جہاں آرا چپ بھی کر جا میری بچی مجھے تو ہول اٹھ رہے ہیں- تیرا رونا دیکھ کے سوچنے دے مجھے، ایسا کروں کہ تجھے رلانے والے خود خون کے آنسو روئیں – عفت آرا جذبا تی لہجے میں بولی آخر کو بڑی اور چہیتی بیٹی تھی ان کی – اس کے کسی بھی مسئلے پر کیسے جذباتی نہ ہوتیں – ارے اماں شوہر تو چھوڑو اولاد بھی اپنی نہیں رہی – اب بڑی بی صبح ہی صبح اٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں پتہ نہیں کیا جنتر منتر پھونکتی رہتی ہیں دن چڑھے تک – میرا لاڈلا فرمانبردار معیز کہتا ہے اماں آپ کی پسند کی ہوئی لڑکی لا کر مجھے گھر کو جہنم نہیں بنانا – میرے لیے تو دلہن دادی بھی پسند کریں گی- دادی الگ صدقے واری جاتی ہیں پوتے کی باتیں سن کر – ارے جس نند نے ساری زندگی مجھے جلایا تڑپایا آج تک چین نہ لینے دیا – وہ تو اسی کی بیٹی کو سر پر لا کے بٹھائیں گی دیکھ لینا- وہ سو سو کر کے بولی تو عفت آرا کو مزید جوش آگیا- ارے ایسے کیسے لے کے آئے گی تو اٹھ ذرا ٹیلی فون کھسکا لا – اور میرے تکیے کے نیچے سے ڈائری نکال کر پیر بابا کا نمبر ملا ذرا- میں دیکھتی ہوں تیری ساس کی مکاریاں پیر بابا کی کرامت کے آگے – اور پچھلی بار تجھے جو پڑیاں بنا کے دی تھیں پیر بابا نے کہ دودھ میں گھول کر سب گھر والوں کو پلا دینا وہ تو پورا کیا کہ نہیں تو نے عمل – وہ فون کا رسیور اٹھا کر رک کر جہاں آرا سے پوچھنے لگی تو وہ منہ بنا کر رہ گئی – کیا تھا اماں عمل پورے اٹھ دن کیا تھا بارہ ہزار الگ لے لیے- آپ کے پیر بابا نے، پر اثر خاک ہونا تھا الٹا ایک دن معیز کے ابا کو شک پڑ گیا جب میں دودھ میں پڑیا ڈال رہی تھی تو وہ کچن میں آ گئے – شکر ہے زیادہ کریدہ نہیں- ورنہ تو آپ کو پتہ ہے ان کی عادت کا – ایک بار جس بات کے پیچھے پڑ جائیں بال کی کھال اتار ڈالتے ہیں – وہ خاصی ناراضگی سے گویا ہوئیں -اے جہاں آرا تجھ سے یا تو کوئی عمل میں گڑبڑ ہوئی ہوگی یا تیرا شک تجھے لے ڈوبا – یاد نہیں پیر بابا کا کہنا ہے کہ رتی بھر شک بھی میرے عمل کو بیکار کر ڈالتا ہے جو کام بھی کرو جو عمل بھی کرو پورےایمان سے کرو- انہوں نے بیٹی کو لتاڑا تو وہ شرمندہ سی نظر آنے لگی – پر کچھ اثر ہوا نا معیز پر نہ اس کے ابا پر- تو میرے دل میں آئی کہ پیسے ضائع ہی نہ ہو گئے ہوں – عفت آرا اب پیر بابا سے گفتگو فرما رہی تھی میری بچی پر رحم کریں پیر بابا اس کی جادوگرنی جیسی ساس نے سارے گھر کو اپنی مٹھی میں کیا ہوا ہے – جو ظلم کے پہاڑ توڑتی ہے وہ الگ ہے – میرے اکلوتے بیٹے کے رشتے کا بھی ذکر کیا تھا آپ سے کہ دشمن کہیں کام بننے ہی نہیں دیتے – جہاں ذرا بات بنتی ہے ایسی ایسی باتیں کر کے آ جاتے ہیں کہ چار جگہ سے میرے شہزادے سے بیٹے کا لوگ خود آ کر انکار کر گئے – لہجے میں رقت طاری کیے وہ اپنے مسائل پیر بابا کو بتا رہی تھیں دو کالے بکرے جی جی حاضر پیر صاحب 25 ہزار جی مجھے پتہ ہے- آپ جیسے ولی کا اس دنیا اور دنیا کے پیسوں سے کیا لینا دینا- پر موکل تو نذرانہ لیں گے نا – نہ جی ہم جیسے لوگوں نے آپ پر شک کر کے گنہگار ہونا ہے وہ عقیدت سے دوہری ہی ہو گئی -کچھ ایسے ہی تاثرات جہاں آرا کے چہرے پر بھی نمودار ہو گئے – بس جی اس بار کوئی عمل کوئی وظیفہ کریں بابا جی میری بچی بڑی پریشان ہے – جی نہیں نہیں نظرانہ دینے میں خود آؤں گی – جی جی پیر بابا جی اللہ آپ کو ہزار سال سلامت رکھے- انہوں نے فون رکھ کر کہا – بس تو دیکھ جہاں آرا اب کی بار کا عمل تیرے ساس تیرے پیروں میں نہ آ گرے پھر کہنا- بکرے تو میں خود کر لوں گی 25 ہزار کا بندوبست ان دو دنوں میں تجھے کرنا پڑے گا – عفت آرا پاندان آگے کھسکا کر اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا – وہی تو سوچ رہی ہوں اماں پچھلی دفعہ تو بارہ ہزار کی کمیٹی نکلی تھی تو اسے اسی میں سے دے دیے تھے- اب پیسے کہاں سے لاؤں معیز کے بابا تو کبھی بھی نہ دیں نہ ہی وہ ان باتوں کو مانتے ہیں – فرحت کب آئے گی کالج سے- اس سے ادھار پکڑ لیتی ہوں اگلی بی سی ڈال کے چکا دوں گی جہاں آرا کو آخر ایک رات بہن کی صورت میں سجھائی دے ہی گئی – یہ ٹیپو کب تک آتا ہے دفتر سے پیسوں کی طرف سے مطمئن ہو کر جہاں آرا کو بھائی کا خیال آیا – ٹیپوآج کل پریشان ہے بتا رہا تھا کہ پروموشن ہوتی ہوتی رہ گئی میرے بچے کی اس سے کئی سال جونیئر جو ابھی نیا آیا تھا اس کو ترقی دے دی باس نے – بندش کرا رکھی ہے دشمنوں نے – فرحت ہے تو اچھی بھلی صورت کی ، میری بچی ہزاروں میں تنخواہ ہے – سرکاری نوکری پر رخصتی کرانے میں سستی سے کام لے رہے ہیں سسرال والے- پر میں بھی دیکھ لوں گی ایک ایک کو – اماں بھر بھر کے دل کی بڑھاس نکال رہی تھی اور جہاں آرا تائیدی انداز میں سرہلائے جا رہی تھی – سعیدہ نماز کے بعد قران پاک کی تلاوت کر کے اپنے کمرے سے باہر آئیں تو فجر کا ٹائم نکلتا دیکھ کر الٹے پاؤں واپس ثمن کے بستر کی طرف گئیں اٹھ جاؤ ثمن جلدی سے – نماز کا ٹائم نکل رہا ہے بیٹا – انہوں نے اس کی چادر بھی کھینچ ڈالی- تب ثمن آنکھیں ملتے اٹھی وہ خود جلدی سے کچن کی جانب آ گئی – بیٹے کے بند کمرے کی جانب نگاہ گئی توبس ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی عمران کی شادی کے بعد بھی آج تک ناشتہ ماں ہی دیتی تھی بہو بیگم دن چڑھے اٹھتی اپنی مرضی کا ناشتہ بنا کر نوش فرما کر سیدھا ماں کے گھر سدھار جاتی – اور واپسی عمران کی واپسی سے محض آدھا گھنٹہ پہلے ہوتی- شادی کے تین سال بعد بھی آج تک اس کا یہی دستور تھا خود ایک دو بار دبے لفظوں میں بہو سے بات کی گویا ایک قیامت صغری کو آواز دے دی -بہو بیگم نے وہ سنائی کہ وہ تکتی رہ گئی – وہ تو شکر ہے ثمن کالج گئی ہوئی تھی ورنہ وہ اپنی ماں کے ساتھ یہ بدتمیزی برداشت نہ کر پاتی – بیٹے سے کچھ کہتی تو ایسی نظر سے دیکھتا تو شرمندہ ہی ہو جاتی — عمران اپنے کسی دوست کی بہن سے شادی کرنا چاہتا تھا – پر صدا کی ہمدرد سجدہ بیگم اپنی جٹھانی عفت آ را کا بوجھ کم کرنے کے لیے صفت ارا کو بیاہ لائیں – صرف عفت آرا جب بیاہ کر آئیں -تو پتہ نہیں کیسا وہم لاحق ہوا کہ سارے رشتہ دار ان کے پہننے اوڑھنے کے خلاف ہیں – ان کو خوش دیکھ کر سب ان پر جادو ٹونا کراتے ہیں عملیات کے ذریعے ان کے گھر میں پھوٹ پڑھوانا چاہتے ہیں اورتنگ دستی لانا چاہتے ہیں دماغ میں رینگنے والے یہ کیڑے اگر اس کی وقت مناسب انداز میں جھاڑ دیے جاتے تو ٹھیک تھا – پر کون کرتا – ان کے شک کی نوعیت بچوں کے بعد بدل گئی تھی – بچہ بیمار ہوا تو فلاں نے عمل کروایا – فلاں بیٹی کی پوزیشن نہیں آئی فلاں رشتہ دار نے کچھ کروایا ہوگا – اپنی تربیت کا یہ پہلو انہوں نے اپنی ساری اولاد میں منتقل کر دیا – یوں فقیروں کے پاس ہر مسئلے کا حل ڈھونڈنے والا یہ خاندان ہزاروں روپے اسی مصرف میں جھونک آتا اور اللہ کے نام پر نہ تو دل میں خوف تھا نہ دینے کے لیے ایک روپیہ – بیٹیاں جس گھر میں گئی اپنی بد فطرت اور اسی فضول شخص کی بدولت نہ تو خود کسی خاندان کو اپنا بنا سکیں اور نہ ان کی ہو سکی – الٹا سسرال والوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی تھی – گزرتے سالوں میں عفت آرا بیوہ بھی ہو گئیں اور ان کی عادت و خصلت میں کوئی فرق نہ پڑا –
ثمن بھی ماں کی مدد کو کچن میں آ گئی – دونوں ماں بیٹی نے مل کر ناشتہ بنایا عمران ناشتہ کر کے آ فس چلا گیا – ثمن ابھی ناشتہ کر کے چائے پی رہی تھی آج کل پیپرز کے بعد فارغ تھی- تو اس لیے اطمینان سے بیٹھی تھی ورنہ اس وقت تو وہ عمران کے ساتھ ہی چلی جایا کرتی تھی – ساجدہ بھی بیٹی کے ساتھ ہی اپنی چائے لے کر آ بیٹھی – جالی بڑا دروازہ کھول کر بھاری بھر کم جسامت کی عفت آرا داخل ہو کر ساجدہ بیگم کا دل ہلا گئی- ان کے ایمرجنسی دور اکثر ہوتے تھے اور خاصے فساد لیے ہوتے تھے- سو انہوں نے گھبراہٹ کے مارے آج بھی چائے واپس ٹیبل پر رکھ دی اور ان کے استقبال کے لیے کھڑی ہو گئی تا ہم ثمن کی طرف سے ایسا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا – اس نے صرف سلام کیا جس کا جواب دینا انہوں نے گوارا نہیں کیا – ثمن کے ماتھے پر ناگواری سے بل پڑ گئے ان کی ہرآمد کے بے سروپا وجہ ہوتی اور اس کے پیچھے ایک فضول بحث اور اختتام ایک جگہ پر ہوتا امی بیچاری تو ان کی تسلی کرانے میں ہلکان ہو جاتی اور بالاخر دم سادہ کر چپ ہو جاتی – سا جدہ بیگم مجھے پتہ ہوتا کہ میری جس بچی کو بڑے ارمانوں سے تم بیاہ کر لائی تھی اس کے ساتھ یہ سلوک کرو گی تو ہرگز اس کو یہاں نہ بیاہتی – ہائے میری بد نصیب بچی- کیسے ناقدر لوگ پلے پڑ گئے – ثمن کچھ بولنے لگی تھی کہ اماں کی گھوری اسے چپ کروا گئی بھابی بیگم آپ بیٹھیں تو تسلی سے بات کریں ، کیا ہو گیا ہے اللہ گواہ ہے کہ میں نے صفت آرا اور اپنی ثمن میں کوئی فرق روا نہیں رکھا – ساجدہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بٹھاتے ہوئے کہا انہوں نے غصے سے ہاتھ جھٹک دیا ,پر بیٹھ ضرور گئیں اتنے بھاری بھرکم حبسے کے ساتھ کتنی دیر کھڑی ہو سکتی تھی- ارے رہنے دو بیوی اگر میری بچی کو اپنی بیٹی سمجھتی تو آج اس کی اولاد ہو گئی ہوتی وجہ سن کر ساجدہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا- جبکہ ثمن کے تیوری کے بل مزید گہرے ہو گئے اور چہرے کے زاویے بھی بگڑ گئے تاہم وہ خاموش رہی – بھابی یہ تو اللہ کا کام ہے اور جب کسے چاہے نواز دے – علی شادی کو تھوڑا ہی تو عرصہ ہوا ہے اللہ تعالی ہمیں بھی دے گا انشاءاللہ – اور مجھ سے بھلا زیادہ کسے خوشی ہو گئی کہ میرے اکلوتے بیٹے کی نسل اگے بڑھے ساجدہ نے رسان سے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اے بی بی بس کر اپنے یہ ڈھونگ – پیر بابا نے خود تمہارا نام لیا ہے اور پیر بابا کا نام سن کر ساجدہ بیگم نے ایک طویل سانس لی وہ تو میں اپنے کسی اور مسئلے کے لیے گئی تو لگے ہاتھوں صفت آرا کا حساب بھی کروا لیا – صاف کہہ دیا کہ بی بی جب تک تیری بیٹی کی ساس زندہ ہے اس نے تیری بیٹی کے بچے نہیں ہونے دینا – ایسا عمل کرا رکھا ہے اس نے اور میں کہتی ہوں کہ میرے گھر میں نہ تو کبھی سکون نامی شے کا عمل دخل ہو سکتا ہے جب تک یہ کمبخت پیر بابا زندہ ہے -سا جدہ بیگم کی زبان کیسے پیربابا کی شان میں گستاخی کر رہی ہے نامراد جلا کر بھسم کر دیں گے ان کو پتہ چل گیا تو عفت آرا بولی- ثمن تم جاؤ یہاں سے سا جدہ بیگم نے غصے سے کہا ، جا رہی ہوں پر یاد رکھیے گا جس دن اس منحوس بابے کا مجھے پتہ مل گیا نا میں اس کے خلاف ایف آئی آر درج کراؤں گی – لوگوں کے گھروں میں فساد ڈلوانے کے جرم میں – پاؤں پٹختی اپنی تائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی چلی گئی کہ تائی کانوں کو ہاتھ لگا کر استغفار کرتی رہی دیکھیے بھابھی بیگم میں آ پ کو ایک نہیں کئی ہزاربار بتا چکی ہوں کہ زندگی میں رونما ہونے والی ہر بات ہر عمل اور وقت اور واقعہ منجانب اللہ ہوتا ہے – ہم تو بے بس انسان ہیں میں آپ کو کن الفاظ میں یقین دلاؤں کہ میں ان تعویز گنڈوں اور عملیات وغیرہ پر یقین نہیں رکھتی ہاں تو تو اتنی ہی اگر پاک صاف ہو تو اٹھاؤ قران عفت آ را چمک کر بولی – سا جدہ بیگم نے بے ساختہ اس استغفار کیا- بھابھی بیگم معاف کیجئے گا قران پاک جیسی مقدس کتاب اللہ تعالی نے ہدایت کے لیے اتاری ہے، نہ کہ ہم جیسے گنہگار بندوں کے جھوٹ سچ جاننے کو- ارے اماں آپ – اتنی دیر میں عفت بھی آنکھیں ملتی آئی تو ساجدہ کو بہت کوفت ہوئی کم از کم اس وقت وہ بہو بیگم کی موجودگی نہیں چاہتی تھی پتہ تھا کہ ان دونوں کو اکٹھا سنبھالنا دشوار ہوگا – اور ہوا بھی یہی عفت آرا نے اپنی بیٹی سے اپنی آمد کی وجہ بتائی تو اس نے سر پر ہاتھ مار مار کر وہ رونا پیٹا ڈالا کہ پہلے تو سا جدہ بیگم سے چپ کرانے کی کوشش کرتی رہی پھر خود ہی ہاتھوں میں سر تھام کر بیٹھ گئی – ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان جاہل عورتوں کو کیسے چپ کروائیں- یہ سب سن کر ثمن ایک بار پھر کمرے میں آئی تو وہاں کی صورتحال پر اس کا خون کھول گیا وہ دونوں ماں بیٹی امی کو دیکھ کر تیز تیز کچھ بول رہی تھی اور امی آنسو بھری آنکھوں سے بولنے کی کوشش کرتی پھر بے بسی سے چپ ہو جاتی – چپ میں کہتی ہوں چپ کر جائیں آپ لوگ خدا کے لیے- اس نے اتنی زور سے کہا کہ تھوڑی دیر کو تو واقعی وہ دونوں خواتین چپ ہو گئی – تائی جان معاف کیجئے گا اگر اسی تماشے کے لیے ہی آئی ہیں یہاں تو پلیز زحمت نہ کیا کریں رشتے داری کے ناطے تو اپ نے کبھی یہاں قدم نہیں رکھا ،الزامات ہی لگانے آئیں جب بھی آئیں- آ پ کی بیٹی صاحبہ روز اپنے درشن آپ کو کرا تو آتی ہیں- الفاظ قسم دلیلیں کوئی بھی چیز آپ کو مطمئن نہیں کر سکتی اب میں کہتی ہوں کہ آپ جو کر سکتی ہیں کریں- بس یہاں آنے سے پرہیز کیجئے گا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا اٹھے امی آپ اپنے کمرے میں چلیں یہ عفت آرا کا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اس کہ اس قدر دو ٹوک رویے پر صفت آرا خونخوار نظروں سے نند کو دیکھتی رہی پھر چیخ کر بولی میرا گھر ہے یہ اور میری ماں کو یہاں آنے سے روکنے والی تو کون ہوتی ہے- ثمن ایک بار پھر بولنے لگی تھی کہ ساجدہ نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا-
