ماسٹر شرما کے گیراج میں وہ سفید مرسیڈیز بڑی شان کے ساتھ داخل ہوئی تو انیل داس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
وہ پل بھر کے لیے پلکیں جھپکانا بھول گیا۔ اس قسم کی کاریں اس کے گیراج میں مرمت کے لیے نہیں آتی تھیں۔ وہ بس اپنا جلوہ دکھا کر زن سے سامنے والی سڑک سے گزر جاتی تھیں۔ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی تھی۔
انیل داس اس وقت ایک کار کے نیچے گھسا ہوا تھا مگر جب سفید مرسیڈیز سے دو سفید سینڈل باہر نکلے تو اسے مرسیڈیز سے زیادہ اسے چلانے والی میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔
وہ جلدی سے کار کے نیچے سے باہر نکلا اور اس بت طناز کی طرف منجمد نظروں سے اس طرح دیکھنے لگا جیسے جاگتے میں کوئی سندر سپنا دیکھ رہا ہو۔
اس حسین پیکر نے سفید لباس پہن رکھا تھا۔ اس کے سینڈل اور بالوں میں بندھا ہوا ربن بھی سفید تھا البتہ آنکھوں پر سیاہ چشمہ تھا اور ہونٹوں پر خون کی سرخی جیسی لالی تھی اور وہ شہد آگیں لگ رہی تھی۔
لڑکی نوجوان تھی۔ اپنی سبک خرامی کے انداز سے کوئی ماڈل لگتی تھی۔
ماسٹر شرما نے آنے والی اس کافر ادا کی طرف دیکھا اور فوراً ہی اس کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا ہوا ہے اس میں…؟‘‘
’’اس کا پک اَپ ٹھیک کام نہیں کررہا، کلچ بھی پریشان کررہا ہے۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔
ماسٹر شرما نے لڑکی کی شکایت پر کوئی توجہ نہیں دی اور کار کا بونٹ اٹھا کر اس پر جھک گئے اور تفصیل سے اس کا جائزہ لینے لگے۔ پھر انہوں نے اس کے ایک دو تار چھیڑے اور اس کی طرف دیکھے بغیر بولے۔ ’’اس کے سلنڈر میں خرابی ہوگئی ہے۔ آپ اسے گیراج میں چھوڑ دیں، اس کی خرابی دور کرنے میں سمے لگے گا۔‘‘
’’اوہ کیا کہا…؟ میرے لیے گاڑی چھوڑنا بہت مشکل ہوگا۔‘‘ اس ماہ پارہ نے ایسا منہ بنایا کہ اس کے چہرے کا جغرافیہ ہی بدل گیا۔ ’’میرے سارے کام ٹھپ ہوکر رہ جائیں گے؟ اوہ بھگوان…! پھر میں خریداری کیسے کروں گی؟ میں شاپنگ کیے بغیر ایک گھنٹہ بھی نہیں رہ سکتی اور پھر دوستوں سے ملنے کیسے جائوں گی؟ وہ ٹیلیفون کرکے میرا ناک میں دم کردیں گے؟‘‘
’’جانے کے لیے سواری مل جائے گی۔ رکشہ، ٹیکسی اور بس سے بھی جایا جاسکتا ہے۔‘‘ ماسٹر شرما نے اس کے نخروں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کوئی مسئلہ تو ہے نہیں۔‘‘
’’لیکن اب کیسے جائوں گی۔ یہاں دور دور تک سواری دکھائی نہیں دے رہی۔‘‘ وہ تنک کر بولی۔ ’’ریلوے اسٹیشن پیدل جانے سے رہی، میں بس میں سفر نہیں کرتی۔‘‘
’’آپ چنتا نہ کریں۔ میرا آدمی آپ کو…‘‘ ماسٹر نے اسے دلاسا دیا۔ پھر وہ انیل داس کی طرف گھوم گئے۔ ’’انیل…! میری گاڑی لے جائو اور شریمتی جی کو ان کے بنگلے پر چھوڑ کر آجاؤ۔‘‘
انیل داس کی گویا دلی مراد بر آئی۔ خوشی سے اس کے دل کی رفتار تیز ہوتی چلی گئی۔ جس لڑکی کے خیالوں میں وہ ڈوبا ہوا تھا اور اس کے ساتھ بلندیوں میں پرواز کررہا تھا، وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ماسٹر شرما اسے اس بت کافر کے ساتھ جانے کا موقع عطا کردیں گے۔ انہوں نے اس پر بڑی دیا کی تھی اور اس احسان کا بدلہ شاید ہی وہ کبھی چکا سکے گا۔ پھر اسے خیال آیا کہ کہیں وہ سپنا تو نہیں دیکھ رہا۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ ماسٹر شرما نے تیز لہجے میں پوچھا تو وہ چونک کر خیالوں کی دنیا سے نکل آیا۔
ماسٹر شرما نے انیل داس کی طرف گہری نظروں سے دیکھا۔ انہوں نے اس کے بشرے سے محسوس کرلیا تھا کہ وہ اس لڑکی کے حسن کا اسیر ہوکر تصورات کی دنیا میں بھٹکنے لگا ہے۔
انہوں نے غیر محسوس انداز میں اس کا شانہ ہلایا اور بولے۔ ’’جلدی جا۔ واپس آکر مکرجی رانا داس کی گاڑی بھی دیکھنی ہے اور آج دن ڈوبنے سے پہلے انہیں پہنچانی بھی ہے۔ کام پر دھیان دے… تیرا دماغ فلمیں دیکھ کر ٹھکانے نہیں رہتا ہے۔ آج کل تو بہت سپنے دیکھنے لگا ہے۔ یہ کام نہیں آتے ہیں۔ آسمان میں مت اڑا کر، نیچے دیکھ کر چلا کر تو کامیاب رہے گا ورنہ ٹھوکر لگے گی تو کبھی سنبھل نہ پائے گا۔ یہ جوانی دیوانی تیرا ستیاناس کردے گی۔‘‘
انیل داس جب بھی ماسٹر شرما کا لیکچر سنتا تو اس کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتا تھا۔ یہ ان کی عادت تھی۔ جب بھی وہ کسی حسین لڑکی کو ایک ٹک دیکھنے لگتا تو بگڑ جاتے۔ اس کے سامنے تو ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا تھا۔ مست کردینے والی خوشبو تھی۔ جس نے اس کا دماغ معطر کردیا تھا۔ اس زلف بنگال نے اس پر جادو کردیا تھا۔ اسے ہوش کہاں تھا۔
انیل داس کی عمر تیس برس ہوچکی تھی۔ وہ ابھی کنوارا تھا۔ وہ بھی دوسرے نوجوانوں کی طرح راتوں رات دولت مند بننے کے سپنے دیکھتا تھا۔ اس کی بڑی تمنا تھی کہ دنیا بھر کی آسائشیں اس کی جھولی میں کسی پکے پھل کی طرح ٹپک پڑیں۔ وہ عملی جوان کبھی نہیں رہا تھا۔ سپنوں کے ذریعے سب کچھ حاصل کرلینا چاہتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کوئی اپنا سپنا نہیں پا سکا تھا۔ کبھی ایک کام کرتا اور کبھی اسے چھوڑ کر دوسرا کرنے لگتا۔
حالات اسے ماسٹر شرما کے گیراج میں لے آئے تھے۔ یہاں وہ بڑی محنت سے کام کررہا تھا لیکن سندر سپنوں کی دنیا سے تعلق نہ توڑ سکا تھا۔ اس کی زندگی کے دو سہانے سپنے تھے۔ بے پناہ دولت اور حسین لڑکیوں کی رفاقت…! لیکن اپنے ان دونوں مقاصد میں ناکام رہا تھا۔ مگر اب اس حسینہ کو دیکھ کر اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا ایک خواب پورا ہونے والا ہے۔
