Sunday, April 27, 2025

Rehai – Episode 1

’’عرفان…! عرفان…!‘‘ وہ حلق کے بل چیخی۔ یہی وہ وقت تھا جب اس نے پہاڑی سے نیچے چشمے کے ٹھہرے ہوئے پانی کو دیکھا۔ پانی میں عرفان کا چہرہ لرز رہا تھا۔
تب ہی علینہ کو بھی وہ جواب میں آواز دیتا ہوا محسوس ہوا۔ علینہ نے پہاڑ کی چوٹی سے چھلانگ لگا دی۔ ایک زوردار چھپاکے سے وہ چشمے کے پانی میں گری اور عرفان کو ڈھونڈنے لگی مگر اسے وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ اچانک کسی کے زور سے قہقہہ لگانے کی آواز گونجی۔ اس نے اپنے کان بند کرلیے۔ لمحہ بھر کو اسے یوں لگا جیسے وہ پانی کی بجائے ایک بار پھر خشکی پر تھی۔ قہقہے کے بعد ایک ہی بات کی گردان ہونے لگی۔ ’’یہی ہے وہ… یہی ہے وہ…‘‘
اس کا دماغ جھنجھنانے لگا۔ وہ ہراساں ہوکر ایک طرف دوڑنے لگی۔ سرپٹ بھاگتی ہوئی اب وہ عدالت کے کمرے میں کھڑی تھی۔
اس نے سوچا کہ یہاں اسے اماں ملے گی کیونکہ یہاں جج بھی ہیں۔ پولیس والے بھی ہیں۔ وہ سب اس کی حفاظت کریں گے لیکن اف میرے خدایا! یہ کیا…؟ وہ اس کی طرف انگلیاں اٹھا رہے تھے۔ وہ سب بھی یہی کہہ رہے تھے۔ ’’یہی ہے وہ… یہی ہے وہ عورت…!‘‘
’’نہیں… نہیں… نہیں…!‘‘ وہ ہسٹریائی انداز میں چیخی اور ایک بار پھر وہاں سے بھی بھاگ کھڑی ہوئی۔ بھاگتی رہی۔ اب وہ ایک لمبی تاریک گلی میں پہنچ گئی تھی۔ گلی کے اختتام پر دہلیز تھی۔ دروازے پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ وہ بھاگ کر دروازے تک آئی۔ پردہ ہٹانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو خوف سے اس پر کپکپی طاری ہوگئی۔
وہ سوچنے لگی۔ اس پردے کے پیچھے کیا ہوسکتا ہے۔ اس پردے کے پیچھے کیا ہے؟ اس کی گھگی بندھ گئی۔ وہ اپنی پوری قوت سے چیخی۔ ’’نہیں… نہیں! میں نہیں دیکھ سکتی۔ میں پردے کو ہٹا کر نہیں دیکھ سکتی، نہیں دیکھ سکتی۔‘‘
’’علینہ … علینہ…!‘‘ کسی نے اس کے شانے پکڑ کر ہلائے۔
وہ اور زور سے چیخی۔ ’’نہیں۔ میں نہیں دیکھ سکتی۔‘‘
’’علینہ…!‘‘ کوئی اس کا نام لے کر پکار رہا تھا۔ کوئی اس کو جھنجھوڑ رہا تھا۔ اس کی آنکھ کھل گئی۔ عرفان اس کے اوپر جھکا ہوا تھا۔ ’’ڈارلنگ…! ڈارلنگ…!‘‘ عرفان نے پیار سے کہا۔
علینہ نے ٹھنڈا سانس بھرا اور بولی۔ ’’اوہ… تم عرفان! تم مجھے چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟‘‘
عرفان نے جواب دیا۔ ’’میں بھلا تمہیں چھوڑ کر کہاں جاسکتا ہوں؟ تم میرے دل کا سکون ہو۔ میں بھلا اپنے سکون سے کیسے دور ہو سکتا ہوں۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ علینہ نے کہا۔ ’’میں بالکل تنہا تھی، تم ابھی آئے ہو۔‘‘
عرفان نے جواب میں کہا۔ ’’تم بھول گئیں علینہ! میں یہیں تھا، برابر کے کمرے میں تصویر مکمل کررہا تھا۔‘‘
علینہ نے عرفان کے بازو تھام لیے اور بولی۔ ’’تم مجھے چھوڑ کر مت جایا کرو عرفان! مت جایا کرو۔‘‘
عرفان نے اس کے گالوں کو تھپتھپا کر کہا۔ ’’اچھا! اب نہیں جائوں گا۔ کیا تم نے پھر کوئی خواب دیکھا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
عرفان قدرے چڑ کر بولا۔ ’’تم یہ خواب دیکھنا کب بند کرو گی؟‘‘
علینہ نے جواب دیا۔ ’’کیا بتائوں عرفان! میں کیا جواب دوں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ مجھے خوف آتا ہے اگر میں نے کسی دن خواب میں پردے کے پیچھے جھانک لیا تو…‘‘ علینہ نے کپکپا کر کہا۔
’’تو کیا ہوگا؟‘‘
’’نہ جانے کیا ہوگا۔ شاید میں مر جائوں گی۔‘‘
’’بکو مت!‘‘ عرفان نے تنبیہ کی۔ ’’میری تمنا ہے کہ تمہارے وجود میں، میں اور صرف میں بسا رہوں۔ لیکن لگتا ہے کہ تمہارے دل و دماغ میں یہ خواب بس گیا ہے۔ اپنے اس رقیب کو مجھے راستے سے ہٹانا پڑے گا۔‘‘
