کمرے سے نکل کر عرفان نے علینہ سے پوچھا کہ اس نے یہ غیر معمولی حرکت کیوں کی۔
’’عرفان! وہ آدمی جو مجھ سے ٹکرایا اور مجھے گھور رہا تھا۔ یہ وہی ہے جو مجھے خواب میں نظر آتا ہے۔‘‘ علینہ نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔ اس کی بات سن کر عرفان کے چہرے پر گمبھیرتا طاری ہوگئی۔
٭…٭…٭
ڈاکٹر اکرام کے دوسرے مہمان کا نام ہاشم تھا۔ ہاشم، یاور صدیقی اور اکرام، عرفان اور علینہ کے جانے کے بعد ڈاکٹر کے نجی کمرے میں بیٹھے گفتگو کررہے تھے۔
ڈاکٹر اکرام نے پوچھا۔ ’’ہاں بھئی صدیقی! تمہارا تجربہ کیسا رہا؟‘‘
انسپکٹر یاور صدیقی نے جواب میں کہا۔ ’’بہت کامیاب۔ تمہارے تعاون کی وجہ سے ہم بہت صحیح وقت پر یہاں پہنچ گئے۔ ہماری ملاقات عرفان اور بیگم عرفان دونوں سے ہوگئی لیکن اکرام یہ صرف میرا تجربہ تو نہیں تھا۔ یہ تجویز تمہاری طرف سے آئی تھی۔ تم سنائو تمہارا تجربہ کیسا رہا؟‘‘
’’میرے تجربے کا دارومدار ہاشم صاحب کے جواب پر ہے۔‘‘ ڈاکٹر اکرام نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’جی ہاشم صاحب! آپ نے مسز عرفان کو دیکھا؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’اور…؟‘‘
’’ڈاکٹر صاحب!‘‘ ہاشم نے بتایا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ یہ وہی عورت ہے۔‘‘
’’او میرے خدایا! کیا واقعی؟‘‘ ڈاکٹر اکرام کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’ڈاکٹر صاحب!‘‘ انسپکٹر یاور صدیقی نے ڈاکٹر اکرام کو مخاطب کیا۔ ’’اس انکشاف کے بعد مجھے یقیناً قانون کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کچھ اقدامات کرنے پڑیں گے۔ امید ہے تم…‘‘
ڈاکٹر اکرام نے انسپکٹر صدیقی کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’مسٹر یاور! میں پہلے ہی اس سلسلے میں قانون سے تعاون کررہا ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج تم یہاں ہوتے اور نہ تمہیں اس کیس کی بھنک ملتی لیکن میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ مسز عرفان میری مریضہ ہے، میں اس کا معالج ہوں۔ مجھے اس کی نجی زندگی اور قانونی حیثیت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مجھے صرف اس کے علاج سے دلچسپی ہے اور اس کا علاج میرا فرض ہے۔ بس! تم اس بات کو یاد رکھنا۔‘‘
اس کی بات سن کر انسپکٹر یاور صدیقی اپنے سر کو تفہیمی جنبش دینے لگا۔
٭…٭…٭
رات بہت تاریک تھی۔ گیارہ بجے تھے۔ علینہ تھوڑی دیر پہلے ہی بستر پر لیٹی تھی۔ ڈاکٹر اکرام کے ہاں سے واپس آنے کے بعد اس کی طبیعت بوجھل تھی۔ عرفان ہر طرح اس کی دل جوئی کی کوشش کرتا رہا۔ بڑی مشکل سے علینہ نے بستر کا رخ کیا تھا۔
عرفان نے جھک کر دیکھا، علینہ کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں۔ اس کے چہرے پر معصومیت پھیلی ہوئی تھی۔ عرفان نے اس کے بالوں پر پیار سے ہاتھ پھیرا، ایک جماہی لی اور سونے کے لیے کروٹ بدلی کہ یکایک دروازے پر کسی نے گھنٹی بجائی۔
عرفان نے علینہ کو دیکھا وہ بدستور سو رہی تھی۔ وہ جلدی سے دروازے کی طرف لپکا تاکہ دوسری گھنٹی بجنے سے پہلے وہاں پہنچ جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ علینہ جاگ جائے۔
جب عرفان دروازہ کھول رہا تھا تو خواب میں علینہ کے جسم نے جھرجھری لی۔ اگر عرفان وہاں ہوتا تو سمجھ جاتا کہ وہ پھر اپنے خواب کی دنیا میں پہنچ گئی ہے۔
اس وقت علینہ ایک جنگل میں تھی۔ اس کے سامنے ایک شیر کھڑا دھاڑ رہا تھا۔ لیکن اس کی دھاڑ میں عجیب قسم کی مانوسیت تھی۔ اس نے غور سے دیکھا شیر کے بدن پر انسانی چہرہ تھا۔ یہ وہی چہرہ تھا جو اسے خوابوں میں ڈرایا کرتا تھا۔ وہ اس سے ڈر کر بھاگنے لگی، حتیٰ کہ اس دہلیز پر پہنچ گئی جہاں پردہ تھا۔ جسے ہٹانے سے وہ اب تک کتراتی آرہی تھی۔
وہ پردہ ہل رہا تھا۔ اس نے کپکپاتے ہوئے اپنا ہاتھ پردے کی طرف بڑھایا۔ آواز آئی۔ ’’دیکھ لو، پردے کے پیچھے کیا ہے۔ دیکھ لو۔‘‘
’’نن… نہیں… نہیں۔‘‘ وہ چیخی۔
