اس مہنگائی کے دور میں جس شخص پر چھ بیٹیوں کا بوجھ ہو، اس کی کیا حالت ہو گی اور اب تو بیٹیوں کے بوجھ سے زیادہ مہنگائی نے ان کی کمر جھکادی اور حالات کی کا یا اس طرح پلٹی کہ گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ والد صاحب بہت پریشان رہنے لگے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اکیلے دس افراد خانہ کا پیٹ کس طرح پالیں۔ جب فاقوں تک نوبت آگئی تو والد صاحب نے اپنے بچوں کو بانٹ دیا۔ دو اپنے پاس رکھ لئے، باقی اپنی بہنوں اور بھائی کے گھر تقسیم کر دیئے کہ جب تک حالات نہ سنبھلیں یہ تو پیٹ بھر کھانے کو نہ ترسیں۔ والد صاحب کے حالات نہ سنبھل سکے۔ پھوپھیاں اور ہمارے چچا ان کو زکوۃ کی رقم دینے لگے ، یوں والد کے حالات میں کچھ عرصہ تنگی کم ہو جاتی تھی، تب ہم بھی پھر سے اپنے گھر رہنے آجاتے تھے۔ میں سب سے بڑی تھی۔ جب والد بچے بانٹ رہے تھے ، بڑی پھوپی نے مجھ کو منتخب کر لیا کہ میں گھر کا کام کاج اچھی طرح کر سکتی تھی۔ پھپھو کا بیٹا اسد میری عزت کرتا تھا، میر اخیال رکھتا اور مجھے کوئی کام نہیں کہتا تھا۔ وہ کہتا کہ مناہل تم پہلے ہی ہمارے گھر کا بہت سا کام کرتی ہو۔ تم تو ہمارے گھر میں مہمان آئی ہو۔ میرا جی چاہتا کہ کہہ دوں، مہمان کہاں ہوں ! پیٹ کا دوزخ بھرنے کے واسطے کسی کے گھر کی چلم بھرنی پڑے تو اس کو مہمان نہیں کہتے مگر میں اسد کو کوئی جواب نہ دیتی اور خاموش ہو جاتی۔ جانتی تھی کہ پھپھو کو میری اسد سے زیادہ بات چیت ناگوار گزرے گی کیونکہ وہ سخت قسم کی عورت تھیں۔ اسد بھائی اپناکاروبار کرتے تھے۔ وہ والدین کے محتاج نہیں تھے۔ ان کی کپڑوں کی دکان تھی ، جہاں ریڈی میڈ گار منٹ ملتے تھے اور ہمارے پھوپھا کا الگ کاروبار تھا۔ غرض یہ کہ اس گھر میں بہت خوشحالی تھی۔ اسد بھائی کی عادت تھی کہ کام سے واپسی پر میرے لئے کوئی نہ کوئی چیز ضرور لاتے تھے اور سب سے چھپا کر مجھے دے دیا کرتے۔ تب میں بہت ڈرتی تھی۔ پھپھو سخت مزاج تھیں، اور میں نہیں چاہتی تھی کہ ان کو مجھ سے کوئی شکایت ہو۔ والد حالات کی سختی اور زمانے کے ستم نہ سہ سکے اور اس دُنیا سے چلے گئے۔ ان دنوں میں پندرہ برس کی تھی۔ دونوں بھائی جو مجھ سے بڑے تھے ، وہ ابھی کمانے کے قابل نہ ہوئے تھے۔ دوسری سب بہنیں بھی ایک دوسرے سے ایک، ایک سال چھوٹی تھیں۔ کئی دن اس کے بعد افسردہ اور اداسی سے گزر گئے۔ میں نے صرف مڈل تک پڑھا تھا۔ اسکول جانا بہت دشوار محسوس ہوتا تھا۔ جب راستوں پر کھڑے آوارہ مزاج لڑکے طرح طرح کی باتیں کرتے تو ادھر سے گزرتے ہوئے میں پسینہ پسینہ ہو جاتی۔ دن پر لگا کر اڑنے لگے ۔ اسد بھائی کے سالے کی شادی آگئی۔ اب ہمارے حالات کافی بہتر ہو گئے تھے۔ بھائی ماشاء اللہ کمانے لگے تھے، لہذا ہم سب بہنوں نے شادی پر پہننے کو اچھے کپڑے بنوالئے۔ ولیمے والے دن جب میں نے گلابی رنگ کا جوڑا پہنا۔ سب نے کہا کہ مناہل تم اس میں جاپانی گڑیا لگ رہی ہو ۔ اسد بھی وہاں تھے ، بولے۔ سب مناہل کی تعریف کرو گے یا کوئی ہماری بھی تعریف کرے گا۔ میں نے کہا۔ اسد بھائی آپ تو نمبر ون لگ رہے ہیں۔ میر ا اتنا کہنا تھا کہ ہماری ساری کزنوں کو سانپ سونگھ گیا۔ بات یہ تھی کہ مجھے اسد بھائی اچھے لگتے تھے کیونکہ بُرے دنوں میں انہوں نے ہمارا ساتھ دیا تھا اور ہمیشہ عزت و نرمی سے پیش آتے تھے، بھی ہم کو غرور سے دھتکارا اور نہ حقارت سے دیکھا۔ جب ولیمہ ختم ہوا اور دلہن کو لے جانے لگے تو اسد بھائی نے مجھے اشارے سے بلایا۔ میں ہجوم سے باہر آگئی اور پوچھا۔ بھائی کیا بات ہے؟ بولے۔ میرے ساتھ ذرا میرے گھر تک چلو، دلہن کے کچھ تحفے رکھے ہیں وہ اٹھا کر لانے ہیں۔ ان کا گھر پرلی گلی میں تھا۔ لہذا میں نے امی سے اجازت لی اور ان کے ساتھ چل دی۔ تبھی ان کی منگیتر ، شہر بانو نے مجھے دیکھا اور حقارت سے منہ پھیر لیا۔ باہر کرسیوں پر بہت سے لڑکے بیٹھے تھے ، ان میں میرے دونوں بھائی بھی تھے۔ ان کو دیکھ کر میری جان نکل گئی۔ اسد تو آگے آگے جارہے تھے ، ڈر سے میں پلٹ کر واپس دُلہن کے گھر گھس گئی۔ ذرا دیر بعد جھانکا تو بھائی چلے گئے تھے تب میں وہاں سے نکل کر بڑی پھپھو کے گھر چلی گئی۔ وہاں اسد میرا انتظار کر رہے تھے ، بولے۔ اتنی دیر کیوں لگادی؟ میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی، میرا دم نکل گیا مگر اسد پُر سکون رہے۔ پھپھو آئی تھیں ، ان کو کسی نے بتادیا تھا کہ مناہل اور اسد گھر گئے ہیں۔ ماں کو دیکھتے ہی وہ دوسرے کمرے میں سامان لینے چلے گئے اور پھپھو مجھ کو عجیب نظروں سے دیکھنے لگیں۔ تبھی میں نے کہا۔ اسد بھائی جلدی کرو، آپ نے دلہن کا سامان پہنچانا ہے۔ دلہن تو چلی جائے گی۔ یہ سُن کر ان کی والدہ پُر سکون ہو گئیں۔ ہم سامان لے کر گلی میں آگئے۔ اسد نے مجھ سے کہا۔ مناہل تم کچھ دن اور رہ جائو۔ کافی دن سے تم ہمارے گھر رہنے نہیں آئیں۔ اسد بھائی، مجبورنہ کر دور نہ پھپھو مجھ پر شک کرنے لگیں گی۔ تبھی انہوں نے سونے کی ایک چین اپنی جیب سے نکال کر میرے گلے میں ڈال دی اور بولے۔ تم اس کو لوٹانا نہیں، یہ میرے اور تمہارے درمیان ایک مقدس بندھن ہے۔ میں نہیں لینا چاہتی تھی، اسد نے قسم دے دی تو خوف سے رکھ لی کہ کہیں چین کی تکرار پر کوئی ہمارا نوٹس نہ لے لے ۔ گھر آکر میں نے اس چین کو چھپادیا۔
