Thursday, November 7, 2024

Rishta Aur Doulat

نیاز میرا چچا زاد تھا۔ میری اس سے بہت بنتی تھی۔ ایک دن سنا کہ اس کی منگنی ہو رہی ہے۔ مبارکباد دی تو ہنس پڑا، کہنے لگا،  دیکھو تو زمانے کا ستم کبری کہ مجھ سے کسی نے پوچھا تک نہیں اور خود ہی لڑکی پسند کر کے آ گئے۔  میں نے سوال کیا،  اچھا، جس سے منگنی ہو رہی ہے اس کا نام تو بتاؤ۔  اس نے جواب دیا،  ابو، امی نے لڑکی پسند کی ہے، نام بھی ان ہی سے پوچھ لو، مجھے نہیں معلوم۔ واہ، کیسے سیدھے اور بھولے ہو! ایسے فرمانبردار بیٹے خدا سب کو دے۔ بہر حال بات ہنسی میں اڑ گئی۔ پھر سنا کہ نیاز کی منگنی ناصرہ نامی لڑکی سے ہو گئی ہے۔ منگنی میں امی ابو گئے، میں نہ گئی کیونکہ امتحان ہو رہے تھے۔ منگنی کے چھ ماہ بعد ہی شادی کی تاریخ ٹھہر گئی۔ سارے گھر میں جیسے بہار آ گئی، شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ امی کو ہمراہ لے کر بار بار بازار کے چکر لگانے لگیں۔ بری بھی اچھی بنائی تھی کیونکہ شنید میں آیا تھا کہ لڑکی بہت سا جہیز لا رہی ہے۔ وہ دن بھی آ گیا کہ شادی دھوم دھام سے ہو گئی۔ ناصرہ اپنے ساتھ واقعی جہیز کا بہت بھاری سامان لائی تھی۔ ان لوگوں نے شاید یہ سوچ کر اتنا بہت سا جہیز اپنی لڑکی کے ساتھ کر دیا تھا کہ ان کی لڑکی اپنی زندگی سسرال میں آرام سے گزار سکے اور کوئی اس کو تھوڑا جہیز ہونے کا طعنہ نہ دے سکے۔ ان دنوں بعض گھرانوں کی طرح ہمارے یہاں بھی جہیز کی بڑی اہمیت تھی۔ یعنی لڑکی اگر کم جہیز لائے تو اس کو طعنے دیئے جاتے۔ یوں ہی دلہن کی زندگی برباد کر کے رکھ دی جاتی اور اس کو حد درجہ بے سکون کر دیا جاتا تھا۔ ماضی میں ایسی چند مثالیں ہمارے خاندان میں بھی موجود تھیں کہ کبھی لڑکی کم جہیز کی وجہ سے واپس کر دی گئی اور کبھی بہو کو محض اس وجہ سے طلاق دے دی گئی کہ جہیز دولہا والوں کے شایانِ شان نہ تھا۔ شاید لڑکی والوں نے ہمارے خاندان کی سابقہ روایات کے بارے میں سنا تھا، تبھی ناصرہ بھابی بھی اپنے ساتھ بہت سارا سامان میکے سے لاد کر لے آئی تھیں۔

کچھ عرصے تک تو بڑی واہ واہ ہوئی۔ ہماری چچی ہر کسی کو اپنی بہو کا جہیز بڑے فخر سے دکھاتی تھیں اور کہتی تھیں،  دیکھو جی! میں کسی ایسے ویسے گھرانے سے لڑکی اٹھا نہیں لائی ہوں، خاندانی لوگوں کے یہاں رشتہ کیا ہے۔  حالانکہ حقیقت میں ناصرہ کے والدین بچارے غریب لوگ تھے۔ البتہ اس کا ایک ماموں بہت امیر تھا اور خوش قسمتی سے ناصرہ کو اس نے پالا پوسا تھا۔ یہ سامان بھی اسی کا دیا ہوا تھا، کیونکہ وہ ناصرہ کو اپنی اولاد کی طرح چاہتا تھا۔ نیاز بھائی ان باتوں سے بے نیاز اپنی خوشیوں میں گم ہو گئے۔ ناصرہ سمجھدار لڑکی تھی۔ اس نے آتے ہی اپنے شوہر کا دل موہ لیا اور اس کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ دونوں آپس میں خوش و خرم تھے اور جہاں بیوی، میاں میں محبت ہو، دوسری باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ نیاز بھائی نے اپنی دلہن کو بہت آرام سے رکھا ہوا تھا اور اس کا بہت خیال کرتے تھے۔ ان میں کوئی اختلاف نہ ہوا اور قابل رشک زندگی گزارنے لگے۔ بھائی پہلے بزنس کرتے تھے، بزنس میں خسارہ ہو گیا تو کاروبار بند کر کے باقی ماندہ سرمائے سے بس خرید لی اور لمبے روٹ پر چلنے لگے۔ بس کے ڈرائیور دو تین بدلے گئے، کسی نے خاطر خواہ کما کر نہ دیا۔ ناچار خود ہی اپنی بس چلانے کا فیصلہ کر لیا۔ اب وہ خود ایک شہر سے دوسرے شہر اپنی بس پر چلاتے تھے۔ ایک روز وہ کراچی سے حیدر آباد مسافر لے کر جا رہے تھے کہ راستے میں ایک اڈے پر ان کا ایک بس ڈرائیور سے جھگڑا ہو گیا۔ اس شخص نے طیش میں آ کر لاری اڈے پر ہی نیاز بھائی کے سر پر لوہے کی راڈ دے ماری۔ اس ضرب سے وہ کومے میں چلے گئے اور پھر ہوش میں نہ آ سکے۔ بعد ازاں ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ خبر خاندان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کیونکہ نیاز بھائی تھے ہی اتنے اچھے کہ سب ان سے محبت کرتے تھے۔ وہ کئی غریب گھرانوں کی مدد کرتے تھے۔ ان کا اثر و رسوخ بھی تھا۔ وہ اعلیٰ افسران سے رابطے میں رہتے، ان کے حسن اخلاق کی وجہ سے بڑے سے بڑا آدمی بھی ان سے احترام سے بات کرتا تھا۔ بااثر ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی کسی کو تنگ نہ کیا، ہر ضرورت مند کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آتے تھے۔ ہمارے گھر میں ان کے انتقال کے سبب صف ماتم بچھ گئی۔ ناصرہ بھابی کی تو حالت غیر تھی۔ نیاز ان کے شوہر ہی نہیں، محبوب بھی تھے جو اچانک ایک ظالم کے وار سے ان کی دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ یہ حادثہ نہیں، یہ ایک سانحہ جانگاہ تھا۔ موت نے ان کے سر سے دوپٹہ کھینچ لیا تھا۔ وہ بال کھولے ننگے سر بین کر رہی تھیں، ان کی بھری بہار سی زندگی کو کسی کی نظر لگ گئی تھی، کوئی لٹیرا اچانک آ کر ان کو مفلس کر گیا تھا۔ ابھی ہم اس حادثے سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ عجب واقعہ ہوا۔ بھائی نیاز کی وفات کے چار ماہ بعد ہی چچا جان کے گھر جھگڑے کی آواز سنی۔ یوں تو امی جان، چچا کے گھر بے دھڑک آتی جاتیں تھیں لیکن وہ ان کے گھریلو جھگڑوں میں نہ پڑتی تھیں اور نہ ان کی بہو کے معاملات میں دخل دیتی تھیں۔ جب کئی روز تک جھگڑا ہوتا رہا تو امی سے رہا نہ گیا اور وہ ان کے گھر چلی گئیں۔ نیاز کے تین چھوٹے بھائی اور بھی تھے لیکن ان کی عادات اور سوچ و چار اپنے بڑے بھائی سے مختلف تھی۔ بھائیوں کے مزاج سطحی جبکہ طبیعت میں لالچ تھی، لیکن نیاز بھائی ایسے نہ تھے۔ اور اب یہ لالچ کا کرشمہ تھا کہ ان کے گھر میں جھگڑا ہو رہا تھا۔ پتا چلا کہ ان کی نظر بھابی کے قیمتی سامان پر ہے۔ اس خدشے کے تحت کہیں ناصرہ بھائی بیوگی کے باعث ان کا گھر چھوڑ کر نہ چلی جائیں، ساس ان کو مجبور کر رہی تھیں کہ وہ کسی ایک دیور سے نکاح کر لیں، اس کے بعد ہی وہ ان کو میکے جانے کی اجازت دیں گی، ورنہ نہیں۔ جبکہ ناصرہ بھابی کا کہنا یہ تھا کہ  میں کسی دیور سے بھی زوجیت کا رشتہ نہ جوڑوں گی کیونکہ تینوں کو میں چھوٹے بھائیوں جیسا سمجھتی ہوں۔  ان میں سے کسی سے بھی نکاح کرنا میرے بس کی بات نہیں۔

ہمارے چچی در پے تھیں کہ  تم اس گھر کی بہو ہو اور بہو بن کر ہی رہو گی۔ تم کو اس گھر میں آئندہ بھی کسی نہ کسی سے نکاح کر کے ہی رہنا ہو گا۔  ناصرہ نے بہت کہا کہ  میں اس گھر میں اپنے مرحوم شوہر کی بیوہ کی حیثیت سے ہی رہتی رہوں گی کیونکہ بچوں کا رشتہ موجود ہے۔ دوسری شادی کا بہر حال میں ارادہ نہیں رکھتی۔  دراصل ناصرہ بھابی کو نیاز بھائی سے اتنی محبت تھی کہ وہ باقی ماندہ زندگی انہی کی یاد میں گزار دینا چاہتی تھیں، تبھی دوسری شادی کا سوچنا محال تھا ان کے لئے۔ وہ اس گھر کو چھوڑ کر بھی جانا چاہتی تھیں، کہ تین بچوں کا ساتھ تھا، لیکن ہماری بچی کے دل میں نجانے کیا خوف تھا کہ وہ بہو کو کسی پل چین نہ لینے دے رہی تھیں۔ امی ابو نے سمجھایا مگر چچی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اب یہ ان کے گھر کا معاملہ تھا۔ کوئی کیا کر سکتا تھا؟ ادھر بیوگی کے بعد ناصرہ بھائی ایک بار بھی میکے نہ گئی تھیں۔ عدت کی مدت ختم ہونے کے بعد ان کے میکے والے لینے آئے کہ ان کی افسردہ بیٹی چند دن میکے میں گزار لے، شاید اس کے دکھی دل کو قرار ملے۔ چچی نے بہو کو جانے کی اجازت نہ دی، اور جب بھابی کے میکے والوں نے زیادہ اصرار کیا تو چچی نے کہا کہ  ٹھیک ہے، اپنی بیٹی کو لے جاتا ہے تو لے جاؤ، ہم بچے لے جانے نہ دیں گے۔  اس پر ناصرہ نے اپنے والدین کو سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیا کہ  ٹھیک ہے، یہ میرا گھر ہے۔ جب ساس اجازت دیں گی تبھی میکے جاؤں گی۔  یوں سال گزر گیا۔ ناصرہ بھابی پر آفرین ہے کہ ساس کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھیں مگر ہماری چچی کے دل میں کدورت آ چکی تھی۔ وہ ہو کو چین نہ لینے دیتی تھیں۔ انہوں نے ایک نیا مطالبہ شروع کر دیا۔  ٹھیک ہے، تم دیور سے نکاح نہیں کرنا چاہتیں۔ مت کرو۔ میرے بھانجے سے کر لو۔ اس کو تو بھائی نہیں گردانتیں۔ لہٰذا میرے بھانجے شعیب سے نکاح کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس طرح بچے تو ہمارے کنٹرول میں رہیں گے۔ ناصرہ بھابی نے یہ کہہ کر اس رشتے کو بھی رد کر دیا کہ مجھے سرے سے شادی کرنا ہی نہیں ہے۔ بچی نے بہو کے انکار پر کان نہ دھرے۔ انہوں نے شعیب کو اپنے گھر میں رکھ لیا۔ جب ان کا یہ بھانجا گھر ہی میں قیام پذیر ہو گیا تو ظاہر ہے کہ بہو سے بھی اس کا واسطہ پڑتا تھا۔ ناصرہ اچھے کردار کی تھی۔ وہ اسے چھوٹا بھائی سمجھ کر اس کا خیال رکھنے لگی۔ ظاہر ہے کہ ساس کا بھانجا تھا، اس کی مہمانداری بھی کرنی تھی۔ شعیب بھی ناصرہ بھابی کی عزت کرتا اور ان کا خیال رکھتا۔ باہر کے کام کر دیتا اور کہنا مانتا۔ دونوں کو اس بات کا علم نہ تھا کہ چچی کے ذہن میں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ ایک دن چچی نے شور مچا دیا کہ بہو اپنے بھانجے سے غلط مراسم استوار کر رہی ہے۔ اس نے کم سن لڑکے کو اپنے جال میں پھنسا لیا ہے۔ ساتھ ہی اس نے اس لڑکے سے ایسی باتیں کہلوا دیں جو ٹھیک نہ تھیں۔ افسوس کہ شعیب بھی خالہ کی باتوں میں آ گیا۔ اس بہتان پر گھر کے سارے مرد ناصرہ کے خلاف ہو گئے اور اسے دھمکیاں دینے لگے۔ انہوں نے شعیب کو بھی گھر سے نکال دیا۔ ہم تو جانتے تھے کہ چچی نے کہانی بنائی ہے لیکن وہی بات ہے کہ معاشرے میں ہر کوئی طاقتور کا ساتھ دیتا ہے۔ مظلوم کا ساتھ کوئی نہیں دیتا۔ یہی بات تھی کہ امی، ابو تمام زیادتیوں کو دیکھ کر بھی ناصرہ بھابی کی طرف داری نہ کر پارہے تھے کیونکہ برادری کا معاملہ تھا۔ ہم تو سمجھ چکے تھے کہ ناصرہ بھابی کا سامان بہت ہے اور قیمتی بھی، اور چچی اس سامان کو ہاتھ سے نکلنے دینا نہیں چاہتیں۔ اس واقعے کے بعد سسرال والوں نے ان کا ناطقہ بند کر دیا، یہاں تک کہ انہیں کھانے کو کوئی نہ پوچھتا تھا۔ وہ دو پہر بھوکی رہتیں یا تین پہر! کسی کو پرواہ نہ تھی۔ اگر امی یا کوئی پڑوسن ان کو بھوکی پاکر کھانا دیتیں تو انہیں برابھلا کہتیں کہ ہم جلاد ہیں کیا؟ جو تم گھروں سے کھانا پہنچانے آ جاتی ہو اور ہماری بدنامی کراتی ہو، شاید یہ تم سے کھانا لگتی ہے۔ ناصرہ بھابی مجھے بتاتی تھیں کہ ساس واقعی ان کو کھانا نہیں دیتیں، وہ بھوکی رہتی ہیں۔ رات کو جب سب سو جاتے ہیں تو کچن میں جا کر جو مل جائے کھا لیتی ہیں۔ اگر بچے کھانا بچا دیں تو اسی کو کھا کر آدھی بھوک مٹا لیتی ہیں۔ جھگڑا اس وجہ سے نہیں کیا کہ کہیں یہ بچے ان کی نظروں سے اوجھل نہ کر دیں۔ چچی نے ایک ہوشیاری کی کہ یہ خبر سارے محلے میں پھیلا دی کہ ناصرہ کسی کو پسند کرتی ہے اور اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے، حالانکہ ہم جانتے تھے کہ بھابی سرے سے دوسری شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تھیں۔ سارا جھگڑا یہی تو چل رہا تھا لیکن چچی اب اس مشن پر لگی تھیں کہ ناصرہ محلے والوں کی نظروں میں ذلیل ہو جائے اور لوگ اس سے ہمدردی کرنا چھوڑ دیں۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس طرح تو ہماری بدنامی ہو گی۔

ناصرہ بھابی کو رونے سے کام رہ گیا تھا۔ وہ سوکھ کر کانٹا ہو گئیں۔ میکے کب کی چلی جاتیں مگر بچوں کی محبت ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئی تھی۔ تبھی وہ ساس اور دیوروں کے دباؤ میں تھیں، جو خود کو ان کے بچوں کا سرپرست بتاتے تھے اور ان کے اخراجات اٹھا رہے تھے۔ جبر کی ایک حد ہوتی ہے۔ اب بھابی نے سوچنا شروع کر دیا کہ کیسے یہاں سے نجات پائیں اور بچے بھی ساتھ لے جائیں کیونکہ وہ بچوں کے بغیر نہ رہ سکتی تھیں۔ انہوں نے ہمارے گھر آ کر اپنے والدین کو خط لکھا اور میری امی سے استدعا کی کہ وہ ان کا خط پوسٹ کرا دیں۔ دو سال سے وہ میکے نہ گئی تھیں۔ اب خود پر قابو نہ رہا تھا۔ خط ملتے ہی ان کے والدین آپہنچے، وہ تو محض ناصرہ بھابی کے روکنے سے رکے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ بھابی کے وہ ماموں بھی تھے جنہوں نے ان کو بچپن میں گود لیا تھا۔ ماموں سمجھدار تھے۔ انہوں نے محلے کے دو معزز حضرات سے رابطہ کیا اور ان کو ساتھ لے آئے اور کہا کہ میری بھانجی کو سسرال والے میکے جانے سے روکتے ہیں۔ اب ہم ان کو لینے آئے ہیں اور جہیز سمیت لے کر جائیں گے۔ چچی نے دیکھا کہ یہ لوگ سامان بھی اٹھانے کی بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے فوراً ناصرہ کے بچوں کو بیٹی کے گھر بھیجوا دیا اور کہا کہ سامان لے جاؤ یا پھر بچے لے جاؤ۔ بچے ہی تو بھابی کی مجبوری تھے اور چچی نے فوراً ان کو نگاہوں سے اوجھل کر دیا تھا۔ ناصرہ کے ماموں نے کہا کہ بچے ان کے بھی ہیں اور تمہارے بھی۔ اس کا فیصلہ معزز محلے دار کریں گے۔ محلے دار حضرات نے یہ فیصلہ کیا کہ چند دن بچے ماں کے پاس رہیں گے اور چند دن دادی کے پاس! البتہ سامان ناصرہ کے جہیز کا ہے، وہ اپنا سامان لے جاسکتی ہے۔ یوں ٹرک پر بھابی کا سامان رکھ دیا گیا۔ والدین اپنی بیٹی لے کر چلے گئے اور بچے دادی کے پاس رہنے دیئے گئے۔ فیصلے کے مطابق انہیں پندرہ دن دادی کے پاس اور پندرہ روز ماں کے پاس رہنا تھا۔ بھائی کا بڑا لڑکا بمشکل پانچ برس کا تھا اور ابھی اسکول جانا شروع نہیں کیا تھا۔ باقی دو اس سے چھوٹے تھے۔ یہ ماں کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ امی ابو نے چچی کو سمجھایا کہ عنقریب بچوں کو اسکول بھی جانا ہے، یہ کس طرح پندرہ روز ادھر اور پندرہ روز ادھر رہیں گے۔ بچوں کی تعلیم متاثر ہو گی۔ اتنے چھوٹے بچوں پر ظلم مت کرو۔ چھوٹے بچوں کو ماں سے جدا نہ کرو، کیونکہ قانون اور دین بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا، جبکہ ابھی تک ناصرہ نے دوسری شادی بھی نہیں کی تھی۔ اگر وہ دوسری شادی کر لیتی تو پھر تو تم اس سے بچوں کو چھین لینے کا جواز بھی رکھتی تھیں۔ اس پر ہماری چچی نے یہی جواب دیا کہ ٹھیک ہے اگر ہم قانونی طور پر بچے رکھنے کے حق دار نہیں ہیں تو وہ کورٹ سے جا کر لے لیں۔ ان کے ماموں سے ناصرہ کا تڑپنا دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ پندرہ روز بعد جب وہ بچے لینے آئے تو انہوں نے ان کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ تب ہی وہ میرے ابو کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا،  بھائی، میں کچھ نہیں کر سکتا، صرف اپنے بھائی کو سمجھا سکتا ہوں مگر ان کی بیوی سے بات منوانا میرے بس میں نہیں۔ یہ سارا فساد میری بھاوج کا ڈالا ہوا ہے۔ آپ سرپرستی کا کیس دائر کر دیں۔

بھابی ناصرہ کے والد اور ماموں “گارڈین شپ” کا کیس اس وجہ سے ڈالنا نہیں چاہتے تھے کہ مقدمے لڑنے میں جو خواری تھی، وہ بھی ایک عذاب تھا۔ کچھ خبر نہیں تھی کہ انصاف ملے گا یا نہیں اور کتنی مدت تک خواری بھگتنی پڑے گی۔ ادھر ناصرہ بھابی خوف زدہ تھیں کہ ضدی دادی کی وجہ سے کہیں ان کے بچے مر کھپ نہ جائیں، کیونکہ ان کی صحیح دیکھ بھال تو صرف ماں کر سکتی تھی۔ ناصرہ نے والدین سے کہا کہ آپ میری ساس کو سارا سامان واپس کر دیں اور میرے بچے ان سے لے آئیے۔ پہلے تو وہ لوگ راضی نہ ہوئے لیکن جب سب سے چھوٹے بچے کی اسہال کے سبب موت واقع ہو گئی اور اطلاع بھابی کے میکے ہوئی تو وہ روتے پیٹتے آپہنچے اور دو دن بعد انہوں نے سامان کا ٹرک بھی چچی کو پہنچا دیا۔ جب سارا سامان ٹرک سے اتار لیا گیا تو چچی نے بہو سے ہار مان لی اور دونوں بچے ان کے حوالے کئے، کیونکہ اب خود بھی وہ انہیں سنبھالنے میں مشکل میں تھیں۔ ناصرہ صرف تین دن سسرال میں رہی۔ جاتے ہوئے ساس نے کہا،  بہو، تم مجھ کو لعنتی مت سمجھنا، چونکہ یہ سامان تمہارے بچوں کی امانت تھی، تبھی ہم نے رکھ لیا ہے۔ جب یہ بڑے ہو کر ہمارے پاس آئیں گے تو اپنا سامان لے جائیں گے۔یہ عجیب سی منطق تھی۔ ان کی بات سن کر سب لوگ انگشت بہ دنداں رہ گئے۔ وقت گزرتا گیا۔ ناصرہ نے صبر کر لیا۔ میکے میں رہتی رہیں۔ بچے بڑے ہو گئے، مگر وہ دادی کے پاس اپنا سامان لینے نہ آئے، کیونکہ دادی نے اس سامان کے عوض ہی ان کا سودا کیا تھا اور ان کی ماں کو ان کے باپ کا گھر چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ انہوں نے دوسری شادی بھی نہ کی اور اپنے بچوں کو سینے سے لگائے ان کی پرورش میں مصروف رہیں۔ اگر ان کو دوسری شادی کرنا ہوتی تو اس وقت ہی کر لیتیں جب بچے چھوٹے تھے۔ یہ واقعہ سارے محلے والے جانتے ہیں، تبھی چچی کی عزت ان کی نظروں میں نہ رہی۔ اب کوئی ان کو اہمیت نہیں دیتا۔ آج وہ بوڑھی ہو گئی ہیں تو پوتے، پوتی کو یاد کر کے روتی ہیں۔ ان کو بلوا بھیجتی ہیں مگر وہ نہیں آتے۔ کاش وہ پہلے ہی سوچ سمجھ کر کوئی اچھا فیصلہ کرتیں، تو یہ نوبت نہ آتی۔ افسوس ہوتا ہے ایسے لوگوں پر کہ کچھ لوگ چچی کی مانند انسانی اور قریبی رشتوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ روپیہ، پیسہ اور مادی اشیاء سب قربان کر دیتے ہیں مگر اپنے پیارے رشتوں کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔ ہماری چچی بھی ایسی ہی عورت تھیں جنہوں نے بہو اور پوتوں سے زیادہ مال اور دولت کی فکر کی اور خسارے میں رہیں۔ مال دوسری بہوئوں سے ہتھیا لیا۔ چھوٹے بیٹے شادی کر کے الگ ہو گئے اور یہ تنہا رہ گئیں۔ اگر چچی ایسا نہ کرتیں تو آج ناصرہ بھابی اور ان کے بچے ان کے ساتھ ہوتے اور ان کے بڑھاپے کا سہارا بنتے۔ اب چچی ناصرہ بھابی کو یاد کر کے روتی ہیں اور کہتی ہیں کہ میری وہی بہو سب میں اچھی تھی جس کے ساتھ میں نے اچھا سلوک نہ کیا۔اب اس بدسلوکی کا بدلہ مجھ کو دوسری بہو سے ملا جو مجھ کو اپنے گھر رکھنا گوارا نہیں کرتیں۔ اب ہم ہی ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ہماری چچی سے اور خواتین کو بھی سبق ملتا ہے کہ جو خود کو وقت کا سکندر سمجھتی ہیں، وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ ظلم و زیادتی کرنے والوں کو قدرت خود ایک دن اپنی گرفت میں جکڑ لیتی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS