ہوٹل کا ڈائننگ روم روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ عالیان اپنی دوست فرزین کے ساتھ رات کا کھانا کھاتے ہوئے گفتگو میں مصروف تھا۔ ’’تمہیں میری آنٹی ایک آنکھ نہیں بھائیں تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ آنٹی شاہینہ کی شروع سے عادت ہے کہ جو کہنا ہوتا ہے، منہ پر کہہ دیتی ہیں۔ تم ان کی تنقید کو دل پر کیوں لے رہی ہو۔‘‘ عالیان نے فرزین کو سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ بھڑک کر بولی۔ ’’تمہاری آنٹی نے میری انسلٹ کی ہے۔ کیسے طنزیہ لہجے میں کہہ رہی تھیں کہ تمہیں شادی کرنے کے لئے یہی بیوہ لڑکی ملی ہے۔ یہ بات انہوں نے جانتے بوجھتے مجھے ہرٹ کرنے کے لئے کی تھی۔‘‘ ’’کول ڈائون! تم بلاوجہ خود کو ٹینشن دے رہی ہو۔ میں تم سے شادی کا فیصلہ کرچکا ہوں۔ آنٹی کی جائداد کا اکلوتا وارث ہونے کے ناتے تمہیں ان سے ملوانا ضروری تھا۔ پلیز! تم اپنا موڈ ٹھیک کرلو۔‘‘ ’’اوکے عالیان! مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں۔ رامس سے میری شادی صرف دو ماہ رہی تھی۔ روڈ ایکسیڈنٹ میں جب اس کی موت واقع ہوئی تو لوگوں نے مجھے منحوس کہنا شروع کردیا تھا۔ میں نے تو رامس کی موت کے بعد لوگوں سے ملنا جلنا کم کردیا تھا۔ تم سے بھی پارٹی میں اتفاقیہ ملاقات ہوگئی تھی، جو دوستی میں بدل گئی۔ تم نے جب مجھے شادی کی آفر کی تھی تو میں حیران ہوگئی تھی۔ تم بہت اچھے ہو، میرے مزاج کو سمجھتے ہو۔‘‘ ’’تھینک یو جو تم نے اپنے غصے کو کنٹرول کرلیا۔ فرزین! غصے کو کنٹرول کرنا سیکھو۔ تم بے حد جذباتی ہو۔ غصے کی حالت میں کوئی بھی غلط فیصلہ کرسکتی ہو۔ کیا خیال ہے کافی منگوائی جائے؟‘‘ عالیان نے پوچھا۔ ’’نہیں! میرا کافی پینے کا موڈ نہیں۔ مجھے اپنے ڈریس ڈیزائنر سے بھی ملاقات کرنی ہے۔ یہاں اسلام آباد میں، میں آکر پھنس گئی ہوں۔ کاروباری معاملات نمٹ کر ہی نہیں دے رہے۔‘‘ فرزین نے اپنی پریشانی بتائی۔ ’’ڈیئر! تم چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنے ذہن پر سوار مت کیا کرو۔ جو کام تم تین چار روز میں نمٹانے کا سوچ کر آئی تھیں، ضروری تو نہیں کہ وہ حسب خواہش ہوجائے۔ یہاں کا موسم انجوائے کرو۔ تم تو ہر وقت خود کو آفس کے کاموں میں مصروف رکھتی ہو۔‘‘ عالیان نے شکوہ کیا۔ ’’کل صبح میٹنگ سے فارغ ہوکر کہیں گھومنے چلتے ہیں۔‘‘ فرزین نے کہا۔ ’’مجھے آنٹی نے اپنے گھر بلایا ہے۔ کل کا دن میں ان کے ساتھ گزاروں گا۔‘‘ فرزین کے چہرے پر ناگواری کا تاثر ابھرا۔ وہ فوراً بولی۔ ’’تمہاری آنٹی تم سے ملاقات کے بہانے تمہارے کان بھریں گی۔ وہ…!‘‘ ’’میں کون سا ان کی باتوں پر کان دھرتا ہوں۔ تم میری طرف سے عدم تحفظ کا شکار مت ہو۔ زندگی مجھے تمہارے ساتھ گزارنی ہے، آنٹی کے ساتھ نہیں!‘‘ عالیان نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ٭…٭…٭ میڈم شاہینہ آفریدی نے لنچ سے فارغ ہوتے ہی عالیان کے سامنے فرزین کا ذکر چھیڑ دیا۔ ’’عالیان! مجھے لگتا ہے تمہارا دماغ چل گیا ہے جو تم فرزین سے شادی کرنے جارہے ہو۔ تم اچھے خاصے گڈ لکنگ اور پڑھے لکھے ہو۔ تمہیں اس عام سی شکل و صورت کی لڑکی سے شادی کرنے کی کیا پڑی ہے، عمر میں بھی وہ تم سے بڑی ہوگی، اوپر سے بیوہ ہے۔ لگتا ہے تم اس کی دولت اور جائداد سے متاثر ہوکر اس سے شادی کے لئے پر تول رہے ہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے طنزیہ انداز میں عالیان کی طرف دیکھا۔ ’’ایسا کچھ نہیں ہے۔ فرزین میری اچھی دوست ہے۔ رہی بات اس کے بیوہ ہونے کی تو بیوہ سے شادی کرنا ثواب کا کام ہے۔‘‘ ’’عالیان! ثواب کمانے کے لئے بیوہ سے شادی ہی رہ گئی ہے۔ نیکی اور ثواب کمانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے کیا۔ خیر!تمہاری مرضی…! میری اپنی اولاد نے کون سا میری سنی تھی، اس نے بھی اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی مسز شاہینہ کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ ’’آنٹی! پلیز آپ دکھی نہ ہوں۔ جانتا ہوں آپ کو روحیل کی جوان موت سے صدمہ پہنچا ہے۔ میں روحیل کی جگہ نہیں لے سکتا۔ سوری میری وجہ سے آپ کو دکھ پہنچا مگر میں کیا کروں، میں فرزین سے شادی کا وعدہ کرچکا ہوں۔ آپ میری مجبوری سمجھ رہی ہوں گی۔‘‘ عالیان نے دھیمے لہجے میں اپنی بات مکمل کی۔ ’’ٹھیک ہے بیٹا! زندگی تمہاری ہے اور تمہیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ یہ بتائو فرزین کے آگے پیچھے منڈلانے کے علاوہ تم کوئی اور کام بھی کررہے ہو؟