چند دن تک سب کچھ بھول کر کاموں میں لگی رہی۔ ایک روز صبح سویرے ناشتے کے بعد میں پُر سکون بیٹھی تھی کہ اسد آگئے۔ حیران ہوئی کہ اتنے سویرے آئے ہیں۔ کہا کہ رشی کو لینے آیا ہوں۔ دراصل ان کی چھوٹی بہن راشدہ جس کو وہ پیار سے رشی بلاتے تھے ، کچھ دن کے لئے ہمارے گھر رہنے کو آئی ہوئی تھی۔ اسد کو موقع مل گیا مجھ سے بات کرنے کا۔ کہا مناہل، تم نے کچھ اپنی آئندہ زندگی بارے سوچا ہے ؟ کس سے شادی کرنا چا ہو گی ؟ جہاں امی کہیں گی۔ میر اجواب تھا۔ یہ کہہ کر میں نے چین نکال کر ان کو دی کہ یہ میں نہیں لے سکتی اور میرا آپ کا جو مقدس بندھن ہے ، آپ کو بھائی کہتی ہوں ، وہی ٹھیک ہے۔ تم آئندہ مجھ کو بھائی مت کہنا۔ کیوں آخر ؟ مناہل دیکھو، تم میرا سکون برباد مت کرو۔ آپ کی منگنی شہر بانو سے ہو چکی ہے ، میراخیال دل سے نکال دیں اور شہر بانو سے شادی کر لیں۔ وہ بھی میری پھوپی کی بیٹی ہے اور آپ کی، بس اسی کے بارے سوچیں۔ ہم سب خاندانی جال میں الجھے ہوئے ہیں اور نہیں نکل سکتے ، نہ ہی میں سارے خاندان سے ٹکر لے سکتی ہوں۔ خدا جانے اس کو کیا سو جھی۔ میرے ہاتھ سے سونے کی چھین لے کر دوبارہ میرے گلے میں ڈال دی۔ کہا کہ وہ بچپن میں میری منگیتر تھی، اب نہیں ہے۔ اب تم میری منگیتر ہو۔ میں اپنی ماں سے خود بات کر لوں گا۔ تمہیں صرف میرا ساتھ دینا ہو گا۔ ڈر سے میں رونے لگی۔ خیر اس نے مجھے منالیا۔ امی اس وقت چھوٹی بہن کو اسکول چھوڑنے گئی ہوئی تھیں۔ بھائی کام پر اور رشی سورہی تھی۔ تبھی اسد کو مجھے اتنا کچھ کہنے کا موقع مل گیا۔ میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ کبھی اسد مجھ سے شادی کا کہے گا، محبت پھر شادی ایسی باتوں کے سوچنے کی گنجائش میری زندگی میں نہیں تھی۔ اب میر اسکون تہہ و بالا ہو گیا۔ اسد نے مجھے کس راہ پر لگا دیا تھا۔ پہلی بار احساس ہوا کہ میں کس حال میں الجھ رہی ہوں۔ سارادن بھوک نہ لگتی تھی، میری حالت عجیب ہونے لگی۔ رات کو بھی چین کی نیند نہ سو پاتی۔ اسد سامنے آتا تو میرارنگ اڑ جاتا۔ خوفزدہ ہو کر اس کا منہ تکنے لگتی۔ تب وہ کہتا، مناہل تم اتنی معصوم ہو کہ تم کو تو محبت کرنے والوں سے بھی ڈر لگتا ہے۔ ایک دن اسد آیا۔ امی سے کہا کہ گھر کے تھوڑے سے کام نمٹانے ہیں ، ماں نے مناہل کو لینے کو مجھے بھیجا ہے۔ اماں نے مجھ کو اس کے ساتھ بھیج دیا۔ پھپھو نے مجھے نیچا دکھانے کے لئے بلایا تھا اور مجھ سے ایک نوکرانی کی طرح خوب کام لے رہی تھیں مگر اسد کی ہمدردی اور تسلی میرے ساتھ تھی۔ وہ کہتا۔ ڈر کرمت رہا کرو، دیکھ لینا ایک دن میں تم کو اپنے گھر میں عزت کا مقام دلا کر رہوں گا اور تم ہی اس گھر کی مالک ہو گی۔ میں تو اپنے مرحوم ابو کی خاطر سب دُکھ سہ رہی تھی۔ پھپھو نے اس وقت مجھے اپنے گھر میں رکھا تھا۔ جب پیٹ کی آگ بجھانے کو غربت سے مجبور ہو کر ابونے اپنے بچے بہن بھائیوں کے گھر تقسیم کئے تھے اور میں بڑی پھپھو کے حصے میں آگئی تھی۔ آج پھپھو مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ تم نے شادی میں گلابی قیمتی جوڑا کیوں سلوایا تھا ؟ تمہارے پاس اتنے روپے کہاں سے آگئے۔ لگتا ہے حرام کی کمائی منہ کو لگ گئی ہے تم لوگوں کے ۔ یہ سنتے ہی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ میں خاموشی سے کام کر رہی تھی۔ اتنے میں اسد کی بہن جہاں آراء آگئی۔ کہنے لگی، مت رو باجی، امی کی تو یونہی بولنے کی عادت ہے۔ وہ بھی اپنے بھائی کی طرح میری ہمدرد تھی۔ میں نے کہا۔ جہاں آرا تم جانتی ہونا کہ میرے بھائی اب کمانے لگے ہیں اور وہ ہمارے لئے کتنی محنت کرتے ہیں۔ ان کی کمائی ، حرام کی نہیں ہے۔ وہ تو اتنی محنت سے کماتے ہیں کہ وقت سے پہلے بوڑھے ہو گئے ہیں۔ میں جانتی ہوں مناہل۔ وہ بولی آپ دل میلا نہ کریں مگر مجھ سے رونا ضبط نہ ہورہا تھا۔ شام کو اسد دُکان سے آیا تومیری آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ سمجھ گیا کہ کوئی بات ہوئی ہے۔ کہنے لگا، لگتا ہے آج اتنا روئی ہو کہ تمہارے آنسو ہی ختم ہو گئے ہیں، تبھی جہاں آرا نے بھائی کو بتادیا کہ آج امی نے مناہل سے ایسی بات کہی ہے۔ وہ ماں سے کچھ کہنے جانے لگا تو میں نے روک لیا۔ قسم دی کہ پھپھو سے کچھ مت کہنا ورنہ وہ عمر بھر مجھے اس گھر میں برداشت نہ کر سکیں گی۔ اسد نے اپنے چھوٹے بھائی فہد سے کہا کہ مناہل نے جوڑا خریدنا ہے ، کل تم اس کو میری دُکان پر لے آنا۔ یہ اور جگہ سے کیوں خریدے، ہماری دکان سے کیوں نہ خریدے۔ دراصل ان کی والدہ نے مجھے جوڑے کا طعنہ دیا تھا تو وہ اپنی دُکان سے جو ڑا تحفے میں دے کر میری دلجوئی کرنا چاہتے تھے، تبھی جہاں آراء بولی۔ باجی آپ فہد کے ساتھ کل بھائی کی دکان پر چلی جانا۔ میں نے امی سے کہہ دیا ہے کہ مناہل جوڑا خرید نے کو گھر سے پیسے لائی ہے۔ جہاں آراء کے اصرار پر میں فہد کے ساتھ ان کی دُکان پر گئی ، رش تھا۔ اسد نے کہا۔ فہد تم گاہوں کو دیکھو، میں نے مناہل کے لئے جوڑا پچھلی دُکان میں رکھ دیا ہے۔ وہ اس بات کو نہ سمجھ سکا اور گاہکوں کو مال دکھانے لگا۔ اسد مجھ کو دوسری چھوٹی دُکان میں لے آیا جو ان کی بڑی دُکان کے پیچھے تھی۔ وہ مجھ کو گفٹ دکھانے لگا اور اچانک میرا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔ اسی وقت فہد دکان میں آگیا۔ میں گھبراگئی اور اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ دکان سے باہر چلا گیا۔ میں روہانسی ہو گئی۔ اسد نے تسلی دی کہ فہد امی جان سے کچھ نہ کہے گا۔ اگر کہہ بھی دیا، یہ ہمارے حق میں اچھا ہو گا۔ میں چاہتا ہوں کہ امی کو اس بات کا پتا چل جائے تو میں ان کو تم سے شادی کے لئے کہوں۔ اسد مجھے گھر لایا تو تینوں پھوپھیاں اکٹھی تھیں اور فہد بھی موجود تھا۔ سب کو ساتھ دیکھ کر میری جان نکل گئی۔ وہ آپس میں میرے بارے میں باتیں کر رہی تھیں۔ اسد نے مجھ کو دلا سادیا۔ گھبرانامت ، میں نے سلام کیا۔ انہوں نے جواب کیا دینا تھا، سب کی سب مجھ پر برس پڑیں۔ ایسی باتیں سنائیں کہ میرا کھڑا رہنا مشکل ہو گیا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ہم بہن بھائی ان کی زکوۃ پر پل کر جوان ہوئے تھے ، لہذا زبان نہیں کھول سکتے تھے۔ اسد خاموش نہ رہ سکا۔ اس نے ماں اور خالائوں کو خاموش ہو جانے کو کہہ دیا۔ تب شہر بانو کی امی یعنی میری منجھلی پھوپی کہنے لگیں۔ اسد تیرے یہ کر توت تھے تو میری بیٹی سے منگنی کیوں کی تھی۔ اسد نے کہا۔ تب میں نا سمجھ تھا۔ اب وہ میری طرف سے آزاد ہے کیونکہ میرا اس کا مزاج نہیں ملتا لہذا یہ شادی کامیاب نہیں رہے گی۔ تو کیا تم شادی مناہل سے کرو گے ؟ ہاں۔ اسد نے جواب دیا۔ فرض کر و مناہل سے نہ ہو گی تو پھر کیا کرو گے ؟ موت کو گلے لگالوں گا۔ اسد نے ماں کو جواب دیا۔ منجھلی پھوپی کہنے لگیں۔ آج تک تو کسی کو مرتے نہیں دیکھا۔ خالہ وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔ یہ کہہ کر وہ باہر چلا گیا، تبھی فہد سے اس کی ماں نے کہا۔ بیٹا تو ہی اِس بد بخت کو گھر چھوڑ آ اور ہاں ، ایک ایک بات اس کے بھائیوں اور ماں کو بتا کر آنا۔ میں بیٹھی رورہی تھی۔ یہ سُن کر میں نے پھپھو کی منتیں کیں کہ بھائیوں اور امی کو کچھ نہ بتائو ورنہ وہ مجھ کو جینے نہ دیں گے ، مگر وہ تو بہت ہی غضب ناک ہو رہی تھیں۔ اتنے میں اسد لوٹ آیا۔ کہنے لگا، اس کا کیا قصور ہے امی ! اس نے تو مجھے نہیں سکھایا کہ شہر بانو سے شادی نہ کروں۔ سب لوگ گھر میں تھے جب فہد نے میرا بیگ اٹھایا۔ اسد تیزی سے آگے بڑھا اور میر ابیگ اٹھا کر کہا کہ چلو میں تم کو چھوڑ آتا ہوں ، تمہاری حفاظت میرا فرض ہے۔ اسی وقت اس نے جیب سے سونے کی انگوٹھی نکالی اور میری انگلی میں ڈال دی۔ میں اپنے حواسوں میں نہ تھی۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی فہد کو بھی ساتھ لے لیا اور جب ہم گھر تک پہنچے وہ دروازے پر ٹھہر کر بولا۔ مناہل تم گھبرانا نہیں بلکہ گھر جا کر بتا دو کہ میں نے تم سے منگنی کر لی ہے۔ اگر ان کو یقین نہ آئے تو انگوٹھی دکھا دینا۔ میں نے فہد کی منت کی پلیز تم میرے گھر والوں کو کوئی بات نہ کہنا۔ اسد تو جذباتی انسان ہے، تم کو معلوم ہے کہ میرے ساتھ کیا ہو گا، مگر اس نے کہا میں تو سب کہوں گا۔ تم نے کیا سوچ کر انگوٹھی لے لی ہے۔ تمہاری اوقات کیا ہے، تم غریب ہو، تمہارے پاس کون سی جائیداد ہے جس کے لئے اسد بھائی تمہاری خاطر سب سے ٹکر لے رہے ہیں۔ شہر بانو صاحب جائیداد ہے، تمہاری طرح زکوۃ پر نہیں پلی ہے۔ ہم گھر کے اندر گئے۔ تھوڑی دیر میں ہی میرے دونوں بھائی باہر سے آگئے۔ فہد نے ان سے ایسی باتیں کہیں کہ میرے ہوش گم ہو گئے۔ بڑے بھائی طیش میں آگئے۔ مجھے خوب مارا۔ فہد بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ میں نے بہت ضبط کیا، حیران تھی کہ کون سا جرم مجھ سے سرزد ہوا ہے کہ جس کی یہ سزا مل رہی ہے۔ اس کے بعد بھائیوں نے میرا گلا گھونٹنا چاہا، تب فہد اٹھ کر درمیان میں آگیا۔ کہنے لگا۔ میری امی نے کہا تھا، سو میں نے آپ لوگوں کو معاملے سے آگاہ کر دیا، اب مجھے جانے دیں، میرے سامنے اپنی بہن کی جان نہ لیں ورنہ سب کہیں گے کہ فہد نے مناہل کو مروادیا ہے۔ وہ تو چلا گیا۔ بھائیوں نے اتنا مارا کہ میرے چہرے پر داغ پڑ گئے، میر ابراحال ہو گیا۔ رورو کر چار پائی سے لگ گئی، مجھ سے اٹھا نہ جاتا تھا۔ گلا دبانے سے نیل پڑ گئے تھے اور بخار بھی خوب چڑھ گیا۔ فہد نے اسد کو جا کر بتایا۔ وہ فہد کو برا بھلا کہنے لگا۔ اس طرح تو تو میں میں ، میں دونوں بھائیوں میں ہاتھا پائی ہو گئی۔ میرے سامنے اپنی بہن کی جان نہ لیں ورنہ سب کہیں گے کہ فہد نے مناہل کو مروادیا ہے۔ وہ تو چلا گیا۔ بھائیوں نے اتنا مارا کہ میرے چہرے پر داغ پڑ گئے، میر ابراحال ہو گیا۔ رورو کر چار پائی سے لگ گئی، مجھ سے اٹھا نہ جاتا تھا۔ گلا دبانے سے نیل پڑ گئے تھے اور بخار بھی خوب چڑھ گیا۔ فہد نے اسد کو جا کر بتایا۔ وہ فہد کو برا بھلا کہنے لگا۔ اس طرح تو تو میں میں ، میں دونوں بھائیوں میں ہاتھا پائی ہو گئی۔ جہاں آرا ء نے بیچ میں پڑ کر دونوں بھائیوں کو چھڑایا اور وہ اسد کی اور میری طرف داری کرنے لگی ، بولی۔ شہر بانو کو باپ کی دولت کا نخرہ ہے۔ اس کے مزاج دیکھے ہیں۔ اس گھر میں آگئی تو آپ سب کو وہ تگنی کا ناچ نچادے گی۔ اسد بھیا جو کر رہے ہیں صحیح کر رہے ہیں، مناہل اچھی لڑکی ہے اور اس کے گھر میں آجانے سے ہم سب کی بھلائی ہے۔ اب پھپھو گھبر ائیں کہ بیٹی بھی مناہل کی طرف دار ہو گئی ہے۔ انہوں نے میرے دونوں بھائیوں کو گھر بلوالیا۔ بھائی ادھر پہنچے تو اسد ہمارے گھر آ پہنچا۔ اس نے میری حالت دیکھی۔ میں اس قدر مضروب تھی کہ ہل جل نہ سکتی تھی۔ وہ رو دیا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں نے جھٹک دیا اور منہ پھیر لیا۔ میرا یہ حال اس کے کارن ہوا تھا، وہ کہنے لگا۔ مناہل ایسا سلوک مت کرو۔ میں مر جائوں گا۔ میں نے کہا۔ ابھی تو میں مرنے لگی ہوں، تم کیوں آئے ہو۔ میرا پیچھا چھوڑ دو۔ تینوں پھوپھیاں اور فہد خوش تھے۔ وہ جان گئے تھے میں نے اسد کو ٹھکرادیا ہے۔ اب ماں اسد کی جلد از جلد شادی کرنے والی تھی۔ شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ اس نے ماں سے کہا کہ میں ہر گز شہر بانو سے شادی نہ کروں گا۔ نہیں تو کچھ کھالوں گا۔ تم میر اسہرانہ دیکھ سکو گی۔ وہ بولیں۔ تو کھالو، سہرے کی فکر نہ کرو۔ اسد نے واقعی کچھ کھا لیا اور اسپتال پہنچ گیا۔ فہد ہی اُسے اسپتال لے گیا۔ گھر والوں کو اطلاع دی۔ شادی ختم ہو گئی۔ فہد نے ہی ہم کو بھی اطلاع دی۔ یہ خبر سن کر میں ہوش کھو بیٹھی۔ اب تو بس ایک ہی راہ تھی کہ چچا کے پاس فریاد لے کر جائوں۔ میں نے چھوٹی بہن سے چچاکے گھر چلنے کو منت سماجت کی۔ وہ راضی ہو گئی۔ میں نے ان سے منت کی ، رورو کر التجا کی اور ان کو منالیا۔ وہ ہمارے ساتھ آگئے اور پھپھو کے پاس بھی گئے۔ چچا کے بیٹے میر امذاق اڑا رہے تھے کہ واہ محبت ہو تو ایسی ہو۔ میں نے خاموشی سے ان کے طعنوں کو بھی برداشت کیا۔ چونکہ ساتھ چچا آئے تھے ، اس لئے امی کچھ نہ بولیں ورنہ وہ میری جان کھا جاتیں۔ بھائی ابھی پھپھو کے گھر سے نہیں لوٹے تھے ، وہاں جانے کیسا جھگڑا چل رہا تھا۔ خاندانی فیصلہ یہ ہوا کہ اسد کو جائیداد سے عاق کر دینا چاہئے ۔ ساری پھوپھیوں کی یہی صلاح تھی تا کہ اس کا دماغ ٹھکانے آئے اور مجھ کو بھی سزا ملے۔ میں کیا کرتی، میں نے تو اسے نہیں کہا تھا کہ وہ ایسا کرے۔ میں تو اس کو یہی کہا کرتی تھی کہ تم شہر بانو سے ہی شادی کرو۔ میں امی اور چچا کے ساتھ اسپتال گئی۔ اسد بستر پر دراز تھا۔ وہ بہت کمزور لگ رہا تھا۔ ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھا تو کہا۔ مناہل میں تم کو ایسی بات بتائوں گا کہ جس کو سُن کر تم بھی مجھ سے کنارہ کر لو گی۔ مجھ کو جائیداد سے عاق کر دیا گیا ہے ، اب میں خالی ہاتھ دو کوڑی کا نہیں۔ میرے پاس ایک دُکان کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ دُکان جو میں نے خود اپنی کمائی سے خریدی ہے ، میں نے کہا۔ بس یہی بات ہے۔ بولا۔ ہاں، کیا تم کو حیرانی نہیں ہوئی کہ شہر بانو سے شادی نہ کی تو مجھے جائیداد میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ میں کہنا چاہتی تھی کہ مجھے جائیداد اور دولت کی پروا نہیں، امی اور چچاساتھ تھے ، سو کچھ نہ کہہ سکی۔ اتنا کہا۔ کوئی بات نہیں اسد، غم نہ کرو۔ اللہ تعالی دولت پھر سے دے دے گا۔ اسد کا چہرہ جو زرد ہور ہا تھا وہ د مکنے لگا۔ بولا۔ مناہل میر ا یقین ہے کہ تم شہر بانو جیسی نہیں ہو۔ انہوں نے تو میرے عاق ہو جانے کا سُن کر منگنی کی انگوٹھی بھی واپس بھجوادی ہے۔ میرے ٹھیک ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا۔ آمی اور چچا بھی سن رہے تھے۔ چچانے کہا۔ فکر نہ کر و۔ تمہارے پاس اپنی ایک دُکان تو ہے نا! پھر کیا غم، مرد اپنی محنت سے دوبارہ جائیداد بنالیا کرتے ہیں۔ دل چھوٹا نہ کرو۔ اس پر اسد گویا ہوا۔ ماموں میں ٹھیک ہو کر آپ کے پاس رہوں گا۔ کیوں نہیں میں خود تم کو اسپتال سے گھر لے جائوں گا۔ چچا اس کو اسپتال سے اپنے گھر لے گئے۔ پھر وہ وہیں دولہا بنا۔ بڑی مشکلوں سے وہ دن آیا۔ شادی والے دن چچا، اسد کی ماں کو منا کر لائے ، وہ گھڑی بھر کو آئیں اور نکاح کے بعد چلی گئیں۔ سب نے کہا۔ چلو ان کا اتنا آنا غنیمت جانو ، بعد میں مان جائیں گی۔ اسد نے میرا گھونگٹ اٹھا کر کہا تھا۔ مناہل، اب تک تو تم نے سہ لیا مگر اب کوئی ظلم تم پر نہ ہونے دوں گا۔ اسد کی محبت کتنی مضبوط تھی۔ اس نے میری خاطر جائیداد، گھر بار سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ مجھے کو اس پر ناز تھا۔ میرا دل اس دن خوشی سے معمور تھا۔ پھر ہم نے اپنا گھر بنالیا، چھوٹا سا خوبصورت۔ میں نے بھی دل سے اسد کو چاہا۔لاکھ اوپر سے منع کرتی رہی مگر آخر دم تک اس کا ساتھ نہ چھوڑا ۔ چچا شفیق اور مہربان ہوئے، وہ ساتھ نہ دیتے تو ہم کبھی ایک نہ ہو سکتے تھے۔ خاندان میں کوئی ایک فرد ضر ور ایسا ہوتا ہے جو ساتھ دیتا ہے۔ سوچچاکے ہمراہ ہو جانے سے اللہ نے خوشیاں انعام کر دیں۔ آج میں خود کو دنیا کی خوش نصیب عورت سمجھتی ہوں جس کو اتنا وفادار محبت کرنے والا جیون ساتھی ملا ہے۔