Tuesday, April 23, 2024

Raqabat | Complete Urdu Story

شریمتی پوجا کی آرٹ گیلری اچھی چلنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ شہر کے سب سے بڑے بازار میں واقع تھی۔ اس بازار میں بڑے بڑے سرمایہ دار، صنعت کار، شوبز کے فنکار، فلم ساز اور غیر ملکی سیاح آتے تھے۔ ممبئی میں کون ایسا شخص تھا جو اس کی آرٹ گیلری اور اس کے نام سے واقف نہ تھا۔
وہ نہ صرف غیرملکی سیاحوں بلکہ آرٹ کے قدردانوں کو بے وقوف بنانے کے فن میں طاق تھی۔ جب سے بھارتی فلمیں امریکی اور یورپی فلموں کو بے حجابی میں شرمانے لگی تھی، تب سے لوگوں کے مزاج میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی تھی۔ ان کا ذوق بھی بدلتا جا رہا تھا۔
پہلے لوگ اپنی خواب گاہوں اور نشست گاہوں میں مشہور فنکاروں کی تصویریں سجانے میں فخر محسوس کرتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ بند ہوگیا تھا اور اب انہیں ایسی تصویروں کی جستجو رہنے لگی تھی جس میں شوبز کی فنکارائیں بولڈ حالت میں ہوں۔ پھر یہ اداکارائیں مصوروں سے بولڈ تصویریں نہ صرف خوشی خوشی بنواتی تھیں بلکہ انہیں رقم بھی دیتی تھیں۔ اس لئے کہ وہ شہرت اور اپنے آپ کو شائقین کی توجہ مبذول کرانے کی خواہشمند ہوتی تھیں۔ اب وقت، حالات اور ماحول نہ صرف بدل گیا تھا بلکہ تیزی سے بدلتا جا رہا تھا۔
شریمتی پوجا بڑی شاطر، قیافہ شناس اور دوراندیش عورت واقع ہوئی تھی۔ وہ فوراً گاہگوں کا بدلتا ہوا مزاج سمجھ گئی اور اس نے درجنوں کے حساب سے بولڈ تصویریں لگا دیں۔ یہ تصویریں وہ قلاش مصوروں سے سستے داموں خریدا کرتی تھی۔ یہ مصور فنکارائوں کی چھپی ہوئی تصویریں اس طرح بناتے تھے جیسے ماڈل ان کے سامنے موجود ہو۔ یہ تصویریں وہ ہوٹلوں اور ریستورانوں کے مالکوں کو مہنگے داموں فراہم کرتی تھی۔ اس طرح وہ دونوں ہاتھوں سے خوب دولت بٹور رہی تھی۔
شریمتی پوجا کے کئی کاروباری راز تھے جو اس کے ذہن کی اختراع تھے۔
اس نے سب سے پہلے اپنے خریداروں پر توجہ دی… خاص طور پر ایسے گاہکوں پر جو ہر قسم کی تصویریں خریدتے تھے۔ انہیں جن زاویوں کی تصویروں کی ضرورت ہوتی تھی وہ اس کے پاس خاصی موجود ہوتی تھیں۔ وہ خوشی خوشی منہ مانگے دام دے جاتے تھے، کوئی مول تول نہیں کرتے تھے۔
جب تصویروں کی نکاسی کا انتظام باقاعدہ اور اطمینان بخش ہوگیاپھر اس نے مصوروں کی جانب توجہ مبذول کی، جہاں اس کی صلاحیتوں کے حقیقی جوہر کھل کے سامنے آئے، جن سے اس نے فائدہ اٹھانے میں بخل سے کام نہیں لیا۔
جن مصوروں سے اس کا سابقہ پڑتا تھا، ان میں سے بیشتر بے پروا، غیر ذمے دار اور قلاش ہوتے تھے۔ انہیں نہ اپنے لباس کا ہوش ہوتا اور نہ اپنی شخصیت کا… شریمتی پوجا کو بہت جلد ان کی کمزوری کا احساس ہو گیا تھا۔ ان مصوروں کو رقم کی ہمیشہ ضرورت ہوتی تھی تاکہ وقتی طور پر ان کے پیٹ کی آگ بجھ جائے اور انہیں شراب نوشی کے لئے کسی بھی قسم کی شراب مہیا ہوجائے۔
شریمتی پوجا کے کاروباری رقیب اس کی طرح دولت مند نہیں تھے، اس لئے وہ مصوروں کو صرف شہرت کے سہانے سپنے دکھایا کرتے تھے۔ کوئی مفلوک الحال مصور ان کے پاس تصویر فروخت کرنے جاتا تو وہ ان کے فن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے اور اسے اس شہر کا صفِ اول کا مصور گردانتے اور اس کی تصویر کی اچھی قیمت لگاتے۔ مثال کے طور پر پانچ ہزار روپے… غریب مصور کی آنکھیں پانچ ہزار روپے کا سن کر برقی قمقمے بن جاتیں، مگر وہ نقد رقم دینے کے بجائے اس سے کہتے کہ مہربانی فرما کر تصویر یہاں چھوڑ جائیں۔ جب یہ فروخت ہوجائیں گی تو ہم اپنا کمیشن کاٹ کے باقی رقم آپ کے حوالے کردیں گے۔ مصور کمیشن کے بارے میں پوچھتا تو جواب دیا جاتا کہ پچاس فیصد۔
اس کے برعکس شریمتی پوجا مصوروں کو شہرت کے سندر سپنے دکھانے کی بجائے ہزار، پانچ سو روپے کے نوٹوں کی جھلک دکھاتی تھی۔ بعض اوقات یہ جھلک دو ہزار کے نوٹوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ شریمتی کے اس حقیقت پسندانہ رویے نے بہت جلد شہر کے مفلوک الحال مصوروں کو اس کا گرویدہ بنا لیا تھا۔ جیسے ہی ان کی کوئی تصویر مکمل ہوتی وہ اسے پرانے اخبار میں لپیٹ کے سیدھے شریمتی پوجا کی گیلری میں آ جاتے۔ وہ انہیں اپنے کمرے میں لے جاتی اور وہاں تصویر کا باریک بینی سے جائزہ لیتی۔ اس دوران غریب مصور بڑی بے بسی اور بے چارگی سے اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کرتا۔
حقیقت یہ تھی کہ جتنی ضرورت مصوروں کو شریمتی پوجا کی تھی اتنی ہی ضرورت اس کو مصوروں کی تھی اور یہی بات فساد کی جڑ تھی۔ اس طرح مصوروں کو سودے بازی کا حق مل جاتا تھا… سودے بازی سے شریمتی پوجا کو سخت نفرت تھی۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے آخر اُس نے ایک طریقہ دریافت کر لیا، بلکہ طریقے کے بجائے اسے ایجاد کہنا مناسب ہوگا۔
مصور بغل میں اپنی تصویر دبائے اس کی گیلری میں داخل ہوتا۔ شریمتی کی ملازمہ اسے گیلری کے عقبی حصے کے ایک کوٹھری نما کمرے میں لے جاتی۔ یہ کمرہ ایک طرح سے دفتر کا کام دیتا تھا۔ اس چھوٹے سے کمرے میں پرانے طرز کی ایک بڑی سی میز کے پیچھے شریمتی پوجا کی اونچی کرسی تھی۔ وہ کمرے میں داخل ہوکر مصور کو بیٹھنے کا اشارہ کرتی اور پھر باوقار انداز میں چلتی ہوئی اپنی کرسی پر بیٹھ جاتی۔