’’لیکن کیسے عرفان! کیسے؟‘‘
’’تم آج میرے ساتھ ڈاکٹر اکرام کے کلینک چلو گی۔ وہ بہت مشہور اور باکمال ماہر نفسیات ہیں۔ وہ تمہارا علاج کریں گے۔‘‘
علینہ ٹھیک آٹھ بجے ڈاکر اکرام کے مطب پہنچ گئی۔ اس نے نرس کو بتایا۔ ’’میں بیگم عرفان ہوں۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا آٹھ بجے کا اپائنٹمنٹ ہے۔‘‘
نرس نے اسے دیکھا اور دیکھتی رہ گئی۔ علینہ گھبرا گئی۔ اس نے پوچھا۔ ’’آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہی ہیں؟‘‘
’’اوہ!‘‘ نرس چونکی۔ ’’آپ اندر تشریف لے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب آپ کا انتظار کررہے ہیں۔‘‘
وہ اندر آگئی۔ ڈاکٹر اکرام نے گفتگو کا آغاز کیا۔ ’’حیرت ہے آپ بھیانک خواب دیکھتی ہیں۔‘‘
’’جی ڈاکٹر صاحب! بہت بھیانک خواب!‘‘
’’آپ اپنا خواب تفصیل سے بتائیں۔‘‘
علینہ نے بتایا۔ ’’میں یہ خواب روزانہ ایک مرتبہ ضرور دیکھتی ہوں۔ یہ خواب مختلف انداز سے شروع ہوتا ہے۔ مختلف مناظر، مختلف فضا، مختلف ماحول! جن سے مجھے خوف آتا ہے۔‘‘
’’آپ کیا دیکھتی ہیں؟‘‘
’’کسی خواب میں پولیس والے ہوتے ہیں، کسی میں عدالت، کسی میں دونوں۔ ان کے علاوہ اٹھتی ہوئی انگلیاں اور آوازیں! لیکن ہر خواب کا اختتام ہمیشہ ایک سا ہوتا ہے۔ میں دیکھتی ہوں کہ ایک طویل اور نیم تاریک گلی میں چلی جارہی ہوں جس کے اختتام پر ایک دہلیز ہے۔ دروازے پر ایک پردہ پڑا ہوا ہے۔ میں پردے کو ہٹا کر اس کے پیچھے جھانکنا چاہتی ہوں لیکن میرے اوپر خوف طاری ہوجاتا ہے۔ کوئی مجھے پردے کے اس پار دیکھنے پر اکساتا ہے لیکن میں کانپنے لگتی ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ پردے کے پیچھے کوئی ہے، کچھ ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ ڈاکٹر اکرام نے پوچھا۔
’’کوئی پرچھائیں، کوئی سایہ، کوئی شے! لیکن میں یہ نہیں جانتی کہ وہ کیا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ دیکھ لوں کیا ہے؟ لیکن خوف زدہ ہوجاتی ہوں۔ پھر میں چیخنے لگتی ہوں۔‘‘
’’اور پھر آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے؟‘‘
’’جی۔ ڈاکٹر صاحب! اگر مجھے یہ یقین نہ ہو کہ میں خواب دیکھ رہی ہوں تو شاید میں اس لمحے کو برداشت نہ کرسکوں۔‘‘
’’تو کیا آپ کو نیند میں بھی یہ یقین رہتا ہے کہ جو کچھ آپ دیکھ رہی ہیں، وہ حقیقت نہیں ہے صرف خواب ہے؟‘‘ ڈاکٹر اکرام نے پوچھا۔
’’جی ہاں۔‘‘
’’عجیب بات ہے۔‘‘
’’کیوں؟ کیا سب لوگ خواب دیکھتے ہوئے ایسا محسوس نہیں کرتے کہ وہ خواب دیکھ رہے ہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ ’’اسی لیے تو لوگ خوابوں سے ڈر جاتے ہیں۔ عام طور پر جب لوگ خواب دیکھتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ حقیقت ان کے سامنے ہے لیکن شاید آپ کی بات اور ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’اس لیے کہ آپ کو خواب دیکھتے ہوئے بھی یہ احساس رہتا ہے کہ آپ خواب دیکھ رہی ہیں۔‘‘
’’سچ ڈاکٹر صاحب! خواب میں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حقیقت نہیں ہے، اس وقت بھی جب میرا دل خوف سے کانپ رہا ہوتا ہے۔ ایک آواز کہتی ہے پگلی! ڈرو مت، یہ خواب ہے۔ یہی آواز میری ڈھارس بندھاتی ہے۔ میں ایک مرتبہ خوف پر قابو پا لیتی ہوں اور شاید اسی لیے میں ایک ماحول سے دوسرے ماحول میں پہنچ جاتی ہوں لیکن جب میں پردے کو ہٹانا چاہتی ہوں تو میرا خوف ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر اکرام نے ٹوکا۔ ’’لیکن آپ برداشت کرلیتی ہیں۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’میں اپنے آپ کو بیدار کرلیتی ہوں۔ ایک آواز کہتی ہے، یہ خواب ہے۔ میں کہتی ہوں تو پھر بیدار ہوجائوں؟ آواز کہتی ہے، ہاں تم بیدار ہوکر ہی اس خوف سے نجات پا سکتی ہو۔ آنکھیں کھول دو اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔ اس سے پہلے کہ تم پردے کے اس پار پہنچ جائو، آنکھیں کھول دو۔ میرا جسم میرا حکم نہیں مانتا لیکن میرا دماغ میرا حکم مانتا ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر میں فرار ہونا چاہتی ہوں۔ میں پوری طاقت کے ساتھ اپنی دماغی صلاحیتوں کو جمع کرکے جاگنے کی کوشش کرتی ہوں۔ ایک چبھن ہوتی ہے اور میں جاگ جاتی ہوں اور پھر میں بچ جاتی ہوں، محفوظ ہوجاتی ہوں۔‘‘
’’کس سے…؟‘‘
’’اس چیز سے جو پردے کے اس پار ہے۔‘‘
’’آپ اس آخری مرحلے کا انتظار کیوں کرتی ہیں؟ آپ خواب کے آثار نمودار ہوتے ہی بیدار کیوں نہیں ہوجاتیں؟‘‘
علینہ نے جواب دیا۔ ’’کاش! میں ایسا کرسکتی! لیکن ڈاکٹر صاحب! جب تک خوف برداشت سے باہر نہیں ہوتا، میں ایسا نہیں کر پاتی۔ اس وقت بھی مجھے اپنی پوری صلاحیت، پوری کوشش اور پوری طاقت بیدار ہونے کے لیے صرف کرنا پڑتی ہے۔ اتنی طاقت کہ جب میں بیدار ہوتی ہوں تو بہت کمزوری محسوس کرتی ہوں۔ آپ یقین کررہے ہیں نا؟‘‘
قبل اس کے کہ ڈاکٹر اکرام جواب دیتا۔ عرفان اندر آگیا۔ اس نے دیر سے آنے کی معافی چاہی۔ وہ کسی کام کی وجہ سے علینہ کے ساتھ نہیں آسکا تھا۔ عرفان کو دیکھ کر علینہ اس کے قریب آگئی اور بولی۔ ’’عرفان! میں بہت تھک گئی ہوں۔‘‘
’’عرفان صاحب! آپ کی بیگم کو مکمل آرام اور آپ کے سہارے کی ضرورت ہے۔ اب آپ انہیں لے جائیں۔‘‘ ڈاکٹر اکرام نے ہدایت کی۔
’’لیکن… ابھی تو…‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا۔
ڈاکٹر اکرام نے عرفان کی بات سمجھ کر کہا۔ ’’آپ فکر نہ کریں۔ ایسے مرض ایک دن میں ٹھیک نہیں ہوا کرتے۔ میں نے ان سے ابتدائی گفتگو کرلی ہے۔ آپ انہیں چار دن بعد دوبارہ لائیں۔ میں اس دن ان کی مکمل تحلیلِ نفسی کروں گا۔‘‘
عرفان اور علینہ جانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ ڈاکٹر اکرام نے گھنٹی بجائی۔ نرس اندر آئی۔ نرس نے پھر علینہ کو گھور کر دیکھا۔ علینہ نے نگاہیں اس کی طرف سے پھیر لیں۔
ڈاکٹر اکرام نے نرس سے کہا۔ ’’سسٹر! بیگم عرفان کو چار دن بعد کا وقت دے دو۔‘‘
نرس نے ایک دفعہ پھر علینہ کو گھور کر دیکھا اور بولی۔ ’’آپ ایک منٹ ٹھہریں، میں اپائنٹمنٹ ڈائری یہیں لے آتی ہوں۔‘‘
اور جب نرس واپس آئی تو ڈاکٹر اکرام اپنے کمرے میں تنہا تھا۔ عرفان اور علینہ وہاں موجود نہیں تھے۔
٭…٭…٭
واپسی پر عرفان، علینہ کو اپنے برابر کار میں بٹھا کر گھر کی طرف جارہا تھا۔ وہ دونوں خاموش تھے۔ چند لمحوں کے بعد عرفان بولا۔ ’’دیکھو علینہ! میں تم سے بے انتہا محبت کرتا ہوں۔ مجھے تمہاری ہر بات اچھی لگتی ہے لیکن بعض اوقات تمہارا رویہ میری خفت کا سبب بن جاتا ہے۔‘‘
’’مثلاً…؟‘‘ علینہ نے پوچھا۔
’’مثلاً ابھی تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹر اکرام کے دفتر میں…‘‘ عرفان جواب میں بولا۔ ’’ڈاکٹر صاحب نے نرس سے وقت دینے کو کہا تھا۔ نرس اپنی ڈائری لینے گئی اور تم مجھے ان کے کلینک سے باہر کھینچ لائیں، وقت بھی نہیں لیا۔ وہ لوگ آخر کیا سوچیں گے؟‘‘
علینہ کے چہرے پر خوف اور دہشت کے آثار پیدا ہوگئے۔ اس کا بدن کپکپانے لگا۔ لرزتی آواز میں اس نے کہا۔ ’’عرفان! وہ نرس… وہ نرس… مجھے گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔ مجھے اس کی نگاہوں سے خوف آنے لگا تھا۔ میں ایسا محسوس کرنے لگی تھی جیسے وہ ابھی شور مچا دے گی۔ یہی ہے، وہ عورت یہی ہے۔‘‘
’’افوہ…‘‘ عرفان اپنی کار کو سامنے سے آتی ہوئی دوسری کار سے بچاتے ہوئے چیخا۔