ارسلان کے دفتر سے آتے ہی بھابھی نے جلدی سے کھانا لگا دیا بچوں کو وہ سکول سے آتے ہی کھانا دے چکی تھی اب وہ آرام کر رہے تھے- ابھی ارسلان ہاتھ دھو کر ٹیبل تک آئے ہی تھے کہ اطلائی گھنٹی پر ایک بار پھر اٹھ کر دروازے تک گئے- پھر ان کی پرجوش سی آواز سنائی دی – تھوڑی دیر ٹیپو کو ساتھ لیے اندر آئے – ہاں بھئی کرن ٹیپو بھی کھانا کھائے گا – تم روٹیاں اور ڈال دو وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھے ساتھ میں ٹیپو کو بھی ہاتھ پکڑ کر ساتھ والی کرسی پر بٹھا دیا – نہیں بھائی میں کھانا نہیں کھاؤں گا اپ تکلف مت کریں – اماں کا پیغام دینے آیا تھا میں آپ کو یاد کر رہی ہیں- شام کو چکر لگا لینا- بھائی کا اس قدر روکھا جواب وہ دکھ سے بس اسے دیکھ کر رہ گئے – جبکہ کرن بھابھی جو روٹیاں ڈالنے کے لیے کھڑی ہو رہی تھی پھر سے بیٹھ گئی اور ٹیپو سنا کیا حال ہے؟ گھر میں سب کیسے ہیں؟ اماں ابا تمہاری جاب کیسی جا رہی ہے ارسلان نے کھانا کھاتے ہوئے ٹیپو سے پوچھا سب ٹھیک ہیں بھائی – جاب بھی بس ٹھیک ہی جا رہی ہے دشمنوں کا بس نہیں چلتا کہ روزی روٹی بھی بند کر دیں – پرموشن ہوتے ہوتے رہ گئی اماں کی تربیت کی جڑیں دور تک پھیلی تھی – ارسلان بھائی نے ایک نظر کھانا کھاتی کرن کو دیکھا پھر کھانا ختم کرتے ہوئے رسان سے بولے- دیکھو یار تم تو پڑھے لکھے نوجوان ہو تم کم از کم ان فرسودہ خیالات کا مالک نہیں سمجھتا تھا- زندگی موت رزق بیماری ہر کام اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی مرضی سے ہوتا ہے – جس دن تم لوگوں نے اس حقیقت کو قبول کر لیا یقین کرو بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے- میرا ،اماں اور تم لوگوں سے نظریاتی اختلاف یہی تو تھا جس نے مجھے اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا – اللہ بہت ناراض ہوتا ہے بدگمانی پالنے والے انسان سے ناحق تہمت اور الزام لگانا بہت بڑا گناہ ہے – وہ اسے سمجھانے لگے بس کریں بھائی – آپ کیا ہمارا ساتھ دیں گے آپ تو خود ہی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں- ورنہ آج یوں الگ نہ ہوتے ہم سے – وہ منہ بنا کر بولا تو ارسلان بھائی حیراں رہ گئے – اچھا چائے تو پیو گے نا – انہوں نے سر جھٹک کر صلح جو انداز میں پوچھا، نہیں بس میں اب چلتا ہوں ، پچھلی دفعہ بھی ایک بار یہاں میٹھا کھا لیا تھا تو پورا ایک ہفتہ بستر سے نہیں اٹھ سکا تھا – وہ کرن بھابھی کو دیکھ کر بولا، تو اذیت کا وہی احساس بھابھی کے اندر اتر گیا ،جسے اس گھر میں رہتے ہوئے ہر بار ان کو محسوس ہوتا تھا – جبکہ ارسلان نے بہت مشکل سے کچھ کہنے سے باز رکھا اور ٹیپو کے ساتھ چلتے ہوئے اسے بیرونی دروازے تک چھوڑ کر آئے تھے – ارسلان پر اپنی ماں اور بہنوں کی گہری چھاپ اس لیے نہ پڑ سکی تھی کہ میٹرک کرتے ہی اس کے چچا دبئی میں مقیم تھے انہوں نے اسے وہیں بلوا لیا تھا – چچا کا خشک میوہ جات کی برامد کا کافی کام بڑھ گیا تھا – دوسرا ابا بھی اس وقت زندہ تھے سو انہوں نے ارسلان بھائی کو دبئی چچا کے پاس بھجوا دیا – اس نے چھوٹی عمر سے عملی زندگی میں قدم رکھا تھا اور زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنا جان گیا تھا کمانے کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا- چچا جیسے معاملہ فہم بندے کا ساتھ اس میں بہت سی مثبت تبدیلیاں لایا تھا – ساتھ سال دیار غیر میں رہنے کے بعد جب وہ پاکستان واپس لوٹا – تو اپنے کاروبار یہاں چھوٹے پیمانے پر شروع کیا جو کہ بعد میں کافی اچھا چل نکلا تو اس نے پردیس جانے کا خیال پھر دل میں نہ آنے دیا-چچا البتہ اب بھی وہیں تھے – دبئی انہیں راس آ گیا تھا – شاید عفت آرا بہت چھان پھٹک کر کرن کو بیاہ کر لائیں مگر وہ ایک سال میں ہی گھبرا گئی – کچن میں کام کے دوران عفت آرا اور جہاں آرا اچانک چھا پا مارتی چلو یہ تو پھر بھی برداشت تھا مگر ان کی باتیں ، سالن میں کچھ ملا تو نہیں دیا ،کسی کے کہنے میں آ کر ؟ عفت آرا کے سوال پر کرن حیرت و استعجاب سے ان کو دیکھتی- کیا مطلب امی وہ حیرت سے سوال کرتی تو ہنسی سے مزید اس کا دل جلاتی- ایسی بھی معصوم نہ بنو ، ذرا پہلے خود تو چکھو – صوم کی پابند کرن نماز کے سٹائل میں دوپٹہ باندھے رکھتی- ساتھ ساتھ اپنی امی کے کہنے کے مطابق درود و پاک کا ورد کرتی رہتی- پہلی بار عفت آرا کی اس کے انداز پر نظر پڑی تو اس کے ہلتے لب انہیں ہلا گئے – فورا ہی آ کر اس کے ہاتھ سے سالن کا چمچہ لیا اور لگیں قسمیں اٹھوانے کہ کون سا عمل کر رہی تھی- پڑھ پڑھ کر ان کو مارنا چاہتی ہے اور اس کی گھر کی جاگیر سنبھالنا چاہتی ہے -وہ تو سن کر دنگ ہی رہ گئی خدا کی قسم امی گھر سے ہی عادت ہے، کچن کا کام ہو یا سلائی کڑھائی کا میں درود پاک کا ورد کرتی رہتی ہوں وہ روہانسی ہو کر بولی – ابے رہنے دو بی بی، ڈرامے ہم سب جانتے ہیں ان قصوں کو، اس گھر میں رہنا ہے تو یہ عملیات دم اور درود نہیں چلیں گے، انہوں نے انگلی اٹھا کر اسے متنبہ کیا ،تو وہ اپنے آنسو چھپا کر چپ ہی ہو گئی- ارسلان سے ذکر کرنا نہ بھولی رفتہ رفتہ اس کے لیے فرائض کی ادائیگی بھی اس گھر میں مشکل ہو گئی- اس کی نماز قران کی عادت کو گھر میں کسی بھی بیماری یا پریشانی سے جوڑ دیا جاتا- کہ سارا سارا دن مصلہ بچھا کے جہاں وظیفے کیے جاتے ہوں وہاں کیسے سکھ کا سانس نصیب ہوگا؟ ارسلان کا ساتھ تھا جوایسے جاہل لوگوں کو برداشت کر رہی تھی – تین سال کے عرصے میں دو بچے ہو گئے ، نہ تو خود کو ان کے مطابق ڈھال پائی نہ ان کو بدلنے میں کامیاب ہو سکی پر معاملہ تو تب خراب ہوا جب چھوٹے بچوں کو بھی وہ ان فضولیات میں ملوث کرنے لگی – ان کے گھر رواج تھا کسی بھی بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ کسی عامل بابے ٹائپ لوگوں سے ضرور استفادہ کیا جاتا- پورے گھر کے خیال میں بیماری یا پریشانی کا تعلق اللہ سے نہیں بلکہ رشتہ دار جو ان کے دشمن تھے ان کی طرف سے کرائے گئے کسی عمل کا نتیجہ ہوتی- ارسلان کا بیٹا طلحہ ایک دفعہ ہیضے کا شکار ہو گیا ارسلان بزنس کا سلسلے میں باہرتھا عفت آرا ٹیپو کے ساتھ بابے کے پاس لے گئی اور دم کرا کے کوئی 10 ،12 تعویز گلے میں پہنا کے لے آ ئیں اور مرچوں کے دھوئیں اور لال بلی ،دوائیوں سے علاج شروع کیا گیا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی دن میں بچے کی حالت اس حد تک بگڑ گئی کہ اسے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا ارسلان جو اب تک صرف نظر انداز کر دینے کی پالیسی اپنائے ہوئے تھا ماں اور بھائی پر خوب بگڑا ، عفت آرا کون سی چپ رہنے والی تھی سارا الزام ہی کرن کی اماں کے ساتھ رکھ دیا کہ بچے کو کچھ کھلا دیا ہے بقول ان کے بابا کے- اور بابا نے ہی پیشگوئی کی تھی کہ پہلے بچے کی حالت بگڑ جائے گی لیکن ان کا عمل اسے موت کے منہ سے کھینچ لائے گا – ارسلان پہلی دفعہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوا اس کی سوچ نے عملی قدم تب اٹھایا جب اس واقعے کے محض ہفتہ بعد اسے اپنی بیٹی جو کہ اس وقت بمشکل پانچ سال کی تھی گلی کے بیچ میں حراساں کھڑی دکھائی دی اس کے ہاتھ میں کچھ پکڑا ہوا تھا- ارسلان کو کرن کی لاپرواہی پر شدید غصہ آیا کہ بچی کو بھلے ہی اپنا محلہ اور جان پہچان کے لوگ تھے- باہر کیوں بھیجا ؟ پر بچی سے صورتحال پتہ چلنے پر اس کے خون میں شرارے دوڑ گئے- میں تو سو رہی تھی پاپا- ماما نہانے گئی تھیں دادی نے گوشت د یا اور کہا جدھر ماسی کوڑا ڈال کے اتی ہے وہاں جو کالا کتا بیٹھا ہو اس کے آگے گوشت ڈال کر جلدی سے بھاگ آنا- ماما کو مت بتانا- تمہارے اوپر جن کا سایہ ہو گیا ہے ایسا کرنے سے وہ بھاگ جائے گا نہیں تو تمہیں کھا جائے گا کہہ کر بچی رو دی – پاپا گوشت تو ڈال دیں ورنہ جن مجھے کھا نہ جائے – بچی کا خوف سے برا حال تھا اور ارسلان کا غصے سے- وہ سیدھا گھر آ یا اور کرن کو پیکنگ کرنے کو کہا – ایسا کیا قصور ہو گیا ہم سے کہ گھر بھی چھوڑ کے جا رہے ہیں- تیری بیوی اور ساس نے کوئی نئی پٹی پڑھائی ہوگی – بیٹے کے تیور دیکھ کر وہ ٹھٹک ہی گئی تھیں جب وہ پتھریلے تاثرات لیے بچی کو سینے سے چمٹائے گھر میں داخل ہوا- یہاں رہ کر اب جو کچھ کرتی ہیں وہ اب میری برداشت سے باہر ہے – اماں میں آپ سے گستاخی کرنا نہیں چاہتا اپنی فضول باتوں وہموں اور وسوسوں میں آ پ نے معصوم بچوں کو گھسیٹ لیا ہے یہ دیکھیں اس کا رو رو کر برا حال ہے – وہ غصے سے پھٹ پڑا – ہاں تو حساب کرایا ہے میں نے اسی سے ہی یہ بات پتہ چلی کہ ہمارے گھر پر جو عمل کئی سال پہلے دشمنوں نے کروایا تھا وہ تعویذ پرانے ہو کر اب جنات کی شکل اختیار کر گئے ہیں-
ٹیپو میرا بچہ کب سے بے روزگار پھر رہا ہے- ایسے ہی طلحہ کھڑے کھڑے بیمار ہو گیا – فرحت کے نکاح کے بعد لڑکے والے رخصتی بھول گئے تو یہ سب مسئلے ایسے آسمان سے نہیں اتر پڑے ان سب کے پیچھے کچھ تو ہے نا – پر تم نے میری پہلے کون سی بات مانی ہے جو اب مانو گے – وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی کچھ کہنا سننا بےکار تھا – یو اماں کے واویلے کرن اور اس کی اماں پر الزام کے باوجود ارسلان نے وہ گھر اسی دن چھوڑ دیا تھا- پر گھر کی خبر گیری کرنا کبھی نہیں بھولا- نہ ہی اماں کو خرچ کی مد میں جوماہانہ رقم دیا کرتا تھا وہ دینا – وہ گھر والوں کی ذہنیت بدلنے میں اج بھی اتنا ہی ناکام تھا جتنا چار سال پہلے- تتلی تتلی میں کہتی ہوں چھوڑو یہ رسالے اور اٹھ کر جھاڑو ہی دے لے گھر میں دیکھ تو ذرا سی ہوا کیا چلی منٹوں میں دوبارہ گند ہو گیا- صفائی پسند اماں سے گھر کی حالت برداشت نہ ہوئی تو رسالہ پڑھتی بیٹی کو پکار بیٹھی- وہ جو ابھی محض 20 منٹ پہلے ہی جھاڑو لگا کر سارے گھر کو چمکا کر ڈائجسٹ لے کر قسطوار کہانی کے سحر میں پوری طرح سے گم تھی- کسی دن اپ کے یہ چہیتے درخت میرے ہاتھوں ضائع ہو جائیں گے- اور یہ لاڈلی مرغیاں بھی ذبح کر کے بنا کے کھا جاؤں گی دیکھ لینا- غضب خدا کا 24 گھنٹوں میں 24 بار ان دو چہیتیوں کی وجہ سے مجھے گھر صاف کرنا پڑتا ہے – کبھی کبھی میں خود کو جمادار تصور کرنے لگتی ہوں بلکہ وہ بھی اتنی دفعہ جھاڑو نہیں لگاتی ہوگی جتنی دفعہ میں – اماں کی مسلسل پکار پر اس نے رسالہ تکیے کے نیچے رکھا اور خود کمرے سے باہرآ کر ایک نظر صحن میں پڑے خشک پتوں پر اور دوسری اماں پر ڈال کر غصے سے کہا ، کیا ہے اماں ،سارا کام کرتی ہوں پھر بھی تمہیں میرے رسالے برے لگتے ہیں- جن کو پڑھنے کا ٹائم ہی اتنا کم ملتا ہے- اس نے منہ بنا کر اماں سے کہا – بیٹیوں کو سلیقہ مند ہونا چاہیے تتلی ماں باپ کے گھر کا لاڈ اگلے گھر کا عیب بن جاتا ہے – ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ میں بھی بچے کی اصلاح چھپی ہوتی ہے- مجھے پتہ ہے کہ میری بیٹی کو ہر کام اتا ہے کرتی بھی ہے پر دل لگا کر نہیں- مارے باندھے، مجھے پتا ہے کہ سارا دن بھی گھر گندا پڑا رہے میں تجھے یاد نہ دلاؤں تو ایسے ہی پڑا رہے – یہی چھوٹی چھوٹی باتیں عورت کی شخصیت بناتی اور سنوارتی ہیں ابا کی اکلوتی اولاد تھی شادی کے پانچ سال بعد منتوں مرادوں سے پیدا ہوئی نام تو دور نجف تھا پر ابا اسے تتلی بلاتے یا یوں دور نجف تو صرف کاغذات پر رہ گیا، سب کی تو تتلی تھی -ابا کے لاڈ پیار کی وجہ سے اس کے مزاج میں لاپرواہی آ گئی تھی جبکہ جس متوسط طبقے کا وہ لوگ حصہ تھے – پانچ سال بعد منتوں مرادوں سے پیدا ہوئی نام تو دور نجف تھا پر ابا اسے تتلی بلاتے یا یوں دور نجف تو صرف کاغذات پر رہ گیا، سب کی تو تتلی تھی -ابا کے لاڈ پیار کی وجہ سے اس کے مزاج میں لاپرواہی آ گئی تھی جبکہ جس متوسط طبقے کا وہ لوگ حصہ تھے اماں کو پتہ تھا کہ وہاں پہلے تو تعلیم کچھ خاص ضروری نہیں تھی اس نے ابا سے ضد کر کے میٹرک تک پڑھا پھر کالج کے لیے ضد کی تو شہر لے جا کر پڑھانا ان کے بس میں نہ تھا- ہاں ایف اے کی پرائیویٹ تیاری کے لیے کتابیں ضرور لا کر دے دی- ابا شہر میں ایک سرکاری دفتر میں چپڑاسی تھے- اپنی بساط سے زیادہ بیٹی کو پڑھایا اور زندگی کی ہر ضرورت مہیا کرنے کی کوشش کی- محلے میں ایک دو لوگ اس کے رشتے کے خواں تھے – ایک پرچون فروش ایک قاری صاحب اگرچہ ان کی کلاس میں ایسے ہی رشتے مناسب تھے اور اماں کے اسرار کے باوجود ابا اپنی بیٹی کے لیے ان کو مناسب نہ سمجھتے تھے- اماں نے کہا بھی تھا کہ وہ ایک چپڑاسی کی بیٹی ہے اس کے لیے ایسے ہی رشتے ائیں گے – منسٹر کے خوب مت دیکھیں پھر ابا نے انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا تھا کہ میری ایک بیٹی ہے میں دیکھ بھال کر اس کا رشتہ کروں گا- تتلی جو مارے باندھے اماں کے کام میں لگے رہتی ابا کے خیالات جان کر بہت خوش اور واقعی کسی شہزادے کے خواب بننے لگی –
واہ سبحان اللہ منڈیر سے جھانکنے پر اسے تائی کے گھر جو منظر نظر ایا اسے دیکھ کر اسے گدگدی ہونے لگی- اس نے موبائل نکالا کچھ سوچ کر مسکراہٹ دباتے ہوئے ایک نمبر پریس کیا -اس وقت جو منظر میرے سامنے ہے وہ دیکھ کر اگر میں تمہیں نہ بتاتی تو شاید تمہارے ساتھ بھی زیادتی ہوتی- دوسرے اکیلے دیکھنے میں مزہ نہیں آ رہا وہ کھلکھلا کر بولی- تو دوسری طرف معیز تو حیرت سے بت ہی بن گیا – ایک تو اتنے دن بعد اس کی آ واز سنی تھی دوسرے وہ بھی اس خوشگوار موڈ میں- تیسرے اس کا اسے خود سے فون کرنا ،ایسا کیا دیکھ لیا جو ناچیز کے ساتھ شیئر کرنے کو بھی تیار ہو گئی وہ بھی مسکرا کر بولا- میں ابھی کچھ دیر پہلے یہاں پڑھنے کے ارادے سے اوپر چھت پر آئی ہوں پر نیچے آپ کی نانی اماں کے گھر کا جو منظر ہے، اسے دیکھ کر میں نے کہا ثمن پڑھائی تو روز کی جاتی ہے جبکہ ایسے انوکھے مناظر تو زندگی میں کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتے ہیں – جو اس سے مستفید ہو لیا جائے ثمن کی اواز کھنک رہی تھی جبکہ وہ نیچے دیکھتے ہوئے مسلسل بات کر رہی تھی ،قصہ یہ ہے کہ نانی اماں دھوپ میں ایک شاہی بستر پر استراحت فرما رہی ہیں غالبا طبیعت کچھ ناساز ہے ارد گرد ان کی ساری ہی اولاد جمع ہے اپ کی والدہ محترمہ سمیت – ہاں ارسلان بھائی نظر نہیں آ رہے معیز چوکس ہو کر اس کی بات سننے لگا یہ بھی اتنی خاص بات نہیں ،خاص تو ہیں چنی چنی انکھوں والے بابا جی – جن کے میلے کپڑے عنقریب میل کا بوجھ نہ سہار کر لگتا ہے کہ چتھروں میں تبدیل ہو کر گر جائیں گے – گلے میں رنگ برنگی ما لائیں غالبا خود کو کوئی اعلی قسم کی روحانی بزرگ سمجھنے کی کوشش میں ڈالی گئی ہیں اور ان کو جا کر کون بتائے کہ وہ اس کوشش میں بالکل ناکام ٹھہرے ہیں-آ پ کی نانی اماں کے بستر کے اہم سامنے ایک شاہی کرسی پر برجمان اب انہوں نے انکھیں بند کر کے کچھ پڑھنا شروع کر دیا ہے یہ بھی یقینا تمہارے لیے معمول کی بات ہوگی- اس نے طنز کیا تو معیز خون کے گھونٹ پی کے رہ گیا – اب ذرا ان بابا جی کے اگرچہ بابا جی میں جس دل سے صبر کر کے کہہ رہی ہوں میرا دل جانتا ہے پر چھوڑو تو کچھ توقف کے بعد گویا ہوئی- ہاں تو بابا جی کے دائیں طرف ایک کالا بکرا 30 40 کے قریب گلاب کے ہار پہنے کھڑا ہے- آپ کی امی حضور اور میری بھابھی جان اس بکرے کے گرد گویا اس کی نگرانی پر مامور ہیں- وہ کھلکھلائی تو معیز بے اختیار طویل سانس لے کر رہ گیا -اسے پتہ تھا اب ثمن نے جو ریکارڈ لگانا تھا – تھک تو نہیں گئے نہ معیز، اس نے مصنوعی لگاوٹ سے پوچھا نہیں تم بولو وہ سنجیدگی سے بولا- ہاں تو اب بابا جی نے اپنی چنی چنی انکھیں کھول کر نانی جان کی پائنتی کی طرف بیٹھے پریشان حال ٹیپو بھائی سے کچھ کہا ہے- نتیجتا اب وہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور وہ بھی بکرے کہ قریب آ گئے ہیں- آپ کی امی حضور اور ہماری بھابی جان نے اپنا ساتھ بکرے کے گرد توڑ دیا ہے اور وہ بابا جی کی بائیں طرف آ گئی ہیں – او نو لائیو کمنٹری کرتے کرتے ثمن کو ہنسی کا ایک شدید دورہ پڑا – معیز اب کی بار جو سین ہے ،اف میرے اللہ… وہ ہنسی کے دوران بولی معیز بے شاختہ پہلو بدل کر رہ گیا – وہ اس صورتحال کو انجوائے کرتا ثمن کی دلکش ہنسی کو اپنے اندر اتار لیتا، اگر جو یہ سارا معاملہ عفتآرا یعنی اس کی نانی اماں کے گھر کا نہ ہوتا – آپ کے ماموں جان ٹیپو صاحب نے اپنا پورا زور لگا کر اس بھاری بھرکم گود بکرے کو گود میں بھر لیا ہے اور اپ کی نانی اماں کے شاہی بستر کا طواف ہو رہا ہے ایک دو اور یہ پورے سات چکر کے ساتھ عمل پورا ہوا- یا جناب تھک گئے یہ معلوم نہیں ہو سکا اب اپ کی والدہ محترمہ ایک بھری ہوئی ٹرالی لے کر بڑی عقیدت سے بابا جی کو اصرار کر کی پیش کر رہی ہیں آپ کی نانی اماں کی پوری فیملی پر احسان کرتے ہوئے بابا جی منٹوں میں ٹرالی لپیٹ کر کے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں – تائی اماں کے علاوہ سارا گھرانہ ان کو گیٹ پر سی آف کرنے جا رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کو جاتے ہوئے وہ بکرا بھی جو بابا جی کو اللہ حافظ کہنے گیا تھا وہ ان کو اتنا پسند آ گیا کہ اسے ساتھ ہی لے گئے ہیں – کیونکہ اب جو لوگ واپس پلٹ رہے ہیں تو وہ ان کے ہمراہ نہیں ہے- امید ہے 20 منٹ کا یہ پروگرام جس کی روداد میں نے آپ کو سنائی آپ کو بے حد پسندآئی ہو گی – جبکہ میں یہ سب دیکھ کر اور سنا کر تھک چکی ہوں سو نیچے چلتی ہوں ہو سکتا ہے نیچے میری بھابھی صاحبہ میری امی کے ناکردہ ایک اور جرم کی شفاعت لے کر انہی کو ہراساں کر رہی ہوں، اگر وہ وہاں نہیں ہوئی تو اپنی والدہ محترمہ کا ویٹ کیجیے کیونکہ امی کو نظر انداز کر بھی دیں تو تائی امی کی بیماری کے سبب قرعہ فعال اپ کی دادی محترمہ کے نام نکلے گ- گڈ بائے ثمن کے طنزیہ لہجے میں جو کاٹ تھی وہ معیز کو اپنے دل کو کاٹتی محسوس ہوئی اور سر جھٹک کر دادی اماں کے کمرے کی طرف بڑھ گیا – ثمن اسے اب اچھی لگنا شروع ہوئی تب سے جب ابھی نانا ابا زندہ تھے اور وہ اپنی تائی کے اور معیز اپنی امی کے ساتھ اپنی نانی کے گھر جایا کرتا تھا- نٹ کھٹ اور شرارتی سی وہ لڑکی جو کبھی اس کی اچھی دوست تھی اس کی خالہ صفت آرا کو بھا گئی معیز سے بھی اس کا رابطہ بہت کم رہ گیا تھا اور جب معیز نے اسے بتایا کہ اس کی امی کے سوا دادی اور ابا کو اس کی پسند کا علم ہے تو اس نے صاف لفظوں میں انکار کر دیا تھا معیز لڑکپن کی حد تک تو میں تمہارے ساتھ کا سوچ کر خوش ہوتی رہی ہوں پر شعور کی وادی میں پہلا قدم دھرتے ہی مجھے احساس ہوا ہے کہ انسان محبت کے بغیر تو زندہ رہ سکتا ہے عزت کے بغیر نہیں اور میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے لیے ان کا کردار اور سیلف رسپیکٹ اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہوتی ہے- اس بات کا ادراک مجھے تب ہوا جب سے تمہاری خالہ صاحبہ نے ہماری زندگی جہنم بنائی ہوئی ہے – رہی سی کسر ہماری تائی جان پوری کر جاتی ہیں – اماں کو گھر آ کر پریشان کر کے ہراساں کر کے ، کئی دن کا بستر کا مہمان بنا کر نہ چاہتے ہوئے بھی ان چاہے رشتوں کو نبھانا، بعض دفعہ ہماری مجبوری بن جاتا ہے- پر چوائس ہو تو ایسی لائف انتخاب کیوں نہ کروں جس میں ایک فرد کی محبت تو ہو اور ساتھ ہی نفرت ہو اور الزام تراشی کے کانٹے بھی ہوں- تم اس مقصد کے لیے اپنے ابا اور دادی کو ہرگز مت ہاں ہمارے ہاں بھیجنا-
وہ دن اور آج کا دن اس نے دوبارہ اس سے فون پر بات کرنا بھی پسند نہیں کیا تھا۔ تائی کے گھر آنا جانا تو کب سے تمام ہوا تھا کہ جس گاؤں ہی نہیں جانا اس کے کوس کیا گننا۔ وہ نمبر ملا ملا کر تھک جاتا ، اس کی جانب سے اتنا سخت اور کٹھور رویہ معیز کو بہت غصہ دلا دیتا تھا۔ اسے پتا تھا کہ وہ بھی اپنی طرف سے حق بجانب تھی۔ وہ تو شکر ہے کہ اس کی تربیت میں اس کی دادی کا ہاتھ تھا ورنہ وہ بھی اپنی ماں اور نانی کے زیر اثر ہوتا آج اس کی دادی خود سمد ھن اور بہو کے رویے کے ہاتھوں بہت تنگ تھیں ، گھر کا ماحول خراب نہ ہو اس لیے مدبر معاملہ فہمی اور خاموشی کے چند اصولوں سے انتشار اور بے سکونی سے بچی ہوئی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ معیز کی ماں جہاں آرا نے ہمیشہ اپنی ساس کو ظالم سمجھا تھا اور چاہتی تھیں کسی طرح ان کی راجدھانی اس گھر سے مکمل ختم ہو جائے – صوم و صلوۃ کی پابند معیزکی دادی اماں کو تو ایسی شرک والی باتیں پسند ہی نہیں تھیں۔ بہو کو حتی الوسع بٹھا کر نرمی سے سمجھانے کی کوشش کرتیں۔ اٹھتے بیٹھتے باتوں باتوں میں بھی بتاتیں کہ اللہ کے سوا کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ انسان یا کسی کی زندگی کے کسی بھی معاملے کی نوعیت بدل سکے پر جہاں آرا پر اپنی ماں کی سوچ اور تربیت کا رنگ اتنا گہرا تھا کہ معیز کے والد کی بائیس سالہ رقافت بھی اس کو ختم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ “میں کہتا نہیں تھا تتلی کی ماں ! کہ وہ مالک بڑا بے نیاز ہے۔ ہماری گمان کے مطابق ہی نواز تا ہے ۔ جب وہ عطا کرتے نہیں تھکتا تو ہم مانگتے ہوئے کیوں گھبرائیں- تو وہ بھی تائید میں سر ہلا کر رہ گئیں ۔ غیر متوقع طور پر ان کی تتلی کے لیے اونچے گھرانے سے رشتہ آہی گیا تھا۔ ان کی بیٹی کے نصیب بھی گھل گئے تھے۔ لڑکا ابا کے دفتر میں گریڈ اٹھارہ کا ملازم تھا۔ ابّا سے لڑکے نے ایک دن بات کی اور اگلے دن اس کی ماں بہنیں آ کر رشتہ پکا کر کے تتلی کے ہاتھ پر شگن کا دو ہزار رکھ گئی تھیں۔ ان لوگوں نے بہت جلدی کی تاریخ مانگی تھی ۔ اتنی جلدی میں یہ سب ممکن نہیں تھا پر ان کے اصرار پر ابا کو ہاں کرتے بنی تھی۔ بیٹی کے لیے جہیز تو اپنی حیثیت کے مطابق جوڑ رکھا تھا پر ابا نے اپنی چند بیگھے زمین بھی بیچ کر ان کے شایان شان بیٹی کو رخصت کر ہی دیا تھا۔ لڑکا تین چار سال سے ان کے دفتر میں تھا۔ انتہائی شریف اور اپنے کام سے کام رکھنے والا۔ دونوں میاں بیوی کے دل جہاں بیٹی کی جدائی پر اداس تھے وہاں ایک اچھے گھر جانے کی طمانیت کا احساس بھی تھا۔ پتا نہیں کن کن مراحل سے گزار کر اسے اپنے کمرے میں پہنچایا گیا۔ انجان لوگ اجنبی شریک سفر اونچا خاندان کئی چیزیں تھیں جو اس کو گھبراہٹ میں بتلا کر رہی تھیں پر کامران عرف ٹیپو نے ایسے محبت کا احساس دیا تھا کہ وہ سب کچھ بھول گئی تھی۔ ساس واری صدقے جاتیں تو نندیں الگ پیار کرتے کرتے نہ تھکتیں ۔ بڑی آپا جہاں آرا کا تو ہفتے میں ایک چکر لگتا۔ منجھلی آپا فرحت آرا ایک کالج میں لیکچرار تھیں۔ فرحت آرا کا نکاح ہو گیا تھا۔ رخصتی متوقع تھی۔ چھوٹی آپا صفت آرا روز ہی چکر لگاتیں کہ ایک دیوار پارہی تو ان کا گھر تھا۔ درمیانی دروازہ کھول کر چلی آتیں۔ کبھی کبھار تو منڈیر سے بھی جھانک کر تسلی کرا دیتیں ماں کی۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ تتلی کسی تتلی کی مانند ہی اڑی پھرتی تھی۔ ہاں بولو کیوں کال کی ہے۔ ” کرخت لہجے والی وہ فرحت آرا تھیں جو اس وقت فری پریڈ میں اسٹاف روم میں موجود تھیں جب جاوید کا فون آیا ۔ جاوید جس سے ان کا نکاح ہوا تھا۔ “تم جانتی ہو فرحت میں نے کیوں کال کی ہے۔ میں نے تم سے پہلے بھی کئی بار کہا آج پھر کہہ رہا ہوں که دولت پیسہ اور زیور ا چھی زندگی اور اچھے مستقبل کی ضمانت نہیں ہوتے۔ پلیز تم لوگ یہ فضول کی ضد چھوڑ دو۔ کتنے ہی سال تم لوگوں نے اس فضول سی ضد میں ضائع کر دیے ۔ میری اماں چکر لگا لگا کر تھک گئیں تمہاری اماں کی ایک ہی ضد ہے کہ جب تک بیس تولے سونا دو ایکڑ اراضی گھر تمہارے نام نہیں ہو گا، تم لوگ رخصتی نہیں دو گے۔ مجھے بتاؤ کہ میں سولہویں اسکیل کا ملازم آج کے اس دور میں اتنا سونا کہاں سے لاؤں؟ بیس مرلے کا ہمارا گھر ہے وہ بھی مشترکہ اور ابھی میرے ماں باپ حیات ہیں ، میں ان سے اپنے حصے کا تقاضا کیسے کر سکتا ہوں۔ پھر جو دو ایکڑ اراضی ہے وہ ہم سب بھائیوں کی مشترکہ ہے۔ تم اتنی سمجھ دار پڑھی لکھی ہو۔ تم تو کم از کم اپنی والدہ کو سمجھا سکتی ہوں۔” وہ لجاجت سے بولا تو فرحت آرا مزید اکڑ گئیں۔
تم لوگوں نے کہا تھا کہ ہماری ہر ڈیمانڈ پوری کرو گے۔ اب کہاں گئے وہ دعوے۔ سترہ اسکیل کی لیکچرار کا رشتہ لے جانا کوئی آسان بات تھوڑی ہے؟؟؟ جاوید ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئے۔ ہاں تو جب ہمارا نکاح ہوا تھا اس وقت آپ لوگوں کی ڈیمانڈ صرف پانچ تولے سونا اور ایک پلاٹ تمہارا نام کر دینے کی تھی۔ وہ وہ ہم لوگ تمہیں دینے کو تیار ہیں، خدا کے لیے اپنی اور میری زندگی اجیرن مت کرو۔ اب تو گھر والوں کا دباؤ مجھ پر گزشتہ ایک سال سے بہت بڑھ گیا ہے کہ تم لوگ اگر مصالحت پر راضی نہیں ہو تو مجھے کوئی انتہائی قدم اٹھالنا چاہیے۔ ” جاوید نے رک رک کر اپنی بات مکمل کی۔ تم ابتدائی قدم اٹھاتے ہو یا انتہائی، شوق سے اٹھاؤ۔ میں اپنی شرائط سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوں۔” فرحت آرا نے ہٹ دھرمی سے کہا اور فون بند کر دیا۔ ہونہہ کنگلے ٹٹ پونچھے لوگ بڈھے ماں باپ کتامال دبائے بیٹھے ہیں۔ ہے و قوف آدمی کو پتا ہی نہیں ہے وہ بڑبڑائیں اور اگلی کلاس لینے کے لیے اسٹاف روم سے باہر نکل گئیں۔ مسز ریاض جو بظاہر سر جھکائے کلاس کے ٹیسٹ چیک کرنے میں مصروف تھیں تاسف سے انہیں جاتا دیکھ کر رہ گئیں۔ عمر کے کئی سنہری سال ان کی اور ان کی ماں کی فضول ضد میں ضائع ہو چکے تھے۔ پتا نہیں کیا لکھا تھا ان کے مقدر میں۔ وہ سوچ کر رہ گئیں۔ ٹیپو اور تتلی کی آج تتلی کے اماں ابا کے گھر دعوت تھی وہ دونوں وہیں گئے تھے۔ اماں کے کمرے میں محفل گرم تھی۔ آج تو آدم بیزار صفت آرا بھی وہیں موجود تھیں۔ صفت آرا صبح سے آئی ہوئی تھی جب کہ جہاں آرا ابھی کچھ دیر قبل پہنچی تھیں اماں ! ذرا بہو رانی پہ بھی ہاتھ کس کے رکھیں۔ آج بھی مہارانی کچھ بھی پکائے بغیر چلی گئی۔ یہ دونوں آئی ہیں ہم لوگ ہیں کھانا کون پکائے گا۔ ” فرحت آرا نے منہ بنا کر کہا۔ اور اماں یہ کیا طریقہ ہوا بھلا۔ ایک ہی ہماری بھا بھی ہے اس کی ماں نے دعوت دی ہے اور جھوٹے منہ ہی سہی نہ اس کی ماں نے ہم نندوں کو ساتھ آنے کو کہا نہ اس لڑکی نے خود صفت آرا ان بہنوں میں فطرتا ” شرپسند طبیعت کی مالک تھیں ایسے ایسے نکتے کی طرف توجہ دلاتی تھیں جہاں کسی کا خیال بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ او ہو اس کے اماں ابا نے کی تو تھی ہماری دعوت ہم کون سے دعوتوں کے بھوکے ہیں۔ ” عفت آرا ے ناگواری سے کہا۔پھر بھی اماں بہو کو قابو میں رکھو ورنہ بڑی (کرن) کی طرح برک گئی تو ٹیپو کو بھی لے اڑی ہے اور یہ دوسرے کو لے جائے گ اور تم نے منہ تکتے رہ جاتا ہے۔ ” صفت آرا کو بھا بھی بھائی کا اکیلے جانا بہت کھل رہا تھا۔ لو ا یسے ہی لے اُڑے گی۔ کرن کلموہی نےایسا کیا تو اپنا سکہ ہی کھوٹا تھا ورنہ اس کی جرات تھی جو میرے جگر کے ٹکڑے کو مجھ سے الگ کرتی۔ میں نے بھی چھان پھٹک کے غریب خاندان چنا ہی اس لیے ہے که ساری زندگی دبا کے رکھوں گی۔ ذرا پر نکالے تو کتر دوں گی فورا”۔ ” عفت آرا چمک کر بولیں۔ اور واقعی کمبخت کو اتنی عقل نہ آئی کہ کھانا ہی پکا کے رکھ جائے خود تو اڑائے گی دعوت ہم یہاں بھاڑ جھونکیں گے۔ ” عفت آرا کو ایک پوائنٹ بہو بیگم کے خلاف مل ہی گیا تھا آخر ۔اچھا اماں سنو تو کل اس جاوید کا فون آیا تھا۔” فرحت آرا نے جاوید کے ساتھ کی ہوئی بات چیت دہرائی۔ اماں کچھ سوچ ہی لو اس کا بھی ایسا نہ ہو اس کو چھوڑ کے چلتا بنے جاوید اور ہم منہ تکتے رہ جائیں ، جو کمی بیشی رہ جائے گی یہ فرحی خود ہی پوری کرائے گی عد میں۔ ” معیز کی اماں بولیں تو عفت آرا نے انہیں ھاڑ کے رکھ دیا۔ ہے تم چپ ہی رہو جہاں آرا! ایک بڑھیا تو قابو ہوئی نہ تم سے بڑی آئیں مشورے دینے والی۔ کمنجنوں کے پاس بڑا مال ہے میں۔نے پتا کروایا ہےخرچ کرتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔”
میاں ویسے یہ بات سوچنے کی ہے کہ اگر ان کے پاس واقعی اتنی دولت ہوتی تو وہ میرے نام کرنے میں اتنی حیل و حجت نہ کرتے اتنا تو میں جاوید کو جان ہی گئی ہوں اتنے عرصہ میں۔” فرحت آراء نے بھی کچھ سوچتے ہوئے کہا۔خبردار جو کوئی نرمی برتی ہو۔ کیسے بڑھیا منہ پر کہہ کے گئی تھی کہ آخری بار آئی ہوں پھر نہیں آؤں گی ۔ میں دیکھتی ہوں کیسے نہیں ناک رگڑتی آتی۔ اماں کا کروفر آج بھی وہی تھا پہلے دن جیسا ۔تینوں بیٹیاں چپ رہ گئیں۔ قسم سے جہاں آراء! معیز نے تو آنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ شکل دیکھنے کو ترس گئی ہوں۔ یہ صیفی بھی کل یاد کر رہی تھی۔ اماں نے ٹانگیں پھیلا کر صفت آرا کو دبانے کا اشارہ کیا جو شاید اشارے کی ہی منتظر بیٹھی تھی ہل ہل کر اماں کو دبانے لگی۔ کیا پوچھتی ہو اماں ۔ دادی نے ایسی ایسی پٹیاںبڑھائی ہیں اسے میرے تو ہاتھ سے نکل گیا ہے میرا بیٹا – پہلے ایک بڑھیا نے میری جان اجیرن کر رکھی تھی اب بیٹا ناک کو آ گیا ایسےایسے فتوے دے گا۔ جنت دوزخ کے ڈرا دے گا گویا دنیا میں مسلمان صرف وہی لوگ ہیں ہم تو بڑے کا فر ہیں ، منہ پر کہہ دیتا ہے کہ امی نانی کے کہنے میں آکر اپنی عاقبت خراب کر رہی ہیں نماز پڑھا کریں توبہ استغفار کیا کریں۔ بھلا بتاؤ جوڑوں کے درد نے کسی کام کا نہ چھوڑا ۔ گھر کا کام کاج بھی مارے باندھے ماسیوں کے سر پر کھڑے ہو کر کراتی ہوں۔ بڑھیا مسکراتی رہتی ہے تخت پر بیٹھ کر پوتے کی لن ترانیاں سن کر۔ جہاں آرا کے اپنے ہی رونے تھے۔ ے تمہاری ساس تو سدا کی میری دشمن تھی سنا ہے۔ تیرے ابا کو پسندکرتی تھی میری شادی یہاں ہونے پر انگاروں پہ لوٹ گئی کم بخت میری شادی کے بعد بھی اس جنتی پر ڈورے ڈالنے سے باز نہ آئی۔ ایسی ایسی پر چیاں ملتیں مجھے اپنے گھر میں لڑائی ہو فساد ہو نا اتفاقی کی, پر میں بھی عفت آرا تھی اس کی چالوں کو اسی پر الٹا دیا کرتی تھی ۔ عفت آرا افسوس سے کئی بار کی گئی بات پھر دہرا گئیں۔ بیٹیوں نے بھی تائیدی انداز میں سرہلا دیا۔ تم کو میں نے چینی اور پانی پڑھوا کے دیا تھا کہ سب کو پلاؤ۔ اماں کے خشمگیں نظروں سے دیکھنے پر جہاں آراگر بڑا گئیں۔ بڑھیا اس عمر میں بھی اتنی چاق و چوبند ہے سارا کام منٹوں میں خود ہی کر لیتی ہے ۔ گھر جیسے اس کی ایکسرے کرتی نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔ رات کو دودھ بھی خود ہی مجھے معیز اور اس کے ابا کو لا کر دیتی ہے ۔ ابھی تک مالک ہے اس گھر کی۔ میری جرات ہی نہیں ہوئی اور سچ پوچھو تو معیز تو آج کھلا کل اٹھتے بیٹھتے ایسے ایسے لیکچر دیتا ہے جیسے میں کوئی خدا نخواستہ کافریا ہندو ہوں۔ اس دن کہنے لگا نانی نے قربانی تو کبھی نہیں کی۔ کبھی ان پر قرضہ ہوتا ہے تو بھی ہاتھ تنگ اورجعلی بابوں کوبیس بیس ہزار کے بکرے کھڑے کھڑے پکڑا دیتی ہیں۔ ان سے کہیں ابھی بھی وقت ہے۔ صدقہ خیرات دے کر اللہ کو راضی کریں ان چکروں میں کچھ نہیں رکھا۔” ” وہ شرمنده سی بولیں۔ یہ معیز تو بہت بگڑ گیا ہے جہاں آرا ! سنبھل جاؤ۔ میں تو کہہ رہی ہوں کسی دن اسے بابا کے پاس لے چلو یا میں ہی تمہارے گھر لے آتی ہوں ان کو منٹوں میں سیدھا کر دیں وہ اس کو ۔ عفت آرا تڑپ کر اٹھ بیٹھیں۔ اماں ایسا غضب نہ کرنا۔ میری ساس اور معیز کے ابا تو بہت خلاف ہیں ان باتوں کے ۔ ہمارے گھر تو ویسے ہی ہر وقت ہر بات کا فتوی لگا رہتا ہے۔ نماز پڑھو۔ شرک نہ کرو۔ اللہ سے مانگو۔ چلتے پھرتے بڑھیا ایسی ایسی باتیں کرتی رہے گی گویا میری قبر میں بھی اس کم بخت نے جاکر حساب دینا ہو ۔ جہاں آرا بہت گھبرا گئیں۔
میں معیز کو لانے کی کوشش کروں گی۔ مجھے تو ، اس کی فکر کھائے جارہی ہے۔ پر مجھے نہیں لگتا کہ وہ میرے ساتھ آئے۔ وہ مایوسی سے بولیں – اچھا پیر بابا کے مؤکل خود ہی سیدھا کرلیں گے ۔ اسے عفت آرا بے نیازی سے بولیں تو صفت آرا بے ساختہ بولیں۔ “اماں! موکل تو بڑا سخت عمل کرتے ہیں ایک ہی تو بھانجا ہے ہمارا خدا نخواستہ بیمار نہ پڑ جائے۔ جبکہ جہاں آرا کا رنگ بھی یہ بات سن کر زرد پڑ گیا۔ ہاں اماں صفی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ “تو اس کے دماغ کا خناس ایسے نہیں نکل سکتا۔ جہاں آرا تم جانو اور تمہارا بیٹا۔ اے فرحی اٹھ ذرا کچھ کھانے پینے کا ہی دیکھ لئے یہ صفت آرا ذرا دبا لے تو اسے بھی بھیجتی ہوں۔ چل میری بچی عفت آرا نے صفت آرا کو پچکار کر کہا ،نہ چاہتے ہوئے بھی بگڑے انداز میں اٹھ کر وہ کچن تک چلی آئی۔ شام کو اماں ابا سے مل کر شاداں جب گھر میں داخل ہوئی تو یہ نہیں جانتی تھی کہ دائرہ حیات – اس پر تنگ ہونے والا ہے اور آج سے اس کی ابتدا ہونی ہے۔ طریقے سیکھو ۔ اب تم اکیلی اس گھر میں تو ہو نہیں کہ میاں کو بغل میں دابا اور جدھر کو دل کیا منہ اٹھائے چل دیں ، جب دل کیا واپس آ گئے۔ یہاں تمہارے علاوہ چار لوگ اور بھی بستے ہیں۔ میں سدا کی مریض نہ اٹھنے کی نہ بیٹھنے کی۔ فرحی میری معصوم بچی سارا دن کالج میں جان مار کے آتی ہے ایک چھٹی کا دن نصیب ہوتا ہے -میری بچیاں ماں کی محبت میں دوڑی چلی آتی آگے بھا بھی ہیں ۔ بیگم میاں سمیت گر خالی ڈھنڈار کچن۔ اب میں بوڑھی جا کر ہنڈیا روٹی کروں یا کوسوں دور سے آئی ہوئی بیمار نند یا میری تھکی ہاری بچی ۔تھکی ہاری بچی ۔ فرحی۔ ” انہوں نے غصے سے پھور سامنے وہ کلاس لی کہ اس کی آنکھوں میں بے عزتی کے لےے احساس سے آنسو آگئے۔ پھول جھڑنے والی زبان سے ۔ انگارے برسنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ میں آپ کو بتا کر تو گئی تھی۔ ” پہلے اس نے مدد طلب نظروں سے میاں کو دیکھا تو وہ سر جھکائے ایسا بے نیاز نظر آیا جیسے کبھی آشنا تھا ہی نہیں سواسی کو ہمت کرنا پڑی۔ہاں تو بڑا احسان کیا مجھ پر ۔ ” وہ طنزیہ بولیں تب علی کو اچانک یاد آیا کہ اماں نے ان کا اور فرحت آراء کا کھانا بھی باندھ کر دیا تھا۔ وہ اماں نے آپ لوگوں کے لیے دیا تھا کھانا میں لے کر آئی ہوں ۔ ” اس نے جوش سے کہا جوابا ” عفت آرا کا جواب اس کا سارا جوش ٹھنڈا کر گیا۔ رہنے دو بی بی ہمیں کوئی بھوکا سمجھا ہے تمہاری ماں نے جو کھانے کی پوٹلی ساتھ کردی۔ عزت دینی بھی تو گھر بلا کے کھلائے۔ ٹیپو تو ذرا کمرے میں آ میرے فورا بھاری بھر کم جسم کو کھینچتی وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں ۔ فرحت آرا موجود نہیں تھیں۔ صفت آرا نے اس کو ڈانٹ پڑوا کے گھر کی راہ لی جبکہ جہاں آرا کافی پہلے واپس جا چکی تھیں۔ ٹیپو سر جھکائے ماں کے پیچھے چلا گیا تو وہ آنسو پیتی رہ گئی- عمران بھائی، سعیدہ بیگم، ثمن ناشتا کرنے میں مصروف تھے جب وہ چلا آیا۔ السلام علیکم اس کے سلام کا جواب سعیدہ بیگم اور عمران نے تو بڑے پُر جوش انداز میں اسے خوش آمدید کہہ کر ناشتے کی دعوت دی جسے اس نے خوش دلی سے قبول کر لیا ور کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے بے نیازی سے ناشتا کرتی ثمن پر نگاہ ڈالی اور اس کی بے نیازی پر زیر لب مسکرا دیا۔ ادھر سے گزر رہا تھا سوچا خالہ سے ملتا چلوں۔” اس نے اپنے آنے کی وجہ ان سب کے گوش گزار کرتے ہوئے کہا۔ آپ کو اپنی خالہ سے ملنا ہو تو اپنی نانی اماں کے گھر تشریف لے جایا کریں چونکہ چوبیس میں سے بیس گھنٹے ان کے وہیں گزرتے ہیں۔ یہاں ہمارے گھر ان کا جو ٹائم ہم پر احسان کرتے ہوئے گزرتا ہے وہ ان کا استراحت کا ٹائم ہوتا ہے۔ اس وقت ان کو اٹھانے کی جرات ان کی ساس اور شوہر میں نہیں تو آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ چائے پیتے ہوئے ثمن نے صفت آرا کے باری میں طنزیہ انداز میں حقیقت بیان کی تو معیز شرمندہ ہو گیا جبکہ سعیدہ بیگم نے ثمن کو ٹوک دیا۔ کوئی بات نہیں بیٹا! یہ لڑکی تو جو منہ میں آئے – بولے چلے جاتی ہے تم آئے اچھا کیا ہمیں خوشی ہوئی۔ انہوں نے بیٹی کو گھورتے ہوئے معیز کی شرمندگی ختم کرنے کی کوشش کی۔ کچھ بھی تھا یہ بچہ انہیں اپنی ماں اور نانی کے خاندان سے یکسر مختلف لگتا تھا۔ جبکہ عمران بھائی ثمن کی بات پر کوئی تبع تبصرہ کیے بغیر معیز سے اس کی نوکری کی تفصیلات پوچھنے لگے۔ شثمن من کو کالج نہیں جانا تھا سو ناشتے کے بعد اطمینان سے برتن سمیٹنے لگی۔ عمران بھائی بھی معیز سے معذرت کر کے آفس کے لیے اٹھ گئے جبکہ معیز کو واقعی میں اپنی خالہ پر بے حد غصہ آیا جو نو بج جانے کے بعد بھی ابھی تک کمرے سے باہر نہ آئی تھیں۔ خیر وہ بھی کون سا خالہ سے ملنے آیا تھا۔ مقصد تھا دشمن جاں کا دیدار جو وہ کر چکا تھا۔ سو اٹھنے کے لیے پر تول ہی رہا تھا کہ خالہ بھی آنکھیں ملتی کمرے سے برآمد ہو ہی گئیں۔ ارے معیز ، میری جان ! تم کب آئے مجھے جگا دیا ہوتا۔ بھانجے کو دیکھ والہانہ انداز میں آگے بڑھ کر کہا گیا۔ کچھ کھانے پینے کو پوچھا یا ایسے ہی بٹھا رکھا ہےبچے کو ،کرخت لہجے میں کیا گیا سوال اندر آتی ثمن کو آگ ہی لگا گیا۔ ناشتے کے ساتھ چائے بھی نوش فرما چکے ہیں محترم اور کچھ۔ اس نے صفت آرا سے تند لہجے میں کہا۔
کچھ کھلا پلا کر جتانے کی پرانی عادت ہے تم لوگوں کی۔ دیکھا معیز اور ہاں میرے لیے ناشتا بنا دو۔ پہلی بات معیز سے خاصے مظلومانہ انداز میں اور دوسرا آرڈر ثمن کو دیکھ کر دیا گیا۔ “سب کا ناشتا میں بنا کر رکھ چکی ہوں گھنٹہ بھر پہلے۔ ہاں گرم کرنے کی زحمت آپ کو خود کرنا پڑے تھی۔ مجھے ابھی مشین لگانی ہے اور اماں کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ روکھے انداز میں کہہ کر جانے لگی جبکہ سعیدہ بیگم بہو اور بیٹی دونوں کے تیور وہ بھی مہمان کے سامنے دیکھ کر گھبرا گئیں اور خود ہی اٹھنے لگیں – “اچھا ثمن تم جاؤ، مشین میں پانی ڈالو۔ بہو کو میں خود ہی ناشتا گرم کر دیتی ہوں۔”کیوں نوکر ہیں آپ جو سارا سارا دن لگی رہتی ہیں۔ ثمن نے غصّے میں ماں سے کہا تو صفت آرا معیز کو دیکھ کر کہ رو دیں ۔ “دیکھ رہے ہو معیز ! آج تم نے بھی دیکھ لی میری عزت اس گھر میں دو کوڑی کی بھی نہیں ہے۔”ثمن میں تمہیں کہہ رہی ہوں ناں تم جاؤ۔”سعیدہ بیگم کا زور بس ! اپنی بیٹی پر ہی تھا سو زور سے کہا تو وہ پیر پٹختی وہاں سے واک آؤٹ کر گئی – صفت بیٹا بس کر چپ کر جاؤ۔ بچی ہے ، کتنی بار کہا ہے تم ۔ بھابھی ہو اس کی درگزر سے کام لے لیا کرو۔ میں ابھی ناشتا لے کر آتی ہوں۔” وہ معیزکے سامنے شرمندہ شرمندہ سی تھیں۔ یہ کیا بات ؟ ہوئی۔ خالہ ! میں آپ کو ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ شادی کے بعد لڑکیوں کی کتنی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ پورے گھر کی ذمہ داری سنبھالنی پڑتی ہے ے اور آپ اپنی ساس کو تکلیف دیتی ہیں اس عمر میں۔ وہ تو ، شکر کریں کہ سسرال اچھی ملی ہے آپ کو ورنہ برا نہ مانیں تو ایسے طور طریقے پسند نہیں کیے جاتے شادی کے بعد جیسے آپ کے ہیں۔ معیز مگر مچھ کے آنسو پونجھتی صفت آرا سے ناراضی سے گویا ہوا تو مانوان کے تو آگ ہی لگ گئی۔ کون سے طور طریقے دیکھ لیے میرے جو تم ایسے بول رہے ہو۔ یہی دیکھ لو آدھا گھنٹہ بمشکل ہوا ہو گا تمہیں یہاں آئے ہوئے اور پتا نہیں کیا کچھ گھول کے پلادیا کہ خالہ کو طور طریقے سکھانے لگے ” وہ چمک کر بولیں۔ انہوں نے مجھے کچھ نہیں کہا خالہ میں خود کیا اندھا ہوں۔ جب بھی نانی اماں کے گھر جاؤں آپ اپنا گھر بار چھوڑ کر اکثر وہیں ملتی ہیں۔۔ آج ناشتے کے ٹائم آیا ہوں تو آپ سوئی ہوئی تھیں۔ اس میں بھڑکانے یا سکھانے والی تو بات ہی کوئی نہیں۔ سامنے کی باتیں ہیں۔ لو بیٹا صفت آراء ناشتا کرو اور معیز بچے چائےپیو گے بناؤں۔ سعیدہ بیگم نے گرما گرم ناشتے کی پلیٹ روٹھی ہوئی صفت آرا کے سامنے لاکر رکھی اور اس کے منہ پھیر لینے کو نظر انداز کرتے ہوئے حلاوت سے معیز سے پوچھا۔ ارے نہیں آنٹی بہت شکریہ۔ ابھی پی ہے ناں آپ سب کے ساتھ چائے ۔ ۔ بس ایک کپ ہی لیتا ہوں میں ناشتے میں۔ وہ ادب سے گویا ہوا تو سعیدہ بیگم جیتے رہو کہہ کر وہاں سے چلی گئیں۔ ہونہہ مکار بڑھیا! اس کی ظاہری شکل پر مت جاؤ ۔ بڑی خرانٹ ہے۔ اور بیٹی اس سے زیادہ زبان دراز اور سر پھری صفت آرا نے تنفر سے سعیدہ بیگم اور ثمن کی شان میں قصیدہ پڑھا اور شتا کرنے لگیں۔ بس خالہ ایک بات کا جواب دیں۔ اگر چھوٹی مامی ایسا کریں نانی اماں کے ساتھ جیسے آپ کر رہی ہیں آنٹی کے ساتھ تو کیسا لگے گا آپ کو۔” کہنا کیا چاہ رہے ہو معیز کہ میں بری ہوں۔ اماں بری ہیں باقی سب اچھے ہیں۔ ارے تم مرد ہو سارا دن گھر سے باہر رہنے والے۔ تمہیں کیا پتا گھروں میں کیسی کیسی سیاستیں ہوتی ہیں۔ تمہاری وہ مامی بھی بڑی چار سو بیس ہے۔ صفت آرا کی گڈ بک میں کوئی فرد بھی شامل نہیں تھا۔ معیز ان کو سمجھانے کا ارادہ ترک کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔ ارے رکو تو سہی میں ناشتا کر لوں پھر اماں کی طرف چلتے ہیں۔ اماں بیچاری تو بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے سے رہ گئیں تم بھی چکر نہیں لگاتے ویسے تبھی آپا کو بڑی شکاتیں ہیں تم سے۔ بہت تنگ کرنے لگے ہو انہیں اماں کو کوئی بات بھی کرنی تھی تم سے۔ ” صفت آراء نے معیز کو گھیرنا چاہا لیکن اس کا دل اتنا برا ہو چکا تھا کہ مزید ایسی کوئی صورت حال برداشت کرنے کا کی سکت نہیں تھی۔ کل سے اسے اپنی نوکری پر جانا آج فری تھا سوثمن کو دیکھنے کی خاطر چلا آیا پر جو بد مزگی ہوئی تھی اس نے اس خوشی کو غارت کر دیا – آج تو خالہ ابا کے ساتھ کہیں ضروری کام سے جانا ہے۔ میں جلد ہی چکر لگاؤں گا نانی اماں کے پاس۔ سلام کہیے گا ان کو۔ کہتے ہی وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔ باہر آنگن میں ثمن برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھی بازوؤں میں خود کو سمیٹے گھٹنوں سے ٹھوڑی ٹکائے پتا نہیں کسی سوچ میں گم تھی۔ وہ کھنکھارا تو وہ سیدھی ہو بیٹھی۔ میں حالات کو سدھارنے کا وعدہ کروں تو کیا پھر بھی تمہاری ناں ہاں میں نہیں بدلے گی۔ کوئی آ نا جائے اس ڈر سے اس نے جلدی سے اپنا سوال پوچھ ڈالا۔ آخر وہ کوشش بھی کرے اماں کو اس کے حق میں کرنے کی تو کچھ زاد راہ تو ہو نا اس کے پاس۔ معجزے ہم گنہگاروں کے ساتھ نہیں ہوتے معیز انسانوں کے ذہن کو بدلنا بہت مشکل بات ہے، بلکہ نا ممکن ۔ اگر ممکن ہوتا تو آج ہمارے گھر میں سکون ہوتا۔ وہ اداسی سے مسکرائی۔
میرا نانی اماں کے گھر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن اپنے گھر کا میں یقین دلاتا ہوں کہ جب تک حالات اور ماحول کو تمہارے حق میں نہ کرلوں تمہیں وہاں لے کر نہیں جاؤں گا۔ اس کا مضبوط لہجہ اس کی سچائی کا گواہ تھا۔ ثمن نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا تو معیز کا چہرہ کھل اٹھا۔ ایک مشکل معرکہ اس نے سر کر لیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ آگے کے حالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لے گا۔ اس نے مسکرا کر اس کے آگے سرتسلیم خم کیا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ تتلی نے سب کو ناشتا بنا کر دیا تھا جب اس کی ساس نے حکم صادر فرمایا کہ وہ سالن بھی لے کر آئے جو وہ رات اپنی ماں کے گھر سے لائی تھی۔ وہ شکر ہے اس نے فریج میں رکھ دیا تھا جھٹ گرم کر کے لے آئی۔ تم کہاں جا رہی ہو ؟ پہلے ایک پلیٹ میں ڈال کر خود کھاؤ پھر ہم چکھیں گے۔ کسی کا کیا بھروسا آج کے دور میں جب اپنے ہی گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ غیر تو پھر غیر ہیں۔ کچھ ملا کے دے دیا ہو کہ چلو بوڑھی ساس اور ایک نند کا ٹنٹنا ہی مکا دیں۔ بیٹی اکیلی راج کرے۔ عفت آرا نے معمول کے مطابق ایک کہانی گھڑ کے اس میں اپنی مرضی کے رنگ بھر دیے۔ نتلی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اس قدر کھلی تذلیل کچھ کہنے کے بجائے اس نے چپ چاپ پلیٹ میں تھوڑا سا سالن ڈالا۔ آہستہ آہستہ نوالا توڑا ایسے کہ دل دکھ سے اور آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ رات کو تنہائی کے سحر میں محبت کے خزانے لٹانے والا ٹیپو دن کی روشنی میں اتنا اجنبی کیسے بن جاتا تھا صفت آرا بے نیازی سے چائے پیتی تتلی کو دیکھتی رہیں۔ دوسرا نوالہ لیتے ہی اس زور کی ابکائی آئی وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر اندر کی طرف بھاگی۔ دیکھا عفت آرا نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیسے یوں ہی۔ دیکھا بڑی بی نے ایسے ہی پوٹلی باندھ کے نہیں دے دی ساتھ۔ کچھ تھاناں ایسا جوبنو ایسے بھاگی ہے۔ عفت آرا نے فخریہ انداز میں اپنی اولاد کو مخاطب کیا تو اندر الٹیوں سے بے حال ہوئی تتلی سے بے خبروہ دونوں ماں سے شدید متاثر ہوئے جلد ہی ٹیپو دفتر اور فرحت آرا کالج سدھار گئیں۔ تتلی الٹیاں کر کے بے حال اپنے کمرے میں بیڈ پر جا پڑی تھی۔ معدہ خالی ہو جانے کے باوجود جیسے الٹا پڑ رہا تھا۔ وہ ہے سدھ پڑی تھی جب عفت آرا اندر داخل ہوئیں۔ اے بنو نہ کرو نہ بھرو ۔ ایسے ہی نہیں بڑے بوڑھے بڑی بڑی باتیں کر گئے۔ سالن روٹی کر لینا۔ میں ذرا پیر بابا کی زیارت کر آؤں آج یہ نہ ہو اٹوائی کھٹوائی لیے پڑی رہو ہمارے آنے تک ” کہتے ہی وہ دروازے سے ویسے ہی پلٹ گئیں۔ جبکہ تتلی میں اتنی سکت ہی نہیں تھی جو پلٹ کر جواب ہی دے پاتی۔ عفت آرا نے صفت آرا کے گھر میں داخل ہوتے ہی اسے ساتھ لیا اور دونوں اپنی مہم پر روانہ ہو گئیں۔ کافی دیر گزرنے کے بعد آئی اور تخت پر خود کو گرا لیا۔ کپڑے ڈالنے کے لیے اوپر آئی ثمن نے عادتا ہی منڈیر سے جھانکا تو سامنے دھوپ میں تخت پر نڈھال سے لیٹی وہ کامنی سی لڑکی نظر آئی جو اکثر جھانکنےپر اسے کسی نہ کسی کام میں مصروف تتلی کی طرح اڑی پھرتی دکھائی دیتی تھی۔ اسے خالی گھر سے احساس ہوا کہ گھر میں کوئی نہیں کیونکہ تائی اماں کی گھر موجودگی میں ان کا یہ تخت آنگن میں اور گرمیوں میں برآمدے میں پڑا نظر آتا تھا جس پر وہ سارا دن براجمان رہتیں۔ سنو! کیا ہوا ؟ اس نے اونچی آواز میں پکارا تو کسی ذی روح کی آواز سن کر تتلی نے آنکھیں کھول کر اوپر دیکھا اور ایک فکر مند روشن چره دیکھ کر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں پر خود میں اتنی ہمت ہرگز نہ پائی کہ آواز لگا کر اسے بلا لیتی یا اپنی غیر ہوتی طبیعت کا بتاتی ۔ یکایک اسے ایک اور ابکائی آئی اور ایسا لگا جیسے اس کی آنتیں بھی آئی ہیں۔ ثمن نے ایک سیکنڈ کے لیے کچھ سوچا بھاگ کر سیڑھیاں عبور کیں اور وہ درمیانہ چھوٹا دروازہ کھول کر اس کے پاس پہنچ گئی۔ سعیدہ بیگم ارے ارے کرتی رہ گئیں۔ ثمن نے تکیہ لا کر اسے بٹھایا۔ کمر سہلا کر دو گھونٹ پانی پلایا۔ کچن میں جا کر جلدی سے چائے بنائی اور دوسلائس بھی ساتھ سینک کر لے آئی۔ وہ کھا کر چائے پی کر نڈھال پڑی تتلی میں کچھ طاقت آئی تو ایک ہمدرد کاندھا میسر آنے پر رو رو کر سارا حال کہہ سنایا۔ “بس یار تمہارے حال پر تو اب رحم ہی کیا جا سکتا ہے۔ پتا نہیں کیا دیکھ کر تمہارے ماں باپ ان لوگوں پر ریجھ گئے اور اتنی پیاری بیٹی کو ان پاگلوں کے پلے باندھ دیا ۔ ثمن نے تاسف سے کہا تو تتلی کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی۔ کیا مطلب ہے آپ کا ۔ اس نے آہستہ سے پوچھا کہ زیادہ بولنے میں بھی د قت ہو رہی تھی۔ لمحوں میں ساری طاقت جیسے نچڑ کے رہ گئی تھی۔ مطلب یہ کہ بس تم اپنے آپ کو مضبوط بناؤ۔ صرف اس حد تک ان لوگوں کی عزت کرو جہاں تک تمہاری عزت نفس مجروح ہونے کی بات نہ آجائے۔ تم نے وہ بات تو سنی ہو گی کہ دب جانے والوں کو دنیا زیادہ دبتی ہے تو جتنا سرینڈر کروگی، یہ لوگ اتنا زیادہ سر چڑھیں گے ۔ میری اماں بھی تم جیسے خوفزدہ لوگوں کے قبیل سے تعلق رکھتی ہیں ، ہول ہول کے برا حال کر لیا ہو گا۔ لیکن خوش قسمتی سے میں اپنے ابا پر گئی ہوں۔ مجھے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہے اور ایسے گھمنڈی اور بد گمان لوگوں کا تو ہر گز نہیں۔ میرے ابا دبئی میں ہوتے ہیں۔ وہ اسے سب کچھ بتاتی چلی گئی۔ تتلی کو اس گھٹن زدہ ماحول میں وہ پیاری اور باتونی سی ہمدرد لڑ کی بہت اچھی لگی۔ ” آپ کبھی کبھار آجا کریں مجھے اچھا لگے گا۔” تتلی نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا تو ثمن مسکرا دی۔
یہ بات مجھ سے تو کہہ دی ہے اپنی فیملی کے سامنے ہرگز مت کرنا۔ دفعہ لگ جائے گی تم پر اور نا کردہ گناہوں میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے گا مجھ سے تعلقات بڑھا کر۔ تائی اماں کے مخالفین میں سب سے پہلے نمبر پر ہوں۔ خیر تم فکر مت کرو۔ ان لوگوں کی غیر موجودگی میں ایسی ہی کسی ہنگامی ملاقات کا بندوبست کر لیا کروں گی۔ تم اب آرام کرو۔ میں چلتی ہوں۔” ساری صورت حال سعیدہ بیگم کے پاس بتائی تو انہوں نے افسوس کا اظہار کر کے ثمن کو منع کیا کہ آئندہ ان کے کسی بھی معاملے میں دخل نہ ہی دے تو اچھا ہے۔ کیونکہ ان کو پتا تھا کہ عفت آرا ثمن سے بدتی تھیں – سوا سے کچھ کہنے سے احتراز کرتیں کہ ثمن ان کو اور صفت آرا کو خوب کھری کھری سنا دیا کرتی تھی جبکہ ان کا سارا نزلہ سعیدہ بیگم پرگرتا تھا کیونکہ ان کی دبو اور صلح جو فطرت سے واقف تھیں۔ ثمن نے اس روز معیز کو فون کر کے ساری تفصیل بتائی۔ ساتھ ہی استدعا کی کہ کم از کم اپنے ماموں ٹیپو کو ہی سمجھائے کہ وہ بیوی کو اس کا جائز مقام دے گھر میں۔ معیز خود اپنی نانی کے گھر کے طور طریقوں سے نالاں تھا۔ انسان کو اصلاح کا آغاز اپنے گھر سے کرنا چاہیے ثمن اور میں بھی سب سے پہلے یہ چاہتا ہوں کہ امی نانی کے اثر سے آزاد ہو جائیں اس سلسلے میں میں نے اور دادی نے آج کل ایک کمپین چلائی ہوئی ہے۔ دعا کرنا کہ کامیابی ہو۔ یقین کرو من سوچتا ہوں اگر نانا مرحوم کوشش کر کے ایک نانی کی سوچ کا رخ بدل دیتے تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی۔ خیر کوشش میں کامیابی ہے۔ اتنا تو ہو ہی گیا ہے کہ پہلے ہماری کسی بات پر لڑ لڑ جھگڑ کر کمرہ نشین کے بعد ہو جاتی تھیں۔ آج کل ماتھے پر تیوری ڈالے سنتی رہتی ہیں – ویسے تمہارے پاس دوسروں کے سنانے کی باتیں ہیں کبھی یہ بھی پوچ لو معیز کیسے ہو؟ آج تمہاری یاد آرہی تھی سو فون کر لیا۔ دل میں موجود بہت دن کا شکوہ اس نے کر ہی ڈالا تو ثمن نے ایک نظر سیل کو دیکھا اور مسکرا کر کہا۔ منہ دھو کر رکھو۔ اس کی مسکراتی آواز محسوس کر کے معیز بھی مسکرا دیا -بہت سارے دن یوں ہی گزرتے چلے گئے۔ ایک دن ارسلان بھائی کی آمد نے ان سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ وہ بہت غصے میں تھے۔ خدا کا خوف کریں اماں ! کیوں ان شریف لوگوں کو آزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔ چھوڑ دیں یہ بے جا ضد اور آپا کی رخصتی دے دیں۔ جاوید بے چارہ روز فون کرتا ہے کل آخر کار وہ خود آ گیا کہ ان کو فائنل جواب چاہیے کہ آپ لوگ رخصتی پر تیار ہیں نہیں۔ آپ لوگوں نے تو ہمارا تماشا ہی بنا کر رکھ دیا ہے۔ ” عفت آرا خاموشی سے ارسلان کو بولتا سنتی رہیں۔ بول چکے تم یا کچھ اور کہنا ہے؟” انہوں نے اطمینان سے پاندان بند کر کے کہا۔ ٹیپو صفت آرا اور فرحت آرا بھی وہیں موجود تھیں۔ تتلی کچن میں تھی ویسے بھی اس کو سختی سے منع کیا تھا عفت آرا نے کہ جب وہ لوگ کمرے میں جمع ہوں تو وہ اگر کوئی بہت ضروری کام ہو تو کرنے آسکتی ہے ورنہ انہیں اپنے بہت گھریلو معاملوں میں اس قسم کی دخل اندازی پسند نہیں ہے۔ میاں ہمارا تو آج بھی وہی جواب تھا جو کل ہے۔ ہماری طرف سے جو تقاضا ہے وہ آج پورا کر دے کل رخصتی کرا کے لے جائے۔ ان کا اطمینان قابل دید تھا۔ اب ان کے پاس نہیں ہے اتنا سب کچھ تو کہاں سے ے لائیں ؟ ارسلان بھائی ۔ نے ضبط کرتے ہوئے کہا۔ بھلے نہ ہو کچھ ہماری بلا ہے۔ اس کی بھابھیوں کو دیکھو کیسے سونے سے لدی پھرتی ہیں۔ ماں نے بڑھاپے میں تین تین دفعہ کان چھدوا کے اتنے بڑے بڑے بالے ڈال رکھے ہیں ہاتھوں میں بارہ سونے کی چوڑیاں۔ میری بیٹی کو دینے کے لیے کچھ نہیں ان کے پاس۔” اماں ! جاوید کے بھائی دبئی میں کاروبار کرتے ہیں بہت اچھا کام چل رہا ہے ان کا جبکہ جاوید سرکاری ملازم ہے۔ بھلے بھائی ہیں پر معاشی حیثیت میں فرق ہے ان کی۔ اور آپ مجھ سے بہت بہتر جانتی ہیں سب کچھ پر پتا نہیں کیوں آپ کو انجان بن کر لوگوں کو اذیت دے کر لطف آتا ہے۔ بیٹی کی ماں ہیں آپ سوچیں اگر وہ ضدمیں آ گئے اور کوئی ایسا ویسا قدم اٹھا لیا تو نقصان تو ہمارا ہے ناں۔ غصے سے انہوں نے کہا۔ تو اٹھالیں کوئی بھی قدم ہماری بیٹی بھی ہم پر بھاری نہیں ہے۔ رشتے بہتیرے ان کی بے نیازی پر ارسلان بھائی تو چپ ہی رہ گئے اور ایک نظر تماشائی بنے بیٹھے باقی اہل خانہ کی طرف دیکھا جن کی ڈور اماں کے ہاتھ میں تھی۔
اماں بیٹی تو کسی پر بھی بھاری نہیں ہوتی۔ بھاری تو وہ بدنامی ہوتی ہے جو کسی ایسے ہٹ دھرم فیصلے کے بعد بیٹی اور اس کے گھر والوں کا نصیب بنتی ہے۔ آپ بہت غلط کر رہی ہیں اور بہت پچھتائیں گی ۔ دم لے جاؤ میاں ! تم نے کب خود کو اس خاندان کا حصہ سمجھا ہے۔ الٹا جب بھی آئے ماں کی دل جوئی کرنے کی بجائے دل ہی دکھایا ۔ ” عفت آرا کی بات پر ارسلان کا منہ اتر گیا۔ وہ سست قدم اٹھاتے اس گھر سے نکل آئے تھے۔ یہاں کے لوگوں نے برسوں پہلے جو زندگی گزارنے کی غلط راہیں متعین کی تھیں برس ہا برس کے بعد بھی اسی پر قائم تھے۔ اماں ابا کی محبت کی چھاؤں میں وہ کسی تتلی کی مانند اڑتی پھرتی تھی اب اسے لگتا اس تتلی کے رنگ کسی نے نوچ کر اسے ایک پنجرے میں بند کر دیا تھا جہاں وہ سانس بھی بمشکل لے پاتی تھی۔ گھر کے کام کاج کے دوران ثمن کا مہربان چہرہ کبھی کبھار اوپر سے دکھائی دے جاتا پر نہ تو وہ اس سے کچھ کہہ سکتی نہ ہی ثمن کچھ کہہ پاتی۔ اچانک اسے ایک دم چکر آیا ۔ اس نے سلیب کو تھامنے کی کوشش کی اور ذہن پر اندھیرا چھا جانے کے باعث دھڑام سے پکے فرش پر جا گری۔ غضب خدا کا ایسی میسنی پانچ ماہ ہو گئے اس لڑکی کی ایسی حالت کو منہ سے نہ پھوٹ کے دی وہ تو اس کی حالت دیکھ کر میں ٹھن گئی اور دائی کو پکڑلائی۔ اس نے تصدیق کردی کہ جی آپ کی بہو تو پانچ ماہ کی حاملہ ہے۔ یہاں تو جس کے ساتھ بھلا کرو وہی منہ پر چانٹا ما کر چلتا بنتا ہے۔ غریب سمجھ کر گھر کی عزت بنایا ، پیار دیا محبت دی۔ عزت دی۔ کیا صلہ دیا اس کل کی چھوکری نے ہماری نسل اس کی کوکھ میں پل رہی ہے اور اس گھنی نے بتا کے نہ دیا۔ تتلی نے ہوش و حواس بحال ہوتے ہی الزامات کی بوچھاڑ وصول کی تو آنکھیں موندے رہنے میں ہے بہتری سمجھی – صفی ذرا پر بابا کو فون ملا۔ اگر شام کے کھانے پر تشریف لے آئیں تو دم ہی کر دیں – دشمنوں کو خبر بھی نہ ملے اس خوشی کی خبر کی۔ ” صفت آرا اٹھ کر فون کرنے لگیں خوش قسمتی سے پیر بابا نے بھی آنے کی منظوری دے دی تھی۔ تتلی چادر میں لپٹی ہوئی بہت عجیب محسوس کر رہی تھی۔ سارا گھرانہ ہی ادب سے وہاں سر جھکائے موجود تھا۔ سر اوپر اٹھاؤ۔ بابا کی رعب دار آواز پر تتلی نے چونک کر ان کو دیکھا تو عمر کے لحاظ سے اس کا کوئی تاثر اس شخص کے چہرے پر موجود نہ تھا لیکن عجیب سی چمک اور الگ سا انداز تھا جس کو محسوس کرتے ہی وہ سمٹ کر اور زیادہ چہرے کو جھکا گئی۔ بی بی کو مخصوص عرصے تک مسلسل علاج کرانا پڑے گا۔ ہر جمعرات کو اسے آستانے پر لے آیا کریں۔ مجھے کوئی اچھا اشارہ نہیں ملا ہے۔ اس بار کا وار بہت سخت ہے۔ کچھ دیر کے بعد آنکھیں کھول کر بابا نے سرخ آنکھوں سے سر جھکائے بیٹھی تتلی کو دیکھ کر سب حاضرین کو مطلع کیا۔ الہی خیر۔ میں تو پہلے ہی کہتی تھی بابا آپ سے۔ کچھ خطرہ تو نہیں ہے ناں۔ عفت آرا گھبرا کر بولیں۔ ہمارے ہوتے ہوئے فکر کیوں کرتی ہے مائی۔ دیکھنا تو جن کا وار ہے ان ہی پر الٹ دیں گے ہم۔ وہ غضب سے بولے۔ تتلی کو اس کی ساس نے وہاں سے اٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ کمرے میں آکر اس نے چادر اتاری اور خود کو اس عجیب سے ماحول اور عجیب سے شخص سے دور پا کر سکون کی سانس لی۔ ابھی وہ کمر ٹیک لگا ہی پائی تھی کہ صفت آرا کمرے میں داخل ہوئیں۔ سنو لڑکی اچو تمہاری ماں کی طرف سے سیٹ تھا گولڈ کا وہ کہاں ہے؟ جلدی سے نکالو۔ پیربابا کو کہیں جانا ہے ۔ وہ خود ہی اس کی الماری کی دراز میں چیک کرنے لگیں۔ میرے سیٹ کا پیر سے کیا تعلق ہے۔”کسی قدر ہراساں لہجے میں اس نے پوچھا۔ کیوں بی بی! اتنی معصوم مت بنو۔ اتنی بڑی شخصیت اتنی شان والے بزرگ آئے ہیں یہاں۔ ان کا احسان ماننے کے بجائے یہ کیا پوچھنے کھڑی ہو گئی ہو۔ سنا نہیں کیسی بلاؤں مصیبتوں کو تم پر سے ٹال دیں گے۔ وہ تو شکر کرو اماں کا ،جن کا خیال کر کے وہ اپنے منہ سے کچھ نہیں مانگتے ہم خود ہی جو کچھ دے دیتے ہیں انہوں نے اعتراض نہیں کیا ورنہ ان کے آستانے پر تو جانا ہو گا خود دیکھ لینا کیسے کیسے امیر کبیر اعلا عہدوں والے کیسے کیسے نذرانے لے کر نظرکرم کے منتظر رہتے ہیں پر جن سے پیر بابا ایک بار ناراض ہو جائیں تو وہ ناکام و نامراد ہی لوٹتا ہے۔ اب بت بن کر بعد میں کھڑی رہنا وہ زیور نکال کے دو۔ آنسو پیتے ہوئے تتلی نے زیورات والا خانہ کھول کر وہ اکلوتا سیٹ انہیں دیا جو نجانے کیا کیا جتن کر کے ابا نے اس کے لیے شہر سے بنوایا تھا۔ اس کی سسرال سے ملنے والی چار چوڑیاں اور دو سیٹ ان چھ ماہ میں پہلے ہی اس کی ساس اس سے لے چکی تھیں وہ بھی شاید ایسے ہی کسی مصرف میں جا چکے تھے۔ پر رات کو ٹیپو کے کمرے میں آنے پر وہ چپ نہ رہ سکی۔ اس کے بھی کم و بیش اپنی بہن والے خیالات و الفاظ ہی تھے کہ وہ پیر بابا کے پاس گئی نذرانے والی چیز کے بارے میں ایسی ویسی سوچیں رکھ کر اپنا ایمان خراب کر رہی ہے۔میرا علم بہت محدود اور عمر بہت ہی کم ہے لیکن اتنا جانتی ہوں کہ جو کرتا ہے۔ اللہ کرتا ہے۔ انسانوں کی زندگی میں جو خوشی آتی ہے وہ اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ ان بابوں قسم کی مخلوق کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے نہ ہی یہ غیب کا علم جانتے ہیں اور آپ اس خیال میں بھی مت رہیں کہ اس عجیب شکل والے آدمی کے پاس ہر جمعرات کو جاؤں گی ۔ آج تتلی کا ضبط جواب دے ہی گیا تھا۔ گستاخ جاہل عورت ڈربے جیسے گھر میں رہنے والی تم کیا جانتی ہو ان بزرگوں کی کرامات کو۔ تمہیں نہیں پتا کہ یہی وہ نیک لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تک ہماری دعا پہنچانے کا وسیلہ بنتے ہیں۔ ورنہ ہم تم جیسے لوگ تو اس قابل ہی نہیں کہ اتنے گناہوں کے ساتھ اس منہ سے اپنے گناہ بخشوا ئیں اور کوئی دعا مانگیں۔ ٹیپو غصے سے بولا تو تتلی اس کی عجیب و غریب توجیہ پرحیرت زدہ رہ گئی۔
آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ امجھے یقین نہیں آرہا کہ ایسی باتیں کر سکتے ہیں۔ معاف کیجئے گا جہاں تک میرا علم ہے میرا اللہ تورحیم وکریم ہے ہر خاص و عام کے لیے وہ کہتا ہے کہ مانگو وہ مانگنے والوں کو تو بہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ میں نے تو اس گھر میں ایک بھی فرد کو کبھی نماز کی پابندی کرتے نہیں دیکھا۔ یقین کریں نماز میں ہی سکون ہے۔ ابھی تتلی کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ ٹیپو کا زوردار تھپڑ اسے زمین چاٹنے پر مجبور کر گیا۔ گھٹیا خاندان کی گھٹیا لڑکی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم غلط ہیں۔ کافر ہیں مسلمان تو دنیا میں تم ہی ہو گویا۔ اماں سے بات کرتا ہوں صبح کہ گھر بھجوائیں تمہیں تمہارے۔ اونچے گھر میں آکر اپنی اوقات ہی بھول گئی۔ تم جیسی لڑکی کو کیا پتا اونچے گھروں میں رہنے کےطور طریقے کیا ہوتے ہیں۔ ٹیپو نے اسی پر اکتفا نہیں کیا جا کر لمحوں میں اماں کو بتایا اور انہوں نے اس کے اگلے پچھلوں کو وہ سنائیں کہ متلی کے آنسو بھی اذیت کے مارے بہہ نکلے – تم جیسی گستاخ اور بے ادب لڑکی کی ہمارے گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے ابھی اور اس وقت اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ۔ ہوش ٹھکانے آئیں تو لوٹ آنا۔ ہمارے طور طریقوں کے مطابق اگر زندگی نہیں گزارنی تو ہماری طرف سے آزاد ہو۔ کاغذ بھی بھیج دیں گے۔ تمہیں شاید اونچی حیثیت راس نہیں آئی۔ چلو اٹھو خوب غصے میں عفت آرا کا سانس پھول گیا۔ خوف سے تتلی کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ میں اس وقت کہاں جاؤں۔ کل صبح.. ہرگز نہیں۔ ابھی جاؤ گی تم۔ تمہارے اماں باوا کو بھی پتا چلے کہ ایسا آخر کیا کام کیا ہے جو اس ٹائم نکال باہر کی گئی ہو۔ چل ٹیپو بازو سے پکڑ کر دروازے سے باہر نکال ایسے۔ انہوں نے بیٹے کو حکم دیا تو وہ ہراساں کھڑی تتلی کی طرف بڑھا ۔ تتلی نے ایک نظر ان ظالم چہروں کی طرف دیکھا اور اپنی طرف آتے ٹیپو کو روک دیا- میں چلی جاؤں گی خود ہی بھرائی ہوئی آواز میں اس نے کہا۔ بیڈ پر پڑی چادر اٹھا کر اوڑھی اور آہستہ آہستہ چلتی کمرے سے باہر آ گئی۔ ہر طرف اندھیرے اور سناٹے کا راج تھا۔ سامنے اندھیرے میں نظر آتے ایک روشن گھر کو دیکھ کر اسے اس ہمد رو لڑکی کا خیال آیا تو بیرونی دروازه پار کر کے وہ گلی میں اسی طرف چلی آئی جہاں ثمن کے گھر کا بیرونی دروازہ تھا۔ اپنے پیچھے اس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرنے کی زور دار آواز سنی پر قدم رو کے بغیر وہاں آ کر کھڑی ہو گئی۔ دروازے کی گھنٹی پر ہاتھ رکھتے ہی گھنٹی کی تیز آواز پورے گھر میں گونجی۔ اس گھر میں اس کی ساس کا ایک روپ صفت آرا بھی موجود تھی۔ اس نے دل میں دعا کی کہ اس وقت اس کا سامنا اس سے نہ ہو۔ دفعتا دروازہ کھول کر عمران بھائی نے باہر جھانکا۔ آپ کون .. ارے آپ پہلے اس نے حیرت سے اور پھر اس کو پہچان کر شدید حیرت سے سوال کیا۔ شادی میں ایک دفعہ اسے دیکھا تھا اس کے بعد ایک اور بار جب جہاں آرا نے پورے گھر کی دعوت کی تو صفت آرا مجبور کر کے اسے بھی ساتھ لے گئی تھیں تب اس کی نظر ٹیپو کی بیوی پر پڑی تھی اب وہ دوسری نظر میں ہی سہی اسے پہچان گیا تھا۔ وہ ثمن سے ملنا ہے۔ بے عزتی کے احساس سے ایک بار پھر اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ ہاں ہاں۔ آئیے اندر ہی ہے۔ عمران کو اس کا اس وقت آنا اور روئی روئی آنکھیں بہت کچھ بتا گیا – تتلی ہچکچا گئی۔ وہ صفت آپا کو میرا آنا شاید اچھا نہ لگے۔ کیوں ؟ عمران کی تیوری پر بل پڑ گئے خیر آپ اندر تو آئیں۔ صفت ویسے بھی اپنے کمرے سےباہر نکلنے کا تکلف کم ہی کرتی ہے۔ عمران کی یہ بات سن کرتتلی اندر آگئی۔ عمران اسے سیدھا امی اور ثمن کے کمرے کی جانب لے آیا۔ ثمن کے گلے لگ کر وہ بے ساختہ ر روپڑی اور روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان ساری بات بتائی۔ میں اس وقت اکیلی اپنے گھر کیسے جاؤں جب کہ اس وقت وہاں سواری بھی کوئی نہیں جاتی اور میرے پاس کرائے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔ وہ شرمندگی سے سسکیوں کے درمیان بولی۔ امی تاسف سے اسے دیکھتی رہیں جب کہ ثمن کا چرچ سرخ پڑ گیا یہ سب سن کر عمران کے ماتھے پر الگ تیوریاں تھیں۔ خدا اگر ان کی رسی دراز کر رہا ہے تو اس میں بھی مصلحت ہے اس کی- تم دیکھنا تتلی برا انجام ہونے والا ہے ان کا۔ ثمن جی میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ میں آپ کو اپنے ابا کا نمبر بتاتی ہوں۔ آپ انہیں فون کر دیں ۔ وہ یہاں سے آکر مجھے لے جائیں۔ آپ کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولو گی یہ اس نے روتے ہوئے کہا توامی نے ساتھ لگا کر اسے تسلی دی۔ تم کہتی ہوتومیں کردیتی ہوں تتلی پر یہ بھی تو دیکھو کہ رات کے اس ٹائم وہ لوگ پریشان نہ ہو جائیں۔ تم ایسا کرو رات تو یہاں رہ جاؤ۔ کل میں اور عمران بھائی تمہیں چھوڑ آئیں گے۔ ثمن نے تتلی کوتسلی دینے والے انداز میں کہا۔ نہیں نہیں ، آپ کو ان لوگوں کا پتا نہیں ہے ، کیسے بات کا بتنگڑ بنانے میں ماہر ہیں۔ میرے رات یہاں گزارنے کو ہی بہت بڑا مسئلہ بنا لیں گے اور میں کچھ بھی ہو جائے اپنا گھر توڑنا نہیں چاہتی۔ ثمن جی یقین کریں ان لوگوں نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیا جیسے پہلے سے ہی کسی بہانے کے منتظر تھے کہ کوئی بات میری طرف سے سے ہو اور وہ مجھے وہی وجہ بنا کر گھر سے نکال دیں۔ میرے اماں ابا مرجائیں گے۔ عزت ہی تو ہوتی ہوتی ہے ہم غریبوں کے پاس۔ اس نے ایک بار پھر رونا شروع کر دیا ۔ ثمن ! یہ بچی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ عمران تم ایسا کرو گاڑی نکالوں میں اور تم چل کر اسے اس کے باپ کے گھر چھوڑ کر آتے ہیں۔ سعیدہ بیگم نے حتمی انداز میں کہا تو تتلی نے شکر سے ان کی طرف دیکھا جب کہ عمران سرہلا کرباہر چلا گیا۔ پینتالیس منٹ کے بعد وہ لوگ تتلی کے گھر پر تھے۔
عفت آرا معمول کے مطابق اپنے تخت پر براجمان تھیں۔ صفت آرا بھی باہر دھوپ میں کرسی ڈالے چائے پی رہی تھیں۔ ٹیپودفتر اور فرحت آرا کالج گئے تھے۔بہت اچھا فیصلہ کیا اماں آپ نے۔ اب دیکھنا کیسے سارے کسی تیل نکلیں گے اس بیگم کے میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ قابو میں رکھیں، آپ ہی نے زیادہ سر پر چڑھا لیا تھا۔ اب دیکھنا کیسے ناک رگڑتے ہوئے آئیں گے۔ تنفر سے کہا گیا۔ اسی اثنا میں بیرونی گھنٹی بجی تو صفت آرانے فرش کو پونچھا لگاتی ملازمہ کو آواز دے کر کہا کہ دروازے پر دیکھے کون آیا ہے۔ یہ ڈاکیا آیا ہے جی باہر کہتا ہے سائن کر دیں آپ ۔ رجسٹری ہے۔ ملازمہ ایک کاغذ اور پن پکڑے اندر آئی اور دونوں ماں بیٹوں نے تعجب سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ٹھیک سے سنا بھی تھا ہمارے ہی گھر آیا ہے ڈاکیا۔ عفت آرا نے بھنویں اچکا کر کہا تو ملازمہ بولی۔ ہاں جی اس نے خود ٹیپو صاحب کا اصلی نام کامران لیا کہ ان کا گھر ہے۔ کچھ نہ سمجھتے ہوئے صفت آرا نے کاغذ پر سائن کر دیے ۔ چند ہی لمحوں بعد ملازمہ نے ایک خاکی لفافہ لا کر صفت آرا کے ہاتھ میں تھما دیا۔ صفت آرا نے عجلت سے لفافہ کھولا اور اندر نکلے کاغذ پر لکھے الفاظ پڑھ کر گویا ساکت ہی رہ گئی۔ کیا ہوا۔ کیا ہے صفی ؟ بت کیوں بن گئی اے – بتا بھی کیا ہے اس میں عفت آرا اس کا انداز دیکھ کر ٹھٹک گئیں اور بے تابی سے پوچھے گئیں۔ طلاق ہے اماں فرحی کو طلاق دے دی ہے جاوید نے الفاظ بے رابطہ سے ہو کر اماں کی سماعت پر بم پھوڑ گئے۔ جاوید اور اس کے گھر والوں کے یہاں آکر ناک رگڑنے کا خواب چکنا چور ہو کر ان کے سامنے بکھرا پڑا تھا۔ تو کرنے دیتی ان کو وہ سب کچھ کہنے دیتی وہ سب جوان کی زبان سے نکل رہا تھا۔ میں سمجھاتی تھی تجھے تتلی کہ سرال کا پرچا انسان کی زندگی کا سب سے مشکل پرچا ہوتا ہے۔ عورت کو اپنا من مارنا پڑتا ہے زبان بند رکھنی پڑتی ہے۔ بعض دفعہ تو عزت نفس بھی گنوانا پڑتی ہے تب جاکے عورت قدم جما تی ہے سسرال میں۔ کس کس کو یقین دلائیں گے کہ قصور تیرا نہیں ہے؟ سسرال سے روٹھی عورت جو میکے کی دہلیز پر آکر بیٹھے اس کے لیے ہر آنکھ میں تجسس اور ہر زبان پر سوال ہوتا ہے۔” آج اسے آئے پندرہ دن ہو گئے تھے اور اماں دن میں کوئی پندرہ بار یہ باتیں دہراتی تھیں۔ ابا نے کتنی بار دفتر میں ٹیپو سے بات کرنا چاہی تو وہ کنی کترا کر ایسے نکل جاتا جیسے ان سے کوئی تعلق کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔ میں کچھ بھی کر لیتی اماں پر انہوں نے مجھ سے کسی بھی حال میں خوش نہیں ہونا تھا۔ وجہ یہ نہ بنتی کچھ اور بنا لیتے وہ لوگ ۔ جو لوگ اللہ سے مطمئن نہیں ہوتے اللہ انہیں بندوں سے بھی نا خوش رکھتا ہے۔ ایک اللہ کو نہیں مانتے۔ اسی پر بھروسہ نہیں ان کو باقی سب جتن کر لیتے ہیں خوشی اور سکون حاصل کرنے کو ان پانچ ماہ میں ایک فرد نے ایک بھی نماز ادا نہیں کی۔ کبھی خیرات صدقہ کے لیے ایک روپیہ ان کی جیب ان کے گھر سے نہیں نکلا اور غیر اللہ کے لیے قرض لینے سے نہیں چوکتے میرا سارا زیور تعویز گنڈوں، پیروں، فقیروں پر خرچ کر ڈالا۔ ایک عجیب سے آدمی کو بلا رکھا تھا اوراتنی گندی نظروں سے دیکھ رہا تھا مجھے پھر کہا کہ ہر جمعرات کو اس کو میرے پاس لاؤ عمل کرنے کی خاطر۔ اس پر سے بلائیں اتاروں گا۔ وہ سب کچھ بھی بتاتی چلی گئی جو پہلے اس نے نہیں بتایا تھا۔ اماں تو گنگ رہ گئیں ۔ ابا الگ دروازے میں ساکت کھڑے رہ گئے۔ تیرے لیے اچھا بر تلاش کرنے میں مجھ سے بہت بڑی بھول ہو گئی تتلی! اپنے ابا کو معاف کر دے میری بچی تو یہاں اطمینان سے رہ – وہ لوگ معافی مانگیں اور لینے آئیں گے پھر بھی نہیں جانے دوں گا۔ تو نے پہلے کیوں نہیں بتایا اتنا سب کچھ سہتی رہی۔ اسے ساتھ لگا کر ابّا سسک اٹھے۔ ابھی بھی ان کے لیے پلٹنے کی راہ کھلی تھی۔ ابھی بھی کئی مواقع تھے پر جن کو اللہ خود ہدایت نہ دینا چاہے ان کے دلوں پر بھی غفلت اور گمراہی کے پردے ڈال دیتا ہے۔ عفت آرا کو اب بھی زعم تھا کہ ان کی لیکچرار بیٹی بیٹھی نہیں رہے گی۔ رشتے کرانے والی کی مٹھی گرم کرکے انہوں نے فوری اچھے رشتے کی درخواست کی تھی اور بہت پر امید تھیں۔ آج ہی ایک چکر پیر بابا کے ہاں بھی لگایا لگا تھا۔ اس نے تتلی کا حساب کر کے بتایا تھا کہ ابھی اسے یہاں سے لینے کوئی مت جائے جب تک وہ خود سیدھی نہ ہو جائے صفت آرا کو اس کی گود ہری کرنے کے آزمودہ ٹوٹکے بھی بتائے تھے ساتھ میں کچھ ایسے کام بھی جن میں کچھ خطرہ تو تھا پراولاد ؟ کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔ اصل مسئلہ اسے ثمن سے تھا۔ آج قسمت نے ایسے موقع دیا تھا کہ ثمن پندرہ دن کے کالج ٹرپ پر گئی تھی – بی پی ہائی اور لو ہونے کی صورت میں کئی بار انہیں شدید دورے پڑچکے تھے ۔ سو شیطان اس کی باگ تھام کراس کو گمراہی کے راستے پر چلا رہا تھا – کیا کر رہی ہو ؟ عمران کی گونج دار آواز پر اس کا گلاس لرز گیا۔ یہ مصیبت کہاں سے آ گئی؟ اس نے دل ہی دل میں سوچا وہ تواطمینان کر کے آئی تھی۔کہ عمران مصروف ہے – اس نے اپنا لہجہ ہموار رکھنے کی پوری کوشش کی کہ کچھ نہیں کر رہی پر عمران نے کچن میں داخل ہوتے اسے ادھر ادھر کرتے دیکھا تھا۔ وہ آگے بڑھ آیا۔
کس کے لیے ہے یہ دودھ کا گلاس ؟ کھوجتی نظروں سے اس کودیکھتے ہوئے وہ بولا تو صفت آرا کی آنکھوں کے سامنے کئی رنگ کے ستارے گھوم گئے۔ میں تو پی چکی ہوں۔ یہ ثمن نہیں ہے تو میں نے کہا اماں کو دے آؤں۔ اس نے تھوک نکلتے ہوئے نظریں چرا کر کہا۔ ہوں۔ ثمن تو گزشتہ آٹھ د ن سے نہیں ہے۔ روز اپنی بیماری کے باوجود اماں ہی تمہیں اور مجھے دودھ دے کے جاتی ہیں کام بھی سارا وہی سنبھال رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تمہاری ہمدردی آج ہی کیوں جاگی ؟ اس نے دانت پیس کر اس سے پوچھا۔ آپ تو بات کا بتنگڑ بنانے میں ماہر ہیں۔ کام نہ کرو تب بھی مسئلہ کرو تب بھی سوال و جواب صفت آرا نے بات کو سمیٹنے اور اس کا شک ختم کرنے کی خاطر اپنے مخصوص تیز لہجے میں کہا۔ لاؤ یہ دودھ مجھے دو۔ میں پی لیتا ہوں ہے اماں کے لیے تم اور نکال کے لے جاؤ۔ عمران کی آنکھوں میں شک اور لہجے میں نرمی تھی۔ صفت کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ نہیں۔ اس نے دودھ کا گلاس پیچھے کر دیا۔ تھوڑا سا دودھ چھلک کر سلیب پر گر گیا۔ عمران نے آگے بڑھ کر دھکیل کر صفت آرا کو پیچھے کیا اور خود گلاس اٹھانے لگا۔ مت پیو عمران اس میں زہر ہے۔ صفت آرا زور سے چیخی اور گلاس پر زور سے ہاتھ مار کر اسے گرا دیا۔ شیشے کا گلاس چھنا کے سے سلیب پر گرا اور سارا دودھ پھیل گیا اور سلیب سے گر کر لکیریں بنا تا فرش پر بہنے لگا۔ میں تمہارے ہر عمل کو تمہاری بے وقوفی سمجھ کر نظر انداز کرتا رہا اور یہی سوچ کر چپ رہا کہ ہماری اچھائی بھی تو تمہیں اپنا بنا ہی لے گئی پر نہیں جانتا تھا کہ نیت کے برے لوگوں پر کوئی اچھائی اثر ہی نہیں کرتی ! بقائمی ہوش و میں عمران الہی بقاء ہوش و حواس تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ طلاق دیتا ہوں۔ طلاق دیتا ہوں۔” عمران کے لبوں سے الفاظ نہیں انگارے نکلے جو صفت آرا کو تو لبوں پر ہاتھ رکھ کر ساکت رہنے پر مجبور کر گئے پر شیشے کے گلاس کے ٹوٹنے کی آواز سن کر کچن کے دروازے میں کھڑی سعیدہ سے یہ سب برداشت نہ ہو سکا تو وہ لہرا کر گرنے ہی لگی تھیں کہ عمران نے بھاگ کر ان کے کمزور وجود کو اپنے مضبوط بازووں میں سمیٹ لیا۔ اماں سے نیچے گر پڑی۔ ہے. ایک تیز چیخ کی آواز پ ننگے پاؤں ہی اندر کی طرف بھاگیں جہاں سے تتلی کے چیخنے کی آواز آئی تھی۔ مغرب سے پہلے کا وقت تھا۔ ابا عصر کی نماز پڑھنے گئے تھے اور اکثر ہی وہ باہر عصر کی نماز پڑھ کر چوپال پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اماں الٹے پاؤں واپس دوڑیں۔ چار پائی گھسیٹ کر دیوار کے پار جھانکا شکر ہے ہمسایوں کا بچہ گڈو موجود تھا۔ اس سے کہا کہ بھاگ کر تتلی کے ابا کو جلدی سے بلا کے آئے۔ پانچ منٹ بعد ہی ابا آگئے۔ ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تتلی کی حالت دیکھ کر- وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھی۔ محلے میں ہی ایک ہمسایے کی ٹیکسی تھی ابا نے تتلی کو بازوؤں میں بھر کر ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر لٹایا ۔ اماں بھی اس کا سر گود میں رکھ کر بیٹھ گئیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر آیات پڑھنے لگی 45 منٹ کا سفر آدھے گھنٹے میں طے کر کے وہ ہسپتال پہنچے- جہاں تتلی کی حالت دیکھ کر اسے ایمرجنسی لے جایا گیا – ڈاکٹر نے دستخط کرائے کہ فوری آپریشن کرنا پڑے گا – تتلی کی جان کو بہت خطرہ ہے – ابا نے سائن کر دیے اور سوا گھنٹے کے انتظار کے بعد ڈاکٹر نے ان کو تسلی دی کہ تتلی کا آپریشن ہو گیا ہے لیکن بچہ اس دنیا میں آنے کے بعد صرف چند لمحے ہی جی سکا – ویسے بھی وہ سات ماہ کا تھا اور بہت زیادہ پیچیدگیوں کا شکار تھا- اماں ابا دکھی ہوئے پر تتلی کی جان بچ گئی تھی اس کے لیے وہ جتنا رب کا شکر ادا کرتے کم تھا- تتلی کی طرف سے تسلی ہو جانے کے بعد ابا نے ٹیپو کا نمبر ملایا اور اسے ساری تفصیل بتائی – آپ مجھے کیوں بتا رہے ہیں میرا آپ سے کیا تعلق؟ بیٹی کو گھر بٹھانے کا یہ بدلہ لیا ہے ہم سے کہ جادو ٹونے کرا کر بربادی پھیلا دی سارے گھر میں- اب کہتے ہو کہ میں اس فتنی کو دیکھنے کے لیے آؤں میری طرف سے تم سب جہنم میں جاؤ- آزادی کا پروانہ میں جلد بھجوا دوں گا اس نے فون بند کر دیا – ابا کا چہرہ دیکھ کر اماں پریشان ہو گئیں کیا ہوا تتلی کے ابا کیا کہا داماد نے؟ وہ پریشان ہو کر بولی- ان کا کندھا ہلا کر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا ان کا انداز اماں کو کچھ غلط ہونے کا احساس دلا رہا تھا جواب میں ابا صرف خالی نظروں سے انہیں دیکھ کر رہ گئے- بہت دنوں کے بعد معیز نے ثمن کے نمبر پر کال کی تھی درمیان کے دو تین ماہ اتنے مصروف اور عجیب گزرے تھے کہ کچھ سمجھ میں نہ آیا فرحت خالہ کی طلاق، پھر صفت خالہ کا طلاق کا بعد گھرآ جانا- ٹیپو ماموں کا تتلی مامی کو طلاق دے دینا .. دیکھا جائے تو مصیبتوں کا پہاڑ تھا جو عفت آ را کے گھر پر ٹوٹا تھا ابھی بھی خدا کی طرف سے دی گئی تنبیہ کو وہ سمجھ نہیں پائے تھے- وہ لوگ اسے دشمنوں کے وار سمجھتے اور پیروں فقیروں کےآستانے پر ان کے چکروں کی تعداد اور نزرانوں کے مقدار بڑھ گئی تھی – معیز جب بھی گھر میں اپنے رشتے کی بات چھیڑنا چاہتا کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ کھڑا ہو جاتا جس کے بعد اسے لگتا کہ اس کا اور ثمن کا ساتھ ناممکن ہے- حالانکہ اب تو جہاں آ را اپنے میکے بہت کم جاتی تھیں ابا کی طرف سے ان کو دھمکی دی گئی تھی کہ اب وہ ہفتے میں ایک بار کی بجائے مہینے میں ایک بار جائیں کیونکہ دادی ضعیف تھی ان سے گھر کی ذمہ داریاں نہیں سنبھالی جاتی تھی – دوسرا ابا جانتے تھے کہ جب تک جہاں آ را کا رابطہ ان کے میکے والوں سے رہے گا ان کے گھر میں سکون نہیں آ سکتا- وہ اپنی ساس کی فطرت کو سمجھتے تھے ورنہ ان کا دل چاہتا تھا کہ ہمیشہ کے لیے یاں تو جہاں آ را کو میکے بھیج دیں یا پھر ان کا وہاں جانا بند کر دیں – لیکن دونوں کاموں پر دل آمادہ نہ ہوا تو درمیان کی راہ نکال لی – جہاں آرا بھی شاید بہنوں کے ساتھ ہونے والے سانحوں کے بعد ذرا چپ تھیں- دادی جو کہتی چپ چاپ سن لیتی اور زیادہ تر خاموش رہتی – معیز یہ سب کیا ہو گیا بخدا بھابی سے ہم جتنا بھی تنگ تھے یا جو کچھ بھی انہوں نے تائی یا ہمارے ساتھ کیا، اس انتہائی قدم کا ہم میں سے کسی نے کبھی نہ سوچا تھا – عمران بھائی بہت چپ ہو گئے ہیں – اماں اس دن کے بعد سے ان سے کلام ہی نہیں کر رہی – حالانکہ تین ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے ہنستی کھلکھلاتی ثمن آج رو رہی تھی حالات الجھے ہوئے ریشم کی مانند سلجھنے کی بجائے اڑتے جا رہے تھے- وہ خاموشی سے سنتا رہا کیونکہ جانتا تھا کہ وہ اپنی ساری پریشانی اسے بتا نہیں دے گی چین اسے نہیں آ ئے گا- اس واقعے سے اگلے دن تمہاری نانی اماں اور فرحت آپا آئی تھیں بہت برا بھلا کہا مجھے اور اماں کو – پھر کہا کہ عمران بھائی نے جھوٹ بول کر سارا ڈرامہ کیا صفت ارا کو چھوڑنے کی خاطر- مجھے کہا کہ میں اب خوشی سے ناچوں جو میں چاہتی تھی وہ ہو گیا ہے – مجھے بتاؤ معیز کیا کوئی ماں اور بہن چاہتی ہے کہ اس کے بھائی یا بیٹے کا گھر اجڑ جائے – مجھے تو اس بات کا صدمہ تھا کہ تائی کی یا فرحت آپا کی کوئی بات مجھے بری ہی نہیں لگی – جانتی تھی کہ ان کی تو بیٹی کا گھر اجڑا تھا وہ مجھے کیسے برا بھلا نہ کہتی- اس کا اپنا دل اتنا بوجھل تھا کہ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کن الفاظ میں تسلی دے حالانکہ آج تک جب بھی وہ پریشان ہوتا تھا ثمن کی بے ساختہ باتیں اس کی ساری پریشانی دور کر دیتی تھی اس کے باوجود وہ آج اسے تسلی کے لیے ایک لفظ بھی نہ بول پایا-
ہسپتال میں تین دن داخل رہنے کے بعد جب تتلی گھر آئی تھی تو اس کے ایک ہفتے بعد ٹیپو کی طرف سے اسے طلاق کے کاغذات اور حق مہر کی رقم مل گئی تھی- پانچ ماہ گزر جانے کے بعد بھی تتلی میں وہ رنگ نہ آ سکے جو اس کے مزاج کا حصہ تھے- سارا دن کاموں میں لگی رہتی مارے باندھے کام کے لیے اٹھنے والی تتلی اب ڈھونڈ ڈھونڈ کر کام نکالتی – 10 بار اماں نماز کے لیے آواز لگاتی تو کبھی پڑھ لیتی کبھی نہیں – پر اب اس کی نمازوں میں باقاعدگی آ گئی تھی – سنجیدگی مزاج کا حصہ بن گئی تھی- اماں اسے دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھرتی تو ابا نظر چرا جاتے – کسی گہری سوچ میں وہ گم تھا جب جہاں آرا اندر آئیں – اسے پتہ نہ چلا وہ بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھی تو تب وہ چونک کر سیدھا ہو گیا – ارے اماں کب آئیں وہ سیدھا ہوتے ہوئے بولا- جب تم اپنے خیالوں میں گم تھے وہ آہستہ سے مسکرا کر بولی جی اماں بولیے کوئی کام تھا؟ معیز نے ان سے پوچھا- کیوں میں تمہارے پاس ویسے نہیں بیٹھ سکتی- ارے نہیں میرا مطلب یہ نہیں تھا وہ شرمندہ ہو گیا -میری بھی عجیب قسمت ہے معی، ساری زندگی ساس کو خوش نہ کر پائی- میاں نے بھی مجھ سے سکون نہیں پایا- اب بیٹا ہے تو وہ بھی میری وجہ سے پریشان – آ نکھوں سے آنسو بہنے لگے ارے اماں یہ کیا کر رہی ہیں وہ گھبرا گیا اور ان کا ہاتھ تھام کر بے قراری سے کہا- ہاں تو نہیں ہے پریشان ؟کبھی کہا اپنی ماں سے کہا تو ثمن کو پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو معیز نے انکھیں پھاڑ کر ان کو دیکھنا شروع کر دیا- میں اچھی بہو نہ بنی نہ ہی اچھی بیوی پر یہ افسوس تو ساری زندگی میری جان جلائے گا کہ میں اچھی ماں بھی نہ تھی – تمہیں ماں پر اتنا بھی اعتماد نہیں تھا ایک بار مجھے بتاتا تو صحیح- معیز کتنی دیر اپنی ماں کی طرف دیکھتا رہا یہاں تک کہ اس کی آنکھیں بھر آئیں اور ان کی گود میں منہ چھپا کر رو پڑا – اماں میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا – جہاں ارا کے آنسو ان کے چہرے پر ٹھٹھر کر رہ گئے- سونی یہاں آؤ… ارے بہو چھوڑو تم ان دادا پوتی کو… میری بات سنو- سعیدہ بیگم نے پیار سے اپنی بہو کو بلایا- جی اماں آج ثمن اور معیز کھانے پرآ رہے ہیں ذرا اہتمام کر لینا یا کچھ چیزیں بازار سے منگوا لینا- ارے واہ بازار سے کیوں میں تو سب چیزیں ثمن کی پسند کی بناؤں گی – اپنی ساس اور دادی کو ایسی پیاری ہوئی ہے کہ شکل دیکھنے کو ہم ترس جاتے ہیں- عبداللہ کو بھی بہت یاد آتی ہے اور سونی بھی بہت مس کر رہی ہے آج کل اس کو- بھابھی کے الفاظ میں نند کے لیے نرمی اور پیار تھا. ارے تتلی یار کہاں ہو میری ٹائی نہیں مل رہی – عمران کی آواز پر وہ ابھی جی آئی کہتی بھاگی چلی آئی تو سیدہ بیگم نے اپنے اللہ تعالی کی اس مہربانی پر ایک بار پھر شکر ادا کیا، جس نے ان کے گھر کے بدنما کینوس میں رنگ بھر دیے تھے اور ان کے گھر کو مکمل جنت بنا دیا تھا- ثمن کی معیز سے شادی پر جہاں آرا کی اماں اور اس کی بہنوں اور ٹیپو نے بائیکاٹ کر دیا تھا- تین سال پہلے ثمن کی معیز سے شادی کے بعد ثمن کی ہی خواہش پر عمران شادی پر راضی ہوا تھا اور آج تک اپنے اللہ کا شکر ادا کرتا تھا کہ اس نے بہن کا مان رکھ کر اپنے لیے جنت کما لی – جہاں آ را جو پہلے پہل اپنے میکے والوں کی وجہ سے پریشان اور چپ رہتی ثمن کی پرخلوص طبیعت اور بے ساختہ انداز نے ان کو زیادہ دیر تک اس سے بے نیاز رہنے نہیں دیا تھا-