اس شہر میں ہر قوم و نسل کی لڑکیاں موجود تھیں جو بنگالی، آسامی، برمی، پرتگال اور چینی نسل سے تعلق رکھتی تھیں لیکن اس کی کمزوری بنگالی لڑکیاں تھیں۔ وہ بنگالی لڑکیوں میں ایک عجیب دلکشی، کشش اور انفرادیت محسوس کرتا تھا۔ ان کے لمبے چمکیلے کالے بال، بڑی بڑی جادو بھری آنکھیں، پھول جیسے رخسار، شہد آگیں لب، تیکھے نقوش جو اس کی آنکھوں میں جذب ہوکر من کے نہاں خانوں میں نقش ہوجاتے تھے۔ چھریرا اور متناسب بدن جس کے انگ انگ میں بجلیاں بھری ہوتی تھیں۔ وہ انہیں بنگالی ساحرہ کہتا تھا۔
یہ ساحرہ بھی اسے بنگالی لگی تھی۔ بنگالی لڑکیوں میں ایسی دودھیا رنگت آٹے میں نمک کے برابر ہوتی تھی۔ ان کی رنگت زیادہ تر سانولی، گندمی یا نکھری نکھری صندلی ہوتی تھی۔ ان میں ایسا نکھار ہوتا تھا کہ گوری رنگت بھی ماند پڑ جاتی تھی۔
یہ ساحرہ ماسٹر شرما کی پرانی گاڑی کی پچھلی نشست پر اپنا سراپا سمیٹ کر بیٹھ گئی۔ انیل داس نے اندر بیٹھ کر اسٹیئرنگ سنبھالا تو اسے لگا کہ گاڑی مہک رہی ہے۔ یہ مہک کسی سینٹ اور پرفیوم کی نہیں تھی بلکہ اس کے جسم کی تھی۔
گاڑی سبک رفتاری سے پتھر گڑھ کی طرف رواں دواں تھی۔ یہ پہاڑی علاقہ تھا اور جمشید نگر کے شمال میں واقع تھا۔ اس علاقے میں کوٹھیاں، بنگلے اور لگژری فلیٹ تھے۔ ماسٹر شرما نے اسے پتا بتا دیا تھا۔ جہاں اس ساحرہ کا بنگلہ تھا۔ انیل داس نے عقبی آئینے کو اس طرح سیٹ کیا تھا کہ وہ اس کی نظروں سے لمحے بھر کے لیے بھی اوجھل نہ ہوسکے۔ اس کی نظروں میں حسین چہرہ جذب ہوتا رہے۔
وہ بے پروائی سے کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی اور باہر کے مناظر سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ اس نے ابھی تک انیل داس سے بات کی تھی اور نہ نگاہیں باہر سے ہٹا کر اسے دیکھا تھا۔ وہ خود ایسا سنسنی خیز اور دلکش نظارہ تھی کہ انیل داس نہیں چاہتا تھا کہ اس ساحرہ کا گھر آجائے۔ اس کا سفید بلائوز سلیولیس تھا۔ ساڑی کا پلو شانے سے پھسل کر اس کی گود میں گرجاتا تو اسے احساس ہی نہیں ہوتا۔ جب خیال آتا تو وہ اسے سینے پر پھیلا لیتی۔ انیل داس کے سینے میں جیسے سرد آہوں کا غبار بھر جاتا۔ وہ پھر سے اس منظر کی تمنا کرنے لگتا۔
کچھ دیر کے بعد وہ اسے راستے کے بارے میں بتانے لگی۔ انیل داس اس کی رہنمائی میں گاڑی کا رخ اس سمت پھیر دیتا۔ وہ ایک کے بعد ایک بڑے میدان سے گزر رہے تھے۔ یہ زمینیں مختلف لوگوں کی ملکیت تھیں۔ ان پر اب تک تعمیر شروع نہیں ہوئی تھی۔ ایک آدھ پلاٹ پر چھوٹا موٹا کمرا بنا ہوا تھا۔ پھر گاڑی ایک بہت بڑے اور خوبصورت بنگلے کے گیٹ پر رک گئی۔
انیل داس نے ہارن بجایا تو لڑکی نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔ ’’گاڑی اندر لے جانے کی ضرورت نہیں، میں خود چلی جائوں گی۔‘‘
انیل داس نے بنگلے کا ناقدانہ نظروں سے جائزہ لیا۔ وہ قدیم اور جدید فن تعمیر کا حسین امتزاج تھا۔ جب یہ بنا ہوگا تو یقیناً شاندار اور پُرشکوہ رہا ہوگا اور اس کی تعمیر پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ہوگا مگر اس سمے وہ کسی بوسیدہ اور ویران گھر کی طرح دکھائی دیتا تھا۔
لڑکی نے اپنے سفید چرمی پرس سے چابی نکال کر گیٹ کا بغلی دروازہ کھولا تو معاً اس کی نظر اندر کی طرف گئی۔ وسیع و عریض لان میں مالی گھاس کاٹتا نظر آیا۔ اس کے سوا اسے اور کوئی نظر نہ آیا۔ گیٹ پر چوکیدار بھی نہ تھا۔
’’یہ مکان… میں اسے بہت اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ اسے کئی فلموں میں دیکھ چکا ہوں۔ کولکتہ کی کئی فلموں کی شوٹنگ اس بنگلے میں ہوئی ہے۔ مجھے یاد آیا۔‘‘ انیل داس نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تو کولکتہ کی فلمی دنیا کے مشہور و معروف ڈائریکٹر ستیہ کمار کا بنگلہ ہے۔ ہے نا…؟‘‘
لڑکی نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا اور آگے بڑھنے لگی تو انیل نے جلدی سے کہا۔ ’’یہ بنگلہ ستیہ کمار نے اپنی پتنی مشہور اداکارہ سمیتا مالا کے لیے تعمیر کرایا تھا اور یہ بنگلہ انہوں نے اسے شادی کے تحفے کے طور پر دیا تھا۔‘‘
’’ہاں! تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا اور برآمدے کی طرف بڑھی۔
’’سنیئے مس…! اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو آپ سمیتا مالا کی بیٹی ہیں؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
لڑکی دلکش انداز سے مسکرائی اور اسے ترچھی نظروں سے دیکھا۔ وہ بولا۔ ’’تب ہی میری نگاہیں آپ کے چہرے سے ہٹ نہیں پا رہی تھیں۔ میں سارے راستے سوچتا رہا کہ یہ مانوس چہرہ کہاں دیکھا ہے۔ دراصل سمیتا مالا کا میں زبردست فین ہوں۔ میں آج بھی ان کا دیوانہ ہوں۔‘‘
لڑکی نے اپنا پرس کھولا اور اس میں سے سو روپے کا ایک نوٹ نکال کر انیل داس کی طرف بڑھا دیا۔
’’یہ آپ کیا کررہی ہیں؟‘‘ انیل داس یکدم سے ہنستے ہوئے بولا۔ ’’آپ میری توہین کررہی ہیں۔ یہ میرے لیے بڑے شرم کی بات ہے کہ میں اپنی محبوب اداکارہ کی بیٹی سے بھیک لوں… ہرگز نہیں۔‘‘
انیل داس نے جس سمے اپنی محبوب اداکارہ کہا تو اس کے لہجے میں بڑا ادب اور احترام نمایاں تھا۔
’’تم میری ممی کی فلمیں بڑے شوق سے
دیکھتے تھے۔ اس وقت تمہاری کیا عمر ہوگی؟‘‘ لڑکی نے شوخ لہجے میں سوال کیا۔
