عدالت کے محرر نے رسید لے کر اس پر نمبر ڈالا اور فائل میں لگا دیا۔ اس کے بعد وکیل استغاثہ ظہیر نے عدالت کو بتایا کہ وہ اب گواہ ہاشم سے مزید سوالات نہیں کریں گے۔
نظام شاہ اب فریق ثانی کی طرف سے جرح کے لیے کھڑا ہوا اور ہاشم سے پوچھا۔ ’’پولیس نے نجمہ صاحبہ کی خودکشی کے بعد آپ سے پوچھ گچھ کی تھی؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’پھر آپ نے اس وقت پولیس کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ ملزمہ علینہ نے وہ دوا خریدی تھی؟‘‘
’’جناب والا! پولیس نے مجھے مرحومہ کا فوٹو دکھا کر پوچھا تھا کہ کیا انہوں نے ہماری دکان سے آنکھوں کی کوئی ایسی دوا خریدی تھی جس کے پینے سے زہر کا اثر ہوتا ہے کیونکہ ایسا نہیں تھا لہٰذا میں نے انکار کردیا تھا۔ اگر پولیس علینہ صاحبہ کا فوٹو دکھا کر پوچھتی تو میں ضرور بتا دیتا۔‘‘
’’آپ کم ازکم پولیس کو یہ بتا سکتے تھے کہ آپ سے کس کس نے وہ دوا خریدی تھی، اس طرح علینہ صاحبہ کا ذکر آسکتا تھا۔‘‘
ظہیر نے کھڑے ہوکر اس سوال پر اعتراض کیا۔ ’’جناب عالی! معزز وکیل صفائی غالباً عدالت کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ علینہ صاحبہ کے نام کو کسی سازش کے تحت ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میں عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسا نہیں۔ اس کے علاوہ میرے دوست کا یہ سوال بالکل مضحکہ خیز ہے کہ اس نے کس کس کو دوا فروخت کی۔ وہ صرف یہ بتا سکتا ہے کہ کسی مخصوص آدمی نے کسی مخصوص مدت میں اس سے خریدا یا نہیں۔ میں عدالت سے درخواست کروں گا کہ میرے معزز دوست کا یہ سوال منسوخ کیا جائے اور میرے گواہ کو اس کے جواب کا پابند نہ کیا جائے۔‘‘
عدالت نے ظہیر کا اعتراض قبول کرلیا۔
نظام نے اپنی جرح آگے بڑھائی۔ ’’ہاشم صاحب! پولیس نے آپ سے علینہ صاحبہ کے متعلق کب معلوم کیا؟‘‘
’’چند دن ہوئے۔ پولیس غالباً علینہ صاحبہ کے خلاف کوئی تفتیش کررہی تھی۔ وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے علینہ صاحبہ کا فوٹو دکھا کر پوچھا۔ میں نے ریکارڈ دیکھ کر بتا دیا کہ انہوں نے وہ دوا خریدی تھی۔‘‘
’’اتنی آسانی سے جبکہ میرے معزز وکیلِ استغاثہ کہتے ہیں، دکاندار یہ سب باتیں کس طرح یاد رکھ سکتا ہے؟‘‘
’’جناب والا! انہوں نے مجھے نجمہ صاحبہ کی موت کی تاریخ بتائی۔ میں نے اس سے چند دن پہلے کی رسیدیں چیک کرلیں اور بس! ان کا چہرہ مجھے یاد تھا۔‘‘
’’آپ کو ان کا چہرہ کیسے یاد رہ گیا؟‘‘
’’بس کیا بتائوں، یاد رہ گیا تھا۔‘‘ پھر ہاشم نے وضاحت کی۔ ’’ویسے بات یہ ہے کہ ملزمہ بہت حسین خاتون ہیں۔ انہیں ایک دفعہ دیکھ کر یوں بھی بھولنا مشکل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرے مشاہدے کے مطابق خواتین بہت کم وہ دوا خریدنے آتی ہیں اور تیسری اور سب سے اہم بات جس کی وجہ سے مجھے وہ یاد رہیں، یہ تھی کہ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ اپنا نام بتاتے وقت بھی وہ کچھ ہچکچا رہی تھیں۔ بس جی عورت حسین ہو اور گھبرائی ہوئی ہو پھر یاد تو رہنا ہی تھا!‘‘
٭…٭…٭
ہاشم کی گواہی کے بعد مقدمے کی سماعت اگلی تاریخ تک ملتوی کردی گئی۔ وکیلِ صفائی نظام شاہ پریشان تھا۔ استغاثے کے سارے گواہوں کے بیانات علینہ کو سزا کی طرف لے جارہے تھے۔ وہ اس کیس اور اس کے اہم نکات پر بہت غور و خوض کرتا رہا۔
بالآخر اس نے یہی طے کیا کہ ایک مرتبہ اور وہ علینہ سے ملاقات کرے اور اسے مقدمے کی سنگین صورتحال سے آگاہ کرے، نیز علینہ سے کوئی ایسی بات بھی اپنے طور پر معلوم کرنے کی کوشش کرے جو اس کی صفائی میں کام آسکے۔ لہٰذا نظام شاہ، علینہ سے ملنے پہنچ گیا۔ اس سے ملاقات کرکے اس نے یہ بات واضح طور پر محسوس کی کہ اب علینہ کو بھی خطرے کا احساس ہوگیا تھا۔ علینہ نے نظام شاہ کو رائے دی کہ وہ عرفان کو صفائی کے گواہ کی حیثیت سے عدالت میں بلالے۔
وکیل نظام شاہ اس کی تجویز سن کر الجھے ہوئے لہجے میں بولا۔ ’’لیکن آپ کے شوہر کا بیان آپ کے کس طرح کام آسکتا ہے؟‘‘
’’نظام صاحب! عرفان مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے بچا لے گا۔ آپ اسے بلائیں تو سہی۔ وہ مجھے ضرور بچالے گا۔‘‘ علینہ کا لہجہ پُر یقین تھا۔ اس کے باوجود علینہ نے نظام شاہ کو گومگو کی کیفیت میں مبتلا پایا تو بڑے اطمینان سے اسے بتایا۔ ’’آپ اس سے پوچھیں کہ… میں نے آنکھوں کی وہ زہریلی دوا کیوں خریدی تھی؟‘‘
٭…٭…٭
اگلی پیشی پر عدالت میں مجمع پہلی پیشی سے بھی زیادہ بڑھ گیا تھا۔ وکیل صفائی نظام شاہ، عرفان سے سوالات کررہا تھا۔ ’’عرفان صاحب! کیا آپ کی مرحومہ بیگم کو آنکھوں کا کوئی عارضہ لاحق تھا؟‘‘
یہی وہ وقت تھا کہ جب وکیلِ استغاثہ ظہیر نے فوراً اعتراض اٹھایا۔ وہ بولا۔ ’’جناب والا! اس سوال کا جواب مرحومہ کے ذاتی معالج جواب دے چکے ہیں اور وہ ایک پیشہ ورانہ اور مستند رائے تھی۔‘‘
وکیل صفائی نظام شاہ نے فوراً وضاحت پیش کی۔ وہ بولا۔ ’’جناب والا! میں اس سوال سے اپنے اگلے سوال کے لیے راہ ہموار کررہا ہوں۔‘‘
جج نے وکیلِ استغاثہ کا اعتراض مسترد کردیا اور عرفان سے جواب دینے کے لیے کہا۔ عرفان نے جواب میں کہا۔ ’’جی نہیں! مرحومہ کو آنکھوں کی کوئی بیماری نہیں تھی۔‘‘
’’کیا آپ کی موجودہ بیگم علینہ عرفان کو آنکھوں کا کوئی عارضہ ہے؟‘‘
’’اس سوال کا ماہرانہ جواب کوئی ڈاکٹر ہی دے سکتا ہے۔‘‘ عرفان نے کہا۔
’’کیا آپ کو آنکھوں کی کوئی بیماری ہے؟‘‘
’’مجھے!‘‘ عرفان نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کس نے کہہ دیا۔ خدا کے فضل سے مجھے آنکھوں کی کوئی بیماری نہیں ہے۔‘‘
عرفان کا جواب علینہ کے لیے قطعاً غیر متوقع تھا۔ یکایک اسے احساس ہوا کہ اس کا مستقبل تاریک ہوچکا ہے۔ اسے پھانسی کا پھندا صاف اپنی آنکھوں کے سامنے جھولتا نظر آنے لگا۔ یوں جیسے اسے پکار پکار کر کہہ رہا ہو۔ ’’آئو… میں تمہاری جان لینے کے لیے بے چین ہوں۔ آئو… آجائو…‘‘
وہ عدالت میں زور سے چیخ کر بولی۔ ’’یہ غلط ہے، عرفان کو آنکھوں کی بیماری ہے۔ اس نے خود مجھ سے کہا تھا اور وہ دوا میں نے اس کے کہنے پر خریدی تھی۔‘‘
علینہ کے اس ردعمل سے عدالت میں موجود لوگوں میں کھلبلی سی مچ گئی تھی۔ وکیلِ استغاثہ ظہیر بھی اپنی سیٹ پر مستعد ہوکر بیٹھ گیا تھا۔ عدالت نے علینہ کو تنبیہ کی کہ وہ عدالت کی کارروائی میں مخل نہ ہو۔ اس کے بعد عدالت نے وکیل صفائی نظام شاہ کو حکم دیا کہ وہ گواہ سے سوالات کا سلسلہ جاری رکھے۔ نظام شاہ سخت شش و پنج میں مبتلا ہوگیا تھا۔ اس کے پیروں تلے سے جیسے زمین کھسک گئی تھی۔ وہ علینہ کی یقین دہانی پر عرفان سے کچھ اور ہی جواب سننے کی امید لگائے ہوئے تھا۔
بہرکیف…اس نے محسوس کیا کہ عرفان کی گواہی علینہ کے حق میں جانے کے بجائے استغاثے کے حق میں جارہی تھی۔ لہٰذا اس نے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی اور عدالت کے حکم کی تعمیل میں عرفان سے سوال کیا۔ اس نے پوچھا۔ ’’عرفان صاحب! کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ نجمہ کی موت سے چند دن پہلے آنکھوں کی زہریلی دوا آپ نے علینہ سے اپنے لیے خاص طور پر فرمائش کرکے بازار سے منگوائی تھی؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ عرفان نے پورے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’میں وہ دوا کس لیے منگواتا؟‘‘
’’اپنی آنکھوں کے لیے۔ علینہ کو یہ بتا کر کہ وہ دوا آپ کو اپنی آنکھوں کے لیے درکار ہے۔‘‘
وکیلِ استغاثہ ظہیر نے اس سوال پر اعتراض کرنے کے بارے میں سوچا، کیونکہ سوال دہرایا جارہا تھا جبکہ سوال کا جواب پہلے ہی دیا جا چکا تھا۔ لیکن پھر وہ مصلحتاً خاموش رہا۔
’’میرا خیال ہے کہ علینہ نے آپ کو یہ سوال کرنے کی ہدایت کی ہے۔‘‘ عرفان نے کہا۔
’’آپ صرف میرے سوال کا جواب دیں۔‘‘ وکیل صفائی نظام شاہ نے سنجیدگی سے کہا۔
’’سچی بات یہ ہے کہ میں نے علینہ میں شادی کے بعد ہی تبدیلی محسوس کرلی تھی۔ وہ کسی نفسیاتی بیماری کا شکار ہے۔ اسے طرح طرح کے خواب دکھائی دیتے تھے۔‘‘
’’یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔‘‘
’’یہ آپ ہی کے سوال کا جواب ہے وکیل صاحب! میری آنکھوں میں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ میں اپنے بیان کی تصدیق میں آنکھوں کے کسی بھی ڈاکٹر سے معائنہ کرانے کے لیے تیار ہوں۔ اب مجھے یقین آگیا ہے کہ وہ کون ہے جس نے نجمہ کو زہر دیا تھا۔ اور اب اپنے سر سے الزام ہٹانے کے لیے وہ کس طرح مجھے ملوث کررہی ہے۔‘‘
’’عرفان صاحب!‘‘ نظام شاہ بولا۔ ’’آپ نے میری موکلہ اور اپنی بیوی علینہ کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال دیا ہے۔‘‘
