اگلے وقتوں میں ایک خلیفہ تھا جس کی سخاوت اور داد و دہش کے سامنے حاتم کا نام بھی ماند پڑ گیا تھا۔ اطراف واکناف عالم سے لوگ جوق در جوق اس کی خدمت میں آتے اور اس کے بحر سخاوت سے خوب خوب سیراب ہو کر واپس جاتے۔ غرض اس کی جودوسخا کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بج رہا تھا۔ اس خلیفہ کے عہد میں ایک اعرابی بڑی تنگی ترشی سے اپنی زندگی کے دن گزار رہا تھا۔ ایک رات اس اعرابی کی بیوی نے شکایت کی کہ ساری دنیا میں ہم جیسا بد قسمت اور غریب کوئی نہ ہو گا۔ نہ ہمارے پاس کھانے کو روٹی ہے اور نہ پہننے کے لیے ڈھنگ کا کپڑا۔ ہماری غریبی کو دیکھ کر اپنے بیگانے سب حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آخر یہ صورت حال کب تک جاری رہے گی ؟ اعرابی نے کہا کہ اری نیک بخت! زیادہ گزر گئی ہے اور تھوڑی باقی رہ گئی ہے۔ قناعت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔ تو حرص و ہوس میں پھنس کر کیوں اپنا جی میلا کرتی ہے۔ بیوی نے جھلا کر کہا: تو اپنی قناعت کو اپنے پاس ہی رکھ ۔ معلوم نہیں تیری غیرت کو کیا ہوا۔ بے عزتی اور مفلسی کی زندگی کو قناعت کا نام دینا قناعت کے لفظ کا منہ چڑانا ہے۔ اعرابی بیوی کے طعنوں پر بڑا سیخ پا ہوا اور اس نے چیخ کر کہا کہ اپنی بکواس بند کر ورنہ میں گھر بار چھوڑ کر بھاگ جاؤں گا۔ عورت اب رونے لگی اور اس کی منت سماجت اور تعریفیں کرنے لگی۔ یہاں تک کہ خاوند کا دل پسیج گیا اور وہ کہنے لگا کہ تو ہی بتا کہ اس مفلسی سے نجات پانے کی کیا تدبیر کروں؟
بیوی نے کہا: آج کل بغداد کے خلیفہ کی سخاوت کا ساری دنیا میں چرچا ہو رہا ہے۔ اگر تو اس سے مل سکے تو ساری مصیبتوں کے دن کٹ جائیں۔ اعرابی نے کہا کہ مجھ جیسا مسکین بار گاہ شاہی میں کیسے بار پا سکتا ہے ؟ بیوی نے کہا کہ ہمارے مشکیزے میں برساتی پانی بھرا رکھا ہے۔ تو یہی مشکیزہ لے جا اور خلیفہ کی نذر کر ۔ اس کی خدمت میں اس کے سوا اور کچھ عرض نہ کرنا کہ جس بیابان سے میں آرہا ہوں وہاں اس پانی سے بہتر حضور کی نذر کرنے کے قابل کوئی چیز نہ تھی۔ اعرابی نے عورت کی بات مان لی اور پانی کے مشکیزے کو اٹھا کر عازم بغداد ہو گیا۔ ادھر عورت نے مصلے بچھا لیا اور رات دن اپنے شوہر کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی۔ اللہ تعالیٰ نے اعرابی کی دستگیری کی اور وہ مشکیزے کو سینے سے لگائے کئی دن کے پر صعوبت سفر کے بعد صحیح سلامت بغداد پہنچ گیا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ ہر طرف حاجت مندوں کی بھیڑ لگی ہے اور وہ جھولیاں بھر بھر کر بارگاہ شاہی سے نکل رہے ہیں۔ وہ بیچارہ بھی شاہی محل کے دروازے پر جا کر کھڑا ہوگیا۔ شاہی نقیبوں نے اس سے پوچھا کہ اے عرب کے شریف! تو کس جگہ سے ! آیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ اے سردار و! اگر تم مجھے عزت دو تو میں شریف ہوں اور اگر میری طرف پیٹھ پھیر لو تو بے عزت ہوں۔ میں مسافر ہوں، ایک دور افتادہ بیابان سے آرہا ہوں اور یہ مشکیزہ خلیفہ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے لایا ہوں۔ اس میں میٹھا برساتی پانی ہے۔ شاہی نقیبوں نے ہنستے ہوئے یہ مشکیزہ اس سے لے لیا اور خلیفہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ خلیفہ نے نہایت خوش دلی سے یہ تحفہ قبول کر لیا اور حکم دیا کہ اس مشکیزے کو خالی کر کے اس میں اشرفیاں بھر کر اعرابی کو دو۔ اس کے علاوہ اس نے اعرابی کو ایسے انعام واکرام اور خلعتوں سے نوازا کہ وہ اپنے دکھ درد کو بھول گیا۔ جب وہ رخصت ہونے لگا تو خلیفہ نے حکم دیا کہ خشکی کا راستہ بڑا طویل اور کٹھن ہے۔ اس لیے اس کو کشتی پر بٹھا کر دریائی راستے سے اپنے وطن بھیجو۔ نقیبوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور اعرابی اللہ کا شکر ادا کرتا خلیفہ کو دعائیں دیتا اپنے وطن واپس گیا۔