’’یہی کوئی گیارہ، بارہ برس مگر میں نے آپ کی ممی اور آپ کے پاپا کی بنائی کوئی فلم نہیں چھوڑی۔‘‘
انیل داس مزید کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا کہ لڑکی اندر چلی گئی اور اس نے گیٹ زور سے بند کردیا۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ وہ اب مزید بات کرنا نہیں چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
ماسٹر شرما کے گیراج واپس پہنچ کر انیل داس نے سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ ’’ماسٹر جی! آپ نے مجھے اس لڑکی کے بارے میں کیوں نہیں بتایا۔ آپ جانتے تھے کہ وہ سمیتا مالا اور ستیہ کمار کی بیٹی ہے؟‘‘
ماسٹر شرما نے غور سے انیل داس کا بشرہ دیکھا اور بولے۔ ’’میرے نزدیک مرمت کے لیے آنے والی گاڑیوں کی زیادہ اہمیت ہے۔ میں گاڑیوں میں دلچسپی لیتا ہوں، انہیں سڑکوں پر دوڑانا نہ صرف میرا محبوب مشغلہ ہے بلکہ کاروبار بھی ہے یا پھر مجھے ان پیسوں سے دلچسپی ہے جو ان گاڑیوں کو ٹھیک کرانے کے عوض ملتے ہیں۔ میں گاڑی کے مالکان میں کبھی دلچسپی نہیں لیتا۔‘‘
’’اس خاندان سے آپ کی ملاقات کس طرح ہوئی تھی؟‘‘ انیل داس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’ایک روز ستیہ کمار کو اپنی کار کا تیل بدلوانے کی ضرورت پڑ گئی تو وہ میرے گیراج پر چلے آئے۔‘‘ ماسٹر شرما نے جواب دیا۔ ’’اس بے چارے نے اپنا تعارف کرایا اور اپنی اداکارہ بیوی کے بارے میں بتایا مگر میں چونکہ اس لائن سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا، اس لیے اسے پہچان نہ سکا۔ اس پر ستیہ کمار بہت حیران ہوئے کہ ایک بنگالی فلم سے اس قدر بیگانہ…! انہیں اس بات پر تعجب تھا میں اس ملک کی سب سے حسین اور ساری دنیا میں دھوم مچانے والی ہیروئن کو نہیں جانتا۔ بنگال کا کون سا ایسا شخص تھا جو اس کا شیدائی نہ ہو۔ وہ جوان لڑکوں کے سپنوں کی رانی اور ان کے دلوں کی دھڑکن تھی۔ اس کے پوسٹرز کس دکان میں آویزاں نہیں تھے۔ مگر میں نے اس کی اس بات کو اپنی توہین نہیں سمجھا بس جب سے وہ سدا کا میرا گاہک بن گیا۔ اب اس کی کار میں جب بھی کوئی خرابی ہوتی ہے تو وہ میرے پاس لائی جاتی ہے۔‘‘
’’مگر اس بے چارے کے ساتھ کیا ہوا تھا ماسٹر!‘‘ انیل داس نے پوچھا۔
’’ستیہ کمار پولو کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ اس کھیل کے جنون نے انہیں ٹانگوں سے معذور کردیا۔ پولو کھیلتے ہوئے وہ اپنے گھوڑے سے ایسے گرے کہ پھر انہیں پیروں پر چلنا نصیب نہیں ہوا۔ ان کی دونوں ٹانگیں مفلوج ہوگئیں۔‘‘ ماسٹر شرما نے توقف کرکے سرد آہ بھری۔ پھر گہری سانس لیتے ہوئے بولے۔ ’’کل کا مشہور فلمساز اور ہدایتکار آج وہیل چیئر پر زندگی کے دن پورے کررہا ہے۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ کئی برس تک ان کا علاج ہوا، وہ اسپتال جاتے رہے۔ اس دوران انہوں نے دو ایک فلمیں بھی بنائیں جو بدقسمتی سے فلاپ ہوگئیں۔ ناکامی نے جیسے ان کا در دیکھ لیا تھا۔ انہیں ہر جگہ ناکامی ملی اور اس کے نتیجے میں وہ بس گھر میں ہی گوشہ نشین ہوگئے۔‘‘
’’پھر ان کی پتنی کا کیا ہوا؟‘‘ انیل داس نے سوال کیا۔
’’ستیہ کمار کے ساتھ ساتھ اس کا بھی زوال شروع ہوگیا۔ اس لیے کہ ان دونوں کا کیریئر ایک دوسرے سے وابستہ تھا۔ یہ ایک فطری امر تھا کہ ایک ناکام ہوا تو دوسرا بھی متاثر ہوگیا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ وہ اپنے پتی کو چھوڑ کر کسی ابھرتے ہوئے ہیرو سے شادی کرلے گی۔ اس کے پرستاروں کی کوئی کمی نہ تھی۔ صنعتکار، سرمایہ دار اور فلمساز سبھی اسے اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ نہایت حسین اور شعلہ جوالا تھی۔ اسے کئی فلمسازوں نے اپنی فلموں میں کام کرنے کی آفر کی۔ اس نے مسترد کردی۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتی تو وہ کسی کی جیون ساتھی بن جاتی۔ چونکہ ان کی محبت کی شادی تھی اس لیے ایک روایتی عورت کی طرح اس نے اس مصیبت میں ان کا ساتھ دیا۔ اس عورت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ وہ بڑی عظیم عورت ہے۔‘‘ ماسٹر شرما ایک ہی سانس میں بہت کچھ بتا گئے۔
’’ماسٹر…! جب یہ سفید مرسیڈیز تیار ہوجائے تو اسے میرے ہاتھ بھجوانا۔‘‘ انیل داس نے پرجوش انداز میں کہا۔ ’’اس گاڑی کو چھوڑنے میں خود جائوں گا۔‘‘
’’انیل داس…! تو اتنا جذباتی نہ بن، اپنے کام میں دل لگا کر مہارت پیدا کر۔‘‘ ماسٹر شرما نے تیز لہجے میں کہا اور اسے سمجھانے لگے۔ مگر اس کے تصور میں وہ پری گھوم رہی تھی۔ ان کا ایک لفظ اس نے نہیں سنا اور نہ ہی وہ سننا چاہتا تھا۔
٭…٭…٭
انیل داس کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اسے منزل پانے میں صدیاں درکار ہیں۔ اس کے سامنے جو راستہ تھا، وہ بڑا کٹھن اور ناہموار تھا۔ وہ سخت مضطرب تھا کہ اپنی محبوب اداکارہ سمیتا مالا سے اس کی ملاقات جتنا جلد ہوسکے، وہ اس کے دل کی بے قراری کو ختم کرسکتی تھی۔ اس کی دیرینہ آرزو پوری ہونے والی تھی، اس کا اسے وہم و گمان بھی نہ تھا۔
سفید مرسیڈیز تیار ہوگئی تو ماسٹر شرما نے انیل داس کو بلا کر کہا۔ ’’چونکہ تو نے اس کا بنگلہ دیکھا ہوا ہے، اس لیے تجھے بھیج رہا ہوں ورنہ کسی اور کو بھیج دیتا۔ گاڑی پہنچا کر جتنا جلد ہوسکے واپس آجانا۔ مجھے ستیہ کمار کی پتنی سے شکایت کا موقع نہ ملے۔‘‘