مصور اپنی تخلیق کھول کے اس کے سامنے پیش کرتا اور پھر تصویر ایزل پر لگائی جاتی۔ شریمتی اس کا بغور معائنہ کرتی۔ پھراس کی عقابی نظریں تصویر کی ساری خوبیاں اور خرابیاں چند لمحوں میں پرکھ لیتی تھیں۔ پھر وہ کاغذ کا ایک ٹکڑا اپنی طرف کھسکاتی اور مصور کی نظروں سے چھپا کر اس پر تصویر کی قیمت لکھتی جو اس کے نزدیک مناسب ہوتی۔ کاغذ کا یہ پرزہ اس معاملے کی جان بن جاتا تھا۔ پھر مصور کو حکم دیا جاتا کہ وہ خود اپنی تصویر کی قیمت بتائے۔ اگر اس بدنصیب مصور کی طلب کردہ قیمت شریمتی کی تحریر کردہ رقم سے سو روپے بھی زیادہ ہوتی تو معاملہ وہیں ختم ہوجاتا۔ شریمتی خاموشی سے تصویر لپیٹ کے واپس مصور کے حوالے کردیتی۔
مصور لاکھ قیمت کم کرتا اور اپنے اندازے کی غلطی تسلیم کرتا… اپنی غربت کا حوالہ دیتا لیکن اسے کسی صورت میں دوسرا موقع نہیں دیا جاتا تھا۔ منت سماجت اور گڑگڑانا بھی لاحاصل ٹھہرتا تھا کیونکہ مصور نے اپنی تصویر کی قیمت لگانے میں غلطی کی تھی، اس لئے اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہئے تھی۔ بالآخر وہ اپنی تصویر بغل میں دبا کے نامراد اور ناکام واپس لوٹ جاتا۔
یہ تھی وہ اختراع جس پر شریمتی سختی سے عمل کرتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کوئی مصور آئندہ اپنی تخلیق کے متعلق کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوتا تھا۔ اگر مصور کی طلب کردہ شریمتی کی تحریر کردہ قیمت سے کم ہوتی یا برابر ہوتی تو رقم فوراً مصور کو ادا کردی جاتی۔
جب بدنصیب مصور دھڑکتے دل کے ساتھ ڈرتے ڈرتے اپنی تصویر کی قیمت کم لگاتا تھا تو شریمتی مصور کے سامنے کاغذ کا وہ پرزہ رکھ دیتی جس پر اس نے اپنی رقم تحریر کی ہوتی۔ اگر اس کی طلب کردہ قیمت شریمتی کی تحریر شدہ قیمت سے کم ہوتی تو وہ بدنصیب اپنی کم بختی پر خود کو خوب کوستا، لعن طعن کرتا، اپنی ذات پر غصہ اتارتا، سرد آہ بھرتا اور بعضوں کی آنکھوں میں آنسو بھی بھر آتے تھے۔ اس کی طلب کردہ قیمت شریمتی کی تحریر کردہ قیمت سے زیادہ ہوتی تو اس کا مطلب تصویر سمیت واپس جانا ہوتا۔ اس صورت میں بھی بعض مصوروں کی آنکھوں میں بے بسی سے آنسو آ جاتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ اب خواہ شریمتی کے چرنوں میں اپنا سر رکھ دیں۔ وہ کسی صورت ان کی تصویر قبول نہیں کرے گی۔ آئندہ وہ کم سے کم قیمت لکھتا۔
واپس کی ہوئی تصویروں کا ایک ہی ٹھکانہ ہوتا تھا۔ شریمتی کی گیلری کے بالکل سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک اور آرٹ گیلری تھی۔ وہاں تصویریں پچاس فیصد کمیشن پر فروخت کی جاتی تھیں اور اس کی قیمت اس کے فروخت ہونے کے بعد مصور کو ادا کی جاتی تھی۔ اب یہ اس کی قسمت اس کی تصویر ایک ماہ میں فروخت ہوجائے یا اسے ایک برس لگ جائے یا کبھی فروخت نہ ہو۔
اگر کسی مصور کی طلب کردہ قیمت شریمتی پوجا کی تحریر کردہ قیمت سے کم ہوتی تو مصور چند لمحوں کے بعد رقم جیب میں ٹھونس کر گیلری کے برابر واقع رٹز بار میں گھس جاتا کیونکہ وہاں شہر کی سب سے سستی اور ملاوٹ سے پاک شراب بکتی تھی، جس کی اسے شدت سے طلب محسوس ہوتی تاکہ اپنی بدنصیبی کا غم کم کرسکے۔ کوئی مصور ایسا نہیں تھا جو شریمتی جیسی جلاد عورت کا دس پندرہ منٹ سامنا کرنے کے بعد شراب کی طلب محسوس نہ کرتا ہو۔
اس طرح شریمتی کے نافذ کردہ طریقے سے جہاں اسے بے پناہ فائدہ پہنچا تھا وہاں بار کے مالک نے بھی خوب فائدہ اٹھایا۔ شریمتی کا اختراعی طریقہ جہاں بدقسمت مصور کو دہشت زدہ کر کے کم سے کم قیمت طلب کرنے پر مجبور کرتا وہیں اس کا اعصابی نظام درہم برہم ہو جاتا اور اسے پرسکون ہونے کے لئے شدت سے شراب کی طلب ہوتی۔
شریمتی اب صرف فطری مناظر والی تصویریں فروخت کرتی تھی۔ پہلے اس نے ایک دو برس ایسی تصویروں کی فروخت کی تھی جس میں کسی لڑکی یا شوبز کی ماڈلز کی تصویریں بولڈ ہوتی تھیں۔ ابتدا میں کاروبار زوروں پر چلا پھر ماند پڑگیا۔ جب وہ فطری مناظر کی تصویریں فروخت کرنے لگی تو اس کا کاروبار چمک اٹھا۔ کیونکہ اس قسم کی تصویریں ہر شریف آدمی اپنی نشست گاہ اور خواب گاہ کی زینت بنا سکتا تھا۔ ان تصاویر سے کمروں کی زینت اور حسن میں اضافہ ہو جاتا۔
انیل ایک نوجوان مصور تھا جو شہر کے تمام مفلوک الحال مصوروں میں شریمتی پوجا کے ہاتھوں سب سے زیادہ ستایا ہوا تھا۔ مگر شریمتی کو سب سے کم برا بھلا کہنے والا شخص بھی یہی تھا۔ شاید وہ اس کے برے رویّے کا عادی ہو چکا تھا یا شاید فطری طور پر اتنا اچھا آدمی تھا کہ شریمتی کی گیلری سے باہر آتے ہی اس کا برا رویہ معاف کردیتا تھا۔
انیل کی کولکتہ میں رہائش تھی۔ وہاں غربت و افلاس کی وجہ سے مستقبل تاریک لگا تو وہ مستقل طور پر ممبئی آ کے آباد ہوگیا۔ شہر کے دوسرے مصوروں کی طرح وہ بھی اپنی ذات سے بے پروا تھا۔ اس کا شیو ہمیشہ بڑھا رہتا تھا۔ اس کا لباس میلا اور شکن آلود ہوتا تھا۔ مناسب غذا نہ ملنے کے سبب اس کے گال پچک گئے تھے اور آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں، لیکن اس کے باوجود وہ دوسرے مصوروں کے برعکس ہمیشہ مسکراتا رہتا تھا۔ اسے دنیا میں صرف دو چیزوں سے دلچسپی تھی۔ مصوری اور شراب… چونکہ اس نے کبھی یک مشت ہزار پانچ سو سے زیادہ روپے کی شکل نہیں دیکھی تھی، اس لئے وہ گھٹیا شراب پیتا تھا جو شریمتی
کی گیلری کے پاس ملتی تھی۔
