میرے والد ایک نہایت محبت کرنے والے اور شفیق باپ تھے۔ وہ ہمارا بہت خیال رکھتے تھے۔ یوں تو ان میں ساری خوبیاں موجود تھیں، مگر ایک بری عادت ان کی بدنصیبی بن گئی، اور پھر اس بدنصیبی کے اندھیروں نے آگے چل کر ہم سب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ابو جان کو خوشحالی کے زمانے میں نشے کی عادت لگ گئی۔ کچھ اوباش قسم کے دوستوں نے انہیں غلط راستوں پر ڈال دیا۔ ہم جس محلے میں رہتے تھے، وہاں پہلے ان کی بہت عزت تھی، مگر جب وہ رات گئے نشے میں دھت ہو کر گھر آنے لگے تو محلے میں بھی خبر پھیل گئی کہ ممتاز صاحب کس قسم کی صحبت اختیار کرنے لگے ہیں۔اب وہ زیادہ تر آدھی رات کے بعد گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے۔ دیر سے آتے تو صبح دیر تک سوتے رہتے اور کام پر نہ جا پاتے۔ اس طرح ان کے کاروبار کو بھی گھن لگنا شروع ہو گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی بالکل بند ہو کر رہ گیا۔میری والدہ کو یہ صدمہ دیمک کی طرح چاٹ گیا، اور آخر کار ایک دن وہ اسی غم میں سلگ سلگ کر اللہ کو پیاری ہو گئیں۔مشکل وقت میں کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ ہم پر بھی مشکل وقت آن پڑا۔ شاید امی کے نصیب کی وجہ سے ہی خوشحالی تھی، ان کے انتقال کے بعد غربت نے ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لیا۔ ہمارا کوئی بھائی بھی نہ تھا۔ ہم صرف تین بہنیں تھیں، اور ابو جان کو یہ محرومی بھی تھی کہ ان کی کوئی اولادِ نرینہ نہ تھی۔جب امی فوت ہوئیں تو ابو ابھی جوان تھے۔ ان کی عمر ایسی تھی کہ اگر چاہتے تو دوسری شادی کر سکتے تھے، مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔ ایک تو ہماری مالی حالت خراب ہو چکی تھی، دوسرا یہ کہ انہیں ہم تینوں بہنوں سے بہت محبت تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی سوتیلی ماں آ کر ہمیں اپنے ستم کا نشانہ بنائے۔ان دنوں میری عمر چودہ سال تھی۔ میں میٹرک میں پڑھ رہی تھی۔ کوثر مجھ سے دو سال چھوٹی تھی، اور کلثوم، یعنی سب سے چھوٹی بہن، ابھی صرف دس سال کی تھی۔مجھ پر بڑی ذمہ داری آن پڑی—گھر کا کام کاج اور ابو کی دلجوئی، کیونکہ وہ بہت پریشان رہنے لگے تھے۔ انہیں ہماری بھی فکر تھی، اور کاروباری پریشانی نے بھی انہیں جکڑ لیا تھا۔ امی کی وفات کا صدمہ بھی کچھ کم نہ تھا۔ ان کا گھر اجڑ کر رہ گیا تھا۔ اوپر سے برے دوستوں نے جو لتیں انہیں لگا دی تھیں، وہ بھی ان کا خون چوس رہی تھیں۔شام ہوتی تو انہیں چکر آنے لگتے۔ نشہ نہ ملتا تو ہر ایک سے لڑتے اور الجھتے۔ محلے والوں کی نظر میں ان کی عزت اور وقار ختم ہو چکا تھا۔ محلے دار کہتے تھے کہ اس شخص کے گھر میں بن ماں کی بچیاں ہیں، اسے اب اپنا کردار درست کر لینا چاہیے۔محلے والوں کا اعتراض بھی درست تھا۔ اس اعتراض میں جو صاحب پیش پیش تھے، ان کا نام مجید احمد تھا۔ مجید صاحب پہلے میرے ابو کے اچھے دوستوں میں شمار ہوتے تھے، مگر جب ابو برے راستوں پر چل پڑے تو انہوں نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔دو چار بار ابا جان کو سمجھایا بھی، مگر انہیں تو دولت اور نشے کا نشہ تھا۔ وہ کسی کی بات نہ سنتے تھے، الٹا مجید صاحب سے الجھ پڑے۔ کہہ دیا، میں اچھا برا خوب سمجھتا ہوں، مجھے نصیحتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ آئندہ اس بارے میں مجھ سے کچھ مت کہنا۔اس تلخ کلامی کے بعد مجید صاحب نے ابو سے قطع تعلق کر لیا۔ اب محلے بھر میں جو لوگ ابو کے مخالف تھے، مجید صاحب ان کے سرکردہ لیڈر بن چکے تھے۔ وہی اپنے گھر میں محلے والوں کو اکٹھا کرتے اور کہتے کہ وقار صاحب کو اب اس محلے سے نکال دینا چاہیے کیونکہ ان کا اخلاق خراب ہو چکا ہے اور اس کا محلے پر برا اثر پڑتا ہے۔ہم اگر کرائے کے مکان میں رہ رہے ہوتے تو یقیناً اس روز کی جھک جھک اور بک بک سے مکان چھوڑ دیتے، مگر یہ گھر ہمارا ذاتی تھا۔ ہم اسے چھوڑ کر کہیں اور کیسے جاتے؟ ابو نے یہ مکان اچھے دنوں میں بہت شوق اور لگن سے بنوایا تھا۔انہی دنوں، جب ابو کے خلاف سارا محلہ متحد ہو چکا تھا، وہ بیمار پڑ گئے۔ ان کے پھیپھڑوں پر نشے نے برا اثر ڈالا تھا۔ انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا، مگر ان کے پھیپھڑے بری طرح متاثر ہو چکے تھے۔ وہ جانبر نہ ہو سکے، اور امی کے انتقال کے پانچویں سال وہ بھی ہمیں اس دنیا میں ٹھوکریں کھانے کو تنہا چھوڑ گئے۔ان دنوں میں بی اے پاس کر چکی تھی، کوثر ایف اے کے دوسرے سال میں تھی اور کلثوم میٹرک کر رہی تھی۔ ہم تینوں بہنیں تنہا رہ گئیں۔ امی فوت ہوئیں تو باپ کا آسرا تھا۔ اب ایسا لگتا تھا جیسے سر پر چھت بھی باقی نہ رہی ہو۔کچھ دن ہم روتے پیٹتے رہے، مگر کب تک؟ جب کہ روزمرہ کا خرچ بھی پورا نہ تھا۔ ہم زیادہ دیر تک سوگ کیسے مناتے؟ دال روٹی کی فکر تھی۔ ابو نے ہمارے لیے صرف ایک مکان چھوڑا تھا جس میں ہم رہ رہی تھیں۔ باقی جو کچھ تھا، وہ رفتہ رفتہ بکتا گیا، اور آخر کار کچھ بھی باقی نہ بچا۔یوں ابو جان بھی ہمیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔
اب سب سے بڑا مسئلہ میرے لیے نوکری کی تلاش تھا کیونکہ اب میں ہی اپنے کنبے کی سربراہ تھی۔ صبح سویرے ڈگریوں والا لفافہ ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ کر گھر سے نکلتی۔ دفتروں کی خاک چھان کر دوپہر کے بعد مایوس چہرے کے ساتھ گھر واپس آجاتی۔ نہ کوئی جان پہچان تھی نہ سفارش، اور اس کے بغیر نوکری ملنا تقریباً ناممکن تھا۔ ادھر گھر کا یہ حال تھا کہ ایک وقت کا چولہا جلانا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ کچھ دن دور نزدیک کے رشتے داروں نے ساتھ دیا، پھر انہوں نے بھی ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا۔ایک روز میں ڈگریوں والا لفافہ ہاتھ میں لیے، مایوس اور تھکے قدموں سے گھر لوٹ رہی تھی کہ محلے کے ایک اوباش نوجوان نے مجھ پر فقرے کسے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں، کہ برے آدمی کے منہ نہیں لگنا چاہیے، مگر اس روز میرا دل بہت دکھی ہوا۔ بھوک سے پیٹ میں ویسے ہی مروڑ اٹھ رہے تھے، اس بدتمیز شخص کے الفاظ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہنے لگے اور میں روتی ہوئی گھر آ گئی۔کوثر نے پہلا سوال یہی کیا، باجی! نوکری مل گئی؟ اس نے میرے چہرے کی طرف بعد میں دیکھا، جو آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ تب بجائے تسلی دینے کے، وہ بھی رونے لگی۔ اس کو روتا دیکھ کر کلثوم نے بھی رونا شروع کر دیا۔اگلے دن پھر وہی نوجوان مجھے راستے میں ملا۔ اس نے دوبارہ بدتمیزی کی۔ میں برداشت نہ کر سکی اور اس سے الجھ پڑی۔ ابھی میں اسے برا بھلا کہہ رہی تھی کہ سامنے سے مجید صاحب آتے دکھائی دیے۔ انہوں نے اس لڑکے کی حرکت دیکھ لی تھی۔ وہ قریب آئے تو مجھے روتے ہوئے پایا۔ یہ دیکھ کر ان کو بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے اس اوباش لڑکے کو سختی سے ڈانٹا اور دھمکایا، اگر آئندہ تم نے محلے کی شریف بچیوں کو تنگ کیا تو پولیس کے حوالے کر دوں گا۔چونکہ اس دن شہزاد کی کافی بے عزتی ہوئی تھی، اس لیے وہ ہمارا دشمن بن گیا۔ اب وہ روز اپنے جیسے دوچار اوباش نوجوانوں کے ساتھ ہماری گلی میں آجاتا۔ وہ جانتے تھے کہ ہم تینوں بہنیں تنہا رہتی ہیں اور روزانہ باہر نکلتی ہیں — میں نوکری کی تلاش میں اور کوثر و کلثوم تعلیم کے لیے۔ انہوں نے ہمارے گھر سے نکلنے کے اوقات نوٹ کر لیے اور باقاعدہ ہمارا پیچھا کرنے لگے۔ وہ کبھی کبھی ہمارے گھر پر پتھر بھی پھینک دیتے۔ یہ سب ہم کہاں تک برداشت کرتے؟آخرکار میں نے پڑوس میں شکایت کی۔ ہمارے برابر میں خواجہ صاحب رہتے تھے، جن کی بیوی کبھی کبھار ہماری خبرگیری کیا کرتی تھیں۔ خواجہ صاحب نے مجید صاحب کو بلا کر ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔اگلے روز جمعہ تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ ہم گھر پر ہی تھیں۔ دیکھا تو مجید صاحب کھڑے تھے۔ میں نے کہا، چچا جان! اندر آ جائیں۔ وہ اندر آئے، ہمارا حال احوال پوچھا تو ہم ضبط نہ کر سکیں اور رونے لگے۔ ان کو بہت قلق ہوا۔ وہ بولے:بٹیا! جو ہوا، اللہ کی مرضی تھی، یہی تم لوگوں کی تقدیر تھی۔ تمہارے والد صاحب میرے اچھے دوست تھے، چاہے بعد میں تعلقات خراب ہو گئے ہوں۔ اب تم میری بیٹیاں ہو۔ میں تمہارے ہر دکھ درد میں شریک ہوں۔ مجھے اپنا باپ سمجھو۔ جو ضرورت ہو، بلا جھجک کہنا۔انہوں نے کچھ رقم بھی دی اور کہا کہ یہ تمہارے والد صاحب نے مجھے بطور قرض دی تھی۔ میں سمجھ گئی کہ وہ ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں۔ والد صاحب نے اگر واقعی قرض دیا ہوتا تو برے دنوں میں ضرور واپس لے لیتے۔ ہمیں سخت ضرورت تھی، اس لیے رقم رکھ لی۔اس دن مجھے یوں لگا جیسے ابو جان مجید چچا کے روپ میں لوٹ آئے ہوں۔ اب وہ روز ہمارے گھر آتے، ہماری ضروریات پوچھتے۔ میری نوکری کے لیے انہوں نے کوششیں شروع کر دیں۔ صبح ان کی گاڑی کوثر اور کلثوم کو کالج چھوڑنے جاتی اور چھٹی کے وقت واپس لاتی تاکہ محلے کے لڑکے انہیں تنگ نہ کریں۔کچھ دن امن رہا، پھر محلے میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ لوگ انکل مجید کی ہمدردی کو غلط رنگ دینے لگے۔ کہا جانے لگا کہ یہ یتیم بچیوں سے ان کا غیر معمولی لگاؤ مشکوک ہے۔ ان چہ میگوئیوں کو شہزاد اور اس کے ساتھیوں نے مزید ہوا دی۔انکل مجید نے پروا نہ کی کیونکہ ان کی نیت صاف تھی۔ انہوں نے کبھی صفائی پیش نہ کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب لوگ کھلم کھلا ہمارے اور انکل مجید کے خلاف بولنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک دن محلے والے ان کے گھر کے باہر جمع ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ یا تو ان لڑکیوں کو محلے سے نکالو یا تم خود چلے جاؤ۔ آخر کیوں تم ہی ان کے مسائل میں دلچسپی لے رہے ہو؟انکل مجید کو بہت دکھ ہوا۔ وہ بولے:اگر میں اپنے مرحوم دوست کی بیٹیوں کی مدد کر رہا ہوں تو یہ میرا فرض ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کی مدد نہ کرے تاکہ یہ برے راستے پر چل پڑیں؟ آپ لوگ بہتان تراشی کے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔مگر کسی کی بات سننے کو کوئی تیار نہ تھا۔ مردوں نے باہر اور عورتوں نے اندر انکل کی بیوی کو بھی بدگمان کر دیا۔ ان کے گھر جھگڑا ہونے لگا۔ ان دنوں میرا ایک انٹرویو تھا اور انکل مجھے لے کر گئے۔ واپسی پر محلے کے غنڈے پہلے سے تاک میں تھے۔ انہوں نے گاڑی پر پتھراؤ کیا۔ شیشہ ٹوٹا، انکل زخمی ہو گئے، مجھے بھی چوٹ آ سکتی تھی مگر میں بچ گئی۔انکل کا بیٹا خالد اس وقت کوہاٹ میں فوجی ٹریننگ پر تھا۔ اسے اطلاع ملی تو وہ فوراً آیا۔ انکل نے اسے ساری صورتحال بتائی تو خالد نے کہا:ابو! اگر آپ واقعی ان بچیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو ان میں سے کسی ایک کو بہو بنا لیں۔ سب کی زبانیں بند ہو جائیں گی۔انکل نے کہا: یہ لڑکیاں بالکل شریف ہیں۔ میری اپنی بیٹیوں جیسی ہیں۔انکل نے محلے والوں کو جمع کر کے اعلان کیا کہ ان کی منگنی اپنے بیٹے خالد سے کر رہے ہیں، تاکہ کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ محلے والے مطمئن ہو گئے اور کہنے لگے:اب سمجھ آیا! اگر پہلے بتا دیتے تو ہم شک نہ کرتے۔یوں خالد کی منگنی کوثر سے طے پائی کیونکہ وہ اس کے ہم عمر تھی۔ میری شادی بعد میں انکل نے اپنے ایک دوست کے بیٹے سے کر دی۔ کلثوم نے میڈیکل جوائن کرنے کی خواہش ظاہر کی، انکل نے اس کا داخلہ کرا دیا۔ آج وہ ڈاکٹر ہے۔آج میں سوچتی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں یتیم اور بے سہارا لڑکیوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اگر ہمیں انکل مجید جیسے نیک دل انسان کا سہارا نہ ملا ہوتا، تو نہ جانے ہماری زندگی کا انجام کیا ہوتا۔