’’ماسٹر! آپ کسی بات کی چنتا نہ کریں۔ یوں گیا اور یوں آیا۔‘‘ اس نے چٹکی بجا کر کہا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سفید مرسیڈیز لے کر ستیہ کمار کے گھر کی طرف جارہا تھا۔ راستہ وہی تھا سنسان اور پرسکون…! اس راستے سے وہ دو دن پہلے سمیتا مالا کی بیٹی کو لے کر گزرا تھا جس کا نام چاندنی تھا۔ جب وہ ماسٹر شرما کی گاڑی میں اسے گھر چھوڑ کر لوٹا تو اسے ایسا لگا جیسے وہ بہت کچھ کھو آیا ہو۔
وہ آج بھی یہاں سے گزرتے ہوئے ان زمینوں کا جائزہ لے رہا تھا جو پلاٹوں کی شکل میں ہر سمت پھیلی ہوئی تھیں۔ ان زمینوں پر کھدائی کا کام شروع تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ تعمیراتی کام شروع ہونے والا ہے۔ پہاڑیاں اور ٹیلے صاف کئے جارہے تھے، زمین کو ہموار کیا جارہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ علاقہ نہ صرف تیزی سے آباد ہوجائے گا بلکہ کولکتہ شہر سے کہیں مہنگا ہوجائے گا۔ پھر یہاں زمین، مکان اور فلیٹ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ کاش! اس کے پاس رقم ہوتی تو وہ ایک فلیٹ کی بکنگ کرا لیتا۔ اسے یہ علاقہ بہت اچھا لگا تھا۔
اس علاقے کا اب تک کوئی نام نہیں تھا۔ وہ غیر معروف ہی تھا۔ اس نے سوچا کہ اس علاقے کا نام سمیتا مالا کے نام پر سمیتا نگر ہونا چاہیے۔ اس طرح اس بے مثال اداکارہ کو خراج تحسین پیش کیا جاسکتا تھا۔ اس نے جذباتی اندار میں سوچا۔ ویسے بھی سمیتا مالا کا گھر اس طویل و عریض علاقے کے قریب واقع تھا۔ اس عظیم اداکارہ کی حیثیت مغربی بنگال کے عظیم ورثے جیسی تھی جس پر جتنا ناز اور فخر کیا جائے کم تھا۔ ماضی میں اس اداکارہ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس کے حسن اور اداکاری کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس کے پرستاروں کی کوئی کمی نہ تھی۔
ماسٹر شرما نے اسے کل ہی اس بات کا اشارہ دے دیا تھا کہ شام تک مرسیڈیز ٹھیک ہوجائے گی۔ اس لیے وہ آج خوب بن سنور کر آیا تھا۔ اس نے نئی پتلون پہنی جو دیوالی پر پہننے کے لیے خریدی تھی۔ پھر گیراج سے لوٹتے وقت بازار سے نئی سفید قمیض خریدی تھی۔ بالوں کو سلیقے سے سنوارا تھا اور کپڑوں پر پرفیوم کا اسپرے کیا تھا۔ گو وہ خوبصورت نہیں تھا لیکن وجیہ تھا اور دراز قد ہونے کے باعث لڑکیاں اس کی طرف متوجہ ہوجاتی تھیں۔ تھوڑی سی توجہ نے اس کے روپ پر سونے پر سہاگے کا کام کیا تھا۔ اس لباس اور وضع قطع میں اس کی شخصیت مزید جاذب نظر ہوگئی تھی۔
جب وہ مرسیڈیز میں سمیتا مالا کے ہاں جارہا تھا تو اس نے محسوس کیا تھا چاندنی کی خوشبو ابھی تک گاڑی میں بسی ہوئی ہے۔ اسے ایسا لگا کہ وہ اس کے برابر والی سیٹ پر براجمان ہے اور اس کا قرب اسے مسحور کررہا ہے۔ اس نے مرسیڈیز بنگلے کے گیٹ پر روک لی پھر اس نے اتر کے اطلاعی گھنٹی بجائی اور دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔
سفید سوتی ساڑی اور سفید بلائوز میں ملبوس ایک عورت نے دروازہ کھولا۔ بغیر سرخی کے گلابی لبوں پر ایک دل آویز تبسم اور آنکھوں میں شناسائی کی چمک تھی۔ وہ کوئی اور نہیں تھی انیل داس کی من پسند اور اس کی آئیڈیل اداکارہ سمیتا مالا تھی۔ اسے اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس نے خود کو بڑی مشکل سے سنبھالا۔ وہ نمسکار کرنا بھول گیا۔
’’میں… میں… آپ کی کار…!‘‘ انیل داس نے کہنا چاہا تو سانس آواز کا ساتھ نہ دے سکی۔
’’اچھا…!‘‘ سمیتا مالا دلکش انداز سے مسکرائی۔ ’’مجھے معلوم ہے تم گاڑی لے کر آئے ہو۔ ماسٹر شرما نے گیراج سے فون کرکے اطلاع دے دی تھی۔ میں انتظار کررہی تھی۔‘‘
’’اسے آپ چیک کرلیں۔‘‘ انیل داس نے بوکھلا کر کہا۔
’’اسے چیک کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ سمیتا مالا نے اپنی گھنیری پلکیں جھپکائیں تو انیل داس نے اپنا دل تھام لیا۔ سمیتا مالا کی یہ ادا فلم بینوں کو بے حد پسند تھی۔ پردئہ سیمیں پر جب وہ اس طرح پلکیں جھپکاتی تو دیکھنے والوں کے دلوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی تھی۔ ایسی دلنواز مسکراہٹ بنگال کی کسی اداکارہ کی نہیں تھی۔
’’وہ جی… ماسٹر شرما جی نے کہا تھا کہ آپ گاڑی چلا کر چیک کرلیں… اگر اس میں کوئی خرابی ہوئی تو وہ ٹھیک کردی جائے گی۔‘‘ انیل داس نے دانستہ جھوٹ بولا۔
’’اچھا… اگر ایسا ہے تو میں ابھی چیک کئے لیتی ہوں۔‘‘ سمیتا مالا نے سر ہلایا۔
پھر وہ باہر نکلیں۔ گاڑی میں بیٹھ کر انجن اسٹارٹ کیا۔ انہوں نے دو تین خالی پلاٹوں کے اطراف دو تین چکر لگائے۔ پھر وہ اسے کھلے گیٹ سے اندر لے گئیں۔
’’اس میں جانے کس چیز کی آواز آرہی ہے۔‘‘ سمیتا مالانے کہا۔
’’میں ابھی چیک کرتا ہوں، آپ چنتا نہ کریں۔‘‘ وہ بولا۔
انیل داس تو اس کے لیے تیار ہوکر آیا تھا۔ وہ اپنی محبوب اداکارہ کی رفاقت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنی قمیض کی جیب سے ایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکالا اور اس پر نظر ڈالنے لگا۔
انیل داس قریب کھڑی ہوئی سمیتا مالا کو کن انکھیوں سے بھی دیکھتا جارہا تھا۔ پھر بولا۔ ’’ماسٹر شرما جی نے کچھ باتیں لکھوائی تھیں، ان کے مطابق چیک کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مرسیڈیز کا بونٹ اٹھایا۔
’’سمیتا! کون ہے؟ کس سے باتیں کررہی ہو تم…؟‘‘ ایک گرج دار مردانہ آواز سن کر انیل داس اچھل پڑا۔
کا آدمی ہے۔ گاڑی ٹھیک کرکے لایا ہے، اسے چیک کررہی ہوں۔‘‘ سمیتا مالا نے جواب دیا۔