فطری مناظر میں انیل کو تین چیزوں سے بے پناہ عشق تھا۔ تالاب، پھولوں کی کیاری اور درختوں کے جھنڈ… البتہ ان مقامات میں تبدیلی ہوتی رہتی تھی۔ وہ شریمتی کے لئے فطری مناظر بنانے سے پہلے چوک میں کھڑے ہو کر سیاحوں کے پورٹریٹ بناتا تھا۔ اس کے بنائے ہوئے پورٹریٹ کیمرے سے کھینچے ہوئے نظر آتے تھے۔ اسے اس کام سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن کسی طور پیٹ تو بھرنا تھا۔
جب اسے پہلی بار شریمتی پوجا کے بارے میں علم ہوا کہ وہ ہر وقت نقد رقم کے عوض فطری مناظر کی پینٹنگز خریدنے پر تیار رہتی ہے تو اس نے ایسا محسوس کیا تھا جیسے یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی دریافت ہو۔ انیل کے بنائے ہوئے مناظر مقامی خریداروں اور غیر ملکی سیاحوں میں مقبول ہونے لگے۔ شریمتی یہ دیکھ کے حیران رہ گئی کہ جیسے ہی وہ انیل کی کوئی تصویر اپنی گیلری میں آراستہ کرتی تو وہ صرف چوبیس گھنٹے میں منہ مانگے دام پر بک جاتی تھی۔
شریمتی کے طے شدہ طریقے کی پہلی ضرب نے انیل کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی۔ اس نے ایک تصویر کی قیمت شریمتی پوجا کی لکھی ہوئی قیمت سے پچاس روپے زائد طلب کئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسے اپنی تصویر سمیت گیلری سے نکلنا پڑا۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے دہشت ناک تجربہ تھا۔ اندازے کی ایک ذرا سی غلطی کی اتنی بڑی سزا…؟ اس عبرت ناک سزا سے اس نے بہت سبق حاصل کیا۔ اس کے بعد اس نے اپنا اصول بنا لیا کہ وہ چھوٹی تصویروں کے پانچ سو روپے اور بڑی تصویروں کے ایک ہزار روپے طلب کرے گا۔ اس کا یہ فیصلہ بے حد کارگر ثابت ہوا اور شریمتی سے اس کے تعلقات انتہائی خوشگوار ہوگئے جس سے اس کا گزارہ ہونے لگا تھا۔
ایک مرتبہ شریمتی کے ایک کاروباری رقیب نے کسی طرح انیل کو اس امر پر آمادہ کر لیا کہ وہ کمیشن کی بنیاد پر اس کی گیلری میں اپنی تصویر رکھ دے۔ انیل نے اس کی پیشکش مان لی مگر اس کے بعد جب وہ اپنی دوسری تصویر شریمتی کے پاس لے کر گیا تو قہرآلود نگاہوں نے اس کا استقبال کیا۔ ’’دفع ہو جائو…‘‘ شریمتی نے انگلی سے باہر جانے کا راستہ دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’خبردار… جو تم نے یہاں قدم رکھا… میں تم سے کوئی کاروبار کرنا نہیں چاہتی۔‘‘
انیل معصوم اور سیدھا سادہ شخص تھا۔ وہ سمجھ نہ سکا کہ معاملہ کیا ہے؟ اس نے پلکیں جھپکا کے ایزل پر لگی اپنی تازہ تصویر کئی مرتبہ دیکھی۔ ’’لیکن شریمتی جی…!‘‘ انیل نے حیرت سے کہا۔ ’’ذرا تصویر توجہ سے دیکھئے…! کس قدر خوبصورت ہے… اس کے پھول تو دیکھئے… اس میں صرف رنگ بھرنے میں مجھے پورے تین دن لگے ہیں۔‘‘
’’تم نے میرا مان توڑا ہے۔‘‘ شریمتی نے افسوس اور برہمی سے کہا۔ ’’تم غدار ہو… یہ تصویر بھی سامنے والی گیلری میں لے جائو، وہی خریدے گا تمہارے یہ دو کوڑی کے پھول…‘‘
تھک ہار کے انیل کو شریمتی کے سامنے والی گیلری سے اپنی تصویر واپس لانی پڑی۔ اس نے شریمتی سے معافی مانگی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شریمتی نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے معاف کردیا۔
پھر ایک دن انیل کی خزاں رسیدہ زندگی میں نیتا بہار کے جھونکے کی طرح داخل ہوئی۔ وہ آسام کی رہنے والی تھی اور ایک آرٹ اسکول میں طلبا کے سامنے ماڈل بن کے کھڑی ہوتی تھی۔ جب بھی اسے وقت ملتا تو وہ رٹز بار میں آ جاتی۔ رٹز بار کے مستقل گاہک، ویٹرس، ویٹر اور منیجر اس سے واقف تھے۔ اس کے متعلق طرح طرح کی افواہیں گشت کرتی رہتی تھیں۔ نیتا کا چہرہ جاذب نظر تھا۔ چمکتی سیاہ آنکھیں، لمبے گھنے بال اور سانولی رنگت نے اسے بے مثال بنا دیا تھا۔ اسے آرٹ اسکول میں ماڈل کی حیثیت سے فوراً ملازمت مل گئی تھی۔ وہ مردوں سے بالکل نہیں ڈرتی تھی، بلکہ مردوں کو ڈرانے کا حوصلہ رکھتی تھی۔ بولڈ تھی۔ جب اس کی زبان قینچی کی طرح چلنی شروع ہوتی تو مردوں کے دل نہ صرف تیزی سے دھڑکنے شروع ہو جاتے بلکہ پسینے بھی چھوٹ جاتے کہ یہ زبان دراز لڑکی نہ جانے کب کیا کہہ جائے…؟ اس کا موڈ خراب دیکھ کے کوئی اس کے قریب نہ پھٹکتا تھا۔
نیتا کی فطرت کا دوسرا رخ یہ تھا کہ وہ فلم دیکھتے وقت غم ناک مناظر پر اکثر رونا اور سسکیاں لینا شروع کردیتی تھی۔ خاص کر ایسے المیہ مناظر سے وہ بہت متاثر ہوتی جس میں محبت کرنے والے ایک دوسرے سے جدا ہو رہے ہوتے یا معصوم بچوں پر ظلم ہو رہا ہوتا۔ جب بھی کوئی بلی کا بچہ لاوارث نظر آتا تو نیتا اسے گود میں اٹھا کے اپنے فلیٹ میں لے آتی اور بچہ اس وقت تک کمرے میں رہتا جب تک اس سلسلے میں مکان کی مالکہ سے اس کی کئی زبردست جھڑپیں نہ ہو جاتیں۔ مکان مالکہ سرد مزاج کی غیر جذباتی عورت تھی۔
ایک روز رٹز بار کے مستقل گاہوں نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا۔ موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ انیل پانی میں شرابور بار میں داخل ہوا۔ انیل کا لباس اس کے جسم سے چپکا ہوا تھا اور بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ وہ سردی سے کانپ رہا تھا۔ بالکل کسی یتیم اور بے سہارا بلی کے بچے کی طرح… نیتا اپنی میز پر تنہا بیٹھی کافی پی رہی تھی۔ انیل جتنی دیر تک بار کے دروازے پر کھڑا اپنے سر سے پانی جھٹکتا رہا۔ نیتا اوپر سے نیچے تک بغور اس کا جائزہ لیتی رہی۔ پھر اس نے انگلی اٹھائی… ’’اے مسٹر…! ادھر آئو…‘‘
