زندگی میں حالت کو بدلتے دیر نہیں لگتی لیکن جب اپنے یوں دھوکہ دیں تو ہر شےسے جی اچاٹ ہو جاتا ہے – رشتوں کی سچائی جہاں زندگی کو رنگین بنا دیتی ہے ویسے ہی آپس کی غلط فہمیاں رشتوں میں زہر گھول دیتی ہیں- ان دنوں میری خالہ زاد بہن سعدیہ کے حالات ٹھیک نہ تھے ، تبھی وہ میری باجی کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے ہمارے گھر آیا کرتی تھی۔ جس کا لج میں سعدیہ پڑھتی تھی ، اس کے قریب ہی ایک اور کالج تھاجہاں میں پڑھنے جایا کرتی تھی۔ ہم دونوں بھی کالج کے رستے میں مل جاتے تو ساتھ ہی گھر آ جاتے۔ ایک روز میں کالج سے گھر لوٹ رہی تھی کہ راستے میں سعدیہ جاتی نظر آئی لیکن وہ اکیلی نہ تھی، میری تائی کے بھائی شہروز اس کے ساتھ تھے۔ میں ان دونوں کو اکٹھے جاتے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس کے بعد اکثر ہی میں نے یہ نظارہ دیکھا۔ جو نہی چھٹی کے بعد کالج سے نکل گھر کے رستے ہوتی ، مجھے سعدیہ ، شہروز کے ساتھ جاتی دکھائی دے جاتی۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ یہ دونوں ایک ساتھ ہی ہمارے گھر آ جاتے۔ دونوں ہی رشتہ دار تھے ، ہمارے بھی اور آپس میں بھی ، تو کسی نے اس معاملے کو ہوا نہ دی حالانکہ سبھی کو معلوم تھا کہ یہ دونوں اکثر باہر ملتے ہیں۔ ہم سب گھر والے یہی سمجھتے تھے کہ غالب دونوں ایک دوسرے سے شادی کر نا چاہتے ہیں تبھی ملتے ہیں۔ ان ملاقاتوں کی نوعیت ہمیں معلوم نہیں تھی مگر شہروز کبھی سعدیہ کے گھر نہیں گئے تھے جب کہ وہ تائی سے ملنے ہمارے گھر آتے رہتے تھے ۔ سب سے باتیں کرتے ، ہنسی مذاق کرتے لیکن میں ان سے بات نہیں کرتی تھی۔ وہ خود مخاطب ہوتے تو بات کر لیتی۔ ایک روز وہ سعدیہ کے بارے کہنے لگے کہ مجھے اس بچاری کے حالات پر افسوس ہوتا ہے ۔ جب سے اس کے والد فوت ہوۓ ہیں ان کی گزر بسر بہت مشکل سے ہوتی ہے ۔ تب میں نے پوچھ ہی لیا کہ کیا آپ سعدیہ کو پسند کرتے ہیں۔ کہا… بالکل نہیں۔ یہ تم نے کیسے سوچ لیا۔ ہمدردی ہو نا اور بات ہے اور پسند کر تا الگ بات ہے ۔ سچ کہوں تو میں تمہیں پسند کرتاہوں۔ اگر اجازت دو تو تمہارے والدین سے تم کو مانگ لوں۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ شرما کر ان کے پاس سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ شہروز نے اس ادا کو میری رضامندی سمجھا اور رشتے کے لئے میرے والدین سے بات کر لی۔ ابو نے نیم رضامندی کا اظہار کیا،
گو یا زبانی بات چیت طے ہوگئی ۔ کچھ دنوں بعد تائی کی کوشش سے میری منگنی شہروز سے ہوگئی ۔ یوں ہم دونوں بھی کبھی کبھار باہر ملنے لگے۔ میں کالج سے چھٹی کے بعد تھوڑ اسا وقت اس کے ساتھ باہر گزار نے لگی ۔ یو نہی سال بیت گیا۔ جب شہروز ملتے ، کہتے کو شش کر رہا ہوں کہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائوں تو تم کو بیاہ کر گھر لے جائوں اور دنیا کی ہر خوشی تمہارے قدموں میں ڈھیر کردوں۔ منگنی کے بعد میں بھی شہروز کو پسند کرنے لگی تھی۔ بلاشبہ وہ باوقار اور پر اعتماد شخصیت کے مالک تھے ۔ وہ اپنی بات کے پکے اور قول کے سچے تھے ،اور ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ میں انہی خوبیوں کی وجہ سے شہروز پر نازاں تھی۔ ان کے فائنل امتحان ختم ہو چکے تھے ، لہذا وہ اپنے گھر والوں سے ملنے چلے گئے اور دو ماہ بعد لوٹے۔ شہروز جب واپس آۓ تو میرے گھر والوں اور میرے لئے بہت سے تحفے لائے لیکن سعدیہ کے لئے کوئی تحفہ نہ لائے۔ اس روز وہ ہمارے گھر بیٹھی بچوں کو ٹیوشن پڑھارہی تھی ۔اس نے شہروز سے ہم کلام ہوناچاہامگر انہوں نے اسے کوئی لفٹ نہ دی، مذاق کر نا چاہاتو کبھی شہروز نے اس کو روکھے پن سے نظر انداز کر دیا اور تمام وقت اس کے ساتھ کوئی بات نہ کی۔ اب وہ روز آنے لگے۔ مجھ سے باتیں کرتے ، سعدیہ موجود ہوتی تو اس سے ہم کلام نہ ہوتے ، تب مجھے ان کا یہ روکھا پن بڑا عجیب لگتا۔ اکثر کالج سے واپسی پر سعدیہ مجھ کو شہروز کے ساتھ جاتے ہوۓ دیکھتی۔ تب اس کا منہ اتر جاتا، چہرہ دھواں دھواں ہو جاتا۔ آخر کار رقابت نے اس کے اندر ایسی آگ کو جنم دیا کہ وہ اس میں خود ہی جل جل کر راکھ ہونے لگی۔ وہ خاموش تھی مگر اس کے اندر خطر ناک قسم کی رقابت پل رہی تھی۔ اس نے میری بڑی بہن سے دوستی کر لی اور ان کے قریب ہوگئی ۔ باجی بے حد ساد ولوح خاتون اور دوسروں کی باتوں میں بھی جلد آ جاتی تھیں۔ ہمارے گھر بچوں پڑھانے کے بہانے تو وہ روز ہی آیا کرتی تھی۔ اب وہ زیادہ تر باجی کے پاس بیٹھی نظر آنے لگی۔ بتاتی چلوں کہ میرے والد اور باجی کےسسر آپس میں سگے بھائی تھے۔ یوں ان کا گھر ہمارے گھر کے ساتھ ہی تھا۔ جب باجی کی شادی ہوئی تو ابو نے بیچ کی دیوار بھی نکلوادی تا کہ بیٹی اور اس کے بچے آنکھوں کے سامنے رہیں۔ جب میں دیر تک سعدیہ کو باجی سے باتیں کرتے دیکھتی تو میری سمجھ میں نہ آتا کہ وہ ان سے کون سے ایسے حال احوال کرتی ہیں کہ ان کی باتیں ختم نہیں ہو تیں۔ سعدیہ دراصل میری اور شہروز کی منگنی سے اتنی زخم خوردہ ہو گئی تھی کہ وہ جھوٹی جھوٹی باتیں کر کے باجی کو شہروز کے خلاف کر رہی تھی۔اس نے ان کو بتایا کہ شہروز عرصہ تک اسے محبت کا جھانسا دیتا رہا اور پھر اس کی عزت کو تارتار کر کے منہ پھیر لیا ہے۔ اس نے میری بہن کو یہ بھی بتادیا کہ میں کالج سے چھٹی کے بعد اپنے منگیتر سے ملتی ہوں۔ خیر یہ بات تو صحیح تھی لیکن پہلی والی بات صحیح نہ تھی بلکہ اس نے شہروز پر سراسر بہتان لگا یا تھا۔ یہ بات مجھے بعد میں شہروز نے بتائی تھی۔
رفتہ رفتہ باجی شہروز سے بد ظن ہونے لگیں۔ وہ اسے ایک غلط آدمی سمجھنے لگیں اور سعدیہ کی باتوں پر یقین کر کے اس کو مظلوم اور شہروز کو ظالم سمجھ بیٹھیں۔ وہ اب مجھے اپنے منگیتر سے ملنے سے منع کر تیں۔ میں نے تبھی شہروز سے ملنا کم کر دیا۔ خیر یہ بات تو ٹھیک تھی لیکن میری بہن اصرار کرتی کہ تم شہروز سے بالکل ہٹ جائو ،اس سے نہ ملو، بات بھی مت کرو، وہ بات کرے تو بے رخی اختیار کر لو۔ جہاں تک رہ گئی شادی کی بات ، تو اگر ہو ناہو گی ہو جاۓ گی۔ دراصل باجی فیرز کو ایک برا انسان سمجھ کر میرارشتہ اس سے ختم کرانے کا سوچ رہی تھیں۔ تاہم کھلم کھلا مخالفت تائی کی وجہ سے نہیں کر پارہی تھیں کیونکہ وہ ان کی ساس تھیں۔ باتی اندر ہی اند ر میرا ٹینٹوا د باتیں کہ شہروز سے نہ ملوور نہ میں ابو سے کہ کہ تم کو کالج سے نکلوادوں گی اور تعلیم تو میں کسی طور چھوڑنا نہ چاہتی تھی لہذا مجبوراً میں نے شہروز سے ملنا اور بات کرنا بالکل ترک کر دیا کیونکہ سعدیہ سائے کی طرح طرح ہم دونوں کے پیچھے لگی تھی۔ یہ میری اور شہروز کی خواہش تھی کہ میں خوب پڑھوں ۔اب میں نے شہروز سے رو کھار و یہ اختیار کر لیا کیونکہ یہ میرافائنل ایئر تھا۔ سمجھی میں کوئی اڑ چن نہ چاہتی تھی کہ سعدیہ کی سازش کا شکار ہو کر امتحان دینے سے رہ جائوں۔ شہروز کو ان سب باتوں کا کچھ علم نہ تھا تبھی وہ کافی پریشان رہنے لگے تھے۔ باجی نے امی کو سعدیہ کی کہی باتیں بتائیں تو وہ بھی شہروز سے بد ظن ہو گئیں۔ ان کا خیال تھا پہلے اچھی طرح اس کے اور سعدیہ کے گزرے مراسم بارے چھان بین کر لی جائے پھر منگنی کو پکا سمجھا جائے۔امی نے مجھ سے کہا۔ شہروز نے ماضی میں سعدیہ سے چکر چلایا تھا۔ بہتر ہو گا کہ تم اس سے شادی سے انکار کرد و تا کہ ہم تمہاری تائی کے سامنے برے نہ بنیں ورنہ ان سے تعلقات خراب ہو جائیں گے ۔ یہ بات میں نے شہروز سے کہی۔ وہ بہت پر یشان ہو گیا۔ باجی نے بھی کئی بار مجھ سے یہی بات کہی لیکن میں چپ رہی ، انکار کیا نہ اقرار ۔ میں ابو کی جانب دیکھ رہی تھی کیو نکہ عورتوں نے باتیں ان کے کانوں میں بھی پہنچادی تھیں ، لیکن وہ تحمل سے کام لے رہے تھے ، کہا کہ ممکن ہے سعدیہ ، شہروز پر الزام لگارہی ہو۔ ان کو ایسا ہی لگ رہا تھا۔۔ وہ ایک جہاں دیدہ آدمی تھے۔ جلد بازی میں منگنی توڑنے کا اعلان کر کے بھائی بھابی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ گھر کاماحول ایسا ہو گیا کہ مجھے خوف آنے لگا۔ کہیں امی یا باجی شہروز کی بے عزتی نہ کر دیں۔ ایک روز جب وہ ہمارے گھر آۓ تو میں نے موقع پاکر ان سے کہا کہ آپ یہاں مت آیا کر میں۔ کہنے لگے ۔ باہر نہیں ملتی ہو۔ گھر اس لئے آتا ہوں کہ یہاں مل لوں تم سے بات کر لوں۔ میں نے التجا کی مجھ سے نہ ملا کریں۔ ہماری منگنی تو ہو چکی ہے۔ اگر قسمت میں شادی ہوئی تو مل ہی جائیں گے ۔ وہ افسردہ ہو گئے۔ مجھ سے نہ ملنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے کوئی وجہ نہ بتائی ، بس یہی کہا کہ آپ مجھ سے نہ ملا کر میں۔اس کے بعد بھی وہ گھر آۓ، میں نہ ملتی بلکہ ان کو دیکھتے ہی پڑوس میں چلی جاتی ۔ سب سے زیادہ مجھے اپنی باجی کا خوف تھا جنہوں نے دھمکی دی تھی اگر تمہیں میں نے شہروز سے بات کرتے دیکھ لیا تو کالج سے نکلوادوں گی۔ میں تو باجی کے خوف سے ایسا کر رہی تھی اور شہروز سمجھ رہے تھے کہ میں ان سے نفرت کرنے لگی ہوں۔ جب کسی کی منگیتر اس طرح کارویہ اختیار کر لے تو وہ آدمی کیا کچھ سوچنے پر مجبور نہ ہو گا اور یہاں تو ساری زندگی کا سوال تھا۔ شہروز مجھ سے صرف ایک بار بات کرنے اور غلط فہمی دور کرنے کی خاطر کالج کے تمام رستے میرے پیچھے آۓ لیکن میں بات نہ کرتی شاید میں بھی ان کو سعدیہ کا پرانا عاشق ، پھر اس کا گنہگار اور مجرم سمجھ رہی تھی۔ میرے دل میں بھی اس شک کی بناپر دراڑ آگئی تھی کہ وہ میری خالہ زاد بہن کی عزت کے قاتل ہیں۔ان سے بات نہ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ میری اس حرکت سے تنگ آکر خود ہی مجھ سے ملنے نہ آئیں گے ۔ میں سکون سے سالانہ امتحان دے لوں گی اور بعد میں جو قسمت میں ہو گا، دیکھی جاۓ گی۔ بے قرار شہروز کو مگر کب چین تھا۔ ایک روز کالج سے نکلتے ہوئے انہوں نے رستے میں مجھ کو گھیر ہی لیا۔ کہا کہ ایک بار میری بات سن لو … چاہے پھر عمر بھر بات نہ کرنا۔ تبھی میں تھہر گئی۔اس وجہ سے بھی کہ کہیں لوگ ہماری طرف متوجہ نہ ہو جائیں۔ شہروز نے کہا۔ آج وجہ بتادو کہ تم کیوں مجھ سے بے رخی برت رہی ہو ۔ چاہے پھر منگنی توڑ لینا۔ میں نے ان سے سوال کیا۔ کیا آپ ماضی میں سعدیہ کو چاہتے تھے ؟ بہن کی خوشیوں کو منتشر نہ کروں گی تا کہ آپ یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟ کیا تم واقعی سمجھتی ہو کہ میں نے تمہاری خالہ زاد کو دھوکا دیا ہے ؟ ہاں… ایساہی سمجھتی ہوں۔ آپ نے اس کی عزت خراب کی ہے تو اب آپ کو اسے اپنانا ہی ہو گا۔ میرے ذہن میں بس یہی الجھن ہے اور یہی میرے گھر والوں کے ذہن میں بھی ہے۔ میرے گناہ کا کوئی ثبوت ہے ؟ شہروز نے کہا۔ آپ کے گناہ کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، اسی لئے تو سب خاموش ہیں۔ شہروز حیرت میں تھے جیسے سکتہ ہو گیا ہو۔ تھوڑی دیر چپ رہے، پھر کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ جب تک دوانہ لے لوں تم مجھے اس وقت تنہا چھوڑ کر مت جانا۔ اچھا ٹھیک ہے آپ دوالے لیں۔ میں یہیں ہوں۔ سامنے میڈیکل اسٹور تھا۔ یہ ان کے بھائی کی دکان تھی۔ وہ جلدی سے جا کر دوا لے آۓ اور دکان سے نکلتے ہی ٹیکسی لے لی۔ ٹیکسی میں بیٹھ کر آئے۔ بولے ۔ ٹیکسی میں بیٹھ جائو میں دواپی لوں ، اس کے بعد جہاں تم کہو گی اتار دوں گا۔وہ را ستے میں کہتے رہے ، کیا واقعی تم مجھے برا سمجھتی ہو۔ کیا کبھی مجھ سے نہ ملو گی ۔ کیا ہماری منگنی ٹوٹ جاۓ گی اور میں کہتی رہی … ہاں… ہاں نہیں ملوں گی۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ میری اس ہاں ، ہاں سے ان کے دل پر کیا گزر رہی ہے اور اس کا کیا انجام ہونے والا ہے۔ ٹیکسی میرے گھر کی طرف جارہی تھی۔ شہروز بولے ۔ فصیحہ ، میری طبیعت واقعی خراب ہوتی جارہی ہے ۔ دواجو لاۓ ہیں پی لیجیے۔ آپ ٹھیک ہو جائیں گے ۔ آج کے بعد تم واقعی نہ ملو گی ؟ آخری بار پوچھ رہاہوں ۔ نہیں ملوں گی۔ مجبوری ہے۔ میں نے جواب دیا۔ اچھا تو ایک یہ میری آخری خواہش ہے ، اسے پوری کر دو۔ یہ دوا تم مجھے اپنے ہاتھوں سے پلا دو۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے اور ایک جگہ ٹیکسی روک کر میں نے اپنے ہاتھوں سے دوا شہروز کو پلادی۔ دو اپنے کے چند منٹ بعد ہی ان کا چہرہ عجیب ساہو گیا۔ پریشان تھی کہ ان کے منہ سے جھاگ آنا کیوں شروع ہو گیا۔ کیا انہوں نے غلط دوالے لی تھی ؟ میں رونے لگی۔ شہروز آپ کو کیا ہو گیا؟ آپ ٹھیک ہو جائے۔ میں یہ منگنی نہیں توڑوں گی۔ وہ بولے۔ آخری وعدہ کرو۔ جب کچھ دیر بعد میں اس دنیا میں نہ رہوں گا۔ تم کسی کو یہ مت کہنا کہ یہ دوائم نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پائی تھی۔ یہ کہہ کر انہوں نے چلتی ٹیکسی سے دوا کی خالی شیشی سڑک پر پھینک دی، جو کرتے ہی ٹوٹ گئی۔ ٹیکسی والا اچھا انسان تھا۔ اس نے میری مدد کی ، کہا کہ بی بی لگتا ہے انہوں نے خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر نا چاہا ہے ۔ دوا بھی خود لاۓ ہیں۔ بہتر ہے کہ ان کو وقت ضائع کیے بغیر ہم فوراً اسپتال پہنچاد ہیں۔ بروقت طبی امداد ملنے سے ان کی جان بچ جائے گی۔ میں نے بھی اس وقت کوئی دوسری بات نہ سوچی کیونکہ میں ہر حال میں شہروز کو زندہ دیکھنا چاہتی تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور کی مدد سے ان کو ایمر جنسی میں لے گئے مگر بر وقت طبی امداد ملنے کے باوجود ان کی جان نہ بیچ سکی۔ ان کی اپنی جذباتی غلطی سے جان تو گئی لیکن انہوں نے یہ نہ سوچا کہ ان کے بعد ان کی قاتلہ کی حیثیت سے مجھے کتنے کشت سے گزرنا پڑے گا۔ ظاہر ہے اسپتال تو میں ہی ان کو لے کر گئی تھی۔ میرے بیان کے ساتھ ٹیکسی والے کا بھی بیان لیا گیا۔ اس نے من و عن وہی بتایا جو ٹیکسی میں ہماری گفتگو سنی تھی۔ کورٹ کچہری کامرحلہ تو الگ، میرے گھر والوں نے بھی میرے ساتھ حقارت کا برتائو کیا۔ اب تو سعدیہ بھی بہت پشیمان تھی کہ اس نے ناحق شہروز کی جان لی ۔ اس کا ارادہ تو صرف شہروز اور مجھ سے جدائی ڈلوانا تھا۔ جان لینے کا تو اس کا ارادہ نہ تھا۔ اس نے باجی کو رورو کر اصل بات بتادی کہ وہ غربت سے پریشان تھی اور شہروز نے اسے منہ بولی بہن بنایا ہوا تھا کیو نکہ دونوں ایک محلے میں رہتے تھے ۔ شہروز اور اس کے گھر والے سعدیہ کے خراب مالی حالات سے بخوبی واقف تھے تبھی وہان کی مدد کرتے رہتے تھے لیکن کسی کو بتاتے نہ تھے، یعنی اپنی نیکی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے تھے۔ جب شہروز نے مجھے پسند کر لیا تو سعدیہ کے دل میں رقابت کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ وہ اس سے شادی کی خواہاں ہو گئی۔ اس نے شہروز سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو ان کو اس لڑکی یہ بات پسند نہ آئی اور انہوں نے اس کو ڈھٹائی سے جواب دیا، تب وہ بھی ان کی خوشیوں کی دشمن ہو گئی۔ اسپتال سے ہی کیس پولیس کی تحویل میں چلا گیا۔ ٹیکسی ڈرائیور کی گواہی سے بھی میری جان نہ چھوٹی۔ یہ تو بھلا ہو پاکستان کی کرنسی کا جو پولیس والوں کو کتنی بھلی لگتی ہے کہ اصل قاتل بھی چھوٹ جاتے ہیں۔ میں نے تو پھر قتل نہ کیا تھا۔ بہر حال کر نسی نے کام دکھایا اور بات بڑھنے سے قبل ہی پولیس اسٹیشن میں ختم ہو گئی۔ کرنسی نے مجھے سزا اور رسوائی سے تو بچا لیالیکن آج پچاس برس گزر جانے کے بعد بھی یوں لگتا ہے جیسے میں اپنے ضمیر کی جیل میں قید ، پشیمانی کی سلاخوں کے پیچھے قید کی سزا بھگت رہی ہوں۔ اے کاش! میں نے اس کو یہ نہ کہا ہوتا کہ تم سے کبھی نہ ملوں گی۔ اس ایک جملے کی وجہ سے کیا بتائوں کہ اب بھی میرادل ویران ہے ۔ شہروز نے یہ جملے کہنے کی مجھے کتنی کڑی سزادی ہے ۔ عمر ہی اب مجھے عمر قید لگتی ہے ۔ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی جبکہ 67 سال عمر ہونے آئی ہے۔ شادی کی عمر تو نکل چکی لیکن میں آج بھی اس غم سے نہیں نکل سکی جو غم اپنے جذبات کے ہاتھوں خود کو قتل کر کے شہروز میرے دل کے دامن میں ڈال گیا ہے اب تک یہ سوچتی ہوں کہ میں ایک محبت کرنے والے دل کو کرچی کرچی کرکے اس کے قتل کا سبب بن گئی – اگر یوں ڈر کر اپنی بہن کی بات نہ مانی ہوتی اور پہلے دن ہی ابّا جی سے بات کر لیتی تو آج شہروز اور میں ایک ساتھ ہوتے – پر سعدیہ کے جلے دل نے میری زندگی تو اجاڑ ہی دی پر شہروز کو بھی حرام موت مرنے پر مجبور کردیا –