انیل داس نے اس آواز کی سمت دیکھا۔ ایک سرخ سفید آدمی وہیل چیئر پر بیٹھا ادھر آتا دکھائی دیا۔ وہ وہیل چیئر کو خاصی تیزی سے چلا رہا تھا اور لگتا نہیں تھا کہ وہ کوئی معذور شخص ہے۔ وہ صحت مند اور توانا دکھائی دے رہا تھا۔
انیل داس نے اس کا جائزہ لیا۔ اس کے بال چاندی کی طرح سفید تھے اور اس کے چہرے پر بڑا رعب تھا اور لہجے میں نخوت تھی جو اسے ناگوار لگی تھی۔ اسے دیکھتے ہی انیل داس نے فوراً پہچان لیا۔ وہ ستیہ کمار تھا، سمیتا مالا کا پتی اور اپنے زمانے کا مشہور فلمساز اور ہدایتکار۔
انیل داس نے اسے دیکھتے ہی سر جھکا کر نمسکار کیا اور پھر بڑے ادب سے بولا۔ ’’سر! ماسٹر شرما جی کا حکم تھا کہ آپ کی مرسیڈیز چیک کروا کے واپس آئوں۔ ان کی ہر طرح سے تسلی ہوجائے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر ستیہ کمار صاحب کے کام میں غلطی کی تو کان پکڑ کر گیراج سے نکال دوں گا۔‘‘
انیل داس کی معصومانہ باتیں اور اس کا مودبانہ انداز دیکھ کر ستیہ کمار مسکرانے لگے۔ ان کی آنکھوں سے شکوک و شبہات کی پرچھائیاں دور ہوگئیں۔ سمیتا مالا جانتی تھی کہ مرد کتنا شکی ہوتا ہے حسین جوان عورت کے معاملے میں…! جبکہ اس نے کتنا ایثار کیا تھا۔ وہ اس عمر میں بھی کسی جوان عورت کی طرح تھی۔ چھریرے متناسب بدن کے باعث کوئی نہیں کہہ سکتا تھا وہ بیالیس برس کی ہے۔ پتی کے معذور ہونے کے بعد وہ چاہتی تو کسی بھی دولت مند ہیرو کی طرف ہاتھ بڑھاتی تو وہ اس کا ہاتھ تھام لیتا… لیکن اس نے پتی کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور نہ خود کو میلا کیا۔ اس کے باوجود اس کا پتی جب کبھی کسی نوجوان سے اسے بات کرتے دیکھتا تو اس کی آنکھوں میں شکوک و شبہات جنم لینے لگتے۔ وہ اس کی فطرت سے واقف تھی لیکن اس نے کبھی احتجاج نہیں کیا تھا۔ وہ جیسے عادی ہوگئی تھی۔
ستیہ کمار نے اپنی وہیل چیئر آگے بڑھائی اور مرسیڈیز کا معائنہ کرنے لگا۔ پھر اس نے انیل داس کو اس کا انجن اسٹارٹ کرنے کے لیے کہا۔ تھوڑی دیر تک وہ انجن کی آواز سنتا رہا پھر مطمئن ہوکر سر ہلا دیا۔
’’سر! میرے ہاتھ میلے ہوگئے ہیں، میں انہیں دھونا چاہتا ہوں۔‘‘ انیل داس نے ستیہ کمار سے جیسے درخواست کی۔
’’مگر میرے سرونٹ کوارٹرز تو بند ہیں۔‘‘ ستیہ کمار نے جواب دیا۔ ’’سب ملازم چھٹی پر گئے ہوئے ہیں، صرف ایک مالی ہے وہ بھی دس بارہ روز میں چکر لگاتا ہے۔ تم ایسا کرو کہ اندر راہداری سے سیدھے چلے جائو، وہاں غسل خانہ ہے۔‘‘ اس نے اشارے سے سمجھایا۔
انیل داس اس کی ہدایت پر اندر چلا گیا۔ غسل خانہ پرانا اور جدید سہولتوں سے محروم تھا۔ اس میں لگے ہوئے نل سے مسلسل پانی ٹپک رہا تھا۔ انیل داس نے اس دوران پورے گھر کا جائزہ لے لیا۔ کسی زمانے میں یہ شاندار رہا ہوگا مگر اب اس کی حالت خاصی خستہ ہوچکی تھی۔ پورے گھر میں صرف وہ وسیع و عریض ہال تھا جو نہایت خوبصورتی سے آراستہ تھا۔ اس ہال کی دیواروں پر سمیتا مالا کی فلموں کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ ان میں جذباتی اور رقت آمیز مناظر والی تصویریں بھی تھیں۔ کئی تصویریں سمیتا مالا اور ستیہ کمار کے ساتھ تھیں۔ دونوں کے چہروں سے خوشیاں پھوٹ رہی تھیں۔ تصویریں خستہ ہوچکی تھیں اور ان کا رنگ زرد پڑ گیا تھا لیکن ان میں سمیتا مالا کا حسن آتش فشاں بنا ہوا تھا۔ ان تصویروں کے نیچے سنگ مرمر کے ایک اسٹینڈ پر وہ قومی ایوارڈ سجا ہوا تھا جو سمیتا مالا کو فلموں میں بے مثال اداکاری کرنے پر دیا گیا تھا۔
یکایک اس نے اپنی پشت پر آہٹ محسوس کی تو اس نے سرعت سے پلٹ کر دیکھا تو اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ سمیتا مالا کھڑی اسے حیرت سے تک رہی تھی۔
’’میں تمہیں تلاش کررہی تھی۔ میرا خیال صحیح نکلا کہ تم یہاں پہنچ گئے ہو گے۔‘‘ سمیتا مالا بولی۔ ’’میں یہاں گھنٹوں کھڑی اپنے سنہری ماضی کو یاد کرتی رہتی ہوں مگر اب سوائے یادوں کے اور کچھ نہیں بچا۔ دل میں ایک عجیب سی کسک جنم لیتی ہے جب ماضی یاد آتا ہے۔‘‘
’’آپ نے ستیہ کمار کی ناکامیوں کے ساتھ خود کو فلمی دنیا سے الگ کیوں کیا؟‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ’’آپ ایک کامیاب ہیروئن تھیں۔ آپ کی کوئی فلم بھی ایسی نہ تھی جس میں کامیابی نے آپ کے چرن نہ چھوئے ہوں۔ پورے بنگال میں آپ کی پوجا کی جاتی تھی۔ آپ کی مقبولیت میں کوئی کمی آئی تھی اور نہ ہی فلمسازوں نے لینے سے انکار کیا تھا۔ ممبئی کی فلمی دنیا سے بھی آپ کو پیشکش ہوتی رہتی تھی۔ پھر آپ نے کنارہ کشی کیوں اختیار کی، یہ بات سمجھ سے بالاتر تھی۔‘‘
’’میں نے اپنے پتی کا ساتھ دیا تھا۔‘‘ سمیتا مالا نے جواب دیا۔ ’’پہلے یہ پولو کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر معذور ہوئے اور اس کے بعد جب انہوں نے دوبارہ فلمسازی کا آغاز کیا تو ان کی فلمیں لگاتار ناکام ہوتی رہیں۔ ناکامی سے گھبرا کر انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کی تو میں بھی حوصلہ ہار بیٹھی۔‘‘
’’آپ نے نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ ہم جیسے پرستاروں کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے جبکہ آپ شہرت کے عروج پر تھیں، کنارہ کشی اختیار کرکے آپ نے دوسری غیر مقبول ہیروئنوں کو آگے بڑھنے کا سنہری موقع فراہم کردیا۔ ان میں ایک بھی آپ کے ہم پلہ ہیروئن نہ تھی۔ آپ کی عدم موجودگی نے جو خلاء پیدا کیا، اس سے فائدہ اٹھا کر وہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔‘‘