رٹز بار کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ نیتا نے کسی کو اپنی میز پر آنے کی دعوت دی تھی۔ انیل نے احمقانہ انداز میں سر گھما کے اپنے پیچھے دیکھا کہ نیتا آخر کس خوش نصیب کو دعوت دے رہی ہے…؟ اسے اپنی پشت پر کوئی نظر نہ آیا تب اسے شبہ ہوا کہ وہ شاید اسے بلا رہی ہے۔ ’’میں…؟‘‘ انیل نے انگوٹھے سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں… تم احمق…! یہاں آئو… میرے پاس…‘‘
انیل نیتا کی میز پر بیٹھ گیا۔ نیتا نے اس کے لئے عمدہ قسم کی شراب منگوائی اور اپنے ہاتھوں سے اس کے لئے جام بنایا۔ پھر بار مین سے تولیہ مانگ کے لائی اور بڑی اپنائیت سے انیل کے بال خشک کرنے لگی۔ انیل سعادت مندی سے سر جھکائے بیٹھا رہا۔
’’تم بالکل گدھے ہو…؟‘‘ نیتا نے اسے اطلاع دی۔ ’’تمہیں اتنی عقل بھی نہیں ہے کہ بارش کے دوران برساتی پہن کے نکلتے ہیں تاکہ ڈبل نمونیے سے موت نہ واقع ہو جائے؟‘‘
’’برساتی…؟‘‘ انیل نے احمقانہ انداز سے کہا۔
’’ہاں… ہاں… برساتی… کیا تم نے کبھی برساتی نہیں دیکھی جو بارش سے جسم کو محفوظ رکھتی ہے۔‘‘
’’اوہ…‘‘ انیل نے معذرتی انداز میں کہا۔ ’’میرے پاس نہیں ہے۔‘‘
بار میں موجود ہر شخص نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے یہ منظر دیکھا۔
نیتا محبت سے انیل کا گال تھپتھپا رہی تھی۔ ’’کوئی بات نہیں بچے…‘‘ وہ کہہ رہی تھی۔ ’’گزشتہ ہفتے کوئی احمق میرے کمرے میں برساتی بھول گیا تھا، تم میرے ساتھ میرے فلیٹ چلو… میں تمہیں وہ برساتی دے دوں گی۔‘‘
جہاں دیدہ لوگوں نے فوراً بھانپ لیا کہ نیتا اس گائودی اور مفلوک الحال مصور کی محبت میں بری طرح گرفتار ہوگئی ہے۔
دوسرے روز جب وہ رٹز بار میں داخل ہوئی تو یکسر بدلی ہوئی تھی۔ صاف ستھرے دھلے ہوئے کپڑے، چہرے پر ہلکا اور نفیس میک اپ… اس نے بالوں کا جوڑا بڑے سلیقے سے بنا رکھا تھا۔ وہ اب باقاعدگی سے نہانے لگی تھی اور اکثر و بیشتر سینٹ بھی استعمال کرنے لگی تھی۔
جہاں تک انیل کا تعلق تھا نیتا کی بزرگانہ محبت نے اسے مزید کاہل بنا دیا تھا۔ نیتا نے اس سے سول میرج کر کے اپنے فلیٹ میں مقیم کرلیا تھا… اس کے لئے نئے کپڑے خریدے… تصویریں بنانے کے لئے بہت سے رنگ اور دیگر اشیاء لے آئی اور اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا پکا کر کھلانے لگی۔ اب انیل کا لباس صاف ستھرا اور استری شدہ ہوتا تھا۔ نیتا نے رٹز بار کے بارمین کو تنبیہ کی ہوئی تھی کہ آئندہ اس نے انیل کو گھٹیا شراب پینے کے لئے دی تو وہ اس کا گلا کاٹ دے گی۔ اس نے رٹز بار میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان کیا کہ اگر کسی نے انیل کے سامنے اس کی محبت کا مذاق اڑانے کی کوشش کی تو وہ شخص ہمیشہ اس لمحے کو یاد کرے گا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ اس اعلان کا یہ نتیجہ نکلا کہ کسی نے نیتا کی محبت کا مذاق اڑانے کی جسارت نہیں کی۔ البتہ شریمتی پوجا کا ردعمل مختلف تھا۔
شریمتی کو صرف ایسی تصویروں سے ہی نفرت نہیں تھی جس میں عورتوں کو بے لباس دکھایا جاتا تھا بلکہ وہ ان بے حیا اور بے حجاب عورتوں سے بھی سخت نفرت کرتی تھی جو مصوروں کے لئے ماڈل کا کام کرتی تھیں۔ اس کی دانست میں ایسی عورتیں نسائیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ تھیں۔ شریمتی کو اس بات پر بڑی کوفت ہوتی تھی کہ اسے روزانہ اس سڑک پر قدم رکھنا پڑتا ہے جہاں سے ماڈل لڑکیاں گزرتی تھیں، لہٰذا جب ایک ماڈل لڑکی نے سب سے زیادہ منافع بخش مصور پر قبضہ جما لیا تو اس کے غصے کی انتہا نہ رہی۔
شریمتی کو اس واقعے کا اس وقت علم ہوا جب ایک روز انیل اس کی گیلری میں اپنی نئی تصویر لے کر پہنچا۔ وہ اسے پہلی نظر میں پہچان نہ سکی۔ اس کا لباس صاف ستھرا تھا، جوتے پالش کی وجہ سے چمک رہے تھے۔
شریمتی نے غالباً پہلی بار انیل کا چہرہ صاف ستھرا اور شفاف دیکھا۔ پہلے انیل کا شیو بڑھا ہوا ہوتا تھا۔ اُس نے غور سے اس کے گال دیکھے جو اب پچکے ہوئے نہیں تھے۔ شریمتی کی نظروں کے سامنے ایک ایسا نوجوان کھڑا تھا جو مصور تھا اور ہر وقت اپنے فن میں ڈوبا رہتا تھا مگر اب وہ صاف ستھرا اور موٹا تازہ شخص نظر آرہا تھا۔ جیسے اسے قربانی کے لئے تیار کیا جا رہا ہو۔ وہ جیسے مصور نہ ہو، بکرا ہو۔
انیل کا حلیہ دیکھتے ہی شریمتی کو یقین ہوگیا کہ اس کی تباہی میں کس کا ہاتھ ہے۔ اسے اندازہ کرتے دیر نہ لگی کہ اس سادہ لوح مصور پر نیتا پورا تسلط جمانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اگر حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو اس ڈائن نے اس سیدھے سادے آدمی کو اس کے خلاف ضرور بھرا ہوگا اور اس سے مطالبہ کیا ہوگا کہ وہ آئندہ اپنی تصویروں کی قیمت زیادہ طلب کرے۔
شریمتی پوجا نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس چھوکری سے اتنی آسانی کے ساتھ شکست تسلیم نہیں کرے گی بلکہ اس کے دانت کھٹے کردے گی۔ کیوں کہ اس موقع پر ذرا سی ڈھیل دی تو انیل آئندہ زیادہ رقم طلب کرے گا بلکہ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے مصور بھی قیمتیں بڑھا دیں گے۔ وہ اس طرح کسی کو اپنا کاروبار تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔
شریمتی نے انیل کی تصویر پر ایک سرسری سی نظر ڈالی۔ انیل ستائش بھری نظروں سے اپنی تصویر کو دیکھ رہا
شریمتی نے کاغذ کے پرزے پر پنسل سے پانچ سو روپے لکھے اور انیل سے کہا۔ ’’جلدی بتائو اپنی قیمت…؟‘‘ پھر اس نے لہجہ درشت کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں بہت مصروف ہوں، مجھے کئی کام کرنے ہیں؟‘‘