’’افوہ کیا!‘‘ علینہ نے حادثے کے خطرے کا احساس کیے بغیر چیخ کر کہا۔ ’’ابھی تک میری طرف انگلیاں اٹھانے والا ہر آدمی میرے اس بھیانک خواب کا ایک حصہ ہوتا ہے اور اگر اس وقت وہ نرس بھی جاگتے میں وہی الفاظ دہرانے لگتی تو… تو میرا کیا حال ہوتا؟‘‘
عرفان نے علینہ کی بدلتی ہوئی حالت کا فوری علاج سوچ لیا۔ اس نے اسٹیئرنگ سے ایک ہاتھ ہٹا کر علینہ کو قریب کرتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا اب اس ذکر کو چھوڑو، تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ گھر چل کر تم آرام کرنا اور میں فون پر ڈاکٹر صاحب سے وقت اور تاریخ کا تعین کرلوں گا۔‘‘
علینہ نے اپنا سر اس کے شانے پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا! ٹھیک ہے۔‘‘
٭…٭…٭
’’وہ لوگ چلے گئے؟‘‘ نرس فریحہ نے ڈاکٹر اکرام سے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
’’بغیر وقت لیے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ ڈاکٹر نے ترشی سے کہا۔ ’’اور یہ تمہارا قصور ہے۔‘‘
’’میں نے کیا کیا سر؟‘‘ وہ بے چاری پریشان ہوکر بولی۔
’’تم نے یہ کیا ہے کہ تم اسے گھور کر دیکھ رہی تھیں۔ وہ تم سے خوف زدہ نظر آرہی تھی۔ کیوں دیکھ رہی تھیں تم اسے اس طرح گھور کر؟‘‘ ڈاکٹر نے اسے گھور کر پوچھا۔
’’ڈاکٹر صاحب!‘‘ فریحہ نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا۔ ’’کیا واقعی وہ خاتون مسز عرفان تھیں؟‘‘
’’ہاں! کیوں؟‘‘
’’تو پھر میں انہیں ٹھیک گھور رہی تھی۔ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اکرام نے فریحہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’ڈاکٹر صاحب!‘‘ فریحہ نے کہا۔ ’’عرفان صاحب کی تصویریں میں اخبارات میں دیکھ چکی ہوں۔ وہ خاصے مشہور مصور ہیں۔ آپ نے جب مسز عرفان کے لیے وقت دیا تو اس وقت بھی میں چونکی تھی لیکن میں نے سوچا کہ شاید وہ کسی اور عرفان کی بیگم ہوں گی لیکن جب مسٹر عرفان خود آئے تو مجھے پتا چلا کہ وہ خاتون تو انہی کی بیگم ہیں… لیکن نہیں…!‘‘
’’تم کہنا کیا چاہتی ہو؟‘‘
’’ڈاکٹر صاحب! مجھے یاد ہے نو ماہ قبل میں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی تھی۔ نہیں ڈاکٹر صاحب! یہ عورت مسز عرفان نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’کیوں نہیں ہوسکتی؟‘‘
’’اس لیے کہ…‘‘ نرس فریحہ نے پُریقین انداز میں کہا۔ ’’ کہ نو مہینے پہلے اخبار کی خبر کے مطابق مسز عرفان خودکشی کرکے مرچکی ہیں۔‘‘ فریحہ نے انکشاف کیا۔
ڈاکٹر اکرام کے ذہن میں ایک چھناکا سا ہوا۔ اس نے فریحہ سے پوچھا۔ ’’جو کچھ تم کہہ رہی ہو، کیا اس کا تمہیں یقین ہے؟‘‘
’’بالکل۔‘‘ فریحہ نے جواب دیا۔ ’’مسز عرفان کی خودکشی کا کیس اخبار میں کئی دفعہ آیا تھا۔ آپ کو یقین نہیں تو آپ پولیس والوں سے دریافت کرسکتے ہیں۔‘‘
’’گڈ آئیڈیا۔‘‘ اکرام نے چٹکی بجائی۔ ’’میں ابھی انسپکٹر صدیقی سے رابطہ کرتا ہوں۔‘‘
چند سیکنڈوں بعد وہ فون پر اس سے باتیں کررہا تھا۔ رسمی گفتگو کے بعد اس نے پوچھا۔ ’’یار صدیقی! تم مسٹر عرفان سے واقف ہو…؟ وہی مصور! نو ماہ پہلے سنا تھا ان کی بیگم نے خودکشی کرلی تھی۔ اچھا…! خودکشی کا سبب معلوم نہیں ہوسکا تھا؟ خیر۔ کیا مجھے اس کیس کی فائل دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے؟ کیا کہا…؟ خود تمہی نے ہی تفتیش کی تھی، فائل تمہارے دفتر میں موجود ہے۔ اچھا ایسا کرو فائل نکلوا کر رکھو، میں فوراً تمہارے پاس آرہا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر اکرام نے فون بند کردیا۔ فریحہ جو ان کی گفتگو بڑی توجہ سے سن رہی تھی، بولی۔ ’’اب تو آپ کو یقین آگیا سر…؟‘‘