سمیتا مالا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاموشی اور قدرے حیرت سے انیل داس کو دیکھتی رہی۔ شاید اسے انیل داس کی سلجھی ہوئی شستہ گفتگو پر حیرت تھی۔ وہ اسے کیسے بتاتی اسے فلموں کی جو پیشکش پتی کے معذور ہونے کے بعد ہوتی رہی وہ مشروط تھی۔ فلمساز اس شرط پر اسے ہیروئن بنانا چاہتے تھے کہ ان کے ساتھ وقت گزارے۔ اس کے لیے وہ تیار نہ تھی۔
’’میں آپ کا بہت پرانا پرستار ہوں۔‘‘ انیل داس نے سر جھکا کر کہا۔ ’’آپ میرے من کے مندر کی دیوی ہیں۔ میں نے آپ کی جب پہلی فلم دیکھی تب سے آپ کو چاہتا آیا ہوں۔ اس کی شدت میں آج بھی کمی نہیں آئی۔ آپ سے خاموش محبت کی ہے۔ آج اپنی دیوی کو اس حال میں دیکھ کر بہت صدمہ ہوا ہے۔‘‘
’’کیسا صدمہ…؟ کس حال میں دیکھ لیا ہے تم نے مجھے؟‘‘ سمیتا مالا نے ناگواری سے پوچھا۔
’’آپ کے پاس ایک پرانے بنگلے کے سوا ہے کیا؟ آپ کے گھر میں ملازم تک نہیں ہیں۔ آپ کے پتی نے مجھے بتایا کہ سب ملازم چھٹی پر گئے ہیں مگر میں آپ کو صاف گوئی سے بتانا چاہتا ہوں کہ انہیں جھوٹ بولنا بھی نہیں آتا۔ آپ کے پاس یہ پرانی مرسیڈیز گاڑی ہے جس کا انجن بیٹھنے والا ہے۔ آپ نے جو کچھ کمایا، وہ اپنے پتی پر لٹا دیا۔ انہوں نے آپ کی دولت سے فلمیں بنائیں جو بری طرح فلاپ ہوگئیں۔ میں بہت کچھ جانتا ہوں سمیتا مالا جی! آپ سے محبت کی ہے تو آپ کی ایک ایک بات کی خبر بھی رکھی ہے۔‘‘ انیل داس کے لہجے میں تلخی بھر گئی۔
’’ایسی دل دہلانے والی باتیں مت کرو۔‘‘ سمیتا مالا گھبرا کر بولی۔
’’مجھے اندازہ ہے کہ آپ ایک شوہر پرست پتنی ہیں… پتی ورتا ہیں۔‘‘ انیل داس نے کہا۔ ’’ان حالات میں بھی ان کا ساتھ دے رہی ہیں لیکن اگر آپ ان کی جگہ معذور یا مفلوج ہوتیں تو آپ کے پتی کب کا آپ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا لیتے۔‘‘
’’یہ کوئی نئی بات نہیں ہے… مردوں کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے۔‘‘ سمیتا مالا نے افسردگی سے کہا۔ ’’مگر میں ایک مشرقی عورت ہوں اور پھر ایک جوان لڑکی کی ماں ہوں۔ میں ایسا کچھ نہیں کرسکتی جس سے میرے پتی، میری اور میری بیٹی کی رسوائی ہو۔‘‘
’’سمیتا جی…! آپ ایک ویران مقبرے میں رہ رہی ہیں۔‘‘ انیل داس نے تیز لہجے میں کہا۔ ’’آپ کو اس مقبرے سے نکلنا ہوگا ورنہ یہ غیر محسوس انداز سے آپ کو نگل جائے گا۔‘‘
سمیتا مالا نے اسے بڑی حیرت سے دیکھا۔ کیونکہ وہ سخت جذباتی ہورہا تھا۔ پھر انہوں نے الجھ کر کہا۔ ’’آخر تم چاہتے کیا ہو؟ میں سمجھ نہیں پا رہی؟‘‘
’’آپ اپنے پتی سے طلاق لے لیں تاکہ میں آپ سے بیاہ کرکے آپ کو سہارا دوں۔‘‘
’’کیا تم سٹھیا گئے ہو؟ میری عمر دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’آپ بوڑھی نہیںہوئیں۔ اس عمر میں بھی نہ صرف حسین بلکہ کسی نوجوان عورت کی طرح ہیں۔‘‘ انیل داس نے اسے اوپر سے نیچے تک ناقدانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تو آپ خودکشی کررہی ہیں۔ زندگی نہ صرف حسین بلکہ ایک بار ملتی ہے۔ میں جارہا ہوں۔ پھر آئوں گا۔ آپ اچھی طرح ایک حقیقت پسند عورت کی طرح سوچ لیں۔ میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔‘‘
انیل داس چلا تو گیا لیکن جاتے جاتے ایک الجھن میں مبتلا کرگیا۔ وہ اس دیوانے کی باتیں یاد کرکے سوچتی رہی۔ اسے اس کی باتوں میں سچائی نظر آئی۔ وہ حیران تھی کہ انیل داس نے ایک موٹر مکینک ہوتے ہوئے بھی اس ملاقات میں ہی کس جرأت سے اسے شادی کی پیشکش کی تھی۔ اس کے بعد کئی مرتبہ انیل داس کا فون آیا۔ سمیتا مالا کئی بار باہر اس سے ملی۔ وہ اس کے ساتھ مضافات کے ہوٹل میں بھی رہی۔ اب ان کے درمیان کوئی حجاب، دیوار اور فاصلہ نہیں رہا تھا۔ وہ ایک مہربان محبوبہ بن گئی تھی۔ سمیتا مالا جب بھی اس کے ساتھ کسی ہوٹل یا تفریحی مقامات پر جاتی تو اس بات کی کوشش کرتی تھی کہ لوگ اسے شناخت نہ کرسکیں۔ ویسے بھی اب کوئی اسے نہیں پہچانتا تھا کہ وہ ماضی کی اداکارہ تھی۔ آج کل جو ہیروئنیں فلموں میں آرہی تھیں، وہ ان کے سامنے ماند پڑ گئی تھی۔ اب اس کی تصویر چھپتی تھی اور نہ ہی کوئی اس کا نام لیتا تھا۔ انیل داس نے ایک دن اس سے پوچھا کہ ان کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے؟ سمیتا مالا نے اسے بتایا کہ ماضی میں جو کمایا، وہ اب بھی اتنا ہے کہ کئی برسوں تک گزر بسر ہوسکتی ہے۔ وہ اس بات پر حیران اور خوش تھا کہ سمیتا مالا اس کی طرف بے اختیار کھنچی چلی آرہی ہے۔
انیل داس اب گاڑی ٹھیک کرنے کے بہانے اس کے پاس باقاعدگی سے آنے لگا تھا۔ پرانی گاڑی تھی، اس لیے کوئی نہ کوئی نقص پیدا ہوجاتا تھا۔ جب وہ آتا تو ستیہ کمار اس پر نظر رکھتا تھا۔ وہ اسے مشتبہ نظروں سے دیکھتا تھا۔
اس دوران انیل داس نے پورے گھر کا بغور جائزہ لے لیا تھا۔ اس گھر میں ایک ڈھلان تھی جس کے اختتام پر ایک دیوار بنی ہوئی تھی۔ دیوار کا مقصد دوسری طرف موجود کھائی سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اس نے متعدد مرتبہ اس ڈھلان
جائزہ لیا تھا۔ وہ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ چکی تھی۔ اگر ڈھلان سے کوئی چیز مثلاً کوئی وہیل چیئر اپنے سوار سمیت تیزی سے دیوار کی طرف آئے تو دیوار کو توڑتے ہوئے دوسری طرف کھائی میں گر جانا لازمی تھا۔ کاش! ایسا ہوجائے۔ انیل داس نے سوچا۔ اس کے بعد اس کے راستے میں کوئی پتھر نہیں رہے گا۔
