قادر صاحب ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ ان کی والد صاحب سے اچھی خاصی دوستی تھی۔ پہلے ان کے حالات ٹھیک تھے۔ بعد میں آئے دن کی ہڑتالوں کی وجہ سے ان کی دکان بیٹھ گئی۔ کاروبار پر برا اثر پڑا اور وہ مالی طور پر بدحال ہو گئے۔ جب دکان میں مال رہا اور نہ پیسہ، تو اسے بند کرنا ہی پڑا۔ ان دنوں ان کا بیٹا عارف کالج میں پڑھ رہاتھا ۔ باپ کی مالی حالت خراب ہونے کا اس کی پڑھائی پر بھی اثر پڑا اور مزید تعلیم جاری رکھنا محال نظر آنے لگا۔
قادر صاحب نے والد سے ذکر کیا، وہ بولے۔ میرا ایک دوست یوسف کل مجھے ملا تھا۔ اسے اپنی بھابھی کے لئے کسی ٹیوٹر کی ضرورت ہے۔ اگر عارف ٹیوشن پڑھادے تووہ اچھی فیس دینے کو تیار ہیں۔ قادر صاحب نے عارف سے ذکر کیا۔ وہ کہنے لگا ٹھیک ہے ابا جان، میں پڑھا دوں گا لیکن کہاں جانا ہوگا؟ بیٹا وہ یہاں سے کچھ میل پرے رہتے ہیں۔ تم کو موٹرسائیکل پر جانا ہوگا۔ عارف ہر حال میں تعلیم جاری رکھنا چاہتا تھا ، تبھی کہنے لگا۔ ابا جان کوئی بات نہیں ، میں وہاں چلا جایا کروں گا۔ آج کل تو یوں بهى دوماه کی چھٹیاں ہیں، آپ ان سے ٹیوشن فیس کی بات کرلیں۔ والد صاحب سے قادر انکل نے کہا کہ آپ ان صاحب سے فیس طے کر لیں ۔ اگر وہ اچھی فیس دیں گے تو ہاں کہہ دیجئے گا ۔ یہ شام کو جاکر پڑھا آیا کرے گا۔ وہ بولے تم اس بات کی فکر مت کرو۔ یوسف کا بھائی بہت امیر آدمی ہے، جو کہو گے وہ رقم دے دیں گے۔ عارف کو انہوں نے پتا سمجھا دیا ا۔ اگلے دن وہ شام کو ان کے گھر گیا۔ وہاں ایک ساٹھ سالہ بزرگ نے اس کا استقبال کیا۔ وہ سمجھا کہ ان بزرگ کی بیٹی کو پڑھانا ہوگا۔ معلوم ہوا کہ بیٹی کو نہیں بلکہ ان کی بیگم کو پڑھانا ہے ، جو پرائیویٹ میڑک کی تیاری کررہی ہیں۔وہ کچھ حیران تو ہوا کہ میاں اگر ساٹھ ستر کے ہیں تو بیگم پچاس کی تو ہوں گی۔ کیا وہ اس عمر میں میڑک کا امتحان دے سکیں گی؟خیر، جب ان کی بیگم سامنے آئیں تو وہ ششدر رہ گیا، کیونکہ وہ کوئی عمر رسیدہ عورت نہیں، بلکہ بمشکل اٹھارہ برس کی لڑکی تھی ۔
عارف کو پڑھانے سے مطلب تھا چند دن تو رخشنده نامی خاتون بلکہ لڑکی نے سنجیدگی سے پڑھا پھر ادھر ادھر کی باتیں زیادہ کرنے لگی ۔ عارف نے ایک روز اس سے پوچھا۔ آپ کی عمر کیا ہے؟ وہ بولی۔ یہی کوئی بیس سال ہوگی۔ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اس وجہ سے کہ آپ کے شوہر تو کافی عمر کے ہیں۔ کیا یہ شادی آپ کی مرضی سے ہوئی ہے؟ جی۔ اس روز تو رخشندہ نے یہی جواب دیا کیونکہ ہم عمر ہونے کے باوجود ان کے درمیان استاد اورشاگرد کا رشتہ تھا۔ عارف نے سوچا ۔ مجھے کیا، مجھے تو پڑھانے سے مطلب ہے۔ رخشندہ کا شوہر کھالوں کا کاروبار کرتا تھا، اس لئے اکثر دوسرے شہروں میں اس کا آنا جانا لگا رہتا وہ ہفتے میں دو دن ہی گھر میں رہتا تھا ۔ اس دوران رخشنده اپنی ساس کے ساتھ گھر میں ہوتی جو نوے سال کی ضعیف عورت تھی۔ اسے کم سنائی دیتا تها اورد کهتا بهی کم تھا۔ بوڑھی ماں کی خاطر ہی منیر نے دوسری شادی کی تھی۔ رخشندہ کے ماں باپ بہت غریب تھے ۔ انہوں نے اس مال دار بوڑھے سے بیٹی کا بیاہ اسی وجہ سے کیا تھا کہ منیر صاحب نے اس کے والدین اور دیگر بچوں کے اخراجات اٹھانے کی ذمہ دار بھی لی تھی اور برابر ان کو ہرماہ خرچہ دیتے تھے ۔ جن دنوں رخشندہ کی شادی ان سے ہوئی، اس کی عمر سولہ ستره برس تھی۔ وہ ہرگز ان کے ساتھ شادی پر رضامند نہ تھی، پھر باپ کی بیماری و بے روزگاری اور گھر کی مفلسی کو دیکھ کر بالآخر مان گئی بلکہ مجبوراً اسے ماں اور ماموں کی بات ماننا پڑی۔ وہ اس شادی سے خوش نہ تھی۔ یہ بالکل ایک بے جوڑ شادی تھی۔ جو بھی سنتا ، یقین نہ کرتا ۔ ایک دو نے سمجھایا بھی، لیکن جب لڑکی کے والدین نے ان کی نہ سنی تو وہ خاموش ہو بیٹھے ۔ بہرحال رخشنده بیاہ کر سسرال چلی گئی ۔ جب تک شادی نہ ہوئی تھی وہ اپنے دل کو تسلیاں دیتی رہی کہ چلو میری قربانی سے میرے والدین تو سکھی ہوجائیں گے اور بہن بھائی بھی پڑھ جائیں گے، باپ کا علاج ہو سکے گا، تاہم شادی کے بعد جب منیر کو دیکھا تو پھوٹ پھوٹ کر روئی ، یہاں تک کہ خواب آور گولیاں کھالیں مگر ڈاکٹروں نے اس کی زندگی بچالی۔ منیر صاحب بھی پریشان ہوگئے۔ اب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ یہ تو مجھ سے ظلم ہوگیا ہے۔ انہوں نے رخشندہ سے کہا۔ اگر تم اتنی ہی دکھی ہو اور میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں ، تو میں تم کو طلاق دے کر آزاد کرنے کو تیار ہوں۔ تم اس بات سے مت گھبراؤ کہ تمہارے والدین اور بہن بھائیوں کا کیا ہوگا ۔ تم آزاد ہوکر میکے بهی چلی جاؤگی تو میں نے جو خرچہ ان لوگوں کو دینے کا وعدہ کیا ہے، ایک ضرورت مند خاندان کی مدد کا سوچ کر دیتا رہوں گا۔
رخشنده نے کچھ دن سوچا تواس کو احساس ہوا اس کا شوہر بوڑھا ضرور ہے لیکن برآ آدمی نہیں ہے ۔ اس نے بھی اپنی ماں کی خاطر دوسری شادی کی ہے۔ پہلی بیوی کی وفات کے پندرہ سال بعد شادی، تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ رخشندہ نے اپنی ایک سہیلی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا کہ جو ہونا تھا ہوگیا ۔ اب تم شادی شدہ ہوچکی ہو۔ طلاق کا داغ خود پر کیوں لگواتی ہو؟ دوچار سال صبر کرلو۔ بڑے میاں نے تو آخر مرنا ہی ہے۔ ان کی ساری دولت تمہاری ہوگی۔ا ن کی کوئی اولاد تو ہے نہیں، تم یہ کرو کہ جائیداد اپنے نام لکھوا لو۔ بڑے میاں مر گئے تو بعد میں عیش کروگی۔تمہاری عمر پڑی ہے، پھرسے شادی کرلینا۔ فی الحال اپنی تعلیم مکمل کرلو، اس طرح تمہارا دل بھی لگا رہے گا۔ واقعی رخشنده کو کالج کی تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا لیکن حالات کی وجہ سے پڑھائی چھوڑنا پڑی تھی ۔ وہ میڑک کا امتحان بھی نہ دے سکی تھی۔ رخشندہ نے کسی طرح خود کو سمجھایا اور شوہر سے کہا کہ جو میرے نصیب میں لکھا تھا، مجھے مل گیا ۔ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے صرف ایک خواہش ہے کہ پڑھ لکھ جاؤں۔ آپ میری یہ خواہش پوری کردیں۔ میرے لئے گھر پر ٹیوٹر کا انتظام کرا دیں تاکہ ماں جی اکیلی نہ رہیں اور میری تعلیم حاصل کرنے کی خواہش بھی پوری ہوجائے۔ منیر صاحب نے کہا۔ یہ کوئی ایسی خواہش نہیں کہ میں پوری نہ کرسکوں، بلکہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تم پڑھنا چاہتی ہو۔ اسی دن سے انہوں نے ٹیوٹر کی تلاش شروع کردی ، لیکن کوئی بهی خاتون ٹیچراتنی دور جانے پر رضامند نہ ہوئی تو انہوں نے اپنے بھائی یوسف سے کہا اور یوسف نے میرے ابو سے، اس طرح ان کے توسط سے عارف کو یہ ٹیوشن مل گئی اور اس کا پڑھائی کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔
نیت نیک ہو تو اسباب بھی بنتے چلے جاتے ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسان کی نیت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ رفتہ رفتہ حالات ایسے پیدا ہونے لگے کہ جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا ۔ عارف روز موٹر سائیکل پر ٹیوشن پڑھانے جاتا تھا اور شام کو واپس آتا تھا۔ ایک روز اس کی موٹر سائیکل کو ایک کار نےٹکر ماردی۔ خدا کا شکر کہ جان بچ گئی ،مگر چوٹیں آئیں۔ وہ لنگڑاتا ہوا رخشندہ کے گھر پہنچا اور اسے ساری بات بتائی۔ رخشندہ نے اسے بستر پر لٹایا۔ جس بازو پرچوٹ آئی تھی، اس کی ڈریسنگ کی ۔ ٹانگوں پرچوٹ لگنے سے نیل پڑگئے تھے، بوتل گرم پانی کرکے ٹکور بھی کردی، پھر نیم گرم دودھ دیا ، پین کلر بھی کھلائی۔ اس وقت وہ یہی کرسکتی تھی، کیونکہ گھر میں کوئی مرد توتھا نہیں، منیر بهی اپنے کاروبار کےسلسلے میں گیا ہوا تھا۔ اس کا گودام دوسری شہر میں تھا۔ یہ حادثہ گویا قدرت کی طرف سے ایک آزمائش تھی ۔ یہ دونوں اس حادثے کے سبب ایک دوسرے سے قریب ہوگئے تھے۔ اب جب بھی دونوں ٹیوشن بیٹھتے، ملاقات کی نوعیت جدا ہوتی۔ رخشندہ کے انداز میں تبدیلی آگئی تھی تو عارف بهی خود کو بالکل بدلا ہوا پاتاتھا۔ اب وہ صبح وقت سے پہلے اٹھ جاتا، جلدی جلدی ناشتہ کرکے ٹیوشن کی راہ لیتا۔ ماں کہتی کہ اتنی جلد کیوں جاتے ہو ؟ وه جواب دیتا ۔ اس وقت ٹھنڈا ٹائم ہوتا، دن چڑھ جاتا ہے تو گرمی بڑھ جاتی ہے۔ ادهر رخشنده بھی شدت سے اس کی منتظر ہوتی دن کو اس کا شوہر چلا جاتا جب عارف وہاں پہنچتا۔ ساس بے چاری تو ہلنے جلنے سے معذور تھی۔ اب رخشندہ اپنے سراپا پر خاص توجہ دینے لگی ہر وقت گھر میں رہتی لیکن روز ایک نیا جوڑا نکال کر پہنتی اور بناؤ سنگھار کرنے لگی۔ روزانہ کوئی اچھی ڈش بنا کر رکھتی اورعارف کو کهانا کهلا کرہی جانے دیتی۔ آخر چھٹیاں ختم ہوگئیں۔ اب عارف شام کو ٹیوشن پڑھانے جانے لگا ۔وقت گزرتا رہا۔ ایک روز رخشندہ کی طبیعت خراب تھی ۔ وہ ڈاکٹر کے پاس گئی جب لوٹی تو بہت خوش تھی جیسے اسے جینے کا مقصد مل گیا ہو۔ ان دنوں عارف کے امتحان ہونے والے تھے۔ وہ امتحان کی تیاری کرنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے دوماہ کی چھٹیاں لے لیں۔ جب پرچے ختم ہوگئے تو وہ رخشندہ کے گھر گیا۔ اس کے شوہر نے کہا کہ تم ایک ماہ اور چھٹی کروکیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کرم کیا ہے اور میرا وارث اس دنیا میں آنے والا ہے۔ یہ سن کر عارف کو جھرجھری آگئی۔ جانے کیوں اس کو یہ اطلاع بری لگی اور وه رخشنده سے کھنچا کھنچا رہنے لگا۔