‘‘ میڈم شاہینہ نے گفتگو کا رخ موڑتے ہوئے پوچھا۔ ’’فی الحال آنٹی! میں فرزین کے ساتھ کام کررہا ہوں۔ میرے پاس اتنی رقم کہاں کہ اپنا ذاتی بزنس کرسکوں۔‘‘ عالیان نے جھینپے لہجے میں کہا۔ میڈم شاہینہ، عالیان کو اپنی سماجی مصروفیات سے آگاہ کرنے لگیں۔ میڈم شاہینہ دولت مند خاتون تھیں۔ ان کے شوہر اسفند آفریدی کامیاب بزنس مین تھے۔ میڈم شاہینہ جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں۔ بیوگی کے بعد انہوں نے اپنی تمام تر توجہ کا مرکز اپنے بیٹے روحیل اور اپنے بزنس کو بنا لیا تھا۔ وہ ایک کامیاب بزنس وومن تھیں۔ روحیل کے انٹر کرتے ہی انہوں نے اسے تعلیم کی غرض سے بیرون ملک بھیج دیا تھا۔ روحیل نے تعلیم مکمل کرتے ہی ایک غیر ملکی لڑکی سے شادی کرلی تھی۔ میڈم شاہینہ نے اس بات پر روحیل سے کافی جھگڑا بھی کیا تھا، جس پر روحیل نے کہا تھا کہ اس کا پاکستان مستقل طور پر رہنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اس لئے اس نے نیشنلٹی کے حصول کے لئے مقامی لڑکی سے شادی کی ہے۔ میڈم شاہینہ نے بیٹے کی شادی کو وقت گزرنے کے ساتھ قبول کرلیا تھا۔ پھر ایک حادثے میں روحیل اور اس کی بیوی کی جواں سال موت نے ان کو اندر سے بالکل توڑ کر رکھ دیا۔ وہ روحیل کی موت کے بعد بزنس کو خیرباد کہہ کر گھر تک محدود ہوکر رہ گئی تھیں۔ اس دوران ان کی طبیعت خاصی خراب رہنے لگی تھی۔ ڈاکٹر کے مشورے پر خود کو مصروف رکھنے کے لئے وہ سماجی سرگرمیوں میں مصروف رہنے لگی تھیں۔ عالیان ان کے اکلوتے بھائی کا بیٹا تھا۔ عالیان کی ماں نے اس کے باپ کے مرنے کے بعد دوسری شادی کرلی تھی۔ عالیان نے کئی بار میڈم شاہینہ سے کاروبار کرنے کی غرض سے رقم مانگی تھی، مگر انہوں نے صاف انکار کردیا تھا، یہ کہہ کر کہ میرا سب کچھ تمہارا ہی ہے اور تمہیں یہ میری موت کے بعد ملے گا۔ عالیان نے پورا دن میڈم شاہینہ کے ساتھ گزارہ اور رات گئے ان کے گھر سے رخصت ہوا۔ وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں میڈم مہمان خواتین سے ہنس ہنس کر باتیں کرنے میں مصروف تھیں۔ آج انہوں نے اپنی سہیلیوں اور واقف کار خواتین کو ڈنر پر بلایا تھا۔ اپنی ملازمہ کلثوم کے بارہ سالہ بیٹے مجیب پر نظر پڑتے ہی وہ بُری طرح دھاڑیں۔ ’’کلثوم…! مجیب کو یہاں سے نکالو۔ اس کے پائوں گندے ہوں گے۔ سارا دن بغیر چپل کے پھرتا ہے۔‘‘ میڈم شاہینہ کی آواز میں سخت غصہ تھا۔ مجیب نے گھبرا کر بھاگنا چاہا تو اس کوشش میں وہ کانچ کی ٹیبل پر رکھے ہوئے گلدان سے ٹکرایا۔ گلدان زور سے زمین پر گرا۔ چھناک کی آواز کے ساتھ کانچ کے ٹکڑے ٹیبل کے اردگرد پھیل گئے۔ ’’رک جائو مجیب!‘‘ میڈم شاہینہ گرج کر بولیں اور صوفے سے اٹھ کر مجیب کے پاس پہنچیں۔ وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔ انہوں نے مجیب کے منہ پر دو تھپڑ رسید کئے۔ مجیب کی آنکھوں میں امڈتے آنسو دیکھ کر کلثوم نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔ ’’بیگم صاحبہ!اسے معاف کردیں۔ بچہ ہے، آئندہ ایسا نہیں کرے گا۔‘‘ ’’ٹھیک ہے میں اسے معاف کردیتی ہوں، تمہاری تنخواہ سے پیسے کاٹوں گی۔ اتنا مہنگا ڈیکوریشن پیس تمہارے بیٹے نے توڑ دیا ہے۔ اسے اپنے کوارٹر میں لے جائو، رقیہ کو بھیجو، وہ آکر کانچ سمیٹے گی۔‘‘ میڈم شاہینہ نے غصے سے گردن کو جھٹکتے ہوئے کہا۔ کلثوم فوراً مجیب کو اپنے کوارٹر میں لے گئی۔ دل میں وہ شکر ادا کررہی تھی کہ میڈم نے رحم کرتے ہوئے اسے نوکری سے نہیں نکالا تھا۔ میڈم شاہینہ کے مزاج کو وہ جانتی تھی۔ ذرا ذرا سی بات پر وہ غصے میں آپے سے باہر ہوجاتی تھیں۔ ٭…٭…٭ ستمبر کی ایک روشن صبح تھی۔ ماہ نور کا آج کالج میں پہلا دن تھا۔ کوریڈور میں تیز قدموں سے چلتے ہوئے ماہ نور اپنی کلاس ڈھونڈ رہی تھی۔ بڑی مشکل سے اپنی کلاس ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئی۔ اندر جاکر ماہ نور نے اپنا بیگ سیٹ پر رکھا اور چہرے سے نقاب ہٹاتے ہوئے اس نے اپنا گائون اتار کر بیگ میں رکھا۔ ’’ہائو کیوٹ!‘‘ اس کے نزدیک بیٹھی لڑکی نے بے ساختہ کہا۔ پھر اپنا تعارف کراتے ہوئے بولی۔ ’’مجھے علیزے کہتے ہیں، کیا نام ہے تمہارا…؟‘‘ سانولی اور معمولی نین نقوش کی حامل علیزے نے ماہ نور کو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’میرا نام ماہ نور ہے۔‘‘ قدرے جھجکتے ہوئے ماہ نور نے بتایا۔ ’’بہت خوبصورت نام ہے تمہارا! تمہارے اوپر یہ نام سوٹ بھی کررہا ہے۔ تم مجھے بہت اچھی لگی ہو۔ آج سے ہماری دوستی پکی!‘‘ علیزے نے اپنا ہاتھ ماہ نور کی جانب بڑھایا جسے ماہ نور نے فوراً تھام لیا۔ ماہ نور کے لئے آج کا دن نہایت اہم اور خوشگوار تھا۔ بڑی مشکل سے اسے کالج میں پڑھنے کی اجازت ملی تھی۔ وہ خوش تھی کہ کلاس میں آتے ہی علیزے نے اس کے حسن کی تعریف کردی۔ اپنی تعریف سن کر وہ خود کو ہوائوں میں اڑتا ہوا محسوس کررہی تھی۔ ماہ نور کو اپنی خوبصورتی کا احساس بچپن سے تھا جو بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ مزید بڑھ گیا تھا۔ کالج میں وہ دن کیسے گزرا، ماہ نور کو پتا ہی نہ چلا۔ وہ اس بات پر خوش تھی کہ کالج کے بہانے اسے آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع مل گیا تھا۔ اس دن شام میں ماہ نور گنگناتے ہوئے برتن دھو رہی تھی۔ تب ہی بڑی بہن حبیبہ نے اسے ٹوکا۔ ’’ماہ نور! تم کالج پڑھنے گئی تھیں یا گانے سیکھنے؟ جب سے کالج سے آئی ہو، گنگناتی پھر رہی ہو۔‘‘ ’’لو جی شروع ہوگیا ملانی جی کا درس! اب میرے گھر میں گانے پر بھی پابندی ہے۔‘‘ ’’بالکل ہے! ابا نے سن لیا تو سخت خفا ہوں گے۔‘‘ حبیبہ نے بتایا۔ ماہ نور نے چپ سادھ لی۔ ٭…٭…٭ دن پر لگا کر گزر رہے تھے۔ ماہ نور کا کالج میں پڑھنے کا خواب تو پورا ہوگیا تھا، مگر اس نے کالج کو پڑھائی کی جگہ سمجھنے کے بجائے انجوائے کرنے کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ اس کی کلاس کی کئی طالبات بہت سنجیدہ اور پڑھاکو تھیں، مگر اسے وہ طالبات نہایت خشک اور بور لگتیں۔ ماہ نور اور علیزے اکثر اپنا وقت کالج کے لان یا کیفے میں گزارتیں۔ علیزے کا تعلق بھی ماہ نور کی طرح لوئر مڈل کلاس گھرانے سے تھا اس کے باوجود وہ کافی پیسے لاتی تھی۔ ماہ نور اور وہ مل کر خوب تفریح کرتیں۔ ایک دن ماہ نور کالج سے واپسی میں علیزے کے ساتھ گیٹ سے باہر نکلی تو کالج سے کچھ فاصلے پر دو نوجوان کار سے ٹیک لگائے سگریٹ پی رہے تھے۔ وہ اچھے لباس میں تھے۔ علیزے کو دیکھ کر وہ دونوں مسکرائے، جواب میں علیزے بھی مسکرا دی اور ماہ نور کا ہاتھ پکڑ کر ان کی جانب بڑھی۔ ’’تم انہیں جانتی ہو؟‘‘ ماہ نور نے پوچھا۔ ’’ہاں…!‘‘ علیزے نے مختصر جواب دیا۔ ان لڑکوں کے نزدیک پہنچ کر ماہ نور نے علیزے سے ان کا تعارف کرتے ہوئے بتایا۔ ’’یہ میرا فرینڈ شارق اور یہ اس کا دوست شہرام ہے۔‘‘ ’’ہیلو…!‘‘ کہتے ہوئے شہرام نے چادر میں لپٹی ماہ نور کا سر سے پائوں تک جائزہ لیا۔ ’’علیزے! تم تو خاصی آزاد خیال ہو پھر اتنی بیک ورڈ لڑکی کو اپنی دوست کیسے بنا لیا؟‘‘ شارق اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولا۔ ’’بھئی میری دوست اتنی حسین ہے کہ اسے دیکھتے ہی بے اختیار میرا دل اس سے دوستی کرنے کو چاہا۔ ویسے تم لوگوں کا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟‘‘ علیزے نے پوچھا۔ ’’ہم لوگ شاپنگ مال جارہے تھے سوچا کہ تمہیں بھی لیتے چلیں۔ تمہیں تو شاپنگ کرنے کا خاصا شوق ہے، چل رہی ہو تم…؟‘‘ ’’نیکی اور پوچھ پوچھ!‘‘ علیزے نے شارق کی آفر سننے کے بعد کہا۔ پھر وہ ماہ نور سے مخاطب ہوکر بولی۔ ’’تم بھی چلو نا ہمارے ساتھ!‘‘ ’’نہیں بھئی مجھے پہلے ہی دیر ہوگئی ہے۔ میں امی کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاتی۔ تم جائو، میں چلتی ہوں۔‘‘ ماہ نور نے یہ کہتے ہوئے اپنے قدم اسٹاپ کی جانب بڑھا دیئے۔ اگلے دن علیزے کالج آئی تو اس نے بیگ سے نکال کر وہ سارے گفٹ ماہ نور کو دکھائے جو اسے شارق نے دلوائے تھے۔ ’’تمہارے تو بڑے مزے ہیں۔ ایک ہم ہیں، ہمیں تو کوئی شاپنگ نہیں کراتا۔ عید پر بھی ماں اپنی پسند کے کپڑے اور چوڑیاں لا کر دیتی ہیں۔ بازاروں میں گھومنا درکنار، اپنے گھر کی چھت پر چلی جائوں تو اماں فوراً آوازیں لگانا شروع کردیتی ہیں کہ جلدی نیچے آئو۔‘‘ ماہ نور کی آنکھوں میں اداسی اتر آئی۔ ’’تمہیں ان میں سے کوئی چیز پسند آئے تو لے لو۔ اپنی اماں کو بتا دینا کہ میں نے گفٹ کی ہے۔ سچ تمہاری باتیں سن کر مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے کہ تم اتنے گھٹے ہوئے ماحول میں کیسے زندہ ہو۔ میں تمہاری جگہ ہوتی تو کب کی مر چکی ہوتی۔ یہ دو لپ اسٹکس تم رکھ لو، بہت پیارے شیڈز ہیں۔‘‘ علیزے نے ماہ نور کے نہ، نہ کرنے کے باوجود اسے تھما کر ہی دم لیا۔ رات میں ماہ نور نے علیزے کی دی ہوئی لپ اسٹک لگا کر آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود کو جانچا، تب ہی اس کی بڑی آپا انزلہ کمرے میں آدھمکیں۔ ’’ماہ نور! تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا جو گھر میں لپ اسٹک لگا کر کھڑی ہو؟ ویسے لپ اسٹک کا شیڈ بہت پیارا ہے، کہاں سے لیا؟