میرے والدین کا تعلق دقیانوسی ، روایت پرست زمیندار گھرانے سے تھا، لہذا بیٹیوں کی پیدائش پر سوگ منایا جاتا تھا۔ والد صاحب سرکاری محکمے میں اوسط درجے کے ملازم تھے لیکن وراثت میں زرعی زمین ملی جس کی پیداوار سے بآسانی گزارہ ہو جاتا تھا۔ ہم تین بہنیں اور تین بھائی والدین کی کل چھ اولاد تھیں ۔ بھائیوں کی گھر میں اہمیت تھی جبکہ ہم بیٹیاں ان کے سامنے کوئی حیثیت نہ رکھتی تھیں بلکہ فکر پڑی رہتی تھی کہ جائداد و ملکیت میں کہیں انہیں حصہ نہ دینا پڑ جائے۔ جب کھانا تیار ہو جاتا، پہلے اچھا حصہ بھائیوں کا نکالا جاتا۔ پھل فروٹ، نئے کپڑے بھی نعمتوں پر اول حق ان کا تھا اور جو بچتا، وہ بعد میں ہم بیٹیوں کو دیا جاتا تھا۔ والد صاحب نے اپنے وسائل سے بڑھ کر بیٹوں کو انگریزی اسکولوں میں پڑھایا۔ ان کی بھاری فیسیں ادا کیں۔ ہم کو وہ سرکاری اسکولوں میں بھی نہیں پڑھنے دے رہے تھے مگر میں نے ضد کی کہ پڑھنا ہے۔ ہم تینوں بہنوں نے گورنمنٹ کے ایسے تعلیمی اداروں میں پڑھا جہاں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنا پڑتا تھا پھر بھی خدا نے مدد کی اور ہم پوزیشن لائیں جبکہ میرے تینوں بھائی جن کی تعلیم اور ٹیوشن پر ابو نے ہزاروں روپے خرچ کر دیئے، وہ واجبی سا پڑھ پائے کیونکہ ان کو تعلیم سے زیادہ گھومنے پھرنے اور آرام کرنے سے دلچسپی تھی۔ کمسنی میں ہی میرے بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں۔ ان پر بے دریغ روپیہ خرچ کیا گیا پھر بھائیوں کو کچھ زمین بیچ کر کاروبار بھی کرائے گئے مگر انہیں کاروبار کا تجربہ نہ تھا، جلد ہی بزنس ٹھپ ہو گیا۔
میٹرک کے بعد امی ابو ہم لڑکیوں کو پڑھنے کے قطعی حق میں نہ تھے۔ کہتے تھے ۔ آگے پڑھ کر کیا کرنا ہے، کوئی شریف گھر دیکھ کر شادی کر دیں گے۔ میری ایک بھابی کچھ بہتر تھی، اس نے ہمارا ساتھ دیا اور امی کو سمجھایا۔ ان کو پڑھنے دیں، پڑھ لکھ کر جاب کر لیں گی تو گھر میں کچھ پیسے آئیں گے۔ یوں سونیا بھابی کے کہنے پر امی نے مجھے ایم اے تک پڑھنے دیا جبکہ میری بہنیں ایف اے اور بی اے تک پڑھ سکیں۔ میں نے ایم اے مکمل کیا تو امی بولیں ۔ علینہ ! تم جاب کیوں نہیں کر لیتی ہو؟ میں نے کہا کہ امی جان! جب میری کوالیفکیشن کے مطابق جاب ملے گی تو کرلوں گی، کسی پرائیویٹ اسکول میں ہزار دو ہزار پرتو استانی لگنے سے رہی۔ وہ حیرت کی تصویر بن گئیں ۔ کہا کہ ذرا ان کے نخرے تو دیکھو، ہزار دو ہزار کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ ایک دن دادی نے ابو سے کہا۔ انو میاں اعلینہ کی شادی کیوں نہیں کر دیتے ؟ اماں ! ابھی تو میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اسکی شادی کروں ، چار پانچ سال میں ہی کسی ایک بیٹی کا جہیز بن پاتا ہے، جہیز نہ دو تو سسرال میں عزت نہیں ہوتی ۔ تو کیا جہیز کی خاطر لڑکیاں گھر بٹھائے رکھو گے؟ بوڑھی کرو گے؟ اماں! اگر بغیر جہیز کوئی اچھا رشتہ ملتا ہے تو آپ کوشش کر لیں ۔ ابو نے جواب دیا شاید یہ واقعی ان کی مجبوری ہو۔ تب میں نے سوچا کہ اب مجھے نوکری کرنا چاہئے۔ میری کمیٹی نکلی تو میں نے پارلر کا کورس کر لیا۔ ہاں ایک بات بتانا بھول گئی، ایک دفعہ میرا کسی نے ہاتھ دیکھ کر کہا تھا کہ تم بہت مشہور ہوگی، بے شمار دولت کی مالک بنو گی ۔ بہت فرمانبردار بیٹے ہوں گے اور تمہارا شوہر تم سے محبت کرنے والا ہوگا لیکن جب میں ایک سال تک دو ہزار کیلئے انتھک محنت کرتی رہی پھر بھی اپنی ضرورتیں پوری نہ کر پاتی تو مجھے اس نجومی کی باتیں جھوٹی لگتی تھیں۔ جب سوچ سوچ کر مجھ کو ڈپریشن رہنے لگا تو میں نے چائے پینی شروع کر دی کیونکہ سر میں اکثر درد رہنے لگا تھا۔ جب ملازمت سے گھر لوٹتی تو بار بار جی چاہتا چائے پیوں ۔ تب امی کہتیں۔ کیا بار بار چائے پینا فیشن ہے۔ یہ نہیں سوچتی ہو کہ سارا دودھ چائے میں ختم ہو جاتا ہے حالانکہ پانچ کلو دودھ آتا تھا اور ہماری بھابھیاں اپنے اور اپنے بچوں کیلئے جس قدر چاہتیں، دودھ لے سکتی تھیں کیونکہ امی کا کہنا تھا کہ دودھ میرے پوتوں کیلئے آتا ہے۔ سر میں درد رہنے کی وجہ سے مجھے چائے کی لت لگی۔ گرم چائے سے سکون مل جاتا تھا۔ گویا یہ میری مجبوری تھی۔ آخر اس قدر ٹوکا گیا کہ ایک دن قسم کھائی کہ اب نہ پیوں گی اور پھر میں نے چائے پینی چھوڑ دی۔ انہی دنوں چھوٹے بھائی کو بیروزگاری کی وجہ سے ڈپریشن ہوا۔ اس نے بہنوں کا ٹی وی دیکھنا بند کرا دیا۔ باہر جانا بند ، چھت پر جانا بند، کسی کے گھر بھی نہیں جاسکتی تھیں۔ ہر وقت دھڑ کا سا لگا رہتا اگر اس کا تھوڑا سا بھی کام کرنے میں تاخیر ہو جاتی تو گالیاں اور مار جیسے لازمی خوراک بن گئی تھی۔ لمحہ لمحہ تنگ ہوتا گیا۔ اب گھر پر راج دھانی بہوؤں کی تھی ، وہ خوشحال گھرانوں سے تھیں ۔ کام کو ہاتھ نہ لگاتیں، سارا کام ہم کو کرنا پڑتا۔ گویا ان کی چاکری کرنی تھی۔ امی کی ڈانٹ الگ پڑتی۔ ہم بہنیں ایک دوسرے کی ساتھی تھیں مگر امی اور ابو نے ہماری دلجوئی بھی نہیں کی ۔ مجھ سے تو خدا واسطے کا بیر تھا۔ کہتے تھے کہ یہ کیا بیوٹیشن کا کورس کیا ہے، کوئی ڈھنگ کا کام تو سیکھتیں۔ ایک دن میں پارلر گئی۔ اس روز فاخرہ باجی کے مہمان آئے ہوئے تھے۔ ان کی خالہ بھی آئی تھیں، مجھ سے انہوں نے تعارف کرایا۔ کچھ دنوں بعد وہ ہمارے گھر آئیں، میرے رشتے کیلئے امی سے استدعا کی۔ امی نے انکار کردیا کہ ہم لوگ اس پوزیشن میں نہیں ہیں، ابھی شادی کا اہتمام نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے کہا ہم کو جہیز نہیں چاہئے، بس آپ سادگی سے نکاح کردیں۔ امی، ابو حیران ہوئے اور خوش بھی پھر ایک ماہ کے اندر اندر میری شادی اظہر سے ہو گئی۔ اظہر ایک محکمے میں کام کرتے تھے اور بہت اچھے انسان تھے۔ سی ایس ایس کرنا ان کا خواب تھا۔ میں نے بھی ان کی ہمت بندھائی کہ آپ کو ایک کوشش ضرور کرنی چاہئے۔ میری ہمت دلانے کی وجہ سے انہوں نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ شادی کے بعد میں نے اپنا پارلر بنانے کا فیصلہ کیا۔ میرا پارلر اچھا چل نکلا کیونکہ میں جس علاقے میں رہتی تھی ، وہاں دور دور تک کوئی پارلر نہیں تھا۔ یہ میں نے قسمت آزمائی تھی اور قسمت میرا ہاتھ تھام کر ترقی کی طرف لے جارہی تھی ساتھ ہی بوتیک کا کام بھی اسٹارٹ کر لیا۔ میرے پاس جودلہنیں تیار ہونے کیلئے آتی تھیں، وہ اپنا سہاگ کا جوڑا بھی مجھے سے ہی بنواتی تھیں۔ یوں میں پورے شہر اور گردو نواح میں مشہور ہوگئی۔ سسرال تو اللہ نے مجھے بہترین دی تھی، میرے رب نے جھولی میں دو بیٹے بھی ڈال دیئے لیکن میری شدید خواہش تھی کہ اللہ مجھے بیٹی دے۔ اظہر نے سی ایس ایس پاس کر لیا، وہ سرکاری محکمے میں ایک اچھے عہدے پر فائز ہو گئے۔ میرے مالک نے مجھ کو ہر شے سے نواز دیا۔
میری خالہ زاد نادیہ آپی نے اپنے دیور دانیال کیلئے مہوش اور میں نے اپنی سب سے بڑی نند کے بیٹے کیلئے سحرش کو مانگ لیا ۔ مہوش کے شوہر نے اپنی بیوی کو نہ صرف آگے پڑھنے کی اجازت دی بلکہ اس کی ہر ممکن مدد بھی کی ۔ اسے اپنی کم عمر پیاری سی بیوی سے محبت بھی بہت تھی ۔ دانیال نے مہوش کو کہا تھا کہ آگے پڑھائی جاری رکھو لیکن وہ سدا کی لاپروا ، گھرداری کو ہی اہمیت دی اور مزے سے اپنی سلطنت چلانے لگی۔ ہم بہنوں نے عہد کیا تھا اگر ہمارے گھر صرف بیٹیاں ہی پیدا ہوئیں تو بھی ہم ان سے اتنا پیار کریں گے جتنے پیار کیلئے ہم ترسے تھے اور آج ہم نے اپنا عہد پورا کیا ۔ ہم سب کے پاس اللہ کی رحمتیں موجود ہیں اپنے اصل مقام کے ساتھ ۔ مگر بڑے بھائی کے پاس کوئی رحمت نہیں، صرف نعمتیں ہیں۔ منجھلے کے ہاں سرے سے اولاد ہی نہیں ہے اور چھوٹے بھائی کے دو بیٹے ہیں، دونوں گونگے ، بہرے ہیں۔ اللہ ان پر رحم کرے شاید اللہ کو اس گھرانے میں اپنی رحمت کی تذلیل پسند نہیں آئی تھی تبھی بیٹی کسی کو نہ دی۔ خدا نے ان کو وہ دیا، جن کی ان کو خواہش تھی اور ہم کو بیٹے دیئے اور بیٹیاں بھی دیں۔ ہمارے جانے کے بعد بہوؤں نے اپنے خاوندوں کو خوب بھڑکایا اور بوڑھے والدین کو اتنے بڑے گھر سے نکال کر کوٹھی کے ساتھ متصل کچے مکان میں رہنے پر مجبور کر دیا۔ میرے بوڑھے والدین الگ پکاتے کھاتے تھے، امی کام نہیں کر سکتیں تھیں پھر بھی کرنے پر مجبور تھیں جبکہ ہم بیٹیاں ان کو کام نہیں کرنے دیتی تھیں ۔ اب ان کو اندازہ ہوا کہ بیٹیاں زحمت نہیں ، رحمت تھیں۔ وہ بیمار پڑیں تو بیٹے دیکھنے نہیں جاتے تھے، بہوؤں کو پھر کیا پڑی تھی کہ جا کر بوڑھے ساس ، سر کی خدمت کرتیں۔ بڑے بھائی نے ایک ملازمہ رکھی جو امی ابو کے پاس تھوڑی دیر کو جاتی اور ان کا کچھ کام کر آتی۔ اسی کے ذریعے ہمیں اپنے والدین کا حال معلوم ہوتا تھا تو ہم بہنیں باری باری امی ابو کی دیکھ بھال کو جانے لگیں۔
میں خاص طور پر ان کا خیال رکھتی تھی لیکن اپنے بھائیوں کے گھر ہم نہیں جاتے تھے۔ ہمارا کم جانا انہیں ہمارا غرور لگتا ہے، اب اگر اللہ نے ہمیں نواز دیا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے حالانکہ ابو نے کم حیثیت رکھنے والوں کو ہمارے ہاتھ پکڑائے تھے۔ کہتے تھے اپنے سے کم تر لوگوں میں بیٹیوں کے رشتے اس لئے دیتے ہیں تا کہ ان کی گردنیں جھکی رہیں۔ یہ دعا نہیں کرتے تھے کہ خدا ہر بیٹی کے نصیب اچھے کرے۔ اس کو سسرال میں بہت کچھ ملے لیکن ہرانسان کا اپنا نصیب ہوتا ہے، جو اسے ملتا ہے۔ آج ہم بہنیں والدین کو سنبھال رہی ہیں، ان کا خرچا اٹھاتی ہیں۔ عیش کوشی نے بھائیوں کو نکما کر دیا ہے۔ ایک نے اپنے حصے کی زمین بھی فروخت کردی۔ باقی دونوں بھائیوں کا زمین کی پیداوار پر گزارہ ہے لیکن خود کوئی کام نہیں کرتے ، ان کی بیویاں بھی زمیندار گھرانوں سے ہیں ، لہذا گزارہ ہو رہا ہے کہ سسرال والوں سے بھی کچھ مل جاتا ہے۔ آج کے دور میں اولاد اتنی مصروف ہوتی ہے کہ بوڑھے والدین کی خبر گیری کیلئے وقت نہیں نکال سکتی لیکن میری استدعا ہے کہ اولاد جتنی بھی مصروف ہو، انہیں والدین سے غافل نہ ہونا چاہئے خاص طور پر ان کی پیرانہ سالی کا خیال کرنا چاہئے کیونکہ ماں، باپ اور بزرگوں کی دعائیں ہی آپ کو زندگی میں کامیاب و کامران کرتی ہیں۔