یہ حقیقت تھی کہ نیتا نے انیل میں خوب اچھی طرح ہوا بھر دی تھی۔ جب وہ اپنی تصویر اخبار میں لپیٹ کے اس کے پاس لے جانے کے لئے گھر سے نکل رہا تھا تو نیتا نے اسے ایک بار یاددہانی کرائی تھی کہ وہ شریمتی پوجا سے پورے ایک ہزار روپے طلب کرے۔
’’احمق…!‘‘ نیتا نے بڑی نرمی سے کہا تھا۔ اس کے لہجے میں خلوص اور محبت تھی۔ ’’تم نے اس تصویر پر پورے سات دن عرق ریزی کی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اس قسم کی تصویر کم سے کم ہزار اور زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ تم اس چڑیل سے پوری قیمت کیوں نہیں وصول کرتے…؟ آخر تم اس سے کیوں ڈرتے ہو…؟ اس طرح تو وہ ایک دن تمہاری رگوں سے سارا لہو نچوڑ لے گی۔ اگر آج وہ تمہیں اس تصویر کی قیمت محض پانچ سو روپے دینے کی کوشش کرے تو اس کے منہ پر تھوک کے آ جانا… سمجھے؟‘‘
’’یقینا…!‘‘ انیل نے سینہ تان کر کہا۔ ’’آج میں اس سے پورے ایک ہزار روپے قیمت وصول کروں گا۔‘‘
اب وہ شریمتی کے سامنے بیٹھا تھا۔ شریمتی کی تیز و تند نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ اس نے اپنی رگوں میں لہو منجمد ہوتا ہوا محسوس کیا۔ اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا اور پھر بند کر لیا۔ ہمت کر کے دوبارہ منہ کھولا اور پھر کہنے کا حوصلہ نہ ہوا تو بند کرلیا۔
’’بولو… جواب دو۔‘‘ شریمتی پوجا کے سرد تحکمانہ لہجے نے انیل کے جسم میں سنسنی دوڑا دی۔
’’کیا… کیا پانچ سو روپے مناسب رہیں گے…؟‘‘ انیل کے حلق سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔
’’ہاں… مل جائیں گے۔‘‘ شریمتی نے فاتحانہ انداز میں جواب دیا۔
نیتا جیسی ناتجربہ کار چھوکری پر یہ شریمتی پوجا کی پہلی فتح تھی۔
اسے معلوم تھا کہ جب انیل واپس گھر جائے گا اور نیتا کو اپنی بزدلی کی کہانی سنائے گا تو وہ اسے خوب کوسے گی۔ لعن طعن کرے گی اور جی بھر کے برا بھلا کہے گی… شریمتی نے دل میں خوشی سے سوچا۔ میری بلا سے…؟ آج کے تجربے نے ثابت کردیا تھا کہ وہ جس وقت چاہے۔ انیل کے سر سے محبت کا بھوت اتار سکتی ہے۔
انیل اب بھی شریمتی کے سامنے آ کر لرزنے لگتا تھا، البتہ جب وہ اس کے سامنے نہیں ہوتا تھا، اس وقت اس پر نیتا کی محبت کا نشہ طاری ہو جاتا تھا۔ اس فتح کے بعد بھی شریمتی کو نیتا پر بے شمار فتوحات حاصل ہوئیں اور یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا تھا لیکن ایک فتح بڑی ناقابل فراموش تھی، اس کا علم شریمتی کو بھی نہ ہوسکا کیونکہ اس وقت وہ اپنی سب سے بڑی فتح سے محظوظ ہونے کے لئے نیتا کے فلیٹ میں موجود نہیں تھی۔
انیل کی بزدلی ثابت ہو جانے پر ایک روز نیتا نے اعلان کیا… ’’اب میں نئی تصویر فروخت کرنے کے لئے تمہارے ساتھ شریمتی کی گیلری میں جائوں گی۔ کیونکہ تم اُس جیسی منافع خور ڈائن کے سامنے جا کر چوہے سے زیادہ بزدل بن جاتے ہو اور کبھی ہمت کر کے زیادہ رقم طلب نہیں کرتے۔ اب شریمتی سے تمہاری تصویر کا سودا میں کروں گی۔ میں اس کمینی سے بالکل نہیں ڈرتی۔ میں اس سے بھی بڑی چڑیلوں کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتی ہوں۔‘‘
انیل کچھ دیر تک اسے متوحش نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر خاموشی سے مصوری کا سامان سمیٹنے لگا۔
’’یہ تم کیا کرنے لگے احمق…!‘‘
’’میں جا رہا ہوں۔‘‘ انیل نے باوقار لہجے میں جواب دیا۔
نیتا چونک گئی۔ اس نے فوراً خطرے کی بو سونگھ لی۔
’’یہ بالکل غلط ہے۔‘‘ انیل کہہ رہا تھا۔ ’’پتنی کو اپنے پتی کے کاروباری معاملات میں بھولے سے بھی دخل دینا نہیں چاہئے۔‘‘
’’بیوی…؟ کس کی بیوی…؟ یہ کیا کہہ رہے ہو احمق… بس ایک رسمی سی سول میرج ہوئی ہے۔ وہ شادی نہیں جس کی رسومات پنڈت کے سامنے ہوتی ہیں… سات پھیرے لگائے جاتے ہیں۔‘‘
’’گویا تم اسے شادی نہیں کہتی ہو؟‘‘
’’نہیں…‘‘ نیتا ہنستے ہوئے بولی۔
’’کوئی بات نہیں۔ میں نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘ انیل اس انکشاف پر کچھ الجھ سا گیا تھا۔ ’’میں اپنی تصویروں کا مالک ہوں۔ میں خود فروخت کروں گا۔ میں اس معاملے میں کسی کی دخل اندازی پسند نہیں کرتا۔‘‘
انیل کا یہ انتہا پسندانہ فیصلہ بدلوانے کے لئے نیتا کو بہت سارے آنسو بہانے پڑے اور عمدہ شراب کی دو بوتلیں لانی پڑیں۔ اس کے بعد اس نے کبھی اس غلطی کا اعادہ نہیں کیا۔ انیل کے غیرمعمولی ردعمل نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔ وہ سمجھ گئی کہ اس طرح کی کوشش فضول ہوگی۔ کیونکہ انیل کو فطری مناظر کی تصویر کشی کا جنون ہے اور اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ شریمتی پوجا اس کی تصویریں خریدنے پر آمادہ رہتی ہے اور اسے فوراً ہی نقد رقم ادا کر دیتی ہے۔ اس لئے وہ اس کا غلام بن کے رہ گیا ہے… وہ اس سے نظریں ملا کے بات کرنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔
پہلے نیتا کو شریمتی سے صرف چڑ تھی۔ اس پر محض غصہ آتا تھا، لیکن اب وہ اس سے شدید نفرت کرنے لگی تھی۔ وہ اس بڑھیا سے انتقام لینے کے منصوبے بنانے لگی۔ ایسا انتقام جو اس چڑیل کا دماغ درست کردے اور آئندہ وہ کسی غریب مصور کی بے بسی اور مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ اس چڑیل نے لوٹ کھسوٹ کی انتہا کردی تھی۔