‘‘ بڑی آپا کی بے جا مداخلت ماہ نور کو سخت بری لگی تھی۔ اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے وہ بولی۔ ’’آپا! یہ لپ اسٹک میری سہیلی نے مجھے گفٹ کی ہے، میں شیڈ چیک کررہی تھی۔‘‘ ’’اچھا… اچھا! ٹھیک ہے۔ تم کچن میں جاکر ذرا شاہ میر کا فیڈر تو بنا دینا۔ میں باتوں میں لگ کر بھول ہی گئی تھی کہ کیا کام کرنے نکلی تھی۔‘‘ بڑی آپا نے فیڈر ماہ نور کی جانب بڑھایا تو وہ انکار کئے بغیر کمرے سے نکل گئی۔ بڑی آپا کی فطرت کو وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر اماں کے سامنے بیان کرنا، ان کا مشغلہ تھا۔ جواب میں ماں کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا تھا۔ ٭…٭…٭ صبح کا وقت تھا، پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں کو بھلی معلوم ہورہی تھی۔ ماہ نور کمرے سے باہر آئی۔ برآمدے میں صبح کی دھوپ پھیل رہی تھی، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پھولوں اور درختوں سے اٹکھیلیاں کررہے تھے۔ صبح کی فرحت آمیز ہوا کو طویل سانس لے کر اپنے اندر اتارتے ہوئے ماہ نور ٹہلنے لگی۔ کچھ دیر بعد ہی اس کے کانوں میں اماں کی پاٹ دار آواز گونجی۔ ’’اری ماہ نور! یوں ہی ٹہلتی رہے گی، جلدی سے آکر مجھے ناشتہ بنا دے۔‘‘ ’’اماں! میں واک کررہی ہوں، تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔‘‘ ماہ نور نے اطمینان بھرے لہجے میں ٹہلتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ہاں تو کالج جاکر یہی سیکھ رہی ہے کہ ماں کو کیسے جواب دیا جاتا ہے۔ گھر کا کوئی کام تجھ سے نہیں ہوتا، کالج سے آکر پڑی سوتی رہتی ہے۔ یہ بات تیری استانی نے تجھے نہیں بتائی کہ ماں، باپ کی نافرمانی کرنے والا جہنم میں جاتا ہے۔‘‘ اماں کی غصے میں بھری آواز سن کر ماہ نور کے قدم رک گئے۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ کچن میں جا گھسی اور اماں کے لئے ناشتے کی تیاری کرنے لگی۔ روٹیاں بنانے کے بعد ماہ نور نے رات کا بچا ہوا سالن گرم کرکے پلیٹ میں نکالا، ٹرے میں بڑی نفاست سے پلیٹیں اور چائے کا کپ رکھنے کے بعد اس نے ناشتہ اماں کے سامنے رکھا اور کمرے سے نکل گئی۔ دوسرے کمرے میں جاکر کالج جانے کی تیاری کرنے لگی۔ کالج میں فنکشن تھا۔ ماہ نور نے فنکشن میں جانے کے لئے عید کے ڈریس کو اپنے لئے منتخب کیا۔ ایمبرائیڈری سے سجے بلیو شیفون کے ڈریس کو زیب تن کرنے کے بعد اس نے گائون پہن لیا۔ کمرے کے چھوٹے سے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر ماہ نور نے اپنے میک اَپ کا تنقیدی جائزہ لیا۔ نفاست سے کئے گئے میک اَپ نے چہرے کی دلکشی کو مزید نمایاں کردیا تھا۔ ماہ نور اپنے چہرے کی خوبصورتی میں کھوئی ہوئی تھی کہ اس کے کانوں میں حبیبہ کی آواز ٹکرائی۔ ’’کہاں جارہی ہو تم…؟‘‘ ’’کالج جارہی ہوں، کیوں کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے؟‘‘ ماہ نور نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا اور پیروں میں سینڈل پہننے لگی۔ ’’کیا کہا کالج جارہی ہو، وہ بھی اس طرح سج بن کر…؟‘‘ حبیبہ کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔ ’’ہاں! وہ کالج میں فنکشن ہے نا!‘‘ ماہ نور نے سینڈل پہنتے ہوئے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔ ’’تمہارے کالج والوں کو کوئی اور کام نہیں ہے؟ جب دیکھو فنکشن کرتے رہتے ہیں۔‘‘ ’’بہن…! تو میں کیا کروں۔ یہ فنکشن کیا میں ارینج کرواتی ہوں؟‘‘ وہ جھلا کر بولی۔ ’’تمہارا میک اَپ اوور لگ رہا ہے۔ کالج کے فنکشن میں اتنا میک اَپ کہاں سوٹ کرتا ہے، صرف لپ اسٹک لگا لیتیں۔‘‘ حبیبہ نے مشورہ دیا۔ ماہ نور کے چہرے پر ناگواری کا تاثر ابھرا۔ وہ بولی۔ ’’حبیبہ! تمہیں کیا پتا کالج کے فنکشن میں لڑکیاں کتنی تیار ہوکر آتی ہیں۔ میں چلتی ہوں، دیر ہورہی ہے۔‘‘ ماہ نور نے حبیبہ سے جان چھڑاتے ہوئے نقاب چہرے پر لگائی اور خداحافظ کہتے ہوئے نکل گئی۔ ٭…٭…٭ شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ انعام عباسی مغرب سے پہلے گھر میں داخل ہوئے تو ثمینہ بانو نے ماہ نور سے شربت بنا کر لانے کو کہا، پھر اپنے شوہر انعام عباسی سے مخاطب ہوئیں۔ ’’ارے سنتے ہو آج تمہاری بھتیجی مدیحہ آئی تھی اپنے دیور کا رشتہ ماہ نور کے لئے لے کر! میں نے سنتے ہی منع کردیا۔ حبیبہ کے ہوتے ہوئے ماہ نور کا رشتہ کیسے طے کرسکتی ہوں۔ پہلے حبیبہ کا رشتہ تو کہیں کرائو تو کہنے لگی، میں کہاں سے حبیبہ کا رشتہ لے کر آئوں۔ ایک تو کم پڑھی لکھی اوپر سے کالی رنگت! پھر مجھے مشورہ دینے لگی کہ میں حبیبہ کے لئے رشتے کا انتظار کرنے کے بجائے ماہ نور کی شادی کرنے کی فکر کروں۔‘‘ ’’ہاں! مدیحہ صحیح کہہ رہی تھی۔ بڑی کے چکر میں چھوٹی کے لئے آئے رشتے کو منع کردینا کون سی عقلمندی ہے۔‘‘ انعام عباسی بیوی کی بات سن کر دھیمے لہجے میں بولے۔ ثمینہ بانو ایک دم بھڑک اٹھیں۔ ’’بڑا اچھا رشتہ لے کر آئی تھی تمہاری بھتیجی جو تمہیں میرے منع کرنے پر افسوس ہورہا ہے۔ ڈرائیور ہے اس کا دیور، کون سا تیس، چالیس ہزار ماہوار کماتا ہے۔ میری ماہ نور پڑھی لکھی اور خوبصورت ہے۔ اس کی شادی کسی پڑھے لکھے سے ہونی چاہئے۔‘‘ ثمینہ بانو کا جملہ مکمل ہوتے ہی ماہ نور شربت کا گلاس لئے کمرے میں داخل ہوئی۔ ثمینہ بانو اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولیں۔ ’’کہاں مرگئی تھی، اتنی دیر میں ایک گلاس اٹھائے چلی آرہی ہے۔ اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ماں کے لئے بھی شربت بنا دیتی۔‘‘ ’’اماں! بوتل میں تھوڑا سا شربت بچا تھا۔ میں نے اس لئے صرف ابا کے لئے بنایا ہے۔ آپ اور شربت منگوا دیں، میں آپ کے لئے بھی بنا دیتی ہوں۔‘‘ ماہ نور نے جواب دیا۔ ’’رہنے دے شربت کو! جاکر حبیبہ سے کہہ دے رات کے کھانے کے لئے روٹیاں ڈال لے۔ خود بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوجانا اور ہاں! رائتہ اور سلاد بھی بنا لینا، خالی سبزی تو حلق سے اترنے سے رہی۔‘‘ ’’ٹھیک ہے اماں! میں حبیبہ سے کہہ دیتی ہوں، وہ خود بنا لے گی۔ میرا تو ٹیسٹ ہے، مجھے اس کی تیاری کرنی ہے۔‘‘ ماہ نور نے جواب دیتے ہوئے شربت کا خالی گلاس اٹھایا۔ ثمینہ بانو نے کچھ کہنے کے بجائے صرف گھورنے پر اکتفا کیا۔ پھر وہ بیٹھے ہوئے دل میں سوچنے لگیں کہ مدیحہ کسی طرح اپنے دیور کی شادی حبیبہ سے کرنے پر تیار ہوجائے تو حبیبہ کا بوجھ تو ان کے سر پر سے اترے۔ حبیبہ کی شادی کے لئے وہ دل میں بہت فکرمند تھیں، جبکہ ماہ نور کی طرف سے انہیں اطمینان تھا کہ جتنی وہ خوش شکل ہے، اس کے لئے اچھا رشتہ ملنا مشکل نہیں ہوگا۔ ماہ نور ان کی سب سے چھوٹی اور چوتھی بیٹی تھی۔ ماہ نور نے جب دنیا میں آنکھ کھولی تھی اور ثمینہ بانو کو یہ معلوم ہوا تھا کہ چوتھی بار انہوں نے ایک بیٹی کو جنم دیا ہے تو انہوں نے اس پر ایک نظر ڈالنا گوارا نہیں کیا تھا۔ انعام عباسی نے بیوی کو سمجھایا کہ بیٹیاں خدا کی رحمت ہوتی ہیں، مگر ثمینہ بانو پر مطلق اثر نہ ہوا۔ ماہ نور کی پیدائش سے قبل انعام عباسی کا کاروبار نارمل سا تھا۔ ماہ نور کی پیدائش کے بعد ان کے کام میں اتنی تیزی آگئی کہ وہ مختلف بازاروں میں کپڑوں کے اسٹال لگانے کے بجائے کرائے کی دکان لینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ دکان سے اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ گھر کا خرچا پورا ہونے کے ساتھ وہ اپنی دو بڑی بیٹیوں انزلہ اور عبیدہ کے فرض سے سبکدوش ہوگئے تھے۔ انعام عباسی نے اپنی تینوں بڑی بیٹیوں کو میٹرک سے آگے نہیں پڑھایا تھا، صرف ماہ نور کو انہوں نے اس کی خواہش پر کالج میں داخلہ دلوایا تھا وہ بھی اس شرط پر کہ وہ پردے میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرے گی۔ ٭…٭…٭ ماہ نور، علیزے کے ساتھ کالج کی کینٹین میں بیٹھی ہوئی تھی۔ علیزے، ماہ نور کو وہ تمام گر بتانے میں لگی ہوئی تھی جن کے ذریعے لڑکوں کو بے وقوف بنا کر ان کی جیب سے پیسے بآسانی نکلوائے جاسکتے ہیں۔ ’’ماہ نور! دنیا عیار لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ تم بہت معصوم ہو مجھ سے کچھ ہوشیاری سیکھ لو۔ مجھے دیکھ لو میں لڑکوں سے دوستی کرکے کتنے فائدے اٹھا رہی ہوں۔ مجھے جو خریدنا ہوتا ہے، اپنے فرینڈز سے کہہ دیتی ہوں، وہ مجھے شاپنگ کرا دیتے ہیں۔ مہنگے ریسٹورنٹ کے فاسٹ فوڈ کے مزے اڑاتی ہوں، تتلی بنی اڑتی پھرتی ہوں۔ تم مجھ سے بہت زیادہ خوبصورت ہو۔ میں تمہارے جتنی خوبصورت ہوتی تو جانے کہاں نکل جاتی۔‘‘ ’’نہیں بھئی! مجھے تو معاف رکھو، مجھے ان کاموں کے نتائج سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ ماہ نور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولی۔ ’’بس رہنے دو، ایسی زندگی کا فائدہ کیا جس میں انسان انجوائے نہ کرے۔‘‘ ’’علیزے! میں بھی زندگی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنا چاہتی ہوں مگر کیا کروں، میرے گھر کا ماحول تمہارے ماحول سے مختلف ہے۔ تمہارے والدین میں علیحدگی ہوچکی ہے، تمہارے ابا ہیں نہ بھائی جن کا تمہیں کوئی خوف ہو۔ مجھ پر تو ہر وقت ابا کا خوف طاری رہتا ہے۔ اماں بھی ہر بات ابا تک پہنچا دیتی ہیں۔ اماں کا بس چلتا تو ہمیں اسکول بھی نہیں بھیجتیں۔ وہ تو چاہتی ہیں کہ ہم ہر وقت گھر داری کرتے رہیں۔‘‘ ماہ نور نے یاسیت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’اف توبہ! بہت بیک ورڈ ہیں، تمہارے گھر والے، دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا نہیں چاہتے۔ خیر جتنی تم سیدھی ہو، تمہارا لڑکوں سے دور رہنا بہتر ہے۔ اب اٹھو میڈم فرح کی کلاس شروع ہونے والی ہے۔‘‘ علیزے بیگ اٹھاتے ہوئے بولی۔ ٭…٭…٭ ہفتے کا دن تھا آج علیزے کالج نہیں آئی تھی۔ اس کی غیر موجودگی کی وجہ سے ماہ نور کا دن خاصا بور گزرا۔ کالج سے واپسی پر ماہ نور اسٹاپ پر پہنچی تو بس آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے، مجبوراً ماہ نور پیدل ہی گھر کی جانب روانہ ہوگئی۔ ابھی اس نے کچھ فاصلہ طے کیا تھا کہ اسے خوف کا احساس ہوا۔ ماہ نور نے اپنی گردن پیچھے موڑی تو اسے تین لڑکے جو شکل سے آوارہ نظر آرہے تھے، اپنے پیچھے آتے دکھائی دیئے۔ ماہ نور نے یہ دیکھتے ہی اپنی رفتار بڑھا دی۔ ماہ نور کے کانوں میں ان لڑکوں کے کہے ہوئے فقرے ٹکرا رہے تھے۔ ماہ نور بوکھلاہٹ میں راستے میں پڑے پتھر سے ٹکرائی اور اوندھے منہ گر گئی۔ ماہ نور کا تعاقب کرنے والے اسے گرتا دیکھ کر رک گئے تھے۔ ماہ نور خجل سی ہوکر فوراً سنبھل کے کھڑی ہوئی۔ سامنے سے اسے بائیک پر ایک لڑکا آتا دکھائی دیا۔ پتا نہیں کیا سوچ کر وہ اس کی مدد لینے پر تیار ہوگئی۔ ماہ نور نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔ جیسے ہی وہ لڑکا نزدیک آیا، ماہ نور کی آنکھوں میں شناسائی ابھری۔ وہ شہرام تھا۔ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ماہ نور بولی۔ ’’پلیز آپ میری مدد کریں، یہ لڑکے مجھے تنگ کررہے ہیں۔‘‘ شہرام نے یہ سنتے ہی ان لڑکوں کو گھور کر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’چلو جائو یہاں سے۔‘‘ ان لڑکوں نے شہرام پر حملے کا ارادہ کیا، عین اس وقت برابر والی گلی سے پولیس موبائل کی آواز سنائی دی جسے سنتے ہی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ ’’تم بائیک پر بیٹھو، میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ شہرام نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ ماہ نور بوکھلائی ہوئی فوراً بائیک پر بیٹھ گئی۔ ’’تمہیں دیکھ کر یوں لگ رہا ہے جیسے میں تم سے پہلے مل چکا ہوں۔‘‘ شہرام نے کچھ سوچتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا۔ ’’جی ہاں!
آپ نے درست کہا۔ میں علیزے کی دوست ہوں، کالج سے واپسی پر علیزے نے آپ سے میرا تعارف کرایا تھا۔‘‘ ماہ نور نے جواب دیا۔ ’’اوہ… ہاں! یاد آیا۔ میں نقاب کی وجہ سے آپ کو پہچان نہیں پایا تھا۔‘‘ ماہ نور کے حواس اب بحال ہوچکے تھے۔ ماہ نور نے پوچھا۔ ’’آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘ ’’میں بزنس کرتا ہوں۔ کس طرف چلنا ہے؟‘‘ شہرام نے بائیک کو سڑک پر نکالتے ہوئے پوچھا۔ ماہ نور اسے راستہ بتانے لگی۔ دس منٹ بعد وہ اپنی گلی کے پاس پہنچ کر بولی۔ ’’میرا گھر اس گلی میں ہے، اب میں خود چلی جائوں گی۔ آپ بائیک روک دیں۔‘‘ شہرام نے بائیک روک دی۔ ’’بہت شکریہ آپ نے میری مدد کی۔ اب میں چلتی ہوں۔‘‘ ماہ نور نے قدم آگے کی جانب بڑھا دیئے۔ اس نے واپس پلٹ کر شہرام کی جانب نہیں دیکھا، حالانکہ شہرام اس مختصر سے سفر میں اس کے حواس پر چھا گیا تھا۔ وہ اس کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ محسوس کررہی تھی۔ پیر کے دن ماہ نور کالج پہنچی تو اس نے علیزے کو ہفتے کے دن کی روداد سنائی۔ ’’تمہیں شہرام کے ساتھ اکیلے جاتے ہوئے ڈر نہیں لگا؟ ویسے تمہیں بڑا ڈر لگتا ہے۔‘‘ علیزے نے کہا۔ ’’کسی نہ کسی پر بھروسہ تو کرنا پڑتا ہے۔ ویسے مجھے شہرام بہت شریف لگے۔‘‘ ماہ نور بولی۔ ماہ نور کی بات سنتے ہی اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔ پھر اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بولی۔ ’’ایک دن میں تم شہرام پر بھروسہ کربیٹھیں۔ کیا ارادہ ہے، اس سے دوستی کرا دوں تمہاری!‘‘ ’’ہاں! کرا دو۔‘‘ ماہ نور نے کہا۔ علیزے نے حیرانی سے ماہ نور کے چہرے کی طرف دیکھا جس پر گہری سنجیدگی تھی۔ وہ بولی۔ ’’میں نے تو مذاق میں یہ بات کہی تھی مگر تمہارے جواب سے یوں لگ رہا ہے جیسے تم واقعی سنجیدہ ہو۔‘‘ ’’ہاں یار! میں بور ہوگئی ہوں، اس لائف سے۔لائف میں تھوڑا چینج بھی ضروری ہے۔