Sunday, December 3, 2023

Raz e Muhabbat | Complete Urdu Story

Raz e Muhabbat | Complete Urdu Story
بس سے اتر کر مائرہ تیزی سے گھر کی طرف چل دی۔ شادی میں صرف چند روز باقی تھے اور ابھی تک بہت سے کام کرنے باقی تھے۔ مائرہ کے ہاتھ میں بڑا سا شاپنگ بیگ تھا، جس میں اس کا خوبصورت پیلے، لال اور نارنجی رنگوں پر مشتمل مہندی کا جوڑا تھا۔ اس جوڑے پر اس نے بہت چاہت سے گوٹے کا کام بنوایا تھا۔ جوڑے کی مناسبت سے جھلمل چوڑیاں اور سنہری چپل بھی خریدی تھی۔
وہ بہت خوش تھی۔ طویل عرصے کے بعد یہ حسین لمحے اس کی زندگی میں آئے تھے۔ مائرہ کو یقین تھا کہ اس کی آنے والی زندگی بہت خوشگوار گزرے گی۔
موسم بدل رہا تھا، سردیوں کی آمد آمد تھی لیکن گلی میں اب تک دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں ہمیشہ کی طرح چہل پہل تھی۔ اسکول کی چھٹی کا وقت تھا، یونیفارم پہنے ہوئے کچھ بچے اکیلے گھر واپس آرہے تھے جبکہ کچھ کے ساتھ ان کی مائیں تھیں۔
چھوٹے بچے اپنی مائوں کی انگلی پکڑ کر چل رہے تھے۔ مائرہ ان لوگوں کے درمیان سے اپنا راستہ بناتی آگے بڑھی۔
وہ سوچ رہی تھی کہ آخر اسے چھٹکارا ملنے والا تھا، اس مڈل کلاس علاقے، اس کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں، شور شرابے اور جگہ جگہ آواز لگاتے ٹھیلے والوں سے…! وہ بہت جلد نئی زندگی کا حسین سفر شروع کرنے والی تھی۔
شادی کے بعد جس ملک میں وہ جانے والی تھی، سنا تھا کہ وہاں بہت سلیقہ اور صفائی ستھرائی تھی۔ مائرہ وہاں پہنچنے کے لئے بے قرار تھی۔
گلی کا موڑ مڑتے ہی دور سے اپنے گھر کے احاطے کی دیوار پر نظر پڑی۔ جگہ جگہ سے پینٹ اکھڑ رہا تھا۔اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ ایک ذرا سا رنگ روغن ہوجاتا تو گھر یقیناً بہتر لگنے لگتا۔ اس نے سوچا… کاش ابا راضی ہوجاتے لیکن انہوں نے تو اس فضول خرچی سے صاف انکار کردیا تھا، کیونکہ پیسے انہوں نے مائرہ کی شادی کی تقریبات کے لئے بچا کر رکھے ہوئے تھے۔
گھر کے دروازے پر نظر پڑی تو وہ ٹھٹھک گئی۔ آخر کون آیا تھا اس وقت کہ ابا دروازہ بند کرنا ہی بھول گئے تھے۔ اس کا دل بے ترتیب انداز میں دھڑکنے لگا اور وہ زور زور سے سانس لینے لگی۔ ’’نہیں… ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔‘‘ مائرہ نے دل ہی دل میں کہا۔ خاص طور پر اب جبکہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا اور شادی کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں، بلکہ اس کے چھوٹے سے گھر میں شام کے وقت ڈھولک بھی بجنے لگی تھی۔
’’کم ازکم اب نہیں!‘‘ اس نے زیرلب دہرایا اور تیزی سے نگاہ اِدھر اُدھر دوڑائی۔ گلی میں گھر سے ذرا دور شازم کی گاڑی کھڑی نظر آئی۔ اس کے دل میں غصے کی لہر ابھری۔ ’’اس شازم کی مجال تو دیکھو اور اس سے بڑھ کر ابا کی سادہ دلی!‘‘
مائرہ کے دیکھتے ہی دیکھتے شازم، ابا کے ہمراہ ان کے گھر کے دروازے سے باہر نکلا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ہوا ہوگیا۔
’’اوہ میرے خدا!‘‘ کہتی ہوئی وہ گھر کی طرف بھاگی اور اس سے پہلے کہ ابا دروازہ بند کرتے، وہ اندر داخل ہوگئی۔ وہی ہوا تھا جس کا اسے ڈر تھا۔ سامنے ہی تخت پر منا بیٹھا تھا۔ اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے وہ مائرہ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
’’پہلے میری پوری بات سن لو، چیخنا چلانا بعد میں شروع کرنا۔‘‘ ابا نے مائرہ کو مخاطب کرکے کہا۔ اسی لمحے امی باورچی خانے سے باہر نکل آئیں۔
’’کیا ہوگیا ہے آپ کو، آخر کیا ضرورت تھی اسے منے کو یہاں چھوڑنے کی اجازت دینے کی؟‘‘ وہ اونچی آواز میں بولیں۔ ’’بدبخت کے کان میں بھنک پڑگئی ہوگی کہ مائرہ کی شادی ہونے والی ہے اور… اور دیکھیں فوراً منے کو لے کر یہاں پہنچ گیا۔‘‘
’’آپ نے دروازہ کیوں کھولا ابا…؟‘‘ وہ چیخی۔ ’’تمہارا خیال ہے کہ اگر نہ کھولتا تو وہ چلا جاتا؟‘‘ ابا بولے۔ ’’بہت دکھ دے چکا ہے وہ ہماری بیٹی کو… آپ کو کچھ تو احتجاج کرنا چاہئے تھا، سمجھانا چاہئے تھا اسے! خدا اسے برباد کرے۔‘‘ امی نے اپنا سینہ پیٹ کرکہا۔
’’کیا کرتا آخر میں!‘‘ ابا چیخے۔ ’’کیسے واپس بھیج دیتا ننھی سی جان کو، اس کا قصور کیا ہے، مجھے بتائو؟ بیچارا گھر کا ہے نہ گھاٹ کا!‘‘ پھر وہ مائرہ سے مخاطب ہوئے۔
’’مجھ سے شازم نے کہا تھا کہ منا بیمار ہے، کھانا نہیں کھاتا، تمہیں یاد کرتا ہے تو پھر میں کیا کرتا؟‘‘
’’کچھ تو بولتے آپ!‘‘ امی چیخیں۔
’’آخر میں کیا کہتا اور کیا نہ کہتا؟ وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار آیا اور چلا گیا۔ اس نے مجھے زیادہ بولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔‘‘ ابا نے اپنی صفائی پیش کی۔
وہ جانتی تھی ابا کی کمزوری… ابا کو ضرور منے پر پیار آگیا ہوگا۔ ایسی ہی عادت تھی ان کی… بہت سا غصہ آنسوئوں کی شکل میں اس کے گلے میں اٹک گیا۔
’’وہ تو ہے ہی چالاک ابا! ہر بات سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کے ساتھ کرنے والا اور آپ ہیں کہ ہمیشہ اس کی باتوں میں آجاتے ہیں۔‘‘ مائرہ نے اپنی آواز دھیمی رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’تم شازم کے کردار کی باریکیاں مجھے نہ گنوائو۔‘‘ ابا بولے۔
ایک ناراض سی نظر اس نے منے پر ڈالی۔ وہ صحن میں بچھے تخت پر بیٹھا تھا۔ اسی تخت پر اس کے برابر میں ڈھولک رکھی تھی اور مہندی سجانے کے لئے تھالیاں رکھی ہوئی تھیں۔ برقی قمقموں کے بجلی کی تاروں میں لٹکے گچھے بھی وہیں پڑے تھے، جنہیں الیکٹریشن نے شام میں آکر دیوار پر سجانا تھا۔
یہ تخت لیموں کے ٹنڈمنڈ درخت کے برابر بچھا تھا جسے اس نے اتنی کھاد اور پانی دیا تھا لیکن اس پر پھول ہی نہیں آتے تھے۔ بالکل مائرہ کی خزاں رسیدہ زندگی کی طرح…!