اب وہ جاگ چکی تھی اور اپنے بستر پر پڑی چیخ رہی تھی۔ عرفان بھاگتا ہوا اندر آیا۔ اس کے پیچھے دو اور آدمی تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے گھنٹی بجائی تھی۔
عرفان، علینہ پر جھکا۔ اس نے پوچھا۔ ’’پھر وہی خواب؟‘‘
’’ہاں!‘‘ علینہ کا جواب اثبات میں تھا۔
’’اچھا!‘‘ عرفان نے کہا۔ ’’اب تم ذرا خود کو سنبھالو۔ یہ لوگ تم سے ملنے آئے ہیں۔‘‘
علینہ نے دونوں کو دیکھا اور اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپا کر بولی۔ ’’یہ تو وہی دونوں ہیں۔‘‘
’’ہاں! یہ ہمیں ڈاکٹر اکرام کے ہاں ملے تھے۔‘‘ عرفان نے تصدیق کی۔
’’یہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ علینہ نے دریافت کیا۔
’’تم سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’نہیں، یہ میرا پیچھا کیوں کررہے ہیں۔ ان سے کہو کہ میرا پیچھا چھوڑ دیں۔‘‘ وہ ہراساں لہجے میں بولی۔
عرفان نے معذرت طلب نظروں سے آنے والوں کی طرف دیکھا اور ان سے درخواست کی کہ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھیں۔
ان کے جانے کے بعد عرفان نے علینہ کو سمجھایا۔ ’’دیکھو ان میں سے ایک پولیس انسپکٹر ہے۔ اس کا نام یاور صدیقی ہے اور دوسرا ہاشم ہے جو ایک کیمسٹ ہے۔ وہ دونوں تم سے کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان کے سوالات کا جواب دینا ہوگا۔ ہمیں ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا ضمیر صاف ہے۔ ہمارا ماضی بے داغ ہے۔ انسپکٹر یاور کو ضابطے کی کارروائی کرنا ہے۔ ہمیں تعاون کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے ان سے تعاون نہ کیا تو اس کا مطلب غلط لیا جاسکتا ہے۔‘‘
علینہ اس کے سمجھانے کے بعد مان گئی تو عرفان اسے سہارا دے کر ڈرائنگ روم میں لے گیا۔ علینہ کو آتا دیکھ کر صدیقی اور ہاشم دونوں کھڑے ہوگئے۔
انسپکٹر صدیقی، علینہ سے مخاطب ہوا۔ ’’مسز علینہ عرفان! آپ کو یاد ہوگا، آج سے نو مہینے پہلے عرفان صاحب کی پہلی بیگم نجمہ عرفان کا انتقال ہوگیا تھا؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ علینہ نے جواب دیا۔ ’’اس نے زہر پی لیا تھا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ صدیقی بولا۔ ’’ایک ایسا زہر جو آنکھ کی بعض دوائوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن جسے پینے سے انسان ہلاک ہوسکتا ہے۔‘‘
’’نجمہ نے خودکشی کی تھی۔‘‘ علینہ نے کہا۔
’’پولیس کی بھی یہی رائے تھی۔‘‘ انسپکٹر صدیقی بولا۔
’’نجمہ کی خودکشی کی بہت سی وجوہ تھیں۔‘‘ عرفان نے وضاحت کی۔
’’جی ہاں۔‘‘ انسپکٹر صدیقی نے کہا۔ ’’مثلاً یہ کہ وہ معذور تھیں۔ کار کے ایک حادثے میں۔ ایک ایسی کار کے حادثے میں مسٹر عرفان جسے آپ چلا رہے تھے، ان کی دونوں ٹانگیں ضائع ہوگئی تھیں۔ نجمہ عرفان اپنی بدقسمتی کا ذمہ دار آپ کو ہی ٹھہراتی تھیں۔‘‘
’’یہ غلط ہے، وہ محض ایک حادثہ تھا۔‘‘ عرفان نے چیخ کر کہا۔
’’شاید!‘‘ انسپکٹر صدیقی بولا۔ ’’لیکن اس وقت ہماری گفتگو کا موضوع وہ حادثہ نہیں ہے۔ اس حادثے کی وجہ سے نجمہ اس قابل نہیں رہی کہ وہ ماں بن سکتی۔ لہٰذا وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگئی تھی۔ قانون نے یہ تمام باتیں ذہن میں رکھ کر ہی فیصلہ دیا تھا کہ نجمہ نے پاگل پن کے تحت خودکشی کی تھی۔ اس لیے کیس فائل کردیا گیا۔ ہم سب اسے بھول گئے۔ نو مہینے بعد ڈاکٹر اکرام کے ہاں ایک مریض آیا جس کے نتیجے میں بھولے ہوئے کیس کے متعلق میری، ڈاکٹر اکرام سے گفتگو ہوئی۔‘‘
یہاں پہنچ کر انسپکٹر صدیقی ذرا دیر کے لیے رکا۔ وہ ماضی کے اس لمحے میں پہنچ گیا جب کیس کی فائل پڑھنے کے بعد ڈاکٹر اکرام نے انسپکٹر صدیقی سے پوچھا تھا۔ ’’فائل میں جو رپورٹیں ہیں، ان سے مجھے یہ تاثر ملا ہے کہ تمہیں نجمہ کی خودکشی پر شک تھا۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’اس کی وجہ؟‘‘
’’نجمہ نے زہر کھا کر خودکشی کی تھی لیکن ہم کسی طرح بھی یہ معلوم نہ کرسکے کہ نجمہ نے زہر کس طرح حاصل کیا۔‘‘