‘‘ ماہ نور نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’ہاں! چینج تو ضروری ہے مگر تم نہایت سیدھی لڑکی ہو۔ میں تمہیں ہرگز مشورہ نہیں دوں گی کہ تم شہرام سے دوستی کرو، بلکہ بہتر ہوگا کہ تم کسی لڑکے سے دوستی نہ کرو۔‘‘ علیزے کی بات سن کر ماہ نور نے حیرانی سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔ ’’آج موسم بہت اچھا ہے، میں کینٹین سے پکوڑے لے کر آتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر علیزے فوراً اٹھ کر کائونٹر پر موجود آدمی کے پاس چلی گئی اور اس سے ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگی۔ ’’ہونہہ…! مجھے تو شہرام سے دوستی کرنے سے منع کررہی ہے اور خود دیکھو کیسی ہنس ہنس کر بات کررہی ہے۔‘‘ ماہ نور منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔ اس کی سوچ ایک دفعہ پھر شہرام کی جانب مڑگئی۔ اسے امید تھی کہ شہرام سے اس کی دوبارہ ضرور ملاقات ہوگی۔ وہ اس کے سحر میں جکڑ چکی تھی۔ ٭…٭…٭ ماہ نور کالج جانے کے لئے گھر سے نکلی تو وہ خاصی لیٹ ہوچکی تھی۔ بارش کا موسم تھا، پرنم ہوائیں چل رہی تھیں۔ وہ جیسے ہی اسٹاپ پر پہنچی، اس کی مطلوبہ بس آگئی۔ بس میں چڑھتے ہی اسے کھڑکی کے نزدیک سیٹ مل گئی۔ وہ خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہونے لگی۔ راستہ کٹنے کا اسے احساس ہی نہ ہوا۔ کالج کے اسٹاپ پر اترتے ہی ماہ نور کو احساس ہوا جیسے وہ کسی کی نظروں کے حصار میں ہے۔ ماہ نور نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ اس سے کچھ فاصلے پر شہرام کھڑا مسکرا رہا تھا۔ ’’خیر ہے آج لیٹ ہوگئیں؟‘‘ شہرام نے کہا۔ ’’ہاں! آج ذرا دیر سے آنکھ کھلی تھی۔ آپ نے مجھے پہچان لیا؟‘‘ ’’بالکل! اس میں نہ پہچاننے والی بات کون سی ہے۔ کہیں چل کر بیٹھیں؟‘‘ شہرام نے مہذبانہ لہجے میں کہا۔ ’’جی! میں تو کالج جارہی تھی۔‘‘ ماہ نور بولی۔ ’’پڑھائی میں تمہارا دل آج کہاں لگے گا، موسم اتنا خوبصورت ہے اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کہیں چل کر بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے کے بارے میں جانتے ہیں۔‘‘ شہرام نے ماہ نور کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ ماہ نور نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ شہرام ساتھ چلتا ہوا کچھ فاصلے پر کھڑی بائیک پر جا بیٹھا۔ ماہ نور اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں ایک کیفے میں موجود تھے۔ ’’کیا پیو گی؟‘‘ شہرام نے پوچھا۔ ’’جو تم پیو گے، وہی پی لوں گی۔‘‘ ماہ نور نے جواب دیا۔ ’’دو اورنج جوس لے آئو۔‘‘ شہرام نے ویٹر سے کہا۔ چند منٹ بعد ویٹر جوس لے آیا۔ ماہ نور نے چہرے سے نقاب ہٹا دیا تھا اور جوس پینے میں مگن تھی۔ شہرام مبہوت ہوکر اسے دیکھ رہا تھا۔ ماہ نور نے جوس کا گلاس خالی کرکے ٹیبل پر رکھا اور شہرام سے باتوں میں مصروف ہوگئی۔ دوسرے دن وہ کالج گئی تو اس نے علیزے کو اپنی شہرام سے ملاقات کے بارے میں بتایا۔ ’’اچھا تو تم شہرام کے ساتھ ڈیٹ پر گئی تھیں۔ اتنی ہمت آگئی تم میں، ویسے تو بھیگی بلی بنی رہتی تھیں۔‘‘ علیزے طنزیہ انداز میں بولی۔ ’’ہاں! تمہارے ساتھ رہ کر مجھ میں ہمت آگئی ہے۔‘‘ ماہ نورنے جواب دیا۔ ’’ماہ نور! شہرام سیدھا سادا انسان نہیں ہے، جیسا تم سمجھ رہی ہو۔ تم جیسی لڑکی کو وہ بیچ ڈالے گا۔‘‘ ’’علیزے! تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں ناسمجھ ہوں۔ کہیں تم جیلس تو نہیں ہورہیں کہ میں نے شہرام سے دوستی کرلی؟‘‘ ’’شٹ اَپ! ایسی کوئی بات نہیں۔ میں ہرگز نہیں چاہتی کہ تم کوئی نقصان اٹھائو۔ میری بات اور ہے، میری امی نے مجھے اس راہ پر لگایا ہے۔ میں جو کچھ کرتی ہوں، جس سے ملتی ہوں، میری امی اور بہنوں کو معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ’’اچھا…!‘‘ ماہ نور نے حیرانی سے کہا۔ پھر چند لمحوں بعد بولی۔ ’’علیزے، میری اور تمہاری دوستی صرف شہرام کی وجہ سے متاثر ہورہی ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم کسی اور موضوع پر بات کریں۔‘‘ ’’کلاس شروع ہوئے پانچ منٹ ہوگئے ہیں، میں جارہی ہوں کلاس میں!‘‘ علیزے لان سے اٹھنے لگی۔ ماہ نور اس کے ساتھ جانے کے بجائے گھاس پر بیٹھی رہی۔ ٭…٭…٭ ماہ نور کو شہرام سے ملاقات کرتے ہوئے تین ماہ ہوگئے تھے۔ اگست کے ایک سہانے دن وہ دونوں پبلک پارک میں ٹہل رہے تھے، پھر وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ ’’تم نے کیا سوچا ہے میرے بارے میں…! عجیب مصیبت ہوگئی ہے مدیحہ آپی، پھر اپنے دیور کا رشتہ لے کر آدھمکی ہیں۔ اماں اور ابا اس بار راضی ہیں کیونکہ انہوں نے حبیبہ کا رشتہ لگوا دیا ہے۔ اماں ان کے صدقے واری ہورہی تھیں۔‘‘ ’’تم ٹینشن مت لو، تمہاری شادی مجھ سے ہی ہوگی اور تمہارے ابا بغیر کسی رکاوٹ کے تمہیں میرے ساتھ رخصت کریں گے، تم دیکھ لینا۔‘‘ شہرام نے پریقین لہجے میں کہا اور اس کی تصاویر لینے لگا۔ پھر اس کی جانب موبائل بڑھاتے ہوئے بولا۔ ’’دیکھو تمہاری تصویریں کتنی اچھی آئی ہیں۔‘‘ موبائل اسکرین پر نظر پڑتے ہی وہ حیرانی سے ایک کے بعد ایک تصویر کو کلک کرتی گئی۔ ’’کتنی پیاری لگ رہی ہوں میں!‘‘ ماہ نور کے دل کے گوشے سے آواز ابھری۔ اس دن وہ کالج ٹائم میں سیروتفریح کرنے کے بعد دوپہر کو گھر لوٹی تو کچن سے اشتہا انگیز خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں۔ وہ فوراً لپک کر کچن میں پہنچی تو اماں کو قورمہ بناتے ہوئے دیکھا۔ ’’اماں! خیریت تو ہے آج آپ دوپہر کو قورمہ بنا رہی ہیں، ورنہ روز دوپہر میں سبزی یا دال بنتی ہے؟‘‘ ماہ نور نے اماں سے پوچھا۔ ’’ہاں! خیریت ہے۔ ایک خوشی کی بات ہے کہ آج رات حبیبہ کے سسرال والے بات پکی کرنے آرہے ہیں۔ میں حبیبہ کی طرف سے بڑی فکرمند تھی، ہر وقت اللہ سے اس کا نصیب کھل جانے کی دعا مانگتی تھی۔ اللہ نے میری سن لی۔ حبیبہ کے ساتھ ساتھ تیرا رشتہ بھی طے ہوجائے تو تم دونوں کو ایک ساتھ رخصت کروں گی۔‘‘ ثمینہ بانو نے طمانیت بھرے لہجے میں بتایا۔ ماہ نور کے چہرے پر ناگواری پھیل گئی۔ وہ چلا کر بولی۔ ’’اماں! میں نے آپ کو کہا تھا کہ آپ مدیحہ آپی کو صاف منع کردینا کہ مجھے ان کے دیور سے شادی نہیں کرنی، پھر بھی آپ نے انہیں منع نہیں کیا۔‘‘ ’’آہستہ بول، تیری تو شرم و حیا مر گئی ہے۔ کس دھڑلے سے انکار کررہی ہے۔ ہم نے سوچ سمجھ کر ہاں کی ہے۔ اللہ زندگی دے عارب کو بڑا ہی باادب بچہ ہے۔ تو بہت خوش رہے گی اس کے ساتھ!‘‘ ’’مجھے کسی ڈرائیور سے شادی نہیں کرنی۔‘‘ ’’بہت زبان چل رہی ہے تیری، بند کر اپنی بکواس! دیکھ ماہ نور! تو فساد کھڑا کئے بغیر راضی ہو جا۔‘‘ ثمینہ بانو نے اسے تنبیہ کی۔ وہ مزید کوئی بات کئے پیر پٹختی کچن سے نکل گئی۔ ٭…٭…٭ میڈم شاہینہ آفریدی اپنی عزیز ترین سہیلی فرخندہ کے ساتھ ڈنر کررہی تھیں۔ فرخندہ کو آج انہوں نے بطور خاص دعوت دے کر اپنے یہاں ڈنر پر بلایا تھا۔ ’’فرخندہ ! تم بھی اپنے بچوں کے پاس کینیڈا جارہی ہو، میرا یہاں کیا ہوگا؟ تم سے باتیں کرکے میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرلیا کرتی تھی۔‘‘ میڈم شاہینہ نے سلاد پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں! یہ تو ہے، میں بھی وہاں جاکر تمہیں بہت مس کروں گی۔ ویسے ایک مشورہ دوں تمہیں تم عالیان کے پاس کچھ دنوں کے لئے چلی جائو تو تمہارا دل بہل جائے گا۔‘‘ فرخندہ نے کہا۔ ’’نہیں بھئی! میں کیوں اس کے پاس چلی جائوں، مجھے فرزین ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ عالیان کو بھی اب پتا چل رہا ہوگا کہ اس نے فرزین سے شادی کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ عالیان سمجھ رہا تھا کہ اس نے فرزین سے شادی کرکے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے، یہ اس کی خوش فہمی تھی۔ فرزین کے پاپا نے بزنس جمانے کے لئے سود پر بھاری رقم لی تھی۔ پچھلے چار برس سے وہ اپنی حیثیت کو قرض کے بل بوتے پر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے سسر کی اصل اوقات کا پتا عالیان کو اب چل رہا ہوگا۔‘‘ ’’شاہینہ! اوروں کی طرح کیا تم بھی یہ سمجھتی ہو کہ عالیان نے فرزین سے شادی محض دولت کی خاطر کی تھی؟‘‘ ’’ہاں بالکل! تب ہی تو میں نے اسے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی نظر تو میرے ترکے پر بھی ہے۔ میں نے اسے صاف بتا دیا کہ میری زندگی میں اسے کچھ نہیں ملے گا۔ جو کچھ ملے گا، میرے مرنے کے بعد ملے گا۔‘‘ ’’پھر تو تمہاری خیر نہیں!‘‘ فرخندہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے مار کر وہ جیل ہی جائے گا اور میری ساری جائداد چیریٹی میں چلی جائے گی۔ مجھے روحیل کی موت کے بعد جینے کی کوئی آرزو رہی نہیں ہے۔ جوان بیٹے کی موت کا غم کیا ہوتا ہے، کوئی میرے دل سے پوچھے۔‘‘ میڈم شاہینہ نے غمگین لہجے میں کہا۔ ’’مجھے تمہارے دکھ کا اندازہ ہے۔ کل تمہاری کوئی مصروفیت نہیں ہو تو تم میرے ساتھ شاپنگ پر چلو۔ میری بیٹی اور نواسی کی کچھ چیزیں رہ گئی ہیں، وہ خریدنی ہیں۔‘‘ فرخندہ نے گفتگو کا رخ موڑتے ہوئے کہا۔ (جاری ہے)