امی باورچی خانے میں واپس چلی گئیں اور کٹی ہوئی پیاز گرم گھی میں زور سے جھونک دی۔ چھن کی آواز چاروں طرف پھیل گئی۔
مائرہ کے گلے میں آنسوئوں نے پھندہ ڈال دیا تھا۔ شازم اسے کبھی خوش نہیں رہنے دے گا، وہ جانتی تھی۔ شاید وہ اس کم ظرف کے اعصاب پر سوار تھی۔
صرف مائرہ ہی شازم کو اچھی طرح جانتی تھی اور کوئی اسے نہیں جانتا تھا۔ اس کی ہر چیز میں منصوبہ بندی ہوتی تھی لیکن وہ ظاہر یوں کرتا تھا جیسے سب اچانک ہوا ہو۔ لوگوں کو چونکا دینے اور دہشت زدہ کرنے کا اسے بہت شوق تھا۔
وہ منے سے نظر ملائے بغیر اندر اپنے کمرے میں آگئی اور بستر پر بے سدھ ہوکر گرگئی۔
منا مائزہ کی زندگی میں گویا درد کا پیامبر بن کر آیا تھا۔
وہ دن وہ کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔ باہر سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اور مائرہ تنہائی کا کرب دل میں سیمٹے لیبر روم میں پڑی تھی۔
سارا دن اور ساری رات درد میں تڑپنے کے بعد وہ منے کی پیدائش کے مرحلے سے گزری تھی۔ خوشی منانے والا اور مٹھائی بانٹنے والا وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کا بیٹا دنیا میں آنے سے قبل ہی اپنے ماں، باپ کے درمیان ہر تعلق ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ دنیا میں آنے سے قبل ہی اس نے مائرہ کو بے اندازہ اذیت سے دوچار کردیا تھا۔ نہ جانے کیوں اس نے اپنی زندگی کی ساری تلخیوں اور سارے دکھوں کے لئے اس ننھی سی جان کو ہی ذمہ دار سمجھ لیا تھا۔
جب امی نے منے کو تولیئے میں لپیٹ کر مائرہ کی طرف بڑھایا تو اس نے منہ پھیر لیا تھا۔ اسے دیکھ کر مائرہ کو بھلا کیا خوشی ہوتی۔ اسے بھی اپنے باپ ہی کی طرح کا ایک مرد بننا تھا۔ سو یقیناً وہ دنیا میں ظلم توڑنے کی تمام صلاحیتیں لے کر پیدا ہوا تھا۔ اس کے رونے کی آواز مائرہ نے ضرور سنی تھی لیکن اسے دیکھنے کی اسے ذرا بھی خواہش نہیں تھی۔
’’اس بیچارے کا تو کوئی قصور نہیں، اسے گود میں تو لے لو۔‘‘ امی نے آہستگی سے کہا تھا لیکن مائرہ نے اپنے چہرے کا رخ پھیرے رکھا۔ شام کو امی گھر چلی گئی تھیں کیونکہ ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی۔
کافی دیر بعد رات والی نرس بچے کو گود میں لئے کمرے میں آئی۔
’’یہ بہت دیر سے رو رہا ہے، آپ اسے گود میں لے لیں اور دودھ پلانے کی کوشش کریں، شاید اس طرح چپ ہوجائے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ابھی دودھ اترا نہیں ہے۔‘‘ اس نے سپاٹ سی آواز میں جواب دیا۔
’’گود میں لیں گی اور پلانے کی کوشش کریں گی تب ہی تو دودھ اترے گا۔‘‘ نرس نے سمجھانے کی کوشش کی۔
کوئی عذر نہ پا کر اس نے چار و ناچار ہاتھ آگے بڑھا دیئے۔ ابھی گود میں لے کر بیٹھی ہی تھی کہ بچے نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ بری طرح چونک گئی۔
کتنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں تھیں منے کی، بالکل اپنے باپ جیسی…! یوں لگا جیسے بہت ذہانت بھری ہو ان میں…! وہ یکدم اس بچے سے خائف سی ہوگئی۔
’’اسے ابھی لے جائیں میں… میں بعد میں اسے دودھ پلانے کی کوشش کروں گی۔‘‘ مائرہ نے بچے کو زبردستی نرس کی گود میں واپس دیتے ہوئے خوف زدہ سی آواز میں کہا۔
اگلے روز صبح جب امی کھانا لے کر آئیں تو ہلدی ملی زرد یخنی پیالے میں انڈیلتے ہوئے بولیں۔ ’’نرس کہہ رہی تھی کہ منا تمام رات روتا رہا ہے، بالکل بھی نہیں سویا، تم چاہو تو اسے دودھ پلانے کی کوشش کرو۔‘‘ امی نے نگاہیں جھکا کر کہا کیونکہ وہ اس کی دلی کیفیت سے بخوبی واقف تھیں۔
’’جب دودھ اترا ہی نہیں ہے تو پھر پلانے کی کوشش کیوں کروں؟‘‘ اس نے سرد لہجے میں جواب دیا۔
’’گود میں تو لے لو، بیچارے کو کچھ سکون ہی مل جائے گا!‘‘ امی بدستور مائرہ سے نگاہیں ملانے سے گریز کررہی تھیں۔
امی کچھ دیر خاموش بیٹھی سوچتی رہیں پھر آہستگی سے بولیں۔
’’دیکھو مائرہ! وہ لوگ بیٹے کو لینے پر اصرار کررہے ہیں۔ جیسے ہی ان کو اس کی پیدائش کی خبر ملی، وہ بھاگے بھاگے گھر پر آگئے۔‘‘ ان کے لہجے میں ناراضی تھی۔
’’اوہ تو اس کے دل میں اولاد کی محبت جاگ اٹھی ہے؟‘‘ مائرہ نے طنزیہ لہجے میں سوال کیا۔
امی نے ٹھنڈا سانس لیا۔
’’اللہ جانے جاگی ہے یا نہیں لیکن میں کہتی ہوں مائرہ کہ اسے جانے دو بلکہ اچھا ہی ہے کہ تم نے اسے اب تک دودھ نہیں پلایا اور ماں اور بچے کے درمیان کشش کا رشتہ قائم نہیں ہوا۔ بہتر ہے کہ تم منے کو ان لوگوں کے حوالے کردو ورنہ تمہاری کہیں اور شادی نہیں ہوسکے گی۔‘‘ امی نے کہا۔
’’شازم نے خود بچے کو مانگا ہے کیا؟‘‘ اس نے سرد لہجے میں سوال کیا۔
’’اس کی ماں آئی تھی، بہت طاقتور لوگ ہیں وہ، اگر بچہ نہیں دو گی تو ناکوں چنے چبوا دیں گے۔ میں تو کہتی ہوں کہ ان کی خواہش پوری کردو اور منے کو جانے دو، خود سنبھالیں اپنی اولاد کو…!‘‘ امی کے لہجے میں غصہ تھا پھر چند لمحوں کے توقف سے بولیں۔
’’ویسے یاد رکھنا فیصلہ تمہارا اپنا ہے۔ جو چاہو کرو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ اسی وقت دور نرسری
میں کوئی بچہ رویا تو مائرہ بے اختیار بستر پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔ وہ زور زور سے سانس لے رہی تھی۔
’’امی! میری بات سنیں، اب شاید دودھ اتر آیا ہے۔‘‘ اس نے سینے پر پھیلتی ممتا کی گرمی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ امی سخت لہجے میں بولیں۔ ’’خود ہی خشک ہوجائے گا جیسے کہ ان لوگوں کے دل خشک ہوئے ہیں۔‘‘
مائرہ کا اپنا دل بھی مرجھا چکا تھا یوں وہ راضی ہوگئی اور بچے کو اس کے باپ کے حوالے کردیا۔ عقلمندی بھی اسی میں تھی کہ وہ اس بچے کو اپنے دل میں جگہ نے دے۔ خود مائرہ کو بھی زندگی میں بھلا محبت کہاں ملی تھی کہ وہ اس بنجر دل میں منے کی محبت کا پودا زبردستی سینچنے کی کوشش کرتی۔
وہ سمجھتی تھی کہ کسی کو اس سے محبت نہیں تھی۔ امی، ابا کو بھی نہیں…! وہ تو اس دنیا میں آنے والا ایک ان چاہا وجود تھی جس کی چاہت اس کے ماں، باپ کو بھی نہیں تھی۔