نیتا رات کو بستر پر دراز ہوتی تو اس کا ذہن انتقام کے منصوبے بنانا شروع کردیتا۔ اسے رہ رہ کر دہکتی ہوئی سلاخوں کا خیال آتا اور جب وہ صبح بیدار ہوتی تو اس کے منصوبے لڑی میں پروئے ہوئے موتیوں کی طرح بکھر جاتے۔ پھر قسمت نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ انیل کو یہ اطلاع سب سے آخر میں ملی اسے بڑی حیرت ہوئی۔
’’اچھا تو تم ماں بننے والی ہو…؟‘‘ انیل نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں… صرف میں ہی ماں بننے والی نہیں ہوں بلکہ تم بھی باپ بننے والے ہو؟‘‘ نیتا نے تصحیح کرتے ہوئے اسے سمجھایا۔ ’’ہم دونوں ایک کشتی کے سوار ہیں… کیا سمجھے…؟‘‘
’’سمجھ گیا…‘‘ انیل نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ہم دونوں ماں باپ بننے والے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک سمجھے… اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہماری زندگی میں بہت ساری تبدیلیاں آئیں گی۔ کیا تم پسند کرو گے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ انیل نے اثباتی انداز میں سر ہلایا۔
’’اب تمہیں اپنی تلون مزاجی اور دوسری حرکتیں چھوڑنی پڑیں گی۔ تمہیں ایک بہترین باپ بننا ہے… میں بھی تمہیں ایک بہت اچھی ماں بن کے دکھائوں گی۔ بچے کی پرورش کے لئے ایک چھوٹا سا خوبصورت مکان ہونا چاہئے۔ اب ہم ممبئی شہر چھوڑ دیں گے۔ ہم بنگلور چلے جائیں گے۔ بنگلور بڑا خوبصورت اور آب و ہوا کے لحاظ سے بہت اچھا شہر ہے۔ بنگلور میں میرے چچا اور چچی برسوں سے وہاں بسے ہوئے ہیں، وہ ایک چھوٹے سے ہوٹل کے مالک ہیں۔ وہ مجھے وہاں بلاتے رہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ میں ان کا ہوٹل سنبھال لوں۔ اگر میں اس پر تیار ہو جائوں تو ان کی موت کے بعد وہ میری ملکیت ہو جائے گا۔ ان کی اولاد نہیں ہے۔ میں ہوٹل چلائوں گی اور تم تصویریں بنانا۔‘‘
انیل بڑے غور سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ کہنے لگا۔ ’’میں اپنی تصویریں وہاں بیچوں گا کیسے…؟‘‘
’’یہ تو بڑی آسان سی بات ہے… تم شریمتی کو ڈاک کے ذریعے تصویریں بھیج دیا کرنا… کیا تمہارے خیال میں وہ ایسی عمدہ اور سستی تصویریں اس لئے خریدنے سے انکار کرے گی کہ ڈاک سے آئی ہیں؟‘‘
انیل کو یہ خیال کچھ پسند نہیں آیا۔ اس نے تذبذب سے کہا۔ ’’میں شریمتی سے بات کروں گا۔‘‘
’’نہیں… نہیں… اس سے تم نہیں میں بات کروں گی، چاہے تم پسند کرو یا نہیں…؟‘‘ نیتا نے بالآخر خطرہ مول لے ہی لیا۔ ’’اس کے علاوہ مجھے اس چڑیل سے بھی ایک کام ہے۔‘‘
’’کیسا کام…؟‘‘
’’مجھے اس سے پیسے حاصل کرنے ہیں… اس نے تمہاری تصویریں کوڑیوں کے مول خرید کے موتیوں کے بھائو بیچی ہیں اور بڑی دولت جمع کر لی ہے۔ مجھے اس کی ملازمہ نے بتایا تھا کہ تمہاری کوئی تصویر غیرملکی سیاحوں کے ہاتھوں بیس پچیس ہزار سے کم قیمت پر نہیں بیچی۔ مجھے اس سے وہ دولت مع سود نکلوانی ہے کیونکہ اب ہمیں بہت سارے پیسوں کی ضرورت پڑے گی… یہاں سے بنگلور تک ہوائی جہاز کا کرایہ درکار ہے۔ ٹرین اور بس کا تکلیف دہ سفر مجھے پسند نہیں، اس لئے کہ میں امید سے ہوں اور دو چرمی بڑے سوٹ کیس خریدنے ہیں۔ ایک چھوٹا سا فلیٹ لینا ہے جس میں ہم دونوں سکون و اطمینان سے رہیں۔ اس کے علاوہ کچھ رقم زچگی اور کسی مشکل وقت کے لئے بینک میں رکھنا ہوگی۔ بیماری اور دوسرے مصائب انسان کے ساتھ لگے رہتے ہیں لہٰذا آڑے وقتوں کے لئے بھی کچھ نہ کچھ رقم ضرور ہونی چاہئے تاکہ جب ضرورت پڑے ہم اپنے لڑکے کو اسکول کی یونی فارم، کتابیں اور جوتے دلا سکیں۔‘‘
’’لڑکا…؟‘‘
’’لڑکی بھی ہوسکتی ہے لیکن لڑکیاں بہت مہنگی ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی شادی پر لاکھوں خرچ آتا ہے۔‘‘
’’ہاں…‘‘


زندگی میں پہلی بار انیل نے کسی مسئلے پر اپنی حتمی رائے کا اظہار کیا۔ ’’تم پاگل ہوگئی ہو۔‘‘
’’کیا کہا…؟ میں پاگل ہوں؟‘‘ نیتا نے ہذیانی لہجے میں چیخ کے کہا۔ ’’تم جیسے بڑے عقل مند ہونا…؟ بس یہ کام تم مجھ پر چھوڑ دو، میں ہر قیمت پر اس ناگن سے رقم وصول کرکے دکھائوں گی، مگر کان کھول کر سن لو۔ اگر تم نے میرے کام میں ٹانگ اڑائی تو میں تمہیں یہ کہہ کر پولیس کے حوالے کردوں گی کہ تم نے مجھے شادی کے بغیر ماں بنا دیا ہے۔ سول میرج کے کاغذات تلف کردوں گی۔ تمہارے پاس کیا ثبوت ہوگا۔ تم مجھے ایک برس سے بلیک میل کر رہے ہو، میری نامناسب تصویریں بنا کے… جانتے ہو اس بلیک میلنگ کا نتیجہ کیا ہوگا…؟ تمہیں بیس برسوں کے لئے جیل بھیج دیا جائے گا۔ تمہیں اس بات کا علم تو ہوگا کہ جیل میں کسی کو تصویریں بنانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بس آدمی اکڑوں بیٹھے بیٹھے سڑتا رہتا ہے اور بوڑھا ہو جاتا ہے… کیا سمجھے…؟‘‘
بیس برس تک ایک بھی تصویر نہ بنانے کا خیال انیل کے لئے سخت دہشت ناک اور اذیت ناک تھا۔
’’سمجھ گیا…‘‘ اس نے کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح مردہ لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے… برش اٹھا کے ذرا ایک تصویر بنانی شروع کرو، لیکن خیال رکھنا کہ یہ تصویر میری مرضی سے بنے گی۔‘‘
ایک ہفتے کے بعد نیتا اخبار میں لپٹی ہوئی ایک بڑی سی تصویر لئے شریمتی کی گیلری میں داخل ہوئی۔ ملازمہ نے اسے شریمتی کے دفتر
جانے سے روکنا چاہا لیکن نیتا نے اسے دھکا دے کر ایک طرف ہٹا دیا۔ شریمتی اس وقت اپنے دفتر کے مختصر سے کمرے میں بیٹھی کاغذات دیکھ رہی تھی۔ وہ اس وقت کسی سے نہیں ملتی تھی، اس لئے ملازمہ اسے اندر جانے دینا نہیں چاہتی تھی۔
