میں نے ایک قبائلی سردار کے گھر جنم لیا، ہمارا خاندان روایت پرست ضرور تھا مگر والد صاحب تعلیم کے خلاف نہیں تھے۔ وہ دولتمند تھے۔ ساری دنیا گھوم چکے تھے اس لئے سوچوں میں تبدیلی آ گئی اور انہیں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا کہ مرد ہو یا عورت تعلیم آدمی کو انسان بناتی ہے اور اس کی شخصیت کو نکھار دیتی ہے۔ پس انہوں نے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا۔ ہمارا آبائی گھر تو پہاڑوں میں تھا جہاں ہمارا قبیلہ آباد تھا، اس قبیلے کے سردار بابا جان تھے۔ لہذا شہر میں رہنے کے باوجود وہ اکثر اپنے آبائی علاقے جاتے رہتے تھے کیونکہ ان کو اپنے علاقے کا انتظام و انصرام سنبھالنا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ اپنے قبیلے کے تمام تنازعات کا فیصلہ وہی کرتے ان کا سیاست میں بھی کافی اثر و رسوخ تھا اور اکثر افسران اور علاقے کے سیاستدانوں کی دعوتیں کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے قریبی شہر میں گھر خاص ہمارے لئے خریدا تھا تا کہ ہم شہر میں رہ کر پڑھ لکھ جائیں ۔ جب چھٹیاں ہوتیں اپنے علاقے میں ضرور جاتے اور گرمیوں کی چھٹیاں پہاڑ پر گزارتے کیونکہ سخت گرمیوں میں وہاں کا موسم خنک اور خوشگوار ہوتا تھا، موسم کے خاص پھل میسر ہوتے تھے۔ ہم دو بہنیں اور میرے دو بھائی تھے۔ سب نے شہر کے اسکول اور کالج میں تعلیم پائی۔ جب میں نے تعلیم مکمل کر لی تو اپنی دادی کے پاس آبائی گھر آ گئی، مجھے اپنا علاقہ اچھا لگتا تھا۔ دادی بھی پیار کرتی تھیں ۔ امی تو شہر میں میرے بھائی بہن کے پاس رہتی تھیں۔ دادی کو تنہائی محسوس ہوتی۔ والد صاحب نے فیصلہ کیا کہ میں ان کے پاس پہاڑ پر رہوں گی۔ میں بھی یہاں خوش تھی، بچپن کی سہیلیاں تھیں۔ خوبصورت موسم پھلوں کے باغات جو میرے والد کی ملکیت تھے جہاں ہم بے دھڑک جاسکتے تھے۔ پھر یہاں کے قدرتی مناظر اور حسین نظاروں کی تو میں دیوانی تھی۔
شہر کی آب و ہوا مجھ کو راس نہ تھی، بس تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے وہاں رہتی تھی۔ اب میں بڑی ہو گئی تھی۔ ایک سردار کی بیٹی تھی ، دولت میرے گھر کی باندی تھی، کسی شے کی کمی نہ تھی ، اعلیٰ درس گاہوں میں تعلیم حاصل کی تھی اور اب والد صاحب کو میری شادی کی فکر ہو چلی تھی ، اگر چہ میرے لئے رشتوں کی کمی نہ تھی۔ کیونکہ میں خوبصورت تھی ، بلکہ پہاڑوں کے دامن میں کھلنے والا وہ خوبصورت پھول تھی کہ جس کی چاہ بڑے بڑے دولت مندوں کے جواں سال بیٹوں کو تھی۔ تاہم ہمارے یہاں دولت کا نہیں رواجوں کا راج تھا۔ تب ہی والد صاحب اور بھائیوں کو میری شادی کی فکر کھا رہی تھی، جبکہ خود مجھے اپنے خیالوں کی حسین دنیا میں ایک کزن کی محبت کا غم کھا رہا تھا جس کا نام گل نایاب خان تھا۔ گل کے والد سے میرے بابا جان کا برسوں پرانا تنازعہ چلا آ رہا تھا جو کہ ملکیت کی تقسیم کا تھا۔ ظاہر ہے کہ پہاڑ تو نا قابل تقسیم ہوتے ہیں۔ البتہ جائیداد کی لڑائیوں میں انسان کے دل اور ان کی محبت میں ضرور تقسیم ہو جاتی ہے۔ ایک روز والد اور بھائیوں نے مل کر باہم یہ طے کر لیا کہ میرا رشتہ اسد یار خان سے کیا جائے ۔ کیونکہ اس کے والد کی بھی گل نایاب خان کے باپ سے پرانی دشمنی تھی۔ تب ہی بابا جان نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم دو قبائل مل کر ایک ہو جا ئیں تو اپنے دشمن کی طاقت کو توڑ دیں گے۔ میں ایک تعلیم یافتہ لڑکی تھی والد صاحب کے اس فیصلہ کا سبب اور اس کا تجزیہ بخوبی کرسکتی تھی۔ مجھے اپنی ذات اور اپنے خوابوں سے پیار تھا۔ یوں ان کی مصلحتوں پر اپنی مسرتوں کو قربان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں تو اس عمر میں تھی جب لڑکیاں سنہرے خوابوں اور نو خیز جذبات کی پچاری ہوتی ہیں۔ رواج کا ہر ستم سہنے پر تیارتھی ، مگر اس ظلم کو برداشت کرنے پر آمادہ نہ تھی کہ محض قبیلے کا زور بڑھانے کی خاطر میرے سندر خوابوں کا قتل عام کر دیا جائے۔ اپنے باپ کے سامنے بولنے کا تو مجھ میں یارا نہ تھا لیکن بڑے بھائی کے سامنے بولنے کی جرات ضرور کی تھی کیونکہ ہماری عمروں میں دو ہی سال کا فرق تھا۔ میں نے کہا تھا سلیم خان تم ہی سوچو میں تعلیم یافتہ ہوں اور میرے دل و ذہن کی بھی ایک الگ دنیا ہے اس جہان رنگ و خوشبو کے دستور دوسرے ہیں۔ میری شادی کے فیصلے میں کم از کم میری رائے تو لینی چاہئے ، اس نے جواب دیا کہ بی بی جان تم ایک عورت ہو اور ہمارے یہاں عورت کا فیصلہ کانچ کے کھلونے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ ہمارے رسم و رواج پہاڑوں جیسے اٹل ہیں۔ تم نے ان روایات سے ٹکر لینے کی کوشش کی تو وہ نہیں بدلیں گے مگر تم فنا ہو جاؤ گی۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رو دی مگر میرے آنسوؤں کو برسات کی معمولی جھڑی سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا، والد اور بھائیوں نے اپنا فیصلہ صادر کر دیا اور مجھے اسد یار خان کی بیوی بنا دیا گیا- شریک زندگی خاصی عمر کا تھا، اس کی پہلے سے دو بیویاں تھیں۔ اولاد بھی ان سے موجود تھی۔ میں اس بندھن سے سخت نا خوش تھی۔ میرا اس کا کوئی جوڑ نہ تھا مگر وہ بہت خوش تھا اس کو نو خیز پری کی مانند آسمانی حور مل گئی تھی۔ وہ مجھ پر دل و جان سے فریفتہ ہو گیا مگر میں جو تر گل کی مانند تھی۔ ایک مرجھائی ہوئی کلی جیسی زرد ہو گئی۔ وہ مجھے بہر طور خوش دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ میری خوشدلی کی خاطر دنیا کی ہر شے خرید لینا چاہتا تھا مجھے خوش دیکھنے کے لئے اسد یار خان نے روپیہ پانی کی طرح بہا دیا۔
میرے چہرے کو گلاب سا دیکھنے کی آرزو میں کوئی جتن نہ چھوڑا مگر وہ میرے دل کی خوشی کو نہ خرید سکا، خوشی تو اس میں تھی کہ وہ مجھے آزاد کر دے، جس کا اسے علم ہی نہ تھا۔ وہ مجھے ساتھ لے کر یورپ کی سیر کو گیا نگر نگر مسیر تفریح کرائی مگر میرا من اندر سے روتا ہی رہا۔ انہی دنوں اسد یار خان تجارت کی غرض سے بیرون ملک گیا تو میں نے اکیلے میں سکھ کا سانس لیا۔ ادھر سنا کہ ہمارے علاقے میں گل نایاب خان کا آنا جانا شروع ہو گیا ہے۔ اس کا ایک بچپن کا دوست یہاں قیام پذیر تھا جس سے ملنے کو آنے کا بہانہ تھا۔ اسد یار خان کے رشتہ داروں نے سوچا کہ دشمنی کے باوجود گل نایاب کا دشمن کے علاقے میں آنے جانے کا کیا مطلب ہے۔ پہلے تو وہ سمجھ نہ سکے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہے۔ بظاہر وہ دوست کی چراگاہ میں پہاڑی ہرن کا شکار کرنے آیا تھا لیکن اس چراگاہ کے پاس ہی ہمارے پھلوں کے باغات بھی تھے۔ ایک روز جب میں باغ میں سیر کی غرض سے گئی تو شکار کے بہانے سے آنے والے شکاری نے اس گھائل ہرنی کو بھی دیکھ لیا کہ جس کے دیدار کی اسے پیاس تھی۔ دونوں کی نگاہیں ملیں تو دل کا زخم شدت سے ہرا ہو گیا ۔ یہ زخم جو پہلے سے موجود تھا۔ اس پر ہر مرہم بیکار رہا۔ یہ گھاؤ اچھا ہونے والا نہ تھا۔ مجبوری کے احساس نے اسے اور بھی گہرا کر ڈالا اب صبر کی بجائے بے قراری بڑھنے لگی اور ہم ایک ملازمہ کے توسط سے انجام سے بے خبر ملنے لگی ۔ بہت راز داری برتی مگر پھر بھی زمانے کو خبر ہوگئی۔ میری سوتنوں کے بچے جوان تھے وہ ہمارے دشمن ہو گئے ۔ انہوں نے ملازمہ پرسختی کی تو خوف سے اس نے راز کو اگل دیا، اب میری زندگی کا چراغ گل کرنے کو ملازمہ کا بیان کافی تھا۔ کچھ ماہ بعد جب اسد یار خان لوٹا تو اس نے اس معاملے کی بازگشت سن لی وہ خود مجھے اپنے ہاتھوں سے ہلاک کرنا نہیں چاہتا تھا لہذا خط لکھ کر میرا فیصلہ میرے بھائیوں پر چھوڑ دیا۔ جب بھائیوں کو اس کا خط ملا وہ غیرت کے مارے آپے سے باہر ہو گئے اور میرے قتل کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ کسی صورت گل نایاب خان نے مجھ سے حالات معلوم کرنے کی خاطر ایک بوڑھی عورت کے ذریعے رابطہ کیا اور راتوں رات چرا گاہ آ گیا۔ میں نے بھی تیاری باندھ لی تھی۔ جب اسد یار سو رہا تھا۔ دبے پاؤں گھر سے نکلی اور چراگاہ پہنچ گئی۔ وہ سواری لایا تھا اس کے ہمراہ موت کی وادی سے نکل بھاگی، کیونکہ اگلے روز ہی میرے بھائی میری زندگی کا چراغ گل کرنے کو آنے والے تھے۔ ہم چھپتے چھپاتے پہاڑوں کی سنگلاخ سرزمین سے دور نکل گئے اور پھر گل نایاب مجھے ایران کے راستے ترکی لے آیا۔ کچھ عرصہ بعد نایاب نے اپنے اثر ورسوخ سے وہاں سے بھی آگے ایک ملک میں جا کر پناہ لے لی۔ ہم پھر کبھی لوٹ کر وطن نہ گئے ۔ جہاں ہمارے اپنے ہمارے خون کے پیاسے تھے۔ مجھے اپنی جان بچ جانے کی خوشی تھی اور گل نایاب کو مجھے پا لینے کی خوشی تھی لیکن میری خوشی میں بھی آج ایک درد شامل ہے۔ ساری عمر یہ درد مجھے تڑپاتا رہے گا۔ جب میں جان بچانے کی خاطر گھر سے بھاگی تھی تو میرے دونوں بچے بے خبر سور ہے تھے ، جن کے گالوں کو بوسہ بھی نہ دے سکی۔ بیٹی تین سال کی اور بیٹا ایک سال کا تھا۔ یہ دونوں بچے میری سوکنوں کے پاس رہ گئے اور میں خون کے دریا کو پار کر کے اپنے وطن سے ہزاروں میل دور آ گئی سچ ہے جان بڑی پیاری شے ہے۔ جب موت کا خوف سر پر منڈلا رہا ہو تو پھر جان بچانے کے سوا اور کچھ سوجھتا بھی نہیں ہے۔ اب سوچتی ہوں نجانے میرے بچے کس حال میں ہوں گے اور وہ اپنی ماں کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