’’کوئی اور بھی تو زہر خرید سکتا تھا۔‘‘
’’مثلاً عرفان! مگر زہر انہوں نے بھی نہیں خریدا تھا۔‘‘
’’میں نے عرفان کا نام نہیں لیا تھا۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ کوئی اور بھی تو یہ زہر خرید سکتا تھا۔‘‘
’’لیکن کون؟‘‘
’’خیر! یہ معلوم کرنا تمہارا کام ہے۔ نا معلوم کیوں میرا خیال ہے کہ موجودہ بیگم عرفان کے خوف کا تعلق نجمہ کی خودکشی کے واقعے سے کسی نہ کسی طرح ضرور ہے لیکن کیس کی فائل سے کچھ پتا نہیں چلتا بلکہ اس کیس میں علینہ عرفان کا کہیں تذکرہ بھی نہیں۔‘‘
’’شاید اس لیے کہ عرفان نے اپنی موجودہ بیگم سے دو ماہ پہلے ہی شادی کی ہے۔ آپ نے کم از کم مجھے یہی بتایا تھا۔‘‘
’’تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ موجودہ بیگم عرفان، مسٹر عرفان کی زندگی میں دو ماہ پہلے ہی داخل ہوئی ہیں؟‘‘
’’حالات یہی بتاتے ہیں۔‘‘
’’شاید تمہارا خیال درست ہو لیکن جو محبت میں نے ان دونوں میں دیکھی ہے، وہ دو ماہ کے عرصے میں پیدا نہیں ہوسکتی۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ ایک دوسرے کے لیے بنے ہوں اور ایک دوسرے کو جنم جنم سے جانتے ہوں۔‘‘
’’ڈاکٹر!‘‘ انسپکٹر یاور صدیقی چونک کر بولا۔ ’’تو کیا آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ…‘‘
ڈاکٹر اکرام نے اسے ٹوکا۔ ’’یہ مت بھولو صدیقی کہ علینہ عرفان میری مریضہ ہے اور میں کوئی ایسی بات نہیں کہنا چاہتا جس سے تمہارے دل میں اس کے لیے کسی قسم کا شک پیدا ہو۔‘‘
’’تو پھر تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘ انسپکٹر صدیقی نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’صرف یہ کہ تم علینہ عرفان کی شادی سے پہلے کی زندگی کا بھی جائزہ لے لو، شاید تمہاری تفتیش کے نتیجے میں مجھے کوئی ایسی بات معلوم ہوجائے جو ان کے علاج میں میری معاون ثابت ہوسکے۔‘‘
پھر انسپکٹر صدیقی ماضی سے واپس ہوا۔ اس نے دوبارہ بات وہیں سے شروع کی جہاں سے گفتگو کو چھوڑا تھا۔
’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ نجمہ کی خودکشی کے کیس میں ایک بات ہمیشہ کھٹکتی رہی، بیگم نجمہ عرفان نے زہر کہاں سے خریدا یا کس طرح حاصل کیا۔‘‘
’’میں نے پولیس رپورٹ پڑھی تھی۔‘‘ عرفان نے کہا۔ ’’جو زہر نجمہ نے استعمال کیا، وہ آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
صدیقی اب ہاشم کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’مسٹر ہاشم! آپ اس مسئلے پر کچھ روشنی ڈال سکیں گے؟‘‘
ہاشم نے بتایا۔ ’’وہ زہر بہت سی دوائوں میں ملایا اور استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان میں اکثر دوائیں خریدنے کے لیے کسی ڈاکٹری نسخے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ زہر صرف ایسی دوائوں میں استعمال ہوتا ہے جو کھائی نہیں جاتیں۔ یہ زہر عام طور پر آنکھوں کی کچھ دوائوں میں ہوتا ہے۔‘‘
’’لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ زہر نجمہ کو کس نے خرید کر دیا؟ نجمہ خود کار کے حادثے کے بعد خرید و فروخت کے قابل نہیں رہی تھی۔ لہٰذا زہر انہوں نے نہیں، کسی اور نے خریدا ہوگا۔‘‘ انسپکٹر صدیقی نے کہا۔
’’لیکن کس نے؟‘‘ علینہ نے پوچھا۔
’’اصل سوال یہی ہے کہ کس نے؟‘‘ انسپکٹر صدیقی بولا۔
’’یہ تمام تفصیل ہمیں سنانے کا کیا مقصد ہے؟‘‘ علینہ نے جھنجلا کر پوچھا۔
’’مقصد!‘‘ انسپکٹر صدیقی بولا۔ ’’وہ بھی معلوم ہوجائے گا۔ پہلے چند ضروری باتیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ نجمہ عرفان نے کسی اور سے زہر خریدنے کی فرمائش کی، یہ ایک ناقابل یقین بات ہے۔ اس طرح ان کا خودکشی کرنے کا راز افشا ہوجاتا لہٰذا زہر خریدنے والے نے زہر یقیناً انہیں ہلاک کرنے کے ارادے سے خریدا تھا۔‘‘
’’تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نجمہ کو زہر دیا گیا تھا… اسے قتل کیا گیا تھا؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔
’’آپ مجھے ٹوکیں مت…‘‘ انسپکٹر صدیقی نے کہا۔ ’’مجھے بات ختم کرلینے دیں۔‘‘
’’لیکن… ان تمام باتوں کا ہم سے کیا تعلق ہے؟ عرفان تم انسپکٹر صدیقی سے پوچھتے کیوں نہیں؟‘‘ علینہ نے عرفان کو مخاطب کیا۔
عرفان نے بولنے کی کوشش کی تو انسپکٹر صدیقی نے اسے اشارے سے روک دیا اور اپنی بات جاری رکھی۔ ’’اور… دوسری اہم بات یہ ہے کہ زہر ان کے شوہر یا ان کے شوہر کے کسی دوست یا نجمہ کی کسی سہیلی نے بھی نہیں خریدا اور کیونکہ اس طرح بھی راز فاش ہونے کا اندیشہ تھا۔‘‘
’’لیکن!‘‘ علینہ نے پھر بات کاٹی۔ ’’اس کی موت تو زہر ہی سے ہوئی ہے۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ انسپکٹر صدیقی نے کہا۔ ’’تیسری اہم بات یہ کہ ان کی موت کو خودکشی قرار دیے جانے کے بعد دو واقعات ہوئے۔‘‘
’’کون سے واقعات؟‘‘ علینہ نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’اول یہ کہ علینہ صاحبہ! آپ نے مسٹر عرفان سے شادی کرلی۔‘‘
’’یہ کوئی جرم تو نہیں۔ عرفان اداس تھا۔ مجھے اس سے ہمدردی اور محبت تھی۔ اسے میری ضرورت تھی۔‘‘ علینہ نے کہا۔
’’اور میں بھی علینہ کو چاہتا تھا۔‘‘ عرفان نے اضافہ کیا۔
’’لہٰذا ہم دونوں نے شادی کرلی۔‘‘ علینہ نے کہا۔
انسپکٹر صدیقی نے پھر اس دخل در معقولات کو نظر انداز کردیا اور بولا۔ ’’دوسرا اہم واقعہ یہ ہے کہ نئے سرے سے تفتیش کرنے کے نتیجے میں ہمیں اس بات کا پتا چل گیا کہ علینہ کی موت سے چند دن پہلے وہ زہر کس نے خریدا تھا۔ خریداری کا باضابطہ ریکارڈ موجود ہے۔ بیگم علینہ عرفان! کیا آپ کو یاد ہے وہ زہر آپ نے خریدا تھا آنکھوں کی دوا کی شکل میں؟‘‘
’’عرفان!‘‘ علینہ کی چیخ بلند ہوئی اور وہ عرفان کے قریب ہوگئی۔
چند لمحے ڈرائنگ روم میں تکلیف دہ سکوت چھایا رہا۔ پھر عرفان نے اس سکوت کو توڑا۔ اب وہ علینہ کا دفاع کررہا تھا۔ ’’لیکن انسپکٹر صاحب! بہت سے لوگ آنکھوں کی دوائیں خریدتے ہیں، کیا ان سب کا مقصد قتل کرنا ہوتا ہے؟‘‘
انسپکٹر یاور صدیقی نے جواب میں نفی میں سر ہلایا اور بولا۔ ’’نہیں۔ لیکن صرف ایسے لوگ آنکھوں کی دوائیں خریدتے ہیں جن کی آنکھوں میں کوئی تکلیف ہوتی ہے۔ بیگم عرفان! کیا آپ کی آنکھوں میں کوئی تکلیف ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ علینہ نے جواب دیا۔
’’علینہ!‘‘ عرفان بولا۔ ’’تم انسپکٹر کے ہر سوال کا جواب دینے کی پابند نہیں ہو۔‘‘
’’لیکن وہ جواب دے چکی ہیں اور ایک گواہ مسٹر ہاشم کی موجودگی میں۔‘‘ یہ کہہ کر انسپکٹر صدیقی چند لمحوں کے لیے رکا۔ ’’مسٹر ہاشم! اب آپ سے وہ سوال جس کی وجہ سے میں نے آپ کا اتنا وقت لیا۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے وہ زہر ایک خاتون کو فروخت کیا تھا جو اب علینہ عرفان ہیں؟‘‘
ہاشم کے جواب سے پہلے عرفان بول پڑا۔ ’’ایک منٹ… ایک منٹ۔ نو مہینے بعد انہیں یہ بات کس طرح یاد رہ سکتی ہے اور اگر انہیں پہلے سے علم تھا تو اب تک کیوں خاموش تھے؟‘‘
’’ان باتوں کا جواب ہاشم صاحب عدالت میں دیں گے۔‘‘ انسپکٹر صدیقی نے کہا۔
’’آپ وہاں ان سے جرح کرسکتے ہیں۔ میں ان سے اس وقت صرف بیگم علینہ عرفان کو شناخت کرانے کا کام لینا چاہتا ہوں۔ ابتدائی شناخت یہ ڈاکٹر اکرام کے کلینک میں کرچکے ہیں۔ مسٹر ہاشم! کیا مسز علینہ عرفان وہی خاتون ہیں جنہیں آپ نے نو ماہ پہلے زہر فروخت کیا تھا؟‘‘
ہاشم ایک لمحے کے لیے ہچکچایا۔ وہ علینہ کو دیکھ رہا تھا۔
علینہ کے چہرے کا رنگ بار بار بدل رہا تھا۔ آخرکار علینہ خود چیخ اٹھی۔ ’’جلدی بتایئے، خدا کے لیے جلدی بتایئے۔ مسٹر ہاشم! کیا وہ عورت میں تھی؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ بالآخر ہاشم کا جواب اثبات میں تھا۔
علینہ چیخ مار کر دوبارہ عرفان کے قریب ہوگئی۔ انسپکٹر صدیقی کھڑا ہوگیا۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی امڈ آئی تھی۔ اس کا دماغ اب اپنے فرض کی ادائیگی کے بوجھ تلے دبا جارہا تھا۔ وہ بولا۔ ’’بیگم علینہ عرفان! میں آپ کو بیگم نجمہ عرفان کے قتل کے الزام میں گرفتار کرتا ہوں اور تنبیہ کرتا ہوں کہ اب آپ جو کچھ کہیں گی، اسے آپ کے خلاف عدالت میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
ڈاکٹر اکرام کے کلینک میں عرفان ڈاکٹر پر برس رہا تھا۔ ’’ڈاکٹر! تم علینہ کی گرفتاری کے ذمہ دار ہو۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ ڈاکٹر اکرام نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔ ’’اسے پولیس نے گرفتار کیا ہے۔‘‘
’’تمہیں معلوم ہے۔‘‘ عرفان چلایا۔ ’’پولیس نے اس پر نجمہ کو قتل کرنے کا الزام لگایا ہے۔‘‘
’’اگر وہ قاتل ہے تو اسے گرفتار ہونا ہی چاہیے۔ یہی قانون کا تقاضا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
’’لیکن تم جانتے ہو کہ وہ معصوم ہے، بے قصور ہے اور بے گناہ ہے۔‘‘ عرفان بولا۔
’’یہ تمہاری محبت کہہ رہی ہے۔ اگر وہ بے قصور ہے تو مجھے یقین ہے کہ عدالت اسے بری کردے گی۔‘‘ ڈاکٹر اکرام نے کہا۔
’’لیکن ڈاکٹر! میں اسے تمہارے پاس علاج کے لیے لایا تھا اور تم نے اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ کیا تمہارے علاج کا یہی طریقہ ہے؟‘‘
ڈاکٹر اکرام نے گمبھیر اور سرد لہجے میں عرفان کو بتایا۔ ’’مسٹر عرفان! میں انسانی جذبات کی قدر کرتا ہوں کہ میں واقعی آپ کی بیگم کا علاج کررہا ہوں۔ آپ کی بیگم خوف زدہ ہیں۔ ان کی بیماری خواب نہیں خوف ہے اور خوف کا صرف ایک علاج ہے کہ جس چیز سے خوف آتا ہو، اس کا سامنا کیا جائے۔‘‘
٭…٭…٭
علینہ کی گرفتاری کے بعد پولیس نے جلد ہی عدالت میں اس کا چالان پیش کردیا۔ ڈاکٹر اکرام کی سفارش پر عرفان نے شہر کے مشہور وکیل نظام شاہ کی خدمات علینہ کے دفاع کے لیے حاصل کرلیں۔ نظام شاہ نے علینہ سے کئی دفعہ جیل میں ملاقات کی لیکن انہیں علینہ کی طرف سے کوئی ایسا نکتہ نہ مل سکا جسے وہ اس کے دفاع میں موثر طور پر استعمال کرسکتے۔ عرفان سے بھی انہیں کام کی کوئی بات معلوم نہ ہوسکی۔ اس کا خیال تھا کہ علینہ کچھ چھپا رہی ہے چنانچہ مقدمے سے ایک دن پہلے وہ علینہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ انہوں نے علینہ سے کہا۔ ’’دیکھئے محترمہ! آپ کو اپنے وکیل سے کوئی بات چھپانا نہیں چاہیے۔ آپ کے خلاف کیس کا دارومدار اس کیمسٹ مسٹر ہاشم کی گواہی پر ہے۔ کیا آپ نے ان کی دکان سے واقعی زہر خریدا تھا؟‘‘
’’میں آپ کے سوال کا کئی بار جواب دے چکی ہوں اور اب بھی میرا جواب وہی ہے۔ نہیں۔ میں نے ان کی دکان سے زہر نہیں خریدا۔‘‘ علینہ نے جواب دیا۔
’’لیکن آپ ہر دفعہ جواب دیتے ہوئے جھجکتی ہیں۔ آپ کی یہ جھجک میرے یقین کو متزلزل کردیتی ہے۔ آپ خود سوچیے جب تک خود مجھے اپنے موکل کی بات کا یقین نہ ہو، میں اس کا دفاع کس طرح کرسکتا ہوں؟‘‘
علینہ خاموش رہی، کچھ نہ بولی۔
’’آپ نے بیس جون کی سہ پہر کو اپنا وقت کہاں گزارہ تھا؟ یہ وہی تاریخ ہے جس دن ہاشم نے زہر فروخت کیا تھا۔‘‘
’’مجھے یاد نہیں۔ نو مہینے پہلے کی بات کس طرح یاد رہ سکتی ہے۔‘‘
’’بیگم عرفان! کیا آپ سچ نہ بول کر کسی کا راز چھپا رہی ہیں؟ کیا آپ کسی کو بچانا چاہتی ہیں؟‘‘
’’نہیں۔ میں مزید گفتگو کرنا نہیں چاہتی۔‘‘ علینہ نے کہا تو نظام اٹھ کر چلے گئے۔
علینہ کی آنکھوں میں نہ معلوم کس خیال سے آنسو آگئے۔ اسی وقت عرفان اس سے ملنے آگیا۔ عرفان نے اسے روتا دیکھ کر پوچھا۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’عرفان! نظام صاحب سے کہو مجھے زیادہ پریشان نہ کریں۔‘‘
’’علینہ! وہ تمہیں قتل کے الزام سے بری کرانا چاہتے ہیں۔ خیر! میں انہیں سمجھا دوں گا لیکن آج میں بھی تمہارے لیے کوئی اچھی خبر لے کر نہیں آیا۔ عدالت نے تمہاری ضمانت کی درخواست مسترد کردی ہے۔‘‘
علینہ نے ٹھنڈا سانس لیا۔ اس نے سوچا نظام شاہ نے مجھے یہ خبر کیوں نہیں سنائی؟ شاید وہ میرا دل دکھانا نہیں چاہتے تھے۔ وہ بہت اچھے ہیں لیکن میں ان کی کس طرح مدد کروں؟ میں ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتی۔ میری زبان بند ہے۔
’’علینہ! کیا سوچ رہی ہو؟ بالکل فکر نہ کرو۔ ضمانت نہ ہوسکی تو کوئی بات نہیں، تم اپنا دل مضبوط رکھو۔ میں تم سے یہاں روز ملنے آیا کروں گا۔ اور…‘‘
’’اور…؟‘‘ علینہ نے پوچھا۔
’’اور۔‘‘ عرفان نے بتایا۔ ’’مجھے یقین ہے پولیس نے یہ معلوم کرنے میں کہ نجمہ نے زہر کہاں سے خریدا، ضرور کوتاہی کی ہے۔ میں نے کئی آدمی یہ بات معلوم کرنے پر لگا دیے ہیں۔ مجھے یقین ہے نجمہ نے کہیں نہ کہیں سے زہر ضرور خریدا ہوگا۔ وہ معلوم کرلیں گے۔‘‘
’’اور اگر وہ معلوم نہ کرسکے۔‘‘
’’تو پھر تمہیں سچ بولنا پڑے گا۔‘‘
’’اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا؟‘‘
’’لیکن اس میں حرج بھی کیا ہے؟‘‘
’’حرج! کیا اس اعتراف کے بعد کہ زہر میں نے خریدا تھا، میرے خلاف قتل کا کیس مضبوط نہیں ہوجائے گا؟‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’پولیس کے خیال میں میرے پاس نجمہ کو قتل کرنے کا مقصد تھا۔ میں تم سے شادی کرنے کے لیے اسے اپنی راہ سے ہٹانا چاہتا تھا۔ زہر کی خریداری سے ارادئہ قتل بھی ثابت ہوجائے گا۔ پولیس کسی نہ کسی طرح ثابت کردے گی کہ مجھے زہر دینے کا موقع بھی مل گیا تھا اور پھر…‘‘
’’بس… بس۔‘‘ علینہ نے اسے روکا۔ ’’بس کرو، حالات کا اتنا تاریک پہلو میری برداشت سے باہر ہے۔‘‘
’’تم نے دراصل میری بات ہی نہیں سمجھی۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ تمہیں سچ بولنا پڑے گا۔ میرا اس سے مطلب یہ تھا کہ تم زہر خریدنے کا اعتراف تو کرو لیکن تم یہ کہو گی کہ میں نے تم سے وہ زہر خریدنے کے لیے کہا تھا۔‘‘
’’عرفان!‘‘ علینہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’ہاں! کیا یہ سچ نہیں ہے؟ کیا تم میرے کہنے پر زہر خرید کر نہیں لائی تھیں؟‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ تم نے وہ زہر کیوں حاصل کیا؟ پھر الزام مجھ سے ہٹ کر تمہاری طرف آجائے گا۔ نہیں۔ میں یہ برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘
’’افوہ!‘‘ عرفان نے کہا۔ ’’تمہارے خلاف بس ایک ہی بات ہے نا کہ تم نے زہر خریدا تھا حالانکہ تمہیں اس کی ضرورت نہیں تھی۔ آنکھوں کی وہ زہریلی دوا تمہارے لیے بیکار تھی۔ تمہاری آنکھوں میں کوئی تکلیف نہیں ہے لیکن اس دوا کی مجھے ضرورت تھی۔ میری آنکھیں خراب ہیں۔ میں وہ دوا آنکھوں میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔‘‘
’’لیکن…‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘
’’تمہارے خلاف الزام…‘‘
’’نہیں لگ سکتا۔ اس سے صرف یہ ثابت ہوگا کہ نجمہ کو زہر حاصل کرنے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس نے میری دوا حاصل کی اور خودکشی کرلی۔‘‘
’’لیکن تم نے پہلے کبھی تفتیش میں یہ بات نہیں بتائی تھی اور اب تک یہ بات پولیس کے علم میں نہیں ہے۔‘‘
’’اس کی وجہ بھی تمہیں معلوم ہے۔ اول تو یہ کہ نجمہ نے میری دوا سے خودکشی نہیں کی اور دوسرے…‘‘
علینہ نے اس کی بات کاٹی۔ ’’دوسرے ہم دونوں نے یہ طے کیا تھا کہ ہم یہ بات چھپائیں گے، اس لیے کہ اس طرح نجمہ کی موت میں کسی طرح بھی تمہارے ملوث ہونے کا شک نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
’’ہاں۔ پہلے ہمیں خود اس اعتراف کی ضرورت نہیں پڑی لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ علینہ نے فیصلہ سنا دیا۔ ’’میں اب بھی یہ اعتراف نہیں کروں گی۔ میں نہیں چاہتی کہ تم پر معمولی سا بھی شک کیا جائے۔ مجھے ایک دفعہ خیال آیا تھا کہ شاید نجمہ نے تمہاری آنکھوں کی دوا کھا کر خودکشی کی ہوگی لیکن…‘‘
’’میں نے کہا نا اس نے میری دوا استعمال نہیں کی۔ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میں وہ دوا استعمال کرتا ہوں۔‘‘ عرفان نے علینہ کو یقین دلایا۔
’’اگر پولیس کو یہ معلوم ہوگیا کہ تم وہ دوا استعمال کرتے تھے تو… تو پھر وہ تمہارے خلاف دوسری شہادتیں تلاش کرسکتے ہیں۔‘‘ علینہ نے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
’’کرنے دو، انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ کہیں تم یہ تو نہیں سمجھ رہی ہو کہ میں نے نجمہ کو…‘‘
علینہ نے فوراً عرفان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور بولی۔ ’’خدا کے لیے ایسا نہ کہو۔ لیکن عرفان! کہیں ایسا تو نہیں کہ تمہاری بچی ہوئی دوا کہیں پڑی رہ گئی ہو اور نجمہ نے…‘‘
عرفان نے اس کی بات کاٹی۔ ’’علینہ! اس خیال کو دل سے نکال دو، ایسا نہیں ہوا ہے۔‘‘
’’کاش! ایسا ہوجاتا اور اگر واقعی ایسا ہوجاتا تو پھر میرا دفاع کتنا آسان ہوجاتا۔ عرفان! مجھے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘
’’ہمت کرو۔‘‘ عرفان نے اسے تسلی دی۔ ’’اسے بھی محض ایک خواب ہی سمجھو۔‘‘
’’اور اگر میں اس خواب سے بیدار نہ ہوسکی تو…؟‘‘
’’تو…‘‘ عرفان نے اسے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تو میں عدالت میں اقرار کرلوں گا کہ دوا تم نے میرے کہنے پر خریدی تھی۔‘‘
عرفان جب علینہ سے مل کر جیل سے باہر آیا تو اس کی مڈبھیڑ ڈاکٹر اکرام سے ہوگئی۔ ڈاکٹر اکرام اپنے دبیز بریف کیس کو بند کررہا تھا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد اکرام نے عرفان کو بتایا کہ وہ علینہ سے ملنے جارہا ہے۔
عرفان نے اسے طعنہ دیتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ نے اپنی مریضہ کی کوئی مدد نہیں کی۔‘‘
اس کی بات سن کر ڈاکٹ
اکرام مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’عرفان صاحب! میں کبھی اپنے مریض کی طرف سے غافل نہیں رہتا۔ کل ان کے مقدمے کی تاریخ ہے۔ میں ان کے لیے ضرور دعا کروں گا۔‘‘
٭…٭…٭
آج علینہ عرفان کے مقدمے کی تاریخ تھی۔ مشہور مصور عرفان کی وجہ سے یوں بھی اخباروں نے اس کیس کو خاصا اچھالا تھا لیکن اس مقدمے کی عوام میں مقبولیت کی اصلی وجہ یہ سنسنی خیز انکشاف تھا کہ آٹھ مہینے پہلے کی خودکشی کا واقعہ اب وارداتِ قتل بن چکا تھا۔
عدالت کا کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ حاضرین ہمہ تن گوش تھے۔ ظہیر ایک پرانا اور تجربے کار سرکاری وکیل تھا۔ ظہیر نے جج کو بتایا کہ پہلے وہ گواہ کے طور پر مہرو نامی ایک خاتون کو بلانا چاہتا ہے۔ جج نے اجازت دے دی۔
مہرو آکر کٹہرے میں کھڑی ہوگئی۔ عدالت کے محرر نے اس سے حسب معمول قسم لی اور وکیل سرکار ظہیر نے سوالات شروع کئے۔
’’تمہارا نام…؟‘‘
’’مہرو۔‘‘
’’ولدیت؟‘‘
’’مجید خان۔‘‘
’’پیشہ؟‘‘
’’باورچن ہوں جناب!‘‘
’’عرفان صاحب کو جانتی ہو؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’ان کے گھر باورچن تھی جناب!‘‘
’’اب نہیں ہو؟‘‘
’’نہیں جناب!‘‘
’’ملازمت کب چھوڑی؟‘‘
’’نجمہ بی بی کے انتقال کے بعد۔‘‘
’’نجمہ بی بی کے بارے میں کیا جانتی ہو؟‘‘
’’بہت اچھی عورت تھیں! خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ بے چاری آخری دنوں میں اپاہج ہوگئی تھیں۔ البتہ جب سے اپاہج ہوئی تھیں، عرفان صاحب پر اکثر غصے ہوتی تھیں۔ بے چارے عرفان صاحب بہت پریشان رہتے تھے اور…‘‘ یہ کہہ کر وہ رکی۔
’’اور کیا…؟‘‘
’’وہ… علینہ بی بی… جناب!‘‘ وہ پھر کچھ بتاتے بتاتے رکی۔
’’کہو ڈرو نہیں۔ کیا کہنا چاہتی ہو؟‘‘ وکیل سرکار نے تسلی دی۔
’’علینہ بی بی، نجمہ بی بی سے چھپ کر عرفان صاحب سے ملا کرتی تھیں۔‘‘ وہ آگے بتانے لگی۔ ’’وہ کبھی کبھار عرفان صاحب کے لیے کھانا بھی پکا دیا کرتی تھیں۔ کئی دفعہ میں ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا علینہ بی بی کے کہنے پر نجمہ بی بی کے لیے بھی لے گئی تھی لیکن سرکار! میں نے کبھی ان کو بتایا نہیں۔ وہ یہی سمجھتی تھیں کہ کھانا میں نے پکایا ہے۔‘‘
’’کیا انتقال کے دن نجمہ بی بی نے علینہ بی بی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھایا تھا؟‘‘
’’یاد نہیں جناب!‘‘
’’یاد کرنے کی کوشش کرو۔‘‘ سرکاری وکیل نے زور دیا۔ ’’یہ ضروری ہے۔‘‘
’’جی! یاد آیا۔‘‘ وہ ایک دم بولی۔ ’’اس دن کے بارے میں، میں کچھ نہیں کہہ سکتی کیونکہ میں اس روز چھٹی پر تھی۔ اس دن کھانا ضرور علینہ بی بی ہی نے پکایا ہوگا۔‘‘
وکیل سرکار ظہیر نے جج کو مخاطب کرکے کہا۔ ’’جناب عالی! نوٹ فرمائیں انتقال کے دن مرحومہ نجمہ نے علینہ صاحبہ کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا کھایا تھا۔ اس گواہ سے مجھے مزید سوال نہیں کرنا۔‘‘
وکیل صفائی نظام شاہ نے اس گواہ پر جرح کرنے سے انکار کیا۔ مہرو رخصت کردی گئی۔ ظہیر نے دوسرے گواہ ڈاکٹر شفیق کو بلایا۔
’’آپ مرحومہ نجمہ عرفان سے واقف تھے؟‘‘ رسمی کارروائی کے بعد ظہیر نے ڈاکٹر سے سوال کیا۔
’’جی ہاں! میں ان کا ذاتی معالج تھا۔‘‘
’’کیا آپ تصدیق کریں گے کہ مرحومہ کار کے حادثے کے بعد چڑچڑی ہوگئی تھیں؟‘‘
’’جی ہاں، بہت زیادہ۔‘‘
’’کیا ان کی آنکھوں میں کبھی تکلیف ہوئی؟‘‘
’’کبھی نہیں۔ اگر ہوتی تو وہ مجھے ضرور بتاتیں۔ میں ان کا ذاتی معالج تھا۔‘‘
ظہیر نے کٹہرے میں کھڑی ہوئی علینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے اگلا سوال کیا۔ ’’آپ انہیں جانتے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں! یہ عرفان صاحب کی موجودہ بیگم ہیں۔‘‘
’’آپ انہیں کیسے جانتے ہیں؟‘‘
’’ایک دفعہ عرفان صاحب نے تعارف کرایا تھا۔ میں نجمہ صاحبہ کو دیکھنے گیا تھا۔ یہ بھی گھر پر موجود تھیں۔ دوسرے کمرے میں عرفان صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ ان کے لیے ماڈلنگ کرتی ہیں لیکن…‘‘
’’لیکن کیا…؟‘‘
’’لیکن مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ عرفان صاحب ان میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لیتے ہیں۔‘‘
’’آپ کو کچھ اور بھی کہنا ہے؟‘‘
’’صرف اتنا کہ علینہ صاحبہ نے ایک دن مجھ سے کہا تھا کہ نجمہ صاحبہ، مسٹر عرفان کے لیے ایک بوجھ بن کر رہ گئی ہیں۔‘‘
وکیل ظہیر نے سوالات ختم کیے۔ استغاثہ کے تیسرے گواہ وکیل جہانزیب تھے۔
’’وکیل صاحب! کیا آپ ہی بیگم نجمہ عرفان کے وکیل تھے؟‘‘ ظہیر نے سوال کیا۔
’’جی ہاں۔‘‘
’’کیا یہ سچ ہے کہ مرحومہ نجمہ ذاتی طور پر ایک رئیس اور صاحب جائداد خاتون تھیں؟‘‘
’’جی ہاں۔ بالکل۔‘‘
’’کیا مرحومہ نے اپنی دولت اور جائداد کے لیے کوئی وصیت نامہ چھوڑا ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’اس وصیت نامے کی تفصیلات؟‘‘
’’نجمہ صاحبہ نے شادی کے فوراً بعد میری وساطت سے ایک وصیت نامہ تحریر کروایا تھا جس کی رو سے ان کی موت کے بعد ان کی ساری دولت مسٹر عرفان کے نام منتقل ہونی تھی۔‘‘
’’اور اس پر مرحومہ کی موت کے بعد عمل بھی ہوا؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
وکیل صفائی نظام شاہ نے اس گواہ پر بھی جرح نہیں کی۔
اس کے بعد استغاثے کے خاص گواہ مسٹر ہاشم، گواہوں کے کٹہرے میں کھڑے وکیل سرکار کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
’’آپ کا پورا نام…؟‘‘
’’ہاشم فاروقی۔‘‘
’’پیشہ؟‘‘
’’کیمسٹ ہوں۔ میری دوائوں کی دکان ہے۔‘‘
’’آنکھوں کی وہ زہریلی دوا، آپ ہی کی دکان سے خریدی گئی تھی؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’خریدنے والے کا نام؟‘‘
’’ملزمہ علینہ عرفان۔‘‘
’’آپ نے رسید کاٹی تھی؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’رسید پر خریدار کا نام لکھتے ہیں آپ؟‘‘
’’جی ہاں۔ بالکل اور پتا بھی لکھتا ہوں۔‘‘
ظہیر نے اپنے کاغذات سے رسید کی نقل نکالی اور اسے ہاشم کو دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’کیا آپ تصدیق کریں گے کہ اس رسید پر آپ ہی کے دستخط ہیں اور ملزمہ کا نام بھی لکھا ہوا ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔ اس رسید پر میرے دستخط ہیں اور خریدار کا نام علینہ شیخ ہے۔‘‘
اس مرحلے پر ظہیر نے جج کو مخاطب کرکے کہا۔ ’’جناب عالی! علینہ شیخ، ملزمہ کے کنوار پن کا نام ہے۔ میں یہ رسید استغاثے کی طرف سے اس مقدمے کے ریکارڈ میں شامل کرانا چاہتا ہوں۔‘‘
جج نے اجازت دے دی۔ (جاری ہے)