راحیلہ میری گہری دوست تھی۔ ہم نے اکٹھے کالج اور اسکول میں پڑھا۔ وہ بڑی نازک اور خوبصورت تھی۔ اچھے گھرانے سے تھی۔ چار بہن بھائی تھے۔ سبھی بہت مہذب ، با اخلاق اور محبت کرنے والے لیکن راحیلہ ان میں انمول تھی۔ ہر کسی کے دکھ سکھ میں ساتھ نباہتی تھی۔ غریبوں کی ہمدرد، کسی کے ساتھ فرق نہیں کرتی تھی۔ کسی سے ناراض بھی ہوتی تو تھوڑی دیر کے لئے پھر اسے فوراً معاف کر دیتی تھی۔ ہم فلسفے کی طالب علم تھیں۔ وہ بہت ذہین طالبہ تھی۔ فلسفے میں اول نمبر رہتی۔ اس کو خدا نے سوچنے سمجھنے کی زبردست صلاحیت عطا کی تھی۔ جو بات کوئی گھنٹوں میں سمجھ پاتا وہ منٹوں میں سمجھ لیتی تھی اسی وجہ سے گھر میں مذا قا لوگ اس کو ” سیانی“ کہتے تھے۔ کچھ لوگ اللہ نے ایسے بنائے ہوتے ہیں جو ہر پہلو سے خوش نما ہوتے ہیں۔ صورت، سیرت، کردار، اخلاق، سوجھ بوجھ ، سمجھ ، غرض کیا تعریف کروں جو اسے دیکھتا تھا اس پر مر مٹتا تھا۔ اکثر میں راحیلہ سے کہتی تھی کہ تم پڑھ لکھ کر جج بنو گی کیونکہ تم میں لوگوں کو جج کرنے کی بڑی صلاحیت ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ انسان کی تقدیر میں کیا لکھا ہے۔ ہم سوچتے کچھ ہیں، ہوتا کچھ اور ہے. وہی لڑکی جس کے بارے میں سب کہتے تھے کہ بہت ذہین ہے، بہت سمجھدار ہے ، بڑے اچھے دماغ کی مالک ہے اور صحیح فیصلہ کرنے کی خداداد صلاحیت رکھتی ہے جب اس نے اپنی زندگی کے بارے میں سب سے اہم فیصلہ کیا تو لوگ حیران و ششدر رہ گئے۔ میں اکثر راحیلہ سے کہتی کہ تم خوش قسمت ہو کہ لوگ تم سے پیار کرتے ہیں۔ تم ٹھیک کہتی ہو ، لوگ مجھے پسند کرتے ہیں مگر مجھے ابھی تک کوئی اچھا نہیں لگا جس کو میں دل سے اور شدت سے چاہوں۔
وہ اپنی دنیا میں مگن تھی۔ مثبت سوچوں کے ساتھ جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ خوش باش رہتی تھی۔ کوئی کیا سوچتا ہے اس کے بارے میں ، اس کی وہ کبھی پروانہ کرتی تھی۔ راحیلہ کی امی اس سے بہت محبت کرتی تھیں۔ اچھے سے اچھا رشتہ ٹھکرا دیتیں۔ اعلیٰ سے اعلیٰ خاندانوں سے اس کے لئے رشتے آئے۔ خاندان کے پڑھے لکھ ، اعلیٰ معیار اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لڑکوں نے خواہش کی کہ وہ راحیلہ سے شادی کریں مگر وہ بضد تھی کہ ابھی کسی کے بارے میں سوچنے کی گنجائش نہیں تھی۔ لڑکیاں دولت پر مرتی ہیں۔ بے شک آج کل کے دور میں دولت ایک ضروری شے ہے۔ لیکن صرف دولت ہی تو سب کچھ نہیں ہوتی۔ اسے ماں باپ نے گھر میں اتنی آسائش، محبت اور سہولتیں دے رکھی تھیں کہ اسے کیا خبر کہ باہر کی دنیا کیسی ہے۔ کتنے مکر و فریب سے بھری ہوئی ہے۔ وہ بی اے کر چکی تھی اور گھر میں بور ہونے کی وجہ سے اکثر میرے گھر آجاتی تھی۔ پھر اچانک وہ ہوا جس کا کوئی تصور نہیں کر سکتا۔ راحیلہ ان دنوں ایک ادارے میں انگریزی بول چال سیکھنے جارہی تھی کہ وہاں اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہو گئی جو چرب زبانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ وہ لڑکی جو کہتی تھی کہ کوئی میرے دل کو نہیں بھاتا چاہے کتنا خو بصورت اور دولت مند کیوں نہ ہو۔ اس نے ایسا فیصلہ کر لیا کہ میں حیران رہ گئی۔ اس نے اپنی عمر سے کئی گنا بڑے شخص کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا جو پہلے سے شادی شدہ اور کئی بچوں کا باپ تھا اور بڑی بات یہ کہ بدصورت بھی تھا۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ کہاں راحیلہ ایک نرم و نازک پھولوں ایسی حسین شہزادی اور کہاں وہ دیو ہیکل کالا بھوت سا آدمی۔ جس نے بھی سنا دانتوں تلے انگلی دبا کر رہ گیا۔ سب نے سمجھایا کہ کچھ خدا کا خوف کرو. لوگ کیا کہیں گے .. عمروں کا اتنا فرق ہے۔ پھر وہ شادی شدہ ہے، تم کو رشتوں کی کیا کمی ہے۔ معلوم نہیں راحیلہ کو کیا ہو گیا تھا۔ جس کی خاطر لوگ جان دینے کو تیار تھے۔ دنیا کی ہر شے نثار کرنے کو تیار تھے مگر وہ کہتی تھی کہ اسد میں جو بات ہے وہ کسی میں نہیں اور میں صورت کی نہیں فراست کی شیدائی ہوں، مجھے ان سے پیار ہو گیا ہے، میں انہی سے شادی کروں گی چاہے کچھ ہو جائے۔ ماں باپ سمجھا کر ہار گئے۔ آخر بیٹی کی خوشی کی خاطر اس کی شادی اسد صاحب سے کر دی۔ جانے اس مکار نے کیسے اسے شیشے میں اتارا، نہیں معلوم۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ یہ اس کا جذباتی فیصلہ ہے شاید اسد نے کسی جادو گر سے اس پر جاد و کرایا کہ اس کو کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ آخر کار شادی ہو گئی۔ واقعی میری دوست نے اس کو ٹوٹ کر چاہا۔ وہ تھی اور بس گھر کی چار دیواری تھی۔ میں حیران تھی کہ کیا یہ وہی راحیلہ ہے۔ کتنا خوش نصیب انسان ہے کہ اسے راحیلہ جیسی بیوی ملی۔ بیوی بھی وہ جو خوبصورت اور اچھے گھرانے اور اچھے کردار کی… جب بھی آتی گھر والوں سے ملنے تو مجھ سے ضرور ملتی۔ کہتی تھی۔ کرن ، سب اچھا ہے۔ پھر دبی زبان سے کہتی۔ مگر میرے سسرال کے لوگ کوئی خاص اچھے نہیں ہیں۔ کبھی کبھی شوہر بھی ان جیسا لگتا ہے۔ جتنی چاہو ان لوگوں کی خدمت کرو مگر یہ بے حس لوگ ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے پہلے بچوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتی تھی۔ جوان بچے تھے مگر راحیلہ نے کبھی محسوس نہیں کیا مگر وہ لوگ عجیب و غریب سوچ کے مالک تھے۔ راحیلہ سے حسد کرتے تھے۔ یہ جتنا بھی ان کا خیال رکھتی وہ مزید دور ہوتے جاتے۔ اس وجہ سے راحیلہ بہت پریشان رہنے لگی۔
اب پتا چلا کہ شادی شدہ مرد کبھی اپنا نہیں ہو سکتا۔ اس کی زندگی بٹی ہوئی ہوتی ہے۔ پہلی بیوی اور اس کے بچے اس کی زندگی میں ایک بہت بڑی حقیقت ہوتے ہیں اور جو لڑکیاں جانتے بوجھتے کسی شادی شدہ مرد کا انتخاب کر لیتی ہیں ان کو پھر اس قسم کے حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ انہی دنوں وہ امید سے ہو گئی۔ سوکن کو بڑی بہن کہہ کر گھر میں آئی تھی لہٰذا آپا کا درجہ تو دینا تھا۔ آپا سارا دن پلنگ پر بیٹھی رہتی تھی اور یہ اس کی خدمت گزاری میں جتی رہتی۔ یہ سوچ کر کہ ایک عورت کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے تو اب اس کی عزت اور خدمت کرنی ضروری ہے تاکہ وہ راضی رہے۔ ہر کام کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب بات حد سے بڑھ جائے پھر کچھ نہیں ہو سکتا پھر یہی ہو سکتا ہے کہ دو برتنوں کا ٹکرائو ہو اور شور ہنگامہ ساری دنیا سن لے ، اس میں بھی عزت کا گھاٹا ہوتا ہے کہ گھر کی بات گھر میں رہنی چاہئے ، منہ سے نکلی ہوا میں اڑی، کوٹھوں چڑھی۔ راحیلہ جس خاندان سے تعلق رکھتی تھی وہاں شر ، فساد ، اونچا بولنا، نوک جھونک … ایسی باتیں سخت ناپسند کی جاتی تھیں۔ ایسی باتوں کی وہ عادی بھی نہیں تھی۔ وہ چپ چاپ سوکن کی زیادتیاں برداشت کرتی رہی یہاں تک کہ بیمار پڑ گئی۔ اس کی طبیعت خراب تھی، چکر آتے، الٹیاں ہوتی مگر سوکن رعایت نہ کرتی۔ نوکر کے ہوتے کہتی کہ تم مجھے پکا کر دو، تمہارے ہاتھ کا سالن مجھے پسند ہے ، چائے تم بنا کر لائو ، نو کر کو چائے بنانے کا کیا ڈھنگ۔ غرض اس سے باندیوں کی طرح سلوک کرتی۔ آخر کار یہ دبائو اتنا بڑھا کہ پھر اس کا نازک وجود یہ بار نہ سہہ سکا اور وہ بار آور ہونے سے پہلے ہی بے ثمر ہو گئی۔ مستقبل کی خوبصورت امید جو اس کے پہلو میں پرورش پارہی تھی اس نے قبل از وقت دم توڑ دیا۔راحیلہ کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا جہاں وہ پندرہ دن رہی اور جب گھر آئی تو کسی نے اس کے ساتھ ہمدردی کا ایک بول نہ بولا کہ وہ اتنے دن بیمار رہی ہے ، اب کیسی ہے۔ اس کی تیمار داری کی بجائے ان لوگوں نے یہ کیا کہ پھر سے اس کو کام پر جوت دیا۔ راحیلہ اس سلوک پر بہت دلبر داشتہ تھی۔ شوہر سے امید تھی کہ دلجوئی کرے گا۔ قبل از وقت کو کھ کے خالی ہو جانے کا دکھ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسوئوں کو پیار کے دو بول کہہ کر سمیٹ لے گا۔ دکھ کم ہو جائے گا مگر شریک حیات ہی جب چکنی مٹی کا بنا ہو تو پھر کسی اور سے کیا شکایت۔ اب وہ میکے جا کر رہنا چاہتی تھی تاکہ چند دن آرام کر سکے ۔ اسد نے اس کی بھی اجازت نہ دی۔ کہا کہ ہمارے یہاں بیوی جب ایک بار شوہر کے گھر رخصت ہو کر آجاتی ہے تو مڑ کر میکے کی طرف نہیں دیکھتی۔
راحیلہ اپنا دکھ درد میرے سواکسی سے نہ کہتی تھی۔ والدین کو اس لئے بھی نہ بتاتی تھی کہ انہوں نے تو پہلے ہی منع کیا تھا۔ ایک بیوی بچوں والے شخص سے شادی سے روکا تھا۔ ایک انہوں نے کیا خاندان کے ہر فرد نے ، رشتہ داروں نے، خود میں نے ہاتھ جوڑے تھے کہ بڑی غلطی کر رہی ہو ، باز آجائو .. لیکن ہم لڑکیوں کی بس یہی ایک کمزوری ہے کہ عقل کی بجائے دل سے سوچتی ہیں اور اپنے بزرگوں کا کہا نہیں سنتیں۔ بعد میں کس قیامت سے گزرنا پڑے گا،اس کا ادراک نہیں رکھتیں۔ میں نے ان دنوں بھی اسے کہا کہ تم شوہر سے ہمدردی کی توقع مت رکھو یا پھر والدین کو اپنے حالات سے آگاہ کرو ورنہ تمہاری سوکن کبھی تم کو ماں کے مقدس رتبے سے سرفراز ہونا نہ دیکھ سکے گی۔ یہ ایسے ہی تم پر عرصہ حیات تنگ رکھے گی۔ شوہر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے ، وہ کب تمہاری طرفداری کر سکتا ہے ، اس میں بیوی اور اپنے جواں سال بچوں سے مقابلے کی ہمت نہیں ہے۔ پہلی بیوی کا کنبہ کافی بڑا اور بار سوخ تھا۔ اسد اس وجہ سے بھی دیتے تھے جب کہ ادھر راحیلہ کے والدین شرافت کی وجہ سے کبھی اس کے گھر کی طرف کا رخ بھی نہ کرتے تھے۔ کوئی بات کرنا تو کجا وہ بے چارے تو بس عاجزی سے سر جھکائے رکھتے تھے تاکہ ان کی بیٹی کا گھر بسار ہے۔ جانے گھر بسنا کس کو کہتے ہیں اور یہ کیسے بستا ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس کے لغوی معنی کیا ہیں اور حقیقی معنی کیا ہیں۔ راحیلہ جس کو گھر کی آبادی کہتی تھی میری نظر میں تو وہ عورت کی بربادی تھی۔ بہر حال ان ساری باتوں کا تعلق انسان کے دل کی آبادی سے ہوتا ہے۔ میں سوچتی تھی ممکن ہے اسی طرح اس کا دل آباد ہو کیونکہ دل کے معاملات سب سے جدا ہوتے ہیں۔
میں راحیلہ کے گھر گئی۔ وہ نقاہت سے زرد پڑی ہوئی تھی۔ پھر بھی سوکن کے کپڑے استری کر رہی تھی۔ میں نے اس کو کہا۔ تم کمزوری سے ادھ موئی ہو رہی ہو ، فی الحال یہ کام ان کو خود کرنے دو اور تم اپنے کمرے میں جا کر لیٹ جائو۔ جو شے تم کو چاہئے نوکر کو آواز دے کر کمرے میں منگوالو۔ تمہارا بھی تو یہاں برابر کا حق ہے۔ کہنے لگی۔ نہیں کرن اس طرح تو مسائل پیدا ہوں گے اور میں نہیں چاہتی کہ مسائل پیدا ہوں۔ جب اسد سے میری شادی ہوئی تھی میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ میں ان کے گھر کے سکون کو تہس نہس کرنے کا باعث نہیں بنوں گی بلکہ ہر فرد کو آرام و سکون پہنچانے کی کوشش کروں گی۔ میں ان کو بھی پریشان نہیں کروں گی تاکہ وہ سکون سے کام کر سکیں۔ راحیلہ کا فلسفہ عجیب و غریب تھا۔ اپنی ذات کے حقوق وہ بھلا چکی تھی بس فرائض ادا کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ یہ سوچے بغیر کہ میں جو اتنا ان کو سکون دینے کی کوشش کر رہی ہوں ، اس کے بدلے میں یہ لوگ مجھے کیا دے رہے ہیں ، اس کی اس قسم کی سوچ بھی نہیں تھی۔ اس کی بس مثبت قسم کی سوچ تھی۔ کہتی تھی مجھے اللہ تعالی اولاد بھی دے دے گا، بس مجھے اپنے شوہر کی بھر پور چاہت چاہئے۔ آہستہ آہستہ … وقت کے ساتھ ساتھ شوہر بھی اوقات سے باہر آنے لگا۔ اپنے خاندان کی طرح ان کا بھی طور طریقہ ظاہر ہونے لگا۔ پہلے بد تمیزی سے بات نہیں کرتے تھے ، گالی گلوچ نہیں کرتے تھے پھر یہ بھی کرنے لگے۔ وہ بہت حیران ہوتی کہ کرن ! میں اتنی اچھی ہوں اور کتنی اچھی ان لوگوں کے ساتھ رہوں لیکن یہ عجیب لوگ ہیں، مجھ کو صرف اس لئے ذلیل کر رہے ہیں تا کہ خود ذلیل ہوں۔ تب میں اس کو سمجھاتی کہ ایسی بات نہیں ہے۔ تم نے اسد سے شادی کی ہے اور ان کی دوسری بیوی بنی ہو۔ یہ تمہاری ایسی خطا ہے جس کو یہ لوگ کسی طور پر معاف کرنے پر تیار نہیں ہیں چاہے تم ان کو تخت پر بٹھا کر ان کے پیر دھود دھو دھو کر کیوں نہ پیو، یہ تم کو دل سے قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ ایسا خیال دل سے نکال دو اور اپنے شوہر کو جتلائو کہ وہ تمہارے آرام و سکون کا بھی پورا پورا خیال کریں۔ راحیلہ بہت زیادہ سوچنے والی لڑکی تھی۔ وہ ہر بات پر ، ہر معمولی سے معمولی تکرار پر غور و فکر کرتی تھی اور دل کی اتنی اچھی تھی کہ پھر قصور اپنا ہی نکال لیتی تھی۔ وہ بہت کم شوہر سے شکوہ کرتی پھر بھی اسد اس کو بات بات پر ذلیل کرنے لگا۔ وہ اس کو مارتا اور اہانت کرتا کہ تم ایسی تھیں۔ تم کو کیا میرے بیوی بچے نظر نہیں آرہے تھے۔ تم ویسی تھیں … اگر اتنا ہی اپنا خسارہ نظر آرہا تھا تو کیوں کی تھی مجھ سے شادی …؟ وہ حیران ہوتی کہ یہاں تو چت بھی میری پٹ بھی میری والا معاملہ ہے۔ کبھی وہ کہتا کہ تمہارے ماں باپ بے حس ہیں، تم کو گائے سمجھ کر ہانک دیا ہے اب ان کو فکر ہی نہیں ہے کہ کوئی ہماری بیٹی سے کیا سلوک کرے، وہ مداخلت تک نہیں کرتے جیسے مر گئے ہوں اور کبھی کہتا تمہارے رشتہ دار ذرا مداخلت تو کر کے دیکھیں۔ غرض کبھی کبھی کچھ کہتا اور کبھی کچھ … اور وہ خاموش ہو جاتی۔
دل میں اب وہ سخت پریشان رہنے لگی تھی کہ جس کو اپنا سب کچھ جانا اس کا حال دیکھو۔ یہ خود کیا ہے اور باتیں کیسی کرتا ہے۔ اب جب بھی آتی راحیلہ اداس ہی ہوتی۔ روتی اور کہتی کہ کرن میں کیا کروں۔ میرے ماں باپ، بھائی بہن گھر والے کوئی بھی مداخلت نہیں کرتے اور نہ میں چاہتی ہوں کہ وہ میری خاطر یہاں آکر کوئی بات کہیں اور معاملات خراب ہوں۔ میں نہیں چاہتی کہ کسی کو دکھ پہنچے کیونکہ یہ شخص میری پسند تھا۔ وہ بوڑھے شوہر کو خدا جانے کیوں اتنا پسند کرتی تھی۔ یہ نہ سوچا کہ میری عمر، میری خوبصورتی، میری عزت کی بھی کوئی قدر و قیمت ہے ، مگر بڑے کہتے ہیں کہ جب انسان کا مقدر خراب ہو تو وہ ایسی ہی فاش غلطیاں کرتا ہے۔ وہی راحیلہ کے ساتھ ہوا۔ اب وہ اکثر مجھے فون کرتی۔ کرن مجھے اعتراف ہے کہ میں نے بہت برا اور غلط فیصلہ کیا تھا۔ اس ادھورے انسان سے شادی کرنے کا بغیر لالچ کے محض یہ سوچ کر کہ اس کا ذہن، اس کی سوچ خوبصورت ہے۔ مجھے کیا خبر کہ ان خوبصورت باتوں اور سوچوں کے اندر کتنی بد صورتی چھپی ہوئی ہے۔ میں نے ہر چیز قبول کی اس کی مگر اب کوئی بات برداشت نہیں ہوتی کیونکہ انسان ایک نا قابل اعتبار شے ہے، مجھ کو اس کی کسی بات پر اعتبار نہیں رہا۔ میں نے جو وعدے شادی سے پہلے اس کے ساتھ کئے تھے وہ نباہے مگر اس نے اپنا ایک بھی عہد نہ نبھایا۔ اب بھی میں ہی ان کے ساتھ نباہ کرنے میں لگی ہوں لیکن ان لوگوں کو اس بات کی قطعی پر وا نہیں ہے کہ میں ان کے ساتھ رہوں یا چلی جائوں۔ میں اپنی دوست کے لئے بہت پریشان تھی۔ اتنی قابل اور لائق لڑکی بالکل گم ہو گئی تھی۔ میں کہتی تھی راحیلہ ایسے کنبے کو اب چھوڑ دو جو تمہاری اچھائیوں اور صلاحیتوں کو کھا رہے ہیں۔ اسد تمہارے قابل نہیں ہے مگر وہ کہتی۔ کرن ایسا میں نے کبھی نہیں سوچا۔ مانا کہ اپنی زندگی کے فیصلے سے بہت پریشان ہوں مگر میں نے سب کچھ خدا پر چھوڑ دیاہے۔
بے شک اپنی بیوی بچے سبھی کو عزیز ہوتے ہیں مگر میں بھی تو بیوی ہوں۔ کب تک ، آخر کار … راحیلہ اپنے شوہر سے دماغی طور پر دور ہوتی گئی۔ وہ کم ظرف یہ سمجھتا تھا کہ یہ مجبور و بے بس عورت ہے اور اب کبھی کہیں نہیں جاسکتی جب کہ وہ شرافت کی وجہ سے یہ دن دیکھ رہی تھی۔ ہے اس نے بہت کوشش کی کہ یہ شخص میرا شوہر ہمیشہ میر اوفادار رہے۔ چاہت کے ساتھ میرے ہمراہ زندگی گزارے مگر بد نصیب یہ نہ سمجھ سکی کہ زندگی میں ایک دو بار ہی اللہ تعالی کسی کو اچھا ساتھ یا خوبصورت موقع دیتا ہے، بار بار نہیں…. آخر کار وہی ہوا جو راحیلہ نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ ایک روز اس نے مجھ سے کہا کہ کرن میں اب اس انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ مجھے اس سے نفرت ہو گئی ہے۔ اس نے میری چاہت، میری وفا، میری قربانی کو مٹی کر دیا ہے۔ پھر اس نے ایک بیگ میں چند کپڑے اٹھائے اور اپنی ایک دوست کے گھر چلی گئی جو وکیل تھی۔ پھر اس کی زندگی میں نیا موڑ آگیا۔ اس کی دوست وکیل کا بھائی ایک بہت بڑا بزنس مین تھا۔ بہت خوبصورت ، وجیہ آدمی تھا۔ دنیا کے کئی بڑے ملکوں میں اس کا کاروبار پھیلا ہوا تھا جب اس کو راحیلہ کے سارے حالات کا علم ہوا اس نے شادی کی پیشکش کر دی۔ یوں وکیل دوست کی مدد سے راحیلہ نے اسد سے خلع کی درخواست دائر کر دی۔ اب اسد کو ہوش آیا کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ اس نے بھی عدالت سے رجوع کیا لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔ وہ جو کچھ کرتا رہا تھا، اس کا احساس اب ہوا تو راحیلہ کے بہن بھائیوں کے قدموں پر جا گرا کہ مجھ کو معافی دلوادیں۔ میں اتنی وفادار اور خوبصورت بیوی کی قدر نہ کر سکا۔ اس نے ہر طرح سے یقین دہانی کرائی کہ آئندہ ایسا کبھی نہیں ہو گا مگر راحیلہ نے کہا۔ اب وقت گزر گیا۔عدالت سے خلع کی ڈگری راحیلہ کے حق میں ہو گئی اور پھر اس نے ارب پتی شخص سے شادی کر لی۔ وہ اس کو لے کر باہر چلا گیا اور اسے سونے میں تول دیا۔ اس نے اس قدر محبت راحیلہ کو دی کہ وہ پچھلے سارے غم بھول گئی۔ دولت کی کمی نہ تھی۔ لاکھوں ایک دن میں خرچ کر دیتی تھی۔ خدا نے سن لی، اس نے اپنا علاج کرایا، دو خوبصورت بیٹے جڑواں ہو گئے۔ آج وہ دنیا میں خوش اور مگن ہے۔ اسد کو بھول کر بھی یاد نہیں کرنا چاہتی جب کہ وہ اس کی یاد میں روتے تھے ، سسکیاں بھرتے تھے۔ آخر ان پر فالج کا حملہ ہوا، وہ بستر پر پڑ گئے۔ بیوی بچے ان کو بے وفائی کی سزا دینے لگے۔ ان کو پوچھتے تک نہ تھے کہ کہاں پڑے ہو ، کس حال میں ہو ۔ اب کہتے تھے کہ اگر راحیلہ ساتھ ہوتی وہ خدمت کرتی۔ اس حالت میں پاکر وہ ایسا کبھی نہ کرتی کیونکہ طبیعتاً وہ ایک شریف عورت تھی۔ سچ ہے دکھ میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا، بد نصیب ہوتے ہیں جو اچھے رشتوں کی قدر نہیں کرتے