Sunday, January 19, 2025

Rawajon Ki Qurban Gah

آج جو روداد میں آپ کو سنانے جا رہی ہوں وہ میری طرح بہت سی لڑکیوں کی زندگی کی کہانی ہو گی – بے شک گائوں کی زندگی پر سکون ہوتی ہے لیکن اس سکون میں بھی تلاطم چھپا ہوتا ہے۔ یہ کسے معلوم کہ جو زندگی اتنی اچھی اور پر امن نظر آتی ہے ، در پردہ کس قدر کٹھن ہے۔ ابا نے گائوں کے پرائمری اسکول سے مجھ کو پانچویں پاس کرادی لیکن بھائی کو پڑھنے کے لئے ماموں کے پاس شہر بھیج دیا تھا۔ زمان بھائی جب بھی شہر سے آتے ، اخبار ،رسالے لے آتے اور میں انہیں پڑھتے وقت گزارتی۔ یوں مجھ میں پڑھے لکھوں جسا شعور پیدا ہو گیا۔ میری منگنی اپنے چاچا زاد معظّم سے اس وقت ہوئی تھی جب میں پائوں پائوں چلتی تھی۔ گائوںمیں لڑ کی بالیوں کے لئے شادی بیاہ ایک دلچسپ موضوع ہوتا ہے ۔ جو نہی لڑ کی ذرا باشعور ہوتی ہے ، اس کے کانوں میں کچھ اس قسم کے فقرے گونجنے لگتے ہیں۔ یہ اپنے پیا کی بہو بنے گی اور یہ تو اپنے خالہ زاد کی  منگیتر ہے۔ یوں لڑکیوں کے دلوں میں بچپن سے ہی محبت کے بت بنا کر بٹھادیئے جاتے ہیں اور وہ کچے ذہنوں کی لڑکیاں ان کو بے اختیار ہو کر پوجتی رہتی ہیں۔ کبھی یہ بیاہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور کبھی یہ بت وقت کے ہاتھوں شکستہ ہو کر ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی قسمت نے کچھ عجیب ہی کھیل کھیلا۔ ہوایوں کہ معظّم کی بہن فرزانہ جو میرے بھائی کی منگیتر تھی ، وہ میری سہیلی بھی تھی۔ ہمارا ہر وقت کا ساتھ تھا کہ گھر آنگن ایک تھا جبکہ کمرے علیحدہ علیحدہ تھے۔ والد اور چچا نے اپنے آبائی گھر کو ابھی تک تقسیم نہیں کیا تھا۔ ہمارا رہن سہن ، دکھ درد مشتر کہ تھے۔ میرے بچپن کا منگیتر معظّم جس طرح میرے دل کا حکمراں تھا، ویسے ہی میری  چاچازاد فرزانہ کا منگیتر زمان اس کے خیالوں کا بادشاہ تھا۔ زمان گرچہ میر ابھائی تھا مگر میں سچ کہوں گی کہ مجھ کو اپنے بھائی سے زیادہ اپنی سہیلی فرزانہ سے محبت تھی جو دل کی گہرائیوں سے زمان کو چاہتی تھی جبکہ وہ انتہائی لاپر وااور بے نیاز لڑکا تھا۔   وٹے سٹے کے بندھن تھے تاہم کبھی ہم اس بندھن سے خوش تھے۔ مجھ کو بیاہ کر کہیں اور جانا تھا اور نہ ہی فرزانہ کی ڈولی گھر سے باہر جانی تھی۔ ہم غیروں میں جانے سے بہت ڈرتے تھے ، خدا جانے وہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کر  یں۔ ہم تو آپس میں محبت کے رشتوں میں گندھے ہوۓ تھے اور تا قیامت گند ھے رہنا چاہتے تھے۔ وودن بھی آ گیا جب میری شادی معظّم سے اور فرزانہ کی زمان سے ہوگئی۔ وہ دلہن بنی اپنے باپ کے گھر سے ہماری طرف کے گھر میں زمان کے کمرے میں لا بٹھائی گئی اور میں اپنے چچا کے بناۓ ہوۓ گھر میں چلی گئی۔ صرف ہمارے کمرے   تبدیل ہوۓ تھے، گھر اور آنگن تو ایک ہی تھا پھر بھی بابل کے گھر سے سسرال آتے آتے سب کچھ بدلا بدلا نظر آنے لگا۔ میری اور نواز کی بنی ہوئی تھی۔ ہم پل بھر کو ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ فرزانہ بھی اپنے دولہا کی دیوانی تھی مگر زمان بھائی کامزاج مختلف تھا۔ وہ فرزانہ بھابی میں اتنی دلچسپی نہیں لیتا تھا، اس کو اپنی شریک حیات سے لگائو نہیں تھا محض والدین کے دبائو میں وہ اس رشتے پر راضی ہوا تھاور نہ اس کے خیالات گائوں کی فضا میں محدود نہ رہنا چاہتے تھے۔ شادی بھی وہ کسی شہری لڑ کی سے کرنا چاہتا تھا۔ دیہات کی فضائیں زمان کی سوچوں کا احاطہ نہیں کرتی پاتی تھیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ شہر میں پڑھے تھے اور وہاں کی زندگی نے ان کو متاثر کیا تھا۔ ان کے خیال میں ایک شہری اور پڑھی لکھی لڑکی ہی کسی تعلیم یافتہ لڑ کے کے معیار پر پوری اتر سکتی ہے جبکہ دیہاتی لڑکیاں جو ان پڑھ ہوتی ہیں ، وہ ان کی ذہنی سطح کی برابری نہیں کر سکتیں اور فرزانہ تو دیہاتی لڑکی تھی جس نے اسکول اور شہر کی شکل کبھی نہ دیکھی تھی۔ میر ابھائی اکثر کہا کرتا تھا۔ بھلاد یہات بھی کوئی رہنے کی جگہ ہے۔ سنیماگھر اور نہ یہاں ٹیلیویژن ، بڑے اسپتال اور نہ اچھے ڈاکٹر … ! سواۓ ہرے کھیتوں اور درختوں کے کیا چیز ہے جو انسان کو بھلی لگے۔ شہر کی رونقوں کی تو کیا ہی بات ہے ۔ ہر وقت میلے کا سا سماں رہتا ہے۔ وہاں کے ریسٹورانوں کا یہاں کے گلی کوچوں سے کیا مقابلہ ! جہاں پڑھے لکھے لوگوں سے گفتگو کر کے مزہ آتا ہے۔ ہم ان کی اس قسم کی باتیں سن کر یہی سوچتے تھے کہ زمان بھائی ایک نہ ایک دن ضرور گائوں چھوڑ کر شہر جائیں گے فی الحال ان کا شہر جانا ممکن نہ تھا۔ یہاں مشترکہ فیملی سسٹم کے جو فوائد تھے ، وہ ہم کو حاصل تھے ۔ والد اور چچا جان کی مشتر کہ زمین سے مشتر کہ پیداوار جو سارے خاندان کے لئے… خوشحالی کا باعث تھی۔ ہماری اسی وجہ سے علاقے میں زیادہ اہمیت تھی کہ دونوں بھائی ایک دوسرے کا زور بازو تھے۔ آپس کی محبتیں ،دکھ سکھ میں ایک دوسرے پر جان دیناوہ نعمتیں تھیں جو ہم کو شہر میں جالینے سے نہیں مل سکتی تھیں۔ زمان بھائی نے کافی کوشش کی کہ ان کو شہر میں ملازمت مل جاۓ لیکن کوئی اچھی ملازمت نہ ملی۔ انہوں نے گائوں آکر شادی تو کر لی لیکن اب یہاں خود کو مجبور خیال کرنے لگے تھے ۔ان کا دل بھی کھیتی باڑی میں نہیں لگتا تھا۔ گھر میں بیوی نہ بھاۓ تو مر دگھر سے باہر وقت گزار نے لگتے ہیں ، یہی ہوا۔ فرزانہ سے بھائی کا دل نہ لگا، زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنے لگے ۔ان کو تاش کھیلنے کا بڑا شوق تھا۔ وہ تاش کی بازی لگانے ساتھ والے گائوں کے نمبر دار حیات خان کی اوطاق میں چلے جاتے جہاں ان کے صاحبزادے کے ساتھ دوچار بازیاں لگا کر اپنے دل و دماغ کی گھٹن کا علاج کر آتے تھے۔ ملک حیات کا گھرانہ ہم سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ ان کی زمین زیادہ تھی اور وہ زیادہ دولت مند لوگ تھے تاہم تعلیمی لحاظ سے پیچھے تھے ۔ ملک صاحب کے بچوں نے میٹرک سے آگے نہ پڑھا تھا۔ لڑکوں کے ساتھ ان کی لڑکیاں بھی میٹرک پاس تھیں۔ زیادہ بڑی زمینداری ہونے کی وجہ سے ان کو فکر روز گار نہ تھی ، ملازمتوں کے حصول کا بھی کوئی مسئلہ نہ تھا۔ یہ لوگ البتہ سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ملک حیات کے بھائی چونکہ پڑھے لکھے تھے تجھی ان کو سیاست میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ سیاسی اثر ورسوخ کے سبب ان کی دھاک بھی تھی۔ کہنا چاہئے کہ علاقے کے معززین میں یہ ایک نمایاں گھرانہ تھا۔ زمان بھائی کو نجانے کیوں احساس کمتری نے گھیر رکھا تھا۔ وہ ان لوگوں سے وابستگی کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے تھے۔ بات بات پر ان کی برتری جتلاتے تھے ۔ اباجان، بھائی کو کہتے بھی تھے کہ برتری تعلیم سے ہوتی ہے ، زیادہ زمین سے نہیں ہوتی ۔ اعلی تعلیم سے ہی انسان کو شعور زندگی حاصل ہوتا ہے جبکہ تعلیم کے بغیر دولت مند ایسا ہوتا ہے جیسے خوشبو کے بغیر پھول …! یہ بات مگر بھائی کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ مجھے زمان بھائی سے اور کوئی گلہ نہیں تھا سواۓ اس کے کہ وہ اپنی بیوی فرزانہ کو کچھ نہیں جانتے تھے۔اسے اہمیت دیتے اور نہ اس کی قدر وقیمت جانتے تھے۔ جیسے فرزانہ ان کی زندگی میں کوئی فالتو شے ہو حالانکہ میاں ، بیوی کارشتہ اتنا بے وقعت نہیں ہوتا۔ میرے والد صاحب میٹرک پاس تھے ۔ وہ ٹیچر بھی رہے تھے اور نیک آدمی تھے۔ گائوں کے تمام لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔ابا بھی زمان کو سمجھاتے کہ بیٹا ! اپنی بیوی کا خیال رکھا کرو۔ ا باتو فرزانہ کے تایا تھے ،اس کو بہو نہیں بیٹی جانتے ،اس کا بہت خیال رکھتے تھے تبھی ایک واقعہ اس وقت ظہور پذیر ہوا جب میں تین بچوں کی ماں ہو چکی تھی اور فرزانہ بھابی کے یہاں بھی دو بچوں کا جنم ہو چکا تھا۔ ملک حیات خان اور ان کے گھر والے اپنے بیٹے کے رشتے کے سلسلے میں دوسرے گائوں گئے ہوۓ تھے۔ گھر میں چھوٹالڑ کا اور دو بیٹیاں تھیں۔ان لوگوں کو گئے دوسرادن تھا کہ گھر سے نگینہ غائب ہو گئی ۔ یہ ملک صاحب کی بڑی بیٹی تھی۔ جو بیٹا گھر میں تھا، اس نے جا کر اپنے والدین کو اطلاع دی۔ یہ لوگ بھاگے بھاگے گھر لوٹ آۓ ۔ نگینہ کو رشتے داروں کے گھر ، جہاں جہاں ممکن تھا، ڈھونڈا کیا، اس کا پتا نہ چلا۔ اس کی چھوٹی بہن روبینہ نے بتایا کہ وہ چھوٹے بھائی کو دودھ کا بر تن دینے باڑے کی طرف گئی تھی۔ پہلے تو ہم نے سمجھا کہ گھر میں یہیں کہیں ہے ، پندرہ روز سبھی اس واقعے سے پریشان رہے۔ اچانک ایک دن زمان بھائی گھر سے غائب ہو گئے۔ والد کو شک گزرا۔ انہوں نے بیٹے کے ایک گہرے دوست کو اعتماد میں لے کر اس سے بات کی تو اس نے بتایا کہ چچا جان ! آپ کا بیٹا ملک حیات کی بیٹی کو لے گیا ہے۔ شہر میں ایک دوست کے گھر رکھا ہوا ہے ۔ مجھ کو قسم دی تھی کہ آپ کو نہ بتائوں لیکن وہ آگ سے کھیل رہا ہے ، آپ کو خبر کرناضروری سمجھتا ہوں ورنہ آپ کا سارا گھرانہ اس آگ کی لپیٹ میں آ جاۓ گا۔ کریم بخش نے صحیح کہا تھا یہ معمولی اطلاع نہ تھی۔ والد صاحب کے تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ کریم نے مزید بتایا کہ دونوں نے چپ کر نکاح کر لیا ہے اور جس دوست کے گھر چھے ہیں ، وہ قانون دان کا بیٹا ہے۔ والد صاحب ، ملک معظّم خان کے مقابل ایک کمزور شخص تھے۔ وہ کسی صورت ان سے ٹکر نہیں لے سکتے تھے۔ یہ معاملہ تو پھرملک حیات خان کی بیٹی کا تھا، ان کی عزت و ناموس کا مسئلہ تھا۔ دودن تو والد اور چچا سر جوڑ کر بیٹھے رہے۔ دونوں بھائی گم صم تھے کہ اب کیا ہو گا اور کیا کر یں لیکن چپ رہنے میں بھی بھلائی نہ تھی۔ یہ بات ایک نہ ایک دن ملک صاحب کے علم آئی تو اس کو سارے گھر اور پاس پڑوس میں بھی ڈھونڈا۔ سبھی نے بتایا کہ ہمارے گھر نہیں آئی ہے۔ ملک صاحب یہ ساری روداد سن کر پریشان تھے ۔ مخالفوں پر شک تھا ان کے خلاف رپٹ لکھوادی۔ نگینہ کی تلاش زور و شور سے جاری تھی ،اس کا سراغ نہ ملا۔ زمان بھائی بدستور گھر میں موجود تھے لہذا ان پر کسی کا شک نہ گیا۔ یوں بھی ملک صاحب، زمان پر اعتماد کرتے تھے۔ ان کو شبہ بھی نہ ہوا کہ یہ لڑکا ان کی بیٹی کو لے جاسکتا ہے وہ تو کھال ادھیٹر کر رکھ دیتے۔ ہم بھی عزت والے تھے ، وہ ہماری عور تیں بھی اٹھوا سکتے تھے ۔ میرے بھائی نے حرکت ہی ایسی کی تھی ، گھر والوں کی عزت کا بھی خیال نہ کیا اور ملک صاحب کے اعتماد کو دھوکاد یا جوان کو بیٹے جیسا سمجھتے تھے اور گھر میں آنے کی اجازت دی ہوئی تھی۔ بہت سوچنے کے بعد بھی جب والد صاحب کو کوئی راہ سجھائی نہ دی تو انہوں نے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ٹھان لی یوں کہ خود ہی ملک صاحب سے بات چیت کو مناسب خیال کیا۔ ابا جان نے گائوں کے معزز لوگوں کو ساتھ لیا اور ملک صاحب کے در دولت پر حاضر ہو گئے۔ان سے کہا کہ میں تمہارا مجرم بن کر خود ہی حاضر ہو گیا ہوں ، اب جو چاہے سزادو۔ میر اسر کاٹ دو یا مجھ کو سولی پر لٹکا دو کیونکہ میرے بیٹے نے وہ خطا کی ہے جو گائوں کے رواج کے مطابق نا قابل معافی ہے۔اس نے ہم دونوں گھرانوں کی عزت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ آپ کی عزت تو ہم سے زیادہ ہے اس لئے نقصان بھی آپ کا زیادہ ہوا ہے۔ ایسا کہتے ہوۓ اباجان نے اپنی پگڑی ملک صاحب کے قدموں میں رکھ دی اور زار و قطار رونے لگے ۔ ملک صاحب تو اپنے دشمن کے خلاف نجانے کیا سوچے بیٹھے تھے ، میرے والد کی حالت زار دیکھ کر ان کو اس بوڑھے ، نیک اور شریف شخص کی بے بسی پر رحم آ گیا۔ کہا کہ نہ تو کسی کا سر کاٹ کر میری عزت واپس آسکتی ہے اور نہ کسی کو جیل ڈلوا کر میر انقصان پورا ہو سکتا ہے۔ میری عزت گئی ہے جس کا کوئی مول نہیں۔اگر عزت کا کوئی مول ہوتا ہے تو وہ عزت کے بدلے عزت ہے لہذا یہ سودا اسی طرح برا بر ہو سکتا ہے۔ والد صاحب نے کہا کہ آپ کی بات کو میں سمجھا نہیں۔ میری بیٹی شادی شدہ ہے اور بہو بھی… ! آپ چاہیں تو میں آپ کی بیٹی کے بدلے اپنی چھوٹی لڑ کی کارشتہ آپ کو دینے پر تیار ہوں، آپ کے بیٹے کے لئے یا جس سے چاہیں بیاہ دیں۔ دیکھو مرید…! بے شک جرم تم نے نہیں کیا، تمہارے بیٹے نے کیا ہے لہذ اخطاوار تو وہی ہے لیکن ہمارے یہاں کارواج یہی ہے کہ بیٹے کے جرم کی سزا باپ ہی کو ملتی ہے ۔ تمہارے بیٹے نے ہماری عزت کا جنازہ نکالا ہے ، چاہئے تو یہی کہ ہم تمہاری عزت کا جنازہ نکال دیتے لیکن ہمیں تم پر رحم آتا ہے۔ گائوں کے یہ سارے معزز لوگ تمہارے ساتھ آۓ ہیں ، ہم کو ان کا بھی خیال ہے لہذاہم نے اپنی بیٹی کو تمہاری بہو تسلیم کر لیا ہے لیکن اس کی سوتن ہم کو برداشت نہیں لہذا زمان کواپنی بیوی کو طلاق دینا ہو گی ورنہ ہم اپنی بیٹی کی طلاق کرادیں گے اور اس کو اپنی تحویل میں لے لیں گے اس کے بعد ہم خود زمان سے اچھی طرح نمٹ لیں گے اس لئے یہ حل نکالا ہے کہ خون خرابہ ہو اور نہ ہم اپنی عزت کو کورٹ ، کچہریوں میں اچھالتے پھر یں۔ تمہار الڑ کا ہماری لڑکی سے نکاح کر چکا ہے ، ہم نے یہ تسلیم کر لیا ہے لیکن تاوان تو ہم لیں گے ۔ یوں سمجھ لو کہ ہم نے تم کو اپنی بیٹی کارشتہ دے دیا ہے لیکن بیٹی کے رشتے کے بدلے میں تمہاری بیٹی کارشتہ لازمالیں گے ۔ بس ہم تمہاری بڑی لڑکی کا ہی رشتہ لیں گے جو بیاہی ہوئی ہے۔ اس کی تم کو طلاق کرانی ہو گی ۔ تمہاری چھوٹی لڑکی اتنی کم عمر ہے کہ ہم اس کے ساتھ نکاح کر نا مناسب نہیں جانتے۔ یہ سزا تو سر اتارنے سے بھی زیادہ کڑی تھی۔ اس سے تو اچھا تھا کہ ملک حیات میرے ابا جان کا سر ہی اتار لیتا یا پھر ان کو سولی پر لٹکادیتالیکن افسوس کہ  فیصلہ حیات خان کے حق میں دے دیا۔ اباجان نے بہت ہاتھ جوڑے مگر حیات خان کسی صورت راضی نہ ہوا۔ اس نے کہا۔ ہم تمہاری بڑی بیٹی سے ہی بیاہ کر یں گے ۔ یہ بدلہ ہے ہماری بیٹی سے تمہارے بیٹے کے نکاح کرنے کا اور ہم اپنی بیٹی کی سوکن بھی برداشت نہیں کر میں گے تو زمان کو اپنی پہلی بیوی کو بھی طلاق دینی ہی ہو گی۔اب سمجھ گئے ہو نا میری بات …؟ اچھی طرح ! جہاں سروں کی بازی دائو پر لگی ہو ، وہاں یہ شرط کچھ بھی نہیں تھی۔ اباجان کو تو زمان کی جان کے لالے پڑے ہوۓ تھے اور بیٹے کی زندگی کے بدلے بیٹی اور بہو کی قربانی ان کو ارزاں معلوم ہورہی تھی۔ معززین گائوں نے بھی خون خرابے سے بچائو کی خاطر حیات خان کی بات کو مان لیا۔ میرے بھائی زمان کی وجہ سے ہم دولڑ کیاں رواج کی قربان گاہ پر بھینٹ دے دی گئیں۔ فرزانہ کو طلاق ملی اور میراگھر اجاڑ کر مجھے بھی ملک حیات کے حوالے کر دیا گیا۔ یوں عزت کے بدلے عزت کی رسم کو پورا کر دیا بلکہ باندی بناکر پیش کر دیا۔ فرزانہ کو طلاق کے بعد میرے خالہ زاد بھائی نے نکاح میں لے کر اپنے گھر میں بسالیا لیکن ان کے بچوں کو ان سے جدا کر دیا گیا۔ پوتے اور پوتی کو اباجان نے اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ اسی طرح فرزانہ کے بچے ماں کے لئے روتے بلکتے رہ گئے اور ان کی ماں دوسرے گائوں بھیج دی گئی۔ میرے تین بچے بھی میری ماں نے رکھے تمام عمر میں جن کے ملنے کو ترستی رہی ہوں ۔ عمر بھر میں ملک صاحب کی بیوی ضرور رہی لیکن ان بیٹی کے بدلے تاوان میں آئی تھی اس لئے ان کے سارے خاندان نے مجھ سے نوکرانی کے جیسا سلوک کیا۔ آج تک میں معظّم کو اور وہ مجھ کو نہیں بھولے۔ انہوں نے دوسری شادی بھی نہیں کی ۔سنا ہے اب بھی راتوں کو اٹھ اٹھ کر خدا سے فریاد کرتے ہیں جس نے جانے کس کارن ان کو مجھ سے اور مجھے ان سے جدا کیا۔ چونکہ میں ان کے باپ کی عزت تھی سوحیات خان کی وفات کے بعد بھی مجھ کوان کے لڑکوں نے واپس بھی میکے جانے نہ دیا۔ اگر رواج اتنے سخت نہ ہوتے اور ابا بھی کو شہری لڑکی سے شادی کرنے دیتے تو آج میں اور فرزانہ برباد نہ ہوتے – میرے بچے بھی ماں کی ممتا سے محروم ہو گئے   لکین ان رواجوں کی زنجیریں ٹوٹتی ہی نہیں – آخر ان رواجوں کی قربان گاہ پر کب تک بیٹیاں بھینٹ چڑھتی رہیں گی ؟

Latest Posts

Related POSTS