ستیہ کمار بھی انیل داس کے احساسات سے بے خبر نہ تھے۔ انہوں نے اس لڑکے کی دلچسپی اپنی پتنی میں محسوس کرلی تھی۔ وہ کوئی اندھے اور کم عقل نہ تھے صرف معذور تھے۔ اب وہ سمیتا مالا کو بھی دیکھتے تو محسوس کرتے کہ اس لڑکے کی آمدورفت کے بعد سے اس میں غیر محسوس انداز سے تبدیلی آنے لگی تھی۔ پہلے وہ میک اَپ نہیں کرتی تھی، اب ضرورت سے زیادہ بننے، سنورنے اور اس طرح رہنے لگی تھی جیسے شوٹنگ میں حصہ لینے جارہی ہو۔ جب انیل داس اطلاعی گھنٹی بجاتا تو وہ دروازہ کھولنے برقی سرعت سے جاتی تھی لیکن انہوں نے کبھی بھولے سے بھی اپنی پتنی سے بازپرس نہیں کی۔ شاید اس میں ان کی دور اندیشی اور مصلحت پوشیدہ تھی۔
ان کی ملاقاتیں اور تفریحات بڑھنے لگی تھیں۔ انیل داس کا دبائو بھی بڑھتا جارہا تھا۔ آخرکار سمیتا مالا نے وعدہ کرلیا کہ وہ موقع ملتے ہی طلاق کے سلسلے میں اپنے پتی سے بات کرے گی کیونکہ اب وہ میاں، بیوی ہوتے ہوئے بھی اجنبیوں کی طرح رہ رہے تھے۔
ایک روز سمیتا مالا نے انیل داس کو بتایا کہ ایک خوشخبری ہے۔ اس کے پتی نے خود ہی اس سے علیحدگی کے معاملے پر بات کی ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی سے مایوس نظر آرہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ دو ایک دن میں تم سے خود بات کریں۔ یہ سن کر انیل داس کا دل دھک دھک کرنے لگا کیونکہ اسے ستیہ کمار کے سامنے جاتے ہوئے بڑی گھبراہٹ اور ایک انجانا خوف محسوس ہوتا تھا۔ یہ تو بڑا خطرناک اور سنگین معاملہ تھا۔ ایک روز سمیتا مالا نے انیل داس کو بتایا کہ اسے ستیہ کمار نے بلایا ہے تاکہ بات چیت کرسکے۔
’’میں ان سے کیا بات کروں گا؟‘‘ انیل داس نے سراسیمگی سے کہا۔ ’’اس ملاقات پر کیا تم موجود ہوگی؟‘‘
’’ڈرو نہیں… میں تمہارے ساتھ ہی ہوں گی۔‘‘ سمیتا مالا نے اس کی ہمت افزائی کی۔ ’’اور پھر یہ سب تمہاری خواہش پر تو ہورہا ہے۔‘‘
دوسرے دن انیل داس خود پر قابو پا کر ستیہ کمار سے ملنے اس کے گھر پہنچا۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بار آچکا تھا۔ آج اس کے قدم نہیں اٹھ رہے تھے۔ اس نے خود کو سنبھالا اور ستیہ کمار کے سامنے بیٹھ گیا۔
ستیہ کمار اپنی وہیل چیئر پر بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر بڑی اداسی تھی اور وہ برسوں کا بیمار لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑگئے تھے۔ مایوسی نے اس کی حالت ابتر کردی تھی۔ وہ اس وقت گیلری میں موجود تھا جہاں سمیتا مالا کی تصویریں دیواروں پر آویزاں تھیں۔ وہ بڑی حسرت سے اس کی تصویروں اور اس قومی ایوارڈ کو دیکھ رہا تھا جو سنگ مرمر کے پلیٹ فارم پر رکھا تھا۔ ستیہ کمار نے اپنی اور سمیتا مالا کی تصویروں پر بھی حسرت بھری نظر ڈالی۔ سمیتا مالا اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے انداز میں بے خوفی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس نے اپنے پتی سے دوٹوک بات کرلی ہو۔
’’میری پتنی چاہتی ہے کہ میں اسے طلاق دے دوں۔‘‘ اس نے دلگرفتہ لہجے میں کہا۔ ’’کیونکہ یہ تم سے شادی کرنا چاہتی ہے۔‘‘
’’آخر تمہیں اس میں کیا اعتراض ہے؟‘‘ سمیتا مالا کے لہجے میں رعونت تھی۔ ’’میں ساری زندگی تم جیسے معذور آدمی کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔‘‘
’’مجھے نہ تمہارے طلاق مانگنے پر اعتراض ہے اور نہ ہی اس سے شادی کرنے پر…!‘‘ ستیہ کمار نے شکستہ لہجے میں کہا۔ ’’میں خود تو تمہارے لیے فکرمند تھا کہ میرے مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ بینک میں جو رقم ہے، وہ زیادہ دن نہیں چل سکتی اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس نوجوان سے شادی کرکے گھر بسا لو۔ تمہاری اور اس کی شادی کی تقریب نہایت سادگی سے اس بنگلے میں انجام دی جائے گی جس میں چند قریبی لوگ شریک ہوں گے۔‘‘ پھر اس نے توقف کرکے انیل داس اور اپنی پتنی کے چہرے کا جائزہ لیا۔ ان دونوں کے چہرے سپاٹ تھے، ہر قسم کے جذبات سے عاری…!
’’مگر میری ایک شرط ہے۔‘‘ ستیہ کمار نے کہا تو وہ دونوں چونک پڑے۔
’’کیسی شرط…؟‘‘ انیل داس نے پھنسی پھنسی آواز میں پوچھا۔
’’اس شہر میں جو قدیم اور سب سے بڑی انشورنس کمپنی ہے۔ اس کا چیئرمین میرے بچپن کا دوست ہے۔ انیل داس! تمہیں اپنی زندگی کا بیمہ کرانا ہوگا تاکہ میرے بعد اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو سمیتا کو تحفظ حاصل ہو اور اسے اتنی رقم مل جائے کہ اپنی زندگی آرام سے گزار سکے۔ تم انشورنس پالیسی میں سمیتا کو اپنی پتنی نہیں بلکہ اپنا وارث نامزد کرو گے۔ اس طرح کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا اور سمیتا تمہاری وارث بن جائے گی۔‘‘ اتنا کہہ کر ستیہ کمار خاموش ہوگیا اور انیل داس کی طرف دیکھنے لگا جس کے چہرے پر الجھن کے تاثرات تھے۔
’’دیکھو انیل داس۔ میں نے تم سے کوئی دولت طلب کی ہے نہ ہی کوئی یقین دہانی چاہی ہے۔ مجھے سمیتا کا تحفظ چاہیے۔ ویسے بھگوان سے میری پرارتھنا ہے کہ تمہارا بال تک بیکا نہ ہو۔ میں نے صرف احتیاطاً یہ مطالبہ تمہارے سامنے رکھا ہے۔ تم سوچ لو اچھی طرح سے…‘‘ پھر اس نے مڑ کر سمیتا مالا سے کہا۔ ’’کیا تم نے فہرست تیار کرلی ہے جو میں نے شادی کی تقریب کے سلسلے میں آج صبح دی تھی؟‘‘
’’ہاں کرلی ہے۔‘‘ سمیتا مالا نے جواب دیا۔
’’اچھا ذرا میز کی دراز سے انشورنس کمپنی کے چیئرمین سبھاش دتہ کا کارڈ تو نکال دو۔‘‘
سمیتا مالا نے کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
’’یہ کارڈ ہے میرے دوست کا، تم ان سے مل لو بلکہ میں انہیں بلوا لیتا ہوں۔ وہ تمہاری دس لاکھ کی بیمہ پالیسی تیار کردیں گے۔‘‘ ستیہ کمار نے کہا۔ ’’ویسے تم چاہو تو خود جاکر ان سے مل لو۔‘‘ اس نے کہا اور پھر یکایک اس کی آواز بھرا گئی۔
انیل داس کو یقین نہیں آیا کہ ناممکن، اتنی آسانی سے ممکن ہوجائے گا۔ وہ تو یہ سمجھ رہا تھا کہ ستیہ کمار دھمکیاں دے گا، اجرتی بدمعاشوں سے اس کی مرمت کروا کے اسے معذور اور اپاہج کردے گا۔ اس بات کا بھی امکان تھا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو قتل کرا دے مگر خلاف توقع اس نے جلدی اور آسانی سے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
ایک ہفتہ بعد اسی بنگلے میں سبھاش دتہ نے انیل داس کا دس لاکھ کا بیمہ کردیا۔ چونکہ وہ ایک صحت مند اور جواں سال شخص تھا، زیادہ عمر کا نہ تھا چونکہ سبھاش دتہ کا تعاون تھا اس لیے پالیسی لینے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔
اس کے بعد شادی کی تاریخ طے کردی گئی۔ انیل داس نے بنگلے میں ڈیرہ ڈال دیا۔ ہر روز نئے منصوبے بنتے۔ اس دوران انیل داس نے فائدہ اٹھانا چاہا تو وہ بگڑ کر بولی۔ ’’دیکھو مجھے شادی سے پہلے یہ سلسلہ پسند نہیں۔ میں ابھی ستیہ کمار کی پتنی ہوں۔ پہلے وہ مجھے طلاق دے گا، اس کے بعد میں تم سے شادی کروں گی۔ پھر ہم ہنی مون منانے جائیں گے۔ شادی کے بعد میں تمہاری داسی بن کر رہوں گی۔‘‘
انیل داس روز اس ڈھلان کا جائزہ لیتا اور اس دیوار کو بھی دیکھتا جس کے دوسری طرف کھائی تھی۔ وہ چشم تصور میں ستیہ کمار کو اس کھائی میں گرتے دیکھتا تھا۔ اس کے لیے ایک دن ہی نہیں، ایک ایک لمحہ صدیوں سے زیادہ بھاری ہورہا تھا۔ اس نے دیوار کی اینٹیں نکال نکال کر پھر سے جما دیں۔ اب وہ صرف ایک ہلکے سے دھکے کی محتاج تھی۔
’’اب یہ بنگلہ میرا ہوگا… میں اس کا مالک ہوں گا۔‘‘ انیل داس سوچتا رہتا۔ ’’پھر میں اور سمیتا ایک جان دو قالب ہوں گے۔‘‘
جب اسے سمیتا مالا کی بیٹی چاندنی کا خیال آیا۔ اس نے چاندنی کے بارے میں دریافت کیا تو سمیتا مالا نے بتایا کہ وہ امریکا میں تعلیم حاصل کررہی ہے۔ اس کی شادی وہیں ہوگی کیونکہ وہ واپس آنا نہیں چاہتی۔
پھر ایک روز اس نے ستیہ کمار کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ وہ رات کے وقت کلوروفارم اسے اور سمیتا کو سنگھا دے گا جب وہ سو رہے ہوں گے اور ستیہ کمار کو وہیل چیئرپر بٹھا کر دیوار کے پاس لے جاکر دھکیل دے گا۔ وہ کھائی کی نذر ہوجائے گا۔ اس قتل کا کوئی عینی گواہ ہوگا اور نہ سمیتا مالا کے علم میں آئے گا کہ یہ قتل اس نے کیا ہے۔ یوں بھی سمیتا مالا خوش ہوجائے گی کہ راستے کا پتھر ہٹ گیا۔ وہ بھی اپنے معذور شوہر سے متنفر تھی جو ان کے ملاپ میں راستے کا پتھر بنا ہوا تھا اور شادی کو مختلف بہانوں سے ٹال رہا تھا۔
ماسٹر شرما جی نے اسے اپنے گھر کسی کام سے بھیجا۔ اس کی بیٹی پائل چھٹی گزارنے کولکتہ سے آئی ہوئی تھی۔ وہ کولکتہ میں ہاسٹل میں رہتی تھی۔ وہ ماسٹر کررہی تھی۔ وہ سمیتا مالا کے عشق میں تقریباً اسے بھول گیا تھا۔ اس نے دو برس کے بعد پائل کو دیکھا تو اپنا دل تھام لیا۔ پائل اس سے بے تکلف ہوگئی۔ پھر اس نے فیصلہ کیا کہ ستیہ کمار کا پتا صاف کرنے کے بعد سمیتا کے ساتھ دو تین سال گزارنے کے بعد اسے بھی کھائی میں گرا دے گا کیونکہ پائل حسین تھی اور اس سے عمر میں چار برس چھوٹی بھی تھی۔ ماسٹر شرما، سمیتا مالا کی موت کے بعد اس کی شادی پائل سے خوشی خوشی کردیں گے۔
اس نے تین چار دن پائل کے ساتھ تفریحات میں گزارے اور پانچویں دن، رات کے دو بجے بنگلے میں داخل ہوا۔ راہداری میں اندھیرا تھا۔ جب وہ دیوار کے پاس سے گزرنے لگا تو سمیتا مالا نے اسے زور سے دھکا دیا۔ وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور دیوار کو توڑتا ہوا کھائی میں جاگرا۔
٭…٭…٭
سمیتا مالا اور ستیہ کمار، سبھاش دتہ کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔ کیونکہ انیل داس کی بیمہ پالیسی جو دس لاکھ کی تھی، اس کی دگنی رقم بیس لاکھ کا چیک سبھاش دتہ سے وصول کرنا تھا۔
’’اس رقم سے بنگلے کی مرمت اور رنگ و روغن کرنے کے بعد دیوار کی تعمیر بھی کرنا تھی۔ بقایا رقم میں دس بارہ برس بڑے آرام سے گزر سکتے ہیں۔‘‘ سمیتا مالا بولی۔
’’پتنی ہو تو ایسی۔‘‘ ستیہ کمار نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’فلم میں کام کرنے کے مقابلے میں حقیقی زندگی کے اسٹیج پر اداکاری کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ تمہاری اس بے مثال اور لازوال اداکاری نے مستقبل بنا دیا۔ تمہاری جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔‘‘
’’مجھے انجانے راستے سے گزرنا پڑا۔‘‘ سمیتا مالا بولی۔ ’’مجھے اس بات کا دکھ اور افسوس ہے۔ تم ملامت تو نہیں کرو گے؟‘‘
’’اس کے سوا چارہ بھی تو نہیں تھا۔‘‘ ستیہ کمار نے کہا۔
ہورہی تھیں کہ سبھاش دتہ اندر آیا۔ رسمی باتوں کے بعد ستیہ کمار نے پوچھا۔ ’’کیا سمیتا مالا کے نام چیک لے آئے ہو؟ انیل داس نے اسے وارث نامزد کیا تھا۔‘‘
’’میں وہ چیک ماسٹر شرما جی کی بیٹی پائل کو دے کر آرہا ہوں۔‘‘
’’پائل کو کیوں…؟‘‘ ستیہ کمار بھونچکا رہ گیا۔
’’اس لیے کہ موت کی بھینٹ چڑھنے سے دو دن پہلے وہ دفتر آیا اور اس نے کہا کہ بیمہ پالیسی میں وارث پائل کو نامزد کررہا ہے۔ اس نے جو فارم پُر کیا، کیا تم دیکھنا چاہو گے…؟‘‘
(ختم شد)