اس کے نزدیک کتنی خوش قسمت تھیں اس کی جاننے والی لڑکیاں اور سہیلیاں کہ سو جان قربان کرنے والے ان کی زندگیوں میں موجود تھے اور ایک وہ تھی کہ جسے کہیں سے بھی کچھ بھی نہیں ملا تھا۔
امی سے اس موضوع پر آئے دن تلخ کلامی ہوجاتی۔ وہ باربار ان سے الجھ پڑتی۔
’’آپ کو مجھ سے کبھی بھی محبت نہیں رہی۔ باقی سب بہن، بھائی آپ کے چہیتے ہیں، سب کی شادیاں اچھی اچھی جگہ کردیں، وہ جاکر دور دیسوں میں بس گئے اور ساری صلواتیں سننے کے لئے مجھے چھوڑ گئے۔‘‘ امی ہر بار جھنجلا کر جواب دیتیں۔
’’اے ہے…! جس کے لئے پیغام آیا، اس کے لئے ہاں کردی، عقلمندی اسی میں تھی۔ کیا سب کو اس انتظار میں بٹھائے رکھتی کہ تمہارے لئے دوبارہ کوئی پیغام آئے تو تب ہاں کروں۔ ویسے بھی شادی تو پہلے تمہاری ہی ہوئی تھی ناں!‘‘ پھر امی اسے سمجھانے کی کوشش کرتیں۔
یہ بات تو سچ تھی کہ شادی پہلے اس کی ہوئی تھی اور خوب دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ امی کی سہیلی آپا قدسیہ نے یہ رشتہ کروایا تھا۔ سب ہی دنگ رہ گئے تھے۔ مائرہ کے لئے اتنے اونچے خاندان سے پیغام آئے گا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
’’اتنے خاندانی اور پیسے والے لوگ ہیں، نہ نجانے انہیں ہماری مائرہ جیسی سیدھی سادی لڑکی کیوں پسند آگئی؟‘‘ امی نے آپا قدسیہ کے سامنے چائے رکھتے ہوئے سوال کیا تھا۔
’’ارے بہن یاسمین! سب جانتے ہیں کہ سیدھی سادی لڑکیاں ہی گھر بساتی ہیں اور پھر ہماری بچی میں آخر کیا کمی ہے؟‘‘ قدسیہ آپا نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا تھا۔
وہ سچ مچ بہت اچھے لوگ نکلے۔ ان لوگوں نے جہیز کا مطالبہ کیا اور نہ ہی کسی اور سلسلے میں پس و پیش کی۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے دنوں میں وہ دلہن بن کر شازم کے گھر آگئی۔
صرف ابا کو ان لوگوں کی جلدی پر ذرا اعتراض تھا۔
’’تم کچھ اتا پتا تو کروا لو، اتنی جلد بازی اچھی نہیں۔‘‘ انہوں نے امی سے کہا تھا۔
’’آپا قدسیہ ان لوگوں کو بہت اچھی طرح جانتی ہیں۔ وہ ان کی طرف سے مجھے ہر طرح سے اطمینان دلوا چکی ہیں۔‘‘ امی نے ابا کو سمجھایا۔
اپنی شادی پر مائرہ کے خوشی سے پائوں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کوئی حور پری نہیں تھی۔ وہ خوش شکل ضرور تھی لیکن اتنی حسین نہیں تھی کہ اتنا خوبرو، پڑھا لکھا اور دولت مند لڑکا اس کے نصیب میں لکھا جاتا۔ یہ تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔
امی کے باربار حیرت کے اظہار پر آپا قدسیہ نے سمجھایا تھا کہ اس کے سسرال والوں کو گھریلو، شریف اور کام کاج میں طاق لڑکی چاہئے تھی اور اس سے زیادہ کی ان لوگوں کو خواہش نہیں تھی۔ یوں مائرہ کا جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا معاملہ طے پا گیا تھا۔
اصل حقیقت تو بہت بعد میں کھل کر سامنے آئی۔
شازم میں وہ سب کچھ تھا جس کی کہ ایک لڑکی تمنا کرسکتی تھی۔ وہ خوصورت بھی تھا، بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، نفاست پسند، خوش لباس، اپنی پینٹ کی کریز ہمیشہ درست رکھنے والا شخص تھا وہ…! وہ اتنی ہی خوش تھی جتنی کہ ایک نئی نویلی دلہن سے توقع کی جاسکتی تھی۔
شادی کے ایک مہینے بعد کا وہ دن مائرہ کو اچھی طرح یاد تھا۔
ناشتے کی میز پر شازم نے کہا۔
’’میں کچھ دن کے لئے بزنس کے سلسلے میں شہر سے باہر جارہا ہوں، تم کچھ روز کے لئے جاکر اپنی امی کے ہاں رہ آئو۔‘‘
’’کیا اتنی جلدی جانا ضروری ہے؟‘‘ اس نے اداس لہجے میں پوچھا۔
’’فکر نہیں کرو، جلدی واپس آجائوں گا۔‘‘ وہ بولا۔
اسے ناچار اپنی امی کے ہاں واپس آنا پڑا، حالانکہ دل اس علیحدگی کے لئے بالکل بھی راضی نہیں تھا۔
اس کے ہاتھوں میں اب تک مہندی کا رنگ باقی تھا۔ اسے مہندی اس قدر پسند جو تھی… اور کپڑے بھی ابھی تک دلہنوں والے پہن رہی تھی۔
گھر واپس آکر وہ شازم کی واپسی کا شدت سے انتظار کرنے لگی لیکن حیرت تھی کہ کئی دن گزر گئے تھے اور شازم کا فون ہی نہیں آیا تھا۔
آخرکار مائرہ نے خود اس کا نمبر ملایا۔
’’مجھے دراصل روانہ ہونے میں ذرا دیر ہوگئی ہے۔ بس اب جانے ہی والا ہوں۔‘‘ اس نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔ گویا وہ ابھی تک گھر پر ہی موجود تھا۔
’’ہاں! مجھے تمہارے لئے کچھ بھجوانا ہے، کل گھر پر ہی رہنا، کوریئر کے ذریعے بھجوا رہا ہوں۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتی، وہ بولا۔
’’کوئی تحفہ ہے کیا…؟‘‘ مائرہ نے مسرور لہجے میں پوچھا۔
’’ہاں! یہی سمجھ لو۔‘‘ شازم نے ہلکی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔
اگلے روز تحفہ نہیں بلکہ ایک رجسٹرڈ خط آیا۔ کھولا تو اندر طلاق نامہ تھا۔
پہلے تو مائرہ کو یقین ہی نہیں آیا۔ وہ یہی سمجھتی رہی کہ ضرور کوئی غلطی ہوگئی ہے، پھر اس پر دیوانگی کا درورہ پڑگیا اور وہ دیر تک سر پٹخ پٹخ کر روتی رہی۔
اصل معاملہ بہت دنوں بعد بیچ والی آپا قدسیہ کے ذریعے کھلا۔ وہ آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھتے ہوئے ان کے گھر آئیں۔
’’ہائے… ہائے! مجھے پتا ہوتا تو میں بیچ میں کیوں پڑتی۔‘‘ وہ ہاتھ ملتے ہوئے بولیں۔ ’’میرا خدا مجھے معاف کرے۔‘‘ وہ روتی جارہی تھیں اور بولتی جارہی تھیں۔
پھر وہ امی کے نزدیک بیٹھ کر چہرہ صاف کرکے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے رازدارانہ انداز میں گویا ہوئیں۔
’’سنا ہے کہ لڑکا تو دراصل شادی پر راضی ہی نہیں تھا۔ بچپن سے کسی لڑکی سے محبت کرتا تھا لیکن نہ اس لڑکی کے والدین شادی پر راضی ہوئے اور نہ شازم کے…! انہوں نے اپنی بیٹی کی کہیں اور شادی کردی اور اب وہ ایک بچے کی ماں ہے۔
شازم کی امی نے میدان صاف دیکھ کر جلدی جلدی شازم کی شادی طے کردی لیکن بہن…! وہ اپنے بیٹے کو صحیح سے نہیں جانتی تھیں۔ وہ تو بہت پہنچی ہوئی چیز نکلا، اس نے ماں کو سبق سکھانے کا کیا خوب طریقہ سوچا۔‘‘
مائرہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی آپا قدسیہ تھیں جو کہتے نہ تھکتی تھیں کہ لڑکا ہیرا ہے ہیرا، سعادت مند اور نیک…!