’’ہاں! نہ صرف یقین آگیا بلکہ تمہاری اچھی یادداشت کا بھی قائل ہوگیا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر اکرام نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ ’’لیکن ایک بات ہے؟‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’عرفان کی خودکشی کرنے والی بیوی کا نام نجمہ تھا اور اس کی موجودہ بیوی کا نام علینہ ہے۔ وہ خاتون عرفان کی پہلی بیوی تھی۔‘‘
’’ارے!‘‘ فریحہ نے یوں کہا جیسے اس انکشاف سے اسے دکھ پہنچا ہو۔ ’’پھر تو میری بات کی ساری سنسنی ہی ختم ہوگئی۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ ڈاکٹر اکرام نے اسرار بھرے لہجے میں کہا۔ ’’سنسنی تو اب شروع ہوئی ہے اس انکشاف کے بعد! نہ معلوم کیوں مجھے یقین ہو چلا ہے کہ اب میں اپنی مریضہ بیگم علینہ عرفان کو ان کے خواب کی مصیبت سے جلد نجات دلا سکوں گا۔‘‘
٭…٭…٭
ڈاکٹر اکرام نے انسپکٹر صدیقی سے ملاقات کی۔ بیگم نجمہ عرفان کی خودکشی کے کیس کی مکمل تفتیش کا مطالعہ کیا اور انسپکٹر صدیقی سے درخواست کی کہ وہ اسے اس کیس کی فائل دے دے۔ صدیقی نے اپنے محکمے سے اجازت حاصل کرنے کے بعد فائل ڈاکٹر اکرام کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! میں آپ کا دوست بھی ہوں اور مداح بھی! میں نے آپ کی فرمائش پوری کردی لیکن اس بات کا خیال رہے کہ میں پولیس انسپکٹر بھی ہوں۔‘‘
’’تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘ ڈاکٹر نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔
’’یہی کہ ایک پولیس انسپکٹر ہونے کی حیثیت سے تجسس میری عادت ہے۔ آپ اس فائل میں اپنی مریضہ کی کسی نفسیاتی الجھن کا علاج تلاش کریں گے۔ ہوسکتا ہے آپ کو اس میں کوئی ایسا نکتہ مل جائے جس سے پولیس بھی دلچسپی رکھتی ہو تو مجھے بھی آگاہ کردیں۔‘‘
’’اوہ!‘‘ ڈاکٹر اکرام اس کی بات سمجھ کر بولا۔ ’’یقیناً ایک شہری کی حیثیت سے قانون کا احترام میرا فرض ہے۔ پولیس کے کام کی بات سب سے پہلے میں تمہیں بتائوں گا۔ میرا خیال ہے کہ مجھے تمہاری مدد کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘‘
’’پولیس تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ کہتے ہوئے انسپکٹر یاور صدیقی نے مسکراتے ہوئے مصافحے کے لیے اس کی جانب ہاتھ بڑھا دیا۔
٭…٭…٭
باہر لان میں عرفان ایک تصویر بنانے میں مشغول تھا۔ علینہ نے اندر سے اسے کئی دفعہ آوازیں دی تھیں لیکن عرفان نے جواب نہیں دیا تھا۔ اکتا کر علینہ باہر آگئی۔ اس نے شکوہ کیا۔ ’’عرفان! میں کتنی دیر سے تمہیں آوازیں دے رہی ہوں اور تم نہ معلوم کن سوچوں میں ہو۔‘‘
عرفان نے پلٹ کر اسے دیکھا اور نرمی سے بولا۔ ’’میں اپنے رنگوں میں گم تھا۔‘‘
’’کیا تمہیں کوئی نیا سبجیکٹ ملا ہے؟‘‘
’’تمہارے وجود نے مجھے ایک نیا خیال، نیا سبجیکٹ دے دیا ہے۔‘‘
’’عرفان! میں تم سے بہت ناراض ہوں۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘ عرفان نے برش رکھ کر کہا۔ ’’ایسی باتیں مت کیا کرو، اگر تم مجھ سے ناراض ہوگئیں تو میرا فن تشنہ رہ جائے گا۔ تصویریں بنانے میں میرا دل بالکل نہیں لگے گا۔‘‘
’’میں واقعی ناراض ہوں تم سے!‘‘ علینہ نے منہ بسورا۔
’’وجہ؟‘‘
’’تم مجھے ڈاکٹر کے پاس کیوں لے گئے تھے؟‘‘