جیسے ہی اس نے نیتا کو دیکھا اور اس کے ہاتھ میں لپٹی ہوئی تصویر پر اس کی نظر پڑی تو وہ سمجھ گئی کہ یہ تصویر انیل کی ہے لیکن فروخت کرنے نیتا آئی ہے۔ شریمتی کا چہرہ غصے سے تمتمانے لگا۔ اس نے دروازے کی طرف تحکمانہ انداز میں اشارہ کر کے کہا۔ ’’باہر نکل جائو… میں تم جیسی عورتوں سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتی ہوں۔‘‘
نیتا نے جواباً دروازے پر پوری قوت سے لات ماری۔ دروازہ ایک زبردست دھماکے کے ساتھ بند ہوگیا۔ اس نے تصویر ایزل پر لگائی اور اس پر لپٹا ہوا کاغذ ہٹانے لگی۔ ’’ذرا پہلے تصویر دیکھ لیجئے… مجھے یقین ہے کہ آپ یہ شاہکار ضرور خریدنا پسند کریں گی… شریمتی جی… یہ انیل کی زندگی کا بہترین شاہکار ہے۔‘‘ پھر نیتا نے ایک جھٹکے سے کاغذ علیحدہ کردیا۔
تصویر پر نظر پڑھتے ہی شریمتی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں۔
یہ لمبائی چوڑائی کے لحاظ سے انیل کی سب سے بڑی تصویر تھی لیکن انیل کے مزاج کے برعکس تھی۔ اس میں کسی فطری منظر کی عکاسی نہیں کی گئی تھی۔ یہ ایک بے لباس عورت کی تصویر تھی۔ تصویر پر نظر پڑتے ہی شریمتی کو احساس ہوگیا کہ گردن سے نیچے کا بدن نیتا کا تھا لیکن چہرہ شریمتی کا تھا… شریمتی پوجا کا…
’’ہے نا شاہکار…؟‘‘ نیتا نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
شریمتی نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ پہلے تو اس کے حلق سے آواز نہیں نکلی مگر چند لمحوں کے بعد اس نے پوری قوت سے گلا پھاڑ کر کہا۔ ’’کمینی… چڑیل…! میں تجھے اور انیل کو جیل میں سڑا دوں گی۔‘‘ اُس نے نشست سے کھڑے ہو کر تصویر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
’’خبردار…!‘‘ نیتا کے ہاتھ میں اچانک ایک خوفناک چاقو نہ جانے کہاں سے نمودار ہوا۔ ’’اگر تو نے اسے خریدنے سے پہلے چھوا بھی تیری ناک کاٹ دوں گی۔‘‘
شریمتی گھبرا کے پیچھے ہٹی اور دوبارہ کرسی پر گر گئی۔ ’’میں اسے خریدوں گی؟‘‘ شریمتی کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ ’’ایسی گھٹیا اور لچر تصویر میں خریدوں گی…؟‘‘
’’ہاں…‘‘ نیتا نے پراعتماد لہجے میں کہا۔ ’’کیونکہ اگر تم نہیں خریدو گی تو میں یہ تصویر سامنے والی گیلری میں رکھ دوں گی، جس کا مالک رنجیت سنگھ ہے۔ وہ کمیشن پر تصویر فروخت کرتا ہے۔ وہ یہ تصویر دیکھ کر اس قدر خوش ہوگا کہ اسے اندر نہیں بلکہ باہر شو کیس میں سجائے گا، تاکہ سڑک پر چلنے والا ہر راہ گیر دیکھے۔ کچھ دنوں میں ممبئی کے بچے بچے کی زبان پر انیل کی اس شاہکار تصویر کا ذکر ہوگا اور وہ سیاح جنہیں تم دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہو وہ بھی یہ تصویر دیکھیں گے۔ میں رنجیت سنگھ سے کہہ دوں گی وہ ایک برس تک یہ تصویر فروخت نہ کرے۔ دور دور سے اس کے پاس گاہک آئیں گے اس کا کاروبار چمک جائے گا… خون چوسنے والی ڈائن…! تو کوئی آخری فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے۔ میں جلدی میں نہیں ہوں۔ میں پانچ دس منٹ انتظار کرسکتی ہوں۔‘‘
شریمتی بہت دیر تک خیالوں میں ڈوبی رہی۔ ’’یہ تو بلیک میلنگ ہے… صاف بلیک میلنگ…‘‘ شریمتی نے تلخ لہجے میں کہا۔ ’’تم مجھ سے انتقام لے رہی ہو؟‘‘
’’واہ…! سمجھدار ہو۔‘‘ نیتا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اگر… اگر میں یہ تصویر خرید لوں؟‘‘ شریمتی نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’کیا مجھے اس بات کی اجازت ہوگی کہ میں اسے پھاڑ دوں؟‘‘
’’کیوں نہیں… لیکن پہلے تمہیں اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی؟‘‘
’’کیا قیمت ہے اس کی…؟‘‘
نیتا نے پرس کھول کر اندر سے تہ کئے ہوئے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا اور اسے شریمتی کی نظروں کے سامنے لہرایا۔
’’تصویر کی قیمت اس کاغذ پر لکھی ہوئی ہے۔ مگر میں تمہیں یہ کاغذ دیکھنے کی اجازت نہیں دوں گی۔ تمہیں خود تصویر کی بولی لگانی ہوگی۔ اگر تم نے کاغذ میں لکھی ہوئی رقم سے ایک روپیہ بھی کم قیمت لگائی تو پھر یہ تصویر سڑک کے دوسری طرف شو کیس میں لگی ہوئی نظر آئے گی۔ قیمت لگانے کا اصول خود تمہارا ایجاد کردہ ہے۔ اگر تم نے ذرا بھی کنجوسی دکھائی تو یہ اچھی طرح سے سمجھ لو کہ تم خود بھگتو گی۔‘‘
شریمتی حواس باختہ ہوگئی۔ ’’لیکن مجھے یہ کس طرح اندازہ ہوگا کہ تم مجھے کتنا لوٹنا چاہتی ہو؟‘‘ اس نے بے بسی سے کہا۔
’’میں تمہارا احتجاج تسلیم کرتی ہوں۔‘‘ نیتا نے فراخ دلی سے کہا۔ ’’میں بہت نرم دل کی مالک ہوں اس لئے تمہیں صحیح قیمت لگانے کا ایک موقع ضرور دوں گی۔ میں اور انیل یہاں سے بنگلور بذریعہ ہوائی جہاز جائیں گے۔ ظاہر ہے اس مقصد کے لئے ہمیں کرائے کی ضرورت ہوگی اور کچھ ملبوسات اور دو بڑے سوٹ کیس بھی خریدنے ہیں تاکہ لباس حفاظت سے رکھے جا سکیں۔ اس کے بعد ہم بنگلور پہنچ کے ایک چھوٹا مگر ہوا دار اور کشادہ فلیٹ خریدیں گے۔‘‘
’’فلیٹ…!‘‘ شریمتی نے چلا کے کہا۔
نیتا بولی۔ ’’ہاں دو کمروں کا چھوٹا سا فلیٹ… لگژری نہیں… سہولتوں سے آراستہ… پانی، بجلی اور گیس… اور پھر ایک موٹر سائیکل جس پر بیٹھ کر ہم سیر و تفریح کرسکیں۔‘‘