بہر حال رخشندہ نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس کے شوہر نے خوب خوشی منائی۔ وہ بے چارا تو اسی دن کا منتظر تھا مگر عارف کو نجانے کیا ہوگیا کہ وہ جب بھی اس بچے کو دیکھتا، اسے غصہ آنے لگتا۔ اس کا جی چاہتا کہ اس بچے کو کہیں دور پھینک آئے لیکن یہ انہونی بات تھی۔ وہ ایسا کیسے کرسکتا تھا؟ تاہم اس کو اب اپنی زندگی ایک بوجھ محسوس ہونے لگی ۔ وہ اس دن کو كوستا تها جب اس نے اس گھر میں قدم رکھا تھا۔ جب اس کا دل زیادہ بوجھل ہوا تو اس نے رخشندہ کوٹیوشن پڑھانے سے منع کر دیا ۔ وہ اب ایک بچے کی ماں تھی۔اس کےبارے میں غلط سوچنا بھی گناه تھا ۔وہ کئی دن وہاں نہ گیا تو بالآخر رخشندہ اپنے شوہر کے ساتھ عارف کے گھر آئی اوراس کے والدین کی منت سماجت کر کے اسے اپنے ساتھ لے گئی، حالانکہ اب اس کا دل نہ چاہ رہا تھا کہ وہ ان کے گھر جائے۔ وہ سوچتا تھا کہ میں تو ایک غیر شادی شده لڑکا ہوں۔ اس عورت کو اپنے خاوند کی ناموس کی حفاظت کرنا چاہیے۔ کجا اس نے مجھے بھی غلط خیالات میں لگا کر ضمیر کی جلتی ہوئی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ رخشندہ مگر اپنے دلی جذبات پر قابو نہ رکھ پارہی تھی۔ وہ اس سے زیادہ دیرتک بیٹھنے اور بے تکلفی سے بات کرنے پر مصر ہوتی مگر عارف بے رخی سے کام لینے لگا۔ یونہی مشکل سے اس نے دوماہ کا وقت نکالا اور وہاں جانا چھوڑ دیا۔ چند دن گزرے رخشنده دوباره گھر آگئی اور عارف کی والدہ کی منت کرنے لگی کہ وہ کم از کم ایف اے تک ٹیوشن جاری رکھے ۔ اس روز بھی مجبوراً عارف اس کے گھر چلا گیا، لیکن دل میں تہیہ کرلیا کہ وہ اب اس معاملے کو ہر صورت ختم کر کے ہی آئے گا، ادھر رخشندہ نے بھی سوچ لیاتھا کہ آج وہ فیصلہ کن بات کرے گی۔ گھر پہنچ کروه بولی ۔ دیکھو عارف! اگر اب تم مجھ سے آنکھیں چراؤ گے ، تو میں تم پرکوئی الزام لگادوں گی۔ تم کہیں کے نہ رہو گے۔ عارف نے عورت کی عظمت کے قصے سنے تهے، لیکن یہ روپ کبھی نہ دیکھا تھا ۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ عورت اپنی ادنی خواہشوں کے پیچھے اتنا گر سکتی ہے۔ اس کی بات سن کر وہ سکتے میں رہ گیا تھا۔ وہ اس وقت تو خاموش ہوگیا لیکن سوچتا رہا کہ آخر کروں تو کیا کروں ؟ اور کیسے اس سے جان چھڑاؤں؟ کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ میرے گلے کا طوق بن جائے اور ماں باپ کی عزت بھی خاک میں مل جائے۔ آخر اس نے سوچا کہ اس کے شوہر سے کہہ دے۔ اس طرح بات بھی رہ جائے اور جان بھی چھوٹ جائے گی۔