’’دیکھو علینہ!‘‘ عرفان نے پیار سے سمجھایا۔ ’’تمہارے اندر ایک نفسیاتی الجھن ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں ہاں… شعور، لاشعور کا مسئلہ! میں نے سوچا ڈاکٹر اکرام کے پاس تمہاری الجھنوں کا حل نکل آئے گا۔ وہ بہت مانا ہوا ماہر نفسیات ہے۔ ہوسکتا ہے وہ پتا چلانے میں کامیاب ہوجائے کہ تمہارے اس تکلیف دہ خواب کا محرک کیا ہے؟ اس پردے کے پیچھے کیا ہے جسے تم دیکھنے سے ڈرتی ہو۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ علینہ ایک دم گھبرا کر چیخی۔ ’’میں کتنی مرتبہ تم سے کہوں، میں پردے کے پیچھے کا منظر نہیں دیکھنا چاہتی۔ مجھے ہول آنے لگتا ہے، میں پردے کے پار نہیں دیکھنا چاہتی۔‘‘
٭…٭…٭
دوسری بار جب علینہ اس کے مطب میں آئی تو ڈاکٹر اکرام نے اس کے ذہنی خلفشار کو سکون پہنچانے کے لیے انجکشن لگایا۔ اس کے بعد اس نے علینہ کو میز پر لٹا دیا اور خود میز کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا اور اس سے خواب دہرانے کے لیے کہا۔
علینہ نے تعمیل کی۔ خواب سناتے ہوئے علینہ نے ڈاکٹر سے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ میرا یقین کررہے ہیں نا؟‘‘
’’ہاں۔ سو فیصد! آپ کے خواب کے کچھ حصے عام خوابوں سے ملتے ہیں۔ ہوا میں اڑنے کی سی کیفیت، پلک جھپکتے میں ماحول اور منظر بدلنے کا عمل، خوف! لیکن آپ نے اپنے خواب کی ایک ضروری تفصیل مجھے ابھی تک نہیں بتائی۔‘‘
’’میں آپ کو سب کچھ بتا چکی ہوں۔‘‘ علینہ نے کہا۔
’’علاوہ ایک بات کے۔‘‘ ڈاکٹر اکرام نے لہجے میں تھوڑی سی سختی پیدا کرکے پوچھا۔ ’’بیگم عرفان! یہ بتایئے پردے کے اس پار کیا ہے؟‘‘
علینہ نے گھبرا کر جواب دیا۔ ’’مجھے نہیں معلوم، نہ میں معلوم کرنا چاہتی ہوں۔ میں صرف یہ جانتی ہوں کہ وہ ضرور کوئی خوفناک چیز ہے جو انتظار کررہی ہے۔‘‘
’’کس کا…؟‘‘
’’میرا اور کس کا…؟‘‘
’’ہوں! لیکن بیگم عرفان! آپ ایک دفعہ پردے کے پیچھے، پردے کے اس پار جھانکنے کی کوشش تو کریں۔‘‘
علینہ خوف سے کانپنے لگی۔ وہ بولی۔ ’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟‘‘
’’حرج بھی کیا ہے؟ وہ محض ایک خواب ہی تو ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے اصرار کیا۔
’’نہیں۔ ڈاکٹر نہیں…!‘‘ علینہ نے التجا کی۔ ’’یہ کہنا آسان ہے لیکن اس نیم تاریکی میں جب میں بالکل اکیلی ہوتی ہوں، فرار کی خواہش بہت شدید ہوتی ہے۔‘‘
’’اگر آپ بیدار نہ ہونے کا تہیہ کرلیں تو یہ ایک دلچسپ نفسیاتی نکتہ ہوگا۔ آپ کے علاج میں اس طرح شاید مجھے کچھ مدد مل جائے۔‘‘ ڈاکٹر اکرام بولا۔
علینہ نے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا۔ ’’نہیں! میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتی۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ مجھے معلوم ہے اگر میں نے پردے کے اس پار جھانک کر دیکھ لیا تو… تو!‘‘
’’کیا ہوگا؟‘‘
’’میں مر جائوں گی۔ میں مر جائوں گی۔‘‘
’’حالانکہ آپ کو یہ تک نہیں معلوم کہ وہاں ہے کیا؟‘‘
’’مجھے اس کی جسامت، اس کے رنگ، اس کی ہئیت، اس کی نوعیت کا بالکل اندازہ نہیں ہے لیکن یہ ضرور جانتی ہوں کہ وہ کوئی ایسی چیز ہے جس سے مجھے ڈرنا چاہیے۔‘‘
’’آپ مجھ سے ایک وعدہ کریں گی؟‘‘
’’کیسا وعدہ ڈاکٹر؟‘‘
’’اگر آپ اتفاق سے پردے کے اس پار چلی جائیں تو مجھے ضرور بتائیں کہ وہاں کیا ہے۔‘‘
’’لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں ہمیشہ اپنے آپ کو بیدار کرلوں گی۔‘‘
ڈاکٹر اکرام نے علینہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برف جیسے سرد لہجے میں کہا۔ ’’مسز عرفان! آپ کے بیدار ہونے کی صلاحیت ختم بھی تو ہوسکتی ہے۔‘‘
علینہ گھبرا کر میز پر اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بولی۔ ’’ڈاکٹر! خدا کے لیے مجھے اس خواب سے بچایئے۔ اس سے پہلے کہ میں جاگنے کی صلاحیت کھو دوں، مجھے اس خواب سے نجات دلا دیں۔‘‘
ڈاکٹر اکرام نے اسے سہارا دے کر دوبارہ لٹا دیا اور بولا۔ ’’میرے پاس ابھی اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ایک سوال کا جواب دیں۔‘‘
’’جی!‘‘
’’جب آپ یہ جانتی ہیں کہ آپ خواب دیکھ رہی ہیں تو پھر اتنا خوف زدہ کیوں ہوجاتی ہیں؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘
’’میں بتاتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔ ’’آپ کے خوف کی اصل وجہ دراصل خواب میں نہیں، آپ کی بیدار زندگی میں ہے۔ خواب والا پردہ محض ایک علامت ہے اس چھپے ہوئے خوف کا جو آپ کے لاشعور میں بیداری کے دوران طاری رہتا ہے۔ خواب میں وہ حقیقت بن جاتا ہے۔‘‘
’’لیکن ڈاکٹر!‘‘ وہ بولی۔ ’’میری زندگی میں کسی خواب کا وجود نہیں ہے۔‘‘
’’یہ صرف آپ کا خیال ہے۔‘‘ ڈاکٹر اکرام نے بتایا۔ ’’انسان کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو پہلے دماغ میں داخل نہ ہوچکی ہو۔ دماغ خواب تخلیق نہیں کرتا۔ صرف خیالات کی عکسبندی کرتا ہے۔ بیگم عرفان! آپ کے ذہن پر کس چیز کا خوف چھایا ہوا ہے، سوچ کر بتائیں۔‘‘
علینہ نے قدرے ہکلا کر جواب دیا۔ ’’کسی چیز کا نہیں، میں بہت خوش ہوں۔‘‘
’’آگے کہیں۔‘‘
علینہ نے اپنے آپ پر قابو پا کر اپنا بیان جاری رکھا۔ ’’میرا ماضی پاک صاف ہے۔ میری زندگی میں کسی بڑی ناکامی کا دخل نہیں۔ میں کسی چیز سے نہیں ڈرتی۔‘‘
’’پھر تو آپ بہت سے انسانوں سے زیادہ خوش قسمت ہیں۔ کیا مالی پریشانیاں؟‘‘
’’بالکل نہیں! مجھے اپنے والد سے بہت کچھ ترکے میں ملا ہے۔‘‘
’’آپ کی ازدواجی زندگی؟‘‘
’’مثالی ہے۔‘‘
’’کتنا عرصہ ہوا آپ کی شادی کو؟‘‘
’’نو مہینے!‘‘
’’آج سے نو ماہ پہلے آپ کی زندگی کا کوئی خاص واقعہ؟‘‘
’’نہیں! بالکل نہیں۔‘‘
’’نفرتیں، محبتیں؟‘‘
’’محبتیں ہی محبتیں! میں کبھی تنہائی کا شکار نہیں رہی۔‘‘
’’اور… آپ کے شوہر؟‘‘
’’محبت کے دیوتا۔ میں انہیں بہت چاہتی ہوں۔‘‘
’’ان کا مشغلہ؟‘‘
’’رنگ، کینوس، تخلیق اور میں…!‘‘
’’کامیاب؟‘‘
’’ہاں! فنی اعتبار سے۔‘‘
’’میرا مطلب مالی اعتبار سے تھا۔‘‘
’’انہیں اس سے دلچسپی نہیں۔ مصوری ان کی دوسری زندگی ہے۔‘‘
’’اور پہلی آپ! خیر مسلسل مصوری کرتے ہیں؟‘‘
’’ہاں! لیکن پچھلے سال سے وہ زیادہ کام نہیں کر پا رہے۔‘‘
’’کوئی خاص وجہ؟‘‘
’’ہاں! ان کی آنکھوں میں تکلیف رہتی ہے۔‘‘
’’خوب!‘‘
’’آپ کا خیال غلط ہے۔‘‘ علینہ کے لہجے سے اب خفگی نمایاں ہونے لگی تھی۔ وہ بولی۔ ’’میں سمجھ گئی کہ آپ نے خوب کیوں کہا۔ عرفان نے مجھ سے شادی دولت کے لیے نہیں کی۔ ان کی اپنی اچھی خاصی آمدنی ہے۔ ہم دونوں کی آمدنی مل کر ہمارے لیے کافی ہوتی ہے۔‘‘
’’لیکن میرا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ ڈاکٹر اکرام بولا۔
’’آپ کا یہی مطلب تھا ڈاکٹر صاحب! آپ کی فکر اب نفسیاتی دائروں سے باہر نکل گئی ہے۔‘‘
علینہ شاید ابھی کچھ اور بولتی لیکن ڈاکٹر اکرام کی نرس فریحہ نے اندر آکر اسے خاموش ہوجانے پر مجبور کردیا۔ نرس ایک ٹرے میں جوس کے دو گلاس لے کر اندر داخل ہوئی تھی۔ وہ ڈاکٹر اکرام اور علینہ عرفان کی
طرف بڑھی اور بولی۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کے دونوں مہمان آگئے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر اکرام نے نرس فریحہ کو ہدایت کی کہ مہمانوں کو استقبالیہ کمرے میں بٹھائے اور اشارہ کیا کہ ایک گلاس علینہ کو دے دے۔ دوسرا ڈاکٹر نے خود لے لیا۔
علینہ اگرچہ خاموش ہوگئی تھی۔ لیکن اس کے چہرے پر خوف کی لہریں اب بھی موجود تھیں۔ نرس نے جب اس کی طرف گلاس بڑھایا تو علینہ نے غصے سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
ادھر ڈاکٹر اکرام نے جان بوجھ کر علینہ کی نظریں بچاتے ہوئے اپنا گلاس فرش پر گرا دیا۔ گلاس کے چھناکے نے علینہ کا دھیان ہٹا دیا۔ اس نے پوچھا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کے کپڑے تو خراب نہیں ہوئے؟‘‘
ڈاکٹر اکرام نے اسے بتایا کہ کپڑے خراب نہیں ہوئے لیکن کلینک کا فرش ضرور خراب ہوگیا ہے جو صاف کردیا جائے گا۔ پھر اس نے علینہ سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی گفتگو جاری رکھے۔
تب تک علینہ کا غصہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ اس نے ڈاکٹراکرام سے اس بات پر معافی مانگی کہ اس کے لہجے میں ترشی آگئی تھی اور کہا کہ اب وہ گھر واپس جانا چاہتی ہے۔ اکرام نے اسے اجازت دے دی۔
علینہ کے جانے کے بعد نرس فریحہ نے ڈاکٹر اکرام سے پوچھا کہ اس نے جان بوجھ کر گلاس کیوں توڑا تو ڈاکٹر اکرام نے اسے بتایا کہ بعض اوقات ڈاکٹروں کو اپنے مریضوں کے ساتھ تھوڑا بہت ڈراما بھی کرنا پڑتا ہے۔ مسز عرفان کا غصہ بڑھتا جارہا تھا، اس کا دھیان ہٹانے اور غصہ کم کرنے کے لیے کچھ کرنا ضروری تھا۔
٭…٭…٭
جس وقت ڈاکٹر اکرام اپنے کلینک کے نجی کمرے میں علینہ عرفان سے گفتگو کررہا تھا، اس وقت عرفان اس کے کلینک میں ایک کمرے میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ اسے شدت سے علینہ کی واپسی کا انتظار تھا۔ وہ اسی طرح علینہ کے لیے بے چین ہوجایا کرتا تھا تاہم وہ یہ بھی جاننا چاہتا تھا کہ ڈاکٹر اکرام اب تک کس نتیجے پر پہنچا ہے۔
بار بار پہلو بدلنے کی بجائے بالآخر اس نے طے کیا کہ وہ اخبار سے دل بہلائے۔ چیئر پر بیٹھی ہوئی نرس فریحہ، عرفان کو انہماک سے دیکھ رہی تھی کہ استقبالیہ میں دو افراد داخل ہوئے۔ ایک لمحے کے لیے عرفان نے اخبار سے نظریں ہٹا کر اس طرف دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔
یوں آنے والوں میں سے ایک نے عرفان کو بھی دیکھا اور وہ بھی عرفان کو دیکھتا رہ گیا۔ وہ دونوں غالباً عرفان کو پہچاننے کی کوشش کررہے تھے۔
نرس نے خوش اخلاقی سے مہمانوں سے کہا۔ ’’فرمایئے! میں آپ کی کیا خدمت کرسکتی ہوں؟‘‘
وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے نرس کو اپنا نام بتایا۔ عرفان نہیں سن سکا۔ مہمانوں نے ڈاکٹر اکرام سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ نرس فریحہ نے انہیں بتایا کہ ڈاکٹر صاحب مصروف ہیں، انہیں انتظار کرنا ہوگا۔
وہ دونوں عرفان کے قریب ہی دوسرے صوفوں پر بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک شخص عرفان سے مخاطب ہوا۔ ’’آپ مسٹر عرفان ہیں؟‘‘
’’جی ہاں!‘‘ عرفان نے جواب میں کہا اور خود بھی اس سے مستفسر ہوا۔ ’’اور آپ…؟‘‘ میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔‘‘
مہمان شخص نے مسکرا کر کہا۔ ’’نو ماہ کا عرصہ اتنا طویل نہیں ہوتا کہ آپ مجھے بھول جائیں۔ میں نے آپ کی بیوی نجمہ کی خودکشی کی تفتیش کی تھی۔‘‘
’’اوہ… انسپکٹر یاور صدیقی! کیسے ہیں آپ؟‘‘
اس دوران نرس مہمانوں کی آمد کی اطلاع دینے کے لیے ڈاکٹر اکرام کے کمرے میں جا چکی تھی۔
عرفان اور صدیقی آپس میں گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ دوسرا مہمان وقت گزارنے کے لیے اٹھ کر ٹہلنے لگا تھا کہ علینہ کمرے سے عجلت میں نکلی اور ٹہلنے والے مہمان سے ٹکرا گئی۔ اگلے لمحے وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
اچانک علینہ نے ایک زور دار چیخ ماری۔ صدیقی کھڑا ہوگیا۔ عرفان، علینہ کی طرف بڑھا۔ اندر سے ڈاکٹر اکرام اور نرس فریحہ بھاگ کر اس کمرے میں آئے۔
علینہ نے عرفان کا ہاتھ پکڑا اور اسے گھسیٹتی ہوئی کلینک سے باہر لے گئی۔
ڈاکٹر اکرام، صدیقی اور دوسرے مہمان شخص کو لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS