میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جو گھر کم اور جیل خانہ زیادہ تھا۔ بچپن سے جوانی تک ماں باپ کا پیار نہیں پایا۔ ماں کی گالی گلوچ اور ڈانٹ سن کر بڑی ہوئی۔ وہ جس انداز اور الفاظ میں مجھے تنبیہ کرتی یا ڈانٹتی تھیں، وہ ناقابلِ تحریر ہیں۔ جب انسان کو گھر میں محبت نہ ملے، تو وہ محبت باہر تلاش کرتا ہے۔ گھر والوں کا یہ حال تھا کہ دوسروں کے سامنے میٹھا میٹھا بولتے، مگر اندر سے سارے جہاں کی کڑواہٹ اپنے لہجے میں بھر لیتے تھے۔ میں اسی خوف سے کسی سہیلی کو گھر نہ بلاتی تھی کہ کہیں ان کے سامنے میری بے عزتی نہ کر دیں۔ انہی الجھن بھرے دن رات میں کڑھتے ہوئے انٹر کیا۔ اول پوزیشن حاصل کرنے کی رَٹ رہی۔ اب میں دنیا کو سمجھ چکی تھی، لیکن گھر والوں کی پابندیوں نے مجھے بغاوت پر آمادہ کر دیا، اور میں باغیانہ خیالات اور منفی سوچوں کے ساتھ پروان چڑھنے لگی۔ہم پانچ بھائی اور چار بہنیں تھے۔ میں دو بھائیوں سے چھوٹی تھی، باقی سب مجھ سے چھوٹے تھے۔ اپنے باپ پر جان نچھاور کرتی تھی، بلکہ جتنی خدمت باپ کی کرتی تھی، اتنی ہی ماں کی بھی کرتی تھی، مگر ماں مجھے گالیاں دیتے ہوئے اکثر بدزبانی پر اُتر آتیں۔ اسی لیے میں ان سے دور دور رہتی تھی۔جس چیز نے مجھے اپنے ماحول سے زیادہ متنفر کیا، وہ یہ تھی کہ کوئی مجھے کچھ نہیں سمجھتا تھا، کسی نے میری قدر نہ جانی۔ پہلے میں والد کے قدم چھوتی تھی، مگر پھر مجھ پر آشکار ہوا کہ وہ بھی میری ماں سے کم نہیں۔ بات بات پر مجھے مارنا اور ذلیل کرنا انہیں بہت پسند تھا۔ خدا جانے کیوں میرے ماں باپ دوسری بہنوں کو مجھ پر فوقیت دیتے تھے۔ اسی لیے میں احساسِ کمتری کا شکار ہو گئی بلکہ خودسر اور ضدی بھی ہو گئی۔ گھر والوں کی بے حسی نے مجھے اور بھی حساس بنا دیا تھا۔ اب تو مجھے دنیا سے ہی نفرت ہونے لگی تھی۔ماں جانتی تھیں کہ میرے ابو کتنے سخت ہیں، اس کے باوجود میری شکایتیں بڑھا چڑھا کر اُن سے بیان کرتیں، پھر مجھے مار کھانی پڑتی۔
یہاں سے چلی جا اور کہیں منہ کالا کر آ یہ جملہ میرے دل و دماغ پر نقش ہو گیا۔ میرے اندر جیسے ایک بم پھٹ پڑا۔ یوں لگا جیسے میں آج کسی دلدل میں جا گری ہوں۔ کاش مائیں غصے میں بیٹیوں سے ایسے الفاظ کبھی نہ کہیں۔بات اتنی بڑی بھی نہ تھی، مگر جانے کیوں ماں غصے میں ایسی غلط باتیں کہنے لگتی تھیں۔ میں گھر کا کام خوب کرتی تھی اور پڑھائی پر کم توجہ دیتی تھی تاکہ ماں کی زبان بند رہے، مگر سارا دن کام کر کے تھک جاتی، تب بھی کوئی پیار کے دو بول کہنے والا نہ تھا۔ اگر کبھی میری بہن جلدی کھانا ختم کر لیتی، تو ماں فوراً مجھے کہتیںپیٹو کم کھایا کرہر روز کھانے کے وقت یہی جملہ سن کر مجھے کھانا بھی زہر لگنے لگا تھا۔ بلکہ میری تو بھوک ہی ختم ہو گئی تھی۔ اب جب مجھے موقع ملتا، تو میں کھانا چھپا کر رکھ دیتی اور پھر الگ کمرے میں جا کر چھپ کر کھاتی۔ یوں میں نے کھانا پینا کم کر دیا تھا، خاص طور پر گھر والوں کے سامنے کوئی چیز نہیں کھاتی تھی۔غیروں کے دیے ہوئے زخم بھر جاتے ہیں، مگر اپنوں کے دیے زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے۔ ماں باپ اور بہن بھائی بھی دشمن لگنے لگے تھے۔ ان کی بے رخی نے مجھے حساس بلکہ ذہنی مریض بنا دیا تھا۔ آہستہ آہستہ میرے اندر کی کُڑھن نے گستاخی کا روپ دھارنا شروع کر دیا۔ جب امی بلا وجہ مجھ سے الجھتیں، جھگڑتیں، تو میں بھی بڑھ کر جواب دیتی اور سچائی سامنے لانے کی کوشش کرتی۔ یوں امی اور زیادہ تپ جاتیں اور مجھے خودسر، بے حیا، بے غیرت، بدتمیز، بددماغ جیسے القابات سے نوازتیں۔ کبھی میرے لیے بددعا کرتیں کہ خدا کرے لولی لنگڑی ہو جاؤ کبھی کہتیں پڑھ لکھ کر دماغ خراب ہو گیا ہے، اب دیکھتی ہوں کیسے کالج جاتی ہے میں ہر بات برداشت کر سکتی تھی، مگر پڑھائی کے بارے میں بلاوجہ کی باتیں برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ لگتا تھا کہ باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیم ہوں۔ میرے ساتھ ماں اور باپ دونوں کا ہی امتیازی سلوک تھا۔ یہ اُس وقت کی میری سوچیں تھیں، آج کی نہیں۔آج تو یہی سوچتی ہوں کہ ماں باپ سے بڑھ کر آپ کا ہمدرد کوئی نہیں ہوتا، چاہے وہ کتنا ہی برا بھلا کیوں نہ کہیں۔ میں سچ کہتی ہوں کہ پندرہ، سولہ برس کی عمر بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ اس عمر میں بہت سوچ سمجھ کر اپنی بچیوں سے برتاؤ کرنا چاہیے۔اکثر چھوٹی بہنوں کے لیے نئے کپڑے بن جاتے، میرے نہیں بنتے۔ میں کچھ کہتی تو یہ کہہ کر چپ کرا دیا جاتا کہ وہ چھوٹی ہیںمیں ضد کرتی تو امی ابو کو میرے خلاف بھڑکا دیتیں، پھر وہ مجھ پر ہاتھ اُٹھا دیتے۔ یوں نہ مجھے ماں کی توجہ ملی، نہ باپ کی۔ تبھی آہستہ آہستہ مجھے ماں باپ سے نفرت ہونے لگی۔
یہ ہے وہ پس منظر جس کی وجہ سے میں سمجھتی ہوں کہ میں برباد ہوئی۔ شاید ہم جیسے نا آسودہ گھروں میں لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھا جاتا ہو گا، لیکن میری ناسمجھی نے مجھے وہ دن دکھائے کہ خدا کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ جو دکھ میں نے بیان کیے، وہ ایسے نہ تھے کہ میں برداشت نہ کر سکتی اور گھر سے قدم نکالتی، مگر میں نے قدم باہر نکالا، اور میرا دامنِ عصمت تار تار ہوا۔ میں ذلیل و رسوا ہوئی، اور آج اس معاشرے میں کوئی پناہ گاہ نہیں جہاں مجھ جیسی لڑکیوں کو پناہ مل سکے۔میں نے بی اے پاس کر لیا تھا۔ میری ہم جماعت لڑکیاں یونیورسٹی میں داخلہ لے رہی تھیں، اور میرے گھر کی فضا ویسی ہی گھٹی گھٹی تھی۔ میں نے ضد کی کہ یونیورسٹی میں داخلہ لوں گی تو اماں نے ابا سے کہا، لڑکوں سے ملاقات کا اور کوئی رستہ نہیں ملا، اب یونیورسٹی میں داخلہ لے گی اور وہاں بن سنور کر جائے گی۔ابا نے بالوں سے پکڑ کر مجھے زمین پر گرا دیا اور میرے نازک بدن پر جوتوں کی بارش کر دی۔ یہ منظر دیکھ کر میری ماں نے مجھے چھڑانے کے بجائے اطمینان کا سانس لیا۔ اب مجھے تعلیم سے بھی نفرت ہو گئی اور میں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خیال دل سے نکال دیا۔ تاہم وہ دن، جب میری روح پر تشدد ہوا، میرے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔ میرا دماغ مفلوج ہو گیا تھا، جیسے میرا وجود ہی ختم ہو گیا ہو۔اس دن میں نے قسم کھائی کہ خودکشی نہیں کروں گی، مگر ان لوگوں کے ساتھ نہیں رہوں گی۔ میں ان کی عزت کو مٹی میں ملا دوں گی۔ اب میں نفسیاتی مریضہ بن گئی تھی۔ اپنی چیزیں توڑ پھوڑنے لگی۔ حالانکہ نقصان میرا ہی تھا، مگر اس طرح دل کو جو وقتی سکون ملتا، وہ ناقابلِ بیان تھا۔میں نے پہلے سوچا تھا کہ میری شادی ہو جائے گی تو یہ ظلم و ستم ختم ہو جائے گا اور وہ انجانا گھر میری جنت بن جائے گا، مگر اماں نے ہر کسی سے یہ کہہ کر میرے خواب چکنا چور کر دیے کہ یہ جس گھر جائے گی، اس کو جہنم بنا دے گی۔میری زندگی میں اگر کبھی کوئی خوشی آئی بھی، تو وہ صرف چند لمحوں کے لیے۔ چاند رات تھی، گھر کے قریب ہی مارکیٹ تھی۔ میں وہاں گئی کیونکہ امی نے کہا تھا کہ چھوٹی بہنوں کو ساتھ لے جا کر چوڑیاں پہنا لاؤ۔ مارکیٹ کے اوپر کے فلیٹ سے ایک نوجوان نے نیچے جھانکا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ نیچے آیا اور چوڑیاں دکھانے لگا۔ بہنوں نے پہن لیں، ہم گھر کو واپس چل دیے۔ تب اس کی نگاہیں دیر تک ہمارا تعاقب کرتی رہیں۔اس کے بعد وہ دوسری بار مجھے اپنی سہیلی زاہدہ کے گھر کے آس پاس دکھائی دیا۔ وہ زاہدہ کا کزن تھا، نام تھا ریحان۔ اب جب بھی میں کپڑے ڈالنے چھت پر جاتی، وہ زاہدہ کے گھر کی چھت پر موجود ہوتا، جیسے میرا ہی انتظار کرتا ہو۔ جلد ہی ہم ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہنے لگے۔ میری روح پیار کی پیاسی تھی، اور ریحان کہتا تھا، تم مجھے اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہو، میں تم پر اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہوں۔ایسے بول کب میرے کانوں نے سنے تھے؟ مجھے اپنی ذات کی تکمیل محسوس ہوئی کہ کوئی تو ہے جو مجھے اہمیت دے رہا ہے۔ یوں میری زندگی میں بہار آ گئی، اور میرے وجود کا ہر ذرّہ خوشی میں ڈوب گیا۔ دن ہواؤں کے دوش پر بادلوں کی مانند اڑنے لگے۔ اب وقت اور تنہائی مجھے ستاتے نہیں تھے۔ کوئی کچھ بھی کہتا، برا نہ لگتا۔ برا کیوں لگتا؟ مجھے تو کچھ سنائی ہی نہ دیتا تھا، ایک ریحان کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔پھر اچانک میری زندگی میں طوفان آ گیا۔ امی کی پھپھو میرا رشتہ لے آئیں اپنے گنجے اور توند نکلے ہوئے بیٹے کے لیے۔ عمر بھی خاصی تھی، مگر وہ خوب کماتا تھا، اور یہی بات ماں کو بہت بھائی۔ میں نے اس کی شکل دیکھتے ہی انکار کر دیا، خوب روئی، چیخی چلائی، مگر کسی نے میری ایک نہ سنی۔ دھوم دھام سے منگنی بھی کر دی گئی۔میری سہیلی زاہدہ بھی آئی، جو میرے اور ریحان کے راز سے واقف تھی۔ اس نے مجھے سمجھایا، شور مچانا ٹھیک نہیں، جو کرنا ہے خاموشی سے کرو۔ منگنی ہوئی ہے، نکاح نہیں۔ وقت ہے، تم اور ریحان منصوبہ بناؤ، میں تمہارے ساتھ ہوں۔یہ بات میری سمجھ میں آ گئی۔ میں نے بظاہر چپ سادھ لی۔
رات کے بارہ بجے، جب سب گھر والے اپنے کمروں میں سوجاتے، تو کڑکتی سردی کی راتوں میں ہم چھت پر ملا کرتے۔ ریحان، زاہدہ کی چھت پر ہوتا اور میں اپنی۔ درمیان میں دیوار تھی، جو کمر تک آتی تھی۔ جب کسی کے آنے کا شک گزرتا تو ریحان فرش پر لیٹ کر سوتا بن جاتا۔ شکر ہے کبھی کسی نے ہمیں چھت پر باتیں کرتے نہ دیکھا۔میں دبے پاؤں اوپر آتی تھی۔ ہمارا پیار ہر آلودگی سے پاک تھا۔ ہم اچھی باتیں کرتے، مستقبل کی پلاننگ کرتے۔ زاہدہ کبھی کبھار ہماری پیامبر بن جاتی، مگر وہ اکثر ہمارے گھر نہیں آتی تھی۔میری منگنی کی خبر جب ریحان کو ملی تو وہ بہت پریشان ہوا اور رونے لگا۔ اس کے رونے سے مجھے ایک عجیب سکون ملا۔ لگا کہ اس دنیا میں کوئی تو ہے جو میری پروا کرتا ہے، جو میرے لیے رو سکتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے، ہماری محبت کا یہ ننھا سا پودا ایک تناور درخت بن گیا۔ یہ خیال کہ کوئی میری جدائی کے تصور سے بے قرار ہے، بہت حسین تھا۔اب تو آنکھیں تب تک جلتی رہتیں جب تک اس کا دیدار نہ کر لیتیں۔ میں نے ریحان کو ایسے خواب دکھائے کہ وہ سب کچھ بھول گیا، میری منگنی بھی۔ وہ میرے ارمانوں کی منزل بن چکا تھا۔ میں نے اسے بتا دیا تھا:ریحان، میں تمہیں ہمیشہ کے لیے پانا چاہتی ہوں۔ زمانہ چھوڑ سکتی ہوں، دنیا چھوڑ سکتی ہوں، مگر تمہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔جب میری شادی کی تاریخ رکھی گئی تو میں نے اُسے آگاہ کر دیا کہ چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ اگر اب بھی ہم نے کوئی قدم نہ اُٹھایا تو پھر کبھی نہ مل پائیں گے۔ یوں ہم نے ایک منصوبہ بنا لیا۔ چار دن بعد مجھے ریلوے اسٹیشن جا کر کسی بھی زنانہ ڈبے میں سوار ہونا تھا۔ اسی ٹرین کے کسی مردانہ ڈبے میں وہ بھی سوار ہونے والا تھا، اور پھر اگلے اسٹیشن پر اُتر کر ہم نے شہر جانے والی گاڑی میں بیٹھنا تھا۔ہم ایک ساتھ گھر سے روانہ نہیں ہو سکتے تھے۔ ایک ہی ڈبے میں سوار ہونا بھی خطرے سے خالی نہ تھا، کیونکہ پکڑے جانے کا خدشہ تھا۔ میں نے تھوڑی سی نقدی لی اور کوئی اور سامان ساتھ نہ لیا۔ برقعہ اوڑھے، دھڑکتے دل کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پہنچی۔ شکر ہے، کسی نے مجھے پہچانا نہیں۔ ویٹنگ روم میں جا کر وہ دوسرا برقعہ پہن لیا جو زاہدہ نے دیا تھا، اور اس ڈبے میں سوار ہو گئی جو ویٹنگ روم کے سامنے تھا۔میں نے ٹکٹ بھی نہیں لیا تھا، کیونکہ ریحان نے کہا تھا کہ جب ٹکٹ چیکر آئے گا تو وہ اسی وقت ملتان تک کا ٹکٹ بنوا دے گا۔ تین گھنٹے بعد ٹرین ملتان پہنچ گئی۔ اسٹیشن پر اُترتے ہی میں لیڈیز ویٹنگ روم میں چلی گئی۔ ریحان نے مجھے وہیں بیٹھنے کو کہا تھا کہ وہ خود آ کر مجھے دیکھے گا اور پھر ہم لاہور جانے والی ٹرین میں بیٹھیں گے۔صبح دس بجے ٹرین میں بیٹھی تھی اور ایک بجے ملتان کے ویٹنگ روم میں آ بیٹھی۔ میری نظریں دروازے پر لگی تھیں۔ سوچ رہی تھی کہ جیسے ہی رش کم ہو گا، ریحان آ کر مجھے دیکھ لے گا، مگر ایسا نہ ہوا۔ شام ہو گئی، انتظار کرتے کرتے آنکھیں پتھرا گئیں، مگر وہ بزدل نہ آیا۔شاید کسی خوف نے عین وقت پر اُس کے قدم روک لیے۔ رات ہوتے ہی نگران عورت نے مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ میں گھبرا گئی، اور تب ایک پولیس والا آ گیا۔ اُس کا نام ارشد تھا، اور وہ ریلوے پولیس کا انسپکٹر تھا۔ اُس نے نرمی سے بات کی اور کہا کوئی بات نہیں، لگتا ہے تمہارے ساتھ کسی نے دھوکہ کیا ہے۔ میں تمہیں تمہارے گھر پہنچا دوں گا۔ویٹنگ روم میں موجود عورتیں میرے گرد جمع ہو گئیں۔ کوئی کہہ رہی تھی، یہ تو بھاگی ہوئی لڑکی ہے۔ خدا ایسے لڑکیوں کو غارت کرے۔ ان کی جلی کٹی باتیں سن کر میرا دل لرز گیا۔ میں رونے لگی۔ پولیس والے کے ساتھ چلی گئی کیونکہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔مگر اُس رات اُس نے میری عصمت کو پامال کیا۔ صبح مجھے واپس ویٹنگ روم میں چھوڑ گیا اور کہا کہ تمہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے دارالامان بھیج دیا جائے گا۔اب تو کچھ بھی باقی نہ تھا۔ میں چپ چاپ ایک طرف لیٹی رہی۔ وہ عورت جو پہلے نگران تھی، خاموشی سے مجھے گھورتی رہی۔ دل میں خواہش تھی کہ کاش ریحان آ جائے، مگر وہ نہ آیا۔ شام کو پھر وہی انسپکٹر آ گیا اور مجھے پھر لے گیا۔اب تو جیسے میرے آنسو بھی خشک ہو چکے تھے۔ میں کچھ نہ کہہ سکتی تھی۔ تب ایک اور عورت میرے پاس آئی۔ اُس نے نرمی سے پوچھا، بیٹی، کیا بات ہے؟ میں رو پڑی، اور نگران عورت نے فوراً کہہ دیا، یہ لڑکی گھر سے بھاگی ہوئی ہے، اور پولیس والا روز اسے رات اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔تب وہ عورت بولی کہ وہ ایک صحافی ہے۔ اُس نے فوراً ریلوے کے بڑے افسر سے بات کی، اور پھر مجھے دارالامان بھجوانے کا بندوبست کیا گیا۔ کچھ دن بعد میرے والدین کو اطلاع دی گئی۔ وہ مجھ کو لینے آئے۔ حیرت کی بات تھی کہ انہوں نے مجھے کچھ نہ کہا، بس خاموش رہے۔ ماں نے تنہائی میں دو چار لعنتیں ضرور سنائیں، مگر مارا پیٹا نہیں۔ شاید صحافی خاتون کا ڈر تھا۔چند ہی دنوں میں میری شادی کر دی گئی۔ میں روتی ہوئی شوہر کے گھر آ گئی۔ شوہر اچھے انسان تھے، انہوں نے کبھی مجھ پر شک نہیں کیا۔ مجھے سکون اور تحفظ دیا۔ وہ آج تک نہیں جانتے کہ میں ریحان کی محبت سے لے کر ارشد کی درندگی تک کتنے کرب سے گزری ہوں۔
آج میں نو عمر لڑکیوں سے یہی کہوں گی کہ اپنی عقل پر بالکل بھروسہ مت کرنا اور نہ ہی کسی غیر کی چاہت پر اعتبار کرنا۔ ماؤں کو بھی چاہیے کہ بچیوں کے جذبات کو سمجھیں۔ ان کو غیر شائستہ الفاظ میں نہ سمجھائیں، کیونکہ یہ عمر کا وہ دور ہے جس میں لڑکی غلط قدم اٹھالے تو برباد ہو جاتی ہے۔