نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، مگر وہ پھر بھی آنکھیں موندے بیڈ پر چت لیٹے بیگم کے سو جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ جوں ہی ان کے کانوں میں خراٹوں کی جل ترنگ گونجی، انہوں نے بائیں آنکھ ذرا سی کھول کر دیکھا۔ بیگم صاحبہ نیند میں ڈوبتی دکھائی دیں۔ انہوں نے چند لمحے مزید انتظار کیا، پھر ہولے سے کمبل سرکا کر اٹھ بیٹھے۔ پاؤں میں چپلیں اڑسیں اور دبے قدموں دروازے کی طرف بڑھے۔ جاتے جاتے ایک چور نظر بے خبر بیگم پر ڈالی اور آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔ خنک ہوا کے جھونکے نے استقبال کیا، جس پر انہوں نے ذرا سی جھر جھری لی۔ برآمدے کی گرل سے باہر جھانکا۔ وسیع صحن پر ہو کا عالم طاری تھا۔ اس وقت تک تو حامد اور سرمد بھی اپنے کمرے میں سونے جا چکے تھے۔ انہیں مزید اطمینان ہوا۔ اب میدان صاف تھا۔ وہ دبے پاؤں برآمدے کے کونے میں دھرے گرے رنگ کے جہازی سائز فرج کی جانب بڑھے۔ لپک کر دروازہ کھولا۔ بلب کی زرد روشنی ایک لکیر کی صورت باہر تک چلی آئی۔ انہوں نے اوپر نیچے نظر دوڑائی۔ تمام اشیاء نہایت قرینے سے رکھی ہوئی تھیں۔ سب سے اوپر گندھا ہوا آٹا اور دودھ کی پتیلی رکھی تھی۔ اس سے نیچے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں موجود تھیں۔ پھر نچلے خانے میں تازہ سالن اور کچھ پچھلے دنوں کے بچے کھچے سالن رکھے تھے۔ انہوں نے ایک ایک ڈھکن اٹھا کر دیکھا، مگر انہیں اپنی مطلوبہ چیز نظر نہ آئی۔ وہ مایوس ہو کر فرج کا دروازہ بند کرنے لگے، جب اچانک ان کی نظر سب سے نیچے موجود سبزیوں اور پھلوں والے ڈبے پر پڑی۔ انہوں نے جھک کر کھینچ کر نکالا اور پھر ان کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ رس ملائی کا بڑا سا پیالہ وہیں رکھا تھا، بلکہ ایک طرح سے چھپایا گیا تھا۔ وہ دل ہی دل میں بیگم کی چالاکی پر جل کر رہ گئے۔ پھر انہوں نے نہایت احتیاط سے وہ پیالہ باہر نکالا۔ فرج کا دروازہ بند کیا اور اس سے پہلے کہ واپس پلٹتے، اچانک پیچھے سے ایک مردانہ بازو ان کی گردن کے گرد حمائل ہو گیا۔ اس ناگہانی افتاد پر وہ اچھل پڑے۔ پیالہ ان کے ہاتھوں سے پھسلنے ہی لگا تھا کہ آنے والے نے اپنے دوسرے ہاتھ سے فوراً اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اب وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے سامنے حامد کو دیکھ رہے تھے۔ پیارے بابا جان! اماں جان کو یہی دھڑکا لگا تھا کہ آپ آج رات اس رس ملائی کے پیالے پر ضرور شب خون ماریں گے۔ اس لیے وہ سونے سے پہلے مجھے چوکس رہنے کا کہہ گئی تھیں۔ اور ابھی جب آپ فرج کی جانب بڑھ رہے تھے تو میں کمرے کی کھڑکی سے یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔” وہ فخر سے بتا رہا تھا، مگر وہ جل کر رہ گئے۔ ارے تمہاری ماں اکیلی کیا کم تھی، جو تم بھی اس کے ساتھ میری چوکیداری میں شامل ہو گئے ہو؟ منہ کا ذائقہ خراب ہو رہا تھا، اس لیے تھوڑی سی رس ملائی کھانا چاہ رہا تھا۔ وہ پیالے کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔ کھائی تو تھی آپ نے شام کو سب کے ساتھ، پیالی بھر کر! حامد نے انہیں یاد دلایا۔ اتنی چھوٹی چھوٹی سی تو پیالیاں رکھی ہوتی ہیں تمہاری ماں نے! بمشکل چار چمچ کھائے ہوں گے۔ وہ بھڑک اٹھے۔ آپ کے لیے وہ بھی کافی ہے۔ ڈاکٹر نے تو اس سے بھی منع کر رکھا ہے۔ اتنی مشکل سے تو شوگر کنٹرول ہوئی ہے آپ کی!” حامد نے ذرا نرمی سے سمجھانا چاہا۔ ہاں، اب تو شوگر کنٹرول ہی ہے، پھر تھوڑی سی کھا لینے میں کیا حرج ہے؟” انہوں نے پیالہ حامد کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کی، مگر وہ پلک جھپکتے ہی مزید پیچھے ہٹ گیا۔ بابا جان! آپ باز آنے والے نہیں لگتے۔ اب میں پکا انتظام کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی چابی برآمد کی، پھر پیالے کو فرج میں رکھا، چابی دروازے میں گھمائی اور ‘ٹک’ کی آواز کے ساتھ فرج لاک ہو گیا۔ سوری بابا جان! احتیاط بہت ضروری ہے۔ دل کے مریض ہیں آپ، پرہیز کیا کریں۔” یہ کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چل دیا اور وہ برآمدے میں کھڑے کلستے رہ گئے۔ ارے، دل کا مریض ہوں تو کیا ہوا، کیا خودکشی کر لوں؟ حد ہے بھئی! اپنی کمائی کی، اپنے ہی گھر سے کوئی اچھی چیز نہیں کھا سکتا ہوں! چور بن کر رہ گیا ہوں! وہ کچھ دیر تک بڑبڑاتے رہے، پھر تھک ہار کر پاؤں گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چل دیے۔
☆☆☆
میاں بشیر صاحب ایک خوش باش، خوش لہجہ، خوش گفتار اور سب سے بڑھ کر خوش خوراک شخص واقع ہوئے تھے۔ چٹ پٹی اور مرغن غذاؤں کے بے حد دیوانے تھے۔ شومئی قسمت، بیگم بھی پکانے میں بہت ہنر مند تھیں۔ میاں کے چٹورے پن کی تسکین کے لیے کھانے پکانے کے ایک دو کورسز مزید کر کے اپنی صلاحیتوں کو چار چاند لگا لیے تھے۔ میاں بشیر صاحب کا حلقۂ احباب بھی خاصا وسیع تھا۔ پھر وہ کچھ ہلے گلے کے شوقین بھی بہت تھے۔ آئے روز گھر میں دعوتیں ہوتیں، کھلایا پلایا جاتا۔ بیگم بشیر بھی خوش دلی سے کچن میں جتی رہتیں۔ انہیں بڑا ناز تھا کہ وہ معدے کے راستے ہی سہی، مگر میاں کے دل میں براجمان تو ہیں! مگر سدا دن ایک جیسے نہیں رہتے۔ ہر چیز میں توازن ضروری ہوتا ہے۔ میاں بشیر صاحب کی کھانے پینے میں حد درجہ بے اعتدالی کا نتیجہ شوگر اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کی صورت میں نکلا۔ ایک رات سینے میں زور کا درد اٹھا تو انہیں ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے انجائنا کی تشخیص کی۔ ڈھیر ساری ادویات کے ساتھ بیگم صاحبہ کو ایک لمبا لیکچر بھی دیا کہ یہ سب کھانے پینے میں بے احتیاطی کا نتیجہ ہے۔ ساتھ ہی ان کے لیے سادہ خوراک کا چارٹ بنا کر دیا گیا۔ بیگم صاحبہ کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ حالانکہ وہ سب کچھ ان کی فرمائش پر ہی کرتی تھیں، مگر پھر بھی وہ خود کو مجرم محسوس کرنے لگیں۔ انہوں نے گھر آتے ہی کچن سے تمام بازاری مسالوں کے ڈبے غائب کر دیے، کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کو الماری کے سب سے نچلے خانے میں دفن کیا، اور دیگر میٹھی اشیاء کام والی کے حوالے کر دیں۔ روٹین میں ہنگامی تبدیلیاں کیں۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھیں کہ سالوں سے بھنی ہوئی مرغن غذاؤں کے عادی شخص کو سادہ خوراک پر لانا کتنا دشوار ہے۔ وہ ان کے لیے پرہیزی کھانے تیار کرتیں، جو چولہے پر دھرا رہ جاتا، اور وہ باقی اہل خانہ کے لیے بنائے گئے کھانے سے شوق سے لطف اندوز ہو لیتے۔ وہ نمکو کے پیکٹ اور ڈرائی فروٹ کا جار چھپا کر رکھتیں، مگر کسی نہ کسی طرح وہ غائب ہو جاتے، اور اگر کچھ بچتا بھی تو آدھے سے بھی کم۔ وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر کہیں نہ کہیں سے کولڈ ڈرنک نکال کر پی جاتے۔ اگر بیگم سختی کرتیں تو خوب جھگڑا کرتے، بچوں کی طرح روٹھ جاتے۔ ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ ان کے بھتیجے کی شادی تھی۔ انہوں نے نئے جوڑے کی دعوت کی تھی۔ بیگم بشیر گوشت کا پتیلا چولہے پر چڑھا کر خود قریبی مارکیٹ سے ان کے لیے کوئی تحفہ خریدنے چلی گئیں۔ میاں بشیر صاحب پانی پینے کچن میں گئے تو سوندھی خوشبو سے بے قرار ہو گئے۔ پتیلے کا ڈھکن ہٹایا تو دیکھا کہ نمکین گوشت دھیمی آنچ پر پک رہا تھا۔ ان کے منہ میں پانی بھر آیا۔ فوراً ایک بوٹی نکال کر چکھی۔ بہت مزا آیا! اب وہ چمچہ چلاتے، ایک بوٹی نکالتے، کچھ دیر چٹکی میں پکڑ کر ہوا میں لہراتے، اور پھر منہ میں ڈال لیتے۔ یوں کرتے کرتے جب پتیلے میں بوٹیوں کی تعداد خاصی کم ہو گئی اور نقصِ امن کا خطرہ نظر آنے لگا، تو انہوں نے فوراً فریزر کھول کر گوشت کا ایک اور پیکٹ نکالا اور بغیر سوچے سمجھے سیدھا پتیلے میں ڈال دیا۔ بیگم خاصی دیر سے واپس آئیں۔ انہوں نے جلدی میں زیادہ دھیان نہ دیا اور ویسے ہی پلاؤ تیار کر لیا۔ اب کھانے کی میز پر مہمانوں کے سامنے انہیں بہت شرمندگی ہوئی، کیونکہ پلاؤ میں کچھ بوٹیاں تو زیادہ تلی ہوئی تھیں، جبکہ باقی سارا گوشت کچا تھا۔ اس وقت تو انہیں سمجھ نہیں آیا کہ ماجرا کیا ہے، مگر مہمانوں کے جانے کے بعد جب انہوں نے فریزر کھولا تو گوشت کا ایک اضافی پیکٹ غائب تھا۔ وہ فوراً سب کچھ سمجھ گئیں۔ پھر جو گھر میں گھمسان کی جنگ ہوئی، وہ ہمسایوں کو بھی کئی دن تک یاد رہی!
☆☆☆
ان کے دونوں بیٹے بھی ماں باپ کی ایسی جھڑپوں کے عادی ہو چکے تھے۔ لاکھ ان دونوں کو اپنے باپ سے پیار تھا مگر ساتھ وہ اپنی ماں کا ہی دیتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں وہ جو کچھ کرتی تھیں، ان کی بہتری کے لیے کرتی تھیں۔ پھر انسان کی اپنی جان لذت کام و دہن سے زیادہ پیاری تو نہیں ہوتی
☆☆☆
ایسے ہی کھٹے میٹھے دنوں میں حامد نے اپنی تعلیم مکمل کر لی۔ جوں ہی اسے ایک کمپنی میں نوکری ملی، تو ساری مشرقی ماؤں کی طرح بیگم بشیر کے دل میں بھی اس کی شادی کا ارمان جاگ اٹھا۔ اب وہ دن رات حامد کی دلہن لاؤں گی کا راگ الاپنے لگیں۔ وہ اکثر بے زار ہو کر کہتا، اماں! آپ دلہن کا قصہ تو رہنے دیں۔ آپ اور ابا کی اتنی لڑائی ہوتی ہے کہ اہلِ محلہ کے ساتھ ساتھ آنے والی بھی لطف اندوز ہوا کرے گی۔ بیٹے کے انداز پر وہ تڑپ جاتیں، ارے! تم کیوں فکر کرتے ہو؟ بہو آئے گی تو کچھ تو حیا کریں گے ہی۔ ہو سکتا ہے، کچھ سدھر ہی جائیں! پھر وہ ہر رشتہ کرانے والی سے اصرار کرتیں، بس چاند سی بہو ڈھونڈ دو! بہو چاندی ہو یا سورج کی، بس کھانا چھپانے والی نہ ہو! اگر وہ آس پاس موجود ہوتے تو ضرور گل افشانی کرتے۔ بیگم صاحبہ فقط طنزیہ نظروں سے گھور کر رہ جاتیں۔ پھر خدا خدا کرکے حامد کی شادی طے پا گئی۔ دونوں میاں بیوی نے خوب دل کے ارمان پورے کیے۔ وسیع پیمانے پر تقریب کا انتظام کیا گیا، خاندان بھر کو مدعو کیا گیا، انواع و اقسام کے پکوان تیار کروائے گئے۔ مہمانوں کی آؤ بھگت کے ساتھ ساتھ میاں بشیر صاحب کو خود بھی کھانے پینے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ انہوں نے ہر ڈش کے ساتھ خوب انصاف کیا۔ بیگم صاحبہ دور سے دیکھ رہی تھیں اور اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہی تھیں، مگر وہ بھی کیا کرتیں؟ بھری برادری کے سامنے ان کا ہاتھ روکنا ممکن نہیں تھا۔ پھر وہی ہوا جس کا تمام اہلِ خانہ کو ڈر تھا۔ شادی کے چوتھے روز ہی انہیں دوسرا بڑا ہارٹ اٹیک ہوا۔ ہفتہ بھر وہ آئی سی یو میں پڑے رہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کے دل کے چاروں والو شدید متاثر ہوئے تھے، اور ان کا بچ جانا ایک معجزہ تھا۔ ہسپتال سے فارغ ہو کر جب گھر آئے تو شدید نقاہت محسوس کر رہے تھے۔ شاید کچھ شرمندہ بھی تھے۔ بیگم صاحبہ ملامت بھری نظروں سے دیکھتیں تو نظریں چرا لیتے۔ وہ دلیہ، کھچڑی جو بھی کھلاتیں، چپ چاپ بغیر کسی احتجاج کے کھا لیتے۔ موت کو قریب سے دیکھ آئے تھے، اس لیے زندگی اور صحت کی قدر جان گئے تھے۔ وہ عجیب پژمردگی کا شکار رہنے لگے۔ پہلے والی شوخی، شرارت اور شگفتہ مزاجی مفقود تھی۔ ایک دن بیگم صاحبہ کسی عزیز کی فوتگی پر جانے لگیں تو انہیں پرہیزی کھانا کھا کر دوا لینے کی تاکید کرتے ہوئے روانہ ہوئیں۔ انہوں نے کچن میں جا کر دیکھا۔ ایک پتیلی میں مونگ کی بد رنگ دال اور دوسری میں پھیکا دلیہ ڈھکا تھا۔ بھوک تو پہلے ہی نہیں تھی، یہ چیزیں دیکھ کر تو بالکل ہی ختم ہو گئی۔ اتنے میں کچن کے دروازے پر آہٹ ہوئی۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا تو نئی نویلی بہو کھڑی تھی۔ آداب، ابا جان! آپ کو کچھ چاہیے تھا؟ مجھے بتائیں، میں نکال دیتی ہوں۔” وہ دھیرے سے بولی۔ شادی کے فوراً بعد وہ بیمار ہو کر ہسپتال جا پہنچے تھے، اس لیے بہو سے ٹھیک طرح تعارف بھی نہیں ہو سکا تھا۔ وہ کچھ جھجک سے گئے۔ ارے نہیں بٹیا! بھوک نہیں ہے۔ وہ ان کے تاثرات سے سمجھ گئی کہ وہ پتیلیوں میں موجود کھانا کھانا نہیں چاہ رہے، اس لیے فوراً بولی، ابا جان! آپ اپنے کمرے میں جائیں، میں آپ کے لیے کچھ اور لاتی ہوں ابھی انہیں کمرے میں آئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ بہو ایک چھوٹی سی ٹرے تھامے اندر داخل ہوئی۔ ٹرے میں ایک کپ چائے اور ایک چھوٹی پلیٹ میں کیک کے چند ٹکڑے نفاست سے رکھے تھے۔ ارے بٹیا! میں یہ بازاری کیک کہاں کھا سکتا ہوں؟ بیکری کی چیزیں بھی میرے لیے منع ہیں۔ وہ کیک کے ٹکڑوں کو حسرت سے دیکھتے ہوئے بولے۔ ارے نہیں ابا جان! یہ بیکری کا کیک نہیں ہے۔ میں نے رات کو خود بیک کیا تھا، آپ کے لیے۔ بغیر چکنائی اور میٹھے کے، بس تھوڑا سا شہد شامل کیا ہے۔ ارے واہ! ان کا اشتیاق بڑھ گیا۔ فوراً ایک ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھا۔ اگرچہ میٹھا برائے نام تھا، مگر ذائقہ اور خستگی لاجواب تھی۔ دراصل میرے والد صاحب بھی آپ کی طرح کھانے پینے کے بہت شوقین تھے۔ بہو کی آنکھوں میں نمی سی چمکنے لگی۔ (بہو کے والد حیات نہیں تھے)۔ مگر وہ بھی چونکہ دل کے مریض تھے، اس لیے سب کچھ نہیں کھا سکتے تھے۔ جب میں گریجویشن کے بعد فارغ تھی تو اماں جان نے مجھے سلائی کڑھائی کے ساتھ ساتھ کچھ کوکنگ کورسز بھی کروائے تھے۔ وہ ہولے ہولے بول رہی تھی اور وہ نہایت انہماک سے بہو کی باتیں سن رہے تھے۔ اور پھر میں نے ان کی خاطر ایسے کھانے بنانے کی تربیت بھی حاصل کی جو شوگر اور دل کے مریضوں کے لیے بھی محفوظ ہوں، بغیر چکنائی کے اور قدرتی مٹھاس کے ساتھ۔اچھا بٹیا! کیا کیا بنا لیتی ہو؟ وہ دبے دبے جوش سے پوچھنے لگے۔ بغیر چکنائی کے ہلکے مسالوں کی بریانی، سبزی کباب جو فرائی نہیں کیے جاتے بلکہ اسٹیم کیے جاتے ہیں، مختلف طرح کے بسکٹ جن میں تھوڑا سا شہد شامل ہوتا ہے۔ ابا جان! میں آپ کے لیے بھی تیار کر دیا کروں گی۔ آپ انہیں محدود مقدار میں آسانی سے لے سکتے ہیں۔ وہ فخریہ بتا رہی تھی۔ آج انہیں احساس ہو رہا تھا کہ وہ بیٹی جیسی کتنی بڑی رحمت سے محروم تھے۔ واقعی بیٹیاں کتنی حساس ہوتی ہیں، کتنی فکر کرنے والی۔۔۔ والدین کی خوشی کی خاطر کوئی نہ کوئی درمیانی راہ نکال ہی لیتی ہیں۔ کتنے خلوص سے وہ ان کے لیے کیک لے آئی تھی۔ اگر وہ بد مزہ دال اور دلیہ بھی لے آتی، تو وہ خوشی خوشی نوش فرما لیتے۔ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ اپنے رب کے حضور شکر گزاری کے آنسو تھے، جس نے انہیں بہو کی صورت میں بیٹی دے دی تھی۔ انہوں نے اپنا ہاتھ پیار سے اس کے سر پر پھیرا اور پھر وہ دونوں بھیگی آنکھوں کے ساتھ مسکرا دیے۔
☆