’’موٹر سائیکل بھی…؟‘‘ شریمتی کے حلق میں آواز اٹک گئی۔ وہ اختلاج قلب کی مریضہ دکھائی دینے لگی۔ پھر جیسے ہی اس کی نظریں دوبارہ اپنی تصویر پر پڑیں جس میں وہ بے نیام تلوار دکھائی دیتی تھی، وہ چونک کے ہوش میں آگئی۔ ’’اوہ بھگوان…! آخر مجھ سے ایسا کیا گناہ سرزد ہوا جس کی اتنی کڑی سزا مل رہی ہے؟‘‘
’’اس کے علاوہ…‘‘ نیتا نے اپنا آخری مطالبہ پیش کیا۔ ’’کچھ رقم اور بھی ہمارے پاس ہونی چاہئے جو ہم آڑے وقتوں کے لئے بینک میں جمع کرا سکیں۔ میں نے سنا ہے کہ تم بہت ذہین کاروباری عورت ہو اور تمہارے سر میں شیطان کا بھیجہ ہے۔ اب تم جلدی سے ان تمام اخراجات کا تخمینہ لگا لو لیکن…‘‘ نیتا نے کاغذ کا پرزہ پھر ایک مرتبہ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ ’’تمہارا حساب اس کاغذ کے مطابق ہونا چاہئے۔ تمہیں تصویر کی بولی لگانے کا دوسرا موقع نہیں ملے گا۔‘‘
شریمتی کا خون رگوں میں ابلنے لگا۔ بے اختیار اس کی نظریں ایزل پر لگی ہوئی تصویر کی طرف اٹھ گئیں۔ تصویر پر نظر پڑتے ہی اسے ایک جھٹکا سا لگا۔ وہ جلدی جلدی نیتا کے بتائے ہوئے اخراجات کا تخمینہ لگانے لگی۔ تخمینہ لگانا آسان نہ تھا۔ اس نے سوچا کہ سیدھے سیدھے اسے سات لاکھ دے دیتی ہوں۔
سات لاکھ…؟ شریمتی کو ایسا محسوس ہوا جیسے اسے برف میں زندہ دفن کیا جا رہا ہو اور چاروں طرف یخ بستہ ہوائیں چنگھاڑتی پھر رہی ہوں۔
’’بہت دیر ہوگئی ہے شریمتی جی…! جلدی کرو مجھے اور بھی کام ہیں۔‘‘ نیتا نے لہجے میں درشستگی پیدا کرتے ہوئے کہا۔
’’سات لاکھ روپے…‘‘ شریمتی نے کہا۔
’’کیا کہا…؟ سات لاکھ روپے…؟‘‘ نیتا غرائی۔ اس کی آنکھوں سے شعلے لپک رہے تھے۔ وہ ایک جھٹکے کے ساتھ تصویر ایزل سے اتار کے اخبار میں لپیٹنے لگی۔ شریمتی نے چشم تصور میں سامنے والی گیلری کے شوکیس پر ایک بہت بڑا ہجوم جھکا ہوا دیکھا۔ پھر یہ ہجوم اپنی گیلری کے باہر نظر آیا۔ لوگ ایک دوسرے کو کہنیاں مار مار کے اس کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اگر ایک مرتبہ بھی یہ تصویر سامنے والی گیلری میں لگ گئی تو وہ آئندہ گھر سے باہر قدم نکال نہیں سکے گی۔ یہ سارے خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں کوند گئے۔
’’نہیں… نہیں… ٹھہرو۔‘‘ شریمتی نے چلا کے کہا۔ ’’نہ جانے میری زبان کیسے پھسل گئی۔ مجھے معاف کردو، میں نے اصل میں دس لاکھ کہا تھا۔‘‘
’’کیا تم نے واقعی دس لاکھ کہا تھا؟‘‘
’’میں بھگوان کی سوگند کھاتی ہوں، غلطی سے میرے منہ سے سات لاکھ نکل گیا تھا۔ بھگوان کے لئے دس لاکھ روپے لے لو۔ اچھی لڑکی میرا دل نہ توڑو۔‘‘
نیتا نے کاغذ کا ٹکڑا کھول کے اس پر ایک نظر ڈالی اور اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے کسی سوچ میں ڈوب گئی۔
’’چلو… میں تم پر رحم کھاتے ہوئے یہ رقم قبول کئے لیتی ہوں لیکن مجھے دس لاکھ اسی وقت درکار ہیں۔‘‘
’’اتنی بڑی رقم تو میرے پاس یہاں نہیں ہے، البتہ اپنی ملازمہ کے ذریعے بینک سے منگوا لیتی ہوں۔ اطمینان سے بیٹھ جائو، زیادہ دیر نہیں لگے گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے لیکن میں چاہتی ہوں کہ اس سلسلے میں کوئی قانونی سقم نہ رہ جائے۔ تم اس وقت تک ایک دستاویز تیار کرو کہ تم نے یہ تصویر دس لاکھ کے عوض خریدی ہے۔ ہم دونوں اس دستاویز پر دستخط کریں گے۔ اس کی ایک نقل میرے پاس رہے گی۔‘‘
’’ضرور… ضرور…‘‘ شریمتی پوجا نے جلدی سے کہا۔ ’’جتنی دیر میں میری ملازمہ چیک بنا لائے گی میں دستاویز تیار کرلوں گی۔‘‘
توقع سے پہلے ہی ملازمہ بینک سے رقم لے آئی جو ایک لفافے میں بند تھی۔ شریمتی نے وہ لفافہ نیتا کے حوالے کیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے اور نیتا کو نئے بڑے نوٹ گنتے دیکھ کے آنسو باقاعدہ اُس کے رخساروں پر بہنے لگے۔
رقم گن کے نیتا نے مطمئن انداز میں سر ہلایا اور لفافہ اپنے پرس میں ڈال لیا۔ پھر اس نے کاغذ کا ٹکڑا توڑ مروڑ کے فرش پر پھینک دیا اور فاتحانہ انداز سے چلتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ شریمتی حسرت بھری نظروں سے دیکھتی رہی۔ جیسے ہی نیتا نظروں سے اوجھل ہوئی اس نے لپک کے مڑا تڑا کاغذ فرش سے اٹھا لیا اور کانپتی انگلیوں سے اسے کھولنے لگی۔ جب اس کی نظریں کاغذ پر لکھی ہوئی رقم پر پڑیں تو اس کی آنکھیں حلقوں سے باہر نکلنے لگیں۔ چند لمحوں کے بعد شریمتی پوجا ایک زوردار چیخ مار کے بے ہوش ہوگئی۔
شریمتی پوجا کی ملازمہ اپنی مالکہ کی دہشت ناک چیخ سن کے خوف زدہ ہوگئی۔ وہ دوڑتی ہوئی اندر داخل ہوئی اور اُس کا سر اپنے زانو پر رکھ کے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی۔ شریمتی پوجا کے دانت سختی سے بھنچے ہوئے تھے۔ اس کی بند مٹھی میں کاغذ کا ایک ٹکڑا دبا ہوا تھا۔ بے چاری ملازمہ اپنی مالکہ کو ہوش میں نہیں لا سکی۔ اس نے قریبی ڈاکٹر کو مدد کے لئے بلانے کا فیصلہ کیا اور احتیاط سے شریمتی پوجا کا سر فرش پر رکھ کے کھڑی ہوگئی۔ اچانک اس کی نظر ایک مرتبہ پھر مٹھی میں دبے ہوئے کاغذ پر پڑی۔ ملازمہ کی چھٹی حس نے اسے خبردار کیا کہ اُس کی بے ہوشی کا تعلق کسی نہ کسی طرح اس کاغذ سے ہے۔ تجسس سے مجبور ہو کے ملازمہ نے جھک کے
شریمتی پوجا کی مٹھی سے کاغذ کا ٹکڑا نکالا اور اس پر ایک نظر ڈالی۔ کاغذ پر دو لفظ لکھے تھے۔ ’’سو روپے۔‘‘
ملازمہ نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اپنے سر کو جنبش دی اور کاغذ کا ٹکڑا فرش پر پھینک کے ڈاکٹر کو بلانے چلی گئی۔
(ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS