السلام علیکم آپی!
وعلیکم السلام کیسی ہو عریبیہ جیتی رہو خوش رہو گھر میں سب خیریت ہے۔ میاں بچے سب کیسے ہیں ۔ ہاں آپی! سب خیریت ہے۔ بھائی آئے تھے آج اچھا، نوید بھائی آئے تھے۔ ہاں یہیں قریب ، دکان کے کام سے آئے تھے بس تھوڑی دیر ہی بیٹھے جلدی میں تھے۔ دوسوٹ دے کر گئے ہیں کہہ رہے تھے ایک تمہارا ہے اور ایک حمیرا کا ہے، رمضان میں سلوا کر پہن لینا تمہاری بھابھی کل ہی لائی تھیں۔آپی! میں تو اتنا خوش ہوئی بھائی کا شکریہ ادا کیا لیکن ابھی کپڑوں کی تھیلی کھولی تو دل جل کر کباب ہو گیا۔ کیوں؟ بھئی ایسا کیا ہو گیا جو تم نے دل پرلے لیا۔ آپی خود تو بھا بھی ہمیشہ ایک سے ایک کپڑے پہنتی ہیں۔ برانڈز کے اور میرا اور تمہارا سوٹ اتنا عام سا ہے۔ بس رنگ کا فرق ہے پرنٹ ایک ہی ہے۔ لگتا ہے جمعہ بازار سے لیا ہے کپڑا بھی کچھ خاص نہیں ہے۔ اتنا دل برا ہو رہاے کہ دل چاہ رہا ہے کہ بھابھی کو فون کر کےخوب سناؤں کہ خود ایسا پہنتی ہیں جو ہمیں یہ دیا ہے۔ عربیبہ! یہ غلطی نہ کرنا بھائی سے بنا کر رکھنی ہے تو بھا بھی ہے نہ بگاڑو۔یہ خوب کہی تم نے، ہاں، غلطی ہے، غلطی ہی کرو گی۔ دروازے کھلے رکھو۔کیا مطلب آیا؟ارے، آج ایسا ہے، کل اچھا بھی دیں گی۔ یہ تو میکے کا مان ہوتا ہے، آج ایسا دیا ہے، کل اچھا بھی دے گا۔اس مہنگائی کے دور میں بھائی، بھاوج نے ہمارا خیال کیا، ہمارے بارے میں سوچا، کیا یہ بہت بڑی بات نہیں ہے؟ پہنچا کر بھی گیا ہے۔آپی! سوٹ دینے کا خیال آ ہی گیا تھا تو اچھا دے دیتے۔کیسی باتیں کر رہی ہو، عریبہ! رشتے چیزوں کی کوالٹی سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔خوشی سے رکھو اور بھابھی کو فون کر کے شکریہ ادا کرو۔ بھابھی کو ہلکا سا بھی شبہ نہ ہو کہ تمہیں ان کا دیا ہوا سوٹ پسند نہیں آیا۔ابھی اول تو نہیں چاہ رہا، لیکن تم کہہ رہی ہو تو کر لوں گی۔ہاں ضرور کرنا، اور میں بھی فون کروں گی بھابھی کو۔حمیرا نے خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔
☆☆☆
رمضان سے پہلے حمیرا نے اپنا اور عریبہ، دونوں کا سوٹ درزی سے سلوایا۔ عریبہ تو بالکل تیار نہ تھی۔آپی! بیکار سلائی جائے گی، تمہیں تو پتا ہے، میں اتنے بڑے بڑے پرنٹ نہیں پہنتی۔بس بھائی کے ہاں روزہ کھولنے جائیں گے تو دونوں بہنیں یہی سوٹ پہن کر جائیں گی۔بعد میں بھلے نہ پہننا، کہہ دیا ہے میں نے، اب کچھ نہ سنوں! حمیرا نے ڈانٹ کر چھوٹی بہن کو خاموش کروا دیا۔
☆☆☆
بھائی نے روزہ کھولنے کو بلایا تو عریبہ اور حمیرا کو اپنے سوٹ پہنے دیکھ کر بھاوج نے مسکرا کر کہا، تم لوگوں نے سلو ا کر پہن بھی لیے؟ارے بھابھی! آج ہی نئے پہن کر آپ کے گھر آئے ہیں۔ رمضان کا جمعہ بھی تھا، تو بس نماز بھی پڑھی نئے سوٹ میں۔حمیرا نے چہک کر جواب دیا۔میری دیورانی تو کہہ رہی تھی کہ، حمیرا بھابھی، آپ تو اتنے ڈارک کلر نہیں پہنتیں۔ میں نے تو کہہ دیا، میرےبھائی، بھاوج نے دیا ہے یہ، کلر تھا بھی نہیں میرے پاس۔عریبہ حمیرا اور بھاوج کی باتیں سن رہی تھی اور دل میں سوچ رہی تھی، آپی بھی ناں، اتنی بڑھا چڑھا کر تعریفیں کر رہی ہیں۔ اتنا بے کار سوٹ ہے، میں تو اپنا سوٹ ماسی کو دے دوں گی۔حمیرا کے گھورنے اور کہنی مارنے پر عریبہ نے بھی ہلکی پھلکی تعریف کر ہی دی سوٹ کی۔
☆☆☆
ہفتے، مہینے، سال تو ایسے گزرنے لگے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا۔شعبان کی آخری تاریخیں چل رہی تھیں، رمضان کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ فون کی بیل ہوئی تو حمیرا نے فون اٹھایا۔ دیکھا تو عریبہ کی کال تھی۔السلام علیکم! وعلیکم السلام! خیریت؟ صبح صبح؟ ہاں آپی! بھائی آئے تھے آج کہہ رہے تھے شام میں دونوں بہنیں چکر لگا لو اور اپنے سوٹ بھی پسند ہے لے جاؤ تمہاری بھابھی نے لے کر رکھے ہیں۔میرا تو آپی! بالکل دل نہیں چاہ رہا۔ بھا بھی نے پچھلے سال کی طرح بے کا رسوٹ ہی لیے ہوں گے۔ تم چلی جانا اور لے آنا ۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں ! جیسا بھی سوٹ ہو بھائی بھاوج محبت سے دے رہے ہیں۔ یہی بہت ہے اور دونوں ساتھ جائیں ، تیار رہنا شام میں ۔ دونوں بہنیں چائے کے وقت پہنچیں گھر پر تھے۔ دوڑ کر سموسے اور جلیبیاں لے آئے بھاوج نے گرم گرم چائے بنائی ۔ چائے ، سموسے جلیبیاں خوب پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔ تینوں بہن بھائی نہیں بول رہے تھے۔حمیرا بول پڑی۔بھائی کتنے عرصے بعد ایسے بیٹھے ہیں۔ کاش وقت تھم جائے۔ ارے ! ان لوگوں کو سوٹ تو دکھاؤ۔ بھائی نے بھابھی کو مخاطب کیا۔ ہاں ابھی لائی کہہ کر بھا بھی کمرے میں چلی گئیں۔۔واپس آئیں تو ساتھ بڑا سا تھیلا تھا جس ڈھیر سارے سوٹ تھے ، پیکنگ کے ساتھ تھے سب برانڈ کے تھے ، بھابھی نے چار پائی پر الٹ دیے۔عربیبہ تو دیکھ کر حیرت سے دنگ رہ گئی -بھا بھی کی بتانے لگیں ۔ محلے میں ایک عورت کپڑے بیچتی ہے۔ کل آئی تھی تو تمہارے بھائی نے کہا، کپڑے چھوڑ جاؤ میری بہنیں پسند کر لیں پھرلےجانا ۔میں نے بھی اسی میں سے ایک سوٹ دیا ہے _پچھلے سال شہلا کے بھائی، شہلا کو سوٹ دے کر گئے تو میں نے شہلا کو اتنا خوش دیکھا۔ تو سوچا بہنوں کو بھائی کے تحفے کی کتنی خوشی ہوتی ہے۔ مجھے بھی اپنی بہنوں کو سوٹ دینے چاہئیں۔ پچھلے سال دکان کا کام بہت ہلکا چلا تو شہلا جتنے پیسے میں نے دیے تھے، قریبی مارکیٹ سے ہی تم دونوں کے سوٹ لے آئی تھی۔ اچھے تو نہیں تھے مگر تم دونوں کی خوشی دیکھ کر پچھلے سال ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ اس سال بہت اچھے سوٹ دوں گا۔ تم لوگ سلوا کر پہین کر بھی آئیں تو میرا دل بہت بڑا ہوا کہ میرے تحفے کی میری بہنوں کو اتنی قدر ہے۔ اچھے برانڈ کا سوٹ دوں تا کہ تم لوگ بھی کسی کو فخر سے بتا تو سکو کہ بھائی نے دیا ہے۔ اس سال نیت کی تو اللہ نے اسباب بھی بنائے دکان کا کام بھی اچھا چلا۔عریبہ تو رونے لگی۔ حمیرا کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ بھائی نے دونوں بہنوں کے سر پر ہاتھ رکھا اور دونوں بہنوں کے دل کا غبار آنسوؤں کے ساتھ بہہ گیا۔ دل صاف ہوئے تو دونوں بہنوں نے دل کی گہرائیوں سے بھائی کی لمبی عمر، میکے کا مان قائم رہنے اور روزی میں برکت کی ڈھیر ساری دعا دیں۔اتنی ساری دعائیں سن کر بھائی، بھاوج دونوں طمانیت سے مسکرا دیے۔دونوں بہنوں نے سوٹ پسند کیے بہت اچھے سوٹ تھے ، بھابھی نے بھی اپنا سوٹ دکھایا۔ جو انہوں نے پسند کیا تھا۔ دونوں بہنیں خوش خوش خدا حافظ کہہ کر گھر کی طرف روانہ ہوئیں۔راستے میں عربیبہ کہنے لگی۔ آپی ٹھیک کہتی ھیں ، دروازے کھلے رکھنے چاہئیں اگر پچھلے سال میں جذباتی ہو کر کچھ کہہ دیتی تو بھائی اور بھابھی کا دل کتنا برا ہوتا-
☆☆☆