’’لیکن امی! شازم کا رویہ مجھ سے بہت اچھا تھا، وہ مجھ سے محبت کرتا تھا۔‘‘ جو کچھ اس کے ساتھ پیش آیا تھا، وہ اب تک اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھی۔
’’چھوڑو بی بی! تم کیوں اس کی طرف داری کررہی ہو۔ وہ تو تمہارے متعلق سو سو باتیں کہہ رہا ہے۔ کہتا ہے کہ تم تو اسے پہلے دن سے پسند ہی نہ آئی تھیں اور یہ کہ تم بداخلاق ہو۔ تمہیں اٹھنے بیٹھنے کی تمیز نہیں ہے۔‘‘ آپا قدسیہ تیز آواز میں بولیں۔
ان کی باتوں پر مائرہ سناٹے میں آگئی۔
’’ابھی تو میں نے تمہیں پوری بات بتائی ہی نہیں۔‘‘ وہ امی کو مخاطب کرکے بولیں۔
’’اپنی شادی کے بعد بھی اس نے اپنی پرانی محبوبہ کا پیچھا نہیں چھوڑا یہاں تک کہ اس کا گھر تڑوا دیا اور وہ اب اپنا بچہ چھوڑ کر واپس ماں، باپ کے گھر آبیٹھی ہے۔ جیسے ہی اس کی عدت ختم ہوگی، یہ اس سے شادی کرلے گا۔‘‘
بقول آپا قدسیہ شازم یقیناً بہت پہنچی ہوئی شخصیت تھا لیکن ایک بات سے وہ ناواقف تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ دنیا میں ہر بات اس کی مرضی کے تابع نہیں ہے۔ طلاق تو دیدی تھی لیکن تب وہ اس ننھے وجود کے متعلق نہیں جانتا تھا جو مائرہ کی کوکھ میں پل رہا تھا لہٰذا طلاق کا صحیح اطلاق تو تب ہوا کہ جب منا اس دنیا میں آیا۔
پھر شازم کے گھر والے منے کو لے گئے۔ پہلے تو اتنی جلدی تھی شازم کے خاندان کو بیٹا حاصل کرنے کی لیکن بعد میں ان کا رویہ بدل گیا۔
جب شازم پہلی بار منے کو مائرہ کے ہاں چھوڑنے کے لئے لایا تو وہ حیران رہ گئی کہ کسی بھی چیز پر وہ اپنا کنٹرول ختم کردے، یہ شاید شازم کی فطرت کے خلاف بات تھی۔ مائرہ کو لگا کہ وہ اسے آزاد دیکھنا نہیں چاہتا بلکہ الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔ وہ منے کو لے تو گیا تھا لیکن بعد میں یہ لے جانے اور واپس لانے کا عمل آنکھ مچولی بن کر رہ گیا۔
کچھ مہینے گزرتے کہ شازم کسی نہ کسی بہانے منے کو مائرہ کے پاس چھوڑنے کے لئے لے آتا، پھر مائرہ کے دل پر رکھی سختی کی سل ذرا سی سرکنے لگتی تو وہ منے کو لینے واپس آجاتا۔ ہمیشہ بہانے کے طور پر منے کی صحت کو استعمال کرتا۔ کہتا کہ وہ بیمار رہتا تھا، کھانا نہیں کھاتا تھا وغیرہ وغیرہ۔
اس کی ایک اور وجہ بھی تھی جس کا اندازہ مائرہ کو بخوبی تھا۔ شاید شازم کی نئی بیوی، بچے کو اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار نہیں تھی لہٰذا وہ منے کو چھ چھ مہینے کے لئے اس کے پاس چھوڑ جاتا۔
سچی بات تو یہ تھی کہ اس عرصے میں منے کا خیال رکھنے میں امی اور ابا پیش پیش رہے۔ ظاہر ہے ان کا ہاتھ مائرہ کو بٹانا تو پڑتا تھا۔ گو کہ دل تو عرصہ ہوا اس نے سخت کرلیا تھا کہ مزید دکھ سہنے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔
مائرہ گھر کے نزدیک ایک اسکول میں پڑھاتی تھی۔ ایک بار پرنسپل نے اسے بلا کر تنبیہ کی۔
’’دیکھو جن بچوں کی تم تربیت کررہی ہو، وہ بالکل ننھے منے ہیں۔ ان کے ساتھ تمہارا رویہ پیار اور محبت کا ہونا چاہئے لیکن تمہارے انداز میں سختی ہے۔ میں تمہیں خبردار کررہی ہوں۔‘‘ اس کے بعد مائرہ نے حتیٰ الامکان اپنا رویہ بدلنے کی کوشش کی، کیونکہ ایسی نوکریاں اس قدر آسانی سے نہیں ملتی تھیں لیکن دل کی سختی شاید اس کی فطرت کا حصہ بن چکی تھی۔
سو اس طرح منے کا مائرہ کے ہاں آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔
بالکل ننھا منا سا کمزور وجود تھا اس بچے کا… نہ جانے اس کے باپ کو اس پر پیار کیوں نہیں آتا تھا کہ یوں روز روز اسے ٹھکرا کر چلا جاتا تھا، شاید نئی بیوی کے ساتھ رنگ رلیاں منانے سے فرصت نہیں ملتی ہوگی۔ مائرہ سوچتی…
پھر

میں ایک لمبا عرصہ گزر گیا کہ جس دوران وہ منے کو چھوڑنے کے لئے نہیں آیا۔ پورے چھ مہینے گزر گئے۔ مائرہ نے شکر ادا کیا کہ اس کی جان چھوٹی۔ منے کی وجہ سے ہی تو اس کے لئے پیغام نہیں آتے تھے۔
دریںاثناء ویسا ہی پیغام آگیا جس کی کہ مائرہ کو تمنا تھی۔
شہر کے اس پرانے سے علاقے کے چھوٹے سے گھر کے آگے ایک شاندار گاڑی آکر رکی۔ محلے میں کھلبلی مچ گئی، بچے کرکٹ کھیلنا بھول کر گاڑی کے گرد جمع ہوگئے۔ اماں بختاور گھر کا کام ختم کرکے چادر اوڑھ کر نکل رہی تھی کہ واپس ان کے گھر کی طرف چلی آئی۔
’’تمہارے گھر میں کوئی بہت اونچے مہمان آئے ہیں۔‘‘ اماں بختاور نے ہانپتے ہوئے خبر دی۔
مائرہ نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو حیران رہ گئی۔ اتنے سال بعد آئے تھے تو کون! صائم اور اس کی امی…!