علینہ صدمے اور خوف سے بے ہوش ہوگئی۔ جج نے آدھے گھنٹے کے لیے کارروائی ملتوی کردی اور ہدایت کی کہ ملزمہ کا ڈاکٹری معائنہ کرایا جائے۔
جب سرکاری ڈاکٹر آیا تو علینہ کو ہوش آگیا تھا۔ اسی وقت ڈاکٹر اکرام اپنا بھاری بریف کیس اٹھائے عدالت میں داخل ہوا۔ علینہ اسے دیکھتے ہی بے اختیار چیخ اٹھی۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کہاں تھے؟‘‘
’’مجھے آنے میں دیر ہوگئی۔‘‘
’’آپ نے سنا… آپ نے سنا۔ میرے شوہر نے عدالت میں کیا بیان دیا ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب! یہ سچ نہیں ہے۔ خدا کے لیے مجھے یقین دلایئے کہ میں خواب دیکھ رہی ہوں۔‘‘
ڈاکٹر اکرام نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’بیگم عرفان! آپ حقیقت کو خواب سمجھتی رہیں۔ آپ خواب والے پردے کے پیچھے جو چیز دیکھنے سے ڈرتی تھیں، وہ آپ کے لاشعور کا یہی احساس تھا کہ کہیں آپ کے شوہر آپ کے اعتماد کو دھوکا نہ دیں۔‘‘
’’اور… اب یہ اسرار کھل گیا ہے۔ میں کہتی تھی نا ڈاکٹر صاحب!‘‘ علینہ نے ہچکی لی۔ پھر ذرا ٹھہر کر دوبارہ گویا ہوئی۔ ’’کہ… کہ اگر پردے کے پیچھے کا راز مجھے معلوم ہوگیا تو میں مر جائوں گی۔ میں واقعی مر جائوں گی۔ مجھے پھانسی ہوجائے گی۔‘‘
’’نہیں! ابھی نہیں۔‘‘ اچانک اسے ڈاکٹر اکرام کی آواز جیسے کسی نجات دہندہ کی سی محسوس ہوئی۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’ابھی مقدمہ ختم نہیں ہوا۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں اور… آپ کا مکمل علاج میری ذمہ داری ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر اکرام ڈرامائی انداز میں وکیل صفائی نظام شاہ کی طرف پلٹا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے بولا۔ ’’نظام صاحب! کارروائی دوبارہ شروع ہونے پر آپ مجھے بطور گواہ عدالت میں پیش کریں اور مجھ سے سوال کریں۔‘‘
وہاں موجود لوگوں کو اس کا انداز اسرار بھرا محسوس ہورہا تھا۔
٭…٭…٭
سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔ نظام شاہ نے ڈاکٹر اکرام سے سوال کیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ اس کیس کے متعلق کیا جانتے ہیں؟‘‘
ڈاکٹر اکرام نے ایک گہری سانس لی اور عدالت سے مخاطب ہوکر بولا۔ ’’جناب والا! وکیل صفائی کے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں آپ سے درخواست کروں گا کہ عرفان صاحب کو جو پچھلی صف میں بیٹھے ہیں، اگلی نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت کی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس کیس کے انجام کو دلچسپی سے سننا پسند کریں گے۔‘‘
عدالت نے ایک لمحے سوچ کر اثبات میں اپنے سر کو ہولے سے جنبش دی تھی۔ عرفان آگے آکر بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر اکرام نے جواب دینا شرع کیا۔ ’’وکیل صاحب! آپ نے پوچھا کہ میں اس کیس کے متعلق کیا جانتا ہوں تو میں عرض کروں گا کہ نجمہ عرفان نے خودکشی نہیں کی۔ انہیں زہر دے کر ہلاک کیا گیا ہے۔‘‘
اسی وقت استغاثہ کے وکیل ظہیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ عدالت بھی یہ نتیجہ اخذ کرچکی ہوگی۔‘‘
’’لیکن…‘‘ ڈاکٹر اکرام ڈرامائی انداز میں بولا۔ ’’انہیں زہر موجودہ بیگم اور میری مریضہ علینہ نے نہیں دیا۔‘‘
ظہیر نے کہا۔ ’’آپ نے کہا کہ نجمہ کو ملزمہ نے زہر نہیں دیا تو پھر آپ کے خیال میں اسے زہر کس نے دیا؟‘‘
’’اس… کے شوہر… عرفان نے۔‘‘ ڈاکٹر اکرام نے بلند آواز میں کہا۔
’’یہ جھوٹ ہے۔ آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟‘‘ عرفان چیخا۔
’’میں ثبوت بھی پیش کروں گا۔‘‘ اکرام نے مسکرا کر کہا۔
’’آپ کے پاس ملزمہ کے شوہر کے خلاف اس الزام کا کیا ثبوت ہے؟‘‘ عدالت نے سوال کیا۔
ڈاکٹر اکرام نے جواب میں کہا۔ ’’عدالت سے نہایت ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ اسے میرا حلفیہ بیان سمجھا جائے۔ میں نے اپنے کانوں سے عرفان صاحب اور علینہ صاحبہ کی جیل میں ایک ملاقات پر گفتگو سنی تھی۔ وہ گفتگو جس میں عرفان صاحب نے علینہ صاحبہ کو دلاسا دیا تھا اور یہ تسلیم کیا تھا کہ زہر خریدنے کی ترغیب انہوں نے ہی علینہ صاحبہ کو دی تھی اور ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ عدالت میں یہ بات تسلیم کرلیں گے۔‘‘
’’مجھے یقین ہے کہ ایک بڑے ماہر نفسیات کا بیان عدالت کے لیے قابل قبول ہوگا۔‘‘ وکیل صفائی نظام شاہ نے کہا۔
’’لیکن وہ جھوٹا بیان بھی دے سکتے ہیں۔‘‘ عرفان چیخا۔
ڈاکٹر اکرام نے اپنا بریف کیس اٹھایا اور بولا۔ ’’میں زبانی بیان پر اکتفا نہیں کروں گا۔ جناب عالی! میرے اس بریف کیس میں اس ملاقات کی فلم اور گفتگو کا ٹیپ جسے میں نے پولیس کے تعاون سے تیار کیا تھا، موجود ہے۔ مجھے شروع ہی سے عرفان صاحب پر شک تھا اور میں ان کی اور علینہ کی ہر ملاقات کی نگرانی کررہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ ایک دن احتیاط کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹ جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ مجھے آج یہاں آنے میں اسی لیے دیر ہوئی کہ فلم لیبارٹری میں دیر سے بنی۔ میں اپنی یہ فلم اور ٹیپ عدالت میں پیش کرکے درخواست کرتا ہوں کہ اس مقدمے کا فیصلہ سنانے سے پہلے اس کو ملاحظہ کرلیا جائے۔‘‘
عدالت میں فلم اور ٹیپ چلایا گیا۔ انسپکٹر یاور صدیقی فلم دکھا رہا تھا اور ڈاکٹر اکرام، وکیل صفائی نظام شاہ کو فریق صفائی کی طرف سے اختتامی تقریر کے نقطے سمجھا رہا تھا۔
اس کے بعد نظام شاہ نے عدالت کو مخاطب کیا۔ ’’جناب والا! کیس دراصل ایک لالچی آدمی کا ہے جس کی زندگی کا مقصد محض دولت حاصل کرنا تھا۔ عرفان ایک مصور ہے۔ وہ اچھا مصور ہے لیکن مالی اعتبار سے قطعی ناکام! اس نے دولت حاصل کرنے کے لیے پہلے ایک امیر خاتون نجمہ سے شادی کی جو حادثے کے بعد اس کے لیے بوجھ بن گئی تو اس نے دوسری امیر خاتون علینہ سے راہ و رسم بڑھائی۔ پہلے اس نے نجمہ کو ٹھکانے لگایا اور اپنے اس جرم میں علینہ کو جو اس وقت عرفان کی صرف دوست تھی، دھوکے میں رکھ کر شریک کیا۔ اس نے اپنی آنکھوں کی بیماری کا بہانہ گھڑ کر اس سے آنکھوں کی وہ دوا منگوائی جسے کھا لیا جائے تو وہ سمِ قاتل کا کام دیتی ہے۔ نجمہ کی موت کے بعد وہ اس کی دولت کا مالک بنا اور اب اس نے علینہ کی دولت کو ہتھیانے کے لیے اس کے ایک خواب کو بہانہ بنا کر اسے نجمہ کا قاتل ثابت کرکے پھانسی کے راستے پر گامزن کردیا۔ یہ عرفان صاحب کا اپنی دو بیویوں کی دولت ہتھیانے کا خواب تھا لیکن درحقیقت یہ ایک دیوانے کا خواب تھا۔ دراصل عرفان صاحب نے علینہ کو قتل کرنے کا حیرت ناک منصوبہ بنایا تھا۔ جان بوجھ کر علینہ کو پھانسی کے پھندے تک پہنچوانا قتل نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن دنیا کا کوئی مجرم ہوشیار نہیں ہوتا۔ وہ صرف اپنے آپ کو ہوشیار سمجھتا ہے۔ جرم کبھی نہیں پھولتا پھلتا۔ ڈاکٹر اکرام نے اس کا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ ان کی گواہی کے پیش نظر میں پولیس سے درخواست کروں گا کہ وہ عرفان صاحب کو قرار واقعی سزا دلوائے اور ساتھ ہی اس عدالت سے درخواست کروں گا کہ میری موکلہ مسماۃ علینہ کو باعزت طور پر نجمہ صاحبہ کے قتل کے الزام سے بری کیا جائے۔‘‘
عدالت عرفان کے مقدمے میں ملزمہ علینہ کو باعزت بری کرنے کا فیصلہ سنا رہی تھی کہ اسی وقت ایک عجیب واقعہ ہوا عرفان جسے پچھلی سیٹ سے اگلی سیٹ پر آنے کا کہا گیا تھا، وہ سوئے اتفاق دروازے کے قریب ہی تھی۔
عرفان نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنی سیٹ سے حرکت کی اور عدالتی اہلکار کو دھکا دے کر باہر کی جانب دوڑا۔
اس کی اس حرکت پر کمرئہ عدالت میں کھلبلی مچ گئی۔ کوئی زور سے چیخا۔ ’’پکڑو، بھاگنے نہ پائے۔ قاتل فرار ہورہا ہے۔‘‘ یہ آواز ڈاکٹر اکرام کی تھی۔ انسپکٹر صدیقی حرکت میں آیا اور چند اہلکاروں کے ساتھ عرفان کے تعاقب میں دوڑا۔
عرفان عدالت کے کوریڈور اور احاطے سے چھلانگیں مارتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا۔
ذرا ہی دیر بعد پولیس کی گاڑی سائرن بجاتی ہوئی آندھی طوفان کی طرح اس کے تعاقب میں جا چکی تھی۔
٭…٭…٭
’’ڈاکٹر صاحب! میں آپ کا کس منہ سے شکریہ ادا کروں۔ آپ نے مجھے آخری لمحات میں موت سے بال بال بچا لیا۔‘‘ اگلے دن علینہ اپنی رہائشگاہ پر فون پر ڈاکٹر اکرام کا شکریہ ادا کررہی تھی۔
ڈاکٹر اکرام اس وقت اپنی کلینک میں تھا۔ مسکرا کر بولا۔ ’’اس کی ضرورت نہیں۔ شکر کرو کہ اصل مجرم بے نقاب ہوگیا۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب! لیکن…‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رکی۔
’’مگر کیا؟‘‘
’’وہ فرار بھی تو ہوگیا ہے؟‘‘ اس کے لہجے میں دبا دبا خوف تھا۔
’’پولیس کے ہاتھوں وہ زیادہ دنوں تک نہیں بچ سکتا۔ بے فکر رہو۔‘‘ ڈاکٹر نے اسے تسلی دی پھر کچھ دیر توقف کے بعد بولا۔ ’’میرا خیال ہے اب تو آپ کو اپنے اس خوفناک خواب سے رہائی مل گئی ہوگی؟‘‘
’’یہی تو آپ کو بتانا چاہ رہی تھی ڈاکٹر صاحب!‘‘ وہ ایک دم بولی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ ڈاکٹر نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’وہ بھیانک خواب مجھے دوبارہ نظر آیا تھا۔‘‘ اس نے بتایا۔ ’’میں بھی آپ کی طرح یہی سمجھی تھی کہ شاید اب اس منحوس خواب سے میری جان چھوٹ گئی ہے لیکن نہیں۔ ویسا ہی خواب مجھے پہلے سے زیادہ پریشان کررہا ہے۔‘‘
’’اس بار خواب میں آپ نے کسی قسم کی کوئی تبدیلی محسوس کی؟‘‘ ذرا دیر کی خاموشی کے بعد ڈاکٹر اکرام نے پوچھا۔
’’ہاں! یہی تو آپ کو بتانا چاہ رہی تھی میں…‘‘ وہ جلدی سے بولی۔
’’آپ ایسا کریں میرے کلینک آجائیں۔‘‘ ڈاکٹر نے یہ کہتے ہوئے رابطہ منقطع کردیا۔
٭…٭…٭
عرفان کے فرار کے بعد پولیس اسے شہر بھر میں ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ انسپکٹر یاور صدیقی کو پوری امید تھی کہ عرفان زیادہ دیر تک قانون کے شکنجے سے نہیں بچ سکتا۔ اس نے دو سادہ لباس والے پولیس اہلکاروں کو بھی علینہ کی رہائشگاہ کے پاس متعین کردیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ عرفان چوری چھپے عارضی طور پر سہی، اپنی رہائشگاہ کا بھی رخ کرسکتا تھا۔
ادھر علینہ مقررہ وقت پر ڈاکٹر اکرام کی کلینک پہنچی۔ نرس فریحہ اب اسے گھور کر نہیں دیکھتی تھی۔ اس نے ایک مریض کے فارغ ہوتے ہی اسے فوراً ڈاکٹر کے چیمبر میں بھیج دیا۔
’’ہاں! اب مجھے آپ بتائیں کہ آپ کو اپنے خواب میں کون سی تبدیلی کا احساس ہوا تھا؟‘‘ ڈاکٹر اکرام نے چند رسمی کلمات کے بعد سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ڈاکٹر صاحب! میں نے بالآخر وہ پردہ ہٹا کر دیکھ لیا تھا۔‘‘ علینہ نے بتایا۔ اس کی آواز دور سے آتی محسوس ہورہی تھی۔
’’اوہ…! یہ تو آپ نے بڑی بہادری کا کام کیا۔‘‘ ڈاکٹر خوش ہوکر حوصلہ افزا مسکراہٹ سے بولا۔ ’’تو پھر… آپ نے پردے کے پیچھے کیا دیکھا؟‘‘
’’ایک خوفناک چہرہ اور دو خونی آنکھیں اور…اور…‘‘
’’اور کیا…؟ بتائیں، ڈریں نہیں… اب اس خواب سے آپ کو ہمیشہ کے لیے رہائی ملنے والی ہے۔‘‘ ڈاکٹر اکرام نے اسے حوصلہ دیا۔
’’اس کے ہاتھ میں ایک چمکتے ہوئے پھل والا خنجر تھا۔ وہ… وہ… خون سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے ایک زوردار چیخ مار کے خود کو بیدار کرلیا۔‘‘ یہ بتاتے ہوئے علینہ کی سانسیں تیز تیز چلنے لگیں۔
’’وہ چہرہ کس کا تھا؟‘‘ ڈاکٹر اکرام نے کسی خیال کے تحت پوچھا۔
’’عرفان کا…!‘‘ اس نے لرزیدہ لہجے میں بتایا۔
’’اوہ…!‘‘ اکرام کے ہونٹ تشویش زدہ انداز میں دائرے کی صورت اختیار کرگئے۔
’’ڈاکٹر! عرفان اب مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ وہ موقع ملتے ہی مجھے مار ڈالے گا لیکن اب اسے مجھ سے کیا دشمنی ہے؟ وہ تو مجھ سے محبت کرتا تھا۔ پھر… پھر…‘‘ شدت غم تلے وہ اپنا جملہ مکمل نہیں کر پائی اور سسک کر رو پڑی۔
ڈاکٹر اکرام نے اس سے ازراہ تشفی کہا۔ ’’ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ عرفان اب تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اسے تو خود اس وقت اپنی پڑی ہوگی۔ وہ پولیس سے چھپتا پھر رہا ہے۔‘‘
’’لل… لیکن…‘‘ وہ کچھ نہ کہہ سکی۔ ڈاکٹر نے اسے کچھ دوائیں تجویز کرکے نسخہ تھما دیا اور چند ضروری ہدایات بھی دے دیں۔ ساتھ ہی اس نے اس کے سامنے انسپکٹر صدیقی کو بھی فون کردیا کہ وہ علینہ کی سیکورٹی کا بندوبست کرے۔ صدیقی نے اسے اس بارے میں پوری تسلی دے دی تھی۔
٭…٭…٭
علینہ کو اکیلا گھر کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ پہلے وہ بھیانک خواب کیا کم اس کے لیے عذاب جاں بنا ہوا تھا کہ اب یہ نئی مصیبت آن کھڑی ہوئی تھی۔ تنہائی میں تو اسے خواب کے بھیانک مناظر دکھائی دینے لگے تھے۔ موسم آج سرد تھا۔ اس نے گرم شال اوڑھ رکھی تھی۔ وہ کمرے میں بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے تپائی پر خالی مگ رکھا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے ہی اس نے کافی بنا کر پی تھی۔ وہ سوچنے لگی کہ اسے اب کوئی ملازمہ رکھ لینی چاہیے۔ پہلے والی ملازمہ کسی مجبوری کے سبب ملازمت چھوڑ کر اپنے گائوں جا چکی تھی۔
اچانک اس کی نگاہ سامنے دیوار پر ٹنگی تصویر پر پڑی۔ یہ عرفان اور اس کی شادی کی فریم شدہ تصویر تھی۔ وہ دکھ زدہ نگاہوں سے تصویر کو تکنے لگی۔
’’کیا انسان دولت کی خاطر اتنا گر بھی سکتا ہے؟‘‘ وہ کڑھے دل کے ساتھ سوچنے لگی۔ پھر بڑبڑانے لگی۔ ’’تم… تم تو مجھ سے بہت محبت کرتے تھے عرفان! مجھے جان کہا کرتے تھے۔ تمہیں کتنی دولت کی ضرورت تھی آخر…؟ کیا میری تمہاری نظروں میں کوئی اہمیت و حیثیت نہ تھی؟‘‘
اچانک ایک کھٹکے پر چونکی۔ اس کا دل یکبارگی تیزی سے دھڑکا۔ اس پر کپکپی طاری ہونے لگی۔
’’علینہ! تمہیں اب حوصلے سے کام لینا ہے۔ تمہارے اس خواب کا اختتام ہونے والا ہے۔ اگر تم نے ہمت اور بہادری سے کام نہیں لیا تو اس کا انجام بھیانک بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ اس کی سماعتوں میں ڈاکٹر اکرام کے الفاظ گونجنے لگے۔ نہ جانے ان الفاظ میں کیسا جادو تھا کہ علینہ کا خوف عنقا ہونے لگا۔ وہ کھڑی ہوگئی اور بڑے غور سے سن گن لینے لگی۔ کہیں یہ اس کا وہم تو نہیں؟ لیکن جلد ہی اسے دوبارہ کھٹکے کی آواز سنائی دی۔ تب اس نے اپنے حواس پر قابو پایا اور کچن کی طرف دوڑی۔ وہاں سے اس نے ایک تیز دھار والی چھری اٹھا کر ہاتھ میں پکڑ لی۔
اس نے پہلا کام یہ کیا کہ سارے گھر کی بتیاں جلا دیں اور لائونج کے دروازے کو کنڈی لگا دی تھی۔ پھر وہ فون اٹھائے اپنی خواب گاہ میں چلی آئی۔ ڈاکٹر اکرام نے احتیاط کے پیش نظر اسے انسپکٹر صدیقی کا نمبر دے رکھا تھا۔
وہ اپنی خواب گاہ میں کھڑی تھی۔ بلب روشن تھا۔ ماحول پر گہرا سکوت طاری تھا۔ چھری اس کے ہاتھ میں موجود تھی۔ اس کا رخ دروازے کی طرف تھا۔ تب ہی اسے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ کوئی اس کی خواب گاہ کے دروازے کی طرف آرہا تھا۔ علینہ کا بدن خوف سے تھرتھر کانپنے لگا۔ اس کی دہشت سے پھیلی ہوئی آنکھیں خواب گاہ کے دروازے پر جمی ہوئی تھیں۔ اسے تسلی تو تھی کہ دروازہ مقفل تھا لیکن دوسرے ہی لمحے اسے خیال آیا کہ عرفان کار کی چابی ہر وقت اپنے پاس رکھتا تھا۔ اس گچھے میں گھر اور خواب گاہ کی چابیاں بھی ہوتی تھیں۔
اسی وقت قفل میں چابی گھومنے کی آواز ابھری اور علینہ نے حوصلے سے کام لیتے ہوئے فون ہاتھ میں لے لیا اور جلدی جلدی انسپکٹر صدیقی کے نمبر پنچ کرنے لگی کہ اسی وقت دروازہ کھل گیا۔
مارے خوف کے علینہ کے ہاتھ سے فون ہی نہیں بلکہ چھری بھی نیچے قالین پر گر گئی۔ دروازہ کھولنے والا عرفان ہی تھا۔ اس نے لپک کر علینہ کو کسی شکرے کی طرح دبوچ لیا۔ علینہ نے چیخنے کے لیے منہ کھولنا چاہا تو عرفان نے ایک ہاتھ مضبوطی سے اس کے منہ پر رکھ دیا تاکہ وہ کوئی آواز نہ نکال سکے۔
’’سنو…! میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ بھلا میری تم سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے۔‘‘ عرفان نے نرم لہجے میں کہا۔ ’’اگر تم میری بات سننے کا وعدہ کرو تو ہم آرام سے باتیں کرسکتے ہیں۔‘‘ علینہ نے اثبات میں اپنے سر کو جنبش دی تو عرفان نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ قالین پر گرے فون اور چھری کو اٹھا چکا تھا۔
علینہ نے عرفان کا جائزہ لیا۔ اس کی حالت بُری ہورہی تھی۔ وہ نجانے کہاں کہاں دربدر اور خاک بسر، پولیس سے بچتا بچاتا ہوا یہاں
تک پہنچا تھا۔ شیو بھی بڑھی ہوئی تھی۔
’’علینہ!‘‘ اس نے اپنے لہجے میں محبت سموتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ ’’آئو… یہاں بیٹھو، آرام سے بات کرتے ہیں۔‘‘
اس نے دونوں بازوئوں کو تھام کر بیڈ پر بٹھا دیا۔ جبکہ علینہ کو اس کے وجود سے گھن آرہی تھی کیونکہ وہ ایک خونی قاتل کا وجود تھا۔
وہ بیٹھ گئی۔ اس کی نگاہیں گاہے بگاہے فون اور چھری پر پڑ جاتی تھیں جو عرفان نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دی تھیں۔
’’علینہ! میں جانتا ہوں کہ تمہیں مجھ سے نفرت ہوگی۔ تم حق بجانب ہو لیکن یہ بھی تو سوچو کہ یہ سب میں نے تمہاری خاطر ہی کیا تھا۔ نجمہ معذور ہوکر مجھ پر بوجھ بن گئی تھی۔ اس کی چڑچڑی طبیعت نے میری زندگی اجیرن کردی تھی۔‘‘ وہ اسے بتانے لگا۔ پھر سانس لینے کے لیے رکا اور آگے بولا۔ ’’اس دوران میں تم سے محبت کرنے لگا۔ پھر تمہیں حاصل کرنے کا واحد راستہ مجھے یہی نظر آیا کہ نجمہ ہمارے راستے سے ہٹ جائے۔‘‘
’’میں نے تم سے یہ کب کہا تھا کہ تم میری خاطر نجمہ کو راستے سے ہٹا دو۔‘‘
’’تم نے نہیں کہا تھا، لیکن تم خود سوچو بھلا اس کے سوا کوئی اور راستہ تھا؟‘‘ وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ہم دونوں مل کر کوئی راستہ تلاش کرلیتے۔‘‘
’’کوئی راستہ نہ تھا۔ تم نجمہ کی سہیلی تھیں۔ وہ سب سے پہلے تمہیں بے نقط سناتی اور اس کے بعد میری زندگی مزید عذاب بنا کر رکھ دیتی۔‘‘
’’یہ تمہاری سوچ تھی۔‘‘ علینہ بولی۔ ’’تم مجھ سے بات تو کرتے۔ پھر تم نے جب دیکھا کہ تمہاری جان پر بن آئی ہے تو مجھے قانون کے پھندے میں پھنسانے کی کوشش کی۔ تم میرے ساتھ ابتدا سے ہی سچے نہ تھے۔‘‘
’’تو تم کون سی سچی تھیں؟‘‘ عرفان کو اس کی صاف گوئی تلخ محسوس ہوئی۔ وہ غصے میں آگیا۔ اسی لہجے میں آگے بولا۔ ’’تم نے بھی تو اپنی معذور سہیلی کے بہانے میرے گھر آنا جانا شروع کردیا تھا؟ طرح طرح کے کھانے پکا کر لاتی تھیں تم… بھول گئیں؟ تم خود مجھ میں دلچسپی لینے لگی تھیں۔ دیکھا جائے تو تم نے ہی مجھے اس راہ پر لگایا تھا۔‘‘
’’یہ صرف تمہارا خیال اور خوش فہمی تھی۔‘‘ علینہ کی ذات پر اس نے حملہ کیا تو اسے بھی غصہ آگیا۔ ’’میں صرف تمہاری فین تھی۔ تم جانتے تھے اچھی طرح کہ میں نے ہی نجمہ سے کہا تھا کہ وہ میری تم سے ملاقات کرائے اور یہ ہر فین کی خواہش ہوتی ہے۔ وہ اپنے پسندیدہ فنکار سے ملے، اس سے باتیں کرے۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ وہ اپنے پسندیدہ فنکار سے عشق بھی کرنے لگے۔ یہ صرف تمہاری خوش فہمی تھی۔‘‘
’’تو پھر تم نے مجھ سے شادی کیوں کرلی تھی۔‘‘ عرفان نے کہا۔
’’ظاہر ہے جب تم نے اظہارِ محبت کیا اور مجھے اس راہ پر ڈالا تو پھر میں بھی مجبور ہوگئی۔ اس راہ پر چل پڑی۔‘‘
’’تم منافقت سے کام لے رہی ہو اب۔‘‘ عرفان بولا۔
’’اور تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ علینہ نے بھی تلخی سے کہا۔ ’’عدالت میں تم نے مجھے دھوکے سے پھنسایا۔ تمہیں مجھ سے سچی محبت کا دعویٰ تھا؟‘‘
’’میرے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا۔ تمہاری نفرت کی وجہ اگر یہی ہے تو سنو علینہ…!‘‘ وہ جیسے انکشاف کرنے کی نیت سے بولا۔ ’’اگر میں پھنس جاتا تو تم میری رہائی کے لیے کچھ بھی نہ کرسکتی تھیں۔ تم پھنس جاتیں اور میں آزاد ہوجاتا تو میں تمہیں بچانے کے لیے سر، دھڑ کی بازی لگا دیتا اور مجھے یقین تھا کہ میں ایسا کر سکوں گا کیونکہ میرے پاس ڈھیروں دولت تھی۔ نجمہ کی اور تمہاری… میں تمہارا کیس لڑنے کے لیے ملک کے ماہر ترین وکیل کو ہائر کرسکتا تھا۔ مرد کے مقابلے میں ایک عورت کی اپیل اور رہائی قدرے آسان ہوتی ہے۔ پیسے کے بل بوتے پر بھلا کیا نہیں ہوسکتا۔‘‘
اس کی بات سن کر علینہ بے اختیار ایک گہری سانس لے کر رہ گئی۔ عرفان سمجھا کہ شاید وہ اس کے جھانسے میں آرہی تھی۔
’’تم اب میرے پاس کیا لینے آئے ہو؟‘‘ علینہ نے پوچھا۔
’’فقط اتنا کہ مجھے معاف کردو لیکن دل سے اور… اور…‘‘ وہ رکا۔
’’اور کیا؟‘‘
’’میری مدد کرو۔‘‘
’’کیسی مدد؟‘‘
’’مجھے کچھ عرصے کے لیے یہاں پناہ دے دو۔ میں بہت دربدر ہورہا ہوں۔ میرا کوئی دوست ہے نہ کوئی ٹھکانہ جہاں میں آرام سے ان مشکل حالات کو اپنے حق میں کرنے کی تدبیر پر غور کرسکوں۔‘‘
’’یہ مشکل ہوگا میرے لیے۔‘‘ علینہ نے جواب میں کہا۔ ’’پولیس یہاں کی تلاشی لے سکتی ہے۔ تم اگر ان کے ہتھے چڑھ گئے تو میں بھی اعانتِ جرم میں دھر لی جائوں گی۔‘‘
’’غلط۔‘‘ وہ بولا۔ ’’یہی وہ واحد جگہ ہے جہاں پولیس کبھی تلاشی نہیں لے سکتی۔ کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میں یہاں کبھی پناہ لینے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ تم میری دشمن ہو۔ میں نے تمہیں پھنسانے کی کوشش کی تھی۔ تم کبھی نہیں چاہو گی کہ مجھے یہاں پناہ دو۔ پلیز علینہ! ایک دن سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ہم دونوں یہ ملک چھوڑ دیں گے اور کسی اور ملک میں پھر ویسی ہی ہنسی خوشی زندگی بسر کریں گے جس طرح پہلے کیا کرتے تھے۔‘‘
علینہ کے دل میں عرفان کے لیے نفرت مزید گہری ہوگئی۔ وہ اب اس پر اعتبار کرنے کے لیے بالکل تیار نہ تھی۔ وہ ایک دھوکے باز ہی نہیں بلکہ خونی بھی تھا۔ اپنے مفاد کے لیے وہ کسی کو بھی قربانی کا بکرا بنا سکتا تھا۔ اس نے کچھ سوچا اور پھر ایک گہری سانس لے کر بولی۔ ’’تو کیا تم یہاں رہتے ہوئے واقعی حالات پر قابو پا لو گے؟‘‘
’’بالکل۔‘‘ عرفان اسے رضامند سمجھ کر ایک دم پرجوش انداز میں بولا۔ ’’مجھے صرف ایک پرسکون ٹھکانہ چاہیے جہاں مجھے پولیس کا خوف نہ ہو۔ ابھی تو میں پولیس سے بھاگتا پھر رہا ہوں تو کیا کرسکوں گا بھلا؟‘‘
’’ٹھیک ہے، مجھے منظور ہے۔ لیکن… تمہیں پورا یقین ہے کہ تم حالات پر قابو پالو گے۔‘‘ علینہ نے اس کی طرف دیکھا۔ جو چال عرفان نے اس کے ساتھ چلی تھی، وہی چال اب علینہ اس کے خلاف چلنے والی تھی۔
’’میرا یقین کرو علینہ! ایک دن سب ٹھیک ہوجائے گا مگر دیکھو تم مجھے دھوکا دینے کی کوشش مت کرنا۔‘‘ اس کا لہجہ یکایک بدل گیا۔ علینہ کو اپنے وجود میں ایک بار پھر خوف کی سنسنی اترتی محسوس ہونے لگی۔ وہ بولا۔ ’’میں تم پر پوری نگاہ رکھوں گا۔ تم مجھے ایک ذاتی باڈی گارڈ کی حیثیت سے ہر وقت ساتھ رکھو گی۔ میرے پاس بھیس بدلنے کا سامان میرے اسٹوڈیو میں موجود ہے۔ اگر مجھے ذرا سا بھی شک ہوا تو پھر میں تم سے کوئی رعایت نہیں کروں گا۔ میں مروں گا تو تمہیں بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں بھلا تمہیں کیوں دھوکا دوں گی۔ میں خود بھی یہی چاہتی ہوں کہ حالات پہلے جیسے ہوجائیں۔‘‘ علینہ نے اپنی اندر کی کیفیات پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’گڈ…‘‘ وہ بولا۔ ’’اب آئو اسٹوڈیو کی طرف چلتے ہیں۔ میں اپنا روپ بدلوں گا اور صبح سویرے پہلا کام بینک جانے کا کرنا ہوگا۔ مجھے کچھ رقم کی ضرورت ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر علینہ کھٹک گئی۔ سمجھ گئی کہ اس دغاباز کے دل میں کچھ اور ہی منصوبہ ہے۔ وہ اس کے ساتھ اسٹوڈیو میں چلی آئی۔ چھری اور فون خواب گاہ میں پڑے رہ گئے تھے۔
علینہ بظاہر خود کو پرسکون رکھے ہوئے تھی۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھا۔ علینہ کا ذہن تیزی سے کام کررہا تھا۔ بالآخر اس نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے کافی کی طلب ہورہی ہے، تم بھی یقیناً پیو گے؟‘‘
’’ضرور…چلو پھر کچن میں چلتے ہیں۔‘‘ وہ بولا۔
علینہ نے ہونٹ بھینچ لیے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ… اسے اکیلا کچن میں جانے کی اجازت دے دے گا۔ ناچار وہ اس کے ساتھ کچن میں آگئی۔ کافی کا پانی رکھنے کے دوران اس نے کن انکھیوں سے پہلے اس کی طرف اور پھر اس دروازے کی طرف دیکھا جو باہر کی جانب کھلتا تھا۔ عرفان کچن کے اندر کی طرف کھلنے والے دروازے کے پاس رکھے اسٹول پر بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔
علینہ نے بجلی کی سی پھرتی کے ساتھ حرکت کی اور باہر لان میں کھلنے والے دروازے کی جانب دوڑی۔ جب تک عرفان سنبھلتا، وہ اسے کھول کر لان میں آچکی تھی۔ عرفان غراتا ہوا اس کے تعاقب میں دوڑ رہا تھا۔ علینہ چیختی چلاتی گیٹ کی جانب بھاگ رہی تھی کہ اچانک اس کا پیر پھسلا اور وہ منہ کے بل گری۔ عرفان جو اس کے پیچھے بھاگا آرہا تھا، اس سے ٹکرا کر گرا اور علینہ نے اس کی تھرا دینے والی چیخ سنی۔
وہ سنبھلی تو دیکھا عرفان کی پیشانی بری طرح خون آلود تھی۔ گرتے وقت اس کا سر ایک ٹوٹے ہوئے گملے سے ٹکرا گیا تھا اور اس کے نوکیلے تیز سرے نے اس کی پیشانی پھاڑ ڈالی تھی۔ وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑا تھا۔
علینہ نے ہمت کی اور اٹھ کر واپس پلٹی۔ ذرا دیر بعد وہ خواب گاہ میں آگئی اور انسپکٹر صدیقی کو فون پر ساری بات بتا رہی تھی۔
انسپکٹر صدیقی فوراً پولیس کی نفری کے ساتھ وہاں آن پہنچا۔ عرفان بے ہوش پڑا تھا۔ پولیس نے اسے گرفت میں لے لیا اور اسے اسپتال لے جایا جانے لگا۔
وہ رات علینہ نے پہلی بار سکون سے گزاری تھی، بغیر کسی بھیانک خواب کے۔ غسل اور ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد وہ بڑے اطمینان سے فون پر ڈاکٹر اکرام کو بتا رہی تھی کہ اب اسے ہمیشہ کے لیے اس بھیانک خواب سے رہائی مل گئی ہے۔
(ختم شد)