عارف ، منیر صاحب سے گھر کے باہر ملا اور اس سے کہا کہ آپ کی بیگم صاحبہ مجھ سے ناراض ہوگئی ہیں کہتی ہیں کہ مجھے ضرور پڑھاؤ ، جبکہ اب میری اپنی پڑھائی کا حرج ہورہا ہے۔ میرا ایف ایس سی کا دوسرا سال ہے۔ نمبر اچھے نہیں آئے تو محنت اکارت جائے گی اور ان کا کہنا ہے کہ اگر میں ان کی بات نہ مانی تو وہ مجھ پر چوری کا الزام لگا دیں گی۔ میں کسی اور ٹیوٹر کا انتظام کردیتا ہوں ۔ یہ اس پر بھی راضی نہیں ہیں۔ آپ ہی میری مدد کیجئے۔ آخر وہ دوسرے ٹیوٹر سے کیوں نہیں پڑھنا چاہتیں ؟ انہوں نے کہا۔ کسی اور ٹیوٹر کو ہم اس لئے رکھنا نہیں چاہتے کہ تم پر بھروسہ ہے اور میں تم کو اپنے بیٹے جیسا درجہ دیتا ہوں۔ ہرکسی کو تو ٹیوٹر نہیں رکھا جاسکتا۔ بہرحال تم کل گھر آنا میں رخشندہ کو سمجھاؤں گا۔ تمہارے سامنے بات کروں گا۔ امید ہے وہ تمہاری مجبوری سمجھ جائے گی۔۔ دوسرے روز عارف کالج کی چھٹی کے بعد ان کے گھر گیا۔ دونوں میاں بیوی کھانا کھارہے تھے۔ منیر صاحب نے اس کی کافی آؤ بھگت کی ، پیار سے پاس بٹھایا اور کہا۔ بیٹے، کیا تم نے میری بیگم کو پڑھانا چھوڑ دیا ہے؟ جی، اب اپنے امتحان کی تیاری کرنا ہے اس لئے پڑھانے نہیں آسکتا۔ تبھی وہ بیگم سے مخاطب ہوئے۔ آپ کو عارف میاں سے کیا شکایت ہے ؟ جوان پر چوری کا الزام لگانا چاہتی ہیں؟ اس نے تو آپ کو پڑھایا ہے، آپ کے ساتھ نیکی کی ہے۔ وہ گھبرا کر بولی ۔ مجھے تو ان سے کوئی شکایت نہیں۔پھر کیا بات ہے ؟ اس کی مجبوری ہے، یہ مزید نہیں پڑھاسکتا، تو آپ نے دھمکی دے ڈالی ہے۔ یہ سن کر وہ پتھر کا بت بن گئی۔ ذرا دیر سوچا پھر عیاری سے بولی ۔ دراصل آج کل رشتے اچھے نہیں ملتے ہیں ۔ میں اپنی چھوٹی بہن سے ان کا رشتہ کرنا چاہتی ہوں۔ سوچا، یہ مان جائیں تو اُس کی قسمت کھل جائے گی ۔ بس یہی بات تھی، جو ان کو پسند نہیں آئی۔ میں نے چوری کا الزام لگانے والی بات تو یونہی مذاق میں کہہ دی تھی کیوں؟ کیا ایسی بات ہے جس پر ٹیوشن چھوڑ کرجانا چاہتے ہو؟ عارف نے اثبات میں سر ہلا دیا کیونکہ رخشندہ نے بات بنا دی تھی۔ دراصل مجھے ابھی تعلیم مکمل کرنی ہے اور کسی کی لڑکی کو اتنا انتظار کرانا میں ٹھیک نہیں سمجھتا۔ رخشندہ نے اچھا سوچا اور تم بھی ٹھیک سوچ رہے ہو۔ رہی تمہاری پڑھائی کی بات تو وہ بھی ٹھیک ہے۔ تم ایف ایس سی کی تیاری کرلو، بے شک ہم مجبور نہیں کریں گے کہ تم ٹیوشن کے لیے وقت نکالو ۔ میں تم کو خوشی سے اجازت دیتا ہوں۔ اگر اس دوران کسی قسم کی مالی مدد کی ضرورت ہو تو مجھے ضرور کہنا ۔ میں نے تم کو بیٹا کہا ہے ، تواس رشتے کی لاج رکھوں گا۔
ان کے ایسا کہنے پر عارف شرمندہ ہو گیا ۔ اس نے دل میں تہیہ کرلیا کہ وہ ہرگز اس شریف آدمی کی حرمت میں مخل نہ ہوگا۔ یہ بزرگ ہیں یا بوڑھے ہیں، یہ ان میاں بیوی کا معاملہ ہے۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ خطرے کی بوسونگھتے ہی پرے ہٹ جاؤں۔ گھر آکر اس نے خدا کا شکر اداکیا کہ منیر صاحب نے معاملہ سلجھا دیا، ورنہ کچھ غلط بھی ہوسکتا تھا۔ بیماری کا بروقت علاج کرانا ہی اچھا ہوتا ہے۔ تاہم وہ یہ ضرور سمجھتا تھا کہ رخشنده کو ایک عمر رسیدہ سے بیاہ کراس کے والدین نے غلطی کی ہے۔ بچیوں کے رشتے والدین کواس طرح ہرگز نہ کرنا چاہیں۔ لڑکیاں بے چاری بے زبان ہوتی ہیں۔ اپنی شادی کے معاملے پر بول نہیں سکتیں ، پهر جب ان کے قدم بہک جائیں تو معاشرہ ہی ان کو برا کہتا ہے ۔