شازم سے شادی سے پہلے مائرہ کی ایک اور جگہ بھی بات چلی تھی۔ پیغام ہمسایوں کے ہاں سے آیا تھا۔ صائم سب کا جانا پہچانا تھا۔ جب بھی موقع ملتا، آتے جاتے روک کر مائرہ سے بات کرتا، پھر اس کی امی پیغام لے کر آگئیں اور بات بھی پکی ہوگئی اور مٹھائی بٹ گئی۔
لیکن یہ کہانی جلد ہی اختتام پذیر ہوگئی۔
اس کی شادی دیکھتے ہی دیکھتے اپنی خالہ کی بیٹی سے ہوگئی۔ خالہ کے خاندان والے دولت مند تھے، اور لندن میں مقیم تھے، لہٰذا صائم ان صاحب ثروت لوگوں کی فہرست میں شامل ہونے بیرون ملک چلا گیا۔
جانے سے پہلے صائم گھر سے ذرا دور بس اسٹاپ پر اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔
’’دیکھو میرے خلاف دل میں غصہ نہ رکھنا… قصور میرا نہیں ہے۔ امی کا اس قدر اصرار تھا کہ میں مجبور ہوگیا۔ ان کی بہن کی اولاد کا معاملہ تھا، میں انکار نہ کرسکا۔‘‘
لیکن امی کی سہیلی آپا قدسیہ نے کچھ اور کہانی سنائی۔
’’بہت لالچی لوگ ہیں یہ دونوں ماں اور بیٹا! پہلے تو کچھ اور کہہ رہے تھے لیکن جہاں پیسہ دیکھا، وہاں پھسل گئے۔‘‘
ماضی کی یادوں سے الجھتے ہوئے اس نے پردے کی اوٹ سے صائم کو دیکھا۔ اس کے پہننے، اوڑھنے کا انداز اس قدر بدل گیا تھا کہ اس کو پہچاننا مشکل تھا۔ بہترین لباس تھا، چہرے پر رونق تھی اور انداز و اطوار بالکل ویسے ہی تھے کہ جس کی کوئی بھی لڑکی تمنا کرسکتی تھی۔
ماں اور بیٹا آکر بہت تپاک سے امی اور ابا سے ملے۔ ڈرائنگ روم میں ان کو بٹھا کر وہ ان کے لئے چائے بنانے چلی گئی۔
واپس آئی تو قدم دروازے پر رک گئے۔ اندر سے آتی باتوں کی بھنک کان میں پڑی۔ صائم کی والدہ کہہ رہی تھیں۔ ’’بیوی چھوڑ کر چلی گئی ہے، واپس آنے سے انکار کرتی تھی، اس لئے طلاق دے دی، بچے صائم کے ہی پاس ہیں۔ بس میاں، بیوی کی شروع سے بنی ہی نہیں، اللہ کی مرضی…!‘‘ انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔
’’ہم آپ کے در پر سوالی بن کر آئے ہیں، دیکھئے انکار نہ کیجئے گا۔‘‘
یوں مائرہ کی زندگی میں دیکھتے دیکھتے بہار آگئی۔ جلد رخصتی کی باتیں ہونے لگیں اور شادی کی تاریخ طے ہوگئی۔
اور اب جبکہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک جارہا تھا، شازم کی دیدہ دلیری دیکھو وہ سب اجاڑنے پر تل گیا تھا۔ اس نازک موقع پر وہ آکر منے کو ان کے ہاں چھوڑ گیا تھا۔
اب وہ موقع آگیا تھا کہ مائرہ سب کچھ ابا پر نہیں چھوڑ سکتی تھی، حالات کی باگ ڈور اسے اپنے ہاتھ میں لینی تھی لہٰذا اس نے شازم کا فون ملایا۔
’’دیکھو سب کچھ ہمیشہ تمہاری مرضی کے مطابق نہیں ہوگا۔ یہ آنکھ مچولی بند کرو، اس ہاتھ دو اور اس ہاتھ لو۔‘‘ مائرہ نے سختی سے کہا۔
’’کورٹ کی طرف سے منے کی پرورش کے حقوق میرے نام کردو، پھر میں تمہاری گزارش پر غور کروں گی۔‘‘
’’کیا تمہارا ہونے والا شوہر منے کو رکھنے پر راضی ہوجائے گا؟ کیا تم اسے لندن اپنے ساتھ لے جائو گی؟‘‘ شازم نے سوال کیا۔
’’وہ بعد کی باتیں ہیں، تم پہلے یہ ثابت کردو کہ تم اس کی پرورش کی ذمہ داری سنجیدگی سے قبول کررہے ہو؟‘‘ مائرہ نے جواب دیا۔
اس سے نمٹنے کا بس یہی طریقہ رہ گیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ خود پرست انسان، دنیا اور اس میں بسنے والے تمام لوگوں پر حاکمیت کا شوق رکھنے والا ایسا کبھی نہیں کرے گا، اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی۔
وہ شازم کو اس کی بے رحمی کے لئے کبھی بھی معاف نہیں کرسکتی تھی۔
ابا کی نصیحت کچھ اور تھی…!
’’کیا ہوگیا ہے تمہیں مائرہ! یہ بات کیوں بھول جاتی ہو کہ منا تمہارا بھی بیٹا ہے۔ اس کا کچھ حق تم پر بھی بنتا ہے۔ تم آگے بڑھ جائو، وہی پرانی لکیر برابر کیوں پیٹ رہی ہو۔ جو ہوگیا، سو ہوگیا۔‘‘
ابا بھلا اس کے دل کا حال کیا جانتے تھے۔ ان پر خود گزرتی تو سمجھتے۔ کم ازکم اس کا یہی خیال تھا۔
’’میں تو آگے بڑھنا چاہتی ہوں ابا! وہی کم ظرف باربار راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ مجھے اپنی زندگی جینے کہاں دے رہا ہے۔‘‘ اس نے ابا کو سمجھانے کی کوشش کی۔
شازم اس کے دل پر ایک زخم کی طرح تھا جو بھر کر ہی نہ دیتا تھا۔ کیا وہ ظالم تھا اور یا مائرہ قابل محبت نہیں تھی؟ اب تک وہ یہ گتھی ہی سلجھا نہ پائی تھی۔
’’تم صائم سے بات تو کرکے دیکھو۔‘‘ ابا بولے۔ ’’وہ خود اسی قسم کے مسائل سے دوچار ہے۔ وہ ضرور تمہاری درخواست پر سنجیدگی سے غور کرے گا۔‘‘ ابا نے اصرار کیا۔
٭…٭…٭
اگلے روز اسکول سے واپس آئی تو نگاہ اس چھوٹی سی چمکیلی بائیسکل پر پڑی جو صحن کے ایک کونے میں کھڑی تھی، پھر اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی تو فرش پر پڑے کچھ پنجرے بھی نظر آئے۔ پہلے تو غصے کی وجہ سے کچھ دیکھ ہی نہ پائی تھی۔
’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ اس نے ابا سے پوچھا۔
’’منے کے طوطوں اور خرگوشوں کے پنجرے ہیں۔‘‘ ابا بولے۔ ’’شازم آکر یہ تمام چیزیں چھوڑ گیا ہے۔‘‘
’’یعنی منے کو وہ یہاں لمبے عرصے کے لئے چھوڑنا چاہتا ہے۔‘‘ اس نے خشک لہجے میں سوال کیا۔
’’کہہ رہا تھا کہ طبیعت سنبھل جائے گی تو آکر لے جائے گا۔‘‘ ابا نے نگاہیں ملائے بغیر کہا۔
وہ سوچنے لگی کہ ابا کا رویہ کس قدر عجیب تھا۔ وہ اور ابا دونوں جانتے تھے کہ مائرہ کی شادی میں کس قدر کم دن رہ گئے تھے۔
’’وہ اپنے طوطوں اور خرگوشوں سے بے اندازہ محبت کرتا ہے، ان سے زیادہ دور نہیں رہ سکتا۔‘‘ ابا نے صفائی پیش کی۔
وہ کچھ دیر کھڑی سوچتی رہی پھر صحن میں سائیکل چلاتے منے کے نزدیک رک گئی۔
’’تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘ اس نے سوال کیا۔ وہ کچھ دیر سر جھکائے یوں ہی پیڈل گھماتا رہا پھر نہایت دھیمی آواز میں بولا۔
’’مجھے نئی امی اچھی نہیں لگتیں، میں آپ کے پاس رہوں گا۔‘‘
’’میں تمہیں ابھی تک یاد ہوں؟‘‘ مائرہ نے حیرت سے سوال کیا۔
’’ہاں!‘‘ منے نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر سائیکل چلاتا ہوا کرسی پر بیٹھے ہوئے ابا کے پاس چلا گیا۔
٭…٭…٭
ابا کا نظریہ ہمیشہ دوسروں سے مختلف ہوتا تھا۔
’’اس بیچارے پر ظلم ہوا تھا۔ اس کی ماں نے اس کی شادی زبردستی تم سے کروا دی تھی۔‘‘ وہ ہمیشہ اس کا نقطۂ نظر بیان کرتے تھے۔ وہ بے حد نرم دل تھے، جلد سب کی باتوں میں آجاتے تھے۔
’’اس کا بس چلے تو وہ میری کبھی بھی شادی نہ ہونے دے۔ وہ ہر ایک پر اپنا کنٹرول رکھنے کا شوقین ہے۔ اسے فکر ہے تو ہر وقت، ہر موقع پر اپنی بات منوانے کی۔‘‘ اس نے ابا کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’لیکن اس میں بیچارے بچے کا کیا قصور ہے۔ وہ ہمیشہ ماں کی گود کی گرمی سے ناواقف رہا۔ پلاسٹک کی بوتل سے دودھ پیتا رہا ہے۔‘‘ ابا بولے۔ ان کو فکر تھی تو صرف اور صرف منے کی…!
وہ تمام دن غصے سے کھولتی رہی پھر شازم کا نمبر ملایا۔
’’آکر اپنے بیٹے کو لے جائو، مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ جہاں اتنے سال رکھا ہے تو اب بھی رکھ لو، مجھے اس سے کوئی لگائو نہیں۔ اگر تمہاری بیوی کو اس کی دیکھ بھال پسند نہیں تو کوئی آیا رکھ لو، وہ مجھ سے بہتر اس کا خیال رکھ پائے گی۔ تم ہی تو کہتے رہے ہو کہ میں جنونی ہوں، اجڈ گنوار ہوں، کوئی کام بھی سلیقے سے نہیں کرتی۔‘‘ وہ کڑوی ہنسی ہنس کر بولی۔ ’’تو پھر اپنے پیارے بیٹے کی پرورش کا کام تم میرے سپرد کیوں کررہے ہو؟‘‘ جواب ندارد۔
’’اور تمہارے پاس بہت پیسہ ہے، اس کی ضروریات تم مجھ سے بہتر پوری کرسکتے ہو۔ میں کہاں سے اس کو وہ سب دلوا سکوں گی جس کا وہ عادی ہے؟‘‘
شازم نے بجائے جواب دینے کے فون منقطع کردیا۔
وہ ساری رات کانٹوں کے بستر پر لوٹتی رہی۔ صبح سو کر اٹھی تو ایک ارادہ کرلیا تھا۔
وہ بڑھ کر منے کے نزدیک آگئی۔ وہ اپنے خرگوشوں کو گاجر کھلاتا رک گیا۔ مڑ کر مائرہ کی طرف دیکھا۔
’’دیکھو منے…! کیوں آئے ہو تم یہاں؟ کیوں روز روز آجاتے ہو؟ تمہارا اور میرا کیا واسطہ ہے۔ جائو اپنے ابا کے پاس واپس جائو۔ دیکھنے میں تو بہت ذہین لگتے ہو؟ میری بات سمجھ رہے ہو نا…؟‘‘
منا سر جھکائے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ کوئی جواب نہ دیا لیکن سر اٹھا کر مائرہ کو دیکھا۔ وہ خاموش تھا لیکن اس کی آنکھوں میں ایسی اداسی تھی کہ اس کی روح کانپ گئی۔ مائرہ کے گلے میں آکر کچھ اٹک گیا۔
’’آپ منے کو دیکھ لیجئے، میں اسکول جارہی ہوں۔‘‘ اس نے ابا سے کہا اور تیزی سے دروازے سے باہر نکل گئی۔
سارا دن اسکول میں دل نہ لگا۔ وہ شرمندہ تھی، شاید اس نے منے سے کچھ زیادہ سختی سے بات کرلی تھی۔ وہ ابا کو تو نہ سمجھا پائی تھی لیکن وہ منے کو ضرور سمجھا لے گی، اسے یقین تھا۔ اسکول سے واپس آئی تو صحن میں منے کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔
’’منے ادھر آئو۔‘‘ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
اپنے طوطوں کو دانہ کھلاتا اس کا ہاتھ رک گیا اور وہ اٹھ کر مائرہ کے نزدیک آگیا۔
’’کیا تم میرے پاس رہو گے؟‘‘ اس نے منے سے سوال کیا۔ ’’میرے پاس نہ تو تمہیں باہر گھمانے لے جانے کے لئے گاڑی ہے اور نہ ہی ڈھیر سارے پیسے ہیں۔ میں تمہیں روز برگر اور پیزا کھلانے نہیں لے جاسکتی، ہمارا تو ٹی وی بھی بہت چھوٹا ہے اور… اور…! میں اسکول میں پڑھاتی ہوں، میرے پاس تو تمہارے ساتھ گزارنے کے لئے وقت بھی نہیں ہے۔ سمجھ رہے ہو نا میری بات…؟‘‘
منے نے اس قدر متانت سے اثبات میں سر ہلایا کہ جیسے ہر بات سمجھتا ہو۔
کاش وہ بھی زندگی کی باریکیوں کو اتنا ہی سمجھ سکتی جتنا کہ لگتا تھا کہ منا سمجھ سکتا تھا۔
’’ہمارا گھر بہت چھوٹا ہے، تمہارے طوطوں اور خرگوشوں کے لئے یہاں جگہ نہیں ہے۔‘‘ وہ بدستور کہے جارہی تھی۔ ’’اور نہ ہی تم آرام سے یہاں سائیکل
چلا سکو گے، ہمارا صحن بھی چھوٹا ہے۔ تم واپس اپنے گھر چلے جائو، وہاں سب کچھ ہے۔ کھلونے ہیں، چاکلیٹ ہیں اور کہانی کی تصویروں والی کتابیں ہیں لیکن یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
جب وہ اسکول سے واپس آئی تو منا وہاں نہیں تھا۔ ’’منا اپنے گھر واپس جانا چاہتا تھا۔ اس نے مجھ سے اپنے باپ کو فون کروایا اور وہ آکر اسے لے گیا۔‘‘ ابا نے ناراض لہجے میں اسے بتایا۔
’’تو پھر خرگوش اور طوطے یہاں کیوں چھوڑ گیا؟ وہ تو ان سے بے اندازہ محبت کرتا ہے۔ سنا ہے ان سے دور نہیں رہ سکتا۔‘‘ اس نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’بہت محبت کرتا ہے اسی لئے تو چھوڑ گیا، تحفے دینے کی ادا وہ جانتا ہے۔‘‘ ابا بولے اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ ’’سمجھ جائے گا منا آخر… وہ اس کے فائدے ہی کی بات کررہی تھی۔‘‘ اس نے سر جھٹک کر سوچا۔
منے سے زیادہ فکر تو مائرہ کو امی، ابا کی تھی کہ پردیس چلی جائے گی تو ان کا کیا بنے گا۔
وہ کپڑے استری کررہی تھی کہ ابا اس کے نزدیک آکر رک گئے۔
’’کیا تمہیں سچ مچ کچھ بھی نظر نہیں آتا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’کیا نظر نہیں آتا؟‘‘ اس نے خشک لہجے میں ابا کا سوال دہرایا۔
’’کہ منا تم سے کس قدر محبت کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا اور مڑ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
٭…٭…٭
آپا قدسیہ روز نئے نئے قصے امی کے گوش گزار کرنے آجاتیں۔
’’میں نے تو سنا ہے کہ شازم اب اپنے اقدام پر ہاتھ ملتا ہے۔ ایک مرتبہ اس نے سخت گرمی کے موسم میں مائرہ کو اسٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑا دیکھ لیا۔ سنا ہے اس کے بعد اس پر قنوطیت کا دورہ پڑ گیا اور گھر والوں کو ماہر نفسیات کے پاس لے جانا پڑا۔‘‘ مائرہ یہ سن کر ہنس دی۔ بڑا ڈرامے باز تھا وہ منے کو اس کے سر منڈھنے کے لئے نئی نئی کہانیاں تراش رہا تھا۔ اس کے پاس تو دل نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی۔ اس کی خصلت کیا تھی، کوئی نہیں جانتا تھا۔
