۔ سوچ سوچ کر اس کے سر میں درد ہو رہا تھا ۔ اس نے سردرد کی گولی تلاش کرنے کے لیے بیڈ کی دراز کهینچی ۔ اندر رانی کا گولڈن پرس جگمگا رہا تھا۔ پرس کافی پھولا پھولا سا دکھ رہا تھا۔ یقیناً اس میں سلامی کے پیسے تھے۔ ایک دم سے اس کے ذہن میں ایک ہلکا سا خیال آیا پھر اس نے فورا ہی اسے جھٹک دیا۔ اب کیا وہ اپنی نئی نویلی بیوی سے ادھار مانگتا اچھا لگے گا؟
صبح سویرے کا وقت تھا۔ وہ کچن میں داخل ہوا تو اماں آٹا گوندھ رہی تھیں۔ وہ ایک موڑھا گھسیٹ کر ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ اماں ! پرسوں میں واپس جارہا ہوں ۔ ہیں اتنی جلدی تمہاری چھٹی ختم ہو بھی گئی؟ اچھا تو پھر دلہن سے کہو وہ تمہارا اور اپنا ضروری سامان پیک کر لے۔ اماں نے گوندھا ہوا آٹا ایک پیالے میں نکالتے ہوئے کہا۔ اماں ! رانی میرے ساتھ نہیں جارہی ، وہ یہیں رہے گی ۔ وہ کچھ پست آواز میں بولا۔ ہیں ؟ مگر کیوں ؟ تم تو وہاں گھر کا انتظام کر کے آئے تھے نا ؟ اماں کا لہجہ استفہامیہ ہوا۔ ہاں اماں ! مگر خالی خولی گھر سے کیا ہوتا ہے۔ اور بہت کچھ بھی چاہیے ہوتا ہے۔ سازو سامان وغیرہ، ہاں تو تمہاری دلہن جو ٹرک بھر کے جہیز لائی ہے وہ کیا میں نے استعمال کرنا ہے۔ نہ بھی نہ میں ان ساسوں میں سے نہیں ہوں جو بہوؤں کے داج جہیز پر نظر رکھتی ہیں۔ میرا تو اپنا ڈھیروں سامان اسٹور میں پڑا ہے۔ تم ایک سوٹ کیس لے کر دلہن کے ہمراہ روانہ ہو جاؤ میں اختر سے کہوں گی وہ سامان کا ٹرک لوڈ کروا کر پیچھے بھجوا دے گا۔ ہاں ٹرک والا جیسے مفت لے جائے گا. وہ جل کر بولا۔ اماں ! آپ سمجھتی نہیں ہیں۔ میرے پاس بالکل پیسے نہیں ہیں۔ بیوی کا خرچا کہاں سے کروں گا۔ خود تو ریڑھی سے لے کر ایک سوکھا نان بھی کھا کر گزرا کرلوں گا ۔ وہ جھنجلا اٹھا۔ ہائے میرے لال! اماں تڑپ اٹھیں ۔ میرے پلے بھی کچھ نہیں ہے جو تمہیں دے دوں۔ تھوڑے دنوں تک وہ چھوٹی والی بھی چھلے کے لیے دوبارہ آ جاے گی- مسقط والی بھی میاں اور بچوں کے ہمراہ ابھی مہینہ بھر ادھر ہی رہے گی۔ اگلے مہینے شاید جائے۔ اماں کے اپنے دکھڑے تھے۔ مگر میرے چاندا لڑکی والوں کو تو یہی بتایا تھا کہ دلہن ساتھ جائے گی وہ کیا سوچیں گے! اماں کو ایک اور نکتہ سوجھا ۔ اماں! وہ جو مرضی سوچیں مگر فی الحال میں رانی کو چھ سات ماہ تک وہاں نہیں لے جاسکتا ۔ ایڈوانس تنخواہ میں خرچ کر چکا ہوں۔ دوستوں کا ادھار چکانا ہے۔ مکان کا کرایہ بھی ابھی واجب الادا ہے۔ مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہیے، بس آپ میرے بعد رانی کا خیال رکھنا۔ اس نے کہا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔
بچھڑتے سمے دونوں اداس اور دل گرفتہ تھے۔ رانی کے لب خاموش اور آنکھیں بھری ہوئی تھیں مگر ان آنکھوں میں ٹھہرے تمام آنسو راجہ کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ اپنی مجبوریوں کی داستان اسے سنا چکا تھا جو اس نے بڑے صبر سے بغیر کسی گلے شکوے کے سن لی تھی اور ساتھ ہی سلامی کے پیسوں کی آفر بھی کی تھی۔ مگر ایک تو اس کے ضمیر نے گوارا نہیں کیا کہ وہ بیوی کو تحفے میں ملنے والی رقم ہتھیا لے ، دوسرے اتنے تھوڑے سے پیسوں سے کچھ بھی ہونے والا نہ تھا۔ اس نے پیسے دوبارہ اس کی مٹھی میں دبا کر اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں لیا۔ طویل جدائی کے بعد محبت کو ایک جائز رشتہ ملا بھی تو ساتھ نصیب نہ ہورہا تھا۔ وہ بڑے بھاری دل کے ساتھ فیصل آباد کے لیے روانہ ہو گیا۔
منہ اندھیرے ہی وہ فیصل آباد پہنچ گیا۔ اپنی موٹر سائیکل وہ بس ٹرمینل کے اسٹینڈ پر ہی کھڑی کر کے آیا تھا۔ وہاں سے نکلوا کر وہ اس پر سوار ہو کر گھر جا پہنچا۔ یہ ایک ڈبل اسٹوری مکان تھا، جس کا اوپر والا پورشن اس نے کرائے پر شادی سے چند روز قبل ہی لیا تھا۔ مالک مکان کا نام فیاض تھا جن سے وہ اپنے ایک دوست کے توسط سے ملا تھا۔ فیاض صاحب نہایت شریف النفس اور نیک فطرت انسان تھے۔ وہ اپنی بیوی کے ہمراہ نچلے پورشن میں رہائش پذیر تھے۔ دو بیٹیاں تھیں جن کی وہ شادی کر چکے تھے۔ ان کی اپنی بھی گورنمنٹ جاب تھی مگر چند سال قبل شوگر اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں نے انہیں ایسا گھیرا کہ ریٹائر منٹ لینی پڑی۔ پنشن کی رقم سے انہوں نے اوپر والا پورشن بنوا لیا تھا تا کہ اضافی آمدنی کا اسرا رہے۔ مین گیٹ کی چابی اس کے پاس تھی۔ اس نے گیٹ کھول کر احتیاط سے موٹر سائیکل کو اندر گھسیٹا تا کہ گھر والے بے آرام نہ ہوں اور پھر دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھ کر اپنے پورشن تک آ گیا۔ دروازہ کھولا تو خالی گھر دیکھ کر دل میں ہوک سی اٹھی۔ اس نے کیا کیا سوچا تھا کہ رانی کا ہاتھ تھام کر گھر میں داخل ہوگا۔ پھر دونوں مل کر گھر کا چولہا جلائیں گے۔ سجائیں گے سنواریں گے مگر … اس نے بے دلی سے سفری بیگ ایک طرف اچھالا اور خود نیچے بچھی چٹائی پر ڈھیر ہو گیا-
وہ دن چڑھے تک سوتا رہا پھر ٹھک ٹھک کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی۔ دروازہ کھولا تو سیڑھیوں کے پاس فیاض بھائی کھڑے اپنی چھڑی کی نوک سے ریلنگ بجارہے تھے۔ وہ دو دو اسٹیپ پھلانگتا ہوا ان تک پہنچا- ارے شہزادے آگیا تو ؟؟ وہ گرم جوشی سے اس سے لپٹ گئے۔ شادی مبارک ہو بھی بہت بہت، نہ تم نے آنے کی اطلاع کیوں نہ دی۔ وہ تو ابھی تمہاری موٹر سائیکل گیراج میں کھڑی دیکھی تو معلوم ہوا کہ دولہا صاحب تشریف لا چکے ہیں ۔ انہوں نے اسے گلے لگائے لگائے ہی کہا۔ اپنے جوش و خروش میں وہ اس کا بجھا بجھا سا انداز نوٹ نہ کر سکے۔ و بھئی برخوردار! ایسا ہے کہ تم اور دلہن تیار ہوکر نیچے آجاؤ۔ تمہاری بھابھی ناشتہ بنارہی ہیں۔ مل کر کرتے ہیں۔ (وہ جاتے ہوئے انہیں بتا کر گیا تھا کہ واپسی پر دلہن اس کے ہمراہ آئے گی )- وہ فیاض بھائی ! میں اکیلا ہی آیا ہوں۔ دلہن نہیں آئی۔ اس نے کچھ جھجک کر بتایا۔ وہ کیوں بھئی ؟ تمہارا تو یہی پروگرام تھا۔ میں نے تو پانی والی ٹنکی بھی بھروا دی تھی ۔ ان کی نظریں سوالیہ ہوئیں۔ وہ بس بھائی ! وہاں جا کر حالات کچھ ایسا رخ اختیار کر گئے تھے کہ دلہن کو ساتھ لانا ممکن نہ رہا تھا۔ اس کا لہجہ پست تھا مگر چہرے پر مجبوریوں کی داستان رقم تھی۔ مزید کچھ کہنا نہ پڑا۔ فیاض صاحب کی جہاں دیدہ نگاہوں نے سب کچھ پڑھ لیا۔ اچھا! اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا ۔ انہوں نے اس کے کندھے پر تسلی بھری تھپکی دی۔ تم فریش ہو کر آجاؤ۔ میں تمہارا اور اپنا ناشتہ ڈرائنگ روم میں لے کر آتا ہوں۔ نہیں بھائی! اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے راستے میں چائے پی لی تھی۔ کیوں کیا خالی چائے پر گزارا کرو گے… انہوں نے شفقت سے ڈپٹا تو وہ ان کے خلوص پر شرمندہ سا ہو گیا۔
پھر وہ آتے ہی گدھوں کی طرح کام میں جت گیا۔ اس نے فیکٹری میں صبح اور شام دونوں شفٹوں میں ڈیوٹی لگوالی۔ رات گئے گھر لوٹتا تو تھکا ماندا بستر پر گرتے ہی بے خبر ہو جاتا۔ دو گھڑی فرصت نصیب ہوتی تو موبائل پر رانی سے بات بھی ہو جاتی ۔ گاؤں میں اکثر سگنل کا مسئلہ ہی رہتا تھا۔ ٹھیک سے بات ہی نہ ہو پاتی ۔ آواز کٹ جاتی۔ وہ بے دلی سے فون ایک طرف پھینک دیتا۔ اس دن جمعہ تھا۔ اس کا ایک بھی کپڑا دھلا ہوا نہیں تھا۔ پہلے تو دھوبی کو دے دیتا تھا مگر اب بچت کے خیال سے اس نے خود دھونے کا سوچا۔ کپڑے دھو کر وہ الگنی پر پھیلا رہا تھا، جب اسے سیڑھیوں پر قدموں کی چاپ سنائی دی اور پھر کھانسی کی زور دار آواز ، فیاض بھائی بامشکل سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آرہے تھے۔ ایک ہاتھ میں ڈھکی ہوئی پلیٹ تھام رکھی تھی۔ یہ لو راجہ ! تمہاری بھابھی نے آج بریانی بنائی تھی- پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ انہوں نے مشکل سے ہی جملہ مکمل کیا۔ اوہو فیاض بھائی آپ نے خود کیوں زحمت کی؟ مجھے آواز دے دیتے .. راجہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر پلیٹ ان کے ہاتھوں سے پکڑی اور انہیں سہارا دے کر چارپائی پربٹھایا۔ تم گھر میں ہوتے کب ہو؟ سارا سارا دن غائب رہتے ہو۔ رات کو بھی نجانے کس پہر آتے ہو- یہ تو آج اوپر سے کھٹر پٹر کی آوازیں آ رہی تھیں تو میں نے سوچا کہ تمہیں کھانا دے آتا ہوں۔ اس بہانے ملاقات بھی ہو جائے گی مگر یہ چار سیڑھیاں چڑھتے ہوئے برا حشر ہو گیا۔ ان کی سانسیں کچھ ہموار ہوئیں تو وہ راجہ کو کچھ خفگی سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئے۔ گھر کتنا سونا سونا سا لگ رہا ہے۔ ہم نے تو سوچا تھا کہ دلہن آئے گی تو کوئی رونق شونق ہو جائے گی ۔ مگر تم تو جیسے لنڈورے گئے تھے ویسے لنڈورے آئے۔ وہ جواب میں فقط پھیکے پن سے مسکرا کر رہ گیا۔ راجہ! میں تو کہتا ہوں کہ کل ہفتہ ہے اور پرسوں اتوار ایک چھٹی لے لو اور نکل جاؤ گاؤں کے لیے۔ دلہن کو لے کر آ جاؤ- مگر فیاض بھائی ! اتنی جلدی تو یہ قطعی ممکن نہیں ہے۔ آپ میری مشکلات سے آگاہ تو ہیں ؟ وہ ان کے جھٹ پٹ پروگرام پر مغموم سا ہو کر بولا۔ تمہاری مشکلات کا کچھ حل تو ڈھونڈا ہے میں نے- یہ کہ کر انہوں نے اپنے کرتے کی جیب سے ایک خاکی رنگ کا پھولا سالفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ د میں نے تو اسی دن ٹھیکے دار سے کہا تھا کہ رقم دے جائے ۔ مگر اس ناہنجار نے بھی آنا کانی کرتے کرنے اتنے دن گزار دیے۔ آج ہی دے کر گیا ہے- نہیں فاض بھائی !! وہ کرنٹ کھا کر تھوڑا سا پیچھے سرک گیا۔ میں آپ پر مزید بوجھ نہیں بن سکتا۔ پہلے ہی میرے سر پر آپ کے بہت احسانات ہیں۔ آپ نے جاتے ہوئے بھی تحفتاً کچھ پیسے دیے تھے۔ میرے حالات کی وجہ سے فی الحال کرایہ بھی نہیں لے رہے۔ آپ اور بھابھی تو خود بیمار رہتے ہیں۔ آپ کو تو خود ضرورت ہے۔ دیکھو راجہ ! انہوں نے اپنا چشمہ اتارا اور اسے رومال سے صاف کر کے دوبارہ اپنی آنکھوں پرجماتے ہوئے پر سوچ انداز میں بولے۔ جن حالات سے تم آج گزر رہے ہوا نہ کم و بیش اس طرح کی حالات کو میں نے آج سے تقریبا اٹھائیس سال پہلے بھگت چکا ہوں۔ کہانی تم سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ خالہ کے ہاں منگنی ہو چکی تھی۔ اچانک خالو بیمار پڑ گئے۔ اتنے زیادہ کہ لگتا تھا کہ فرشتہ اجل اچک لے جائے گا۔ ( یہ اور بات ہے کہ ہماری شادی کے بعد بہت سال تک وہ زندہ رہے)- لڑکی والوں کی طرف سے شادی کے لیے دباؤ بڑھ گیا۔ نا چاہتے ہوئے بھی اماں ابا تیار ہو گئے۔ میں نے بہتیرا کہا کہ سادگی سے نکاح کردیں۔ مگر اکلوتی نرینہ اولاد تھا۔ سادگی سے کرتے ہوئے بڑوں کی انا آڑے آئی تھی۔ جو جمع جتھا تھا سب ہی خرچ ہو گیا۔ میں نئی نویلی دلہن کو گاؤں چھوڑ کر لوٹ آیا۔ امید تھی کہ سال چھ ماہ میں حالات سدھرتے ہی لے آؤں گا۔ مگر یہاں آتے ہی اچھی بھلی نوکری چھوٹ گئی۔ نئی نوکری لگنے اور کچھ پاؤں جمنے میں ہی اتنا عرصہ لگ گیا کہ دلہن کو تو کیا یہاں لا پاتا۔ خود ہی چھ چھ ماہ تک بامشکل گھر کا چکر لگتا۔ جب حالات میں کچھ بہتری آئی، چند سال مزید آگے سرک گئے تھے۔ اور وہاں گاؤں میں ہماری دو چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی یکے بعد دیگرے پیدا ہو چکی تھیں۔ معاشی لحاظ سے تھوڑا اور مستحکم ہوتے ہی میں بیوی بچوں کو یہیں لے آیا۔ مگر اب وہ پہلی سی بات نہیں رہی تھی۔ وہ اولین دونوں کی محبت، چاہت، نرم گرم جذبات سب ہی حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر باسی، بوسیدہ ہو چکے تھے۔ ویسے بھی دو چھوٹی بچوں کا ساتھ تھا۔ نئے نویلے جوڑے کی طرح موٹر سائیکل پر سیریں کرتے اور پارکوں میں لور لور پھرتے اچھے تو نہ لگتے تھے۔ اور نہ ہی دل کو سیر و تفریح اور ہلے گلے کی چاہ رہی تھی۔ بیمار بچے، کسی کو فلو کسی کو بخار، زیادہ تر ڈاکٹروں کے پاس ہی چکر لگتے تھے۔ پھر حالات بہتر سے بہتر ہوتے چلے گئے۔ میں نے تلافی کی بھی کافی کوشش کی۔ اتنے سال اکٹھے بھی رہے مگر اس نیک بخت کے دل سے ان اولین دنوں کی جدائی کا قلق ہی نہیں جاتا۔ آنے بہانے جتائی رہتی ہے۔ اس کا بھی کوئی قصور نہیں ۔ ہر چیز اپنے وقت پر اچھی لگتی ہے۔ جس طرح سوکھے ہوتے پھولوں سے رفتہ رفتہ خوشبو کم ہو جاتی ہے بالکل اسی طرح جذبات و احساسات کو بھی بروقت پذیرائی نہ ملے تو وہ بھی سرد ہو جاتے ہیں۔ مرجھا جاتے ہیں۔ ان پر بھی اوس پڑ جاتی ہے۔ پھر اس لحاظ سے مرد اور عورت میں فرق بھی ہے۔ عورت کے جذبات کانچ سے بھی نازک ہوتے ہیں۔ مرد تو حالات کی مار سہہ کر بھی اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے۔ مگر عورت کے کومل احساسات کی بے قدری ہو تو وہ ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ اپنے دل میں ایسے زخم بنالیتی ہے جن سے درد کی ٹیسیں اٹھتی رہتی ہیں ۔ وہ دور کہیں ماضی میں کھوئے کھوئے سے بول رہے تھے اور وہ ہونق پن سے منہ کھولے انہیں دیکھ رہا تھا۔ بظاہر سیدھے سادے نظر آنے والے فیاض بھائی تو عورت کی نفسیات پر غالبا پی ایچ ڈی کیے ہوئے تھے۔ ان کے حرف حرف سے متفق ہونے کے باوجود اس نے رقم کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا تو انہوں نے جھنجلا کر لفافہ اس کی گود میں ڈال دیا۔ فی الحال تو ایسے کوئی ہنگامی حالات نہیں کہ مجھے ابھی کے ابھی ان پیسوں کی ضرورت ہو ۔ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا۔ جب سہولت ہو آہستہ آہستہ لوٹاتے رہنا۔ ابھی تو تم دلہن کو لانے کی تیاری پکڑو۔ وہ ذرا ڈ پٹ کر بولے تو وہ ان کے خلوص پر ایک بار پھر شرمندہ ہو گیا۔ اس نے ان کی طرف ممنون نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچا۔ کون کہتا ہے کہ صرف عورت ہی عورت کا دکھ سمجھ سکتی ہے۔ مرد بھی مرد کا دکھ سمجھ لیتا ہے۔