اگلے روز گھر سے باہر قدم رکھا تو سامنے ہی شازم کو منے کا ہاتھ پکڑے کھڑا پایا۔ پہلے تو پیچھے ہٹ گئی۔
’’اب کیوں آئے ہو یہاں…؟‘‘
’’منا ساری رات تمہارے لئے روتا رہا ہے، کھانا بھی نہیں کھایا۔ دیکھو کتنا کمزور ہوگیا ہے۔ اس کا دل بہلانے کے لئے اس کی سالگرہ منانے کی کوشش کی لیکن یہ خوش ہی نہیں ہوا۔ اپنا کیک بھی تمہارے لئے لے آیا ہے۔‘‘
آواز عجیب دل شکستہ سی بنی تھی۔ شازم کی آواز نہیں لگ رہی تھی۔
اس کی طرف غور سے دیکھا تو حیران رہ گئی۔ اس کے بکھرے بالوں اور وحشت زدہ چہرے والے شخص کو پہچان نہ پائی۔ کیا یہ وہی شازم تھا۔ خوش لباس، ٹھہر ٹھہر کر، مزے لے لے کر باتیں کرنے والا، نک سک سے درست رہنے والا…؟
کا ہوگیا تھا اسے، کیا افتاد آن پڑی تھی؟ سب کچھ ویسے ہی ہوا تھا کہ جیسے وہ چاہتا تھا۔ شادی شدہ لڑکی کو اس کا گھر تڑوا کر بیوی بنا کر اپنے گھر لاچکا تھا، مائرہ کو بے موت مار چکا تھا۔ اب نہ جانے کون سی فکر دامن گیر تھی۔ وہ سچ تھا۔ کیا واقعی مائرہ سچ مچ اس مخبوط الحوس شخص کے اعصاب پر حاوی تھی۔ اس نے خود سے سوال کیا۔ لیکن اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی اسے ذرا بھی تمنا نہیں تھی۔
اس سے پہلے اور کیسی ہیبت تھی۔ مائرہ کو اس سے دوبارہ ملنے کی، اس شخص کے ملنے کی، اس نے خود سے حیرت سے سوال کیا۔ ایک ایسا انسان جس کے لئے اس نے بے شمار آنسو بہائے تھے۔ کتنی حیرت کی بات تھی کہ آج وہ اس کے دل پر اثر کرنے کی تمام قوت کھو چکا تھا۔
’’میں تمہارے لئے کچھ لایا ہوں۔‘‘ اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک لفافہ اسے دے دیا۔
کھول کر دیکھا تو اس کے اندر کچھ قانونی قسم کے کاغذات تھے۔
’’میں اس کی پرورش کے حقوق قانونی طور پر تمہیں دے رہا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ پھر منے کا ہاتھ مائرہ کے ہاتھ میں دیا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔
لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ آکر تخت پر بیٹھ گئی اور منے کو اپنے پاس بٹھا لیا۔
’’اب کیا ہوگا؟‘‘ اس نے وحشت سے سوچا۔
٭…٭…٭
رات میں بستر پر اپنے برابر لیٹے منے سے مائرہ نے کچھ باتیں کیں۔ وہ بات سمجھ رہا تھا یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا لیکن یہ سب کہنا ضروری تھا۔
ہم دونوں بے قصور ہیں منے! لیکن حالات کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہیں، تمہارے اور مجھ جیسے جن کے ساتھ بغیر ان کی کسی غلطی کے نہایت عجیب و غریب واقعات پیش آتے ہیں۔ ہم دونوں بھی ایسی ہی ایک آندھی کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ قصور تمہارا ہے نہ میرا…! لیکن ہمیں اس دنیا میں رہنا ہے تو حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔‘‘ وہ نہ جانے اس چھوٹے سے بچے کو کیا سمجھانا چاہ رہی تھی۔
دوسرے دن صبح اٹھی تو صحن میں اخبار پڑھتے ابا کے پاس رک گئی۔
’’اب سمجھ میں آیا ابا کہ آپ اتنے عرصے سے مجھے کیا سمجھانے کی کوشش کررہے تھے؟‘‘ اس نے بہت دھیمی آواز میں کہا۔
’’مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ ظالم تھا یا چالاک تھا، میں اس کے کردار کی پیچیدگیوں میں نہ جانے کیوں الجھ گئی۔ ایک حقیقت کو میں نظرانداز کرتی رہی اور وہ یہ ہے کہ وہ میرا ماضی تھا۔ میں نے اپنی سوچ سے اسے اپنے حال پر حاوی ہونے دیا۔ وہ گزرا ہوا کل تھا اور میں نے اسے اپنا ’’آج‘‘ بننے دیا۔ نجانے ایک دردناک لمحے میں خود کو کیوں قید کرلیا؟ اس کو اتنا حق کیوں دیا کہ وہ میری عادت ہی بدل دے؟ ابا! آپ کو میں روز دروازے بند رکھنے کی ہدایت دیتی تھی اور آپ ان کو پھر بھی کھلا رکھتے تھے… میں نے بھی آج ایک دروازہ کھول دیا ہے، اپنے دل کا دروازہ…! اس کے باہر کھڑا منا نجانے کب سے اس پر دستک دے رہا تھا۔ لیکن ایک دروازہ میں نے بند کردیا ہے۔ یہ ہے وہ دروازہ جو میری زندگی کو شازم کی زندگی سے جدا کرتا ہے، خوشیوں اور محبت کے راستے … اپنے دل پر کھول دیئے ہیں۔‘‘
منا امی کے برابر سو رہا تھا۔ آج بہت سے کام کرنے تھے۔ سب سے بڑا کام صائم سے ملنا تھا اور اس سے اپنا عندیہ بیان کرنا تھا۔
صائم شام کے وقت اسے اپنی نئی چمکیلی گاڑی میں بٹھا کر شہر کے مشہور فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانا کھلانے کے لئے لایا۔ اس نے سیاہ رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا اور اس کی ٹائی کا رنگ گہرا سرخ تھا۔ کسی کہانی کا ہیرو لگ رہا تھا وہ، کتنی خود اعتمادی تھی اس میں…!
تمام خواب شرمندہ تعبیر ہونے کو تھے۔ صائم کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کی مائرہ کو شدید خواہش تھی۔
اپنی حسین دنیا سے وہ مائرہ کو آہستہ آہستہ روشناس کرا رہا تھا۔ چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل جس کے آگے وہ بیٹھے تھے، بے حد خوبصورت تھی۔ اس کے عین درمیان بہت پتلے گلدان میں ایک گہرے رنگ کا گلاب اپنی بہار دکھا رہا تھا۔
کافی پینے کے بعد صائم نے اپنی جیب سے ایک مخملیں ڈبیا نکالی۔ اس میں ایک ہیرے کی انگوٹھی تھی۔ مائرہ ایک گہری سانس اندر کھینچ کر رہ گئی۔ صائم نے مائرہ کا ہاتھ پکڑ کر انگوٹھی اس کی تیسری انگلی میں پہنا دی۔ ’’اسے میری محبت کی علامت کے طور پر قبول کرو۔‘‘ اس نے کہا۔
مائرہ نے سوچا کہ اس وقت اس محبت کے دریا میں بہتے ہوئے وہ صائم سے وہ ذکر کرے گی جس کے متعلق سوچتے ایک پورا روز ہوگیا تھا۔
’’میری بات سنو صائم…!‘‘ اس نے بات شروع کی۔
دل ولولے سے بھرپور تھا۔ بے شمار کام کرنے کو تھے اور وقت بہت کم تھا۔ صبح سویرے ہی مائرہ نے پوری انگنائی دھو ڈالی اور ہنڈیا چولہے پر چڑھا دی تاکہ اسکول جانے سے پہلے تیار ہوجائے۔ منے کو اٹھا کر منہ دھلایا اور تیار کیا۔
’’یہ صبح سویرے کیا کھٹرپٹر لگا رکھی ہے؟‘‘ امی نے بستر پر لیٹے لیٹے سوال کیا۔
’’امی! آج آپ دیر سے اٹھیئے گا ورنہ پھر طبیعت خراب ہوجائے گی۔ میں نے سارے کام کردیئے ہیں۔‘‘
’’یہ صبح سویرے کیوں چہک رہی ہو اور منے کو لے کہاں جارہی ہو؟‘‘ امی کی آواز میں غنودگی تھی۔ ’’بہتر یہی ہے کہ منے کو اس کے باپ کے ہاں چھوڑ آئو۔‘‘
مائرہ نے ایک سرسری نگاہ گھر کی دیواروں پر ڈالی۔ انہیں رنگ و روغن کی ضرورت تھی۔ اب یہ کام کرنے کی امید وہ کرسکتی تھی۔
’’کیا منے کو لے کر صائم سے ملنے جارہی ہو؟ اتنی صبح…؟‘‘ ابا نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں ابا! میں کل شام صائم سے مل کر آچکی ہوں۔‘‘ ’’اور منا…؟‘‘ ابا نے پوچھا۔
مائرہ نے ابا کی بات کا جواب نہ دیا۔ ان کو پہلے بہت سی اور باتیں بتانے کی ضرورت تھی۔
سب سے پہلے اس گفتگو کا ذکر کرنا تھا جو اس کے اور منے کے درمیان ہوئی تھی۔
’’میرے لئے تم اپنا کیک لائے ہو؟‘‘ اس نے منے سے پوچھا تھا۔ ’’منے…! تم نے یہ سب چیزیں، اپنے طوطے اور خرگوش میرے لئے کیوں چھوڑے؟‘‘ منے نے ایک خاموش نگاہ اس پر ڈالی۔
’’دیکھو کچھ نہ کہو۔‘‘ مائرہ نے اس کی گیانی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔ ’’میں جانتی ہوں کہ یہ تمہاری بے لوث محبت کا ثبوت ہے۔ تم اپنا سب کچھ مجھے دینا چاہتے تھے، محبت کا انمول تحفہ…! اور مجھ اندھی کو دیکھو یہی کچھ ڈھونڈنے میں کہاں کہاں ماری پھر رہی تھی۔ جنت کی مکین ہوں اور بہار ڈھونڈنے کے لئے سات سمندر پار جارہی تھی۔ میری بات سمجھ رہے ہو نا… سب مجھے یہاں نصیب ہوگیا۔ دشت و کوہسار کی خاک چھاننے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
وہ ابا کو بتانا چاہتی تھی کہ منے کی وہ نگاہ سینے میں کیوں اتر گئی تھی اور ایک سچ بولتا بچہ اسے بھی نصیب ہوگیا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر سینے پر ہاتھ رکھ کر کھڑی رہی تھی۔ ہستی کے معنی، زندہ رہنے کا راز…! سب سمجھ میں آگیا تھا۔
دن چڑھ رہا تھا۔ اس کے لیموں کے پیڑ پر ننھی ننھی خوشبودار موتیئے کے جیسی پھولوں جیسی کلیاں نکل آئی تھیں۔ اتنے عرصے بعد یہ معجزہ ہوگیا تھا۔ وہ بہت خوش قسمت تھی، محبت کرنے والے لوگوں میں گھری ہوئی تھی۔ آج اس محبت کو بھی تسلیم کرلیا جو ایک دھارے کی طرح سینے سے بہہ نکلی تھی۔ نجانے وہ اب تک اس کو خود سے باہر کیوں ڈھونڈتی آئی تھی۔
وہ ابا کی طرف مڑی اور کہا۔ ’’اور دیکھیں میں پھر سے ایک پرانی غلطی کو دہرانے چلی تھی، ظاہری چمک دمک پر مر مٹی تھی۔ ایک ایسا شخص جو ماں کی محبت کو ہی نہ سمجھ سکا۔ جو مجھے اپنے ننھے سے بے سہارا بچے سے جدا کرنا چاہتا ہے، اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا مجھے بالکل بھی شوق نہیں۔‘‘ اس نے ابا کو بتایا۔
’’تو یہ جواب دیا صائم نے…؟‘‘ ابا نے سوال کیا۔
’’وہ کہتا ہے کہ اس کی زندگی پہلے ہی بہت پیچیدہ ہے۔ وہ ایک نئے بچے کو اس میں شامل کرکے ان پیچیدگیوں میں اضافہ کرنا نہیں چاہتا

لئے میں نے اسے منع کردیا۔‘‘
’’کہاں جارہی ہو تم؟‘‘ ابا نے پوچھا۔
’’میں منے کو داخلے کے لئے برابر کے اسکول لے کر جارہی ہوں۔‘‘
’’ابا! میں آپ سے دور کہیں نہیں جارہی۔ میں یہیں رہوں گی۔ آپ کے، امی اور منے کے پاس…!‘‘ اس نے مسکرا کر کہا اور تیزی سے منے کا ہاتھ پکڑے گھر کے نزدیک والے اسکول کی طرف چل دی۔
گئی رات کو جو معجزہ ہوا تھا، وہ اس کے متعلق ابا کو بتانا چاہتی تھی۔ رات میں منے کو سینے سے لگا کر وہ بہت روئی تھی۔ منے کی محبت نے سب بدل دیا تھا۔
سنگلاخ پتھر سے دودھ کی نہر بہہ نکلی تھی۔ وہی آب زم زم والا معجزہ ہوا تھا۔ زخمی دل کو شفاء نصیب ہوئی تھی۔ بہت سی باتیں سمجھ میں آگئی تھیں۔ زندگی ہار جیت کا میدان نہیں تھا، جنگ و جدل اور انتقام کسے یاد تھا؟
آج سمجھ میں آیا کہ شازم نے اسے طلاق کیوں دی تھی، کیوں واپس کیا تھا اپنے ننھے سے بیٹے کو…؟ کبھی صحیح سے محبت کی ہوتی تو سمجھتی اس قدم کو! وہ انجان جو تھی۔ شازم شاید اس میدان میں اس سے بہت آگے تھا۔ محبت کرنے کی ادا جو جانتا تھا، وہ عجیب و غریب انسان…!
دل کا بند دروازہ کھل گیا تھا اور بہار کا موسم پوری دھوم دھام سے ہستی میں داخل ہوگیا تھا۔ اب مائوں کے چہروں پر پھیلی مسکراہٹوں کا مفہوم سمجھ میں آیا۔
شازم سے بات کرنے کی سخت ضرورت تھی اس لئے اس کا نمبر ملایا۔ مختصر سی بات کی۔
منے کی پرورش میرے سپرد کرنے کا بہت شکریہ! کوشش کروں گی کہ یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائوں۔ آواز میں بہت عرصے بعد نرمی تھی، عاجزی تھی، انکسار تھا۔
محبت نے بندگی کا سبق پڑھا دیا تھا اور زندہ رہنے کے بہت سے راز اس پر افشا کردیئے تھے۔ اور آپ جب بھی چاہیں ابا سے پہلے بات کرکے منے سے مل سکتے ہیں اور اپنے ساتھ کبھی کبھار لے جا بھی سکتے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ باپ کی محبت سے بالکل محروم رہے۔‘‘ یہ کہہ کر فون منقطع کردیا۔
(ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS